• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5- بَاب أَفْضَلِ النِّسَاءِ
۵-باب: بہترین عورت کا بیان​

1855- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <إِنَّمَا الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَلَيْسَ مِنْ مَتَاعِ الدُّنْيَا شَيْئٌ أَفْضَلَ مِنَ الْمَرْأَةِ الصَّالِحَةِ >۔
* تخريج: م/الرضاع ۱۷ (۱۴۶۷)، ن/النکاح ۱۵ (۳۲۳۴)، (تحفۃ الأشراف:۸۸۴۹)، حم (۲/۱۶۸) (صحیح)

۱۸۵۵- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' دنیا متاع (سامان) ہے، اور دنیا کے سامانوں میں سے کوئی بھی چیز نیک اور صالح عورت سے بہتر نہیں ہے '' ۔​

1856- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ سَمُرَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ ثَوْبَانَ؛ قَالَ: لَمَّا نَزَلَ فِي الْفِضَّةِ وَالذَّهَبِ مَا نَزَلَ، قَالُوا: فَأَيَّ الْمَالِ نَتَّخِذُ؟ قَالَ عُمَرُ: فَأَنَا أَعْلَمُ لَكُمْ ذَلِكَ، فَأَوْضَعَ عَلَى بَعِيرِهِ، فَأَدْرَكَ النَّبِيَّ ﷺ وَأَنَا فِي أَثَرِهِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيَّ الْمَالِ نَتَّخِذُ؟ فَقَالَ: < لِيَتَّخِذْ أَحَدُكُمْ قَلْبًا شَاكِرًا، وَلِسَانًا ذَاكِرًا، وَزَوْجَةً مُؤْمِنَةً، تُعِينُ أَحَدَكُمْ عَلَى أَمْرِ الآخِرَةِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۸۴، ومصباح الزجاجۃ: ۶۵۸)، وقد أخرجہ: ت/تفسیرالقرآن ۱۰ (۳۰۹۴)، حم (۵/۲۷۸،۲۸۲) (صحیح)

۱۸۵۶- ثو بان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سونے اور چا ندی کے بارے میں آیت اتری تولو گ کہنے لگے کہ اب کون سامال ہم اپنے لیے رکھیں؟عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں اسے تمہارے لئے معلوم کرکے کر آتا ہوں،اور اپنے اونٹ پر سوار ہوکر اسے تیز دوڑایا اور نبی اکرمﷺ کے پاس پہنچے،میں بھی آپ کے پیچھے تھا، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کو ن سا مال رکھیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ''تم میں ہر کو ئی شکر کرنے والا دل،ذکر کرنے والی زبان، اور ایمان والی بیوی رکھے جو اس کی آخرت کے کاموں میں مدد کرے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : عورت کی مدد آخرت کے کام میں یہ ہے کی آدمی ا س کی وجہ سے گناہوں اور بد نظری سے بچتا ہے ،اور گھر کے تمام کام عورت کرلیتی ہے مرد کو عبادت کی فرصت ملتی ہے ،اگر عورت نہ ہو اور یہ کام خود کرے تو عبادت کی فرصت مشکل سے ملے گی، بعض عورتیں خود نیک اور دیندار ہوتی ہیں، ان کی صحبت کے اثر سے مرد بھی زاہد اور عابد ہو جاتا ہے، بعض عورتیں اپنے شوہر کو تہجدکی صلاۃ کے لئے جگاتی ہیں۔​

1857- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي الْعَاتِكَةِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ،أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: < مَا اسْتَفَادَ الْمُؤْمِنُ بَعْدَ تَقْوَى اللَّهِ خَيْرًا لَهُ مِنْ زَوْجَةٍ صَالِحَةٍ،إِنْ أَمَرَهَا أَطَاعَتْهُ، وَإِنْ نَظَرَ إِلَيْهَا سَرَّتْهُ، وَإِنْ أَقْسَمَ عَلَيْهَا أَبَرَّتْهُ، وَإِنْ غَابَ عَنْهَا نَصَحَتْهُ فِي نَفْسِهَا وَمَالِهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۱۹، ومصباح الزجاجۃ: ۶۵۹) (ضعیف)

(سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہے)
۱۸۵۷- ابو اما مہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے: '' تقویٰ کے بعد مومن نے جو سب سے اچھی چیزحاصل کی وہ ایسی نیک بیوی ہے کہ اگر شوہر اسے حکم دے تو اسے مانے، اور اگر اس کی جانب دیکھے تو وہ اسے خو ش کردے، اور اگر وہ اس (کے بھروسے)پر قسم کھا لے تو اسے سچا کر دکھائے، اور اگر وہ موجود نہ ہو تو عورت اپنی ذات اور اس کے مال میں اس کی خیر خواہی کرے '' ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6- بَاب تَزْوِيجِ ذَوَاتِ الدِّينِ
۶-باب: نیک اور دین دار عورت سے شادی کرنے کا بیان​

1858- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < تُنْكَحُ النِّسَاءُ لأَرْبَعٍ لِمَالِهَا، وَلِحَسَبِهَا، وَلِجَمَالِهَا، وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ، تَرِبَتْ يَدَاكَ >۔
* تخريج: خ/النکاح ۱۵ (۵۰۹۰)، م/الرضاع ۱۵ (۱۴۶۶)، د/النکاح ۲ (۲۰۴۷)، ن/النکاح ۱۳ (۳۲۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۰۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۲۸)، دي/النکاح ۴ (۲۲۱۶) (صحیح)

۱۸۵۸- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' عورتوں سے چار چیزوں کی وجہ سے شادی کی جاتی ہے، ان کے مال و دولت کی وجہ سے، ان کے حسب ونسب کی وجہ سے ،ان کے حسن و جمال اور خوبصورتی کی وجہ سے،اور ان کی دین داری کی وجہ سے، لہٰذا تم دین دارعورت کا انتخاب کرکے کامیاب بنو ۱؎ ،تمہارے ہاتھ خا ک آلود ہوں'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی دینداری اور تقویٰ و پرہیز گاری کو سب پر مقدم رکھو او رجس عورت میں یہ صفت ہوا سی سے نکاح کروکیونکہ مال ودولت کا اعتبار نہیں ہے،اگر ہے بھی تو عمر بھر شوہر کو طعنہ دیا کرے گی اور ا سے اپنا غلام سمجھے گی، حسب نسب بغیر عمدہ عادات وخصائل کے کس کام کے ؟ بلکہ اور خرابی ہے کہ برے کام کرے گی اور اپنی خاندانی شرافت پر مغرور رہے گی، کبھی شوہر کو حقیر سمجھے گی، رہا حسن وجمال وہ ایک دن کے بخار میں رفوچکرہوجاتا ہے، دوسرے چند روز کے بعد کیسی عورت ہواس کی قدر جاتی رہتی ہے اب اگر اس میں تقویٰ اور پرہیز گاری نہ ہو تو شوہر کی جان کے لیے مصیبت ہوگی سارے محلہ والے شوہر کے دشمن ہو جائیں گے اور عورت کو طرح طرح سے بھڑکائیں گے، تو بہر حال دینداری سب پر مقدم ٹھہری، دیندار عورت سے راحت ہوگی ،گووہ مفلس ہو،خاندانی حسب ونسب والی نہ ہو، کیونکہ وہ شوہر کے حقوق سمجھے گی اور اللہ تعالی سے ڈرے گی، البتہ اگر دینداری کے ساتھ ان صفات میں سے بھی کوئی صفت ہو تو نورعلی نور،ان خوبیوں والی عورت کو اختیار کرے۔
وضاحت ۲؎ : ''تیرے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں'' سے بد دعا مرادنہیں ہے بلکہ اس سے نیک عورت کے لیے جدوجہد اور سعی وکوشش پر ابھارنا اوربرانگیختہ کرنا مقصود ہے ۔​

1859- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ الْمُحَارِبيُّ وَجَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنِ الإِفْرِيقِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <لاتَزَوَّجُوا النِّسَاءَ لِحُسْنِهِنَّ، فَعَسَى حُسْنُهُنَّ أَنْ يُرْدِيَهُنَّ، وَلا تَزَوَّجُوهُنَّ لأَمْوَالِهِنَّ، فَعَسَى أَمْوَالُهُنَّ أَنْ تُطْغِيَهُنَّ، وَلَكِنْ تَزَوَّجُوهُنَّ عَلَى الدِّينِ، وَلأَمَةٌ خَرْمَاءُ سَوْدَاءُ ذَاتُ دِينٍ أَفْضَلُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۸۸۶۸ ، ومصباح الزجاجۃ: ۶۶۰) (ضعیف جدا)

(سند میں عبد الرحمن بن زیاد بن انعم افریقی ضعیف ہیں، نیزملاحظہ ہو: الضعیفہ : ۱۰۶۰)
۱۸۵۹- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' عورتوں سے صرف ان کے حسن وجمال کو دیکھ کر شادی نہ کرو، ہو سکتا ہے حسن وجمال ہی ان کو تباہ وبرباد کردے، اورعورتوں سے ان کے مال ودولت کو دیکھ کر شادی نہ کرو، ہوسکتا ہے ان کے مال ان کو سرکش بنادیں،بلکہ ان کی دین داری کی وجہ سے ان سے شادی کرو،ایک کان کٹی کالی لونڈی جو دین دار ہوزیادہ بہترہے ''۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
7- بَاب تَزْوِيجِ الأَبْكَارِ
۷-باب: کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان​

1860- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَلَقِيتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < أَتَزَوَّجْتَ يَا جَابِرُ >! قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: <أَبِكْرًا أَوْ ثَيِّبًا > قُلْتُ: ثَيِّبًا، قَالَ: < فَهَلا بِكْرًا، تُلاعِبُهَا > قُلْتُ: كُنَّ لِي أَخَوَاتٌ فَخَشِيتُ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُنَّ، قَالَ: < فَذَاكَ إِذَنْ >۔
* تخريج: م/الرضاع ۱۶ (۷۱۵)، ن/النکاح ۶ (۳۲۲۱)، ۱۰ (۳۲۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۳۶)، وقد أخرجہ: خ/البیوع ۳۴ (۲۰۹۷)، الوکالۃ ۸ (۲۴۰۹)، الجہاد ۱۱۳ (۲۹۶۷)، المغازي ۱۸ (۴۰۵۲)، النکاح ۱۰ (۵۰۷۹)، ۱۲۱ (۵۲۴۵)، ۱۲۲ (۵۲۴۷)، النفقات ۱۲ (۵۳۶۷)،الدعوات ۵۳ (۶۳۸۷)، د/النکاح ۳ (۲۰۴۸)، ت/النکاح ۱۳ (۱۱۰۰)، حم (۳/۲۹۴، ۳۰۲، ۳۰۸، ۳۱۴، ۳۶۲، ۳۶۹، ۳۷۴، ۳۷۶)، دي/النکاح ۳۲ (۲۲۶۲) (صحیح)

۱۸۶۰- جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کے زمانہ میں ایک عورت سے شادی کی ، پھر میں رسول اللہﷺ سے ملا ،توآپ نے فرمایا: '' جا بر! کیا تم نے شادی کرلی'' ؟ میں نے کہا: جی ہاں!آپ ﷺنے پو چھا : ''کنواری سے یا غیر کنواری سے''؟ میں نے کہا:غیر کنواری سے،آپﷺ نے فرمایا : '' شادی کنواری سے کیوں نہیں کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے کودتے''؟ میں نے کہا: میری کچھ بہنیں ہیں،تو میں ڈرا کہ کہیں کنواری لڑکی آکر ان میں اور مجھ میںدوری کا سبب نہ بن جائے، آپﷺ نے فر مایا: ''اگر ایسا ہے تو ٹھیک ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : چونکہ کنواری لڑکی کو کسی اور شوہر سے سابقہ نہیں پڑا ہوتا ،جو شوہر دے وہ اسی کو بہت جانتی ہے،نیز کنواری عورتوں کی اولاد بہت ہوتی ہے اس لئے کہ ان کے رحم صاف ہوتے ہیں، ان میں بیماری نہیں ہوتی ،اگرچہ اولاد کا ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے متعلق ہے ،کبھی ثیبہ کو اولاد ہوتی ہے کنواری کو نہیں ہوتی ۔​

1861- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ التَّيْمِيُّ، حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَالِمِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ الأَنْصَارِيُّ، عَنْ أَبِيهِ،عَنْ جَدِّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < عَلَيْكُمْ بِالأَبْكَارِ، فَإِنَّهُنَّ أَعْذَبُ أَفْوَاهًا، وَأَنْتَقُ أَرْحَامًا، وَأَرْضَى بِالْيَسِيرِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۵۶ )، ومصباح الزجاجۃ: ۶۶۱) (حسن)

(سند میں عبد الرحمن بن سالم مجہول ہے، لیکن جابر رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے )
۱۸۶۱- عویم بن ساعدہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' کنواری لڑکیوں سے شادی کیا کرو ، کیوں کہ وہ شیریں دہن ہو تی ہیں اور زیادہ بچے جننے والی ہوتی ہیں ۱؎ ،اور تھوڑے پہ راضی رہتی ہیں'' ۔
وضاحت ۱؎ : زیادہ بچے جننے کا معاملہ عورت کے خاندان سے متعلق ہوتا ہے،بعض خاندان کی عورتیں بہت بچے جنتی ہیں، اوربعض خاندان کی عورتیں اکثر بانجھ ہوتی ہیں۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
8- بَاب تَزْوِيجِ الْحَرَائِرِ وَالْوَلُودِ
۸-باب: آزاد اور جننے والی عورتوں سے شادی کرنے کا بیان​


1862- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ سُلَيْمٍ،عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ مُزَاحِمٍ؛ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: <مَنْ أَرَادَ أَنْ يَلْقَى اللَّهَ طَاهِرًا مُطَهَّرًا،فَلْيَتَزَوَّجِ الْحَرَائِرَ >۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۱، ومصباح الزجاجۃ: ۶۶۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۲۵،۴۹۳) (ضعیف) (سند میں کثیر بن سلیم اور سلام بن سوار ضعیف ہیں)
۱۸۶۲- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : ’’ جس کو اللہ تعالی سے پاک صاف ہو کر ملنے کا ارادہ ہے تو چاہئیے کہ وہ آزاد عورتوں سے شادی کرے ‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ آزاد عورتیں بہ نسبت لونڈیوں کے زیادہ لطیف اور پاکیزہ ہوتی ہیں، اورممکن ہے کہ مطلب یہ ہو جو کوئی آزاد عورتوں سے نکاح کرے گا، اس کی نگاہ اجنبی عورتوں کے طرف نہ اٹھے گی، پس وہ اکثر گناہوں سے بچا رہے گا۔


1863- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ الْمَخْزُومِيُّ، عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ <انْكِحُوا فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمْ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۸۱، ومصباح الزجاجۃ: ۶۶۳) (صحیح)
(سندمیں طلحہ بن عمرو مکی ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء : ۱۷۸۴و الضعیفہ : ۲۹۶۰، صحیح أبی داود : ۱۷۸۹)
۱۸۶۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم شادی کرو،اس لئے کہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے فخر کروں گا ‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جب نکاح کروگے تو اولاد ہوگی اور میری امت زیادہ ہوگی،مؤلف نے انس رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان نہیں کی جس کو احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے کہ شوہر سے محبت کرنے والی عورت سے نکاح کرو، جو بہت جننے والی ہو اس لئے کہ میں دوسرے انبیاء پر قیامت کے دن تمہاری کثرت پر فخر کروں گا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
9- بَاب النَّظَرِ إِلَى الْمَرْأَةِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا
۹-باب: جس عورت سے شادی کرنی ہو اس کو دیکھنے کا بیان​


1864- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَمِّهِ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ قَالَ: خَطَبْتُ امْرَأَةً، فَجَعَلْتُ أَتَخَبَّأُ لَهَا، حَتَّى نَظَرْتُ إِلَيْهَا فِي نَخْلٍ لَهَا، فَقِيلَ لَهُ: أَتَفْعَلُ هَذَا وَأَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ؟ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " إِذَا أَلْقَى اللَّهُ فِي قَلْبِ امْرِئٍ خِطْبَةَ امْرَأَةٍ، فَلا بَأْسَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَيْهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۲۸، ومصباح الزجاجۃ: ۶۶۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۹۳، ۴/۲۲۵) (صحیح)
(سند میں حجاج بن أرطاہ ضعیف اور مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے ، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحہ : ۹۸)۔
۱۸۶۴- محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت کو شادی کا پیغام دیا تو میں اسے دیکھنے کے لئے چھپنے لگا ، یہاں تک کہ میں نے اسے اسی کے باغ میں دیکھ لیا، لوگوں نے ان سے کہا: آپ ایسا کرتے ہیں جب کہ آپ صحابی رسول ہیں ؟تو انہوں نے کہاکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فر ماتے سناہے:''جب اللہ کسی مرد کے دل میں کسی عورت کو نکاح کا پیغام دینے کا خیال پیداکرے، تو اس عورت کو دیکھنے میں کو ئی حرج نہیں ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ یہ ضرورت کے وقت دیکھنا ہے، اور ضرورت کے وقت ایسا کرنا جائز ہے جیسے قاضی اور گواہ کا عورت کو دیکھنا صحیح اور جائز ہے، اسی طرح طبیب کوعلاج کے لئے اس مقام کو دیکھنا درست ہے جہاں دیکھنے کی ضرورت ہو ، اہل حدیث ، شافعی ، ابو حنیفہ ، احمد اور اکثر اہل علم کا مذہب یہی ہے کہ جس عورت سے نکاح کرنا مقصود ہو اس کا دیکھنا جائزہے، اور امام مالک کہتے ہیں کہ یہ عورت کی اجازت سے صحیح ہے، بغیر اس کی اجازت کے صحیح نہیں، اور ایک روایت ان سے یہ ہے کہ صحیح نہیں ہے، اس باب میں ایک یہ حدیث ہے، دوسری مغیرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو آگے آرہی ہے، تیسری ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جو صحیح مسلم میں ہے کہ ا یک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آکرکہا: میں نے ایک انصاری عورت سے نکاح کا ارادہ کیا ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا : '' تم نے اس کو دیکھا تھا '' ؟ وہ بولا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ جا ؤ اس کو دیکھ لو، اس لئے کہ انصارکی عورتوں کی آنکھوں میں کچھ عیب ہوتا ہے، آپ ﷺ نے جو فرمایا ویسا ہی ہوا، اور اس عورت سے خوب موافقت رہی۔


1865- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلالُ، وَزُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ ثابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ أَرَادَ أَنْ يَتَزَوَّجَ امْرَأَةً، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ: < اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا، فَإِنَّهُ أَحْرَى أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَكُمَا >، فَفَعَلَ فَتَزَوَّجَهَا فَذَكَرَ مِنْ مُوَافَقَتِهَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۴۹۰، ومصباح الزجاجۃ: ۶۶۵)، وقد أخرجہ: ت/النکاح ۵ (۱۰۸۷)، ن/النکاح ۱۷ (۳۲۳۷)، حم (۴/۲۴۵، ۲۴۶)، دي/النکاح ۵ (۲۲۱۸) (صحیح)
۱۸۶۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ایک عورت سے نکاح کرنا چاہا، تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا: ''جائو اور اس کو دیکھ لو ایسا کرنے سے زیادہ امید ہے کہ تم دونوں کے درمیان الفت و محبت ہو'' ، مغیرہ رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا،اور پھرشادی کی، پھر انہوں نے اس سے اپنی باہمی موافقت اور ہم آہنگی کا ذکرکیا۔


1866- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي الرَّبِيعِ، أَنْبَأَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الْمُزَنِيِّ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ؛ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ، فَذَكَرْتُ لَهُ امْرَأَةً أَخْطُبُهَا فَقَالَ: < اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا، فَإِنَّهُ أَجْدَرُ أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَكُمَا > فَأَتَيْتُ امْرَأَةً مِنَ الأَنْصَارِ، فَخَطَبْتُهَا إِلَى أَبَوَيْهَا، وَأَخْبَرْتُهُمَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ، فَكَأَنَّهُمَا كَرِهَا ذَلِكَ، قَالَ: فَسَمِعَتْ ذَلِكَ الْمَرْأَةُ وَهِيَ فِي خِدْرِهَا، فَقَالَتْ: إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَمَرَكَ أَنْ تَنْظُرَ، فَانْظُرْ، وَإِلا فَأَنْشُدُكَ، كَأَنَّهَا أَعْظَمَتْ ذَلِكَ، قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَيْهَا فَتَزَوَّجْتُهَا، فَذَكَرَ مِنْ مُوَافَقَتِهَا۔
* تخريج: ت/النکاح ۵ (۱۰۸۷)، ن/النکاح ۱۷(۳۲۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۸۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۴۴، دي/النکاح ۵ (۲۲۱۸) (صحیح)
۱۸۶۶- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اورمیں نے آپ سے ذکر کیا کہ میں ایک عورت کو پیغام دے رہا ہو ں، آپ ﷺنے فرمایا : ''جا ئو اسے دیکھ لو، اس سے تم دونوں میں محبت زیادہ ہو نے کی امید ہے''، چنانچہ میں ایک انصاری عورت کے پاس آیا، اور اس کے ماں باپ کے ذریعہ سے اسے پیغام دیا، اور نبی اکرم ﷺ کا فرمان سنایا، لیکن ایسا معلوم ہوا کہ ان کو یہ بات پسند نہیں آئی، اس عورت نے پردہ سے یہ بات سنی تو کہا: اگر رسول اللہﷺنے دیکھنے کا حکم دیا ہے، تو تم دیکھ لو، ورنہ میں تم کو اللہ کا واسطہ دلاتی ہوں،گویا کہ اس نے اس چیز کو بہت بڑا سمجھا، مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے اس عورت کو دیکھا، اور اس سے شادی کرلی، پھرانہوں نے اپنی باہمی موافقت اور ہم آہنگی کا حال بتایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
10- بَاب لا يَخْطُبِ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ
۱۰-باب: مسلمان بھائی کے شادی کے پیغام پر پیغام نہ دے​


1867- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَسَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا يَخْطُبِ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ >۔
* تخريج: خ/البیوع ۵۸ (۲۱۴۰)، الشروط ۸ (۲۷۲۳)، النکاح ۴۵ (۵۱۴۲)، م/النکاح ۶ (۱۴۱۳)، د/النکاح ۱۸ (۲۰۸۰)، ت/النکاح ۳۸ (۱۱۳۴)، ن/النکاح ۲۰ (۳۲۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲۳)، وقد أخرجہ: ط/النکاح ۱ (۱)، حم(۲/۲۳۸، ۲۷۴، ۳۱۱، ۳۱۸، ۳۹۴، ۴۱۱، ۴۲۷، ۴۵۷، ۴۶۲، ۴۶۳، ۴۸۷، ۴۸۹، ۵۵۸، دي/النکاح ۷ (۲۲۲۱) (صحیح)
۱۸۶۷- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : '' کو ئی شخص اپنے بھائی کے پیغام پہ پیغام نہ دے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ایک مسلمان کی جب کسی جگہ نسبت طے ہو نے لگے اور دونوں طرف سے رغبت کا اظہار ہو نے لگ جائے تو کسی اور کے لیے شادی کا پیغام دینا جائزنہیں کیونکہ اس سے دوسرے مسلمان کی حق تلفی ہوتی ہے، اور اگر ابھی دونوں طرف سے رغبت کا اظہار نہیں ہواہے تو پیغام دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔


1868- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا يَخْطُبِ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ >۔
* تخريج: م/النکاح ۶ (۱۴۱۲)، البیوع ۸ (۱۴۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۸۱۸۵)، وقد أخرجہ: خ/النکاح ۴۵ (۵۱۴۲)، د/النکاح ۱۸ (۲۰۸۱)، ت/البیوع ۵۷ (۱۱۳۴)، ن/النکاح ۲۰ (۳۲۳۸)، ط/النکاح ۱ (۲)، البیوع ۴۵ (۴۵)، حم (۲/۱۲۲، ۱۲۴، ۱۲۶، ۱۳۰، ۱۴۲، ۱۵۳)، دي/النکاح ۷ (۲۲۲۲)، البیوع ۳۳ (۲۶۰۹) (صحیح)
۱۸۶۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' کو ئی شخص اپنے بھا ئی کے پیغام پر پیغام نہ دے''۔


1869- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ بْنِ صُخَيْرٍ الْعَدَوِيِّ؛ قَالَ: سَمِعْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ تَقُولُ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي > فَآذَنَتْهُ، فَخَطَبَهَا مُعَاوِيَةُ، وَأَبُو الْجَهْمِ بْنُ صُخَيْرٍ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَمَّا مُعَاوِيَةُ فَرَجُلٌ تَرِبٌ، لا مَالَ لَهُ، وَأَمَّا أَبُوالْجَهْمِ فَرَجُلٌ ضَرَّابٌ لِلنِّسَاءِ، وَلَكِنْ أُسَامَةُ > فَقَالَتْ بِيَدِهَا هَكَذَا: أُسَامَةُ، أُسَامَةُ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < طَاعَةُ اللَّهِ وَطَاعَةُ رَسُولِهِ خَيْرٌ لَكِ > قَالَتْ: فَتَزَوَّجْتُهُ فَاغْتَبَطْتُ بِهِ۔
* تخريج: م/الطلاق ۶ (۱۴۸۰)، ت/النکاح ۳۷ (۱۱۳۵) ن/النکاح ۸ (۳۲۲۴)، الطلاق ۷۳ (۳۵۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۳۷)، وقد أخرجہ: د/الطلاق ۳۹ (۲۸۸۴)، ط/الطلاق ۲۳ (۶۷)، حم (۶/۴۱۴، ۴۱۵)، دي/النکاح ۷ (۲۲۲۳) (صحیح)
۱۸۶۹- فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ''جب تمہاری عدت گزر جا ئے تو مجھے خبر دینا ''، آخر انہوں نے آپﷺ کو خبر دی، تو انہیں معاو یہ ابو لجہم بن صخیر اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم نے شادی کا پیغام دیا،تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : ''رہے معاویہ تو وہ مفلس آدمی ہیں ان کے پاس مال نہیں ہے، اور رہے ابو جہم تو وہ عورتوں کو بہت مارتے پیٹتے ہیں، لیکن اسامہ بہتر ہیں '' یہ سن کر فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ہاتھ سے اشارہ کیا: اور کہا :اسامہ اسامہ (یعنی اپنی بے رغبتی ظاہر کی)آ پﷺ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ''اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننا تمہارے لیے بہتر ہے ''، فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: آخر میں نے اسامہ سے شادی کرلی، تو دوسری عورتیں مجھ پر رشک کر نے لگیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس روایت سے معلوم ہواکہ جسے پیغام دیا گیا اگر اس کی طرف سے ابھی موافقت کا اظہار نہیں ہواہے تو دوسرے کے لیے پیغام دینا جائز ہے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صلاح ومشورہ دینے میں کسی کا حقیقی اور واقعی عیب بیان کر نا جائزہے تاکہ مشورہ لینے والا دھوکہ نہ کھائے ،یہ غیبت میں داخل نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
11- بَاب اسْتِئْمَارِ الْبِكْرِ وَالثَّيِّبِ
۱۱-باب: کنواری اور غیر کنواری دونوں سے شادی کی اجازت لینے کا بیان​


1870- حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى السُّدِّيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنسٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ الْهَاشِمِيِّ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < الأَيِّمُ أَوْلَى بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ تُسْتَأْمَرُ فِي نَفْسِهَا > قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ الْبِكْرَ تَسْتَحْيِي أَنْ تَتَكَلَّمَ، قَالَ: < إِذْنُهَا سُكُوتُهَا >۔
* تخريج: م/النکاح ۹ (۱۴۲۱)، د/النکاح ۲۶ (۲۰۹۸)، ت/النکاح ۱۷ (۱۱۰۸)، ن/النکاح ۳۱ (۳۲۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۱۷)، وقد أخرجہ: ط/النکاح ۲ (۳)، حم (۱/۲۱۹، ۲۴۲، ۲۷۴، ۳۵۴، ۳۶۲)، دي/النکاح ۱۳ (۲۲۳۴) (صحیح)
۱۸۷۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''غیر کنواری عورت اپنے آپ پر اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے، اور کنواری عورت سے نکاح کے سلسلے میں اجازت طلب کی جائے گی ''، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کنواری بولنے سے شرم کرے گی تو آ پ ﷺنے فرمایا: '' اس کی خاموشی اس کی اجازت ہے '' ۔


1871- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: < لاتُنْكَحُ الثَّيِّبُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلا الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ، وَإِذْنُهَا الصُّمُوتُ >۔
* تخريج: م/النکاح ۹ (۱۴۱۹)، ت/النکاح ۱۷ (۱۱۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۸۴)، وقد أخرجہ: خ/النکاح ۴۲ (۵۱۳۶)، الحیل ۱۱ (۶۹۶۸، ۶۹۷۰)، ن/النکاح ۳۳ (۳۲۶۷)، حم (۲/۲۲۱، ۲۵۰، ۴۲۵، ۴۳۴، دي/النکاح ۱۳ (۲۲۳۲) (صحیح)
۱۸۷۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' غیر کنواری عورت کا نکاح اس کی واضح اجازت کے بغیر نہ کیا جائے، اور کنواری کا نکاح بھی اس سے اجازت لے کر کیا جائے، اور کنواری کی اجازت اس کی خاموشی ہے ''۔


1872- حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ الْمِصْرِيُّ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ عَدِيٍّ الْكِنْدِيِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < الثَّيِّبُ تُعْرِبُ عَنْ نَفْسِهَا، وَالْبِكْرُ رِضَاهَا صَمْتُهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۸۲، ومصباح الزجاجۃ: ۶۶۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۹۲) (صحیح)
(عدی کندی کا اپنے والد عدی بن عمرہ سے سماع نہیں ہے، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے )
۱۸۷۲- عدی کندی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : '' غیر کنواری عورت اپنی رضا مندی صراحۃً ظاہر کرے، اور کنواری کی رضا مندی اس کی خا موشی ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ثیّبہ کا چپ ہوجانا کافی نہیں بلکہ زبان سے ہوں یا ہاں کہنا چاہئے، مراد یہاں کنواری اور ثیبہ سے وہ لڑکی ہے جو جوان اور بالغ ہوگئی ہو،لیکن جو نابالغ ہو اس سے اجازت لینا ضروری نہیں بلکہ ولی کی اجازت کافی ہے،جیسے ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا نبی اکرم ﷺ سے نکاح کردیا تھا، اس وقت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر صرف چھ برس کی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
12- بَاب مَنْ زَوَّجَ ابْنَتَهُ وَهِيَ كَارِهَةٌ
۱۲-باب: باپ بیٹی کا نکا ح اس کی رضامندی کے بغیر کردے تو اس کے حکم کا بیان​


1873- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَهُ: أَنَّ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ، وَمُجَمِّعَ بْنَ يَزِيدَ الأَنْصَارِيَّيْنِ أَخْبَرَاهُ: أَنَّ رَجُلا مِنْهُمْ يُدْعَى خِذَامًا أَنْكَحَ ابْنَةً لَهُ، فَكَرِهَتْ نِكَاحَ أَبِيهَا، فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، فَذَكَرَتْ لَهُ فَرَدَّ عَلَيْهَا نِكَاحَ أَبِيهَا، فَنَكَحَتْ أَبَا لُبَابَةَ بْنَ عَبْدِالْمُنْذِرِ، وَذَكَرَ يَحْيَى أَنَّهَا كَانَتْ ثَيِّبًا۔
* تخريج: خ/النکاح ۴۲ (۵۱۳۸، ۵۱۳۹)، الإکراہ ۳ (۱۹۴۵)، الحیل ۱۱ (۶۹۶۹)، د/النکاح ۲۶ (۲۱۰۱)، ن/النکاح ۳۵ (۳۲۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۲۴)، وقد أخرجہ: ط/النکاح ۱۴ (۲۵)، حم (۶/۳۲۸)، دي /النکاح ۴ ۱ (۳۲۳۷) (صحیح)
۱۸۷۳- عبدا لرحمن بن یزید انصاری اور مجمع بن یزید انصاری رضی اللہ عنہما خبر دیتے ہیں کہ خذام نامی ایک شخص نے اپنی بیٹی (خنساء) کا نکاح کر دیا، اس نے اپنے باپ کا کیا ہوا نکاح نا پسندکیا، وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی، اور آپﷺ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے اس کے والد کا کیا ہوا نکاح فسخ کر دیا ،پھر اس نے ابو لبابہ بن عبدالمنذررضی اللہ عنہ سے شادی کی۔
یحییٰ بن سعید نے ذکر کیا کہ وہ ثیبہ( غیر کنواری) تھی۔


1874- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ:جَاءَتْ فَتَاةٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَتْ: إِنَّ أَبِي زَوَّجَنِي ابْنَ أَخِيهِ لِيَرْفَعَ بِي خَسِيسَتَهُ، قَالَ: فَجَعَلَ الأَمْرَ إِلَيْهَا، فَقَالَتْ: قَدْ أَجَزْتُ مَا صَنَعَ أَبِي وَلَكِنْ أَرَدْتُ أَنْ تَعْلَمَ النِّسَاءُ أَنْ لَيْسَ إِلَى الآبَاءِ مِنَ الأَمْرِ شَيْئٌ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۹۷، ومصباح الزجاجۃ: ۶۶۸) (ضعیف شاذ)
(غایۃ المرام: ۲۱۷)۔
۱۸۷۴- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک نوجوان عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی عرض کیا: میرے والد نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے کردیا ہے، تاکہ میری وجہ سے اس کی ذلت ختم ہو جا ئے، نبی اکرم ﷺ نے اس عورت کو اختیار دے دیا، تو اس نے کہا: میرے والد نے جو کیا میں نے اسے مان لیا، لیکن میرا مقصد یہ تھا کہ عورتوں کو یہ معلوم ہو جا ئے کہ ان کے باپوں کو ان پر (جبراًنکاح کردینے کا)اختیار نہیں پہنچتا ۔


1875- حَدَّثَنَا أَبُو السَّقْرِ يَحْيَى بْنُ يَزْدَادَ الْعَسْكَرِيُّ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَرُوذِيُّ، حَدَّثَنِي جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ جَارِيَةً بِكْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ، فَذَكَرَتْ لَهُ أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ، فَخَيَّرَهَا النَّبِيُّ ﷺ.
* تخريج: د/النکاح ۲۵ (۲۰۹۶،۲۰۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۰۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۷۳) (صحیح)
۱۸۷۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی، اور اس نے عرض کیا: اس کے والد نے اس کا نکا ح کر دیا حالانکہ وہ راضی نہیں ہے، تو نبی اکرم ﷺ نے اسے اختیار دیا۔
1875/أ - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّقِّيُّ، عَنْ زَيْدِ ابْنِ حِبَّانَ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ۔
۱۸۷۵/أ- اس سند سے بھی ا بن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
13- بَاب نِكَاحِ الصِّغَارِ يُزَوِّجُهُنَّ الآبَاءُ
۱۳-باب: باپ نابالغ بچیوں کا نکاح کر سکتاہے​


1876- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَأَنَا بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، فَنَزَلْنَا فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، فَوُعِكْتُ، فَتَمَرَّقَ شَعَرِي حَتَّى وَفَى لَهُ جُمَيْمَةٌ، فَأَتَتْنِي أُمِّي أُمُّ رُومَانَ ؛ وَإِنِّي لَفِي أُرْجُوحَةٍ وَمَعِي صَوَاحِبَاتٌ لِي، فَصَرَخَتْ بِي، فَأَتَيْتُهَا وَمَا أَدْرِي مَا تُرِيدُ، فَأَخَذَتْ بِيَدِي فَأَوْقَفَتْنِي عَلَى بَابِ الدَّارِ، وَإِنِّي لأَنْهَجُ حَتَّى سَكَنَ بَعْضُ نَفَسِي، ثُمَّ أَخَذَتْ شَيْئًا مِنْ مَائٍ فَمَسَحَتْ بِهِ عَلَى وَجْهِي وَرَأْسِي، ثُمَّ أَدْخَلَتْنِي الدَّارَ، فَإِذَا نِسْوَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ فِي بَيْتٍ فَقُلْنَ: عَلَى الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ، وَعَلَى خَيْرِ طَائِرٍ، فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِنَّ، فَأَصْلَحْنَ مِنْ شَأْنِي، فَلَمْ يَرُعْنِي إِلا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ضُحًى، فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ۔
* تخريج: خ/النکاح ۳۸ (۵۱۳۳)، ۳۹ (۵۱۳۴)، ۵۹ (۵۱۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۰۶)، وقد أخرجہ: م/النکاح ۱۰ (۱۴۲۲)، د/النکاح ۳۴ (۲۱۲۱)، ن/النکاح ۲۹ (۳۲۵۷)، حم (۶/۱۱۸)، دي/النکاح ۵۶ (۲۳۰۷) (صحیح)
۱۸۷۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے شادی کی تو اس وقت میری عمر چھ سال کی تھی، پھر ہم مدینہ آئے تو بنو حارث بن خزرج کے محلہ میں اترے،مجھے بخا ر آگیا اور میرے بال جھڑ گئے، پھربال بڑھ کرمونڈھوں تک پہنچ گئے، تو میری ماں ام رومان میرے پاس آئیں، میں ایک جھولے میں تھی ، میرے ساتھ میری کئی سہیلیاں تھیں،ماں نے مجھے آوازادی، میں ان کے پاس گئی، مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا چاہتی ہیں ؟آخر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑکرگھر کے دروازہ پر لاکھڑاکیا، اس وقت میرا سانس پھول رہا تھا، یہاں تک کہ میں کچھ پرسکون ہوگئی، پھر میری ماں نے تھوڑا سا پانی لے کراس سے میرا منھ دھویا اور سر پونچھا، پھر مجھے گھر میں لے گئیں، وہاں ایک کمرہ میں انصارکی کچھ عورتیں تھیں،انہوں نے دعا دیتے ہوئے کہا : ''تم خیر وبرکت اور بہتر نصیب کے ساتھ جیو''، میری ماں نے مجھے ان عورتوں کے سپرد کردیا،انہوں نے مجھے آراستہ کیا،میں کسی بات سے خوف زدہ نہیں ہوئی مگر اس وقت جب رسول اللہ ﷺ چاشت کے وقت اچانک تشریف لائے، اور ان عورتوں نے مجھے آپ کے حوالہ کر دیا،اس وقت میری عمر نو سال تھی۔


1877- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: تَزَوَّجَ النَّبِيُّ ﷺ عَائِشَةَ وَهِيَ بِنْتُ سَبْعٍ، وَبَنَى بِهَا وَهِيَ بِنْتُ تِسْعٍ، وَتُوُفِّيَ عَنْهَا وَهِيَ بِنْتُ ثَمَانِي عَشْرَةَ سَنَةً۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۲۰، ومصباح الزجاجۃ: ۶۶۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۳۰) (صحیح)

(سند میں ابو عبیدہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن حدیث دوسرے طریق سے صحیح ہے، نیزملاحظہ ہو : الإرواء : ۶ /۲۳۰)
۱۸۷۷- عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا، اس وقت ان کی عمر سات برس تھی، اور ان کے ساتھ خلوت کی توان کی عمر نو سال تھی، اور آپ ﷺکا انتقال ہواتواس وقت ان کی عمر اٹھا رہ سال تھی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے فضائل ومناقب بے شمار ہیں، اور وہ آپﷺ کی تمام بیویوں میں خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کے بعد سب سے افضل ہیں ، اور بعضوں نے خدیجہ الکبری سے بھی ان کو افضل کہا ہے، غرض وہ آپ ﷺ کی خاص چہیتی تھیں اور آپ کی بیویوں میں صرف وہی کنواری تھیں ، اور اس کم سنی میں آپ رضی اللہ عنہا کا یہ حال تھا کہ علم وفضل ،قوت حافظہ اور عقل ودانش میں بڑی بوڑھی عورتوں سے سبقت لے گئی تھیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
14- بَاب نِكَاحِ الصِّغَارِ يُزَوِّجُهُنَّ غَيْرُ الآبَاءِ
۱۴-باب: نابالغ لڑکی کا نکاح باپ کے علاوہ کوئی اور کرائے تو اس کے حکم کا بیان​


1878- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ، حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ حِينَ هَلَكَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ تَرَكَ ابْنَةً لَهُ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَزَوَّجَنِيهَا خَالِي قُدَامَةُ، وَهُوَ عَمُّهَا، وَلَمْ يُشَاوِرْهَا، وَذَلِكَ بَعْدَ مَا هَلَكَ أَبُوهَا فَكَرِهَتْ نِكَاحَهُ، وَأَحَبَّتِ الْجَارِيَةُ أَنْ يُزَوِّجَهَا الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، فَزَوَّجَهَا إِيَّاهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۵۲، ومصباح الزجاجۃ: ۶۷۰)، ورواہ أحمد (۲/۱۳۰، والدار قطنی فيسننہ و البیہقی في سننہ ۷/۱۱۳، من طریق عمربن حسین، عن نافع عن ابن عمر، وأخرجہ: الحاکم۲/۱۶و البیہقی ۷/۱۲۱) (حسن)
(اس کی سند میں عبد اللہ بن نافع ضعیف ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے حدیث حسن ہے، کما فی التخریج )
۱۸۷۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا ،تو انہوں نے ایک بیٹی چھوڑی، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری شادی اس لڑ کی سے میرے ماموں قدامہ رضی اللہ عنہ نے کرادی جواس لڑکی کے چچا تھے، اور اس سے مشورہ نہیں لیا، یہ اس وقت کا ذکر ہے جب اس کے والد کا انتقال ہو چکا تھا، اس لڑکی نے یہ نکاح نا پسندکیا، اور اس نے چاہا کہ اس کا نکاح مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے کر دیا جائے، آخر قدامہ رضی اللہ عنہ نے اس کا نکاح مغیرہ ہی سے کر دیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : شاید عثمان رضی اللہ عنہ کی بیٹی جوان ہوگی، اور جوان لڑکی کا نکاح بغیر اس کی اجازت کے نافذ نہیں ہوتا، حنفیہ کا یہ مذہب ہے کہ نابالغ لڑکی کا نکاح اگر باپ دادا کے سوا اور کوئی ولی کر دے تو وہ درست اور جائز ہوگا، لیکن لڑکی کو بلوغت کے بعد فسخ نکاح کا اختیار ہے، اگر وہ اس نکاح سے ناراض ہوتو وہ فسخ نکاح کرسکتی ہے۔
 
Top