- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
15- بَاب لا نِكَاحَ إِلا بِوَلِيٍّ
۱۵-باب: بغیر ولی کے نکاح جائز نہ ہونے کا بیان ۱؎
وضاحت ۱؎ : ولی : جمہورعلماء کے نزدیک وہ ہے جوعصبات میں عورت کے سب سے زیادہ قریب ہو ، اورامام ابوحنیفہ کے نزدیک عصبہ کی غیرموجودگی میں ذوی الأرحام جیسے ماموں، نانا وغیرہ بھی ولی ہیں۔1879- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ ابْنِ مُوسَى، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَيُّمَا امْرَأَةٍ لَمْ يُنْكِحْهَا الْوَلِيُّ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَإِنْ أَصَابَهَا فَلَهَا مَهْرُهَا بِمَا أَصَابَ مِنْهَا، فَإِنِ اشْتَجَرُوا، فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لاوَلِيَّ لَهُ >۔
* تخريج: د/النکاح ۲۰ (۲۰۸۳، ۲۰۸۴۸)، ت/النکاح ۱۴ (۱۱۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۴۶۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۶۶، ۱۶۶،۲۶۰)، دي/النکاح ۱۱(۲۲۳۰) (صحیح)
۱۸۷۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’جس عورت کا نکاح اس کے ولی نے نہ کیا ہو، تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے، اگر مرد نے ایسی عورت سے جماع کر لیا تواس جماع کے عوض عورت کے لیے اس کا مہر ہے، اور اگر ولی اختلاف کریں ۱؎ توحاکم اس کا ولی ہوگاجس کا کو ئی ولی نہیں ‘‘ ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ نکاح کے لئے ولی کا ہونا ضروری ہے خواہ عورت بالغ ہو یا نابالغ یہی ائمہ حدیث کا مذہب ہے۔
شاہ ولی اللہ دہلوی حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں کہ ولی کی شرط نکاح میں اس لیے رکھی گئی ہے کہ اگر عورت اپنا نکاح خود سے کرلے تو یہ ایک قبیح حرکت ہے ،جس کی بنیاد بے شرمی اور ولی کی حق تلفی اور اس کو خاطرمیں نہ لاناہے ، دوسرے یہ کہ نکاح اور زنا میں فرق وامتیاز نکاح کومشتہرکرکے ضروری ہے ،اور اس کا بہتر چرچا اور اس کی شہرت کا ذریعہ عورت کے اولیاء کی شادی میں حاضری ہے ،تیسرے یہ کہ عورتیں ناقص العقل ہوتی ہیں اس لیے ان کو نکاح کا اختیارنہیں ہونا چاہئے اس لیے کہ اکثر مصلحت تک ان کی پہنچ نہیں ہو پاتی اورحسب ونسب کی حفاظت نہیں کرسکتیں تو احتمال ہے کہ برے آدمی یا غیر کفوکے ساتھ نکاح کرلیں، تو نتیجۃً اس کے خاندان کو عار لاحق ہوگی اس لیے اس برائی کے سد باب کے لیے ضروری ہوا کہ عورت کی شادی کے مسئلے میں ولی بھی ذمہ دار قراردیاجائے ۔
امام شافعی کہتے ہیں کہ نکاح صرف قریبی ولی کی زبان سے منعقدہوتاہے ، اگرقریب کا ولی نہ ہو تو دورکے ولی سے اور اگروہ بھی نہ ہو تو بادشاہ کے ذریعہ تواگرکسی عورت نے اپنا نکاح خودکرلیا یا کسی کا نکاح کرادیا گرچہ ولی کی اجازت سے یا بغیر اس کی اجازت کے تو بھی نکاح باطل ہوگا۔
ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ آزاد عاقل بالغ عورت کی مرضی سے ہو نے والا نکاح بغیر ولی کے عقد کے ہوجائے گا، خواہ وہ کنواری ہو یا ثیبہ (غیرکنواری)
اور حدیث ’’ لا نكاح إلا بولي‘‘ کا یہ مطلب کہ ایساکرنا کفو میں کمی کے ڈرسے یا اس سے اس کو بے شرمی سے منسوب کیا جائے گا ، مکروہ ہے یا کفو نہ ہو نے کی صورت میں ولی کو اعتراض کا حق ہوگا ، تو ’’ لاتنكح ‘‘ کا معنی یہ ہوگا کہ ولی کے اذن کے بغیر اس کو نکاح کا مستقل طور پرحق نہ ہوگا اس لیے کہ کفو نہ ہونے کی صورت میں ولی کو اعتراض کاحق ہوگا۔امام محمد کہتے ہیں کہ نکاح کا انعقاد ولی کی اجازت پر موقوف ہے ۔
قرآن میں ہے:{فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىَ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ } [ سورة البقرة:230] آیت سے یہ نہیں نکلتاکہ بغیرولی کے نکاح صحیح ہے ، بلکہ آیت میں نکاح کی نسبت عورت کی طرف کی ہے ،اوریہ حدیث کے خلاف نہیں ۔
حنفیہ دوسری حدیث ’’الأیم أحق بنفسہا‘‘ (ثیبہ اپنے نفس کی اپنے ولی سے زیادہ حق دار ہے) سے استدلا ل کرتے ہیں ، لیکن اس سے بھی استدلال صحیح نہیں ہے اس لیے کہ حق دار ہونے سے یہاں مراد یہ ہے کہ ولی ایسی عورت کا نکاح جبراً نہیں کرسکتا۔
حدیث میں ہے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنا نکاح نبی اکرم ﷺسے آپ کرلیا تھا اورکہا تھا کہ میرے اولیاء میں سے کوئی حاضرنہیں ہے ، اس کا جواب یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺخود دین ودنیا دونوں کے سردار اور سارے مسلمان مردوں اورعورتوں کے ولی تھے ،آپ کا خود ارشادہے : ’’أنا ولي من لا ولي لہ‘‘ ( جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کا ولی میں ہوں) تو یہ نکاح بغیر ولی کہاں ہوا ۔نیز اس نکاح کو اور نکاحوں پر قیاس نہیں کیا جاسکتا کہ نکاح کے باب میں کئی چیزیں نبی اکرمﷺکے ساتھ خاص تھیں، شاید یہ بھی اسی خاص چیزوں میں ہو ،دوسری یہ کہ نبی اکرمﷺکے ساتھ نکاح کرنا باعث فخر اورسعادت دارین ہے ،اس میں ولی کی کیا ضرورت ہے، اسی لیے جب ام سلمہ نے یہ کہا کہ میرا کوئی ولی حاضرنہیں ہے تو آپ نے فرمایا: تمہارے اولیاء (سرپرستوں) میں کوئی ایسانہیں ہے جومیرے نکاح کرنے سے ناراض ہو ۔
خلاصہ یہ کہ ولی کے بغیر نکاح کرنے میں بہت سارے معاشرتی مفاسد اورنقصانات ہیں ، اور برصغیر کے نئے ماحول میں اس مسئلے پر مزید غوروخوض کی ضرورت ہے ۔ سیدھی بات یہ بات اس صحیح ترین حدیث پر بلا تاویل عمل کیاجائے تو اس سے عورتوں کے وقار اوران کے عزت واحترام کوبڑھانے میں مدد ملے گی ۔
1880- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، و عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا نِكَاحَ إِلا بِوَلِيٍّ وَفِي حَدِيثِ عَائِشَةَ: وَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لا وَلِيَّ لَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۴۶۲، ومصباح الزجاجۃ: ۶۷۱)، وقد أخرجہ: د/النکاح ۲۰ (۲۰۸۳)، ت/النکاح ۱۴ (۱۱۰۲)، حم (۶/۶۶، ۱۶۶، ۲۶۰، دي/النکاح ۱۱ (۲۲۳۰) (صحیح)
(حجاج بن ارطاہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز حجاج کا عکرمہ سے سماع نہیں بھی ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ۶/ ۲۳۸- ۲۴۷)
۱۸۸۰- ام المومنین عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے‘‘۔
اور ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے : ’’ جس کا کو ئی ولی نہ ہو، اس کا ولی حاکم ہے‘‘۔
1881- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <لانِكَاحَ إِلا بِوَلِيٍّ>۔
* تخريج: د/النکاح ۲۰ (۲۰۸۵)، ت/النکاح ۱۴ (۱۱۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۱۳، ۴۱۸،۳۹۴)، دي/النکاح ۱۱ (۲۲۲۹) (صحیح)
۱۸۸۱- ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ولی کے بغیر نکا ح نہیں ہے‘‘۔
1882- حَدَّثَنَا جَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ الْعُقَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ ابْنُ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا، فَإِنَّ الزَّانِيَةَ هِيَ الَّتِي تُزَوِّجُ نَفْسَهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۴، ومصباح الزجاجۃ: ۶۷۲) (صحیح)
(الزانیہ کے جملہ کے علاوہ حدیث صحیح ہے ، نیز ملا حظہ ہو : الإروا ء : ۱۸۴۱)۔
۱۸۸۲- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ عورت عورت کا نکاح نہ کرائے، اور نہ عورت خود اپنا نکاح کرے،پس بدکار وہی عورت ہے جو اپنا نکاح خود کرتی ہے ‘‘ ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : یعنی بازاری عورتیں جو ہوتی ہیں وہ بھی تو ایک مقررہ مال کے عوض ایک عقد کرتی ہیں، لیکن اس کو نکاح نہیں کہتے اس لئے کہ عورت کے اولیاء حاضر نہیں ہوتے ،خود عورت اپنے آپ معاملہ طے کرلیتی ہے۔