• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
16- بَاب مَا جَاءَ فِي طَعَامِ الْمُشْرِكِينَ
۱۶-باب: کفارو مشرکین کے کھانے کا بیان​


1565- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُودَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ، أَخْبَرَنِي سِمَاكُ ابْنُ حَرْبٍ قَال: سَمِعْتُ قَبِيصَةَ بْنَ هُلْبٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ عَنْ طَعَامِ النَّصَارَى، فَقَالَ: "لاَ يَتَخَلَّجَنَّ فِي صَدْرِكَ طَعَامٌ ضَارَعْتَ فِيهِ النَّصْرَانِيَّةَ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: د/الأطعمۃ ۲۴ (۳۷۸۴)، ق/الجہاد ۲۶ (۲۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۳۴)، وحم (۵/۲۲۶) (حسن)
1565/م1- سَمِعْت مَحْمُودًا، وَقَالَ عُبَيْدُاللهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ قَبِيصَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (حسن)
1565/م2- قَالَ مَحْمُودٌ: وَقَالَ وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ مُرَيِّ بْنِ قَطَرِيٍّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ الرُّخْصَةِ فِي طَعَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۸۷۶) (حسن)
(سند میں ''مری بن قطری '' لین الحدیث ہیں ، لیکن پچھلی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث بھی حسن لغیرہ ہے)
۱۵۶۵- ہلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے نبی اکرمﷺ سے نصاریٰ کے کھانا کے بارے میں سوال کیاتوآپ نے فرمایا:''کوئی کھاناتمہارے دل میں شک نہ پیداکرے کہ اس کے سلسلہ میں نصرانیت سے تمہاری مشابہت ہوجائے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
۱۵۶۵/م۱- اس سند سے بھی ہلب رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل حدیث مروی ہے۔
۱۵۶۵/م۲- اس سند سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے بھی اس جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ اہل کتاب کے کھانے کے سلسلے میں رخصت ہے۔
وضاحت ۱؎ : چونکہ ملت اسلامیہ ملت ابراہیمی سے تعلق رکھتی ہے اس لیے کھانے سے متعلق زیادہ شک میں پڑنا اپنے آپ کو اس رہبانیت سے قریب کرنا ہے جو نصاریٰ کا دین ہے، لہذا اس سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ امام ترمذی نے اس باب میں مشرکین کے کھانے کا ذکر کیا ہے، جب کہ حدیث میں مشرکین کا سرے سے ذکرہی نہیں ہے، حدیث سے ظاہر ہوتاہے کہ امام ترمذی نے مشرکین سے اہل کتاب کو مراد لیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17-بَاب فِي كَرَاهِيَةِ التَّفْرِيقِ بَيْنَ السَّبْيِ
۱۷-باب: قیدیوں کے درمیان تفریق کرنے کی کراہت کا بیان​


1566- حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عُمَرَ الشَّيْبَانِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي حُيَيٌّ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ، يَقُولُ: "مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ وَالِدَةٍ وَوَلَدِهَا فَرَّقَ اللهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَحِبَّتِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ. وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، كَرِهُوا التَّفْرِيقَ بَيْنَ السَّبْيِ بَيْنَ الْوَالِدَةِ وَوَلَدِهَا، وَبَيْنَ الْوَلَدِ وَالْوَالِدِ، وَبَيْنَ الإِخْوَةِ. قَالَ أَبُوعِيسَى: قَدْ سَمِعْتُ البُخَارِيَّ يَقُولُ: سَمِعَ أَبُوعَبْدِالرَّحْمَنِ الْحُبُلِيُّ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۴۶۸)، وانظر: حم (۵/۴۱۳، ۴۱۴)، دي/السیر ۳۹ (حسن)
۱۵۶۶- ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سنا: ''جس نے ماں اوراس کے بچہ کے درمیان جدائی پیدا کی ، اللہ قیامت کے دن اسے اس کے دوستوں سے جداکردے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے ، ۳- اہل علم صحابہ اوردوسرے لوگوں کا اسی پرعمل ہے ، وہ لوگ قیدیوں میں ماں اوربچے کے درمیان ، باپ اوربچے کے درمیان اوربھائیوں کے درمیان جدائی کوناپسندسمجھتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18-بَاب مَا جَاءَ فِي قَتْلِ الأُسَارَى وَالْفِدَائِ
۱۸-باب: قیدیوں کے قتل کرنے اور فدیہ لے کر انہیں چھوڑنے کا بیان​


1567- حَدَّثَنَا أَبُوعُبَيْدَةَ بْنُ أَبِي السَّفَرِ وَاسْمُهُ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْهَمْدَانِيُّ الْكُوفِيُّ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُودَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّ جِبْرَائِيلَ هَبَطَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ: خَيِّرْهُمْ يَعْنِي أَصْحَابَكَ فِي أُسَارَى بَدْرٍ الْقَتْلَ أَوْ الْفِدَائَ عَلَى أَنْ يُقْتَلَ مِنْهُمْ قَابِلاً مِثْلُهُمْ"، قَالُوا الْفِدَائَ وَيُقْتَلُ مِنَّا. وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي بَرْزَةَ وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ، وَرَوَى أَبُوأُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ. وَرَوَى ابْنُ عَوْنٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً وَأَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ اسْمُهُ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۳۴) (صحیح)
۱۵۶۷- علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جبرئیل نے میرے پاس آکرکہا: اپنے ساتھیوں کو بدرکے قیدیوں کے سلسلے میں اختیاردیں،وہ چاہیں توانہیں قتل کریں ، چاہیں توفدیہ لیں، فدیہ کی صورت میں ان میں سے آئندہ سال اتنے ہی آدمی قتل کئے جائیں گے، ان لوگوں نے کہا: فدیہ لیں گے اور ہم میں سے قتل کئے جائیں ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ثوری کی روایت سے حسن غریب ہے، ہم اس کو صرف ابن ابی زائدہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲- ابواسامہ نے بسند ہشام عن ابن سیرین عن عبیدہ عن علی عن النبی ﷺ اسی جیسی حدیث روایت کی ہے ،۳- ابن عون نے بسند ابن سیرین عن عبیدہ عن النبی ﷺمرسلاً روایت کی ہے،۴- اس باب میں ابن مسعود ، انس، ابوبرزہ ، اورجبیربن مطعم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ صحابہ کی یہ دلی خواہش تھی کہ یہ قیدی مشرف بہ اسلام ہوجائیں اور مستقبل میں اپنی جان دے کر شہادت کا درجہ حاصل کرلیں۔(حدیث کی سند اور معنی دونوں پر کلام ہے؟)


1568- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ عَمِّهِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ فَدَى رَجُلَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ بِرَجُلٍ مِنْ الْمُشْرِكِينَ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَمُّ أَبِي قِلاَبَةَ هُوَ أَبُو الْمُهَلَّبِ وَاسْمُهُ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو، وَيُقَالُ مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، وَأَبُو قِلاَبَةَ اسْمُهُ عَبْدُاللهِ بْنُ زَيْدٍ الْجَرْمِيُّ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ للإِمَامِ أَنْ يَمُنَّ عَلَى مَنْ شَائَ مِنَ الأُسَارَى وَيَقْتُلَ مَنْ شَائَ مِنْهُمْ وَيَفْدِي مَنْ شَائَ، وَاخْتَارَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْقَتْلَ عَلَى الْفِدَائِ، و قَالَ الأَوْزَاعِيُّ : بَلَغَنِي أَنَّ هَذِهِ الآيَةَ مَنْسُوخَةٌ، قَوْلُهُ تَعَالَى {فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَائً} نَسَخَتْهَا {وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ}.
حَدَّثَنَا بِذَلِكَ هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ: قُلْتُ لأَحْمَدَ: إِذَا أُسِرَ الأَسِيرُ يُقْتَلُ أَوْ يُفَادَى أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: إِنْ قَدَرُوا أَنْ يُفَادُوا فَلَيْسَ بِهِ بَأْسٌ وَإِنْ قُتِلَ فَمَا أَعْلَمُ بِهِ بَأْسًا، قَالَ إِسْحَاقُ: الإِثْخَانُ أَحَبُّ إِلَيَّ إِلاَّ أَنْ يَكُونَ مَعْرُوفًا فَأَطْمَعُ بِهِ الْكَثِيرَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي فی الکبریٰ) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۸۷) (صحیح)
۱۵۶۸- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی اکرمﷺنے مشرکین کے ایک قیدی مرد کے بدلہ میں دومسلمان مردوں کو چھڑوایا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- ابوقلابہ کا نام عبداللہ بن زید جرمی ہے ،۳- اکثراہل علم صحابہ اوردوسرے لوگوں کا اسی پرعمل ہے کہ امام کو اختیار ہے کہ قیدیوں میں سے جس پر چاہے احسان کرے اورجسے چاہے قتل کرے، اورجن سے چاہے فدیہ لے ،۴- بعض اہل علم نے فدیہ کے بجائے قتل کو اختیارکیا ہے،۵- امام اوزاعی کہتے ہیں کہ مجھے یہ خبرپہنچی ہے کہ یہ آیت{فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَائً} منسوخ ہے اور آیت: {وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ} اس کے لیے ناسخ ہے،۴- اسحاق بن منصور کہتے ہیں کہ میں نے امام احمدبن حنبل سے سوال کیا: آپ کے نزدیک کیا بہترہے جب قیدی گرفتارہوتواسے قتل کیاجائے یا اس سے فدیہ لیاجائے ، انہوں نے جواب دیا، اگروہ فدیہ لے سکیں توکوئی حرج نہیں ہے اوراگرانہیں قتل کردیاجائے تو بھی میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا،۵- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک خون بہانا زیادہ بہترہے جب یہ مشہور ہو اور اکثر لوگ اس کی خواہش رکھتے ہوں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جنگی قیدیوں کا تبادلہ درست ہے، جمہور علماء کی یہی رائے ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19-بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ
۱۹-باب: عورتوں اوربچوں کے قتل کی ممانعت کا بیان​


1569- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ امْرَأَةً وُجِدَتْ فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُولِ اللهِ ﷺ مَقْتُولَةً فَأَنْكَرَ رَسُولُ اللهِ ﷺ ذَلِكَ وَنَهَى عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ. وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ وَرَبَاحٍ وَيُقَالُ رِيَاحُ بْنُ الرَّبِيعِ وَالأَسْوَدِ بْنِ سَرِيعٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَالصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ كَرِهُوا قَتْلَ النِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ، وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْبَيَاتِ وَقَتْلِ النِّسَاءِ فِيهِمْ وَالْوِلْدَانِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ، وَرَخَّصَا فِي الْبَيَاتِ.
* تخريج: خ/الجہاد ۱۴۷ (۳۰۱۴)، و۱۴۸ (۳۰۱۵)، م/الجہاد ۸ (۱۷۴۴)، د/الجہاد ۱۲۱ (۲۶۶۸)، ق/الجہاد ۳۰ (۲۸۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۶۸)، وط/الجہاد ۳ (۹)، دي/السیر ۲۵ (۲۵۰۵) (صحیح)
۱۵۶۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : رسول اللہ ﷺکے کسی غزوے میں ایک عورت مقتول پائی گئی ،تو آپ ﷺنے اس کی مذمت کی اورعورتوں وبچوں کے قتل سے منع فرمایا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں بریدہ ، رباح ، ان کو رباح بن ربیع بھی کہتے ہیں، اسود بن سریع ابن عباس اورصعب بن جثامہ سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- بعض اہل علم صحابہ اوردوسرے لوگوں کا اسی پرعمل ہے ، یہ لوگ عورتوں اوربچوں کے قتل کوحرام سمجھتے ہیں، سفیان ثوری اورشافعی کا بھی یہی قول ہے،۴- کچھ اہل علم نے رات میں ان پر چھاپہ مارنے کی اوراس میں عورتوں اوربچوں کے قتل کی رخصت دی ہے، احمداوراسحاق بن راہویہ کایہی قول ہے، ان دونوں نے رات میں چھاپہ مارنے کی رخصت دی ہے۔
وضاحت ۱؎ : عورت کے قتل کرنے کی حرمت پرسب کا اتفاق ہے، ہاں! اگر وہ شریک جنگ ہوکر لڑے تو ایسی صورت میں عورت کا قتل جائز ہے۔


1570- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَبْداللهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي الصَّعْبُ بْنُ جَثَّامَةَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ خَيْلَنَا أَوْطَأَتْ مِنْ نِسَائِ الْمُشْرِكِينَ وَأَوْلاَدِهِمْ، قَالَ: "هُمْ مِنْ آبَائِهِمْ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجہاد ۱۴۶ (۳۰۱۲)، م/الجہاد ۹ (۱۷۸۵)، د/الجہاد ۱۲۱ (۲۶۷۲)، ق/الجہاد ۳۰ (۲۸۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۹)، وحم (۴/۳۸، ۷۱، ۷۲، ۷۳) (صحیح)
۱۵۷۰- صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے گھوڑوں نے مشرکین کی عورتوں اوربچوں کو روندڈالاہے ، آپ نے فرمایا:'' وہ بھی اپنے آباواجداد کی قسم سے ہیں '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس حالت میں یہ سب اپنے بڑوں کے حکم میں تھے اور یہ مراد نہیں ہے کہ قصداً ان کا قتل کرنا مباح تھا، بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کی عورتوں اور بچوں کو پامال کئے بغیر ان کے بڑوں تک پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ بڑوں کے ساتھ مخلوط ہونے کی وجہ سے یہ سب مقتول ہوئے ، ایسی صورت میں ان کا قتل جائز ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20-باب
۲۰- باب : سابقہ باب سے متعلق ایک اورباب​


1571- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي بَعْثٍ، فَقَالَ: "إِنْ وَجَدْتُمْ فُلاَنًا وَفُلاَنًا لِرَجُلَيْنِ مِنْ قُرَيْشٍ، فَأَحْرِقُوهُمَا بِالنَّارِ"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ حِينَ أَرَدْنَا الْخُرُوجَ: "إِنِّي كُنْتُ أَمَرْتُكُمْ أَنْ تُحْرِقُوا فُلاَنًا وَفُلاَنًا بِالنَّارِ، وَإِنَّ النَّارَ لاَ يُعَذِّبُ بِهَا إِلاَّ اللهُ، فَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمَا فَاقْتُلُوهُمَا". وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَحَمْزَةَ بْنِ عَمْرٍو الأَسْلَمِيِّ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَدْ ذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بَيْنَ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ وَبَيْنَ أَبِي هُرَيْرَةَ رَجُلاً فِي هَذَا الْحَدِيثِ. وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِثْلَ رِوَايَةِ اللَّيْثِ وَحَدِيثُ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ أَشْبَهُ وَأَصَحُّ.
* تخريج: خ/الجہاد ۴۹ (۳۰۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۸۱) (صحیح)
۱۵۷۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک لشکرمیں بھیجااورفرمایا:'' اگرتم قریش کے فلاں فلاں دوآدمیوں کو پاؤتوانہیں جلا دو''، پھرجب ہم نے روانگی کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا:'' میں نے تم کو حکم دیا تھا کہ فلاں فلاں کو جلادوحالانکہ آگ سے صرف اللہ ہی عذاب دے گا اس لیے اب اگر تم ان کو پاؤ تو قتل کردو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ۲- محمدبن اسحاق نے اس حدیث میں سلیمان بن یسار اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ایک اورآدمی کا ذکرکیا ہے، کئی اور لوگوں نے لیث کی روایت کی طرح روایت کی ہے، لیث بن سعد کی حدیث زیادہ صحیح ہے،۳- اس باب میں ابن عباس اورحمزہ بن عمرواسلمی رضی اللہ عنہم سے بھی روایت ہے ۔ ۴- اہل علم کا اسی پر عمل ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21-بَاب مَا جَاءَ فِي الْغُلُولِ
۲۱-باب: مال غنیمت میں خیانت کرنے کے بارے میں وارد وعید کا بیان​


1572- حَدَّثَنِي قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُوعَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ مَاتَ وَهُوَ بَرِيئٌ مِنْ ثَلاَثٍ: الْكِبْرِ وَالْغُلُولِ وَالدَّيْنِ دَخَلَ الْجَنَّةَ ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر ما یأتي (تحفۃ الأشراف: ۲۰۸۵)، وحم (۲۷۶۵، ۲۸۲) (صحیح)
۱۵۷۲- ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو مرگیا اورتین چیزوں یعنی تکبر(گھمنڈ) ، مال غنیمت میں خیانت اورقرض سے بری رہا ، وہ جنت میں داخل ہوگا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابوہریرہ اورزید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


1573- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ ابْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الْجَسَدَ وَهُوَ بَرِيئٌ مِنْ ثَلاَثٍ: الْكَنْزِ وَالْغُلُولِ وَالدَّيْنِ دَخَلَ الْجَنَّةَ".
هَكَذَا قَالَ سَعِيدٌ: الْكَنْزُ، وَقَالَ أَبُوعَوَانَةَ فِي حَدِيثِهِ : الْكِبْرُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ مَعْدَانَ وَرِوَايَةُ سَعِيدٍ أَصَحُّ.
* تخريج: ق/الصدقات ۱۲ (۲۴۱۲)، وحم (۵/۲۸۱ (تحفۃ الأشراف: ۲۱۱۴)، (صحیح)
(الکنزکا لفظ شاذہے، دیکھئے: الصحیحۃ رقم ۲۷۸۵)
۱۵۷۳- ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:'' جس کے جسم سے روح نکلی اور وہ تین چیزوں یعنی کنز، غلول اورقرض سے بری رہا، وہ جنت میں داخل ہوگا '' ۱؎ ۔
سعید بن ابی عروبہ نے اسی طرح اپنی روایت میں ''الكنز''بیان کیا ہے اور ابوعوانہ نے اپنی روایت میں ''الكبر'' بیان کیا ہے ، اوراس میں '' عن معدان'' کا ذکرنہیں کیا ہے ، سعید کی روایت زیادہ صحیح ہے ۔
وضاحت ۱؎ :کنز : وہ خزانہ ہے جو زمین میں د فن ہو اور اس کی زکاۃ ادا نہ کی جاتی ہو۔ غلول : مال غنیمت میں خیانت کرنا۔


1574- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالصَّمَدِ بْنُ عَبْدِالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ أَبُوزُمَيْلٍ الْحَنَفِيُّ قَال: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ فُلاَنًا قَدْ اسْتُشْهِدَ، قَالَ: "كَلاَّ قَدْ رَأَيْتُهُ فِي النَّارِ بِعَبَائَةٍ قَدْ غَلَّهَا"، قَالَ: "قُمْ يَاعُمَرُ! فَنَادِ إِنَّهُ لاَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلاَّ الْمُؤْمِنُونَ ثَلاَثًا".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: م/الإیمان ۴۸ (۱۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۹۷) (صحیح)
۱۵۷۴- عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: عرض کیاگیا: اللہ کے رسول ! فلاں آدمی شہیدہوگیا، آپ نے فرمایا: ''ہرگزنہیں، میں نے اس عباء (کپڑے) کی وجہ سے اسے جہنم میں دیکھاہے جو اس نے مال غنیمت سے چرایا تھا''، آپ نے فرمایا:'' عمر! کھڑے ہوجاؤاورتین مرتبہ اعلان کردو، جنت میں مومن ہی داخل ہوں گے''۔(اورمومن آدمی خیانت نہیں کیاکرتے)امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
22-بَاب مَا جَاءَ فِي خُرُوجِ النِّسَاءِ فِي الْحَرْبِ
۲۲-باب: جنگ میں عورتوں کے جانے کا بیان​


1575- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلاَلٍ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَغْزُو بِأُمِّ سُلَيْمٍ وَنِسْوَةٍ مَعَهَا مِنَ الأَنْصَارِ يَسْقِينَ الْمَائَ وَيُدَاوِينَ الْجَرْحَى.
قَالَ أَبُوعِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الجہاد ۴۷ (۱۸۱۰)، د/الجہاد ۳۴ (۲۵۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۱)، (وانظر المعنی عند: خ/الجہاد ۶۵ (۲۸۸۰)، ومناقب الأنصار ۱۸ (۳۸۱۱)، والمغازي ۱۸ (۴۰۶۴) (صحیح)
۱۵۷۵- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺام سلیم اور ان کے ہمراہ رہنے والی انصارکی چندعورتوں کے ساتھ جہاد میں نکلتے تھے، وہ پانی پلاتی اورزخمیوں کاعلاج کرتی تھیں ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ربیع بنت معوذ سے بھی روایت ہے ۔
وضاحت ۱؎ : جہاد عورتوں پر واجب نہیں ہے، لیکن حدیث میں مذکور مصالح اور ضرورتوں کی خاطر ان کا جہاد میں شریک ہونا جائز ہے، حج مبرور ان کے لیے سب سے افضل جہاد ہے، جہاد میں انسان کو سفری صعوبتیں ،مشقتیں، تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی ہیں، مال خرچ کرنا پڑتا ہے، حج وعمرہ میں بھی ان سب مشقتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے، اس لیے عورتوں کو حج وعمرہ کا ثواب جہاد کے برابر ملتاہے، اسی بنا پر حج وعمرہ کو عورتوں کے لیے جہاد قراردیا گیا ہے گویا جہاد کا ثواب اسے حج وعمرہ اداکرنے کی صورت میں مل جاتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
23-بَاب مَا جَاءَ فِي قَبُولِ هَدَايَا الْمُشْرِكِينَ
۲۳-باب: مشرکوں کے تحفے قبول کرنے کا بیان​


1576- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ ثُوَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ كِسْرَى أَهْدَى لَهُ فَقَبِلَ وَأَنَّ الْمُلُوكَ أَهْدَوْا إِلَيْهِ فَقَبِلَ مِنْهُمْ. وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَثُوَيْرُ بْنُ أَبِي فَاخِتَةَ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ عِلاَقَةَ، وَثُوَيْرٌ يُكْنَى أَبَا جَهْمٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۰۹) (ضعیف جدا)
(سند میں ''ثویر بن علاقہ ابی فاختہ ''سخت ضعیف اور رافضی ہے)
۱۵۷۶- علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : نبی اکرمﷺ کے لیے فارس کے بادشاہ کسریٰ نے آپ کے لیے تحفہ بھیجا تو آپ نے اسے قبول کر لیا ، (کچھ)اور بادشاہوں نے آپ کے لیے تحفہ بھیجاتوآپ نے ان کے تحفے قبول کئے ۔
امام ترمذ ی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- راوی ثویر ابوفاختہ کے بیٹے ہیں، ابوفاختہ کانام سعید بن علاقہ ہے اور ثویرکی کنیت ابوجہم ہے، ۳- اس باب میں جابرسے بھی روایت ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
24-بَاب فِي كَرَاهِيَةِ هَدَايَا الْمُشْرِكِينَ
۲۴-باب: کفارو مشرکین سے ہدیہ تحفہ قبول کرنے کی کراہت کا بیان​


1577- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُودَاوُدَ، عَنْ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِاللهِ هُوَ ابْنُ الشِّخِّيرِ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ أَنَّهُ أَهْدَى لِلنَّبِيِّ ﷺ هَدِيَّةً لَهُ أَوْ نَاقَةً فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ "أَسْلَمْتَ" قَالَ: لاَ،قَالَ: "فَإِنِّي نُهِيتُ عَنْ زَبْدِ الْمُشْرِكِينَ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ إِنِّي نُهِيتُ عَنْ زَبْدِ الْمُشْرِكِينَ يَعْنِي هَدَايَاهُمْ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ كَانَ يَقْبَلُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ هَدَايَاهُمْ، وَذُكِرَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ الْكَرَاهِيَةُ، وَاحْتَمَلَ أَنْ يَكُونَ هَذَا بَعْدَ مَا كَانَ يَقْبَلُ مِنْهُمْ، ثُمَّ نَهَى عَنْ هَدَايَاهُمْ.
* تخريج: د/الخراج والإمارۃ ۳۵ (۳۰۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۱۵)، وحم (۴/۱۶۲) (حسن صحیح)
۱۵۷۷- عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: انہوں نے (اسلام لانے سے قبل) نبی اکرمﷺ کو ایک تحفہ دیا یااونٹنی ہدیہ کی، نبی اکرمﷺ نے پوچھا: کیاتم اسلام لاچکے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا:'' مجھے تومشرکوں کے تحفہ سے منع کیا گیا ہے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- نبی اکرمﷺ کے قول ''إني نهيت عن زبد المشركين'' کا مطلب یہ ہے کہ مجھے ان کے تحفوں سے منع کیا گیا ہے ، نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ مشرکوں کے تحفے قبول فرماتے تھے، جب کہ اس حدیث میں کراہت کا بیان ہے، احتمال ہے کہ یہ بعدکا عمل ہے، آپ پہلے ان کے تحفے قبول فرماتے تھے، پھرآپ نے اس سے منع فرمادیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرکین کا ہدیہ قبول نہ کرنا ہی اصل ہے، لیکن کسی خاص یا عام مصلحت کی خاطر اسے قبول کیاجاسکتا ہے، چنانچہ بعض علماء نے قبول کرنے اور نہ کرنے کی حدیثوں کے مابین تطبیق کی یہ صورت نکالی ہے کہ جو لوگ دوستی اور موالاۃ کی خاطر ہدیہ دینا چاہتے تھے آپ نے ان کے ہدیہ کو قبول نہیں کیا اور جن کے دلوں میں اسلام اور اس کے ماننے والوں کے متعلق انسیت دیکھی گئی تو ان کے ہدایا قبول کیے گئے۔ (واللہ اعلم)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
25-بَاب مَا جَاءَ فِي سَجْدَةِ الشُّكْرِ
۲۵-باب: جنگ میں فتح کی خبر سن کر سجدئہ شکر کا بیان​


1578- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُوعَاصِمٍ، حَدَّثَنَا بَكَّارُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَتَاهُ أَمْرٌ، فَسُرَّ بِهِ، فَخَرَّ لِلّهِ سَاجِدًا. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ بَكَّارِ ابْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، رَأَوْا سَجْدَةَ الشُّكْرِ وَبَكَّارُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ.
* تخريج: د/الجہاد ۱۷۴ (۲۷۷۴)، ق/الإقامۃ ۱۹۲ (۱۳۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۹۸) (حسن)
۱۵۷۸- ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:نبی اکرمﷺ کے پاس ایک خبرآئی، آپ اس سے خوش ہوئے اوراللہ کے سامنے سجدہ میں گرگئے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ،۲- ہم اس کو صرف اسی سندسے بکاربن عبدالعزیزکی روایت سے جانتے ہیں،۳- بکاربن عبدالعزیزبن ابی بکرہ مقارب الحدیث ہیں،۴- اکثراہل علم کا اسی پر عمل ہے ، وہ سجدہ شکر کودرست سمجھتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا سجدئہ شکر بجالانا صحیح روایات سے ثابت ہے، اور مسیلمہ کذاب کے قتل کی خبر سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی سجدہ میں گرگئے تھے، گویا ایسی خبر جس سے دل کو خوشی ومسرت حاصل ہو اس پرسجدہ شکر بجالانا مشروع ہے۔
 
Top