• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
36-بَاب مَا جَاءَ فِي بَيْعَةِ الْعَبْدِ
۳۶-باب: غلام کی بیعت کا بیان​


1596- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّهُ قَالَ جَاءَ عَبْدٌ، فَبَايَعَ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَلَى الْهِجْرَةِ وَلاَ يَشْعُرُ النَّبِيُّ ﷺ أَنَّهُ عَبْدٌ فَجَاءَ سَيِّدُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "بِعْنِيهِ" فَاشْتَرَاهُ بِعَبْدَيْنِ أَسْوَدَيْنِ وَلَمْ يُبَايِعْ أَحَدًا بَعْدُ حَتَّى يَسْأَلَهُ أَعَبْدٌ هُوَ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ. لاَنَعْرِفُهُ إِلاَّمِنْ حَدِيثِ أَبِي الزُّبَيْرِ.
* تخريج: تقدم في البیوع برقم ۱۵۹۱ (تحفۃ الأشراف: ۲۷۶۳) (صحیح)
۱۵۹۶- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک غلام آیا، اس نے رسول اللہ ﷺ سے ہجرت پر بیعت کی، نبی اکرمﷺ نہیں جانتے تھے کہ وہ غلام ہے ، اتنے میں اس کامالک آگیا، نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' مجھے اسے بیچ دو''، پھر آپ نے اس کو دو کالے غلام دے کر خریدلیا ، اس کے بعدآپ نے کسی سے بیعت نہیں لی جب تک اس سے یہ نہ پوچھ لیتے کہ کیاوہ غلام ہے؟ ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے ،۲- ہم اس کو صرف ابوالزبیر کی روایت سے جانتے ہیں،۳- اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ ایک غلام دو غلام کے بدلے خریدنا اور بیچنا جائز ہے، اس شرط کے ساتھ کہ یہ خرید وفروخت بصورت نقد ہو، حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیعت کے لیے آئے ہوئے شخص سے اس کی غلامی و آزادی سے متعلق پوچھ لینا ضروری ہے، کیوں کہ غلام ہونے کی صورت میں اس سے بیعت لینی صحیح نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
37-بَاب مَا جَاءَ فِي بَيْعَةِ النِّسَاءِ
۳۷-باب: عورتوں کی بیعت کا بیان​


1597- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ سَمِعَ أُمَيْمَةَ بِنْتَ رُقَيْقَةَ تَقُولُ: بَايَعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ فِي نِسْوَةٍ، فَقَالَ لَنَا: "فِيمَا اسْتَطَعْتُنَّ وَأَطَقْتُنَّ"، قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَرْحَمُ بِنَا مِنَّا بِأَنْفُسِنَا، قُلْتُ: يَارَسُولَ اللهِ! بَايِعْنَا، قَالَ سُفْيَانُ: تَعْنِي صَافِحْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّمَا قَوْلِي لِمِائَةِ امْرَأَةٍ كَقَوْلِي لامْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ نَحْوَهُ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: لاَ أَعْرِفُ لأُمَيْمَةَ بِنْتِ رُقَيْقَةَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَأُمَيْمَةُ امْرَأَةٌ أُخْرَى لَهَا حَدِيثٌ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ.
* تخريج: ن/البیعۃ ۱۸ (۴۱۸۶)، و ۲۴ (۴۱۹۵)، ق/الجہاد ۴۳ (۲۸۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۸۱)، وط/البیعۃ ۱ (۲)، وحم (۶/۳۵۷) (صحیح)
۱۵۹۷- امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں نے کئی عورتوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺسے بیعت کی ، آپ نے ہم سے فرمایا:'' اطاعت اس میں لازم ہے جوتم سے ہوسکے اورجس کی تمہیں طاقت ہو''، میں نے کہا: اللہ اوراس کے رسول ہم پر خود ہم سے زیادہ مہربان ہیں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول!ہم سے بیعت لیجئے (سفیان بن عیینہ کہتے ہیں:ان کامطلب تھامصافحہ کیجئے )، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم سوعورتوں کے لیے میراقول میرے اس قول جیسا ہے جو ایک عورت کے لیے ہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ، ہم اسے صرف محمدبن منکدرہی کی روایت سے جانتے ہیں، سفیان ثوری ، مالک بن انس اورکئی لوگوں نے محمدبن منکدرسے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں امیمہ بنت رقیقہ کی اس کے علاوہ دوسری کوئی حدیث نہیں جانتاہوں، ۳- امیمہ نام کی ایک دوسری عورت بھی ہیں جن کی رسول اللہ ﷺسے ایک حدیث آئی ہے۔ ۴-اس باب میں عائشہ ، عبداللہ بن عمراوراسماء بنت یزید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : زبان ہی سے بیعت لیناعورتوں کے لیے کافی ہے مصافحہ کی ضرورت نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
38-بَاب مَا جَاءَ فِي عِدَّةِ أَصْحَابِ بَدْرٍ
۳۸-باب : اہل بدرکی تعداد کا بیان​


1598- حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُوبكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَائِ قَالَ: كُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ أَصْحَابَ بَدْرٍ يَوْمَ بَدْرٍ كَعِدَّةِ أَصْحَابِ طَالُوتَ ثَلاَثُ مِائَةٍ وَثَلاَثَةَ عَشَرَ رَجُلاً. قَالَ : وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُهُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ.
* تخريج: خ/المغازي ۶ (۳۹۵۷، ۳۹۵۹)، ق/الجہاد ۲۵ (۲۸۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۰۸) (صحیح)
۱۵۹۸- براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ کہاکرتے تھے کہ غزوئہ بدرکے دن بدری لوگ تعداد میں طالوت کے ساتھیوں کے برابرتین سوتیرہ تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ثوری اوردوسرے لوگوں نے بھی ابواسحاق سبیعی سے اس کی روایت کی ہے،۳- اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
39-بَاب مَا جَاءَ فِي الْخُمُسِ
۳۹-باب: مال غنیمت میں اللہ ورسول کے حصے خمس نکالنے کا بیان​


1599- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا، عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ الْمُهَلَّبِيُّ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِوَفْدِ عَبْدِالْقَيْسِ: "آمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا خُمُسَ مَا غَنِمْتُمْ".
قَالَ: وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الإیمان ۴۰ (۵۳)، والعلم ۲۵ (۸۷)، والمواقیت ۲ (۵۲۳)، والزکاۃ ۱ (۱۳۹۸)، والمناقب ۵ (۳۵۱۰)، والمغازي ۶۹ (۴۳۶۹)، والأدب ۹۸ (۶۱۷۶)، وخبر الواحد ۵ (۷۲۶۶)، والتوحید ۵۶ (۷۵۵۶)، م/الإیمان ۶ (۱۷)، والأشربۃ ۶ (۱۹۹۵)، د/الأشربۃ ۷ (۳۶۹۲)، والسنۃ ۱۵ (۴۶۷۷)، ن/الإیمان ۲۵، (۵۰۳۴)، والأشربہۃ (۵۵۶۴)، و ۴۸ (۵۷۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۲۴)، وحم ۱/۱۲۸، ۲۷۴، ۲۹۱، ۳۰۴، ۳۳۴، ۳۴۰، ۳۵۲، ۳۶۱)، دي/الأشربۃ ۱۴ (۲۷۱۵۷)، ویأتي عندع المؤلف في الإیمان برقم ۲۶۱۱ (صحیح)
1599/م- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۵۹۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے وفدعبدالقیس سے فرمایا:'' میں تم لوگوں کو حکم دیتاہوں کہ مال غنیمت سے خمس (یعنی پانچواں حصہ) اداکرو، امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث میں ایک قصہ ہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۱۵۹۹/م- اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : تفصیل کے لیے دیکھئے صحیح بخاری وصحیح مسلم کتاب الایمان ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
40-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ النُّهْبَةِ
۴۰-باب: لوٹ کے مال کی کراہت کا بیان​


1600- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُوالأَحْوَصِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي سَفَرٍ، فَتَقَدَّمَ سَرْعَانُ النَّاسِ، فَتَعَجَّلُوا مِنَ الْغَنَائِمِ، فَاطَّبَخُوا وَرَسُولُ اللهِ ﷺ فِي أُخْرَى النَّاسِ، فَمَرَّ بِالْقُدُورِ، فَأَمَرَ بِهَا، فَأُكْفِئَتْ، ثُمَّ قَسَمَ بَيْنَهُمْ فَعَدَلَ بَعِيرًا بِعَشْرِ شِيَاهٍ.
1600/م- قَالَ أَبُوعِيسَى: وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبَايَةَ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِيهِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۴۹۱ (صحیح)
1600/م- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ وَهَذَا أَصَحُّ. وَعَبَايَةُ بْنُ رِفَاعَةَ سَمِعَ مِنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ الْحَكَمِ وَأَنَسٍ وَأَبِي رَيْحَانَةَ وَأَبِي الدَّرْدَائِ وَعَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي أَيُّوبَ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۴۹۱ (صحیح)
۱۶۰۰- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ ایک سفرمیں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے، جلدباز لوگ آگے بڑھے اور غنیمت سے (کھانے پکانے کی چیزیں) جلدی لیا اور(تقسیم سے پہلے اسے) پکانے لگے، رسول اللہ ﷺ ان سے پیچھے آنے والے لوگوں کے ساتھ تھے، آپ ہانڈیوں کے قریب سے گزرے توآپ نے حکم دیا اوروہ الٹ دی گئیں، پھرآپ نے ان کے درمیان مال غنیمت تقسیم کیا، آپ نے ایک اونٹ کودس بکریوں کے برابرقراردیا ۱؎ ۔
۱۶۰۰/م- امام ترمذی کہتے ہیں:۱- سفیان ثوری نے یہ حدیث بطریق: ''عن أبيه سعيد، عن عباية، عن جده رافع بن خديج'' روایت کی ہے، اس سند میں عبایہ نے اپنے باپ کے واسطے کا نہیں ذکرکیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ہم سے اس حدیث کومحمودبن غیلان نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: ہم سے وکیع نے بیان کیا ، اوروکیع سفیان سے روایت کرتے ہیں۔یہ روایت زیادہ صحیح ہے، عبایہ بن رفاعہ کاسماع ان کے دادارافع بن خدیج سے ثابت ہے،۲- اس باب میں ثعلبہ بن حکم، انس، ابوریحانہ ، أبوالدرداء، عبد الرحمن بن سمرہ ، زید بن خالد ، جابر، ابوہریرہ اورابوایوب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : تقسیم سے قبل یہ جلد باز لوگ اس مشترکہ مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے اوربکریوں کو ذبح کرکے ہانڈیاں چڑھا دیں تو رسول اللہ ﷺ نے اس لوٹے ہوئے مال کو حرام قرار دیا اور چولہے پر چڑھی ہانڈیوں کے الٹ دینے کا حکم دیا۔


1601- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ انْتَهَبَ فَلَيْسَ مِنَّا".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۷۹)، وانظر حم (۳/۱۴۰، ۱۹۷، ۳۱۲، ۳۲۳، ۳۸۰، ۳۹۵) (صحیح)
۱۶۰۱- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو لوٹ پاٹ مچائے وہ ہم میں سے نہیں ہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث انس کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کسی معصوم کے مال کو اس کی اجازت و رضامندی کے بغیر ڈاکہ زنی کرکے لینا حرام ہے، اور اگر کوئی یہ کام حلال سمجھ کر کررہا ہے تو وہ کافر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
41-بَاب مَا جَاءَ فِي التَّسْلِيمِ عَلَى أَهْلِ الْكِتَابِ
۴۱-باب: اہل کتاب کوسلام کرنے کا بیان​


1602- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "لاَتَبْدَئُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى بِالسَّلاَمِ وَإِذَا لَقِيتُمْ أَحَدَهُمْ فِي الطَّرِيقِ فَاضْطَرُّوهُمْ إِلَى أَضْيَقِهِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ وَأَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ صَاحِبِ النَّبِيِّ ﷺ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ: "لاَ تَبْدَئُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى"، قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ : إِنَّمَا مَعْنَى الْكَرَاهِيَةِ لأَنَّهُ يَكُونُ تَعْظِيمًا لَهُمْ، وَإِنَّمَا أُمِرَ الْمُسْلِمُونَ بِتَذْلِيلِهِمْ، وَكَذَلِكَ إِذَا لَقِيَ أَحَدَهُمْ فِي الطَّرِيقِ فَلاَ يَتْرُكْ الطَّرِيقَ عَلَيْهِ لأَنَّ فِيهِ تَعْظِيمًا لَهُمْ.
* تخريج: م/السلام ۴ (۲۱۶۷)، د/الأدب ۱۴۹ (۵۲۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۰)، ویأتي في الاستئذان برقم ۲۷۰۰) (صحیح)
۱۶۰۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' یہودونصاریٰ کوسلام کرنے میں پہل نہ کرو اور ان میں سے جب کسی سے تمہارا آمنا سامنا ہو جائے تواسے تنگ راستے کی جانب جانے پرمجبورکردو '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عمر،انس رضی اللہ عنہم اور ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اور حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ تم خود ان سے سلام نہ کرو ( بلکہ ان کے سلام کرنے پر صرف جواب دو)،۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: یہ اس لیے ناپسند ہے کہ پہلے سلام کرنے سے ان کی تعظیم ہوگی جب کہ مسلمانوں کو انہیں تذلیل کرنے کاحکم دیا گیا ہے، اسی طرح راستے میں آمنا سامنا ہوجانے پر ان کے لیے راستہ نہ چھوڑے کیوں کہ اس سے بھی ان کی تعظیم ہوگی (جو صحیح نہیں ہے)
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کی رو سے مسلمان کا یہود ونصاریٰ اور مجوس وغیرہ کو پہلے سلام کہنا حرام ہے، جمہور کی یہی رائے ہے۔ راستے میں آمنا سامنا ہونے پر انہیں تنگ راستے کی جانب مجبور کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ انہیں یہ احساس دلایاجائے کہ وہ چھوٹے لوگ ہیں۔ اور یہ غیر اسلامی حکومتوں میں ممکن نہیں اس لیے بقول ائمہ شر وفتنہ سے بچنے کے لیے جو محتاط طریقہ ہو اسے اپنا نا چاہیے۔


1603- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ الْيَهُودَ إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَحَدُهُمْ، فَإِنَّمَا يَقُولُ السَّامُ عَلَيْكُمْ فَقُلْ: عَلَيْكَ". قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الاستئذان ۲۲ (۶۶۵۷)، والمرتدین ۴ (۶۹۲۸)، م/السلام ۴ (۲۱۶۴)، د/الأدب ۱۴۹ (۵۲۰۶)، ن/عمل الیوم واللیلۃ ۱۳۴ (۱۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۷۱۲۸)، وط/السلام ۲ (۳)، وحم (۲/۱۹)، ودي/الاستئذان ۷ (۲۶۷۷) (صحیح)
۱۶۰۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' یہود میں سے کوئی جب تم لوگوں کوسلام کرتا ہے تووہ کہتا ہے : السام علیک (یعنی تم پرموت ہو)، اس لیے تم جواب میں صرف'' علیک'' کہو (یعنی تم پر موت ہو)''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
42-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْمُقَامِ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِينَ
۴۲-باب: کفارومشرکین کے درمیان رہنے کی کراہت کا بیان​


1604- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِيَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِاللهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ بَعَثَ سَرِيَّةً إِلَى خَثْعَمٍ، فَاعْتَصَمَ نَاسٌ بِالسُّجُودِ فَأَسْرَعَ فِيهِم الْقَتْلَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ ﷺ فَأَمَرَ لَهُمْ بِنِصْفِ الْعَقْلِ وَقَالَ: "أَنَا بَرِيئٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ يُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِينَ"، قَالُوا: يَارَسُولَ اللهِ! وَلِمَ قَالَ: "لاَتَرَايَا نَارَاهُمَا".
* تخريج: د/الجہاد ۱۰۵ (۲۶۴۵)، ن/القسامۃ ۲۶ (۴۷۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۲۷) (صحیح)
(متابعات کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے ، ورنہ اس کا مرسل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے ، دیکھئے : الارواء :رقم ۱۲۰۷)
۱۶۰۴- جریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ ﷺنے قبیلہء خثعم کی طرف ایک سریہ روانہ کیا، (کافروں کے درمیان رہنے والے مسلمانوں میں سے ) کچھ لوگوں نے سجدہ کے ذریعہ پناہ چاہی، پھر بھی انہیں قتل کرنے میں جلدی کی گئی، نبی اکرمﷺ کو اس کی خبرملی تو آپ نے ان کو آدھی دیت دینے کا حکم دیااورفرمایا:'' میں ہراس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتاہے ''، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول ! آخرکیوں؟ آپ نے فرمایا:'' (مسلمان کو کافروں سے اتنی دوری پر سکونت پذیر ہوناچاہئے کہ) وہ دونوں ایک دوسرے (کے کھانا پکانے) کی آگ نہ دیکھ سکیں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ جب مسلمان کفار کے درمیان مقیم ہوں اور مجاہدین کے ہاتھوں ان کا قتل ہوجائے تو مجاہدین پر اس کا کوئی گناہ نہیں، اور'' دونوں ایک دوسرے کی آگ نہ دیکھ سکیں'' کا مطلب یہ ہے کہ حالات کے تقاضے کے مطابق مشرکین کے گھروں اور علاقوں سے ہجرت کرنا ضروری ہے کیونکہ اسلام اورکفر ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔آدھی دیت کا حکم اس لیے دیا کیونکہ باقی آدھی کفارکے ساتھ رہنے کی وجہ سے بطور سزا ساقط ہوگئی۔


1605- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ مِثْلَ حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ جَرِيرٍ وَهَذَا أَصَحُّ. وَفِي الْبَاب عَنْ سَمُرَةَ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: وَأَكْثَرُ أَصْحَابِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ بَعَثَ سَرِيَّةً وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ جَرِيرٍ، وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ جَرِيرٍ مِثْلَ حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ، قَالَ: وسَمِعْتُ مُحَمَّدًا يَقُولُ: الصَّحِيحُ حَدِيثُ قَيْسٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلٌ، وَرَوَى سَمُرَةُ بْنُ جُنْدَبٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَ تُسَاكِنُوا الْمُشْرِكِينَ وَلاَ تُجَامِعُوهُمْ فَمَنْ سَاكَنَهُمْ أَوْ جَامَعَهُمْ فَهُوَ مِثْلُهُمْ".
* تخريج: ن/القسامۃ ۲۶ (۴۷۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۳۳) (صحیح)
۱۶۰۵- عبدہ نے یہ حدیث بطریق: ''إسماعيل بن أبي خلد، عن قيس بن أبي حازم، عن النبي ﷺ'' (مرسلاً) ابومعاویہ کے مثل حدیث روایت کی ہے ، اس میں انہوں (عبدہ) نے جریرکے واسطے کا ذکرنہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ روایت زیادہ صحیح ہے،۲ - اسماعیل بن ابی خالدکے اکثرشاگرداسماعیل کے واسطہ سے قیس بن ابی حازم سے(مرسلاً) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ روانہ کیا، ان لوگوں نے اس میں جریر کے واسطے کا ذکر نہیں کیا،اور حماد بن سلمہ نے بطریق: ''الحجاج بن أرطاة، عن إسماعيل بن أبي خالد، عن قيس بن أبي حازم، عن جرير بن عبد الله '' (مرفوعا) ابومعاویہ کے مثل اس کی روایت کی ہے ،۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا :صحیح یہ ہے کہ قیس کی حدیث نبی اکرمﷺ سے مرسل ہے ، نیز سمرہ بن جندب نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا:'' مشرکوں کے ساتھ نہ رہو اور نہ ان کی ہم نشینی اختیارکرو،جوان کے ساتھ رہے گا یاان کی ہم نشینی اختیارکرے گا وہ بھی انھیں میں سے مانا جائے گا ،۳- اس باب میں سمرہ سے بھی روایت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
43- بَاب مَا جَاءَ فِي إِخْرَاجِ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ
۴۳-باب: یہود ونصاریٰ کوجزیرہ عرب سے باہر نکالنے کا بیان​


1606- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "لَئِنْ عِشْتُ إِنْ شَائَ اللهُ لأُخْرِجَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ".
* تخريج: م/الجہاد ۲۱ (۱۷۶۷)، د/الخراج والإمارۃ ۲۸ (۳۰۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۱۹)، وحم (۱/۳۲) (صحیح)
۱۶۰۶- عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اگرمیں زندہ رہاتو ان شاء اللہ جزیرہ عرب سے یہودونصاریٰ کو نکال باہرکردوں گا '' ۱؎ ۔
وضاحتـ ۱؎ : جزیرہ عرب وہ حصہ ہے جسے بحر ہند ، بحر ِ احمر، بحرشام ودجلہ اور فرات نے احاطہ کررکھا ہے، یا طول کے لحاظ سے عدن ابین کے درمیان سے لے کر اطراف شام تک کا علاقہ اور عرض کے اعتبار سے جدہ سے لے کر آبادی عراق کے اطراف تک کا علاقہ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرمﷺ کی خواہش تھی کہ جزیرہ ٔعرب سے کافروں اور یہودو نصاری کو باہر نکال دیں ، آپ کی زندگی میں اس پر پوری طرح عمل نہ کیاجاسکا، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں آپ ﷺ کی اس خواہش کو کہ عرب میں دودین نہ رہیں یہودیوں اور عیسائیوں کو جزیرہ عرب سے جلاوطن کردیا۔


1607- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا أَبُوعَاصِمٍ وَعَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالاَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُوالزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللهِ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "لأُخْرِجَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، فَلاَ أَتْرُكُ فِيهَا إِلاَّ مُسْلِمًا". قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۶۰۷- عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:'' میں جزیرہ عرب سے یہود ونصاریٰ کو ضرورنکالوں گااور اس میں صرف مسلمان کو باقی رکھوں گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
44-بَاب مَا جَاءَ فِي تَرِكَةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۴۴-باب: رسول اللہ ﷺ کے ترکہ کا بیان​


1608- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُوالْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَتْ فَاطِمَةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَقَالَتْ: مَنْ يَرِثُكَ؟ قَالَ: أَهْلِي وَوَلَدِي، قَالَتْ: فَمَا لِي لاَ أَرِثُ أَبِي؟ فَقَالَ أَبُوبَكْرٍ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "لاَ نُورَثُ وَلَكِنِّي أَعُولُ مَنْ كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَعُولُهُ وَأُنْفِقُ عَلَى مَنْ كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُنْفِقُ عَلَيْهِ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ وَعَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَسَعْدٍ وَعَائِشَةَ. وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، إِنَّمَا أَسْنَدَهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ وَعَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ عَطَائٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ : لاَ أَعْلَمُ أَحَدًا، رَوَاهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ إِلاَّ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ. وَرَوَى عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ عَطَائٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ نَحْوَ رِوَايَةِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۲۵) وانظر: خ/الخمس ۱ (۳۰۹۲، ۳۰۹۳)، والنفقات ۳ (۶۷۲۵ و ۶۷۲۶) (صحیح)
۱۶۰۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آکرکہا: آپ کی وفات کے بعدآپ کاوارث کون ہوگا؟ انہوں نے کہا: میرے گھر والے اورمیری اولاد ، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: پھرکیاوجہ ہے کہ میں اپنے باپ کی وارث نہ بنوں؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے کہ'' ہم (انبیاء) کا کوئی وارث نہیں ہوتا'' (پھرابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا) لیکن رسول اللہ ﷺ جس کی کفالت کرتے تھے ہم بھی اس کی کفالت کریں گے اور آپ ﷺ جس پر خرچ کرتے تھے ہم بھی اس پر خرچ کریں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اسے حماد بن سلمہ اورعبدالوہاب بن عطاء نے مسنداً روایت کیا ہے یہ دونوں اورمحمدبن عمرسے اورمحمد ابوسلمہ سے، اور ابوسلمہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے راویت کرتے ہیں، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں کہا: میں حمادبن سلمہ کے علاوہ کسی کو نہیں جانتاہوں جس نے اس حدیث کو محمدبن عمروسے محمدنے ابوسلمہ سے اورابوسلمہ نے ابوہریرہ سے (مرفوعاً) روایت کی ہو۔ (ترمذی کہتے ہیں: ہاں) عبدالوہاب بن عطاء نے بھی محمدبن عمروسے اورمحمدنے ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نے ابوہریرہ سے حمادبن سلمہ کی روایت کی طرح روایت کی ہے،۳- اس باب میں عمر،طلحہ ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف ، سعد اورعائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


1609- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ عَطَائٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ جَاءَتْ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا تَسْأَلُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَقَالاَ: سَمِعْنَا رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "إِنِّي لاَ أُورَثُ"، قَالَتْ: وَاللهِ! لاَ أُكَلِّمُكُمَا أَبَدًا، فَمَاتَتْ وَلاَ تُكَلِّمُهُمَا.
قَالَ عَلِيُّ بْنُ عِيسَى: مَعْنَى لاَ أُكَلِّمُكُمَا تَعْنِي فِي هَذَا الْمِيرَاثِ أَبَدًا، أَنْتُمَا صَادِقَانِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۶۰۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر اورعمر رضی اللہ عنہما کے پاس رسول اللہ ﷺ کی میراث سے اپنا حصہ طلب کرنے آئیں، ان دونوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے: '' میرا کوئی وارث نہیں ہوگا''، فاطمہ رضی اللہ عنہ بولیں : اللہ کی قسم ! میں تم دونوں سے کبھی بات نہیں کروں گی، چنانچہ وہ انتقال کرگئیں، لیکن ان دونوں سے بات نہیں کی۔ راوی علی بن عیسیٰ کہتے ہیں: ''لا أكلمكما'' کا مفہوم یہ ہے کہ میں اس میراث کے سلسلے میں کبھی بھی آپ دونوں سے بات نہیں کروں گی ، آپ دونوں سچے ہیں۔
(امام ترمذی کہتے ہیں:) یہ حدیث کئی سندوں سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے مروی ہے۔


1610- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَدَخَلَ عَلَيْهِ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ وَالْعَبَّاسُ يَخْتَصِمَانِ، فَقَالَ عُمَرُ لَهُمْ: أَنْشُدُكُمْ بِاللهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَائُ وَالأَرْضُ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ عُمَرُ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ ﷺ قَالَ أَبُوبَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَجِئْتَ أَنْتَ وَهَذَا إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَطْلُبُ أَنْتَ مِيرَاثَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا؟ فَقَالَ أَبُوبَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ" وَاللهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ صَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ. قَالَ أَبُوعِيسَى: وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ مَالِكِ بْنِ أَوسٍ.
* تخريج: خ/الخمس ۱ (۳۰۹۴)، والمغازي ۱۴ (۴۰۳۳)، والنفقات ۳ (۵۳۵۷)، والفرائض ۳ (۶۷۲۸)، والاعتصام۵ (۷۳۰۵)، م/الجہاد ۱۵ (۱۷۵۷/۴۹)، د/الخراج والإمارۃ ۱۹ (۲۹۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۳۲)، وحم (۱/۲۵) (صحیح)
۱۶۱۰- مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں: میں عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا،اسی دوران ان کے پاس عثمان بن عفان، زبیربن عوام ، عبدالرحمن بن عوف اورسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم بھی پہنچے، پھر علی اورعباس رضی اللہ عنہما جھگڑتے ہوئے آئے، عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: میں تم لوگوں کو اس اللہ کی قسم دیتاہوں جس کے حکم سے آسمان وزمین قائم ہے، تم لوگ جانتے ہو رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے:'' ہمارا(یعنی انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا، جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے'' ، لوگوں نے کہا: ہاں ! عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:جب رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے ، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کا جانشین ہوں، پھر تم اپنے بھتیجے کی میراث میں سے اپناحصہ طلب کرنے اوریہ اپنی بیوی کے باپ کی میراث طلب کرنے کے لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، ابوبکرنے کہا: بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ہمارا (یعنی انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتاہے''، (عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:) اللہ خوب جانتاہے ابوبکر سچے ، نیک ، بھلے اورحق کی پیروی کرنے والے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث میں تفصیل ہے ، یہ حدیث مالک بن اوس ۱ ؎ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : ترمذی کے نسخوں میں ''مالک بن أنس ''ظاہرہے کہ یہاں تفرد ''مالک بن أوس '' کاعمربن خطاب سے ، جیساکہ تخریج سے ظاہرہے اس لیے صواب ''مالک بن أوس''ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
45-بَاب مَا جَاءَ مَا قَالَ النَّبِيُّ ﷺيَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ إِنَّ هَذِهِ لاَ تُغْزَى بَعْدَ الْيَوْمِ
۴۵- باب: فتح مکہ کے دن فرمان نبوی ''آج کے بعدمکہ میں جہادنہیں کیاجائے گا'' کا بیان​


1611- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مَالِكِ بْنِ الْبَرْصَائِ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ يَقُولُ: "لاَتُغْزَى هَذِهِ بَعْدَ الْيَوْمِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَسُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ وَمُطِيعٍ. وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ حَدِيثُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنِ الشَّعْبِيِّ فَلاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۲۸۰) (صحیح)
۱۶۱۱- حارث بن مالک بن برصاء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن میں نے نبی اکرمﷺ کوفرماتے سنا: مکہ میں آج کے بعدقیامت تک (کافروں سے)جہادنہیں کیاجائے گا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ یعنی زکریابن ابی زائدہ کی حدیث جو شعبی کے واسطہ سے آئی ہے، ۲- ہم اس حدیث کو صرف ان ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۳- اس باب میں ابن عباس ، سلیمان بن صرد اورمطیع رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی مکہ اب دار الحرب اور کفار کا مسکن نہیں ہوگا کہ یہاں جہاد کی پھر ضرورت پیش آئے۔
 
Top