• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
26-بَاب مَا جَاءَ فِي أَمَانِ الْعَبْدِ وَالْمَرْأَةِ
۲۶-باب: غلام اور عورت کو امان دینے کا بیان​


1579- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَكْثَمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ الْمَرْأَةَ لَتَأْخُذُ لِلْقَوْمِ يَعْنِي تُجِيرُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ".
وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا فَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَكَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ قَدْ سَمِعَ مِنَ الْوَلِيدِ بْنِ رَبَاحٍ وَالْوَلِيدُ بْنُ رَبَاحٍ سَمِعَ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَهُوَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۰۹) (حسن)
1579/م- حَدَّثَنَا أَبُوالْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَاالْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ أَنَّهَا قَالَتْ: أَجَرْتُ رَجُلَيْنِ مِنْ أَحْمَائِي فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "قَدْ أَمَّنَّا مَنْ أَمَّنْتِ". قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَجَازُوا أَمَانَ الْمَرْأَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقُ أَجَازَ أَمَانَ الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ وَأَبُو مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَيُقَالُ لَهُ أَيْضًا مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ أَيْضًا وَاسْمُهُ يَزِيدُ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ أَجَازَ أَمَانَ الْعَبْدِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "ذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ". قَالَ أَبُوعِيسَى: وَمَعْنَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ مَنْ أَعْطَى الأَمَانَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَهُوَ جَائِزٌ عَلَى كُلِّهِمْ.
* تخريج : خ/الصلاۃ ۴ (۳۵۷)، والجزیۃ ۹ (۳۱۷۱)، والأدب ۹۴ (۶۱۵۸)، م/المسافرین ۱۳ (۳۳۶/۸۲) د/الجہاد۱۶۷ (۲۷۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۱۸)، وط/قصر الصلاۃ فی السفر ۸ (۲۸)، وحم (۶/۳۴۳، ۴۲۳)، و دي/الصلاۃ۱۵۱ (۱۴۹۴) (صحیح)
۱۵۷۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' مسلمان عورت کسی کو پناہ دے سکتی ہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ،۲- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے ،۳- کثیربن زید نے ولید بن رباح سے سناہے اورولید بن رباح نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سناہے اوروہ مقارب الحدیث ہیں،۴- اس باب میں ام ہانی رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔
۱۵۷۹/م- ام ہانی سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنے شوہر کے دو رشتے داروں کو پناہ دی،تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ہم نے بھی اس کو پناہ دی جس کو تم نے پناہ دی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ، ۲- (یہ حدیث )کئی سندوں سے مروی ہے ،۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے ، انہوں نے عورت کے پناہ دینے کو جائزقراردیاہے ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے ، انہوں نے عورت اورغلام کے پناہ دینے کو جائزقراردیاہے، ۴ - راوی ابومرہ مولیٰ عقیل بن ابی طالب کو مولیٰ ام ہانی بھی کہا گیا ہے ، ان کانام یزید ہے، ۵- عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے غلام کے پناہ دینے کو جائز قراردیا ہے، ۶- علی بن ابی طالب اورعبداللہ بن عمروکے واسطے سے نبی اکرمﷺ سے مروی ہے ، آپ نے فرمایا:'' تمام مسلمانوں کی پناہ یکساں ہے جس کے لیے ان کا ادنی آدمی بھی کوشش کرسکتا ہے'' ۲؎ ، ۷- اہل علم کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے ، اگر مسلمانوں میں سے کسی نے امان دے دی تو درست ہے اورہرمسلمان اس کا پابند ہوگا ۔
وضاحت ۱؎ : بعض روایات میں ہے کہ مسلمانوں کا ادنی آدمی بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے، اس حدیث اور ام ہانی کے سلسلہ میں آپ کا فرمان : '' قد أجرنا من أجرت يا أم هاني'' سے معلوم ہواکہ ایک مسلمان عورت بھی کسی کو پناہ دے سکتی ہے، اور اس کی دی ہوئی پناہ کو کسی مسلمان کے لیے توڑ ناجائز نہیں۔
وضاحت ۲؎ : یعنی مسلمانوں میں سے کوئی ادنی شخص کسی کوپناہ دے تو اس کی دی ہوئی پناہ سارے مسلمانوں کے لیے قبول ہوگی کوئی اس پناہ کو توڑ نہیں سکتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
27-بَاب مَا جَاءَ فِي الْغَدْرِ
۲۷-باب: عہدتوڑنے کا بیان​


1580- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُودَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُوالْفَيْضِ، قَال: سَمِعْتُ سُلَيْمَ بْنَ عَامِرٍ يَقُولُ: كَانَ بَيْنَ مُعَاوِيَةَ وَبَيْنَ أَهْلِ الرُّومِ عَهْدٌ، وَكَانَ يَسِيرُ فِي بِلاَدِهِمْ حَتَّى إِذَا انْقَضَى الْعَهْدُ أَغَارَ عَلَيْهِمْ، فَإِذَا رَجُلٌ عَلَى دَابَّةٍ أَوْ عَلَى فَرَسٍ وَهُوَ يَقُولُ: اللهُ أَكْبَرُ! وَفَائٌ لاَ غَدْرٌ، وَإِذَا هُوَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ، فَسَأَلَهُ مُعَاوِيَةُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "مَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ فَلاَ يَحُلَّنَّ عَهْدًا وَلاَيَشُدَّنَّهُ حَتَّى يَمْضِيَ أَمَدُهُ أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَائٍ"، قَالَ: فَرَجَعَ مُعَاوِيَةُ بِالنَّاسِ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الجہاد ۱۶۴ (۲۷۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۵۳)، وحم (۴/۱۱۱) (صحیح)
۱۵۸۰- سلیم بن عامر کہتے ہیں: معاویہ رضی اللہ عنہ اوراہل روم کے درمیان (کچھ مدت تک کے لیے) عہدوپیمان تھا ، معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے شہروں میں جاتے تھے تاکہ جب عہدکی مدت تمام ہو تو ان پرحملہ کردیں، اچانک ایک آدمی کو اپنی سواری یاگھوڑے پر : اللہ اکبر! ''تمہاری طرف سے ایفاء عہدہوناچاہئے نہ کہ بدعہدی ''،کہتے ہوئے دیکھا وہ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ تھے ، تومعاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا ،توانہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے:'' جس آدمی کے اورکسی قوم کے درمیان عہدوپیمان ہوتوجب تک اس کی مدت ختم نہ ہوجائے یااس عہدکو ان تک برابری کے ساتھ واپس نہ کردے، ہرگزعہدنہ توڑے اورنہ نیا عہدکرے''،معاویہ رضی اللہ عنہ لوگوں کولے کرواپس لوٹ آئے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
28-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَائً يَوْمَ الْقِيَامَةِ
۲۸-باب: بدعہدی کرنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا​


1581- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي صَخْرُ بْنُ جُوَيْرِيَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "إِنَّ الْغَادِرَ يُنْصَبُ لَهُ لِوَائٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ حَدِيثِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَائٌ" فَقَالَ: لاَ أَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ مَرْفُوعًا.
* تخريج: خ/الجزیۃ ۲۲ (۳۱۸۸)، والأدب ۹۹ (۶۱۷۷)، والحیل ۹ (۶۹۶۶)، والفتن ۲۱ (۷۱۱۱)، م/الجہاد ۴ (۱۷۳۶)، د/الجہاد ۱۶۲ (۲۷۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۷۶۹۰)، وحم ۲/۱۴۲) (صحیح)
۱۵۸۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے : ''بے شک بدعہدی کرنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیاجائے گا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- میں نے محمدسے سوید کی اس حدیث کے بارے میں پوچھاجسے وہ ابواسحاق سبیعی سے ، ابواسحاق نے عمارہ بن عمیرسے ، عمارہ نے علی رضی اللہ عنہ سے اورعلی نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:'' ہر عہدتوڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا ہوگا، محمد بن اسماعیل بخار ی نے کہا: میرے علم میں یہ حدیث مرفوع نہیں ہے''،۳- اس باب میں علی ، عبداللہ بن مسعود ، ابوسعید خدری اورانس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
29- بَاب مَا جَاءَ فِي النُّزُولِ عَلَى الْحُكْمِ
۲۹-باب: دشمن کی مسلمان کے فیصلہ پررضامندی کا بیان​


1582- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّهُ قَالَ: رُمِيَ يَوْمَ الأَحْزَابِ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَقَطَعُوا أَكْحَلَهُ أَوْ أَبْجَلَهُ، فَحَسَمَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِالنَّارِ، فَانْتَفَخَتْ يَدُهُ فَتَرَكَهُ، فَنَزَفَهُ الدَّمُ فَحَسَمَهُ أُخْرَى، فَانْتَفَخَتْ يَدُهُ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ قَالَ: اللَّهُمَّ لاَتُخْرِجْ نَفْسِي حَتَّى تُقِرَّ عَيْنِي مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ، فَاسْتَمْسَكَ عِرْقُهُ فَمَا قَطَرَ قَطْرَةً حَتَّى نَزَلُوا عَلَى حُكْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَحَكَمَ أَنْ يُقْتَلَ رِجَالُهُمْ وَيُسْتَحْيَا نِسَاؤُهُمْ يَسْتَعِينُ بِهِنَّ الْمُسْلِمُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَصَبْتَ حُكْمَ اللهِ فِيهِمْ" وَكَانُوا أَرْبَعَ مِائَةٍ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَتْلِهِمْ انْفَتَقَ عِرْقُهُ فَمَاتَ. قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَعَطِيَّةَ الْقُرَظِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ (تحفۃ الأشراف: ۲۹۲۵) (صحیح)
۱۵۸۲- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:غزوہ احزاب میں سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کو تیرلگا، کفارنے ان کی رگ اکحل یا رگ ابجل (بازو کی ایک رگ) کاٹ دی، رسول اللہ ﷺ نے اسے آگ سے داغاتو ان کاہاتھ سوج گیا، لہذا آپ نے اسے چھوڑدیا ، پھرخون بہنے لگا، چنانچہ آپ نے دوبارہ داغاپھر ان کا ہاتھ سوج گیا، جب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھا تو انہوں نے دعاء کی: اے اللہ! میری جان اس وقت تک نہ نکالنا جب تک بنوقریظہ (کی ہلاکت اورذلت سے) میری آنکھ ٹھنڈی نہ ہوجائے ، پس ان کی رگ رک گئی اور خون کا ایک قطرہ بھی اس سے نہ ٹپکا، یہاں تک کہ بنوقریظہ سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کے حکم پر (قلعہ سے) نیچے اترے، رسول اللہ ﷺ نے سعد کو بلایا انہوں نے آکر فیصلہ کیا کہ ان کے مردوں کو قتل کردیا جائے اورعورتوں کوزندہ رکھاجائے جن سے مسلمان خدمت لیں ۱؎ ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم نے ان کے بارے میں اللہ کے فیصلہ کے موافق فیصلہ کیا ہے ، ان کی تعداد چارسوتھی، جب آپ ان کے قتل سے فارغ ہوئے توسعدکی رگ کھل گئی اوروہ انتقال کرگئے'' ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں ابوسعیدخدری اورعطیہ قرظی رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی بنو قریظہ کی عورتیں مسلمانوں کی خدمت کے لیے ان میں تقسیم کردی جائیں۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث میں د لیل ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی کے فیصلہ پر دشمنوں کا راضی ہوجانا اور اس پر اترنا جائز ہے، اور ان کی بابت جو بھی فیصلہ اس مسلمان کی طرف سے صادر ہوگا دشمنوں کے لیے اس کا ماننا ضروری ہوگا۔


1583- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَبُوالْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "اقْتُلُوا شُيُوخَ الْمُشْرِكِينَ وَاسْتَحْيُوا شَرْخَهُمْ" وَالشَّرْخُ الْغِلْمَانُ الَّذِينَ لَمْ يُنْبِتُوا.
قَالَ أَبُوعِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَرَوَاهُ الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ عَنْ قَتَادَةَ نَحْوَهُ.
* تخريج: د/الجہاد ۱۲۱ (۲۶۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۹۲)، وحم (۵/۱۲، ۲۰) (ضعیف)
(سند میں قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس راوی ہیں ، اور روایت عنعنہ سے ہے)
۱۵۸۳- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مشرکین کے مردوں کو قتل کردو اور ان کے لڑکوں میں سے جو بلوغت کی عمر کو نہ پہنچے ہوں انہیں کو چھوڑدو''، شرخ وہ لڑکے ہیں جن کے زیرناف کے بال نہ نکلے ہوں ''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ،۲- حجاج بن ارطاۃ نے قتادہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے ۔


1584- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَطِيَّةَ الْقُرَظِيِّ قَالَ: عُرِضْنَا عَلَى النَّبِيِّ ﷺ يَوْمَ قُرَيْظَةَ، فَكَانَ مَنْ أَنْبَتَ قُتِلَ، وَمَنْ لَمْ يُنْبِتْ خُلِّيَ سَبِيلُهُ فَكُنْتُ مِمَّنْ لَمْ يُنْبِتْ فَخُلِّيَ سَبِيلِي.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُمْ يَرَوْنَ الإِنْبَاتَ بُلُوغًا إِنْ لَمْ يُعْرَفْ احْتِلاَمُهُ وَلاَ سِنُّهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: د/الحدود ۱۷ (۴۴۰۴)، ن/الطلاق ۲۰ (۳۴۶۰)، وقطع السارق ۱۷ (۴۹۹۶)، ق/الحدود ۴ (۲۵۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۰۴)، وحم (۴/۳۱۰)، و ۵/۳۱۲) (صحیح)
۱۵۸۴- عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہمیں قریظہ کے دن نبی اکرمﷺ کے سامنے پیش کیا گیا،توجس کے (زیرناف کے) بال نکلے ہوئے تھے اسے قتل کردیاجاتااورجس کے نہیں نکلے ہوتے اسے چھوڑدیاجاتا، چنانچہ میں ان لوگوں میں سے تھاجن کے بال نہیں نکلے تھے، لہذا مجھے چھوڑدیاگیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے ، اگربلوغت اورعمر معلوم نہ ہوتو وہ لوگ (زیرناف کے) بال نکلنے ہی کو بلوغت سمجھتے تھے، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
30- بَاب مَا جَاءَ فِي الْحِلْفِ
۳۰-باب: جاہلیت کے حِلف( معاہدئہ تعاون) کا بیان​


1585- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ فِي خُطْبَتِهِ: "أَوْفُوا بِحِلْفِ الْجَاهِلِيَّةِ فَإِنَّهُ لاَ يَزِيدُهُ -يَعْنِي الإِسْلاَمَ- إِلاَّ شِدَّةً وَلاَ تُحْدِثُوا حِلْفًا فِي الإِسْلاَمِ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَقَيْسِ بْنِ عَاصِمٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۶۹۰) (حسن)
۱۵۸۵- عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبہ میں فرمایا:'' جاہلیت کے حلف (معاہدئہ تعاون) کو پوراکرو ۱؎ ، اس لیے کہ اس سے اسلام کی مضبوطی میں اضافہ ہی ہوتاہے اوراب اسلام میں کوئی نیا معاہدئہ تعاون نہ کرو'' ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں عبدالرحمن بن عوف، ام سلمہ ، جبیر بن مطعم ، ابوہریرہ، ابن عباس اورقیس بن عاصم رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی زمانہ جاہلیت میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے سے متعلق جو عہد ہوا ہے اسے پورا کرو بشرطیکہ یہ عہد شریعت کے مخالف نہ ہو۔
وضاحت ۲؎ : یعنی یہ عہد کرنا کہ ہم ایک دوسرے کے وارث ہوں گے، کیوں کہ اسلام آجانے کے بعد اس طرح کا عہد درست نہیں ہے، بلکہ وراثت سے متعلق عہد کے لیے اسلام کافی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
31-بَاب مَا جَاءَ فِي أَخْذِ الْجِزْيَةِ مِنَ الْمَجُوسِ
۳۱-باب: مجوس سے جزیہ لینے کا بیان​


1586- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ دِينَارٍ، عَنْ بَجَالَةَ بْنِ عَبْدَةَ قَالَ: كُنْتُ كَاتِبًا لِجَزْئِ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَلَى مَنَاذِرَ، فَجَاءَنَا كِتَابُ عُمَرَ: انْظُرْ مَجُوسَ مَنْ قِبَلَكَ فَخُذْ مِنْهُمْ الْجِزْيَةَ، فَإِنَّ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ أَخْبَرَنِي أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَخَذَ الْجِزْيَةَ مِنْ مَجُوسِ هَجَرَ.
قَالَ أَبُوعِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: خ/الجزیۃ ۱ (۳۱۵۶)، د/الخراج والإمارۃ ۳۱ (۳۰۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۱۷)، وحم (۱/۱۹۰) (صحیح)
۱۵۸۶- بجالہ بن عبدہ کہتے ہیں :میں مقام مناذرمیں جزء بن معاویہ کا منشی تھا، ہمارے پاس عمر رضی اللہ عنہ کا خط آیاکہ تمہاری طرف جومجوس ہوں ان کو دیکھواوران سے جزیہ لو کیونکہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے مجھے خبردی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مقام ہجرکے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ مجوسی مشرکوں سے جزیہ وصول کیاجائے گا۔


1587- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ بَجَالَةَ أَنَّ عُمَرَ كَانَ لاَيَأْخُذُ الْجِزْيَةَ مِنَ الْمَجُوسِ حَتَّى أَخْبَرَهُ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَخَذَ الْجِزْيَةَ مِنْ مَجُوسِ هَجَرَ. وَفِي الْحَدِيثِ كَلاَمٌ أَكْثَرُ مِنْ هَذَا. وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۵۸۷- بجالہ بن عبدہ سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ مجوس سے جزیہ نہیں لیتے تھے یہاں تک کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان کو خبردی کہ نبی اکرمﷺ نے مقام ہجرکے مجوسیوں سے جزیہ لیا، اس حدیث میں اس سے زیادہ تفصیل ہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔


1588- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ أَبِي كَبْشَةَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللهِ ﷺ الْجِزْيَةَ مِنْ مَجُوسِ الْبَحْرَيْنِ وَأَخَذَهَا عُمَرُ مِنْ فَارِسَ، وَأَخَذَهَا عُثْمَانُ مِنَ الْفُرْسِ.
وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا فَقَالَ: هُوَ مَالِكٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (وہو في بعض النسخ فحسب ولذا لم یذکرہ المزي في التحفۃ) (صحیح)
۱۵۸۸- سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بحرین کے مجوسیوں سے،اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما نے فارس کے مجوسیوں سے جزیہ لیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ مالک روایت کرتے ہیں زہری سے اورزہری نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
32-بَاب مَا يَحِلُّ مِنْ أَمْوَالِ أَهْلِ الذِّمَّةِ
۳۲-باب: ذمی کے مال سے کتنا لینا جائزہے؟​


1589- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ : قُلْتُ: يَارَسُولَ اللهِ! إِنَّا نَمُرُّ بِقَوْمٍ فَلاَ هُمْ يُضَيِّفُونَا، وَلاَ هُمْ يُؤَدُّونَ مَا لَنَا عَلَيْهِمْ مِنَ الْحَقِّ وَلاَ نَحْنُ نَأْخُذُ مِنْهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنْ أَبَوْا إِلاَّ أَنْ تَأْخُذُوا كَرْهًا فَخُذُوا". قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَاهُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ أَيْضًا، وَإِنَّمَا مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ : أَنَّهُمْ كَانُوا يَخْرُجُونَ فِي الْغَزْوِ فَيَمُرُّونَ بِقَوْمٍ وَلاَ يَجِدُونَ مِنَ الطَّعَامِ مَا يَشْتَرُونَ بِالثَّمَنِ، وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "إِنْ أَبَوْا أَنْ يَبِيعُوا إِلاَّ أَنْ تَأْخُذُوا كَرْهًا فَخُذُوا"، هَكَذَا رُوِيَ فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ مُفَسَّرًا. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ بِنَحْوِ هَذَا.
* تخريج: خ/المظالم ۱۸ (۲۴۶۱)، والأدب ۸۵ (۶۱۳۷)، م/اللقطۃ ۳ (۱۷۲۷)، د/الأطعمۃ ۵ (۳۷۵۲)، ق/الأدب ۵ (۳۶۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۵۴)، وحم (۴/۱۴۹) (صحیح)
۱۵۸۹- عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول ! ہم ایسے لوگوں کے پاس سے گزرتے ہیں جونہ ہماری مہمانی کرتے ہیں، نہ ان پر جوہمارا حق ہے اسے اداکرتے ہیں، اور ہم ان سے کچھ نہیں لیتے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اگروہ نہ دیں سوائے اس کے کہ تم زبردستی ان سے لو، تو زبردستی لے لو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اسے لیث بن سعدنے بھی یزیدبن ابی حبیب سے روایت کیا ہے (جیسا کہ بخاری کی سند میں ہے)، ۳- اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ صحابہ جہادکے لیے نکلتے تھے تووہ ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرتے ، جہاں کھانانہیں پاتے تھے، کہ قیمت سے خریدیں، نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' اگروہ (کھانا)فروخت کرنے سے انکار کریں سوائے اس کے کہ تم زبردستی لوتوزبردستی لے لو،۴- ایک حدیث میں اسی طرح کی وضاحت آئی ہے، عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بھی اسی طرح کا حکم دیاکرتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : امام احمد، شوکانی اور صاحب تحفہ الاحوذی کے مطابق یہ حدیث اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے، اس کی کوئی تاویل بلا دلیل ہے، جیسے : یہ زمن نبوت کے ساتھ خاص تھا، یا یہ کہ یہ ان اہل ذمہ کے ساتھ خاص تھا جن سے مسلمان لشکریوں کی ضیافت کرنے کی شرط لی گئی تھی، وغیرہ وغیرہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
33- بَاب مَا جَاءَ فِي الْهِجْرَةِ
۳۳-باب: ہجرت کا بیان​


1590- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ، وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو وَعَبْدِاللهِ بْنِ حُبْشِيٍّ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ نَحْوَ هَذَا.
* تخريج: خ/جزاء الصید ۱۰ (۱۸۳۴)، والجہاد ۱ (۲۷۸۳)، و ۲۷ (۲۸۲۵)، و ۱۹۴ (۳۰۷۷)، والجزیۃ ۲۲ (۳۱۸۹)، م/الحج ۸۲ (۱۳۵۳)، والإمارۃ ۲۰ (۱۳۵۳/۸۵)، د/المناسک ۹۰ (۲۰۱۸)، (إشارۃ) والجہاد ۲ (۲۴۸۰)، ن/البیعۃ ۱۵ (۴۱۷۵)، ق/الجہاد ۹ (۲۷۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۴۸)، وحم (۱/۲۲۶، ۲۲۶، ۳۱۶، ۳۵۵)، ودي/السیر ۶۹ (۲۵۵۴) (صحیح)
۱۵۹۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتحِ مکہ کے دن فرمایا:'' فتحِ مکہ کے بعدہجرت نہیں ہے لیکن جہاداورنیت باقی ہے، اورجب تم کو جہادکے لیے طلب کیاجائے تو نکل پڑو '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- سفیان ثوری نے بھی منصوربن معتمرسے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،۳- اس باب میں ابوسعید، عبداللہ بن عمرو اور عبداللہ بن حبشی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مکہ سے خاص طور پر مدینہ کی طرف ہجرت نہیں ہے کیوں کہ مکہ اب دار السلام بن گیا ہے، البتہ دارالکفر سے دارالسلام کی طرف ہجرت تاقیامت باقی رہے گی جیسا کہ بعض احادیث سے ثابت ہے اور مکہ سے ہجرت کے انقطاع کے سبب جس خیر وبھلائی سے لوگ محروم ہوگئے اس کا حصول جہاد اور صالح نیت کے ذریعہ ممکن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
34- بَاب مَا جَاءَ فِي بَيْعَةِ النَّبِيِّ ﷺ
۳۴-باب: نبی اکرم ﷺ کی بیعت کا بیان​


1591- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأُمَوِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى {لَقَدْ رَضِيَ اللهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ}. قَالَ جَابِرٌ: بَايَعْنَا رَسُولَ اللهِ ﷺ عَلَى أَنْ لاَ نَفِرَّ وَلَمْ نُبَايِعْهُ عَلَى الْمَوْتِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ وَابْنِ عُمَرَ وَعُبَادَةَ وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِاللهِ. قَالَ أَبُوعِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عِيسَى بْنِ يُونُسَ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى ابْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ: قَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِاللهِ: وَلَمْ يُذْكَرْ فِيهِ أَبُو سَلَمَةَ.
* تخريج: م/الإمارۃ ۱۸ (۱۸۵۶)، ن/البیعۃ ۷ (۴۱۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۶۳)، وحم (۳/۳۵۵، ۳۸۱، ۳۹۶)، ودي/السیر ۱۸ (۲۴۹۸) (صحیح)
۱۵۹۱- جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ: {لَقَدْ رَضِيَ اللهُ عَنْ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ } ۱؎ کے بارے میں روایت ہے ، جابرکہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے فرار نہ ہونے کی بیعت کی تھی، ہم نے آپ سے موت کے اوپر بیعت نہیں کی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث بسندعیسیٰ بن یونس ''عن الأوزاعي، عن يحيى بن أبي كثير، عن جابر'' مروی ہے، اس میں یحییٰ بن ابی کثیراورجابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے درمیان ابوسلمہ کے واسطے کا ذکرنہیں ہے، ۲- اس باب میں سلمہ بن الاکوع ، ابن عمر، عبادہ اورجریربن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اللہ مومنوں سے راضی ہوگیاجب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کررہے تھے ۔(الفتح: ۱۸)


1592- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، قَالَ: قُلْتُ لِسَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ: عَلَى أَيِّ شَيْئٍ بَايَعْتُمْ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ؟ قَالَ: عَلَى الْمَوْتِ.
وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجہاد ۱۱۰ (۲۹۶۰)، والمغازي ۳۵ (۴۱۶۹)، والأحکام ۴۳ (۷۲۰۶)، و ۴۴ (۷۲۰۸)، م/الإمارۃ ۱۸ (۱۸۶۰)، ن/البیعۃ ۸ (۴۱۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۳۶)، وحم (۴/۴۷، ۵۱، ۵۴) (صحیح)
۱۵۹۲- یزید بن ابی عبیداللہ کہتے ہیں : میں نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے پوچھا: حد یبیہ کے دن آپ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کس بات پربیعت کی تھی ؟ انہوں نے کہا: موت پر ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس میں اور اس سے پہلے والی حدیث میں کوئی تضاد نہیں ہے، کیونکہ اس حدیث کا بھی مفہوم یہ ہے کہ ہم نے میدان سے نہ بھاگنے کی بیعت کی تھی، بھلے ہم اپنی جان سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھوبیٹھیں۔


1593- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كُنَّا نُبَايِعُ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، فَيَقُولُ لَنَا "فِيمَا اسْتَطَعْتُمْ". قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كِلاَهُمَا. وَمَعْنَى كِلاَ الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ قَدْبَايَعَهُ قَوْمٌ مِنْ أَصْحَابِهِ عَلَى الْمَوْتِ وَإِنَّمَا قَالُوا لاَ نَزَالُ بَيْنَ يَدَيْكَ حَتَّى نُقْتَلَ وَبَايَعَهُ آخَرُونَ فَقَالُوا: لاَنَفِرُّ.
* تخريج: خ/الأحکام ۴۳ (۷۲۰۲)، م/الإمارۃ ۲۲ (۱۸۶۷)، ن/البیعۃ ۲۴ (۴۱۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۷۱۲۷)، وط/البیعۃ ۱ (۱)، وحم (۲/۶۲، ۸۱، ۱۰۱، ۱۳۹) (صحیح)
۱۵۹۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : ہم لوگ رسول اللہ ﷺ سے سمع وطاعت (یعنی آپ کے حکم سننے اور آپ کی اطاعت کرنے) پر بیعت کرتے تھے ،پھر آپ ہم سے فرماتے: ''جتناتم سے ہوسکے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- حدیث جابراورحدیث سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہما دونوں حدیثوں کا معنی صحیح ہے، (ان میں تعارض نہیں ہے) بعض صحابہ نے آپﷺ سے موت پربیعت کی تھی، ان لوگوں نے کہاتھا : ہم آپ کے سامنے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ قتل کردیئے جائیں، اوردوسرے لوگوں نے آپ سے بیعت کرتے ہوئے کہاتھا: ہم نہیں بھاگیں گے۔


1594- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ قَالَ: لَمْ نُبَايِعْ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَلَى الْمَوْتِ إِنَّمَا بَايَعْنَاهُ عَلَى أَنْ لاَ نَفِرَّ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۵۹۱ ، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۶۳) (صحیح)
۱۵۹۴- جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ﷺ سے موت پربیعت نہیں کی تھی ، ہم نے توآپ سے بیعت کی تھی کہ نہیں بھاگیں گے۔(چاہے اس کا انجام کبھی موت ہی کیوں نہ ہوجائے)
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
35-بَاب مَا جَاءَ فِي نَكْثِ الْبَيْعَةِ
۳۵-باب: بیعت توڑنے کا بیان​


1595- حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "ثَلاَثَةٌ لاَ يُكَلِّمُهُمْ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ رَجُلٌ بَايَعَ إِمَامًا، فَإِنْ أَعْطَاهُ، وَفَى لَهُ وَإِنْ لَمْ يُعْطِهِ لَمْ يَفِ لَهُ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَلَى ذَلِكَ الأَمْرُ بِلاَ اخْتِلاَفٍ.
* تخريج: خ/المساقاۃ ۱۰ (۲۳۶۹)، والشہادات ۲۲ (۲۶۷۲)، والأحکام ۴۸ (۷۲۱۲)، م/الإیمان ۴۶ (۱۷۳)، د/البیوع ۶۲ (۳۴۷۴)، ن/البیوع ۶ (۴۴۷۴)، ق/التجارات ۳۰ (۲۲۰۷)، والجہاد ۴۲ (۲۸۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۷۲)، وحم (۲/۲۵۳) (صحیح)
۱۵۹۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تین آدمیوں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بات نہیں کرے گا نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گااوران کے لیے دردناک عذاب ہے: ایک وہ آدمی جس نے کسی امام سے بیعت کی پھر اگر امام نے اسے (اس کی مرضی کے مطابق ) دیاتواس نے بیعت پوری کی اوراگرنہیں دیا توبیعت پوری نہیں کی'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے اوربلااختلاف اسی کے موافق حکم ہے۔
وضاحت ۱؎ : باقی دوآدمی جن کا اس حدیث میں ذکر نہیں ہے وہ یہ ہیں: ایک وہ آدمی جس کے پاس لمبے چوڑے صحراء میں اس کی ضرورتوں سے زائد پانی ہو اور مسافر کو پانی لینے سے منع کرے، دوسرا وہ شخص جس نے عصر کے بعد کسی کے ہاتھ سامان بیچا اور اللہ کی قسم کھاکر کہا کہ اس نے یہ چیز اتنے اتنے میں لی ہے، پھر خریدار نے اس کی بات کا یقین کرلیا حالانکہ اس نے غلط بیانی سے کام لیا تھا۔
 
Top