• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي الثَّوْبِ الأَحْمَرِ لِلرِّجَالِ
۴-باب: مردوں کے لیے سرخ کپڑا پہننے کے جواز کا بیان​


1724- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَائِ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ مِنْ ذِي لِمَّةٍ فِي حُلَّةٍ حَمْرَائَ أَحْسَنَ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ، لَهُ شَعْرٌ يَضْرِبُ مَنْكِبَيْهِ، بَعِيدُ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ، لَمْ يَكُنْ بِالْقَصِيرِ وَلاَ بِالطَّوِيلِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ وَأَبِي رِمْثَةَ وَأَبِي جُحَيْفَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/المناقب ۳۳ (۳۵۵۱)، واللباس ۳۵ (۵۸۴۸)، و۶۸ (۵۹۰۳)، م/الفضائل ۲۵ (۲۳۳۷)، د/الترجل ۹ (۴۱۸۳)، ن/الزینۃ ۹ (۵۰۶۳)، و ۵۹ (۵۲۳۴)، و ۹۳ (۵۲۴۸)، ق/اللباس ۲۰ (۳۵۹۹)، (تحفۃ الأشراف:۱۸۴۷)، وحم (۴/۲۸۱، ۲۹۵) و یأتي برقم ۳۶۳۵ (صحیح)
۱۷۲۴- براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے سرخ جوڑے میں کسی لمبے بال والے کو رسول اللہ ﷺ سے خوبصورت نہیں دیکھا، آ پ کے بال شانوں کو چھوتے تھے، آپ کے شانوں کے درمیان دوری تھی ، آپ نہ کوتاہ قدتھے اورنہ لمبے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں جابربن سمرہ ، ابورمثہ اورابوجحیفہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : سرخ لباس کی بابت حالات و ظروف کی رعایت ضروری ہے، اگر یہ عورتوں کا مخصوص زیب وزینت والا لباس ہے جیسا کہ آج کے اس دور میں شادی کے موقع پر سرخ جوڑا دلہن کو خاص طور سے دیاجاتاہے تو مردوں کا اس سے بچنا بہتر ہے، خود نبی اکرم ﷺ کے اس سرخ جوڑے کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کیسا تھا؟ خلاصہ اقوال یہ ہے کہ یہ سرخ جوڑا یا دیگر لال لباس جو آپ ﷺ پہنے تھے، ان میں تانا اور بانا میں رنگوں کا اختلاف تھا، بالکل خالص لال رنگ کے وہ جوڑے نہیں تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْمُعَصْفَرِ لِلرِّجَالِ
۵-باب: مردوں کے لیے زرد رنگ کے کپڑے پہننے کی کراہت کا بیان​


1725- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: نَهَانِي النَّبِيُّ ﷺ، عَنْ لُبْسِ الْقَسِّيِّ وَالْمُعَصْفَرِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَحَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۶۴ (صحیح)
۱۷۲۵- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے قسی کے بنے ہوئے ریشمی اور زرد رنگ کے کپڑے پہننے سے منع فرمایا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں انس اورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : معصفر وہ کپڑا ہے جو عصفر سے رنگا ہواہو، اس کا رنگ سرخی اور زردی کے درمیان ہوتاہے، اس رنگ کالباس عام طور سے کاہن ، جوگی اور سادھو پہنتے ہیں، ممکن ہے نبی اکرمﷺ کے زمانے کے کاہنوں کا لباس یہی رہاہوجس کی وجہ سے اسے پہننے سے منع کیا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَا جَاءَ فِي لُبْسِ الْفِرَائِ
۶-باب: چمڑے کا لباس( پوستین) پہننے کا بیان​


1726- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى الْفَزَارِيُّ، حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ هَارُونَ الْبُرْجُمِيُّ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنِ السَّمْنِ وَالْجُبْنِ وَالْفِرَائِ، فَقَالَ: "الْحَلاَلُ مَا أَحَلَّ اللهُ فِي كِتَابِهِ، وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللهُ فِي كِتَابِهِ وَمَاسَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ الْمُغِيرَةِ، وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَرَوَى سُفْيَانُ وَغَيْرُهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ قَوْلَهُ، وَكَأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ الْمَوْقُوفَ أَصَحُّ، وَسَأَلْتُ الْبُخَارِيَّ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: مَا أُرَاهُ مَحْفُوظًا، رَوَى سُفْيَانُ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ مَوْقُوفًا، قَالَ الْبُخَارِيُّ: وَسَيْفُ بْنُ هَارُونَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ وَسَيْفُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَاصِمٍ ذَاهِبُ الْحَدِيثِ.
* تخريج: ق/الأطعمۃ ۶۰ (۳۳۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۹۶) (حسن)
(شواہد کی بناپر یہ حدیث حسن ہے ، ورنہ اس کے راوی سیف سخت ضعیف ہیں ، دیکھئے: غایۃ المرام رقم: ۳، وتراجع الألبانی ۴۲۸)
۱۷۲۶- سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ سے گھی، پنیراورپوستین (چمڑے کالباس) کے بارے میں پوچھا گیا توآپ نے فرمایا: ''حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کردیا، اور حرا م وہ ہے ، جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کردیا اورجس چیزکے بارے میں وہ خاموش رہا وہ اس قبیل سے ہے جسے اللہ نے معاف کردیاہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے ، ہم اسے صرف اسی سندسے مرفوع جانتے ہیں،۲- اسے سفیان نے بسندسلیمان التیمی سے عن أبی عثمان عن سلمان موقوفاً روایت کیا ہے، گویا یہ موقوف حدیث زیادہ صحیح ہے، اس باب میں مغیرہ سے بھی حدیث آئی ہے ،۳- میں نے امام بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے کہا: میں اس کو محفوظ نہیں سمجھتاہوں، سفیان نے بسند سلیمان التیمی عن أبی عثمان عن سلمان موقوفاروایت کی ہے ،۴- امام بخاری کہتے ہیں : سیف بن ہارون مقارب الحدیث ہیں، اورسیف بن محمدعاصم سے روایت کرنے میں ذاہب الحدیث ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کا استعمال جائز اور مباح ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہا ء نے یہ اصول اپنایا کہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے حلال و مباح ہیں، اس کی تائید اس آیت کریمہ سے بھی ہوتی ہے {هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً} لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی حرمت سے متعلق کوئی دلیل نہ ہو، کیوں کہ حرمت کی دلیل آجانے کے بعد وہ حرام ہوجائیں گی، فقہاء کے مذکورہ اصول اور مذکورہ آیت سے بعض نے پان، تمباکو اور بیڑی سگریٹ کے مباح ہونے پر استدلال کیا ہے، لیکن یہ استدلال درست نہیں ہے، کیوں کہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے مباح ہیں، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ ضرررساں نہ ہوں، اگر دیر یا سویر نقصان ظاہر ہوتاہے تو ایسی صورت میں وہ ہرگز مباح نہیں ہوں گی، اور مذکورہ چیزوں میں جو ضرر ونقصان ہے یہ کسی سے مخفی نہیں، نیز ان کا استعمال ''تبذیر'' (اسراف اورفضول خرچی) کے باب میں آتاہے، لہذا ان کی حرمت میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَا جَاءَ فِي جُلُودِ الْمَيْتَةِ إِذَا دُبِغَتْ
۷-باب: دباغت کے بعدمردارجانوروں کی کھال کے استعمال کا بیان​


1727- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، قَال: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: مَاتَتْ شَاةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ لأَهْلِهَا: "أَلاَ نَزَعْتُمْ جِلْدَهَا ثُمَّ دَبَغْتُمُوهُ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۹۶۹)،وانظر: خ/الزکاۃ ۶۱ (۱۴۹۲)، والبیوع ۱۰۱ (۲۲۲۱)، والذبائح ۳۰ (۵۵۳۱، ۵۵۳۲)، م/الحیض ۲۷ (۳۶۳-۳۶۵)، د/اللبا۴۱ (۴۱۲۱)، ن/الفرع ۴ (۴۲۴۰-۴۲۴۴)، ق/اللباس ۲۵ (۳۶۱۰)، وط/الصید ۶ (۱۶)، حم (۱/۲۳۷)، ۳۲۷، ۳۳۰، ۳۶۵، ۳۶۶، ۳۷۲)، دي/الأضاحي ۲۰ (۲۰۲۸) (صحیح)
۱۷۲۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک بکری مرگئی ، رسول اللہ ﷺ نے بکری والے سے کہا: تم نے اس کی کھال کیوں نہ اتار لی ؟ پھرتم دباغت دے کراس سے فائدہ حاصل کرتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ مردہ جانور کی کھال سے فائدہ دباغت (پکانے) کے بعد ہی اٹھایا جاسکتا ہے، اور ان روایتوں کوجن میں دباغت (پکانے) کی قید نہیں ہے، اسی دباغت والی روایت پر محمول کیاجائے گا۔


1728- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ وَعْلَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَيُّمَا إِهَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَهُرَ". وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا: فِي جُلُودِ الْمَيْتَةِ إِذَا دُبِغَتْ فَقَدْ طَهُرَتْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: قَالَ الشَّافِعِيُّ: أَيُّمَا إِهَابِ مَيْتَةٍ دُبِغَ فَقَدْ طَهُرَ إِلاَّ الْكَلْبَ وَالْخِنْزِيرَ، وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ، و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ: إِنَّهُمْ كَرِهُوا جُلُودَ السِّبَاعِ وَإِنْ دُبِغَ، وَهُوَ قَوْلُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ، وَشَدَّدُوا فِي لُبْسِهَا وَالصَّلاَةِ فِيهَا، قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: إِنَّمَا مَعْنَى قَوْلِ رَسُولِ اللهِ ﷺ "أَيُّمَا إِهَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَهُرَ" جِلْدُ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ، هَكَذَا فَسَّرَهُ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، و قَالَ إِسْحَاقُ: قَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ: إِنَّمَا يُقَالُ الإِهَابُ لِجِلْدِ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْمُحَبَّقِ وَمَيْمُونَةَ وَعَائِشَةَ وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا، وَرُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَرُوِيَ عَنْهُ عَنْ سَوْدَةَ، و سَمِعْت مُحَمَّدًا يُصَحِّحُ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَحَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ مَيْمُونَةَ، وَقَالَ: احْتَمَلَ أَنْ يَكُونَ رَوَى ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ مَيْمُونَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَرَوَى ابْنُ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ مَيْمُونَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: م/الحیض ۲۷ (۳۶۶)، د/اللباس ۴۱ (۴۱۲۳)، ن/الفرع ۴ (۴۲۴۶)، ق/اللباس ۲۵ (۳۶۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۲۲)، وط/الصید ۶ (۱۷)، وحم (۱/۲۱۹، ۲۷۰، ۲۷۹، ۲۸۰، ۳۴۳) (صحیح)
۱۷۲۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:'' جس چمڑے کو دباغت دی گئی ، وہ پاک ہوگیا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- بواسطہ ابن عباس نبی اکرمﷺ سے دوسری سندوں سے بھی اسی طرح مروی ہے، ۳- یہ حدیث ابن عباس سے کبھی میمونہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اور کبھی سودہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے ،۴- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو نبی اکرمﷺ سے مروی ابن عباس کی حدیث اور میمونہ کے واسطہ سے مروی ابن عباس کی حدیث کوصحیح کہتے ہوئے سنا، انہو ں نے کہا: احتمال ہے کہ ابن عباس نے بواسطہ میمونہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہو، اورابن عباس نے نبی اکرم ﷺ سے براہ راست بھی روایت کیا ، اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے ، سفیان ثوری ، ابن مبارک ، شافعی، احمداوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے ، ۵- نضربن شمیل نے بھی اس کا یہی مفہوم بیان کیا ہے ، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: نضربن شمیل نے کہا: ''إهاب'' اس جانور کے چمڑے کو کہاجاتا ہے ، جس کا گوشت کھایاجاتاہے ،۶- اکثراہل علم کا اسی پر عمل ہے ، وہ کہتے ہیں: مردارکاچمڑا دباغت دینے کے بعد پاک ہوجاتاہے ''، ۷- شافعی کہتے ہیں : کتے اورسورکے علاوہ جس مردارجانورکا چمڑا دباغت دیا جائے وہ پاک ہوجائے گا ، انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے ،۸- بعض اہل علم صحابہ اوردوسرے لوگوں نے درندوں کے چمڑوں کو مکروہ سمجھا ہے، اگرچہ اس کو دباغت دی گئی ہو، عبداللہ بن مبارک ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے ، ان لوگوں نے اسے پہننے اوراس میں صلاۃ اداکرنے کو براسمجھا ہے ،۹- اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے قول ''أيما إهاب دبغ فقد طهر'' کامطلب یہ ہے کہ اس جانورکا چمڑا دباغت سے پاک ہوجائے گا جس کا گوشت کھا یاجاتاہے، ۱۰- اس باب میں سلمہ بن محبق ، میمونہ اورعائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ ہر چمڑا جسے دباغت دیاگیا ہو وہ پاک ہے، لیکن اس عموم سے درندوں کی کھالیں نکل جائیں گی، کیوں کہ اس سلسلہ میں فرمان رسول ہے ''أن رسول الله ﷺ نهى عن جلود السباع'' یعنی آپ ﷺ نے درندوں کی کھالوں (کے استعمال) سے منع فرمایاہے، اس حدیث کی بنیاد پر درندوں کی کھالیں ہر صورت میں ناپاک ہی رہیں گی، اور ان کا استعمال ناجائز ہوگا۔


1729- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الأَعْمَشِ وَالشَّيْبَانِيِّ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ، قَالَ: أَتَانَا كِتَابُ رَسُولِ اللهِ ﷺ "أَنْ لاَ تَنْتَفِعُوا مِنَ الْمَيْتَةِ بِإِهَابٍ وَلاَ عَصَبٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَيُرْوَى، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ، عَنْ أَشْيَاخٍ لَهُمْ هَذَا الْحَدِيثُ وَلَيْسَ الْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ عُكَيْمٍ، أَنَّهُ قَالَ: أَتَانَا كِتَابُ النَّبِيِّ ﷺ قَبْلَ وَفَاتِهِ بِشَهْرَيْنِ، قَالَ: و سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ: كَانَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ يَذْهَبُ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ لِمَا ذُكِرَ فِيهِ قَبْلَ وَفَاتِهِ بِشَهْرَيْنِ وَكَانَ يَقُولُ: كَانَ هَذَا آخِرَ أَمْرِ النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ تَرَكَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ هَذَا الْحَدِيثَ لَمَّا اضْطَرَبُوا فِي إِسْنَادِهِ، حَيْثُ رَوَى بَعْضُهُمْ فَقَالَ: عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ، عَنْ أَشْيَاخٍ لَهُمْ مِنْ جُهَيْنَةَ.
* تخريج: د/اللباس ۴۲ (۴۱۲۷)، ن/الفرع ۵۴ (۲۴۵۵، ۲۴۵۶)، ق/اللباس ۲۶ (۳۶۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۴۲)، وحم (۴/۲۱۰، ۳۱۱) (صحیح)
( نیز ملاحظہ ہو: الإرواء ۳۸، والصحیحۃ ۳۱۳۳، والضعیفۃ ۱۱۸، تراجع الألبانی ۱۵ و ۴۷۰ )
۱۷۲۹- عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں: ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کا خط آیا کہ تم لوگ مردہ جانوروں کے چمڑے ۱؎ اورپٹھوں سے فائدے نہ حاصل کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- یہ حدیث عبداللہ بن عکیم سے ان کے شیوخ کے واسطہ سے بھی آئی ہے،۳- اکثراہل علم کااس پر عمل نہیں ہے،۴- عبداللہ بن عکیم سے یہ حدیث مروی ہے ، انہوں نے کہا: ہمارے پاس نبی اکرم ﷺ کاخط آپ کی وفات سے دوماہ پہلے آیا ،۵- میں نے احمد بن حسن کو کہتے سنا، احمد بن حنبل اسی حدیث کو اختیارکرتے تھے اس وجہ سے کہ اس میں آپ کی وفات سے دوماہ قبل کا ذکرہے ، وہ یہ بھی کہتے تھے: یہ نبی اکرم ﷺ کا آخری حکم تھا ،۶- پھراحمدبن حنبل نے اس حدیث کو چھوڑدیا اس لیے کہ راویوں سے اس کی سند میں اضطراب واقع ہے، چنانچہ بعض لوگ اسے عبداللہ بن عکیم سے ان کے جہینہ کے شیوخ کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : دباغت سے پہلے کی حالت پرمحمول ہے، گویا حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ دباغت سے قبل مردہ جانوروں کے چمڑے سے فائدہ اٹھانا صحیح نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
8-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ جَرِّ الإِزَارِ
۸-باب: تہ بندگھسیٹنے کی حرمت کا بیان​


1730- حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، ح وَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ وَعَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ وَزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ كُلُّهُمْ يُخْبِرُ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "لاَ يَنْظُرُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَى مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلاَئَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَسَمُرَةَ وَأَبِي ذَرٍّ وَعَائِشَةَ وَهُبَيْبِ بْنِ مُغَفَّلٍ وَحَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۵ (۳۶۶۵)، واللباس ۱ (۵۷۸۳)، و ۲ (۵۷۸۴)، و ۵ (۵۷۹۱)، م/اللباس ۹ (۲۰۸۵)، د/اللباس ۲۸ (۴۰۸۵)، ن/الزینۃ ۶۶ (۵۳۷۷)، ق/اللباس ۶ (۳۵۶۹)، و ۹ (۳۵۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۲۶ و ۷۲۲۷ و ۸۳۵۸)، وط/اللباس ۵ (۹) وحم (۲/۵، ۱۰، ۳۲، ۴۲، ۴۴، ۴۶، ۵۵، ۵۶، ۶۰، ۶۵، ۶۷، ۶۹، ۷۴، ۷۶، ۸۱) (صحیح)
۱۷۳۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جس نے تکبرسے اپنا تہ بند گھیسٹا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمرکی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں حذیفہ ، ابوسعیدخدری ، ابوہریرہ ، سمرہ ، ابوذر، عائشہ اور وہبیب بن مغفل رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : گویا تکبر کیے بغیر غیر ارادی طورپر تہ بند کا نیچے لٹک جانا اس میں کوئی حرج نہیں ہے،لیکن ارادۃ وقصداًنیچے رکھنا اور حدیث میں جو سزا بیان ہوئی ہے اسے معمولی جاننا یہ بڑا جرم ہے، کیوں کہ کپڑا گھسیٹ کرچلنا یہ تکبر کی ایک علامت ہے، جو لباس کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
9- بَاب مَا جَاءَ فِي جَرِّ ذُيُولِ النِّسَاءِ
۹-باب: عورتوں کے دامن لٹکانے کا بیان​


1731- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلاَئَ لَمْ يَنْظُرِ اللهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ فَكَيْفَ يَصْنَعْنَ النِّسَائُ بِذُيُولِهِنَّ قَالَ: يُرْخِينَ شِبْرًا، فَقَالَتْ إِذًا تَنْكَشِفُ أَقْدَامُهُنَّ، قَالَ: فَيُرْخِينَهُ ذِرَاعًا لاَ يَزِدْنَ عَلَيْهِ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وانظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۷۵۲۶) (صحیح)
۱۷۳۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو شخص تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا، ام سلمہ نے کہا: عورتیں اپنے دامنوں کاکیاکریں؟ '' آپ نے فرمایا:'' ایک بالشت لٹکالیں''، انہوں نے کہا: تب توان کے قدم کھل جائیں گے، آپ نے فرمایا:'' ایک بالشت لٹکائیں ۱؎ اور اس سے زیادہ نہ لٹکائیں ''۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ کپڑا لٹکانے کے سلسلہ میں مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ حکم ہے، مردوں کے لیے آدھی پنڈلی تک لٹکانا زیادہ بہتر ہے، تاہم ٹخنوں تک رکھنے کی اجازت ہے، لیکن ٹخنوں کا کھلا رکھنا بے حد ضروری ہے، اس کے برعکس عورتیں نہ صرف ٹخنے بلکہ پاؤں تک چھپائیں گی، خاص طور پر جب وہ باہر نکلیں تو اس کا خیال رکھیں کہ پاؤں پر کسی غیر محرم کی نظر نہ پڑے ۔


1732- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أُمِّ الْحَسَنِ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ حَدَّثَتْهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ شَبَّرَ لِفَاطِمَةَ شِبْرًا مِنْ نِطَاقِهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ رُخْصَةٌ لِلنِّسَائِ فِي جَرِّ الإِزَارِ لأَنَّهُ يَكُونُ أَسْتَرَ لَهُنَّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر د/اللباس ۴۰ (۴۱۱۷-۴۱۱۸)، و ق /اللباس ۱۳ (۳۵۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۵۷) (صحیح)
(ابوداود اور ابن ماجہ کی مذکورہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کی سند میں ''علی بن زید بن جدعان'' ضعیف راوی ہیں)
۱۷۳۲- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فاطمہ کے نطاق کے لیے ایک بالشت کا اندازہ لگایا ۱ ؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- بعض لوگوں نے اسے'' عن حماد بن سلمۃ عن علی بن زید عن الحسن عن امہ عن ام سلمۃ'' کی سندسے روایت کی ہے، ۲- اس حدیث میں عورتوں کے لیے تہ بند (چادر) گھسیٹنے کی اجازت ہے، اس لیے کہ یہ ان کے لیے زیادہ سترپوشی کا باعث ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی ایک بالشت کے برابرلٹکانے کی اجازت دی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
10-بَاب مَا جَاءَ فِي لُبْسِ الصُّوفِ
۱۰-باب: اونی کپڑاپہننے کا بیان​


1733- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلاَلٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، قَالَ: أَخْرَجَتْ إِلَيْنَا عَائِشَةُ كِسَائً مُلَبَّدًا وَإِزَارًا غَلِيظًا فَقَالَتْ: قُبِضَ رُوحُ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي هَذَيْنِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَحَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الخمس ۵ (۳۱۰۸)، واللباس ۱۹ (۵۸۱۸)، م/اللباس ۶ (۲۰۸۰)، د/اللباس ۸ (۴۰۳۶)، ق/اللباس ۱ (۳۵۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۹۳)، وحم (۶/۳۲، ۱۳۱) (صحیح)
۱۷۳۳- ابوبردہ کہتے ہیں: عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہمارے سامنے ایک اونی چادراورموٹا تہ بندنکالا اورکہا: رسول اللہ ﷺ کی وفات انہی دونوں کپڑوں میں ہوئی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی اورابن مسعود رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : نبی اکرم ﷺ نے یہ دعاکی تھی کہ ''اللهم أحيني مسكينا وأمتني مسكينا'' ( اللہ مجھے مسکین کی زندگی عطاکر اور اسی حالت میں میری وفات ہو) اللہ نے آپ کی یہ دعا قبول کی چنانچہ آپ کی وفات حدیث میں مذکور دومعمولی کپڑوں میں ہوئی، غور کا مقام ہے کہ آپ زہد کے کس مقام پر فائز تھے، اور دنیاوی مال ومتاع سے کس قدر دور رہتے تھے۔


1734- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ، عَن حُمَيْدٍ الأَعْرَجِ ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَن ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "كَانَ عَلَى مُوسَى يَوْمَ كَلَّمَهُ رَبُّهُ كِسَائُ صُوفٍ وَجُبَّةُ صُوفٍ وَكُمَّةُ صُوفٍ وَسَرَاوِيلُ صُوفٍ وَكَانَتْ نَعْلاَهُ مِنْ جِلْدِ حِمَارٍ مَيِّتٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ حُمَيْدٍ الأَعْرَجِ وَحُمَيْدٌ هُوَ ابْنُ عَلِيٍّ الْكُوفِيُّ، قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: حُمَيْدُ بْنُ عَلِيٍّ الأَعْرَجُ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ وَحُمَيْدُ بْنُ قَيْسٍ الأَعْرَجُ الْمَكِّيُّ صَاحِبُ مُجَاهِدٍ ثِقَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْكُمَّةُ الْقَلَنْسُوَةُ الصَّغِيرَةُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۳۲۸) (ضعیف جدا)
(سند میں حمید بن علی کوفی ضعیف ہیں)
۱۷۳۴- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جس دن موسیٰ علیہ السلام سے ان کے رب نے گفتگوکی اس دن موسیٰ علیہ السلام کے بدن پر پرانی چادر، اونی جبہ، اونی ٹوپی ، اوراونی سراویل(پائجامہ) تھا اوران کے جوتے مرے ہوئے گدھے کے چمڑے کے تھے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ہم اسے صرف حمیداعرج کی روایت سے جانتے ہیں، حمید سے مراد حمید بن علی کوفی ہیں،۲- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا کہ حمید بن علی اعرج منکرالحدیث ہیں اورحمید بن قیس اعرج مکی جومجاہد کے شاگردہیں، وہ ثقہ ہیں ، ۳- کمہ: چھوٹی ٹوپی کو کہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
11- بَاب مَا جَاءَ فِي الْعِمَامَةِ السَّوْدَائِ
۱۱-باب: سیاہ عمامہ (کالی پگڑی) کا بیان​


1735- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ مَكَّةَ يَوْمَ الْفَتْحِ وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَائُ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعُمَرَ وَابْنِ حُرَيْثٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَرُكَانَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الحج ۸۴ (۱۳۵۸)، د/اللباس ۲۴ (۴۰۷۶)، ن/الحج ۱۰۷ (۲۸۷۲)، والزینۃ ۱۰۹ (۵۳۴۶)، ق/الجہاد۲۲ (۲۸۲۲)، واللباس ۱۴ (۲۵۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۸۹)، وحم (۳/۳۶۳، ۳۸۷) (صحیح)
۱۷۳۵- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فتح مکہ کے دن مکہ میں اس حال میں داخل ہوئے کہ آپ کے سرپر سیاہ عمامہ تھا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں علی ، عمر، ابن حریث ، ابن عباس اوررکانہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے کالی پگڑی پہننے کا جواز ثابت ہوتاہے، مکمل کالا لباس نہ پہننا بہتر ہے، کیوں کہ یہ ایک مخصوص جماعت کا ماتمی لباس ہے، اس لیے اس کی مشابہت سے بچنا اور اجتناب کرنا ضروری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
12- بَاب فِي سَدْلِ الْعِمَامَةِ بَيْنَ الْكَتِفَيْنِ
۱۲-باب: دونوں شانوں کے بیچ عمامہ (پگڑی) لٹکانے کا بیان​


1736- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا اعْتَمَّ سَدَلَ عِمَامَتَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، قَالَ نَافِعٌ: وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَسْدِلُ عِمَامَتَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: وَرَأَيْتُ الْقَاسِمَ وَسَالِمًا يَفْعَلاَنِ ذَلِكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَلاَ يَصِحُّ حَدِيثُ عَلِيٍّ فِي هَذَا مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۰۳۱) (صحیح)
۱۷۳۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب نبی اکرمﷺ عمامہ باندھتے تو اسے اپنے شانوں کے بیچ لٹکالیتے ۔
نافع کہتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے عمامہ کو شانوں کے بیچ لٹکاتے تھے۔ عبیداللہ بن عمر کہتے ہیں: میں نے قاسم اورسالم کو بھی ایساکرتے ہوئے دیکھا۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ،۲- اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے ، لیکن ان کی حدیث سند کے اعتبارسے صحیح نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ خَاتَمِ الذَّهَبِ
۱۳-باب: مرد کے لیے سونے کی انگوٹھی پہننے کی حرمت کا بیان​


1737- حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: نَهَانِي النَّبِيُّ ﷺ عَنِ التَّخَتُّمِ بِالذَّهَبِ، وَعَنْ لِبَاسِ الْقَسِّيِّ، وَعَنْ الْقِرَائَةِ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ، وَعَنْ لِبَاسِ الْمُعَصْفَرِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۶۴ و ۱۷۲۵ (صحیح)
۱۷۳۷- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے مجھے سونے کی انگوٹھی ،قسی (ایک ریشمی کپڑا)کا لباس ، رکوع وسجود میں قرآن پڑھنے اورمعصفر(کسم سے رنگے ہوئے زرد)کپڑے سے منع فرمایا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : سونا مردوں کے لیے حرام ہے، نہ کہ عورتوں کے لیے ،لہذا ممانعت مردوں کے لیے ہے، رکوع اور سجدہ میں اللہ کی تسبیح بیان کی جاتی ہے، اس میں قرآن پڑھنا صحیح نہیں ہے، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایاہے۔


1738- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْمَعْنِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ اللَّيْثِيُّ قَالَ: أَشْهَدُ عَلَى عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّهُ حَدَّثَنَا أَنَّهُ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ التَّخَتُّمِ بِالذَّهَبِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَمُعَاوِيَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عِمْرَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو التَّيَّاحِ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ حُمَيْدٍ.
* تخريج: ن/الزینۃ ۴۴ (۵۱۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۱۸)، وحم (۴/۴۲۸، ۴۴۳) (صحیح)
۱۷۳۸- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی انگوٹھی سے منع فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عمران کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی ، ابن عمر، ابوہریرہ اورمعاویہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 
Top