• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
9- بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنِ الأَكْلِ وَالشُّرْبِ بِالشِّمَالِ
۹- باب: بائیں ہاتھ سے کھانے پینے کی ممانعت کا بیان​


1799-حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "لاَ يَأْكُلْ أَحَدُكُمْ بِشِمَالِهِ، وَلاَ يَشْرَبْ بِشِمَالِهِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَأْكُلُ بِشِمَالِهِ، وَيَشْرَبُ بِشِمَالِهِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَعُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ وَسَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَحَفْصَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا رَوَى مَالِكٌ وَابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَرَوَى مَعْمَرٌ وَعُقَيْلٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَرِوَايَةُ مَالِكٍ وَابْنُ عُيَيْنَةَ أَصَحُّ.
* تخريج: م/الأشربۃ ۱۳ (۲۰۲۰) د/الأطعمۃ ۲۰ (۳۷۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۷۹)، وط/صفۃ النبیﷺ ۴ (۶)، وحم (۲/۱۰۶)، دي/الأطعمۃ ۹ (۲۰۷۳) (صحیح)
۱۷۹۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے کوئی آدمی نہ بائیں ہاتھ سے کھائے اورنہ بائیں ہاتھ سے پیئے ، اس لیے کہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتاہے اوربائیں ہاتھ سے پیتاہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اسی طرح مالک اورابن عیینہ نے بسندزہری عن ابی بکر بن عبیداللہ عن ابن عمر روایت کی ہے، معمراورعقیل نے اسے زہری سے، بسند سالم بن عبداللہعن ابن عمر روایت کی ہے ، مالک اورابن عیینہ کی روایت زیادہ صحیح ہے،۳- اس باب میں جابر، عمربن ابی سلمہ ، سلمہ بن الاکوع ، انس بن مالک اورحفصہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دائیں ہاتھ سے کھانا پینا ضروری ہے، اور بائیں ہاتھ سے مکروہ ہے، البتہ کسی عذر کی صورت میں بائیں کا استعمال کھانے پینے کے لیے جائز ہے۔


1800- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَأْكُلْ بِيَمِينِهِ وَلْيَشْرَبْ بِيَمِينِهِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَأْكُلُ بِشِمَالِهِ وَيَشْرَبُ بِشِمَالِهِ".
* تخريج: انظر ما قبلہ (لم یذکرہ المزي) (صحیح)
۱۸۰۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب تم میں سے کوئی کھائے تو دائیں ہاتھ سے کھائے اوردائیں ہاتھ سے پیئے ، اس لیے کہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتاہے اوربائیں ہاتھ سے پیتاہے '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
10-بَاب مَا جَاءَ فِي لَعْقِ الأَصَابِعِ بَعْدَ الأَكْلِ
۱۰-باب: کھانے کے بعدانگلیاں چاٹنے کا بیان​


1801- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَلْعَقْ أَصَابِعَهُ، فَإِنَّهُ لاَ يَدْرِي فِي أَيَّتِهِنَّ الْبَرَكَةُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ سُهَيْلٍ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ حَدِيثُ عَبْدِ الْعَزِيزِ مِنَ الْمُخْتَلِفِ لاَيُعْرَفُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِهِ.
* تخريج: م/الأشربۃ ۱۸ (۲۰۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۲۷)، وحم (۲/۳۴۰، ۴۱۵) (صحیح)
۱۸۰۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اپنی انگلیاں چاٹ لے ، کیوں کہ وہ نہیں جانتاکہ ان میں سے کس انگلی میں برکت ہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا توانہوں نے کہا: عبدالعزیزکی یہ حدیث ، مختلف کے قبیل سے ہے، اور صرف ان کی روایت سے ہی جانی جاتی ہے ،۳- اس باب میں جابر، کعب بن مالک اورانس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ، ہم اسے اس سند سے صرف سہیل کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی یہ کوئی نہیں جانتا ہے کہ برکت اس میں تھی جسے وہ کھاچکا یا اس میں ہے جو اس کی انگلیوں میں لگاہوا ہے، یا اس میں ہے جوکھانے کے برتن میں باقی رہ گیا ہے، اس لیے کھاتے وقت کھانے والے کو ان سب کا خیال رکھنا ہے، تاکہ اس برکت سے جو کھانے میں اللہ نے رکھی ہے محروم نہ رہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
11-بَاب مَا جَاءَ فِي اللُّقْمَةِ تَسْقُطُ
۱۱-باب: گرے ہوے لقمہ کا بیان​


1802- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ طَعَامًا فَسَقَطَتْ لُقْمَةٌ فَلْيُمِطْ مَا رَابَهُ مِنْهَا ثُمَّ لِيَطْعَمْهَا وَلاَيَدَعْهَا لِلشَّيْطَانِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ.
* تخريج: م/الأشربۃ ۱۸ (۲۰۳۳)، ق/الأطعمۃ ۱۳ (۳۲۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۸)، وحم (۳/۳۰۱، ۲۳۱، ۳۳۱)، ۳۳۷، ۳۶۶، ۳۹۴) (صحیح)
۱۸۰۲- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے اور نوالہ گرجائے تو اس میں سے جونا پسندسمجھے اسے ہٹادے ۱؎ ، اسے پھر کھالے ، اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں انس سے بھی روایت ہے ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی گرے ہوئے نوالہ پر جو گردوغبار جم گیا ہے، اسے ہٹا کر اللہ کی اس نعمت کی قدر کرے، اسے کھالے، شیطان کے لیے نہ چھوڑے کیوں کہ چھوڑنے سے اس نعمت کی ناقدری ہوگی، لیکن اس کابھی لحاظ رہے کہ وہ نوالہ ایسی جگہ نہ گرا ہو جو ناپاک اور گندی ہو، اگر ایسی بات ہے تو بہتر ہوگا کہ اسے صاف کرکے کسی جانور کو کھلادے۔


1803- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا أَكَلَ طَعَامًا لَعِقَ أَصَابِعَهُ الثَّلاَثَ، وَقَالَ: "إِذَا مَا وَقَعَتْ لُقْمَةُ أَحَدِكُمْ فَلْيُمِطْ عَنْهَا الأَذَى وَلْيَأْكُلْهَا وَلاَ يَدَعْهَا لِلشَّيْطَانِ" وَأَمَرَنَا أَنْ نَسْلِتَ الصَّحْفَةَ، وَقَالَ: "إِنَّكُمْ لاَ تَدْرُونَ فِي أَيِّ طَعَامِكُمْ الْبَرَكَةُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الأشربۃ ۱۸ (۲۰۳۴)، د/الأطعمۃ ۵۰ (۳۸۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۳)، وحم (۳/۱۱۷، ۲۹۰)، دي/۱ الأطعمۃ ۸ (۲۰۷۱) (صحیح)
۱۸۰۳- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ جب کھانا کھاتے تو اپنی تینوں انگلیوں کوچاٹتے تھے ۱؎ ، آپ نے فرمایا: '' جب تم میں سے کسی کا نوالہ گرجائے تو اس سے گردو غباردورکرے اوراسے کھالے، اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے''، آپ نے ہمیں پلیٹ چاٹنے کا حکم دیا اورفرمایا:'' تم لوگ نہیں جانتے کہ تمہارے کھانے کے کس حصے میں برکت رکھی ہوئی ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے ۔
وضاحت ۱؎ : نبی اکرمﷺ نے کھانے کے لیے جن تین انگلیوں کا استعمال کیا وہ یہ ہیں: انگوٹھا، شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی۔


1804- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْمُعَلَّى بْنُ رَاشِدٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي جَدَّتِي أُمُّ عَاصِمٍ وَكَانَتْ أُمَّ وَلَدٍ لِسِنَانِ بْنِ سَلَمَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيْنَا نُبَيْشَةُ الْخَيْرِ وَنَحْنُ نَأْكُلُ فِي قَصْعَةٍ، فَحَدَّثَنَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "مَنْ أَكَلَ فِي قَصْعَةٍ ثُمَّ لَحِسَهَا اسْتَغْفَرَتْ لَهُ الْقَصْعَةُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ الْمُعَلَّى بْنِ رَاشِدٍ، وَقَدْ رَوَى يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ عَنْ الْمُعَلَّى بْنِ رَاشِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ.
* تخريج: ق/الأطعمۃ ۱۰ (۳۲۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۸۸) (ضعیف)
(سند میں معلی بن راشد اورام عاصم دونوں لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں)
۱۸۰۴- ام عاصم کہتی ہیں: ہمارے پاس نبیشہ الخیرآئے ،ہم لوگ ایک پیالے میں کھانا کھارہے تھے ، تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جوشخص پیالے میں کھائے پھر اسے چاٹے توپیالہ اس کے لیے استغفار کرتا ہے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ، ہم اسے صرف معلی بن راشد کی روایت سے جانتے ہیں، ۲-یزید بن ہارون اورکئی ائمہ حدیث نے بھی یہ حدیث معلی بن راشد سے روایت کی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
12- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الأَكْلِ مِنْ وَسَطِ الطَّعَامِ
۱۲-باب: بیچ سے کھانے کی کراہت کا بیان​


1805- حَدَّثَنَا أَبُو رَجَائٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "الْبَرَكَةُ تَنْزِلُ وَسَطَ الطَّعَامِ، فَكُلُوا مِنْ حَافَتَيْهِ وَلاَ تَأْكُلُوا مِنْ وَسَطِهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، إِنَّمَا يُعْرَفُ مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
* تخريج: د/الأطعمۃ ۱۸ (۳۷۷۲)، ق/الأطعمۃ ۱۲ (۳۲۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۵۶۶)، دي/الأطعمۃ ۱۶ (۲۰۹۰) (صحیح)
۱۸۰۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' برکت کھانے کے بیچ میں نازل ہوتی ہے ، اس لیے تم لوگ اس کے کناروں سے کھاؤ، بیچ سے مت کھاؤ '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اور صرف عطاء بن سائب کی روایت سے معروف ہے ، اسے شعبہ اورثوری نے بھی عطاء بن سائب سے روایت کیا ہے ،۳- اس باب میں ابن عمرسے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس میں کھانے کا ادب و طریقہ بتایاگیا ہے کہ درمیان سے مت کھاؤ بلکہ اپنے سامنے اور کنارے سے کھاؤ، کیوں کہ برکت کھانے کے بیچ میں نازل ہوتی ہے، اور اس برکت سے تاکہ سبھی فائدہ اٹھائیں، دوسری بات یہ ہے کہ ایسا کرنے سے جو حصہ کھانے کا بچ جائے گا وہ صاف ستھرا رہے گا، اور دوسروں کے کام آجائے گا، اس لیے اس کا خیال رکھا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَكْلِ الثُّومِ وَالْبَصَلِ
۱۳-باب: لہسن اورپیازکھانے کی کراہت کا بیان​


1806- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، حَدَّثَنَا عَطَائٌ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: " مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ - قَالَ أَوَّلَ مَرَّةٍ الثُّومِ ثُمَّ قَالَ: الثُّومِ وَالْبَصَلِ وَالْكُرَّاثِ - فَلاَ يَقْرَبْنَا فِي مَسْجِدِنَا ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَأَبِي أَيُّوبَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ وَقُرَّةَ بْنِ إِيَاسٍ الْمُزَنِيِّ وَابْنِ عُمَرَ.
* تخريج: خ/الأذان ۱۶ (۸۵۴)، والأطعمۃ ۴۹ (۵۴۵۲)، والاعتصام ۲۴ (۷۳۵۹)، م/المساجد ۱۷ (۵۶۴)، د/الأطعمۃ ۴۱ (۳۸۲۲)، ن/المساجد ۱۶ (۷۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۴۷)، وحم (۳/۳۷۴، ۳۸۷) (صحیح)
۱۸۰۶- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جوشخص ان میں سے لہسن کھائے، یا لہسن ، پیاز اورگندنا ۱؎ - کھائے وہ ہماری مسجدوں میں ہمارے قریب نہ آئے'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں عمر، ابوایوب، ابوہریرہ ، ابوسعیدخدری، جابربن سمرہ، قرہ بن ایاس مزنی اورابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : بدبودار سبزیاں یا ایسی چیزیں جن میں بدبو ہوتی ہے۔
وضاحت ۲؎ : بعض احادیث میں '' فلا یقربن المساجد''ہے، اس حدیث کا مفہوم یہی ہے کہ لہسن ، پیاز اور اسی طرح کی بدبودار چیزیں کھاکرمسجدوں میں نہ آیا جائے، کیوں کہ فرشتے اس سے اذیت محسوس کرتے ہیں۔ دیگر بد بودار کھانے اور بیڑی سگریٹ وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔


1807- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: نَزَلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَلَى أَيُّوبَ، وَكَانَ إِذَا أَكَلَ طَعَامًا بَعَثَ إِلَيْهِ بِفَضْلِهِ، فَبَعَثَ إِلَيْهِ يَوْمًا بِطَعَامٍ، وَلَمْ يَأْكُلْ مِنْهُ النَّبِيُّ ﷺ فَلَمَّا أَتَى أَبُوأَيُّوبَ النَّبِيَّ ﷺ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "فِيهِ ثُومٌ"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَحَرَامٌ هُوَ؟ قَالَ: "لاَ وَلَكِنِّي أَكْرَهُهُ مِنْ أَجْلِ رِيحِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۷) (صحیح)
۱۸۰۷- جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ (ہجرت کے بعد) ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھرٹھہرے، آپ جب بھی کھانا کھاتے تو اس کا کچھ حصہ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجتے، آپ نے ایک دن(پورا) کھانا (واپس) بھیجا ،اس میں سے نبی اکرم ﷺ نے کچھ نہیں کھایا، جب ابوایوب نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اورآپ سے اس کا ذکرکیا تو آپ نے فرمایا:'' اس میں لہسن ہے ؟، انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا وہ حرام ہے؟آپ نے فرمایا:'' نہیں ، لیکن اس کی بوکی وجہ سے میں اسے ناپسند کرتاہوں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي أَكْلِ الثُّومِ مَطْبُوخًا
۱۴-باب : پکا ہوا لہسن کھانے کی اجازت کا بیان​


1808- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَدُّوَيْهِ، حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِيحٍ وَالِدُ وَكِيعٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ حَنْبَلٍ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ قَالَ: نُهِيَ عَنْ أَكْلِ الثُّومِ إِلاَّ مَطْبُوخًا.
* تخريج: د/الأطعمۃ ۴۱ (۳۸۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۲۷) (صحیح)
( سند میں ابواسحاق سبیعی مختلط اورمدلس راوی ہیں،لیکن شواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ، الإرواء :۲۵۱۲)
۱۸۰۸- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لہسن کھانے سے منع کیا گیا ہے سوائے اس کے کہ وہ پکاہواہو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : پکنے سے اس میں پائی جانے والی بو ختم ہوجاتی ہے، اس لیے اسے کھا کر مسجد جانے میں کوئی حرج نہیں۔


1809- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ حَنْبَلٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: لاَ يَصْلُحُ أَكْلُ الثُّومِ إِلاَّ مَطْبُوخًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِذَلِكَ الْقَوِيِّ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنْ عَلِيٍّ قَوْلُهُ، وَرُوِي عَنْ شَرِيكِ بْنِ حَنْبَلٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً، قَالَ: مُحَمَّدٌ الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِيحٍ صَدُوقٌ وَالْجَرَّاحُ بْنُ الضَّحَّاكِ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ.
* تخريج: (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۲۷) (ضعیف)
(سند میں ا بوا سحاق سبیعی مدلس اور مختلط راوی ہیں)
۱۸۰۹- شریک بن حنبل سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ لہسن کھانا مکروہ سمجھتے تھے، سوائے اس کے کہ وہ پکاہواہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث کی سند زیادہ قوی نہیں ہے ، یہ علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے،۲- شریک بن حنبل کے واسطہ سے یہ حدیث نبی اکرم ﷺ سے مرسل طریقہ سے بھی آئی ہے ،۳- محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: راوی جراح بن ملیح صدوق ہیں اورجراح بن ضحاک مقارب الحدیث ہیں۔


1810- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أُمَّ أَيُّوبَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَزَلَ عَلَيْهِمْ، فَتَكَلَّفُوا لَهُ طَعَامًا فِيهِ مِنْ بَعْضِ هَذِهِ الْبُقُولِ، فَكَرِهَ أَكْلَهُ، فَقَالَ لأَصْحَابِهِ: "كُلُوهُ فَإِنِّي لَسْتُ كَأَحَدِكُمْ، إِنِّي أَخَافُ أَنْ أُوذِيَ صَاحِبِي". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَأُمُّ أَيُّوبَ هِيَ امْرَأَةُ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ.
* تخريج: ق/الأطعمۃ ۵۹ (۳۳۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۰۴) (حسن)
۱۸۱۰- ام ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی اکرم ﷺ (ہجرت کے بعد) ان کے گھرٹھہرے ، ان لوگوں نے آپ کے لیے پرتکلف کھانا تیارکیا جس میں کچھ ان سبزیوں(گندنا وغیرہ) میں سے تھی ، چنانچہ آپ نے اسے کھانا ناپسندکیا اورصحابہ سے فرمایا:'' تم لوگ اسے کھاؤ، اس لیے کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں، میں ڈرتاہوں کہ میں اپنے رفیق (جبریل) کو تکلیف پہچاؤں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ،۲- ام ایوب ابوایوب انصاری کی بیوی ہیں۔


1811- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ أَبِي خَلْدَةَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، قَالَ: الثُّومُ مِنْ طَيِّبَاتِ الرِّزْقِ. وَأَبُو خَلْدَةَ اسْمُهُ خَالِدُ بْنُ دِينَارٍ وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَقَدْ أَدْرَكَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، وَسَمِعَ مِنْهُ وَأَبُو الْعَالِيَةِ اسْمُهُ رُفَيْعٌ هُوَ الرِّيَاحِيُّ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ: كَانَ أَبُوخَلْدَةَ خِيَارًا مُسْلِمًا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۶۴۶) (ضعیف الإسناد)
(سند میں محمد بن حمید رازی ضعیف راوی ہیں)
۱۸۱۱- ابوالعالیہ کہتے ہیں کہ لہسن حلال رزق ہے۔
ابوخلدہ کا نام خالدبن دینارہے ، وہ محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں، انہوں نے انس بن مالک سے ملاقات کی ہے اور ان سے حدیث سنی ہے ، ابوالعالیہ کانام رفیع ہے اوریہ رُفیع ریاحی ہیں، عبدالرحمن بن مہدی کہتے ہیں: ابوخلدہ ایک نیک مسلمان تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
15- بَاب مَا جَاءَ فِي تَخْمِيرِ الإِنَائِ وَإِطْفَائِ السِّرَاجِ وَالنَّارِ عِنْدَ الْمَنَامِ
۱۵-باب: سوتے وقت برتن ڈھانپنے اورچراغ اورآگ کے بجھانے کا بیان​


1812- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "أَغْلِقُوا الْبَابَ وَأَوْكِئُوا السِّقَائَ وَأَكْفِئُوا الإِنَائَ أَوْ خَمِّرُوا الإِنَائَ وَأَطْفِئُوا الْمِصْبَاحَ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لاَ يَفْتَحُ غَلَقًا وَلاَ يَحِلُّ وِكَائً وَلاَ يَكْشِفُ آنِيَةً وَإِنَّ الْفُوَيْسِقَةَ تُضْرِمُ عَلَى النَّاسِ بَيْتَهُمْ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ جَابِرٍ.
* تخريج: خ/بدء الخلق ۶ (۲۲۳۱۶)، والأشربۃ ۲۲ (۵۶۲۳، ۵۶۲۴)، والاستئذان ۴۹ (۶۲۹۵)، م/الأشربۃ ۱۲ (۲۰۱۲)، د/الأشربۃ ۲۲ (۳۷۳۱-۳۷۳۴)، ق/الأشربۃ ۱۶ (۳۴۱۰)، والأدب ۴۶ (۳۷۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۳۴)، وحم (۳/۳۵۵)، ویأتي برقم ۲۸۵۷ (صحیح)
۱۸۱۲- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' (سوتے وقت) دروازہ بند کرلو، مشکیزہ کا منہ باندھ دو، برتنوں کو اوندھا کردو یا انہیں ڈھانپ دواورچراغ بجھادو، اس لیے کہ شیطان کسی بنددروازے کو نہیں کھولتا ہے اورنہ کسی بندھن اوربرتن کو کھولتا ہے ، (اورچراغ اس لیے بجھادوکہ) چوہالوگوں کا گھرجلادیتاہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- جابرسے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے،۳- اس باب میں ابن عمر، ابوہریرہ اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے بہت سے فائدے حاصل ہوئے: (۱) بسم اللہ پڑھ کر دروازہ بند کرنے سے بندہ جن اور شیاطین سے محفوظ ہوتا ہے، (۲)اور چوروں سے بھی گھر محفوظ ہوجاتاہے، (۳) برتن کا منہ باندھنے اور ڈھانپ دینے سے اس میں موجود چیزکی زہریلے جانوروں کے اثرات نیز وبائی بیماریوں اور گندگی وغیرہ سے حفاظت ہوجاتی ہے، (۴) چراغ اور آگ کے بجھانے سے گھر آگ کے خطرات سے محفوظ ہوتاہے۔


1813- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ تَتْرُكُوا النَّارَ فِي بُيُوتِكُمْ حِينَ تَنَامُونَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الاستئذان ۴۹ (۶۲۴۳)، م/الأشربۃ ۱۲ (۲۰۱۵)، د/الأدب ۱۷۳ (۵۲۴۶)، ق/الأدب ۴۶ (۳۷۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۱۴) (صحیح)
۱۸۱۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' سوتے وقت اپنے گھروں میں(جلتی ہوئی) آگ نہ چھوڑو''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
16-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْقِرَانِ بَيْنَ التَّمْرَتَيْنِ
۱۶-باب: دو دو کھجور ایک لقمے میں کھانے کی کراہت کا بیان​


1814- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ وَعُبَيْدُاللهِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ جَبَلَةَ بْنِ سُحَيْمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ يُقْرَنَ بَيْنَ التَّمْرَتَيْنِ حَتَّى يَسْتَأْذِنَ صَاحِبَهُ . قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الشرکۃ ۴ (۲۴۹۰)، م/الأشربۃ ۲۵ (۲۰۴۵)، د/الأطعمۃ ۴۴ (۳۸۳۴)، ق/الأطعمۃ ۴۱ (۳۳۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۶۷)، وحم (۲/۶۰)، دي/الأطعمۃ ۲۵ (۲۱۰۳) (صحیح)
۱۸۱۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے دوکھجورایک ساتھ کھانے سے منع فرمایا یہاں تک کہ اپنے ساتھ کھانے والے کی اجازت حاصل کرلے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں سعد مولی ابوبکر سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : ایسا وہ کرے گا جو کھانے کے سلسلہ میں بے انتہا حریص اور لالچی ہو، اور جسے ساتھ میں دوسرے کھانے والوں کا بالکل لحاظ نہ ہو،اس لیے اس طرح کے حرص اور لالچ سے دور رہنا چاہیے، خاص طورپر جب کھانے کی مقدار کم ہو، یہ ممانعت اجتماعی طور پر کھانے کے سلسلہ میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
17-بَاب مَا جَاءَ فِي اسْتِحْبَابِ التَّمْرِ
۱۷-باب: کھجور کی فضیلت کا بیان​


1815- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ عَسْكَرٍ الْبَغْدَادِيُّ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالاَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "بَيْتٌ لاَ تَمْرَ فِيهِ جِيَاعٌ أَهْلُهُ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَلْمَى امْرَأَةِ أَبِي رَافِعٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، قَالَ: وَسَأَلْتُ الْبُخَارِيَّ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: لاَ أَعْلَمُ أَحَدًا رَوَاهُ غَيْرَ يَحْيَى ابْنِ حَسَّانَ.
* تخريج: م/الأشربۃ ۲۶ (۲۰۴۶)، د/الأطعمۃ ۴۲ (۳۸۳۰)، ق/الأطعمۃ ۲۸ (۳۳۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۴۲)، دي/الأطعمۃ ۲۶ (۲۱۰۵) (صحیح)
۱۸۱۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جس گھرمیں کھجورنہیں اس گھر کے لوگ بھوکے ہیں'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ، ہم اسے ہشام بن عروہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- میں نے امام بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھاتوانہوں نے کہا: یحیی بن حسان کے علاوہ میں نہیں جانتاہوں کسی نے اسے روایت کیا ہے ،۳- اس باب میں ابورافع کی بیوی سلمی رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے ۔
وضاحت ۱؎ : یہ اس وقت کی بات ہے جب لوگوں کی اصل غذا صرف کھجورتھی، یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے کھجور کی اہمیت بتانا مقصود ہو، آج بھی جس علاقہ اور جگہ کی کوئی خاص چیز ہوتی ہے جو وہاں کے لوگوں کی اصل غذا ہو تو اس کی طرف نسبت کرکے اس کی اہمیت واضح کی جاتی ہے۔حدیث کے ظاہری معانی کے پیش نظرکھجورکے فوائد کی بناپر گھرمیں ہروقت کھجورکی ایک مقدار ضرور رہنی چاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
18- بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَمْدِ عَلَى الطَّعَامِ إِذَا فُرِغَ مِنْهُ
۱۸-باب: کھانے کے بعداللہ کی حمدوثنابیان کرنے کا بیان​


1816- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ اللهَ لَيَرْضَى عَنْ الْعَبْدِ أَنْ يَأْكُلَ الأَكْلَةَ أَوْ يَشْرَبَ الشَّرْبَةَ فَيَحْمَدَهُ عَلَيْهَا". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَعَائِشَةَ وَأَبِي أَيُّوبَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ نَحْوَهُ وَلاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ.
* تخريج: م/الذکر والدعاء ۲۴ (۲۷۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۷)، وحم (۳/۱۰۰، ۱۱۷) (صحیح)
۱۸۱۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' بے شک اللہ تعالیٰ اس بندے سے راضی ہوتا ہے جوایک لقمہ کھاتا ہے یا ایک گھونٹ پیتاہے ، تو اس پر اللہ کی تعریف کرتا ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- زکریا بن ابی زائدہ سے اسے کئی لوگوں نے اسی طرح روایت کیا ہے ، ہم اسے صرف زکریا بن ابی زائدہ کی روایت سے جانتے ہیں،۳- اس باب میں عقبہ بن عامر، ابوسعید، عائشہ ، ابوایوب اورابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 
Top