• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
19-بَاب مَا جَاءَ فِي الأَكْلِ مَعَ الْمَجْذُومِ
۱۹-باب: کوڑھی کے ساتھ کھانے کا بیان​


1817- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الأَشْقَرُ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَخَذَ بِيَدِ مَجْذُومٍ فَأَدْخَلَهُ مَعَهُ فِي الْقَصْعَةِ، ثُمَّ قَالَ: "كُلْ بِسْمِ اللهِ ثِقَةً بِاللهِ وَتَوَكُّلاً عَلَيْهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ يُونُسَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ الْمُفَضَّلِ بْنِ فَضَالَةَ، وَالْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ هَذَا شَيْخٌ بَصْرِيٌّ، وَالْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ شَيْخٌ آخَرُ بَصْرِيٌّ أَوْثَقُ مِنْ هَذَا وَأَشْهَرُ، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَخَذَ بِيَدِ مَجْذُومٍ وَحَدِيثُ شُعْبَةَ أَثْبَتُ عِنْدِي وَأَصَحُّ.
* تخريج: د/الطب ۳۴ (۳۹۲۵)، ق/الطب ۴۴ (۳۵۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۱۰) (ضعیف)
(سند میں مفضل بصری ضعیف راوی ہیں)
۱۸۱۷- جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک کوڑھی کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ پیالے میں داخل کیا، پھر فرمایا:'' اللہ کا نام لے کراس پر بھروسہ رکھتے ہوئے اور توکل کرتے ہوئے کھاؤ ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے ، ہم اسے صرف یونس بن محمد کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ مفضل بن فضالہ کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں، ۲- یہ مفضل بن فضالہ ایک بصری شیخ ہیں، مفضل بن فضالہ ایک دوسرے شیخ بصری ہیں وہ ان سے زیادہ ثقہ اورشہرت کے مالک راوی ہیں، ۳- شعبہ نے اس حدیث کو بطریق : ''حبيب بن الشهيد، عن ابن بريدة، عن ابن عمر '' روایت کیا ہے کہ انہوں (ابن عمر) نے ایک کوڑھی کا ہاتھ پکڑا، میرے نزدیک شعبہ کی حدیث زیادہ صحیح اورثابت ہے۔
وضاحت ۱؎ : علماء کا کہنا ہے کہ ایسا آپ نے ان لوگوں کو دکھانے کے لیے کیا جو اپنے ایمان و توکل میں قوی ہیں، اور ناپسندیدہ امر پر صبر سے کام لیتے ہیں اور اسے قضا ء وقدر کے حوالہ کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جو ناپسنددیدہ امر پرصبر نہیں کرپاتے اور اپنے بارے میں خوف محسوس کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے آپ نے یہ فرمایا: ''فر من المجذوم كما تفر من الأسد'' چنانچہ ایسے لوگوں سے بچنا اور اجتناب کرنا مستحب ہے، لیکن واجب نہیں ہے، اور ان کے ساتھ کھانا پینا بیان جواز کے لیے ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
20- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْمُؤْمِنَ يَأْكُلُ فِي مِعًى وَاحِدٍ وَالْكَافِرُ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَائٍ
۲۰- باب: مومن ایک آنت میں کھاتاہے اورکافرسات آنت میں​


1818- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الْكَافِرُ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَائٍ، وَالْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ فِي مِعًى وَاحِدٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ وَأَبِي مُوسَى وَجَهْجَاهٍ الْغِفَارِيِّ وَمَيْمُونَةَ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو.
* تخريج: خ/الأطعمۃ ۱۲ (۵۳۹۳-۵۳۹۵)، م/الأشربۃ ۳۴ (۲۰۶۰)، ق/الأطعمۃ ۳ (۳۲۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۸۱۵۶)، وحم (۲/۲۱، ۴۳، ۷۴، ۱۴۵) (صحیح)
۱۸۱۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' کافرسات آنت میں کھاتا ہے اور مومن ایک آنت میں کھاتاہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں ابوہریرہ ، ابوسعید ، ابوبصرہ غفاری ، ابوموسیٰ ، جہجاہ غفاری ، میمونہ اورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : علماء نے اس کی مختلف توجیہیں کی ہیں: (۱) مومن اللہ کانام لے کر کھانا شروع کرتاہے، اسی لیے کھانے کی مقدار اگر کم ہے تب بھی اسے آسودگی ہوجاتی ہے، اور کافر چونکہ اللہ کانام لیے بغیر کھاتاہے اس لیے اسے آسودگی نہیں ہوتی، خواہ کھانے کی مقدار زیادہ ہویاکم ۔ (۲) مومن دنیاوی حرص طمع سے اپنے آپ کو دور رکھتاہے، اسی لیے کم کھاتاہے، جب کہ کافر حصول دنیا کا حریص ہوتاہے اسی لیے زیادہ کھاتاہے، (۳) مومن آخرت کے خوف سے سر شار رہتاہے اسی لیے وہ کم کھاکربھی آسودہ ہوجاتا ہے، جب کہ کافر آخرت سے بے نیاز ہوکر زندگی گزار تاہے، اسی لیے وہ بے نیاز ہوکر کھاتاہے، پھر بھی آسودہ نہیں ہوتا۔


1819- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ ضَافَهُ ضَيْفٌ كَافِرٌ، فَأَمَرَ لَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِشَاةٍ، فَحُلِبَتْ، فَشَرِبَ، ثُمَّ أُخْرَى فَشَرِبَهُ، ثُمَّ أُخْرَى فَشَرِبَهُ، حَتَّى شَرِبَ حِلاَبَ سَبْعِ شِيَاهٍ، ثُمَّ أَصْبَحَ مِنَ الْغَدِ، فَأَسْلَمَ، فَأَمَرَ لَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِشَاةٍ، فَحُلِبَتْ فَشَرِبَ حِلاَبَهَا، ثُمَّ أَمَرَ لَهُ بِأُخْرَى فَلَمْ يَسْتَتِمَّهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْمُؤْمِنُ يَشْرَبُ فِي مَعْيٍ وَاحِدٍ، وَالْكَافِرُ يَشْرَبُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَائٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سُهَيْلٍ.
* تخريج: خ/الأطعمۃ ۱۲ (۵۳۹۶-۵۳۹۷)، م/الأشربۃ ۳۴ (۲۰۶۳)، ق/الأطعمۃ ۳ (۳۲۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۳۹)، وط/صفۃ النبيﷺ ۶ (۹، ۱۰)، حم (۲/۳۷۵، ۲۵۷، ۴۱۵، ۴۳۵، ۴۳۷، ۴۵۵)، دي/الأطعمۃ ۱۳ (۲۰۸۴) (صحیح)
۱۸۱۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک کافرمہمان آیا ،آپﷺ نے اس کے لیے بکری کادودھ دوہنے کاحکم دیا ، بکری دوہی گہی ، وہ دودھ پی گیا ، پھر دوسری دوہی گئی ، اس کو بھی پی گیا ، اس طرح وہ سات بکریوں کادودھ پی گیا، پھر کل صبح ہوکر وہ اسلام لے آیا، رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے ایک بکری (دوہنے کا) حکم دیا ، وہ دوہی گئی ، وہ اس کا دودھ پی گیا ، پھر آپ نے دوسری کا حکم دیا تووہ اس کا پورا دودھ نہ پی سکا، (اس پر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مومن ایک آنت میں پیتاہے اورکافرسات آنتوں میں پیتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث سہیل کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
21- بَاب مَا جَاءَ فِي طَعَامِ الْوَاحِدِ يَكْفِي الاثْنَيْنِ
۲۱- باب: ایک آدمی کا کھاناتین آدمی کے لیے کافی ہوتاہے​


1820- حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ح و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "طَعَامُ الاثْنَيْنِ كَافِي الثَّلاَثَةَ وَطَعَامُ الثَّلاَثَةِ كَافِي الأَرْبَعَةَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرَوَى جَابِرٌ وَابْنُ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "طَعَامُ الْوَاحِدِ يَكْفِي الاثْنَيْنِ وَطَعَامُ الاثْنَيْنِ يَكْفِي الأَرْبَعَةَ وَطَعَامُ الأَرْبَعَةِ يَكْفِي الثَّمَانِيَةَ".
* تخريج: خ/الأطعمۃ ۱۱ (۵۳۹۲)، م/الأشربۃ ۳۳ (۲۰۵۸)، و حم (۲/۴۰۷) (صحیح)
1820/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِهَذَا.
* تخريج: م/الأشربۃ ۳۳ (۲۰۵۹)، ق/الأطعمۃ ۲ (۳۲۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۰۱)، وحم (۳/۳۰۱، ۳۸۲)، دي/الأطعمۃ ۱۳ (۲۰۸۶) (صحیح)
۱۸۲۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' دوآدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کے لیے اورتین آدمیوں کا کھانا چارآدمیوں کے لیے کافی ہے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- جابراورابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' ایک آدمی کا کھانا دوآدمیوں کو کفایت کرجائے گا، دوآدمی کا کھانا چارآدمیوں کوکفایت کرجائے گا اورچارآدمی کا کھانا آٹھ آدمیوں کو کفایت کرجائے گا''،۳- اس باب میں جابراورابن عمرسے بھی احادیث آئی ہیں۔
۱۸۲۰/م- اس سند سے جابر رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
22- بَاب مَا جَاءَ فِي أَكْلِ الْجَرَادِ
۲۲-باب: ٹڈی کھانے کا بیان​


1821- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ الْعَبْدِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الْجَرَادِ فَقَالَ: غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ سِتَّ غَزَوَاتٍ نَأْكُلُ الْجَرَادَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ هَذَا الْحَدِيثَ، وَقَالَ: سِتَّ غَزَوَاتٍ، وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ فَقَالَ: سَبْعَ غَزَوَاتٍ.
* تخريج: خ/الصید ۱۳ (۵۴۹۵)، م/الصید ۸ (۱۹۲۲)، د/الأطعمۃ ۳۵ (۳۸۱۲)، ن/الصید ۳۷ (۴۳۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۸۲)، وحم (۴/۳۵۳، ۳۵۷، ۳۸۰)، ودي/الصید ۵ (۲۰۵۳) (صحیح)
۱۸۲۱- عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے ٹڈی کے بارے میں پوچھاگیا ، تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ چھ غزوے کیے اورٹڈی کھاتے رہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث کو سفیان بن عیینہ نے ابویعفورسے اسی طرح روایت کیا ہے اورکہا ہے : ''چھ غزوے کیے''،۲- اورسفیان ثوری اورکئی لوگوں نے ابویعفورسے یہ حدیث روایت کی ہے اور کہاہے : ''سات غزوے کیے''۔


1822- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ وَالْمُؤَمَّلُ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ سَبْعَ غَزَوَاتٍ نَأْكُلُ الْجَرَادَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ غَزَوَاتٍ نَأْكُلُ الْجَرَادَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
1822/م- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِهَذَا.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُويَعْفُورٍ اسْمُهُ وَاقِدٌ وَيُقَالُ وَقْدَانُ أَيْضًا، وَأَبُويَعْفُورٍ الآخَرُ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ نِسْطَاسَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۸۲۲- ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سات غزوات کئے اورٹڈی کھاتے رہے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- شعبہ نے بھی اسے ابویعفورکے واسطہ سے ابن ابی اوفی سے روایت کیا ہے ، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کئی غزوات کئے اورٹڈی کھاتے رہے ۔
۱۸۲۲/م- اس سند سے بھی ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ابویعفورکا نام واقدہے، انہیں وقدان بھی کہاجاتا ہے، ابویعفور دوسرے بھی ہیں، ان کا نام عبدالرحمن بن عبیدبن نسطاس ہے،۳- اس باب میں ابن عمراورجابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : وہ جانور جو حلال ہیں انہیں میں سے ٹڈی بھی ہے، اس کی حلت پر تقریباً سب کا اتفاق ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
23- بَاب مَا جَاءَ فِي الدُّعَاءِ عَلَى الْجَرَادِ
۲۳-باب: ٹڈی پر بددعا کرنے کا بیان​


1823- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا زِيَادُ ابْنُ عَبْدِاللهِ بْنِ عُلاَثَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالاَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا دَعَا عَلَى الْجَرَادِ، قَالَ: "اللَّهُمَّ أَهْلِكِ الْجَرَادَ، اقْتُلْ كِبَارَهُ، وَأَهْلِكْ صِغَارَهُ، وَأَفْسِدْ بَيْضَهُ، وَاقْطَعْ دَابِرَهُ، وَخُذْ بِأَفْوَاهِهِمْ عَنْ مَعَاشِنَا، وَأَرْزَاقِنَا إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ" قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ! كَيْفَ تَدْعُو عَلَى جُنْدٍ مِنْ أَجْنَادِ اللهِ بِقَطْعِ دَابِرِهِ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّهَا نَثْرَةُ حُوتٍ فِي الْبَحْرِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَمُوسَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ قَدْ تُكُلِّمَ فِيهِ، وَهُوَ كَثِيرُ الْغَرَائِبِ، وَالْمَنَاكِيرِ، وَأَبُوهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ثِقَةٌ وَهُوَ مَدَنِيٌّ.
* تخريج: ق/الصید ۹ (۳۲۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۱، ۲۵۸۵) (موضوع)
( سند میں موسیٰ بن محمد بن ابراہیم تیمی ضعیف اور منکرالحدیث راوی ہے، ابن الجوزی نے موضوعات میں اسی کو متہم کیا ہے، ملاحظہ ہو: الضعیفۃ: ۱۱۲، لیکن ضعیف سنن الترمذی اور مشہور حسن کے سنن کے نسخے میں اس حدیث پر کوئی حکم نہیں لگا ہے )
۱۸۲۳- جابربن عبداللہ اورانس بن مالک رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ ٹڈیوں پر بد دعا کرتے توکہتے ''اللَّهُمَّ أَهْلِكِ الْجَرَادَ اقْتُلْ كِبَارَهُ وَأَهْلِكْ صِغَارَهُ وَأَفْسِدْ بَيْضَهُ وَاقْطَعْ دَابِرَهُ وَخُذْ بِأَفْوَاهِهِمْ عَنْ مَعَاشِنَا وَأَرْزَاقِنَا إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ'' ۱؎ ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول !اللہ کے لشکروں میں سے ایک لشکرکو جڑسے ختم کرنے کی بددعاکیسے کررہے ہیں؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' وہ سمندرمیں مچھلی کی چھینک ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے ، ہم اسے صرف اسی سندسے جانتے ہیں، ۲- موسیٰ بن محمد بن ابراہیم تیمی کے بارے میں محدثین نے کلام کیا ہے، ان سے غریب اور منکر روایتیں کثرت سے ہیں، ان کے باپ محمد بن ابراہیم ثقہ ہیں اورمدینہ کے رہنے والے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اللہ!ٹڈیوں کو ہلاک کردے ، بڑوں کو ماردے ، چھوٹوں کو تباہ کردے ، ان کے انڈوں کو خراب کردے ، ان کا جڑسے خاتمہ کردے ، اورہمارے معاش اوررزق تباہ کر نے سے ان کے منہ روک لے ، بے شک تودعا کو سننے والا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
24- بَاب مَا جَاءَ فِي أَكْلِ لُحُومِ الْجَلالَةِ وَأَلْبَانِهَا
۲۴-باب: گندگی کھانے والے جانورکے گوشت اوردودھ کا بیان​


1824- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ أَكْلِ الْجَلاَّلَةِ وَأَلْبَانِهَا.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى الثَّوْرِيُّ عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً.
* تخريج: د/الأطعمۃ ۲۵ (۳۷۸۵)، ق/الذبائح ۱۱ (۳۱۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۸۷) (صحیح)
۱۸۲۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ گندگی کھانے والے جانورکے گوشت کھانے اور ان کے دودھ پینے سے منع فرمایا۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ثوری نے اسے ''عن ابن أبي نجيح عن مجاهد عن النبي ﷺ '' کی سند سے مرسل طریقہ سے روایت کی ہے،۳- اس باب میں عبداللہ بن عباس سے بھی حدیث مروی ہے۔


1825- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنِ الْمُجَثَّمَةِ وَلَبَنِ الْجَلاَّلَةِ وَعَنِ الشُّرْبِ مِنْ فِي السِّقَاءِ.
* تخريج: خ/الأشربۃ ۲۴ (۵۶۲۹)، د/الأشربۃ ۱۴ (۳۷۱۹)، ن/الضحایا ۴۴ (۴۴۵۳)، ق/الأشربۃ ۲۰ (۳۴۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۹۰)، وحم (۱/۲۲۶، ۲۴۱، ۳۳۹) دي/الأضاحي ۱۳ (۲۰۱۸) (صحیح)
1825/م- قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ: وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو.
* تخريج : انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۸۲۵/م- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے مجثمہ اور گندگی کھانے والے جانورکے دودھ اورمشک کے منہ سے پانی پینے سے منع فرمایا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- محمدبن بشارکہتے ہیں: ہم سے ابن عدی نے ''عن سعيد بن أبي عروبة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس عن النبي ﷺ '' کی سند سے اسی جیسی حدیث بیان کی ہے،۳- اس باب میں عبداللہ بن عمروسے بھی حدیث مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : مجثمہ : وہ جانورہے جس پر نشانہ بازی کی جائے یہاں تک کہ وہ مرجائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
25-بَاب مَا جَاءَ فِي أَكْلِ الدَّجَاجِ
۲۵-باب: مرغی کھانے کا بیان​


1826- حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ، عَنْ أَبِي الْعَوَّامِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زَهْدَمٍ الْجَرْمِيِّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي مُوسَى وَهُوَ يَأْكُلُ دَجَاجَةً، فَقَالَ: ادْنُ فَكُلْ، فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَأْكُلُهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ زَهْدَمٍ وَلاَنَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ زَهْدَمٍ وَأَبُو الْعَوَّامِ هُوَ عِمْرَانُ الْقَطَّانُ.
* تخريج: خ/المغازي ۷۴ (۴۳۸۵)، والصید ۲۶ (۵۵۱۷، ۵۵۱۸)، و کفارات الأیمان ۱۰ (۶۷۲۱)، م/الأیمان ۳ (۱۶۴۹/۹)، ن/الصید ۳۳ (۴۳۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۹۰) (صحیح)
۱۸۲۶- زہدم جرمی کہتے ہیں: میں ابوموسیٰ کے پاس گیا ، وہ مرغی کھارہے تھے ، کہا: قریب ہوجاؤاور کھاؤ اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسے کھاتے دیکھا ہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے ، زہدم سے یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی آئی ہے ، ہم اسے صرف زہدم ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ دوست کے گھر اس کے کھانے کے وقت میں جانا صحیح ہے، نیز کھانے والے کوچاہیے کہ آنے والے مہمان کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرے ، اگر چہ کھانے کی مقدارکم ہو، اس لیے کہ اجتماعی شکل میں کھانا نزول برکت کا سبب ہے، یہ بھی معلوم ہواکہ مرغ کا گوشت حلا ل ہے۔


1827- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ زَهْدَمٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَأْكُلُ لَحْمَ دَجَاجٍ.
قَالَ: وَفِي الْحَدِيثِ كَلاَمٌ أَكْثَرُ مِنْ هَذَا، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ أَيْضًا عَنْ الْقَاسِمِ التَّمِيمِيِّ وَعَنْ أَبِي قِلاَبَةَ عَنْ زَهْدَمٍ.
* تخريج: د/الأطعمۃ ۲۹ (۳۷۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۸۲) (ضعیف)
(سند میں ابراہیم بن عمربن سفینہ ''بُریہ'' مجہول الحال راوی ہیں)
۱۸۲۷- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مرغ کا گوشت کھاتے دیکھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس حدیث میں کچھ اورباتیں بھی ہیں،۳- ایوب سختیانی نے بھی اس حدیث کو ''عن القاسم التميمي عن أبي قلابة عن زهدم'' کی سند سے روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
26- بَاب مَا جَاءَ فِي أَكْلِ الْحُبَارَى
۲۶-باب: سرخاب کھانے کا بیان​


1828- حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ الأَعْرَجُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ بْنِ سَفِينَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: أَكَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ لَحْمَ حُبَارَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ سَفِينَةَ رَوَى عَنْهُ ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ وَيُقَالُ بُرَيْدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ سَفِينَةَ.
* تخريج: (ضعیف)
(سند میں ابراہیم بن عمر بن سفینہ جن کا لقب بریہ ہے ، مستور ہیں، اورابراہیم بن عبدالرحمن بن مہدی بصری صدوق راوی ہیں، لیکن ان سے منکر روایات آئی ہیں)
۱۸۲۸- سفینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حباری کا گوشت کھایا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۳- ابراہیم بن عمربن سفینہ سے ابن ابی فدیک نے بھی روایت کی ہے، انہیں برید بن عمربن سفینہ بھی کہاگیاہے۔
وضاحت ۱؎ : حباری (یعنی سرخاب) بطخ کی شکل کا ایک پرندہ ہے جس کی گردن لمبی اوررنگ خاکستری ہوتا ہے، اس کی چونچ بھی قدرے لمبی ہوتی ہے۔اوریہ جنگلوں میں پایاجاتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
27- بَاب مَا جَاءَ فِي أَكْلِ الشِّوَائِ
۲۷-باب: بھناہواگوشت کھانے کا بیان​


1829- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ أَنَّ عَطَائَ بْنَ يَسَارٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا قَرَّبَتْ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ جَنْبًا مَشْوِيًّا، فَأَكَلَ مِنْهُ، ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ وَمَا تَوَضَّأَ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ وَالْمُغِيرَةِ وَأَبِي رَافِعٍ .
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ) (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۰۰) (صحیح)
۱۸۲۹- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھنی دست پیش کی ، آپ نے اس میں سے تناول فرمایا، پھرصلاۃ کے لیے کھڑے ہوے اوروضونہیں کیا ۔
امام ترمذی کہتے :۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن حارث ، مغیرہ اورابورافع رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
28-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الأَكْلِ مُتَّكِئًا
۲۸-باب: ٹیک لگاکرکھانے کی کراہت کا بیان​


1830- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الأَقْمَرِ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَمَّا أَنَا فَلاَ آكُلُ مُتَّكِئًا". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَلِيِّ بْنِ الأَقْمَرِ، وَرَوَى زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ وَسُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الأَقْمَرِ هَذَا الْحَدِيثَ، وَرَوَى شُعْبَةُ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الأَقْمَرِ.
* تخريج: خ/الأطعمۃ ۱۳ (۵۳۹۸)، د/الأطعمۃ ۱۷ (۳۷۶۹)، ق/الأطعمۃ ۶ (۳۲۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۰۱)، وحم (۴/۳۰۸)، دي/الأطعمۃ ۳۱ (۲۱۱۵) (صحیح)
۱۸۳۰- ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''میں ٹیک لگاکرنہیں کھاتا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ہم اسے صرف علی بن اقمرکی روایت سے جانتے ہیں، علی بن اقمر سے اس حدیث کو زکریا بن ابی زائدہ ، سفیان بن سعید ثوری اورکئی لوگوں نے روایت کیا ہے، شعبہ نے یہ حدیث سفیان ثوری سے علی بن اقمرکے واسطہ سے روایت کی ہے،۳- اس باب میں علی ، عبداللہ بن عمرواورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : ٹیک لگا نے کا کیا مطلب ہے؟ اس سلسلہ میں کئی باتیں کہی جاتی ہیں: (۱) کسی ایک جانب جھک کر کھانا جیسے دائیں یا بائیں ہاتھ یا کمنی پر ٹیک لگانا، (۲) زمین پر بچھے ہوئے گدے پر اطمینان و سہولت کی خاطر آلتی پالتی مار کر بیٹھنا تاکہ کھانا زیادہ کھایاجائے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح کے بیٹھنے کو ٹیک لگاکر بیٹھنا قرار دینا صحیح نہیں ہے، حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ مستحب انداز بیٹھنے کا یہ ہے کہ پیروں کے تلوؤں پر گھٹنوں کے بل بیٹھے، یا دایاں پاؤں کھڑا رکھے اور بائیں پربیٹھے۔
 
Top