• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
88- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ لِلْجُنُبِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنَامَ
۸۸-باب: جنبی جب سونا چاہے تو وضو کرلے​


120- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ أَيَنَامُ أَحَدُنَا وَهُوَ جُنُبٌ؟ قَالَ: "نَعَمْ، إِذَا تَوَضَّأَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَمَّارٍ، وَعَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأُمِّ سَلَمَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ أَحْسَنُ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ. وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ، قَالُوا: إِذَا أَرَادَ الْجُنُبُ أَنْ يَنَامَ تَوَضَّأَ قَبْلَ أَنْ يَنَامَ.
* تخريج: م/الحیض ۶ (۳۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۵۲)، حم (۱/۱۷،۳۵) (صحیح)
۱۲۰- عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا: کیا ہم میں سے کوئی جنابت کی حالت میں سوسکتاہے؟ آپ نے فرمایا : ''ہاں ، جب وہ وضو کرلے'' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عمار، عائشہ ، جابر، ابوسعید اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث اس باب میں سب سے عمدہ اور صحیح ہے، ۳-یہی قول نبی اکرم ﷺکے اصحاب اورتابعین میں سے بہت سے لوگوں کا ہے اوریہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ جب جنبی سونے کا ارادہ کرے تووہ سونے سے پہلے وضوکرلے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے مراد وضو شرعی ہے لغوی نہیں، یہ وضو واجب ہے یا غیرواجب اس سلسلہ میں علماء میں اختلاف ہے، جمہور اس بات کی طرف گئے ہیں کہ یہ واجب نہیں ہے اور داود ظاہری اور ایک جماعت کاکہنا ہے کہ واجب ہے ۔اورپہلا قول ہی راجح ہے جس کی دلیل پچھلی حدیث ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی مستحب ہے کہ وضوکرلے، یہی جمہورکامذہب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
89- بَاب مَا جَاءَ فِي مُصَافَحَةِ الْجُنُبِ
۸۹-باب: جنبی سے مصافحہ کرنے کا بیان​


121- حَدَّثَنَا إِسْحاَقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِاللهِ الْمُزَنِيِّ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَقِيَهُ وَهُوَ جُنُبٌ، قَالَ: فَانْبَجَسْتُ أَيْ فَانْخَنَسْتُ فَاغْتَسَلْتُ، ثُمَّ جِئْتُ، فَقَالَ: أَيْنَ كُنْتَ؟ أَوْ أَيْنَ ذَهَبْتَ؟ قُلْتُ: إِنِّي كُنْتُ جُنُبًا، قَالَ: إِنَّ الْمُسْلِمَ لاَ يَنْجُسُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَمَعْنَى قَوْلِهِ فَانْخَنَسْتُ يَعْنِي تَنَحَّيْتُ عَنْهُ. وَقَدْ رَخَّصَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي مُصَافَحَةِ الْجُنُبِ، وَلَمْ يَرَوْا بِعَرَقِ الْجُنُبِ وَالْحَائِضِ بَأْسًا.
* تخريج: خ/الغسل ۲۳ (۲۸۳)، م/الحیض ۲۹ (۳۷۱)، د/الطہارۃ ۹۲ (۲۳۰)، ن/الطہارۃ ۱۷۲ (۲۷۰)، ق/الطہارۃ ۸۰ (۵۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۴۸)، حم (۲/۲۳۵، ۲۸۲، ۴۷۱) (صحیح)
۱۲۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ان سے ملے اور وہ جنبی تھے، وہ کہتے ہیں: تومیں آنکھ بچاکر نکل گیا اور جاکر میں نے غسل کیا پھرخدمت میں آیا تو آپ نے پوچھا :تم کہاں تھے؟ یا : کہاں چلے گئے تھے(راوی کوشک ہے)۔ میں نے عرض کیا: میں جنبی تھا۔ آپ نے فرمایا: مسلمان کبھی نجس نہیں ہوتا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں حذیفہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اوران کے قول فَانْخَنَسْتُ کے معنی تنحیت عنہ کے ہیں۔ (یعنی میں نظر بچاکر نکل گیا)،۴- بہت سے اہل علم نے جنبی سے مصافحہ کی اجازت دی ہے اور کہاہے کہ جنبی اور حائضہ کے پسینے میں کوئی حرج نہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اورجب پسینے میں کوئی حرج نہیں تو بغیرپسینے کے بدن کی جلد(سے پاک آدمی کے ہاتھ اورجسم کے ملنے )میں بدرجہ اولی کوئی حرج نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
90- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمَرْأَةِ تَرَى فِي الْمَنَامِ مِثْلَ مَا يَرَى الرَّجُلُ
۹۰-باب: عورت کے خواب میں وہی چیزدیکھنے کا بیان جو مرد دیکھتا ہے​


122- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ بِنْتُ مِلْحَانَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ اللهَ لاَ يَسْتَحْيِي مِنْ الْحَقِّ، فَهَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ - تَعْنِي غُسْلاً - إِذَا هِيَ رَأَتْ فِي الْمَنَامِ مِثْلَ مَا يَرَى الرَّجُلُ؟ قَالَ: " نَعَمْ، إِذَا هِيَ رَأَتِ الْمَاءَ فَلْتَغْتَسِلْ ". قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: قُلْتُ لَهَا: فَضَحْتِ النِّسَاءَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ!. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ: أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا رَأَتْ فِي الْمَنَامِ مِثْلَ مَا يَرَى الرَّجُلُ، فَأَنْزَلَتْ: أَنَّ عَلَيْهَا الْغُسْلَ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ، وَخَوْلَةَ، وَعَائِشَةَ، وَأَنَسٍ.
* تخريج: خ/العلم ۵۰ (۱۳۰)، والغسل ۲۲ (۲۸۲)، والأنبیاء ۱ (۳۳۲۸)، والأدب ۶۸ (۶۰۹۱)، و۷۹ (۶۱۲۱)، م/الحیض ۷ (۳۱۳)، ن/الطہارۃ ۱۳۱ (۱۹۷)، ق/الطہارۃ ۱۰۷ (۶۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۶۴)، حم (۶/۲۹۲، ۳۰۲، ۳۰۶) (صحیح)
۱۲۲- ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام سلیم بنت ملحان نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اورکہنے لگیں: اللہ کے رسول ! اللہ حق سے نہیں شرماتا ۱؎ کیا عورت پر بھی غسل ہے، جب وہ خواب میں وہی چیزدیکھے جو مرد دیکھتا ہے ۲؎ آپ نے فرمایا: ''ہاں، جب وہ منی دیکھے توغسل کرے'' ۳؎ ام سلمہ کہتی ہیں: میں نے ام سلیم سے کہا: ام سلیم! آپ نے توعورتوں کو رسوا کردیا ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بیشترفقہاء کا قول ہے کہ عورت جب خواب میں وہی چیز دیکھے جو مرد دیکھتاہے پھر اسے انزال ہوجائے (یعنی منی نکل جائے) تو اس پر غسل واجب ہے، یہی سفیان ثوری اور شافعی بھی کہتے ہیں، ۳- اس باب میں ام سلیم، خولہ، عائشہ اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شرم و حیاکی وجہ سے حق کے بیان کر نے سے نہیں رکتا، تو میں بھی ان مسائل کے پوچھنے سے بازنہیں رہ سکتی جن کی مجھے احتیاج اورضرورت ہے۔
وضاحت ۲؎ : ''جومرددیکھتا ہے ''سے مراد احتلام ہے۔
وضاحت ۳؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ منی کے نکلنے سے عورت پر بھی غسل واجب ہوجاتا ہے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی احتلام ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
91- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَسْتَدْفِئُ بِالْمَرْأَةِ بَعْدَ الْغُسْلِ
۹۱-باب: غسل کرنے کے بعد مرد عورت سے چمٹ کر گرمی حاصل کرے اس کا بیان​


123- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حُرَيْثٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: رُبَّمَا اغْتَسَلَ النَّبِيُّ ﷺ مِنْ الْجَنَابَةِ، ثُمَّ جَاءَ فَاسْتَدْفَأَ بِي فَضَمَمْتُهُ إِلَيَّ وَلَمْ أَغْتَسِلْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ بِإِسْنَادِهِ بَأْسٌ. وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَالتَّابِعِينَ: أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا اغْتَسَلَ فَلاَ بَأْسَ بِأَنْ يَسْتَدْفِئَ بِامْرَأَتِهِ، وَيَنَامَ مَعَهَا قَبْلَ أَنْ تَغْتَسِلَ الْمَرْأَةُ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ۔
* تخريج: ق/الطہارۃ ۹۷ (۵۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۲۰) (ضعیف)
(سند میں حریث ضعیف ہیں)
۱۲۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بسااوقات نبی اکرم ﷺجنابت کا غسل فرماتے پھرآکرمجھ سے گرمی حاصل کرتے تو میں آپ کو چمٹا لیتی ،اورمیں بغیرغسل کے ہوتی تھی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند میں کوئی اشکالنہیں ۱؎ ، ۲- صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے کہ مرد جب غسل کرلے تو اپنی بیوی سے چمٹ کرگرمی حاصل کرنے میں اسے کوئی مضائقہ نہیں، وہ عورت کے غسل کرنے سے پہلے اس کے ساتھ (چمٹ کر) سوسکتاہے، سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی یہ حسن کے حکم میں ہے، اس کے راوی ''حریث بن ابی المطر''ضعیف ہیں (جیساکہ تخریج میں گزرا) اس لیے علامہ البانی نے اس حدیث کو ضعیف قراردیا ہے ، لیکن ابوداوداورابن ماجہ نے ایک دوسرے طریق سے اس کے ہم معنی حدیث روایت کی ہے ، جو عبدالرحمن افریقی کے طریق سے ہے ، عبدالرحمن حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے ضعیف ہیں ،لیکن دونوں طریقوں کا ضعف ایک دوسرے سے قدرے دورہوجاتاہے ، نیزصحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے اس کے معنی کی تائیدہوجاتی ہے ، وہ یہ ہے : ''ہم لوگ حائضہ ہوتی تھیں تو آپ ہمیں ازارباندھنے کا حکم دیتے ، پھرہم سے چمٹتے تھے''واللہ اعلم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
92- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّيَمُّمِ لِلْجُنُبِ إِذَا لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ
۹۲-باب: پانی نہ پانے پر جنبی تیمم کرلے​


124- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَ نَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ بُجْدَانَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ طَهُورُ الْمُسْلِمِ، وَإِنْ لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ عَشْرَ سِنِينَ، فَإِذَا وَجَدَ الْمَاءَ فَلْيُمِسَّهُ بَشَرَتَهُ، فَإِنَّ ذَلِكَ خَيْرٌ". و قَالَ مَحْمُودٌ فِي حَدِيثِهِ: إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ وَضُوءُ الْمُسْلِمِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ بُجْدَانَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ. وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ أَيُّوبُ عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي عَامِرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ. وَلَمْ يُسَمِّهِ. قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ: أَنَّ الْجُنُبَ وَالْحَائِضَ إِذَا لَمْ يَجِدَا الْمَاءَ تَيَمَّمَا وَصَلَّيَا. وَيُرْوَى عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ: أَنَّهُ كَانَ لاَ يَرَى التَّيَمُّمَ لِلْجُنُبِ، وَإِنْ لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ. وَيُرْوَى عَنْهُ: أَنَّهُ رَجَعَ عَنْ قَوْلِهِ، فَقَالَ: يَتَيَمَّمُ إِذَا لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَمَالِكٌ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ۔
* تخريج: ن/الطہارۃ ۲۰۳ (۳۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۷۱)، حم (۵/۱۵۵، ۱۸۰) (صحیح)
( سند میں عمروبن بجدان، مجہول ہیں،لیکن بزار وغیرہ کی روایت کردہ ابوہریرہ کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ،ملاحظہ ہو: صحیح سنن أبی داود ۳۵۷، والإرواء ۱۵۳)
۱۲۴- ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''پاک مٹی مسلمان کو پاک کرنے والی ہے گرچہ وہ دس سال تک پانی نہ پائے ،پھرجب وہ پانی پالے تو اسے اپنی کھال (یعنی جسم) پربہائے ، یہی اس کے لیے بہتر ہے''۔
محمود (بن غیلان)نے اپنی روایت میں یوں کہاہے: پاک مٹی مسلمان کا وضو ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ ، عبداللہ بن عمرو اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اکثر فقہاء کا قول یہی ہے کہ جنبی یا حائضہ جب پانی نہ پائیں توتیمم کرکے صلاۃ پڑھیں، ۶- ابن مسعود رضی اللہ عنہ جنبی کے لئے تیمم درست نہیں سمجھتے تھے اگرچہ وہ پانی نہ پائے۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے اپنے قول سے رجوع کرلیاتھا اوریہ کہاتھا کہ وہ جب پانی نہیں پائے گا، تیمم کرے گا ، یہی سفیان ثوری، مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
93- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ
۹۳-باب: مستحاضہ کا بیان​


125- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَعَبْدَةُ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: جَاءَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنِّي امْرَأَةٌ أُسْتَحَاضُ، فَلاَ أَطْهُرُ، أَفَأَدَعُ الصَّلاَةَ؟ قَالَ: "لاَ، إِنَّمَا ذَلِكَ عِرْقٌ، وَلَيْسَتْ بِالْحَيْضَةِ، فَإِذَا أَقْبَلَتِ الْحَيْضَةُ فَدَعِي الصَّلاَةَ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْسِلِي عَنْكِ الدَّمَ، وَصَلِّي". قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ فِي حَدِيثِهِ: وَقَالَ: "تَوَضَّئِي لِكُلِّ صَلاَةٍ، حَتَّى يَجِيئَ ذَلِكَ الْوَقْتُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَمَالِكٌ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ: أَنَّ الْمُسْتَحَاضَةَ إِذَا جَاوَزَتْ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا اغْتَسَلَتْ وَتَوَضَّأَتْ لِكُلِّ صَلاَةٍ.
* تخريج: خ/الوضوء ۶۳ (۲۲۸)، والحیض ۸ (۳۰۶)، و۱۹ (۳۲۰)، و۲۴ (۳۲۵)، و۲۸ (۳۳۱)، م/الحیض ۱۴ (۳۳۳)، د/الطہارۃ ۱۰۹ (۲۸۲)، ن/الطہارۃ ۱۳۵ (۲۱۳)، و۱۳۸ (۲۱۹، ۲۲۰)، والحیض ۴ (۳۵۹)، و۶ (۳۶۵، ۳۶۷)، ق/الطہارۃ ۱۱۵ (۶۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۷۰، ۱۷۱۹۶، ۱۷۲۵۹)، حم (۶/۸۳، ۱۴۱، ۱۸۷)، دی/الطہارۃ ۸۳ (۸۰۱) (صحیح)
۱۲۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آکرکہا: اللہ کے رسول! میں ایسی عورت ہوں کہ مجھے استحاضہ کاخون ۱؎ آتا ہے تو میں پاک ہی نہیں رہ پاتی، کیا میں صلاۃ چھوڑدوں؟ آپ نے فرمایا: ''نہیں، یہ تو ایک رگ ہے حیض نہیں ہے، جب حیض آئے تو صلاۃ چھوڑدو۔ اور جب وہ چلاجائے ( یعنی حیض کے دن پورے ہوجائیں)تو خون دھوکر (غسل کرکے) صلاۃ پڑھو''، ابومعاویہ کی روایت میں ہے ؛ آپﷺ نے فرمایا:''ہر صلاۃ کے لیے وضو کرو یہاں تک کہ وہ وقت (حیض کاوقت) آجائے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔ ۳- صحابہ کرام اور تابعین میں بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے ، اور یہی سفیان ثوری، مالک، ابن مبارک اور شافعی بھی یہی کہتے ہیں کہ جب مستحاضہ عورت کے حیض کے دن گزرجائیں تووہ غسل کرے اور ہرصلاۃ کے لئے (تازہ ) وضو کرے۔
وضاحت ۱؎ : عورت کی شرم گاہ سے تین طرح کاخون خارج ہوتا ہے: ایک حیض کا خون جوعورت کے بالغ ہو نے سے بڑھاپے تک ایام حمل کے علاوہ ہرماہ اس کے رحم سے چندمخصوص ایام میں خارج ہوتا ہے اور اس کا رنگ کالاہوتا ہے، دوسرانفاس کا خون ہے جو بچہ کی پیدائش کے بعدچالیس دن یا اس سے کم وبیش زچگی میں آتا ہے، تیسرااستحاضہ کا خون ہے، یہ ایک عاذل نامی رگ کے پھٹنے سے جاری ہوتا ہے اور بیماری کی صورت اختیارکرلیتاہے، اس کے جاری ہو نے کا کوئی مقرروقت نہیں ہے کسی بھی وقت جاری ہوسکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
94- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْمُسْتَحَاضَةَ تَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلاَةٍ
۹۴-باب: مستحاضہ عورت ہرصلاۃ کے لیے وضو کرے​


126- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ: "تَدَعُ الصَّلاَةَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا الَّتِي كَانَتْ تَحِيضُ فِيهَا، ثُمَّ تَغْتَسِلُ، وَتَتَوَضَّأُ عِنْدَ كُلِّ صَلاَةٍ، وَتَصُومُ وَتُصَلِّي".
* تخريج: د/الطہارۃ ۱۱۳ (۳۹۷)، ق/الطہارۃ ۱۱۵ (۶۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۴۲)، دي/الطہارۃ ۸۳ (۸۲۰) (صحیح)
(اس کی سند میں ابوالیقظان ضعیف،اور شریک حافظہ کے کمزور ہیں، مگر دوسری سندوں اورحدیثوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)۔
۱۲۶- عدی کے داداعبید بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مستحاضہ کے سلسلہ میں فرمایا: ''وہ ان دنوں میں جن میں اسے حیض آتاہوصلاۃ چھوڑے رہے ، پھروہ غسل کرے ، اور(استحاضہ کا خون آنے پر) ہر صلاۃ کے لیے وضو کرے ، صوم رکھے اور صلاۃ پڑھے ''۔


127- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شُرَيْكٌ: نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ قَدْ تَفَرَّدَ بِهِ شَرِيكٌ عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ. قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقُلْتُ: عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، جَدُّ عَدِيٍّ مَا اسْمُهُ؟ فَلَمْ يَعْرِفْ مُحَمَّدٌ اسْمَهُ. وَذَكَرْتُ لِمُحَمَّدٍ قَوْلَ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ: أَنَّ اسْمَهُ دِينَارٌ فَلَمْ يَعْبَأْ بِهِ. و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ: إِنْ اغْتَسَلَتْ لِكُلِّ صَلاَةٍ هُوَ أَحْوَطُ لَهَا، وَإِنْ تَوَضَّأَتْ لِكُلِّ صَلاَةٍ أَجْزَأَهَا، وَإِنْ جَمَعَتْ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ أَجْزَأَهَا۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۲۷- اس سندسے بھی شریک نے اسی مفہوم کے ساتھ اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث میں شریک ابوالیقظان سے روایت کرنے میں منفردہیں،۲- احمد اور اسحاق بن راہویہ مستحاضہ عورت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگروہ ہر صلاۃ کے وقت غسل کرے تو یہ اس کے لیے زیادہ احتیاط کی بات ہے اور اگروہ ہرصلاۃ کے لیے وضو کرے تویہ اس کے لیے کافی ہے اور اگروہ ایک غسل سے دو صلاۃجمع کرے تو بھی کافی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
95- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ أَنَّهَا تَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ
۹۵-باب: مستحاضہ ایک غسل سے دوصلاتیں ایک ساتھ جمع کرسکتی ہے​


128- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامَرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمِّهِ عِمْرَانَ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّهِ حَمْنَةَ بِنْتِ جَحْشٍ، قَالَتْ: كُنْتُ أُسْتَحَاضُ حَيْضَةً كَثِيرَةً شَدِيدَةً، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ أَسْتَفْتِيهِ وَأُخْبِرُهُ، فَوَجَدْتُهُ فِي بَيْتِ أُخْتِي زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللهِ! إِنِّي أُسْتَحَاضُ حَيْضَةً كَثِيرَةً شَدِيدَةً، فَمَا تَأْمُرُنِي فِيهَا؟ قَدْ مَنَعَتْنِي الصِّيَامَ وَالصَّلاَةَ؟ قَالَ: "أَنْعَتُ لَكِ الْكُرْسُفَ، فَإِنَّهُ يُذْهِبُ الدَّمَ". قَالَتْ: هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ؟ قَالَ: فَتَلَجَّمِي. قَالَتْ: هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ؟ قَالَ: فَاتَّخِذِي ثَوْبًا، قَالَتْ: هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ، إِنَّمَا أَثُجُّ ثَجًّا؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "سَآمُرُكِ بِأَمْرَيْنِ: أَيَّهُمَا صَنَعْتِ أَجْزَأَ عَنْكِ، فَإِنْ قَوِيتِ عَلَيْهِمَا فَأَنْتِ أَعْلَمُ، فَقَالَ: إِنَّمَا هِيَ رَكْضَةٌ مِنْ الشَّيْطَانِ، فَتَحَيَّضِي سِتَّةَ أَيَّامٍ، أَوْ سَبْعَةَ أَيَّامٍ فِي عِلْمِ اللهِ، ثُمَّ اغْتَسِلِي، فَإِذَا رَأَيْتِ أَنَّكِ قَدْ طَهُرْتِ وَاسْتَنْقَأْتِ فَصَلِّي أَرْبَعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، أَوْ ثَلاَثًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً وَأَيَّامَهَا، وَصُومِي وَصَلِّي، فَإِنَّ ذَلِكِ يُجْزِئُكِ، وَكَذَلِكِ فَافْعَلِي، كَمَا تَحِيضُ النِّسَاءُ وَكَمَا يَطْهُرْنَ، لِمِيقَاتِ حَيْضِهِنَّ وَطُهْرِهِنَّ، فَإِنْ قَوِيتِ عَلَى أَنْ تُؤَخِّرِي الظُّهْرَ وَتُعَجِّلِي الْعَصْرَ، ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ حِينَ تَطْهُرِينَ، وَتُصَلِّينَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، ثُمَّ تُؤَخِّرِينَ الْمَغْرِبَ، وَتُعَجِّلِينَ الْعِشَاءَ، ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ، وَتَجْمَعِينَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ، فَافْعَلِي، وَتَغْتَسِلِينَ مَعَ الصُّبْحِ وَتُصَلِّينَ، وَكَذَلِكِ فَافْعَلِي، وَصُومِي إِنْ قَوِيتِ عَلَى ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: وَهُوَ أَعْجَبُ الأَمْرَيْنِ إِلَيَّ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرَوَاهُ عُبَيْدُاللهِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ، وَابْنُ جُرَيْجٍ، وَشَرِيكٌ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمِّهِ عِمْرَانَ، عَنْ أُمِّهِ حَمْنَةَ، إِلاَّ أَنَّ ابْنَ جُرَيجٍ يَقُولُ: "عُمَرُ ابْنُ طَلْحَةَ>، وَالصَّحِيحُ <عِمْرَانُ بْنُ طَلْحَةَ>. قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ؟ فَقَالَ: هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهَكَذَا قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ: إِذَا كَانَتْ تَعْرِفُ حَيْضَهَا بِإِقْبَالِ الدَّمِ وَإِدْبَارِهِ، وَإِقْبَالُهُ أَنْ يَكُونَ أَسْوَدَ، وَإِدْبَارُهُ أَنْ يَتَغَيَّرَ إِلَى الصُّفْرَةِ: فَالْحُكْمُ لَهَا عَلَى حَدِيثِ فَاطِمَةَ بِنْتِ أَبِي حُبَيْشٍ، وَإِنْ كَانَتِ الْمُسْتَحَاضَةُ لَهَا أَيَّامٌ مَعْرُوفَةٌ قَبْلَ أَنْ تُسْتَحَاضَ: فَإِنَّهَا تَدَعُ الصَّلاَةَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا ثُمَّ تَغْتَسِلُ وَتَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلاَةٍ وَتُصَلِّي، وَإِذَا اسْتَمَرَّ بِهَا الدَّمُ وَلَمْ يَكُنْ لَهَا أَيَّامٌ مَعْرُوفَةٌ وَلَمْ تَعْرِفِ الْحَيْضَ بِإِقْبَالِ الدَّمِ وَإِدْبَارِهِ: فَالْحُكْمُ لَهَا عَلَى حَدِيثِ حَمْنَةَ بِنْتِ جَحْشٍ. وَكَذَلِكَ قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: الْمُسْتَحَاضَةُ إِذَا اسْتَمَرَّ بِهَا الدَّمُ فِي أَوَّلِ مَا رَأَتْ فَدَامَتْ عَلَى ذَلِكَ، فَإِنَّهَا تَدَعُ الصَّلاَةَ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا، فَإِذَا طَهُرَتْ فِي خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا أَوْ قَبْلَ ذَلِكَ: فَإِنَّهَا أَيَّامُ حَيْضٍ، فَإِذَا رَأَتِ الدَّمَ أَكْثَرَ مِنْ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا: فَإِنَّهَا تَقْضِي صَلاَةَ أَرْبَعَةَ عَشَرَ يَوْمًا، ثُمَّ تَدَعُ الصَّلاَةَ بَعْدَ ذَلِكَ أَقَلَّ مَا تَحِيضُ النِّسَاءُ، وَهُوَ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي أَقَلِّ الْحَيْضِ وَأَكْثَرِهِ. فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَقَلُّ الْحَيْضِ ثَلاَثَةٌ، وَأَكْثَرُهُ عَشَرَةٌ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ. وَبِهِ يَأْخُذُ ابْنُ الْمُبَارَكِ. وَرُوِيَ عَنْهُ خِلاَفُ هَذَا. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْهُمْ: عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ: أَقَلُّ الْحَيْضِ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَأَكْثَرُهُ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا. وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ، وَالأَوْزَاعِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ، وَأَبِي عُبَيْدٍ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۱۱۰ (۲۸۷)، ق/الطہارۃ ۱۱۵ (۶۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۲۱)، حم (۶/۴۳۹)، دي/الطہارۃ ۸۳ (۸۱۲) (حسن)
۱۲۸- حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں سخت قسم کے استحاضہ میں مبتلارہتی تھی، میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں مسئلہ پوچھنے اورآپ کو اس کی خبردینے کے لیے حاضرہوئی، میں نے آپﷺ کواپنی بہن زینب بنت حجش کے گھر پایا تو عرض کیا: اللہ کے رسول!میں سخت قسم کے استحاضہ میں مبتلارہتی ہوں،اس سلسلہ میں آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں،اس نے تومجھے صوم وصلاۃ دونوں سے روک دیا ہے؟آپ نے فرمایا:'' میں تجھے روئی رکھنے کا حکم دے رہاہوں اس سے خون بندہوجائے گا''، انہوں نے عرض کیا: وہ اس سے زیادہ ہے (روئی رکھنے سے نہیں رکے گا ) آپ نے فرمایا: ''تو لنگوٹ باندھ لیاکرو''،کہا: خون اس سے بھی زیادہ آرہا ہے، توآپ نے فرمایا: ''تم لنگوٹ کے نیچے ایک کپڑا رکھ لیا کرو''، کہا: یہ اس سے بھی زیادہ ہے، مجھے بہت تیزی سے خون بہتا ہے، تونبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''تو میں تجھے دوباتوں کا حکم دیتاہوں ان دونوں میں سے تم جوبھی کرلو تمہارے لیے کا فی ہوگا اوراگر تم دونوں پر قدرت رکھ سکو توتم زیادہ بہترجانتی ہو''، آپ نے فرمایا:''یہ توصرف شیطان کی چوٹ (مار)ہے توچھ یا سات دن جو اللہ کے علم میں ہیں انہیں توحیض کے شمارکر پھرغسل کرلے اور جب تو سمجھ لے کہ تو پاک وصاف ہوگئی ہو تو چوبیس یاتئیس دن صلاۃ پڑھ اورصیام رکھ، یہ تمہارے لیے کا فی ہے، اوراسی طرح کرتی رہو جیساکہ حیض والی عورتیں کرتی ہیں: حیض کے اوقات میں حائضہ اور پاکی کے وقتوں میں پاک رہتی ہیں،اوراگرتم اس بات پر قادرہو کہ ظہر کوکچھ دیر سے پڑھو اورعصر کوقدرے جلدی پڑھ لو تو غسل کرکے پاک صاف ہو جااورظہراورعصرکوایک ساتھ پڑھ لیاکرو، پھر مغرب کوذرا دیرکرکے اورعشاء کو کچھ پہلے کرکے پھرغسل کرکے یہ دونوں صلاتیں ایک ساتھ پڑھ لے تو ایساکرلیاکرو، اورصبح کے لیے الگ غسل کرکے فجر پڑھو، اگر تم قادرہوتو اس طرح کرو اورصوم رکھو''، پھررسول اللہﷺ نے فرمایا:''ان دونوں باتوں ۱؎ میں سے یہ دوسری صورت ۲؎ مجھے زیادہ پسند ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- محمدبن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے اور اسی طرح احمدبن حنبل نے بھی کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۳- احمد اور اسحاق بن راہویہ مستحاضہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ عورت جب اپنے حیض کے آنے اورجانے کوجانتی ہو، اور آنا یہ ہے کہ خون کالا ہو اور جانا یہ ہے کہ وہ زردی میں بدل جائے تواس کا حکم فاطمہ بن ابی حبیش رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مطابق ہوگا ۳؎ اور اگر مستحاضہ کے لیے استحاضہ سے پہلے(حیض کے) ایام معروف ہیں تو وہ اپنے حیض کے دنوں میں صلاۃ چھوڑ دے گی پھرغسل کرے گی اور ہر صلاۃ کے لیے وضو کرے گی۔ اورجب خون جاری رہے اور (حیض کے) ایام معلوم نہ ہوں اور نہ ہی وہ حیض کے آنے جانے کو جانتی ہو تو اس کاحکم حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مطابق ہوگا ۴؎ اسی طرح ابوعبید نے کہاہے۔
شافعی کہتے ہیں:جب مستحاضہ کوپہلی بارجب اس نے خون دیکھاتبھی سے برابرخون جاری ر ہے تووہ خون شروع ہونے سے لے کرپندرہ دن تک صلاۃچھوڑ ے رہے گی، پھر اگروہ پندرہ دن میں یا اس سے پہلے پاک ہوجاتی ہے تو گویا یہی اس کے حیض کے دن ہیں اور اگر وہ پندرہ دن سے زیادہ خون دیکھے ، تو وہ چودہ دن کی صلاۃ قضا کرے گی اور اس کے بعد عورتوں کے حیض کی اقل مدت جو ایک دن اور ایک رات ہے، کی صلاۃ چھوڑ دے گی، ۴- حیض کی کم سے کم مدت اورسب سے زیادہ مدت میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں: حیض کی سب سے کم مدت تین دن اور سب سے زیادہ مدت دس دن ہے، یہی سفیان ثوری،اور اہل کوفہ کا قول ہے اور اسی کو ابن مبارک بھی اختیار کرتے ہیں۔ ان سے اس کے خلاف بھی مروی ہے، بعض اہل علم جن میں عطا بن ابی رباح بھی ہیں، کہتے ہیں کہ حیض کی کم سے کم مدت ایک دن اور ایک رات ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ دن ہے،اوریہی مالک، اوزاعی، شافعی، احمد ، اسحاق بن راہویہ اور ابوعبید کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : ان دونوں باتو ں سے مراد:یاتوہرصلاۃکے لیے الگ الگ وضوکرنا یا ہر صلاۃ کے لیے الگ ایک غسل کرنا اور دوسری بات روزانہ صرف تین بارنہانا۔
وضاحت ۲؎ : یعنی روزانہ تین بار نہاناایک بار ظہراورعصرکے لیے، دوسری مغرب اورعشاء کے لیے اورتیسرے فجرکے لیے۔
وضاحت ۳؎ : یعنی حیض کے اختتام پرمستحاضہ عورت غسل کرے گی پھر ہرصلاۃ کے لیے وضوکرتی رہے گی۔
وضاحت ۴؎ : یعنی ہر روزتین مرتبہ غسل کرے گی، پہلے غسل سے ظہراورعصرکی صلاۃ ایک ساتھ پڑھے گی اوردوسرے غسل سے مغرب اورعشاء کی اورتیسرے غسل سے فجرکی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
96- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ أَنَّهَا تَغْتَسِلُ عِنْدَ كُلِّ صَلاَةٍ
۹۶-باب: مستحاضہ عورت ہرصلاۃ کے وقت غسل کرے​


129- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: اسْتَفْتَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ ابْنَةُ جَحْشٍ رَسُولَ اللهِ ﷺ، فَقَالَتْ: إِنِّي أُسْتَحَاضُ فَلاَ أَطْهُرُ، أَفَأَدَعُ الصَّلاَةَ؟ فَقَالَ: "لاَ، إِنَّمَا ذَلِكَ عِرْقٌ، فَاغْتَسِلِي، ثُمَّ صَلِّي، فَكَانَتْ تَغْتَسِلُ لِكُلِّ صَلاَةٍ".
قَالَ قُتَيْبَةُ: قَالَ اللَّيْثُ: لَمْ يَذْكُرْ ابْنُ شِهَابٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَمَرَ أُمَّ حَبِيبَةَ أَنْ تَغْتَسِلَ عِنْدَ كُلِّ صَلاَةٍ، وَلَكِنَّهُ شَيْئٌ، فَعَلَتْهُ هِيَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَيُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: اسْتَفْتَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ جَحْشٍ رَسُولَ اللهِ ﷺ. وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: الْمُسْتَحَاضَةُ تَغْتَسِلُ عِنْدَ كُلِّ صَلاَةٍ. وَرَوَى الأَوْزَاعِيُّ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ وَعَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ.
* تخريج: م/الحیض ۱۴ (۳۳۴)، د/الطہارۃ ۱۰۸ (۲۷۹)، و۱۱۱ (۲۸۸)، ن/الطہارۃ ۱۳۴ (۲۰۷)، والحیض ۳ (۳۵۳)، ق/الطہارۃ ۱۱۶ (۶۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۸۳)، حم (۶/۸۳، ۱۴۱، ۱۸۷)، دي/الطہارۃ ۸۳ (۸۰۵) (صحیح)
۱۲۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام حبیبہ بنت حجش نے رسول اللہﷺ سے مسئلہ پوچھا ااور کہاکہ مجھے استحاضہ کاخون آتاہے اور میں پاک نہیں رہ پاتی ہوں۔ توکیا میں صلاۃ چھوڑ دوں؟ آپ نے فرمایا :'' نہیں، یہ تومحض ایک رگ ہے، لہذا تم غسل کرو پھر صلاۃ پڑھو''،تو وہ ہرصلاۃ کے لیے غسل کرتی تھیں۔
ابن شہاب زہری نے اس کا ذکر نہیں کیا کہ رسول اللہﷺ نے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو ہرصلاۃ کے وقت غسل کرنے کا حکم دیا ، بلکہ یہ ایساعمل تھاجسے وہ اپنے طور پر کیا کرتی تھیں ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- نیز یہ حدیث زہری سے عن عمرۃ عن عائشہ کے طریق سے بھی روایت کی جاتی ہے کہ ام حبیبہ بنت جحش نے رسول اللہﷺ سے مسئلہ پوچھا، ۲- بعض اہل علم نے کہاہے کہ مستحاضہ ہرصلاۃ کے وقت غسل کرے گی۔
وضاحت ۱؎ : کسی بھی صحیح روایت میں نہیں آتاکہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کوہرصلاۃکے لیے غسل کا حکم دیاتھا، جو روایتیں اس بارے میں ہیں سب ضعیف ہیں،صحیح بات یہی ہے کہ وہ بطورخود(استحبابی طورسے)ہرصلاۃکے لیے غسل کیا کرتی تھیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
97- بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَائِضِ أَنَّهَا لاَ تَقْضِي الصَّلاَةَ
۹۷-باب: حائضہ کے صلاۃ قضا نہ کرنے کا بیان​


130- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ مُعَاذَةَ أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتْ عَائِشَةَ قَالَتْ: أَتَقْضِي إِحْدَانَا صَلاَتَهَا أَيَّامَ مَحِيضِهَا؟ فَقَالَتْ: أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ؟ قَدْ كَانَتْ إِحْدَانَا تَحِيضُ فَلاَ تُؤْمَرُ بِقَضَائٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ: أَنَّ الْحَائِضَ لاَ تَقْضِي الصَّلاَةَ. وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ، لاَ اخْتِلاَفَ بَيْنَهُمْ فِي أَنَّ الْحَائِضَ تَقْضِي الصَّوْمَ وَلاَ تَقْضِي الصَّلاَةَ.
* تخريج: خ/الحیض ۲۰ (۳۲۱)، م/الحیض ۱۵ (۳۳۵)، د/الطہارۃ ۱۰۵ (۲۶۲)، ن/الحیض ۱۷ (۳۸۲)، والصوم ۳۶ (۲۳۲۰)، ق/الطہارۃ ۱۱۹ (۶۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۶۴)، حم (۶/۳۲، ۹۷، ۱۲۰، ۱۸۵، ۲۳۱)، دي/الطہارۃ ۱۰۲ (۱۰۲۰) (صحیح)
۱۳۰- معاذۃ کہتی ہیں کہ ایک عورت نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا ہم حیض کے دنوں والی صلاۃ کی قضا کیا کریں؟ توانہوں نے کہا: کیا تو حروریہ ۱؎ ہے؟ ہم میں سے ایک کو حیض آتاتھا تو اُسے قضا کا حکم نہیں دیا جاتاتھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور عائشہ سے اور کئی سندوں سے بھی مروی ہے کہ حائضہ صلاۃ قضا نہیں کرے گی، ۳- اکثر فقہا کایہی قول ہے۔ ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ حائضہ صوم قضا کرے گی اورصلاۃ قضا نہیں کرے گی۔
وضاحت ۱؎ : حروریہ منسوب ہے حروراء کی طرف جو کوفہ سے دومیل کی دوری پر ایک بستی کا نام تھا، خوارج کو اسی گاؤں کی نسبت سے حروری کہا جاتا ہے، اس لیے کہ ان کا ظہوراسی بستی سے ہواتھا،ان میں کاایک گروہ حیض کے دنوں کی چھوٹی ہوئی صلاتوں کی قضاکو ضروری قراردیتاہے اسی لیے عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس عورت کو حروریہ کہا، مطلب یہ تھا کہ کیا تو خارجی عورت تونہیں ہے جو ایساکہہ رہی ہے۔
 
Top