95- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ أَنَّهَا تَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ
۹۵-باب: مستحاضہ ایک غسل سے دوصلاتیں ایک ساتھ جمع کرسکتی ہے
128- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامَرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمِّهِ عِمْرَانَ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّهِ حَمْنَةَ بِنْتِ جَحْشٍ، قَالَتْ: كُنْتُ أُسْتَحَاضُ حَيْضَةً كَثِيرَةً شَدِيدَةً، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ أَسْتَفْتِيهِ وَأُخْبِرُهُ، فَوَجَدْتُهُ فِي بَيْتِ أُخْتِي زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللهِ! إِنِّي أُسْتَحَاضُ حَيْضَةً كَثِيرَةً شَدِيدَةً، فَمَا تَأْمُرُنِي فِيهَا؟ قَدْ مَنَعَتْنِي الصِّيَامَ وَالصَّلاَةَ؟ قَالَ: "أَنْعَتُ لَكِ الْكُرْسُفَ، فَإِنَّهُ يُذْهِبُ الدَّمَ". قَالَتْ: هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ؟ قَالَ: فَتَلَجَّمِي. قَالَتْ: هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ؟ قَالَ: فَاتَّخِذِي ثَوْبًا، قَالَتْ: هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ، إِنَّمَا أَثُجُّ ثَجًّا؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "سَآمُرُكِ بِأَمْرَيْنِ: أَيَّهُمَا صَنَعْتِ أَجْزَأَ عَنْكِ، فَإِنْ قَوِيتِ عَلَيْهِمَا فَأَنْتِ أَعْلَمُ، فَقَالَ: إِنَّمَا هِيَ رَكْضَةٌ مِنْ الشَّيْطَانِ، فَتَحَيَّضِي سِتَّةَ أَيَّامٍ، أَوْ سَبْعَةَ أَيَّامٍ فِي عِلْمِ اللهِ، ثُمَّ اغْتَسِلِي، فَإِذَا رَأَيْتِ أَنَّكِ قَدْ طَهُرْتِ وَاسْتَنْقَأْتِ فَصَلِّي أَرْبَعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، أَوْ ثَلاَثًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً وَأَيَّامَهَا، وَصُومِي وَصَلِّي، فَإِنَّ ذَلِكِ يُجْزِئُكِ، وَكَذَلِكِ فَافْعَلِي، كَمَا تَحِيضُ النِّسَاءُ وَكَمَا يَطْهُرْنَ، لِمِيقَاتِ حَيْضِهِنَّ وَطُهْرِهِنَّ، فَإِنْ قَوِيتِ عَلَى أَنْ تُؤَخِّرِي الظُّهْرَ وَتُعَجِّلِي الْعَصْرَ، ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ حِينَ تَطْهُرِينَ، وَتُصَلِّينَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، ثُمَّ تُؤَخِّرِينَ الْمَغْرِبَ، وَتُعَجِّلِينَ الْعِشَاءَ، ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ، وَتَجْمَعِينَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ، فَافْعَلِي، وَتَغْتَسِلِينَ مَعَ الصُّبْحِ وَتُصَلِّينَ، وَكَذَلِكِ فَافْعَلِي، وَصُومِي إِنْ قَوِيتِ عَلَى ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: وَهُوَ أَعْجَبُ الأَمْرَيْنِ إِلَيَّ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرَوَاهُ عُبَيْدُاللهِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ، وَابْنُ جُرَيْجٍ، وَشَرِيكٌ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمِّهِ عِمْرَانَ، عَنْ أُمِّهِ حَمْنَةَ، إِلاَّ أَنَّ ابْنَ جُرَيجٍ يَقُولُ: "عُمَرُ ابْنُ طَلْحَةَ>، وَالصَّحِيحُ <عِمْرَانُ بْنُ طَلْحَةَ>. قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ؟ فَقَالَ: هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهَكَذَا قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ: إِذَا كَانَتْ تَعْرِفُ حَيْضَهَا بِإِقْبَالِ الدَّمِ وَإِدْبَارِهِ، وَإِقْبَالُهُ أَنْ يَكُونَ أَسْوَدَ، وَإِدْبَارُهُ أَنْ يَتَغَيَّرَ إِلَى الصُّفْرَةِ: فَالْحُكْمُ لَهَا عَلَى حَدِيثِ فَاطِمَةَ بِنْتِ أَبِي حُبَيْشٍ، وَإِنْ كَانَتِ الْمُسْتَحَاضَةُ لَهَا أَيَّامٌ مَعْرُوفَةٌ قَبْلَ أَنْ تُسْتَحَاضَ: فَإِنَّهَا تَدَعُ الصَّلاَةَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا ثُمَّ تَغْتَسِلُ وَتَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلاَةٍ وَتُصَلِّي، وَإِذَا اسْتَمَرَّ بِهَا الدَّمُ وَلَمْ يَكُنْ لَهَا أَيَّامٌ مَعْرُوفَةٌ وَلَمْ تَعْرِفِ الْحَيْضَ بِإِقْبَالِ الدَّمِ وَإِدْبَارِهِ: فَالْحُكْمُ لَهَا عَلَى حَدِيثِ حَمْنَةَ بِنْتِ جَحْشٍ. وَكَذَلِكَ قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: الْمُسْتَحَاضَةُ إِذَا اسْتَمَرَّ بِهَا الدَّمُ فِي أَوَّلِ مَا رَأَتْ فَدَامَتْ عَلَى ذَلِكَ، فَإِنَّهَا تَدَعُ الصَّلاَةَ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا، فَإِذَا طَهُرَتْ فِي خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا أَوْ قَبْلَ ذَلِكَ: فَإِنَّهَا أَيَّامُ حَيْضٍ، فَإِذَا رَأَتِ الدَّمَ أَكْثَرَ مِنْ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا: فَإِنَّهَا تَقْضِي صَلاَةَ أَرْبَعَةَ عَشَرَ يَوْمًا، ثُمَّ تَدَعُ الصَّلاَةَ بَعْدَ ذَلِكَ أَقَلَّ مَا تَحِيضُ النِّسَاءُ، وَهُوَ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي أَقَلِّ الْحَيْضِ وَأَكْثَرِهِ. فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَقَلُّ الْحَيْضِ ثَلاَثَةٌ، وَأَكْثَرُهُ عَشَرَةٌ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ. وَبِهِ يَأْخُذُ ابْنُ الْمُبَارَكِ. وَرُوِيَ عَنْهُ خِلاَفُ هَذَا. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْهُمْ: عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ: أَقَلُّ الْحَيْضِ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَأَكْثَرُهُ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا. وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ، وَالأَوْزَاعِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ، وَأَبِي عُبَيْدٍ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۱۱۰ (۲۸۷)، ق/الطہارۃ ۱۱۵ (۶۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۲۱)، حم (۶/۴۳۹)، دي/الطہارۃ ۸۳ (۸۱۲) (حسن)
۱۲۸- حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں سخت قسم کے استحاضہ میں مبتلارہتی تھی، میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں مسئلہ پوچھنے اورآپ کو اس کی خبردینے کے لیے حاضرہوئی، میں نے آپﷺ کواپنی بہن زینب بنت حجش کے گھر پایا تو عرض کیا: اللہ کے رسول!میں سخت قسم کے استحاضہ میں مبتلارہتی ہوں،اس سلسلہ میں آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں،اس نے تومجھے صوم وصلاۃ دونوں سے روک دیا ہے؟آپ نے فرمایا:'' میں تجھے روئی رکھنے کا حکم دے رہاہوں اس سے خون بندہوجائے گا''، انہوں نے عرض کیا: وہ اس سے زیادہ ہے (روئی رکھنے سے نہیں رکے گا ) آپ نے فرمایا: ''تو لنگوٹ باندھ لیاکرو''،کہا: خون اس سے بھی زیادہ آرہا ہے، توآپ نے فرمایا: ''تم لنگوٹ کے نیچے ایک کپڑا رکھ لیا کرو''، کہا: یہ اس سے بھی زیادہ ہے، مجھے بہت تیزی سے خون بہتا ہے، تونبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''تو میں تجھے دوباتوں کا حکم دیتاہوں ان دونوں میں سے تم جوبھی کرلو تمہارے لیے کا فی ہوگا اوراگر تم دونوں پر قدرت رکھ سکو توتم زیادہ بہترجانتی ہو''، آپ نے فرمایا:''یہ توصرف شیطان کی چوٹ (مار)ہے توچھ یا سات دن جو اللہ کے علم میں ہیں انہیں توحیض کے شمارکر پھرغسل کرلے اور جب تو سمجھ لے کہ تو پاک وصاف ہوگئی ہو تو چوبیس یاتئیس دن صلاۃ پڑھ اورصیام رکھ، یہ تمہارے لیے کا فی ہے، اوراسی طرح کرتی رہو جیساکہ حیض والی عورتیں کرتی ہیں: حیض کے اوقات میں حائضہ اور پاکی کے وقتوں میں پاک رہتی ہیں،اوراگرتم اس بات پر قادرہو کہ ظہر کوکچھ دیر سے پڑھو اورعصر کوقدرے جلدی پڑھ لو تو غسل کرکے پاک صاف ہو جااورظہراورعصرکوایک ساتھ پڑھ لیاکرو، پھر مغرب کوذرا دیرکرکے اورعشاء کو کچھ پہلے کرکے پھرغسل کرکے یہ دونوں صلاتیں ایک ساتھ پڑھ لے تو ایساکرلیاکرو، اورصبح کے لیے الگ غسل کرکے فجر پڑھو، اگر تم قادرہوتو اس طرح کرو اورصوم رکھو''، پھررسول اللہﷺ نے فرمایا:''ان دونوں باتوں ۱؎ میں سے یہ دوسری صورت ۲؎ مجھے زیادہ پسند ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- محمدبن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے اور اسی طرح احمدبن حنبل نے بھی کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۳- احمد اور اسحاق بن راہویہ مستحاضہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ عورت جب اپنے حیض کے آنے اورجانے کوجانتی ہو، اور آنا یہ ہے کہ خون کالا ہو اور جانا یہ ہے کہ وہ زردی میں بدل جائے تواس کا حکم فاطمہ بن ابی حبیش رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مطابق ہوگا ۳؎ اور اگر مستحاضہ کے لیے استحاضہ سے پہلے(حیض کے) ایام معروف ہیں تو وہ اپنے حیض کے دنوں میں صلاۃ چھوڑ دے گی پھرغسل کرے گی اور ہر صلاۃ کے لیے وضو کرے گی۔ اورجب خون جاری رہے اور (حیض کے) ایام معلوم نہ ہوں اور نہ ہی وہ حیض کے آنے جانے کو جانتی ہو تو اس کاحکم حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مطابق ہوگا ۴؎ اسی طرح ابوعبید نے کہاہے۔
شافعی کہتے ہیں:جب مستحاضہ کوپہلی بارجب اس نے خون دیکھاتبھی سے برابرخون جاری ر ہے تووہ خون شروع ہونے سے لے کرپندرہ دن تک صلاۃچھوڑ ے رہے گی، پھر اگروہ پندرہ دن میں یا اس سے پہلے پاک ہوجاتی ہے تو گویا یہی اس کے حیض کے دن ہیں اور اگر وہ پندرہ دن سے زیادہ خون دیکھے ، تو وہ چودہ دن کی صلاۃ قضا کرے گی اور اس کے بعد عورتوں کے حیض کی اقل مدت جو ایک دن اور ایک رات ہے، کی صلاۃ چھوڑ دے گی، ۴- حیض کی کم سے کم مدت اورسب سے زیادہ مدت میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں: حیض کی سب سے کم مدت تین دن اور سب سے زیادہ مدت دس دن ہے، یہی سفیان ثوری،اور اہل کوفہ کا قول ہے اور اسی کو ابن مبارک بھی اختیار کرتے ہیں۔ ان سے اس کے خلاف بھی مروی ہے، بعض اہل علم جن میں عطا بن ابی رباح بھی ہیں، کہتے ہیں کہ حیض کی کم سے کم مدت ایک دن اور ایک رات ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ دن ہے،اوریہی مالک، اوزاعی، شافعی، احمد ، اسحاق بن راہویہ اور ابوعبید کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : ان دونوں باتو ں سے مراد:یاتوہرصلاۃکے لیے الگ الگ وضوکرنا یا ہر صلاۃ کے لیے الگ ایک غسل کرنا اور دوسری بات روزانہ صرف تین بارنہانا۔
وضاحت ۲؎ : یعنی روزانہ تین بار نہاناایک بار ظہراورعصرکے لیے، دوسری مغرب اورعشاء کے لیے اورتیسرے فجرکے لیے۔
وضاحت ۳؎ : یعنی حیض کے اختتام پرمستحاضہ عورت غسل کرے گی پھر ہرصلاۃ کے لیے وضوکرتی رہے گی۔
وضاحت ۴؎ : یعنی ہر روزتین مرتبہ غسل کرے گی، پہلے غسل سے ظہراورعصرکی صلاۃ ایک ساتھ پڑھے گی اوردوسرے غسل سے مغرب اورعشاء کی اورتیسرے غسل سے فجرکی۔