• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
78- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ تَحْتَ كُلِّ شَعْرَةٍ جَنَابَةً
۷۸-باب: ہربال کے نیچے جنابت ہے​


106- حدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ وَجِيهٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "تَحْتَ كُلِّ شَعْرَةٍ جَنَابَةٌ، فَاغْسِلُوا الشَّعْرَ وَأَنْقُوا الْبَشَرَ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْحَارِثِ بْنِ وَجِيهٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِهِ. وَهُوَ شَيْخٌ لَيْسَ بِذَاكَ. وَقَدْ رَوَى عَنْهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ. وَقَدْ تَفَرَّدَ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ مَالِكِ بْنِ دِينَارٍ، وَيُقَالُ: "الْحَارِثُ بْنُ وَجِيهٍ" وَيُقَالُ: "ابْنُ وَجْبَةَ".
* تخريج: د/الطہارۃ ۹۸ (۲۴۸)، ق/الطہارۃ ۱۰۶ (۵۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۰۲) (ضعیف)
(سند میں حارث وجیہ ضعیف راوی ہے)
۱۰۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' ہربال کے نیچے جنابت کااثرہوتا ہے، اس لیے بالوں کو اچھی طرح دھویاکرو اورکھال کواچھی طرح مل کرصاف کرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں علی اور انس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- حارث بن وجیہ کی حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف انہیں کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ قوی نہیں ہیں ۱؎ ، وہ اس حدیث کومالک بن دینا رسے روایت کرنے میں منفرد ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : اس لفظ ''قوی نہیں ہیں'' کا تعلق جرح کے مراتب کے پہلے مرتبہ سے ہے، ایسے راوی کی روایت قابل اعتبار یعنی تقویت کے قابل ہے اور اس کی تقویت کے لیے مزید روایات تلاش کی جاسکتی ہیں،ایسانہیں کہ اس کی روایت سرے سے درخوراعتنا ء ہی نہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
79- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ بَعْدَ الْغُسْلِ
۷۹-باب: غسل کے بعد و ضونہ کرنے کا بیان​


107- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ لاَ يَتَوَضَّأُ بَعْدَ الْغُسْلِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَالتَّابِعِينَ أَنْ لاَيَتَوَضَّأَ بَعْدَ الْغُسْلِ.
* تخريج: ن/الطہارۃ ۱۶۰ (۱۵۳)، والغسل ۲۴ (۴۳۰)، ق/الطہارۃ ۹۶ (۵۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۲۵)، حم (۶/۶۸، ۱۱۹، ۱۵۴، ۱۹۲، ۲۵۳، ۲۵۸)، وانظر أیضا: د/الطہارۃ ۹۹ (۲۵۰) (صحیح)
۱۰۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ غسل کے بعد وضو نہیں کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا قول ہے کہ غسل کے بعد وضو نہ کرے ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی: درمیانِ غسل جو وضوکرچکاہے وہ کافی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
80-بَاب مَا جَاءَ إِذَا الْتَقَى الْخِتَانَانِ وَجَبَ الْغُسْلُ
۸۰-باب: مرد اورعورت کی شرمگاہ مل جانے سے غسل کے واجب ہوجانے کا بیان​


108- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: إِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ، فَعَلْتُهُ أَنَا وَرَسُولُ اللهِ ﷺ فَاغْتَسَلْنَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ۔
* تخريج: ق/الطہارۃ ۱۱۱ (۲۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۹۹)، وراجع أیضا: م/الحیض ۲۲ (۳۴۹)، وط/الطہارۃ ۱۸ (۷۳)، وحم (۶/۴۷، ۹۷، ۱۱۲، ۲۲۷، ۲۳۹، ۲۶۵) (صحیح)
۱۰۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب مردکے ختنہ کامقام (عضوتناسل) عورت کے ختنے کے مقام (شرمگاہ) سے مل جائے تو غسل واجب ہوگیا ۱؎ ، میں نے اور رسول اللہ ﷺ نے ایساکیا تو ہم نے غسل کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابوہریرہ ،عبداللہ بن عمرو اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : گرچہ انزال نہ ہوتب بھی غسل واجب ہوگیا ، پہلے یہ مسئلہ تھا کہ جب انزال ہوتب غسل واجب ہوگا ، جو بعدمیں اس حدیث سے منسوخ ہوگیا، دیکھئے اگلی حدیث ۔


109- حدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "إِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ وَجَبَ الْغُسْلُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ: إِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ. وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، مِنْهُمْ: أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَعَائِشَةُ، وَالْفُقَهَائِ مِنْ التَّابِعِينَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِثْلِ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ. قَالُوا: إِذَا الْتَقَى الْخِتَانَانِ وَجَبَ الْغُسْلُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۱۹) (صحیح)
( سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں، لیکن پچھلی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)
۱۰۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :'' جب مردکے ختنے کامقام عورت کے ختنے کے مقام (شرمگاہ)سے مل جائے تو غسل واجب ہوگیا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- کئی سندوں سے عائشہ کی نبی اکرم ﷺ مرفوع حدیث مروی ہے کہ''جب ختنے کا مقام ختنے کے مقام سے مل جائے تو غسل واجب ہوجاتاہے'' صحابہ کرام میں سے اکثراہل علم کا یہی قول ہے، ان میں ابوبکر ، عمر ،عثمان،علی اور عائشہ رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں،تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے بھی اکثر اہل علم مثلاً سفیان ثوری ، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کایہی قول ہے کہ جب دونوں ختنوں کے مقام آپس میں چھوجائیں تو غسل واجب ہوگیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
81-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْمَاءَ مِنْ الْمَاءِ
۸۱-باب: منی نکلنے پر غسل کے واجب ہونے کا بیان​


110- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: إِنَّمَا كَانَ الْمَاءُ مِنْ الْمَاءِ رُخْصَةً فِي أَوَّلِ الإسْلاَمِ، ثُمَّ نُهِيَ عَنْهَا.
* تخريج: د/الطہارۃ ۸۴ (۲۱۴)، ق/الطہارۃ ۱۱۱ (۹۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷)، حم (۵/۱۱۵، ۱۱۶)، دي/الطہارۃ ۷۳ (۷۸۶) (صحیح)
۱۱۰- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صرف منی (نکلنے) پرغسل واجب ہوتا ہے،یہ رخصت ابتدائے اسلام میں تھی، پھر اس سے روک دیاگیا۔
وضاحت ۱؎ : اورحکم دیا گیا کہ منی خواہ نکلے یا نہ نکلے اگرختنے کا مقام ختنے کے مقام سے مل جائے توغسل واجب ہوجائے گا۔


111- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الإسْنَادِ مِثْلَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَإِنَّمَا كَانَ الْمَاءُ مِنْ الْمَاءِ فِي أَوَّلِ الإسْلاَمِ، ثُمَّ نُسِخَ بَعْدَ ذَلِكَ. وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْهُمْ: أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَرَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ: عَلَى أَنَّهُ إِذَا جَامَعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ فِي الْفَرْجِ وَجَبَ عَلَيْهِمَا الْغُسْلُ، وَإِنْ لَمْ يُنْزِلاَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۱۱- اس سند سے بھی زہری سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صرف منی نکلنے ہی کی صورت میں غسل واجب ہوتا ہے، یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا، بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا، ۳- اسی طرح صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں سے جن میں ابی بن کعب اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما بھی شامل ہیں، مروی ہے، ۴- اوراسی پراکثر اہل علم کا عمل ہے، کہ جب آدمی اپنی بیوی کی (شرمگاہ) میں جماع کرے تو دونوں(میاں بیوی) پر غسل واجب ہوجائے گا گرچہ ان دونوں کو انزال نہ ہواہو۔


112- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الْجَحَّافِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِنَّمَا الْمَاءُ مِنْ الْمَاءِ فِي الإحْتِلاَمِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت الْجَارُودَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ: لَمْ نَجِدْ هَذَا الْحَدِيثَ إِلاَّ عِنْدَ شَرِيكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو الْجَحَّافِ اسْمُهُ دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَوْفٍ. وَيُرْوَى عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْجَحَّافِ وَكَانَ مَرْضِيًّا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَالزُّبَيْرِ، وَطَلْحَةَ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَأَبِي سَعِيدٍ: عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۰۸۰) (ضعیف الإسناد)
( سند میں شریک بن عبداللہ القاضی ضعیف ہیں، اور یہ موقوف ہے، لیکن اصل حدیث إنما الماء من الماء مرفوعا صحیح ہے، جیسا کہ اوپر گزرا، اور مؤلف نے باب میں وارد احادیث کا ذکرکیا، لیکن مرفوع میں (في الاحتلام) کا لفظ نہیں ہے)
۱۱۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: '' منی نکلنے سے ہی غسل واجب ہوتا ہے'' کا تعلق احتلام سے ہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب، زبیر ، طلحہ، ابوایوب اور ابوسعید رضی اللہ عنہم نے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاروایت کی ہے کہ آپ نے فرمایامنی نکلنے ہی پرغسل واجب ہوتا ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ توجیہ حدیث''إنما الماء من الماء''(انزال ہو نے پرغسل واجب ہے)کی ایک دوسری توجیہ ہے ، یعنی خواب میں ہم بستری دیکھے اورکپڑے میں منی دیکھے تب غسل واجب ہے ورنہ نہیں، مگربقول علامہ البانی ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول بھی بغیر ''في الاحتلام''کے ہے ، یہ لفظ ان کے قول سے بھی ثابت نہیں ہے کیونکہ یہ سندضعیف ہے ، اور''إنما الماء من الماء'' شواہدکی بناپرصحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
82-بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَسْتَيْقِظُ فَيَرَى بَلَلاً وَلاَ يَذْكُرُ احْتِلاَمًا
۸۲-باب: جاگنے پر تری دیکھنے اور احتلام کے یاد نہ آنے کا بیان​


113- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ الْخَيَّاطُ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ - هُوَ الْعُمَرِيُّ - عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ الرَّجُلِ يَجِدُ الْبَلَلَ، وَلاَ يَذْكُرُ احْتِلاَمًا. قَالَ: "يَغْتَسِلُ" وَعَنْ الرَّجُلِ يَرَى أَنَّهُ قَدْ احْتَلَمَ وَلَمْ يَجِدْ بَلَلاً، قَالَ: "لاَ غُسْلَ عَلَيْهِ" قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ تَرَى ذَلِكَ غُسْلٌ؟ قَالَ: "نَعَمْ، إِنَّ النِّسَاءَ شَقَائِقُ الرِّجَالِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَبْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ: حَدِيثَ عَائِشَةَ فِي الرَّجُلِ يَجِدُ الْبَلَلَ وَلاَ يَذْكُرُ احْتِلاَمًا، وَعَبْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ فِي الْحَدِيثِ. وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَالتَّابِعِينَ إِذَا اسْتَيْقَظَ الرَّجُلُ فَرَأَى بِلَّةً أَنَّهُ يَغْتَسِلُ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَحْمَدَ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ: إِنَّمَا يَجِبُ عَلَيْهِ الْغُسْلُ إِذَا كَانَتْ الْبِلَّةُ بِلَّةَ نُطْفَةٍ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَإِسْحَاقَ. وَإِذَا رَأَى احْتِلاَمًا وَلَمْ يَرَ بِلَّةً فَلاَ غُسْلَ عَلَيْهِ عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۹۵ (۲۳۶)، ق/الطہارۃ ۱۱۲ (۶۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۳۹)، حم (۶/۲۵۶) (صحیح)
(ام سلمہ (یاام سلیم) کا قول صر ف عبداللہ العمری کی اس روایت میں ہے اور وہ ضعیف ہیں، بقیہ ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں،ملاحظہ ہو: صحیح سنن ابی داود ۲۳۴)
۱۱۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو تری دیکھے لیکن اسے احتلام یادنہ آئے، آپ نے فرمایا: ''وہ غسل کرے '' اور اس شخص کے بارے میں (پوچھاگیا) جسے یہ یاد ہوکہ اسے احتلام ہوا ہے لیکن وہ تری نہ پائے توآپ نے فرمایا : '' اس پر غسل نہیں'' ام سلمہ نے عرض کیا:اللہ کے رسول! کیا عورت پر بھی جو ایسادیکھے غسل ہے؟ آپ نے فرمایا : عورتیں بھی (شرعی احکام میں) مردوں ہی کی طرح ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ کی حدیث کو جس میں ہے کہ'' آدمی تری دیکھے اوراسے احتلام یادنہ آئے صرف عبداللہ ابن عمرعمری ہی نے عبیداللہ سے روایت کیا ہے اورعبداللہ بن عمرعمری کی یحیی بن سعیدنے حدیث کے سلسلے میں ان کے حفظ کے تعلق سے تضعیف کی ہے ۱؎ ، ۲- صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ جب آدمی جاگے اور تری دیکھے توغسل کرے،یہی سفیان ثوری اور احمد کابھی قول ہے۔تابعین میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس پر غسل اس وقت واجب ہوگا جب وہ تری نطفے کی تری ہو، یہ شافعی اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔اورجب وہ احتلام دیکھے اور تری نہ پائے تو اکثر اہل علم کے نزدیک اس پر غسل نہیں۔
وضاحت ۱؎ : فی الواقع عبداللہ العمری حفظ میں کمی کے سبب تمام ائمہ کے نزدیک ضعیف ہیں، لیکن اس حدیث کا آخری ٹکڑا صحیحین میں ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی حدیث سے مروی ہے ، اورپہلا ٹکڑا خولہ بنت حکیم کی حدیث جو حسن ہے سے تقویت پاکرصحیح ہے (خولہ کی حدیث ابن ماجہ میں ہے،دیکھئے رقم :۶۰۲)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
83-بَاب مَا جَاءَ فِي الْمَنِيِّ وَالْمَذْيِ
۸۳-باب: منی اور مذی کا بیان​


114- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ الْبَلْخِيُّ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، ح قَالَ: و حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ عَنْ الْمَذْيِ؟ فَقَالَ: "مِنْ الْمَذْيِ الْوُضُوءُ، وَمِنَ الْمَنِيِّ الْغُسْلُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ الْمِقْدَادِ بْنِ الأَسْوَدِ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ مِنْ الْمَذْيِ الْوُضُوءُ، وَمِنْ الْمَنِيِّ الْغُسْلُ. وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ.
* تخريج: ق/الطہارۃ۷۰ (۵۰۴)، حم (۱/۸۷، ۱۱۰، ۱۱۲، ۱۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۲۵)، وراجع أیضا: خ/الغسل ۱۳ (۲۶۹)، د/الطہارۃ ۸۳ (۲۰۶)، ن/الطہارۃ ۱۱۲ (۱۵۲)، والغسل ۲۸ (۴۳۶)، حم (۱/ ۸۲، ۱۰۸) (صحیح)
(سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
۱۱۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے مذی ۱؎ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ''مذی سے وضو ہے اورمنی سے غسل '' ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں مقداد بن اسود اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کئی سندوں سے مرفوعاًمروی ہے کہ'' مذی سے وضو ہے، اور منی سے غسل ''، ۴- صحابہ کرام اور تابعین میں سے اکثراہل علم کا یہی قول ہے، اور سفیان ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ مذی کے نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا، اس سے صرف وضو ٹوٹتاہے، مذی سفید، پتلا لیس دارپانی ہے جوبیوی سے چھیڑچھاڑکے وقت اور جماع کے ارادے کے وقت مردکی شرم گاہ سے خارج ہوتا ہے ۔
وضاحت ۲؎ : خواہ یہ منی جماع سے نکلے یا چھیڑچھاڑسے ،یا خواب (نیند) میں ، بہرحال اس سے غسل واجب ہوجاتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
84- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمَذْيِ يُصِيبُ الثَّوْبَ
۸۴-باب: کپڑے میں مذی لگ جانے کا بیان​


115- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدٍ، هُوَ ابْنُ السَّبَّاقِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، قَالَ: كُنْتُ أَلْقَى مِنَ الْمَذْيِ شِدَّةً وَعَنَائً، فَكُنْتُ أُكْثِرُ مِنْهُ الْغُسْلَ. فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَسَأَلْتُهُ عَنْهُ؟ فَقَالَ: "إِنَّمَا يُجْزِئُكَ مِنْ ذَلِكَ الْوُضُوءُ". فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! كَيْفَ بِمَا يُصِيبُ ثَوْبِي مِنْهُ؟ قَالَ: "يَكْفِيكَ أَنْ تَأْخُذَ كَفًّا مِنْ مَائٍ فَتَنْضَحَ بِهِ ثَوْبَكَ حَيْثُ تَرَى أَنَّهُ أَصَابَ مِنْهُ". قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَلاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ فِي الْمَذْيِ مِثْلَ هَذَا. وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْمَذْيِ يُصِيبُ الثَّوْبَ. فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لاَ يُجْزِءُ إِلاَّ الْغَسْلُ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَإِسْحَاقَ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ: يُجْزِئُهُ النَّضْحُ. و قَالَ أَحْمَدُ: أَرْجُو أَنْ يُجْزِئَهُ النَّضْحُ بِالْمَاءِ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۸۳ (۲۱۰)، ق/الطہارۃ ۷۰ (۵۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۶۴)، حم (۳/۴۸۵)، دي/الطہارۃ ۴۹ (۷۵۰) (حسن)
۱۱۵- سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے مذی کی وجہ سے پریشانی اور تکلیف سے دوچار ہونا پڑتاتھا، میں اس کی وجہ سے کثرت سے غسل کیا کرتاتھا ،میں نے اس کا ذکر رسول اللہﷺ سے کیا اور اس سلسلے میں پوچھاتو آپ نے فرمایا: '' اس کے لیے تمہیں وضو کافی ہے''، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگروہ کپڑے میں لگ جائے توکیا کروں؟ آپ نے فرمایا: تو ایک چلو پانی لے اوراسے کپڑے پر جہاں جہاں دیکھے کہ وہ لگی ہے چھڑک لے یہ تمہارے لیے کافی ہوگا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ہم مذی کے سلسلہ میں اس طرح کی روایت محمدبن اسحاق کے طریق سے ہی جانتے ہیں، ۳- کپڑے میں مذی لگ جانے کے سلسلہ میں اہل علم میں اختلاف ہے، بعض کا قول ہے کہ دھونا ضروری ہے، یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ کاقول ہے، اور بعض اس بات کے قائل ہیں کہ پانی چھڑک لیناکافی ہوگا۔ امام احمد کہتے ہیں: مجھے امید ہے کہ پانی چھڑک لینا کافی ہوگا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اوریہی راجح ہے کیونکہ حدیث میں ''نضح''(چھڑکنا) ہی آیاہے ، ہاں بطورنظافت کوئی دھولے تویہ اس کی اپنی پسندہے، واجب نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
85- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمَنِيِّ يُصِيبُ الثَّوْبَ
۸۵-باب: کپڑے میں منی لگ جانے کا بیان​


116- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: ضَافَ عَائِشَةَ ضَيْفٌ، فَأَمَرَتْ لَهُ بِمِلْحَفَةٍ صَفْرَاءَ، فَنَامَ فِيهَا، فَاحْتَلَمَ، فَاسْتَحْيَا أَنْ يُرْسِلَ بِهَا وَبِهَا أَثَرُ الإحْتِلاَمِ، فَغَمَسَهَا فِي الْمَاءِ، ثُمَّ أَرْسَلَ بِهَا، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: لِمَ أَفْسَدَ عَلَيْنَا ثَوْبَنَا؟ إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيهِ أَنْ يَفْرُكَهُ بِأَصَابِعِهِ، وَرُبَّمَا فَرَكْتُهُ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللهِ ﷺ بِأَصَابِعِي. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَالتَّابِعِينَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ الْفُقَهَاءِ مِثْلِ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ، قَالُوا فِي الْمَنِيِّ يُصِيبُ الثَّوْبَ: يُجْزِئُهُ الْفَرْكُ وَإِنْ لَمْ يُغْسَلْ. وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَائِشَةَ مِثْلَ رِوَايَةِ الأَعْمَشِ. وَرَوَى أَبُو مَعْشَرٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ. وَحَدِيثُ الأَعْمَشِ أَصَحُّ.
* تخريج: ق/الطہارۃ ۸۲ (۵۳۸)، حم (۶/۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۷۷)، وانظر أیضا: م/الطہارۃ ۳۲ (۲۸۸)، ق/الطہارۃ ۱۸۸ (۲۹۸)، ق/الطہارۃ ۸۲ (۵۳۷)، حم (۶/۶۷، ۱۲۵، ۱۳۵، ۲۱۳، ۲۳۹، ۲۶۳، ۲۸۰) (صحیح)
۱۱۶- ہمّام بن حارث کہتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں ایک مہمان آیا تو انہوں نے اسے (اوڑھنے کے لیے) اسے ایک زرد چادر دینے کا حکم دیا۔ وہ اس میں سویا تو اسے احتلام ہوگیا،ایسے ہی بھیجنے میں کہ اس میں احتلام کا اثر ہے اُسے شرم محسوس ہوئی، چنانچہ اس نے اسے پانی سے دھوکربھیجا، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اس نے ہمارا کپڑا کیوں خراب کردیا؟ اسے اپنی انگلیوں سے کھرچ دیتا، بس اتنا کافی تھا، بسا اوقات میں اپنی انگلیوں سے رسول اللہﷺ کے کپڑے سے اسے کھرچ دیتی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام ،تابعین اوران کے بعدکے فقہاء میں سے سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ کپڑے پرمنی ۱؎ لگ جائے تو اسے کھرچ دینا کافی ہے،گرچہ دھویا نہ جائے۔
وضاحت ۱؎ : یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ منی کو کپڑے سے دھونا واجب نہیں خشک ہو تو اسے کھرج دینے اور ترہوتو کسی چیز سے صاف کر دینے سے کپڑاپاک ہوجاتا ہے،منی پاک ہے یاناپاک اس مسئلہ میں علما ء میں اختلاف ہے، امام شافعی داودظاہری اور امام احمدکی رائے ہے کہ منی ناک کے پانی اور منہ کے لعاب کی طرح پاک ہے، صحابہ کرام میں سے علی، سعد بن ابی وقاص ، ابن عمراورعائشہ رضی اللہ عنہم کا بھی یہی مسلک ہے اوردلائل کی روشنی میں یہی قول راجح ہے،شیخ الإسلام ابن تیمیہ اورابن القیم کا بھی یہی مسلک ہے شیخ الإسلام کا فتوی ''الفتاوی الکبریٰ'' میں مفصل موجودہے ، جسے ابن القیم نے بدائع النوائد میں بعض فقہاء کہہ کرذکرکیا ہے اورجن حدیثوں میں منی دھونے کا تذکرہ ہے وہ بطورنظافت کے ہے ، وجوب کے نہیں(دیکھئے اگلی حدیث کے تحت امام ترمذی کی توجیہ)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
86-بَاب غَسْلِ الْمَنِيِّ مِنَ الثَّوْبِ
۸۶-باب: منی کے کپڑے سے دھونے کا بیان​


117-حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا غَسَلَتْ مَنِيًّا مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللهِ ﷺ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. وَحَدِيثُ عَائِشَةَ: "أَنَّهَا غَسَلَتْ مَنِيًّا مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللهِ ﷺ" لَيْسَ بِمُخَالِفٍ لِحَدِيثِ الْفَرْكِ، لأَنَّهُ وَإِنْ كَانَ الْفَرْكُ يُجْزِءُ، فَقَدْ يُسْتَحَبُّ لِلرَّجُلِ أَنْ لاْ يُرَى عَلَى ثَوْبِهِ أَثَرُهُ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْمَنِيُّ بِمَنْزِلَةِ الْمُخَاطِ، فَأَمِطْهُ عَنْكَ وَلَوْ بِإِذْخِرَةٍ.
* تخريج: خ/الوضوء ۶۴ (۲۲۹)، و۶۵ (۲۳۲)، م/الطہارۃ ۳۲ (۲۸۹)، د/الطہارۃ ۱۳۶ (۳۷۳)، ن/الطہارۃ ۱۸۷ (۲۹۶)، ق/الطہارۃ ۸۱ (۵۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۳۵)، حم (۲/۱۴۲، ۲۳۵) (صحیح)
۱۱۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے کپڑے سے منی دھوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث '' کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے کپڑے سے منی دھوئی''ان کی کھرچنے والی حدیث کے معارض نہیں ہے ۱؎ ۔ اس لیے کہ کھرچنا کافی ہے،لیکن مرد کے لیے یہی پسند کیاجاتاہے کہ اس کے کپڑے پر اس کا کوئی اثر دکھائی نہ دے۔(کیونکہ مردکوآدمیوں کی مجلسوں میں بیٹھناہوتا ہے) ابن عباس کہتے ہیں: منی رینٹ ناک کے گاڑھے پانی کی طرح ہے، لہذا تم اسے اپنے سے صاف کرلو چاہے اذخر(گھاس) ہی سے ہو۔
وضاحت ۱؎ : اس لیے کہ ان دونوں میں مطابقت واضح ہے، جو لوگ منی کی طہارت کے قائل ہیں وہ دھونے والی روایت کو استحباب پر محمول کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ دھو نا بطوروجوب نہیں تھابلکہ بطورنظافت تھا، کیونکہ اگردھونا واجب ہوتا توخشک ہونے کی صورت میں بھی صرف کھرچنا کافی نہ ہوتا، حالانکہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے صرف کھرچنے پراکتفاء کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
87- بَاب مَا جَاءَ فِي الْجُنُبِ يَنَامُ قَبْلَ أَنْ يَغْتَسِلَ
۸۷-باب: جنبی غسل کرنے سے پہلے سوئے اس کا بیان​


118- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَنَامُ، وَهُوَ جُنُبٌ وَلاَ يَمَسُّ مَائً.
* تخريج: د/الطہارۃ ۹۰ (۲۲۸)، ق/الطہارۃ ۹۸ (۵۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۲۴) (صحیح)
۱۱۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺسوتے اور پانی کو ہاتھ نہ لگاتے اورآپ جنبی ہوتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جنبی وضواور غسل کے بغیر سوسکتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل بیانِ جواز کے لیے ہے تاکہ امت پر یشانی میں نہ پڑے، رہا اگلی حدیث میں آپ کا یہ عمل کہ آپ جنابت کے بعد سونے کے لیے وضو فرمالیا کرتے تھے تو یہ افضل ہے ، دونوں حدیثوں میں کوئی ٹکراؤنہیں۔


119- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفِيانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ نَحْوَهُ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: وَهَذَا قَوْلُ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَغَيْرِهِ. وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، أَنَّهُ كَانَ يَتَوَضَّأُ قَبْلَ أَنْ يَنَامَ. وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الأَسْوَدِ. وَقَدْ رَوَى عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ هَذَا الْحَدِيثَ شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ. وَيَرَوْنَ أَنَّ هَذَا غَلَطٌ مِنْ أَبِي إِسْحَاقَ ۱؎ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف:۱۶۰۲۳) (صحیح)
۱۱۹- اس سند سے بھی ابو اسحاق سے اسی طرح مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہی سعید بن مسیب وغیرہ کاقول ہے، ۲- کئی سندوں سے عائشہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ سونے سے پہلے وضو کرتے تھے، ۳- یہ ابواسحاق سبیعی کی حدیث(رقم ۱۱۸) سے جسے انہوں نے اسودسے روایت کیا ہے زیادہ صحیح ہے،اورابواسحاق سبیعی سے یہ حدیث شعبہ ،ثوری اوردیگر کئی لوگوں نے بھی روایت کی ہے اور ان کے خیا ل میں اس میں غلطی ابواسحاق سبیعی سے ہوئی ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ان کا سب کا ماحصل یہ ہے کہ اسودکے تلامذہ میں سے صرف ابواسحاق سبیعی نے اس حدیث کو''كان النبي ﷺ ينام وهو جنب لايمس ماء '' کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے، اس کے برخلاف ان کے دوسرے تلامذہ نے اسے'' إنه كان يتوضأ قبل أن ينام'' کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے، لیکن کسی ثقہ راوی کا کسی لفظ کا اضافہ جومخالف نہ ہو حدیث کے صحیح ہو نے سے مانع نہیں ہے ، اورابواسحاق سبیعی ثقہ راوی ہیں، نیز یہ کہ احمدکی ایک روایت (۶/۱۰۲)میں اسودسے سننے کی صراحت موجودہے ،نیز سفیان ثوری نے بھی ابواسحاق سبیعی سے یہ روایت کی ہے اورابواسحاق سبیعی سے ان کی روایت سب سے معتبرمانی جاتی (دیکھئے صحیح ابوداودرقم : ۲۳۴،اورسنن ابن ماجہ رقم:۵۸۳)
 
Top