- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
68- بَاب مَا جَاءَ فِي سُؤْرِ الْكَلْبِ
۶۸-باب: کتے کے جھوٹے کا بیان
91- حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَال: سَمِعْتُ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "يُغْسَلُ الإنَاءُ إِذَا وَلَغَ فِيهِ الْكَلْبُ سَبْعَ مَرَّاتٍ، أُولاَهُنَّ أَوْ أُخْرَاهُنَّ بِالتُّرَابِ، وَإِذَا وَلَغَتْ فِيهِ الْهِرَّةُ غُسِلَ مَرَّةً". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا، وَلَمْ يُذْكَرْ فِيهِ: إِذَا وَلَغَتْ فِيهِ الْهِرَّةُ غُسِلَ مَرَّةً. وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۳۷ (۷۲)، وانظر أیضا: خ/الوضوء ۳۳ (۱۷۲)، م/الطہارۃ ۲۷ (۲۷۹)، د/الطہارۃ ۳۷ (۷۱)، ن/الطہارۃ ۵۱ (۶۳)، والمیاہ ۷ (۳۳۶)، و (۳۴۰)، ق/الطہارۃ ۳۱ (۳۶۳، ۳۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۰۹)، ط/الطہارۃ ۶ (۲۵)، حم (۲/۲۴۵، ۲۵۳، ۲۶۵، ۲۷۱، ۳۶۰، ۳۹۸، ۴۲۴، ۴۲۷، ۴۴۰، ۴۸۰، ۵۰۸) (صحیح)
۹۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ''برتن میں جب کتامنہ ڈال دے تواسے سات بار دھویاجائے، پہلی بار یاآخری باراسے مٹی سے دھویاجائے ۱؎ ، اور جب بلی منہ ڈالے تو اسے ایک بار دھویاجائے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اوریہی شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کاقول ہے۔ ۳-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث نبی اکرم ﷺ سے کئی سندوں سے اسی طرح مروی ہے جن میں بلی کے منہ ڈالنے پر ایک باردھونے کاذکرنہیں کیا گیا ہے،۳- اس باب میں عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھونا اور ایک بار مٹی سے دھونا واجب ہے یہی جمہورکا مسلک ہے ،احناف تین بار دھونے سے برتن کے پاک ہو نے کے قائل ہیں، ان کی دلیل دارقطنی اور طحاوی میں منقول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کافتویٰ ہے کہ اگر کتاکسی برتن میں منہ ڈال دے تو اسے تین مرتبہ دھوناچاہئے، حالانکہ ابوہریرہ سے سات باردھونے کا بھی فتویٰ منقول ہے اور سندکے اعتبار سے یہ پہلے فتوے سے زیادہ صحیح ہے، نیز یہ فتویٰ روایت کے موافق بھی ہے، اس لیے یہ بات درست نہیں ہے کہ صحیح حدیث کے مقابلہ میں ان کے مرجوح فتوے اور رائے کو ترجیح دی جائے، رہے وہ اعتراضات جو باب کی اس حدیث پر احناف کی طرف سے واردکئے گئے ہیں تو ان سب کے تشفی بخش جوابات دیئے جاچکے ہیں، تفصیل کے لیے دیکھئے (تحفۃ الاحوذی ،ج۱ص۹۳)۔