• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
68- بَاب مَا جَاءَ فِي سُؤْرِ الْكَلْبِ
۶۸-باب: کتے کے جھوٹے کا بیان​


91- حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَال: سَمِعْتُ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "يُغْسَلُ الإنَاءُ إِذَا وَلَغَ فِيهِ الْكَلْبُ سَبْعَ مَرَّاتٍ، أُولاَهُنَّ أَوْ أُخْرَاهُنَّ بِالتُّرَابِ، وَإِذَا وَلَغَتْ فِيهِ الْهِرَّةُ غُسِلَ مَرَّةً". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا، وَلَمْ يُذْكَرْ فِيهِ: إِذَا وَلَغَتْ فِيهِ الْهِرَّةُ غُسِلَ مَرَّةً. وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۳۷ (۷۲)، وانظر أیضا: خ/الوضوء ۳۳ (۱۷۲)، م/الطہارۃ ۲۷ (۲۷۹)، د/الطہارۃ ۳۷ (۷۱)، ن/الطہارۃ ۵۱ (۶۳)، والمیاہ ۷ (۳۳۶)، و (۳۴۰)، ق/الطہارۃ ۳۱ (۳۶۳، ۳۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۰۹)، ط/الطہارۃ ۶ (۲۵)، حم (۲/۲۴۵، ۲۵۳، ۲۶۵، ۲۷۱، ۳۶۰، ۳۹۸، ۴۲۴، ۴۲۷، ۴۴۰، ۴۸۰، ۵۰۸) (صحیح)
۹۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ''برتن میں جب کتامنہ ڈال دے تواسے سات بار دھویاجائے، پہلی بار یاآخری باراسے مٹی سے دھویاجائے ۱؎ ، اور جب بلی منہ ڈالے تو اسے ایک بار دھویاجائے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اوریہی شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کاقول ہے۔ ۳-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث نبی اکرم ﷺ سے کئی سندوں سے اسی طرح مروی ہے جن میں بلی کے منہ ڈالنے پر ایک باردھونے کاذکرنہیں کیا گیا ہے،۳- اس باب میں عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھونا اور ایک بار مٹی سے دھونا واجب ہے یہی جمہورکا مسلک ہے ،احناف تین بار دھونے سے برتن کے پاک ہو نے کے قائل ہیں، ان کی دلیل دارقطنی اور طحاوی میں منقول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کافتویٰ ہے کہ اگر کتاکسی برتن میں منہ ڈال دے تو اسے تین مرتبہ دھوناچاہئے، حالانکہ ابوہریرہ سے سات باردھونے کا بھی فتویٰ منقول ہے اور سندکے اعتبار سے یہ پہلے فتوے سے زیادہ صحیح ہے، نیز یہ فتویٰ روایت کے موافق بھی ہے، اس لیے یہ بات درست نہیں ہے کہ صحیح حدیث کے مقابلہ میں ان کے مرجوح فتوے اور رائے کو ترجیح دی جائے، رہے وہ اعتراضات جو باب کی اس حدیث پر احناف کی طرف سے واردکئے گئے ہیں تو ان سب کے تشفی بخش جوابات دیئے جاچکے ہیں، تفصیل کے لیے دیکھئے (تحفۃ الاحوذی ،ج۱ص۹۳)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
69- بَاب مَا جَاءَ فِي سُؤْرِ الْهِرَّةِ
۶۹-باب: بلی کے جھوٹے کا بیان​


92- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَ نْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ إِسْحَاقَ ابْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ حُمَيْدَةَ بِنْتِ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ كَبْشَةَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَكَانَتْ عِنْدَ ابْنِ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ دَخَلَ عَلَيْهَا، قَالَتْ: فَسَكَبْتُ لَهُ وَضُوئًا، قَالَتْ: فَجَاءَتْ هِرَّةٌ تَشْرَبُ، فَأَصْغَى لَهَا الإنَاءَ حَتَّى شَرِبَتْ، قَالَتْ كَبْشَةُ: فَرَآنِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ! فَقَالَ: أَتَعْجَبِينَ يَا بِنْتَ أَخِي؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ، إِنَّمَا هِيَ مِنَ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ أَوْ الطَّوَّافَاتِ". وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ مَالِكٍ: وَكَانَتْ عِنْدَ أَبِي قَتَادَةَ، وَالصَّحِيحُ ابْنُ أَبِي قَتَادَةَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ: مِثْلِ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ: لَمْ يَرَوْا بِسُؤْرِ الْهِرَّةِ بَأْسًا. وَهَذَا أَحَسَنُ شَيْئٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ. وَقَدْ جَوَّدَ مَالِكٌ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ. وَلَمْ يَأْتِ بِهِ أَحَدٌ أَتَمَّ مِنْ مَالِكٍ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۳۸ (۷۵)، ن/الطہارۃ ۵۴ (۶۸)، والمیاہ ۹ (۳۴۱)، ق/الطہارۃ ۳۲ (۳۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۴۱)، حم (۵/۲۹۶،۳۰۳،۳۰۹)، دي/الطہارۃ ۵۸ (۷۶۳) (صحیح)
۹۲- کبشہ بنت کعب (جو ابن ابو قتادہ کے نکاح میں تھیں)کہتی ہیں : ابوقتادہ میرے پاس آئے تو میں نے ان کے لیے (ایک برتن) وضو کا پانی میں ڈالا، اتنے میں ایک بلی آکرپینے لگی توانہوں نے برتن کو اس کے لیے جھکا دیا تاکہ وہ (آسانی سے) پی لے، کبشہ کہتی ہیں: ابوقتادہ نے مجھے دیکھا کہ میں ان کی طرف تعجب سے دیکھ رہی ہوں توانہوں نے کہا: بھتیجی!کیا تم کوتعجب ہورہا ہے؟ میں نے کہا:ہاں، توانہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے :''یہ (بلی) نجس نہیں، یہ تو تمہارے پاس برابر آنے جانے والوں یا آنے جانے والیوں میں سے ہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عائشہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث مروی ہیں، ۲- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۳- صحابہ کرام اور تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثراہل علم مثلاً شافعی ، احمداوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ بلی کے جھوٹے میں کوئی حرج نہیں،اوریہ سب سے اچھی حدیث ہے جو اس باب میں روایت کی گئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ بلی کا جھوٹا ناپاک نہیں ہے، بشرطیکہ اس کے منہ پر نجاست نہ لگی ہو، اس حدیث میں بلی کو گھرکے خادم سے تشبیہ دی گئی ہے کیو نکہ خادموں کی طرح اس کا بھی گھروں میں آنا جانا بہت رہتا ہے، اگراسے نجس وناپاک قراردے دیا جاتا تو گھر والوں کو بڑی دشواری پیش آتی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
70- بَاب فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ
۷۰-باب: موزوں پر مسح کرنے کا بیان​
93- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ: بَالَ جَرِيرُ بْنُ عَبْدِاللهِ ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ. فَقِيلَ لَهُ: أَتَفْعَلُ هَذَا؟ قَالَ: وَمَا يَمْنَعُنِي؟ وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَفْعَلُهُ. قَالَ إِبْرَاهِيمُ: وَكَانَ يُعْجِبُهُمْ حَدِيثُ جَرِيرٍ، لأَنَّ إِسْلاَمَهُ كَانَ بَعْدَ نُزُولِ الْمَائِدَةِ. هَذَا قَوْلُ إِبْرَاهِيمَ، يَعْنِي كَانَ يُعْجِبُهُمْ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَحُذَيْفَةَ، وَالْمُغِيرَةِ، وَبِلاَلٍ، وَسَعْدٍ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَسَلْمَانَ، وَبُرَيْدَةَ، وَعَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ، وَأَنَسٍ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَيَعْلَى بْنِ مُرَّةَ، وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، وَأُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ، وَأَبِي أُمَامَةِ، وَجَابِرٍ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، وَابْنِ عُبَادَةَ،- وَيُقَالُ: ابْنُ عِمَارَةَ، وَأُبَيُّ بْنُ عِمَارَةَ-. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ جَرِيرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الصلاۃ ۲۵ (۳۷۸)، م/الطہارۃ ۲۲ (۲۷۲)، د/الطہارۃ ۵۹ (۱۵۴)، ن/الطہارۃ ۹۶ (۱۱۸)، والقبلۃ ۲۳ (۷۷۵)، ق/الطہارۃ ۸۴ (۵۴۳)، (تحفۃ الأشراف:۳۲۳) (صحیح)۹۳- ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے پیشاب کیا پھروضوکیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، ان سے کہاگیا : کیاآپ ایساکررہے ہیں؟ توا نہوں نے کہاکہ مجھے اس کام سے کون سی چیزروک سکتی ہے جبکہ میں نے خود رسول اللہﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے،ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام کوجریر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اچھی لگتی تھی کیوں کہ ان کا اسلام سورئہ مائدہ کے نزول کے بعدکاہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جریر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمر،علی، حذیفہ، مغیرہ،بلال، ابوایوب، سلمان ، بریدۃ، عمرو بن امیہ، انس، سہل بن سعد ،یعلی بن مرہ،عبادہ بن صامت، اسامہ بن شریک ، ابوا مامہ ، جابر ، اسامہ بن زید، ابن عبادۃ جنہیں ابن عمارہ اور ابی بن عمارہ بھی کہاجاتاہے رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے موزوں پر مسح کا جواز ثابت ہوتا ہے، موزوں پر مسح کی احادیث تقریباًاسی(۸۰) صحابہ کرام سے آئی ہیں جن میں عشرئہ مبشرہ بھی شامل ہیں،علامہ ابن عبدالبرنے اس کے ثبوت پر اجماع نقل کیا ہے، امام کرخی کی رائے ہے کہ مسح علی خفین (موزوں پرمسح) کی احادیث تو اتر تک پہنچی ہیں اورجولوگ ان کا انکارکرتے ہیں مجھے ان کے کفرکا اندیشہ ہے، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسح خفین کی حدیثیں آیت مائدہ سے منسوخ ہیں ان کا یہ قول درست نہیں کیو نکہ مسح علی خفین کی حدیث کے راوی جریر رضی اللہ عنہ آیت مائدہ کے نزول کے بعداسلام لائے ، اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں کہ یہ احادیثمنسوخ ہیں بلکہ یہ آیت مائدہ کی مبیّن اورمخصص ہیں،یعنی آیت میں پیروں کے دھونے کا حکم ان لوگوں کے ساتھ خاص ہے جو موزے نہ پہنے ہوں،رہا موزے پر مسح کاطریقہ تو اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کوپانی سے بھگوکران کے پوروں کو پاؤں کی انگلیوں سے پنڈلی کے شروع تک کھینچ لیاجائے۔


94- وَيُرْوَى عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، قَالَ: رَأَيْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِاللهِ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، فَقُلْتُ لَهُ فِي ذَلِكَ: فَقَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، فَقُلْتُ لَهُ: أَقَبْلَ الْمَائِدَةِ أَمْ بَعْدَ الْمَائِدَةِ؟ فَقَالَ: مَا أَسْلَمْتُ إِلاَّبَعْدَ الْمَائِدَةِ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ زِيَادٍ التِّرْمِذِيُّ عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ جَرِيرٍ. قَالَ: وَرَوَى بَقِيَّةُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَدْهَمَ، عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ جَرِيرٍ. وَهَذَا حَدِيثٌ مُفَسَّرٌ، لأَنَّ بَعْضَ مَنْ أَنْكَرَ الْمَسْحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ تَأَوَّلَ أَنَّ مَسْحَ النَّبِيِّ ﷺ عَلَى الْخُفَّيْنِ كَانَ قَبْلَ نُزُولِ الْمَائِدَةِ، وَذَكَرَ جَرِيرٌ فِي حَدِيثِهِ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ ﷺ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ بَعْدَ نُزُولِ الْمَائِدَةِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۲۱۳) (صحیح)
(سند میں شہربن حوشب میں کلام ہے، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے ، ا لإرواء ۱/۱۳۷)
۹۴- شہر بن حوشب کہتے ہیں : میں نے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو دیکھاکہ انہوں نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، میں نے جب ان سے اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے کہا : میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا اور اپنے موزوں پرمسح کیا ،میں نے ان سے پوچھا: آپ کایہ عمل سورہ مائدہ کے نزول سے پہلے کاہے، یا بعدکا؟ تو کہا : میں تو سورہ مائدہ اترنے کے بعد ہی اسلام لایاہوں،یہ حدیث آیت وضوکی تفسیرکررہی ہے اس لیے کہ جن لوگوں نے موزوں پرمسح کا انکار کیا ہے ان میں سے بعض نے یہ تاویل کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے موزوں پرجو مسح کیاتھاوہ آیت مائدہ کے نزول سے پہلے کا تھا، جبکہ جریر رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت میں ذکرکیا ہے کہ انہوں نے نزول مائدہ کے بعد نبی اکرم ﷺ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
71- بَاب الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ لِلْمُسَافِرِ وَالْمُقِيمِ
۷۱-باب: مسافر اور مقیم کے مسح کی مدّت کا بیان​


95- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِاللهِ الْجَدَلِيِّ، عَنْ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ؟ فَقَالَ: لِلْمُسَافِرِ ثَلاَثَةٌ، وَلِلْمُقِيمِ يَوْمٌ. وَذُكِرَ عَنْ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ: أَنَّهُ صَحَّحَ حَدِيثَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ فِي الْمَسْحِ. وَأَبُو عَبْدِاللهِ الْجَدَلِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ بْنُ عَبْدٍ، وَيُقَالُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي بَكْرَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَصَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، وَعَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَرِيرٍ۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۶۰ (۱۵۷)، ق/الطہارۃ ۸۶ (۵۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۲۸)، حم (۵/۲۱۳) (صحیح)
۹۵- خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھا گیا توآپ نے فرمایا : ''مسافر کے لیے تین دن ہے اور مقیم کے لیے ایک دن ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یحیی بن معین سے منقول ہے کہ انہوں نے مسح کے سلسلہ میں خزیمہ بن ثابت کی حدیث کوصحیح قراردیا ہے،۳- اس باب میں علی، ابوبکرۃ، ابوہریرہ، صفوان بن عسال، عوف بن مالک، ابن عمراور جریر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


96- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَأْمُرُنَا إِذَا كُنَّا سَفَرًا أَنْ لاَنَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ إِلاَّ مِنْ جَنَابَةٍ، وَلَكِنْ مِنْ غَائِطٍ، وَبَوْلٍ، وَنَوْمٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَى الْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ وَحَمَّادٌ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللهِ الْجَدَلِيِّ عَنْ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ. وَلاَ يَصِحُّ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ شُعْبَةُ: لَمْ يَسْمَعْ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ مِنْ أَبِي عَبْدِ اللهِ الْجَدَلِيِّ حَدِيثَ الْمَسْحِ. وقَالَ زَائِدَةُ عَنْ مَنْصُورٍ: كُنَّا فِي حُجْرَةِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، وَمَعَنَا إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ، فَحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِاللهِ الْجَدَلِيِّ، عَنْ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ: أَحْسَنُ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثُ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ الْمُرَادِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ الْفُقَهَاءِ مِثْلِ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ، قَالُوا: يَمْسَحُ الْمُقِيمُ يَوْمًا وَلَيْلَةً، وَالْمُسَافِرُ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّهُمْ لَمْ يُوَقِّتُوا فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالتَّوْقِيتُ أَصَحُّ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ أَيْضًا مِنْ غَيْرِ حَدِيثِ عَاصِمٍ۔
* تخريج: ن/الطہارۃ ۹۸، ۱۱۳، ۱۱۴ (۱۲۶)، و۱۱۳ (۱۵۸)، و۱۱۴ (۱۵۹)، ق/الطہارۃ ۶۳ (۴۷۸)، ویأتي برقم: ۳۵۳۵ (تحفۃ الأشراف: ۴۹۵۲)، حم (۴/۲۳۹، ۲۴۰) (حسن)
۹۶- صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم مسافرہوتے تو رسول اللہﷺہمیں حکم دیتے کہ ہم اپنے موزے تین دن اور تین رات تک ، پیشاب ،پاخانہ یا نیند کی وجہ سے نہ اتاریں، الایہ کہ جنابت لاحق ہوجائے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- محمد بن اسماعیل(بخاری) کہتے ہیں کہ اس باب میں صفوان بن عسال مرادی کی حدیث سب سے عمدہ ہے، ۳- اکثر صحابہ کرام ،تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے اکثراہل علم مثلاً: سفیان ثوری ، ابن مبارک ، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کایہی قول ہے کہ مقیم ایک دن اور ایک رات موزوں پر مسح کرے ، اور مسافر تین دن اورتین رات،بعض علماء سے مروی ہے کہ موزوں پر مسح کے لیے وقت کی تحدید نہیں کہ( جب تک دل چاہے کرسکتاہے) یہ مالک بن انس رحمہ اللہ کا قول ہے، لیکن تحدید والاقول زیادہ صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث موزوں پر مسح کی مدّت کی تحدیدپردلالت کرتی ہے: مسافرکے لیے تین دن تین رات ہے اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات ،یہ مدت وضو کے ٹوٹنے کے وقت سے شمار ہوگی نہ کہ موزہ پہننے کے وقت سے، حدث لاحق ہو نے کی صورت میں اگر موزہ اتارلیاجائے تو مسح ٹوٹ جاتا ہے ، نیز مدّت ختم ہوجانے کے بعد بھی ٹوٹ جاتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
72- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ أَعْلاَهُ وَأَسْفَلِهِ
۷۲-باب: موزے کے اوپر اور نیچے دونوں طرف مسح کرنے کا بیان​


97- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، أَخْبَرَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، عَنْ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَسَحَ أَعْلَى الْخُفِّ وَأَسْفَلَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَالتَّابِعِينَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ الْفُقَهَاءِ، وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ، وَالشَّافِعِيُّ، وَإِسْحَاقُ. وَهَذَا حَدِيثٌ مَعْلُولٌ، لَمْ يُسْنِدْهُ عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ غَيْرُ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ وَمُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالاَ: لَيْسَ بِصَحِيحٍ، لأَنَّ بْنَ الْمُبَارَكِ رَوَى هَذَا عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ. قَالَ: حُدِّثْتُ عَنْ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ مُرْسَلٌ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، وَلَمْ يُذْكَرْ فِيهِ الْمُغِيرَةُ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۶۳ (۱۶۵)، ق/الطہارۃ ۸۵ (۵۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۳۷) (ضعیف)
(سند میں انقطاع ہے ، راوی ثور بن یزید کا رجاء بن حیوہ سے سماع نہیں ہے، اسی طرح ابوزرعہ اور بخاری کہتے ہیں کہ حیوہ کا بھی کاتب مغیرہ بن شعبہ کا وراد سے سماع نہیں ہے، نیز یہ کاتب ِ مغیرہ کی مرسل روایت ثابت ہے۔)
نوٹ: ابن ماجہ (۵۵۰) ابوداود (۱۶۵) میں غلطی سے موطأ ، مسند احمد اور دارمی کا حوالہ آگیاہے، جب کہ ان کتابوں میں مسح سے متعلق مغیرہ بن شعبہ کی متفق علیہ حدیث آئی ہے جس میں اوپر نیچے کی صراحت نہیں ہے، ہاں آگے آنے والی حدیث (۹۸) میں مغیرہ سے صراحت کہ انہوں نے نبی اکرمﷺکو اوپر ی حصے پر مسح کرتے دیکھا ۔
۹۷- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے موزے کے اوپر اور نیچے دونوں جانب مسح کیا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- صحابہ کرام ،تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے بہت سے لوگوں کا یہی قول ہے اور مالک، شافعی اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، ۲- یہ حدیث معلول ہے ۔میں نے ابوزرعہ اور محمد بن اسماعیل (بخاری) سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا توان دونوں نے کہاکہ یہ صحیح نہیں ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے موزوں کے اوپراورنیچے دونوں جانب مسح کیا لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیساکہ امام ترمذی نے خوداس کی صراحت کردی ہے۔
وضاحت ۲؎ : مولف نے یہاں حدیث علت کی واضح فرمائی ہے ان سب کاماحصل یہ ہے کہ یہ حدیث مغیرہ کی سند میں سے نہیں بلکہ کاتب مغیرہ (تابعی) سے مرسلاً مروی ہے، ولید بن مسلم کو اس سلسلے میں وہم ہوا ہے کہ انہوں نے اسے مغیرہ کی مسند میں سے روایت کردیا ہے، ترمذی نے'' لم یسندہ عن ثوربن یزیدغیرالولید بن مسلم'' کہہ کر اسی کی وضاحت ہے۔مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مسنداً روایت اس کے برخلاف ہے جو آگے آرہی ہے اوروہ صحیح ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
73- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ ظَاهِرِهِمَا
۷۳-باب: موزوں کے اوپری حصے پر مسح کرنے کا بیان​


98- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَمْسَحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ عَلَى ظَاهِرِهِمَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَهُوَ حَدِيثُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ. وَلاَ نَعْلَمُ أَحَدًا يَذْكُرُ عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ عَلَى ظَاهِرِهِمَا غَيْرَهُ. وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَأَحْمَدُ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَكَانَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ يُشِيرُ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۶۳ (۱۶۱)، (وراجع أیضا ما عندہ برقم: ۱۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۱۲) (حسن صحیح)
۹۸- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو موزوں کے اوپری حصے پر مسح کرتے دیکھا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- مغیرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے ، ۲- عبدالرحمن بن ابی الزناد کے علاوہ میں کسی اور کو نہیں جانتاجس نے بسند عروہ عن مغیرہ دونوں موزوں کے ''اوپری حصہ'' پر مسح کاذکرکرتا ہو ۲؎ اور یہی کئی اہل علم کا قول ہے اور یہی سفیان ثوری اور احمدبھی کہتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اوریہ روایت متصلاً ومسنداً حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی ''على ظاهرهما''کے الفاظ ذکرکرنے میں عبدالرحمن بن ابی زنادمنفردہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
74- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَالنَّعْلَيْنِ
۷۴-باب: دونوں پاتابوں اور جوتوں پر مسح کرنے کا بیان​


99- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ هُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ: تَوَضَّأَ النَّبِيُّ ﷺ وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَالنَّعْلَيْنِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ، قَالُوا: يَمْسَحُ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ نَعْلَيْنِ، إِذَا كَانَا ثَخِينَيْنِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت صَالِحَ بْنَ مُحَمَّدٍ التِّرْمِذِيَّ قَال: سَمِعْتُ أَبَا مُقَاتِلٍ السَّمَرْقَنْدِيَّ يَقُولُ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَدَعَا بِمَائٍ فَتَوَضَّأَ، وَعَلَيْهِ جَوْرَبَانِ، فَمَسْحَ عَلَيْهِمَا، ثُمَّ قَالَ: فَعَلْتُ الْيَوْمَ شَيْئًا لَمْ أَكُنْ أَفْعَلُهُ: مَسَحْتُ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَهُمَا غَيْرُ مُنَعَّلَيْنِ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۶۱ (۱۵۹)، ن/الطہارۃ ۹۶ (۱۲۳)، و۹۷/۱ (۱۲۵/م)، ق/الطہارۃ ۸۸ (۵۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۳۴)، حم (۳/۲۵۲) (صحیح)
۹۹- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو کیا اور موزوں اور جوتوں پر مسح کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- کئی اہل علم کایہی قول ہے اور سفیان ثوری ، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں کہ پاتابوں پرمسح کرے گرچہ جوتے نہ ہوں جب کہ پاتابے موٹے ہوں، ۳- اس باب میں ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت آئی ہے، ۴- ابومقاتل سمرقندی کہتے ہیں کہ میں ابوحنیفہ کے پاس ان کی اس بیماری میں گیاجس میں ان کی وفات ہوئی تو انہوں نے پانی منگایا،اور وضو کیا، وہ پاتابے پہنے ہوئے تھے، تو انہوں نے ان پر مسح کیا، پھر کہا: آج میں نے ایسا کام کیا ہے جومیں نہیں کرتاتھا۔میں نے پاتابوں پرمسح کیا ہے حالانکہ میں نے جوتیاں نہیں پہن رکھیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
75- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْعِمَامَةِ
۷۵-باب: عمامہ پر مسح کرنے کا بیان​


100- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِاللهِ الْمُزَنِيِّ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ ابْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: تَوَضَّأَ النَّبِيُّ ﷺ وَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ وَالْعِمَامَةِ. قَالَ بَكْرٌ: وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنَ ابْنِ الْمُغِيرَةِ. قَالَ: وَذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ: أَنَّهُ مَسَحَ عَلَى نَاصِيَتِهِ وَعِمَامَتِهِ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، ذَكَرَ بَعْضُهُمْ الْمَسْحَ عَلَى النَّاصِيَةِ وَالْعِمَامَةِ، وَلَمْ يَذْكُرْ بَعْضُهُمْ النَّاصِيَةَ. و سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ بِعَيْنِي مِثْلَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةِ، وَسَلْمَانَ، وَثَوْبَانَ، وَأَبِي أُمَامَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْهُمْ: أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَأَنَسٌ. وَبِهِ يَقُولُ الأَوْزَاعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ، قَالُوا: يَمْسَحُ عَلَى الْعِمَامَةِ. و قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَالتَّابِعِينَ: لاَيَمْسَحُ عَلَى الْعِمَامَةِ إِلاَّبِرَأْسِهِ مَعَ الْعِمَامَةِ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: و سَمِعْت الْجَارُودَ بْنَ مُعَاذٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعَ بْنَ الْجَرَّاحِ يَقُولُ: إِنْ مَسَحَ عَلَى الْعِمَامَةِ يُجْزِئُهُ لِلأَثَرِ۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۵۹ (۱۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۹۲)، حم (۴/۲۴۴، ۲۴۸، ۲۵۰، ۲۵۴) (صحیح)
۱۰۰- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو کیا اور دونوں موزوں اور عمامے پر مسح کیا۔
محمدبن بشار نے ایک دوسری جگہ اس حدیث میں یہ ذکرکیاہے کہ''آپ نے اپنی پیشانی اوراپنے عمامے پر مسح کیا''، یہ حدیث اوربھی کئی سندوں سے مغیرہ بن شعبہ سے روایت کی گئی ہے ،ان میں سے بعض نے پیشانی اور عمامے پر مسح کا ذکرکیا ہے اور بعض نے پیشانی کا ذکر نہیں کیاہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمرو بن امیہ، سلمان، ثوبان اور ابو امامہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام میں سے کئی اہل علم کابھی یہی قول ہے۔ ان میں سے ابوبکر، عمر اورانس رضی اللہ عنہم ہیں اور اوزاعی، احمداور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں کہ عمامہ پرمسح کرے، صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کاکہناہے کہ عمامہ پر مسح نہیں سوائے اس صورت کے کہ عمامہ کے ساتھ (کچھ) سرکا بھی مسح کرے۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک اور شافعی اسی کے قائل ہیں،۴- وکیع بن جراح کہتے ہیں کہ اگرکوئی عمامے پر مسح کرلے تو حدیث کی روسے یہ اسے کافی ہوگا۔


101- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ بِلاَلٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ وَالْخِمَارِ.
* تخريج: م/الطہارۃ ۲۳ (۲۷۵)، ن/الطہارۃ ۸۶ (۱۰۴، ۱۰۶)، ق/الطہارۃ ۸۹ (۵۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۴۷)، حم (۶/۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵) (صحیح)
۱۰۱- بلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دونوں موزوں پر اورعمامے پر مسح کیا۔


102- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ - هُوَ الْقُرَشِيُّ - عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ قَالَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللهِ عَنْ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، فَقَالَ: السُّنَّةُ يَا ابْنَ أَخِي، قَالَ: وَسَأَلْتُهُ عَنْ الْمَسْحِ عَلَى الْعِمَامَةِ؟ فَقَالَ: أَمِسَّ الشَّعَرَ الْمَاء۔
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۱۶۵) (صحیح الإسناد)
۱۰۲- ابوعبیدہ بن محمد بن عمار بن یاسر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے دونوں موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میرے بھتیجے !(یہ)سنت ہے۔وہ کہتے ہیں اورمیں نے عمامہ پر مسح کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: بالوں کوچھوؤ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی: پانی سے بالوں کو مس کرو، یعنی: عمامہ پرمسح نہ کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
76- بَاب مَا جَاءَ فِي الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ
۷۶-باب: غسلِ جنابت کا بیان​


103- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ خَالَتِهِ مَيْمُونَةَ قَالَتْ: وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ ﷺ غُسْلاً، فَاغْتَسَلَ مِنْ الْجَنَابَةِ: فَأَكْفَأَ الإِنَاءَ بِشِمَالِهِ عَلَى يَمِينِهِ، فَغَسَلَ كَفَّيْهِ، ثُمَّ أَدْخَلَ يَدَهُ فِي الإِنَاءِ فَأَفَاضَ عَلَى فَرْجِهِ، ثُمَّ دَلَكَ بِيَدِهِ الْحَائِطَ، أَوْ الأَرْضَ، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ ثَلاَثًا، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: خ/الغسل ۱ (۲۴۹)، و۵ (۲۵۷)، و۷ (۲۵۹)، و۸ (۲۶۰)، و۱۰ (۲۶۵)، و۱۱ (۲۶۶)، و۱۶ (۲۷۴)، و۱۸ (۲۷۶)، و۲۱ (۲۸۱)، م/الحیض ۹ (۳۱۷)، د/الطہارۃ ۹۸ (۲۴۵)، ن/الطہارۃ ۱۶۱ (۲۵۴)، والغسل ۷ (۴۰۸)، و۱۴ (۴۱۸)، و۲۲ (۴۲۸)، ق/الطہارۃ ۹۴ (۵۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۶۴)، حم (۶/۳۳۰، ۳۳۶)، دي/الطہارۃ ۳۹ (۷۳۸)، و۶۶ (۷۷۴) (صحیح)
۱۰۳- ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے لیے نہانے کاپانی رکھا،آپ نے غسل جنابت کیا، تو برتن کواپنے بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ پر جھکا یا اور اپنے پہو نچے دھوئے ،پھر اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا اور شرم گاہ پر پانی بہایا، پھراپنا ہاتھ دیوار یا زمین پر رگڑا۔ پھرکلی کی اور ناک میں پانی ڈالااور اپناچہرہ دھویا اوراپنے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر تین مرتبہ سرپر پانی بہایا، پھر پورے جسم پرپانی بہایا، پھر وہاں سے پرے ہٹ کر اپنے پاؤں دھوئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ام سلمہ ، جابر، ابوسعید جبیر بن مطعم اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


104- حدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَغْتَسِلَ مِنْ الْجَنَابَةِ بَدَأَ فَغَسَلَ يَدَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُدْخِلَهُمَا الإِنَاءَ، ثُمَّ غَسَلَ فَرْجَهُ، وَيَتَوَضَّأُ وُضُوئَهُ لِلصَّلاَةِ، ثُمَّ يُشَرِّبُ شَعْرَهُ الْمَاءَ، ثُمَّ يَحْثِي عَلَى رَأْسِهِ ثَلاَثَ حَثَيَاتٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْغُسْلِ مِنْ الْجَنَابَةِ: أَنَّهُ يَتَوَضَّأُ وُضُوئَهُ لِلصَّلاَةِ، ثُمَّ يُفْرِغُ عَلَى رَأْسِهِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ يُفِيضُ الْمَاءَ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهِ، ثُمَّ يَغْسِلُ قَدَمَيْهِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَالُوا: إِنْ انْغَمَسَ الْجُنُبُ فِي الْمَاءِ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ أَجْزَأَهُ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: خ/الغسل۱ (۲۴۸)، و۹ (۲۶۲)، و۱۵ (۲۷۲)، م/الحیض ۹ (۳۱۶)، د/الطہارۃ ۹۸ (۲۴۲)، ن/الطہارۃ ۱۵۶ (۲۴۸)، و۱۵۷ (۲۴۹، ۲۵۰)، والغسل ۱۶ (۴۲۰)، و۱۹ (۴۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۳۵)، ط/الطہارۃ۱۷ (۶۷)، حم (۶/۵۲، ۱۰۱)، ہذا من طریق عروۃ عنہا، ولہ طرق عنہا، انظر: خ/الغسل ۶ (۲۵۸)، م/الحیض ۹ (۳۱۸)، و۱۰ (۳۲۰، ۳۲۱)، د/الطہارۃ ۹۸ (۲۴۰)، ن/الطہارۃ ۱۵۲ (۲۴۴)، و۲۵۳، و۱۵۴(۲۴۶)، و۱۵۵ (۲۴۷)، والغسل ۱۹ (۴۲۴)، حم (۶/۱۴۳، ۱۶۱، ۱۷۳) (صحیح)
۱۰۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب غسل جنابت کا ارادہ کرتے تو ہاتھوں کوبرتن میں داخل کرنے سے پہلے دھوتے، پھر شرم گاہ دھوتے، اور اپنی صلاۃ کے وضوکی طرح وضوکرتے ، پھر بال پانی سے بھگوتے، پھر اپنے سر پر تین لپ پانی ڈالتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسی کو اہل علم نے غسل جنابت میں اختیا رکیاہے کہ وہ صلاۃکے وضوکی طرح وضو کرے، پھر اپنے سر پرتین بار پانی ڈالے، پھراپنے پورے بدن پر پانی بہائے، پھراپنے پاؤں دھوئے، اہل علم کا اسی پر عمل ہے، نیزان لوگوں نے کہاکہ اگرجنبی پانی میں غوطہ مارے اور وضو نہ کرے تو یہ اسے کافی ہوگا۔ یہی شافعی ،ا حمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
77- بَاب هَلْ تَنْقُضُ الْمَرْأَةُ شَعْرَهَا عِنْدَ الْغُسْلِ
۷۷-باب: کیا عورت غسل کے وقت اپنے بال کھولے ؟​


105- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنِّي امْرَأَةٌ أَشُدُّ ضَفْرَ رَأْسِي، أَفَأَنْقُضُهُ لِغُسْلِ الْجَنَابَةِ؟ قَالَ: "لاَ، إِنَّمَا يَكْفِيكِ أَنْ تَحْثِي عَلَى رَأْسِكِ ثَلاَثَ حَثَيَاتٍ مِنْ مَائٍ، ثُمَّ تُفِيضِي عَلَى سَائِرِ جَسَدِكِ الْمَاءَ، فَتَطْهُرِينَ"، أَوْ قَالَ: "فَإِذَا أَنْتِ قَدْ تَطَهَّرْتِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا اغْتَسَلَتْ مِنْ الْجَنَابَةِ فَلَمْ تَنْقُضْ شَعْرَهَا أَنَّ ذَلِكَ يُجْزِئُهَا بَعْدَ أَنْ تُفِيضَ الْمَاءَ عَلَى رَأْسِهَا.
* تخريج: م/الحیض ۱۲ (۳۳۰)، ن/الطہارۃ ۱۵۰ (۲۴۲)، ق/الطہارۃ ۱۰۸ (۶۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۷۲)، حم (۶/۳۱۵)، دي/الطہارۃ ۱۱۴ (۱۱۹۶) (صحیح)
۱۰۵- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول! میں اپنے سر کی چوٹی مضبوطی سے باندھنے والی عورت ہوں۔ کیا غسل جنابت کے لیے اسے کھولا کروں؟ آپ نے فرمایا:'' تمہاری سر پر تین لپ پانی ڈال لیناہی کافی ہے۔پھر پورے بدن پر پانی بہادو توپاک ہو گئی، یافرمایا:جب تم ایساکرلے توپاک ہوگئی ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اہل علم کااسی پرعمل پرہے کہ عورت جب جنابت کا غسل کرے ، اور اپنے بال نہ کھولے تویہ اس کے لیے اس کے بعدکہ وہ اپنے سرپرپانی بہالے کافی ہوجائے گا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہی جمہورکامذہب ہے کہ عورت خواہ جنابت کاغسل کررہی ہو یا حیض سے پاکی کا: کسی میں بھی اس کے لیے بال کھولنا ضروری نہیں لیکن حسن بصری اورطاؤس نے ان دونوں میں تفریق کی ہے، یہ کہتے ہیں کہ جنابت کے غسل میں تو ضروری نہیں لیکن حیض کے غسل میں ضروری ہے، اورعائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو جس میں رسول اللہﷺ نے ان سے ''انقضى رأسك وامتشطي'' فرمایا ہے جمہورنے استحباب پر محمول کیا ہے۔
 
Top