• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
70- بَاب مَا جَاءَ فِي حُسْنِ الْعَهْدِ
۷۰-باب: (شریک حیات کے ساتھ) اچھی طرح نباہ کرنے کابیان​


2017- حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا غِرْتُ عَلَى أَحَدٍ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ، وَمَابِي أَنْ أَكُونَ أَدْرَكْتُهَا، وَمَا ذَاكَ إِلاَّ لِكَثْرَةِ ذِكْرِ رَسُولِ اللهِ ﷺ لَهَا، وَإِنْ كَانَ لَيَذْبَحُ الشَّاةَ فَيَتَتَبَّعُ بِهَا صَدَائِقَ خَدِيجَةَ فَيُهْدِيهَا لَهُنَّ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/مناقب الأنصار ۲۰ (۳۸۱۶، ۳۸۱۷)، والنکاح ۱۰۸ (۵۲۲۹)، والأدب ۲۳ (۶۰۰۴)، والتوحید ۳۲ (۷۴۸۴)، م/فضائل الصحابۃ ۱۲ (۲۴۳۵)، ق/النکاح ۵۶ (۱۹۹۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۷)، وحم (۶/۵۸، ۲۰۲، ۲۷۹) (صحیح)
۲۰۱۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم ﷺ کی بیویوں میں سے کسی پر میں اس طرح غیرت نہیں کھاتی تھی جس طرح خدیجہ پر غیر ت کھاتی تھی جب کہ میں نے ان کا زمانہ بھی نہیں پایا تھا ، اس غیرت کی کوئی وجہ نہیں تھی سوائے اس کے کہ آپ ان کوبہت یادکرتے تھے ، اوراگرآپ بکری ذبح کرتے تو ان کی سہیلیوں کوڈھونڈتے اورگوشت ہدیہ بھیجتے تھے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے ۔
وضاحت ۱؎ : جب سہیلیوں کے ساتھ آپ کا برتاؤ اتنا اچھا تھا تو خود خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ کیسا ہوگا؟ نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بیوی کی سہیلیوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہنا چاہیے، جیسے کہ باپ کے بارے میں حکم آیا ہے کہ باپ کے دوستوں کے ساتھ آدمی اچھابرتاؤکرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
71-بَاب مَا جَاءَ فِي مَعَالِي الأَخْلاَقِ
۷۱-باب: اعلیٰ اخلاق کابیان​


2018- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ خِرَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلاَلٍ، حَدَّثَنَا مُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّ مِنْ أَحَبِّكُمْ إِلَيَّ وَأَقْرَبِكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَحَاسِنَكُمْ أَخْلاَقًا، وَإِنَّ أَبْغَضَكُمْ إِلَيَّ وَأَبْعَدَكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ الثَّرْثَارُونَ وَالْمُتَشَدِّقُونَ وَالْمُتَفَيْهِقُونَ" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ! قَدْ عَلِمْنَا الثَّرْثَارُونَ وَالْمُتَشَدِّقُونَ، فَمَا الْمُتَفَيْهِقُونَ؟ قَالَ: "الْمُتَكَبِّرُونَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ وَهَذَا أَصَحُّ، وَالثَّرْثَارُ هُوَ الْكَثِيرُ الْكَلاَمِ، وَالْمُتَشَدِّقُ الَّذِي يَتَطَاوَلُ عَلَى النَّاسِ فِي الْكَلاَمِ وَيَبْذُو عَلَيْهِمْ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۰۵۴) (صحیح)
۲۰۱۸- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' میرے نزدیک تم میں سے (دنیامیں) سب سے زیادہ محبوب اورقیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں بہترین اخلاق والے ہیں، اورمیرے نزدیک تم میں (دنیامیں) سب سے زیادہ قابل نفرت اورقیامت کے دن مجھ سے دوربیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو باتونی، بلا احتیاط بولنے والے ،زبان درازاورتکبرکرنے والے''مُتَفَيْهِقُونَ '' ہیں''، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نیثرثارون (باتونی) اور متشدقون (بلااحتیاط بولنے والے) کو تو جان لیا لیکن متفيهقون کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا:'' تکبرکرنے والے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۳- بعض لوگوں نے یہ حدیث '' عن المبارك بن فضالة، عن محمد بن المنكدر، عن جابر، عن النبي ﷺ '' کی سند سے روایت کی ہے اور اس میں ''عن عبدربہ بن سعید'' کے واسطہ کا ذکرنہیں کیا، اور یہ زیادہ صحیح ہے،۳- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۴-''ثرثار'' باتونی کوکہتے ہیں: اور''متشدق'' اس آدمی کو کہتے ہیں: جو لوگوں کے ساتھ گفتگومیں بڑائی جتاتے اورفحش کلامی کرتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں کم بولنے اور سادگی سے گفتگو کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، اور تصنع و بناوٹ اور تکبر سے منع کیا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
72- بَاب مَا جَاءَ فِي اللَّعْنِ وَالطَّعْنِ
۷۲-باب: لعنت ملامت اورطعن وتشنیع کابیان​


2019- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "لاَ يَكُونُ الْمُؤْمِنُ لَعَّانًا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ بِهَذَا الإِسْنَادِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَ يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يَكُونَ لَعَّانًا"، وَهَذَا الْحَدِيثُ مُفَسِّرٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۷۹۴) (صحیح)
۲۰۱۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' مومن لعن وطعن کرنے والا نہیں ہوتا ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- بعض لوگوں نے اسی سند سے نبی اکرمﷺ سے یوں روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:'' مومن کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ لعن وطعن کرنے والاہو''، یہ حدیث پہلی حدیث کی وضاحت کررہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
73- بَاب مَا جَاءَ فِي كَثْرَةِ الْغَضَبِ
۷۳-باب: زیادہ غصہ کرنے کا بیان​


2020- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: عَلِّمْنِي شَيْئًا، وَلاَتُكْثِرْ عَلَيَّ لَعَلِّي أَعِيهِ، قَالَ: "لاَ تَغْضَبْ" فَرَدَّدَ ذَلِكَ مِرَارًا كُلُّ ذَلِكَ، يَقُولُ: "لاَتَغْضَبْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَسُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو حَصِينٍ اسْمُهُ عُثْمَانُ بْنُ عَاصِمٍ الأَسَدِيُّ.
* تخريج: خ/الأدب ۷۶ (۶۱۱۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۴۶)، وحم (۲/۳۶۲، ۴۶۶) (صحیح)
۲۰۲۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی نے آکرعرض کیا: مجھے کچھ سکھائیے لیکن زیادہ نہ بتائیے تاکہ میں اسے یادرکھ سکوں، آپ نے فرمایا:'' غصہ مت کرو ''، وہ کئی باریہی سوال دہراتا رہا اورآپ ہربار کہتے رہے'' غصہ مت کرو '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں ابوسعید اورسلیمان بن صرد رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : غصہ کی صفت سے کوئی انسان خالی نہیں ہے، لیکن غصہ پر قابو پالینا سب سے بڑی نیکی اور انسان کی سب سے کامل عادت ہے، نصیحت مخاطب کے مزاج و طبیعت کا خیال کرتے ہوئے اس کے حالات کے مطابق ہونی چاہیے، چنانچہ اس حدیث میں آپ ﷺ نے اس آدمی کے متعدد بارسوال کرنے کے باوجود اس کے حالات کے مطابق ایک ہی جواب دیا یعنی غصہ مت کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
74- بَاب فِي كَظْمِ الْغَيْظِ
۷۴-باب : غصہ ضبط کرنے کابیان​


2021- حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي أَبُو مَرْحُومٍ عَبْدُالرَّحِيمِ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ سَهْلِ ابْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يُنَفِّذَهُ دَعَاهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رُئُوسِ الْخَلاَئِقِ حَتَّى يُخَيِّرَهُ فِي أَيِّ الْحُورِ شَائَ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: د/الأدب ۳ (۴۷۷۷)، ق/الزہد ۱۸ (۴۱۸۶)، یأتي في القیامۃ ۲۴۹۳ (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۹۸)، وحم (۳/۴۳۸، ۴۴۰) (حسن)
۲۰۲۱- معاذبن انس جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جو شخص غصہ ضبط کرلے حالانکہ وہ اسے کرگزرنے کی استطاعت رکھتا ہو، تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے سامنے بلا ئے گا اور اسے اختیاردے گا کہ وہ جس حورکوچاہے منتخب کرلے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
75-بَاب مَا جَاءَ فِي إِجْلاَلِ الْكَبِيرِ
۷۵-باب: بڑوں بوڑھوں کی عزت واحترام کابیان​


2022- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ بَيَانٍ الْعُقَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو الرَّحَّالِ الأَنْصَارِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَا أَكْرَمَ شَابٌّ شَيْخًا لِسِنِّهِ إِلاَّ قَيَّضَ اللهُ لَهُ مَنْ يُكْرِمُهُ عِنْدَ سِنِّهِ".قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ هَذَا الشَّيْخِ يَزِيدَ بْنِ بَيَانٍ وَأَبُوالرِّجَالِ الأَنْصَارِيُّ آخَرُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۶) (ضعیف)
(سند میں یزید بن بیان، اور أبوالرحال دونوں ضعیف راوی ہیں)
۲۰۲۲- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جو جوان کسی بوڑھے کا اس کے بڑھاپے کی وجہ سے احترام کرے ،تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسے لوگوں کو مقررفرمادے گا جو اس عمرمیں(یعنی بڑھاپے میں) اس کا احترام کریں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی شیخ یعنی یزیدبن بیان کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- ابوالرجال انصاری ایک دوسرے راوی ہیں( اورجو راوی اس حدیث میں ہیں وہ ابوالرّحال ہیں)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
76-بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُتَهَاجِرَيْنِ
۷۶-باب: دو باہم قطع تعلق کرنے والوں کابیان​


2023- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "تُفَتَّحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ فَيُغْفَرُ فِيهِمَا لِمَنْ لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا إِلاَّ الْمُهْتَجِرَيْنِ يُقَالُ رُدُّوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَيُرْوَى فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ ذَرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا، قَالَ: وَمَعْنَى قَوْلِهِ الْمُهْتَجِرَيْنِ يَعْنِي الْمُتَصَارِمَيْنِ، وَهَذَا مِثْلُ مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "لاَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ".
* تخريج: م/البر والصلۃ ۱۱ (۲۵۶۵)، ق/الصیام ۴۲ (۱۷۳۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۰۲)، وحم (۲/۳۲۹) (صحیح)
۲۰۲۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' پیراورجمعرات کے دن جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں، اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانے والوں کی اس دن مغفرت کی جاتی ہے ، سوائے ان کے جنہوں نے باہم قطع تعلق کیا ہے ، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے ، ان دونوں کو لوٹا دو یہاں تک کہ آپس میں صلح کرلیں '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض روایتوں میں ''ذروا هذين حتى يصطلحا'' (ان دونوں کو اپنے حال پر چھوڑدوجب تک صلح نہ کرلیں) کے الفاظ مروی ہیں،۳- ''مهتجرين''کے معنی ''المتصارمين'' (قطع تعلق کر نے والے) ہیں، ۴- یہ حدیث اسی روایت کے مثل ہے جو نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے ، آپ نے فرمایا:'' کسی مسلمان کے لیے جائزنہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے''۔
وضاحت ۱؎ : پیر اور جمعرات یہ ایسے دودن ہیں جن کے بارے میں بعض روایات سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ان دو دنوں میں (اللہ کے یہاں) بندوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں، آپ ﷺ ان دو دنوں میں اہتمام سے صوم رکھتے تھے، اور مسلم کی روایت ہے کہ پیر کے دن آپ کی پیدائش ہوئی اور اسی دن آپ کی بعثت بھی ہوئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
77- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّبْرِ
۷۷-باب: صبرکرنے کابیان​


2024- حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَائِ ابْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ نَاسًا مِنَ الأَنْصَارِ سَأَلُوا النَّبِيَّ ﷺ فَأَعْطَاهُمْ، ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ، ثُمَّ قَالَ: "مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ، فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللهُ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللهُ، وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللهُ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ شَيْئًا هُوَ خَيْرٌ وَأَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مَالِكٍ هَذَا الْحَدِيثُ، فَلَنْ أَذْخَرَهُ عَنْكُمْ وَالْمَعْنَى فِيهِ وَاحِدٌ يَقُولُ: لَنْ أَحْبِسَهُ عَنْكُمْ.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۵۰ (۱۳۶۹)، والرقاق ۲۰ (۶۴۷۰)، م/الزکاۃ ۴۲ (۱۰۵۳)، ن/الزکاۃ ۸۵ (۲۵۸۹) (تحفۃ الأشراف: ۴۱۵۲)، وط/الصدقہ ۲ (۷)، وحم (۳/۱۲، ۱۴، ۴۷، ۹۳)، و دي/الزکاۃ ۱۸ (۱۶۸۶) (صحیح)
۲۰۲۴- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : چندانصاریوں نے نبی اکرم ﷺ سے کچھ مانگا، آپ نے انہیں دیا ، انہوں نے پھرمانگا، آپ نے پھر دیا، پھر فرمایا:'' جومال بھی میرے پاس ہوگا میں اس کو تم سے چھپاکر ہرگزجمع نہیں رکھوں گا ، لیکن جو استغناء ظاہرکرے گا اللہ تعالیٰ اس کو غنی کردے گا ۱؎ ،جو سوال سے بچے گا اللہ تعالیٰ اس کو سوال سے محفوظ رکھے گا ، اورجوصبر کی توفیق مانگے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق عطاکرے گا ، کسی شخص کو بھی صبرسے بہتر اور کشادہ کوئی چیز نہیں ملی''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث امام مالک سے (دوسری سند سے ''فلن أذخره عنكم ''کے الفاظ کے ساتھ بھی آئی ہے،ان دونوں عبارتوں کا ایک ہی معنی ہے،یعنی تم لوگوں سے میں اسے ہرگز نہیں روک رکھوں گا،۳- اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جو قناعت سے کام لے گا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ بڑھانے اور سوال کرنے سے بچے گاتو اللہ تعالیٰ اسے اطمینان قلب بخشے گا اور دوسروں سے بے نیاز کردے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
78-بَاب مَا جَاءَ فِي ذِي الْوَجْهَيْنِ
۷۸-باب: دورخے شخص کابیان​


2025- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ذَاالْوَجْهَيْنِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَعَمَّارٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/المناقب ۱ (۳۴۹۴)، والأدب ۵۲ (۶۰۵۸)، م/فضائل الصحابۃ ۴۸ (۲۵۲۶)، د/الأدب ۳۹ (۴۸۷۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۳۸)، وحم (۲/۴۵۵) (صحیح)
۲۰۲۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' قیامت کے دن اللہ کی نظرمیں دورخے شخص سے بدتر کوئی نہیں ہوگا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں انس اورعمار رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : دورخے شخص سے مراد ایسا آدمی ہے جو ایک گروہ کے پاس جائے تو اسے یہ یقین دلائے کہ تمہارا خیر خواہ اور ساتھی ہوں اوردوسرے کا مخالف ہوں، لیکن جب دوسرے گروہ کے پاس جائے تو اسے بھی اسی طرح کا تاثر دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
79-بَاب مَا جَاءَ فِي النَّمَّامِ
۷۹-باب: چغل خورکابیان​


2026- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: مَرَّ رَجُلٌ عَلَى حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ هَذَا يُبَلِّغُ الأُمَرَائَ الْحَدِيثَ عَنِ النَّاسِ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَّاتٌ". قَالَ سُفْيَانُ: وَالْقَتَّاتُ النَّمَّامُ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الأدب ۵۰ (۶۰۵۶)، م/الإیمان ۴۵ (۱۵۰)، د/الأدب ۳۸ (۴۸۷۱) (تحفۃ الأشراف: ۳۳۸۶)، وحم (۵/۳۸۲، ۳۸۹، ۳۹۷، ۴۰۳، ۴۰۴) (صحیح)
۲۰۲۶- ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے پاس سے ایک آدمی گزرا ، ان سے کہا گیا کہ یہ شخص حکام کے پاس لوگوں کی باتیں پہنچاتاہے،توحذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے: ''چغل خورجنت میں نہیں داخل ہوگا'' ۱ ؎ ۔
سفیان کہتے ہیں: ''قتات'' ''نمّام ''(چغل خور)کو کہتے ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : حاکموں اورحکومتی عہدہ داروں کے پاس اہل ایمان اورصالح لوگوں کی چغلی کرنے والوں، ان کی رپورٹیں بنابناکرپیش کرنے والوں اور جھوٹ سچ ملاکر اپنے مفادات حاصل کرنے والوں کو اللہ کے عذاب اور اُس کی سزا کو ہمیشہ مدّنظر رکھناچاہئے ، دنیاوی مفادات چاردن کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ اُخروی حیات کا آخری کوئی سرانہیں۔
 
Top