57-بَاب مَا جَاءَ فِي الْمِزَاحِ
۵۷-باب: ہنسی مذاق، خوش طبعی اور دل لگی کابیان
1989- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْوَضَّاحِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ لَيُخَالِطُنَا حَتَّى إِنْ كَانَ لَيَقُولُ لأَخٍ لِي صَغِيرٍ: "يَا أَبَا عُمَيْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ".
* تخريج: انظر حدیث رقم ۳۳۳ (صحیح)
1989/م- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ نَحْوَهُ، وَأَبُوالتَّيَّاحِ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ حُمَيْدٍ الضُّبَعِيُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۱۹۸۹- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ ہمارے گھروالوں کے ساتھ اس قدرمل جل کررہتے تھے کہ ہمارے چھوٹے بھائی سے فرماتے : ابوعمیر!نغیرکاکیاہوا؟ ۱؎ ۔
۱۹۸۹/م- اس سند سے بھی انس رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱ - یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- ابوالتیاح کانام یزید بن حمید ضبعی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : نغیرگوریا کی مانندایک چڑیا ہے جس کی چونچ لال ہوتی ہے ، ابوعمیر نے اس چڑیا کو پال رکھا تھا اوراس سے بہت پیار کرتے تھے ، جب وہ مرگئی تو نبی اکرم ﷺتسلی مزاح کے طور پر ان سے پوچھتے تھے۔
1990- حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّكَ تُدَاعِبُنَا! قَالَ: "إِنِّي لاَ أَقُولُ إِلاَّ حَقًّا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۴۹)، وانظر: حم (۲/۳۴۰، ۳۶۰) (صحیح)
۱۹۹۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! آپ ہم سے ہنسی مذاق کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:''میں(خوش طبعی اورمزاح میں بھی) حق کے سوا کچھ نہیں کہتا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : لوگوں کے سوال کا مقصد یہ تھا کہ آپ نے ہمیں مزاح (ہنسی مذاق) اور خوش طبعی کرنے سے منع فرمایا ہے اور آپ خود خوش طبعی کرتے ہیں، اسی لیے آپ نے فرمایاکہ مزاح اور خوش طبعی کے وقت بھی میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا ،جب کہ ایسے موقع پر دوسرے لوگ غیر مناسب اور ناحق باتیں بھی کہہ جاتے ہیں۔
1991- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِاللهِ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَجُلاً اسْتَحْمَلَ رَسُولَ اللهِ ﷺ فَقَالَ: "إِنِّي حَامِلُكَ عَلَى وَلَدِ النَّاقَةِ" فَقَالَ: يَارَسُولَ اللهِ! مَا أَصْنَعُ بِوَلَدِ النَّاقَةِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "وَهَلْ تَلِدُ الإِبِلَ إِلاَّ النُّوقُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: د/الأدب ۹۲ (۴۹۹۸) (تحفۃ الأشراف: ۶۵۵) (صحیح)
۱۹۹۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ایک آدمی نے رسول اللہﷺ سے سواری کی درخواست کی ، آپ نے فرمایا:'' میں تمہیں سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ دوں گا ''، اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اونٹنی کا بچہ کیا کروں گا؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' بھلا اونٹ کو اونٹنی کے سواکوئی اوربھی جنتی ہے؟'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ۔
وضاحت ۱؎ :یعنی اونٹ اونٹنی کا بچہ ہی تو ہے، ایسے ہی آپ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا تھا: ''لا تدخل الجنة عجوز'' یعنی بوڑھیا جنت میں نہیں جائیں گی، جس کا مطلب یہ تھا کہ جنت میں داخل ہوتے وقت ہر عورت نوجوان ہوگی، اسی طرح نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان :
''إني حاملك على ولد الناقة'' کا بھی حال ہے، مفہوم یہ ہے کہ اگر کہنے والے کی بات پر غور کرلیاجائے تو پھر سوال کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔
1992- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَهُ: " يَا ذَا الأُذُنَيْنِ " قَالَ مَحْمُودٌ: قَالَ أَبُو أُسَامَةَ: يَعْنِي مَازَحَهُ. وَهَذَا الْحَدِيثُ حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: د/الأدب ۹۲ (۵۰۰۲)، ویأتي في المناقب ۵۶ (برقم: ۳۸۲۸) (تحفۃ الأشراف: ۹۳۴)، وحم (۳/۱۱۷، ۱۲۷، ۲۴۲، ۲۶۰) (صحیح)
۱۹۹۲- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ان کو مخاطب کرتے ہوے فرمایا:'' اے دوکان والے! ''محمود بن غیلان کہتے ہیں: ابواسامہ نے کہا، یعنی آپ ﷺ نے اس سے مزاح کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح غریب ہے۔