• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
50-بَاب مَا جَاءَ فِي دَعْوَةِ الأَخِ لأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ
۵۰-باب: پیٹھ پیچھے بھائی کے لیے دعاکرنے کی فضیلت کابیان​


1980- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَا دَعْوَةٌ أَسْرَعَ إِجَابَةً مِنْ دَعْوَةِ غَائِبٍ لِغَائِبٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالأَفْرِيقِيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَهُوَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ هُوَ أَبُوعَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيُّ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۶ (۱۵۳۵) (تحفۃ الأشراف: ۸۸۵۲) (ضعیف)
(سندمیں ''عبدالرحمن بن أبی نعم '' ضعیف راوی ہیں)
۱۹۸۰- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' کوئی دعا اتنی جلدقبول نہیں ہوتی ہے جتنی جلدغائب آدمی کے حق میں غائب آدمی کی دعاقبول ہوتی ہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- راوی افریقی حدیث کے سلسلے میں ضعیف قراردیئے گئے ہیں، ان کا نام عبدالرحمن بن زیاد بن انعم ہے۔
وضاحت ۱؎ : کیوں کہ ایسی دعا ریا کاری اور دکھاوے سے خالی ہوتی ہے، صدق دلی اور خلوص نیت سے نکلی ہوئی یہ دعاقبولیت سے سرفراز ہوتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
51- بَاب مَا جَاءَ فِي الشَّتْمِ
۵۱-باب: گالی گلوج کی مذمت کابیان​


1981- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "الْمُسْتَبَّانِ مَا قَالاَ فَعَلَى الْبَادِي مِنْهُمَا مَا لَمْ يَعْتَدْ الْمَظْلُومُ". وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/البر والصلۃ ۱۸ (۲۵۸۷)، د/الأدب ۴۷ (۴۸۹۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۵۳) (صحیح)
۱۹۸۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' گالی گلوچ کرنے والے دوآدمیوں میں سے گالی کا گناہ ان میں سے شروع کرنے والے پر ہوگا ، جب تک مظلوم حدسے آگے نہ بڑھ جائے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں سعد، ابن مسعوداورعبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہم سے بھی حدیثیں مروی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اگرمظلوم بدلہ لینے میں ظالم سے تجاوز کرجائے توایسی صورت میں دونوں کے گالی گلوج کا وبال اسی مظلوم کے سر ہوگا نہ کہ ظالم کے سر۔


1982- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلاَقَةَ، قَال: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ تَسُبُّوا الأَمْوَاتَ فَتُؤْذُوا الأَحْيَائَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ اخْتَلَفَ أَصْحَابُ سُفْيَانَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، فَرَوَى بَعْضُهُمْ مِثْلَ رِوَايَةِ الْحَفَرِيِّ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلاَقَةَ، قَال: سَمِعْتُ رَجُلاً يُحَدِّثُ عِنْدَ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۰۱) (صحیح)
۱۹۸۲- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' مردوں کو گالی دے کرزندوں کو تکلیف نہ پہنچاؤ''۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کی روایت کرنے میں سفیان کے شاگردمختلف ہیں، بعض نے حفری کی حدیث کے مثل روایت کی ہے (یعنی: ''عن زياد بن علاقة، عن المغيرة'' کے طریق سے) اوربعض نے اسے ''عن سفيان، عن زياد بن علاقة، قال: سمعت رجلا يحدث عن المغيرة، عن النبي ﷺ'' کی سند سے روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
52- بَابٌ
۵۲-باب: گالی گلوج کی مذمت سے متعلق ایک اورباب​


1983- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زُبَيْدِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ" قَالَ زُبَيْدٌ: قُلْتُ لأَبِي وَائِلٍ: أَأَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ عَبْدِاللهِ؟ قَالَ: نَعَمْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الإیمان ۳۶ (۴۸)، والأدب ۴۴ (۶۰۴۴)، والفتن ۸ (۷۰۷۶)، م/الإیمان ۲۸ (۶۴)، ن/المحاربۃ ۲۷ (۴۱۱۳-۴۱۱۶)، ق/المقدمۃ ۹ (۶۹)، والفتن ۴ (۳۹۳۹) (تحفۃ الأشراف: ۹۲۴۳)، وحم (۱/۳۸۵، ۴۱۱، ۴۱۷، ۴۳۳، ۴۳۹، ۴۴۶، ۴۵۴، ۴۶۰)، ویأتي في الإیمان برقم ۲۶۳۴) (صحیح)
۱۹۸۳- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے جھگڑاکرناکفرہے '' ۱؎ ۔راوی زبیدبن حارث کہتے ہیں: میں نے ابووائل شقیق بن سلمہ سے پوچھا: کیا آپ نے یہ حدیث عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنی ہے؟ کہا: ہاں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی عزت و احترام کا خاص خیال رکھے کیوں کہ ناحق کسی کو گالی دینا باعث فسق ہے، اور ناحق جھگڑا کرنا کفار کا عمل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
53-بَاب مَا جَاءَ فِي قَوْلِ الْمَعْرُوفِ
۵۳-باب: معروف (بھلی بات) کہنے کی فضیلت کابیان​


1984- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "إِنَّ فِي الْجَنَّةِ غُرَفًا تُرَى ظُهُورُهَا مِنْ بُطُونِهَا وَبُطُونُهَا مِنْ ظُهُورِهَا" فَقَامَ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: لِمَنْ هِيَ يَارَسُولَ اللهِ؟! قَالَ: "لِمَنْ أَطَابَ الْكَلاَمَ، وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ، وَأَدَامَ الصِّيَامَ، وَصَلَّى لِلّهِ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ.
وَقَدْتَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ، هَذَا مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَهُوَ كُوفِيٌّ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ الْقُرَشِيُّ مَدَنِيُّ وَهُوَ أَثْبَتُ مِنْ هَذَا وَكِلاَهُمَا كَانَا فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤالف وأعادہ في صفۃ الجنۃ ۳ (۲۵۲۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۹۶) وحم (۱/۱۵۶) (حسن)
(سندمیں عبد الرحمن بن اسحاق واسطی سخت ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)
۱۹۸۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کابیرونی حصہ اندرسے اوراندورنی حصہ باہر سے نظر آئے گا، (یہ سن کر) ایک اعرابی نے کھڑے ہوکرعرض کیا: اللہ کے رسول! کس کے لیے ہیں؟'' آپ نے فرمایا:'' جو اچھی طرح بات کرے ، کھانا کھلائے ، خوب صوم رکھے اوراللہ کی رضا کے لیے رات میں صلاۃ پڑھے جب کہ لوگ سوئے ہوں'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے ، ۲- ہم اسے صرف عبدالرحمن بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں، اسحاق بن عبدالرحمن کے حافظے کے تعلق سے بعض محدثین نے کلام کیا ہے ، یہ کوفہ کے رہنے والے ہیں، ۳-عبدالرحمن بن اسحاق نام کے ایک دوسرے راوی ہیں، وہ قرشی اورمدینہ کے رہنے والے ہیں، یہ ان سے اثبت ہیں،اور دونوں کے دونوں ہم عصرہیں۔
وضاحت ۱؎ : خوش کلامی ، کثرت سے صوم رکھنا، اور رات میں جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں اللہ کے لیے صلاۃ پڑھنی یہ ایسے اعمال ہیں جو جنت کے بالاخانوں تک پہنچانے والے ہیں، شرط یہ ہے کہ یہ سب اعمال ریاکاری اور دکھاوے سے خالی ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
54-بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْمَمْلُوكِ الصَّالِحِ
۵۴-باب: نیک سیرت غلام کی فضیلت کابیان​


1985- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "نِعِمَّا لأَحَدِهِمْ أَنْ يُطِيعَ رَبَّهُ وَيُؤَدِّيَ حَقَّ سَيِّدِهِ" يَعْنِي الْمَمْلُوكَ، و قَالَ كَعْبٌ: صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ.
وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَى وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۸۸) (صحیح)
۱۹۸۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' ان کے لیے کیا ہی اچھا ہے کہ اپنے رب کی اطاعت کریں اوراپنے مالک کا حق اداکریں''، آپ کے اس فرمان کا مطلب لونڈی وغلام سے تھا ۱؎ ۔
کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ اوراس کے رسول نے سچ فرمایا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوموسیٰ اشعری اورابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : گویا وہ غلام اور لونڈی جو رب العالمین کی عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے مالک کے جملہ حقوق کو اچھی طرح سے ادا کریں ان کے لیے دوگناثواب ہے، ایک رب کی عبادت کا دوسرا مالک کا حق اداکرنے کا۔


1986- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: " ثَلاَثَةٌ عَلَى كُثْبَانِ الْمِسْكِ - أُرَاهُ قَالَ:- يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَبْدٌ أَدَّى حَقَّ اللهِ، وَحَقَّ مَوَالِيهِ، وَرَجُلٌ أَمَّ قَوْمًا وَهُمْ بِهِ رَاضُونَ، وَرَجُلٌ يُنَادِي بِالصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، وَأَبُو الْيَقْظَانِ اسْمُهُ عُثْمَانُ بْنُ قَيْسٍ، وَيُقَالُ ابْنُ عُمَيْرٍ وَهُوَ أَشْهَرُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وأعادہ في صفۃ الجنۃ ۲۵ (۲۵۶۶) (تحفۃ الأشراف: ۶۷۱۸)، وانظر حم (۲/۲۶) (ضعیف)
(سندمیں أبوالیقظان ضعیف، مختلط اور مدلس راوی ہے ، اور تشیع میں بھی غالی ہے )
۱۹۸۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' تین آدمی مشک کے ٹیلے پرہوں گے، قیامت کے دن، پہلا وہ غلام جو اللہ کا اوراپنے مالکوں کا حق اداکرے ، دوسرا وہ آدمی جو کسی قوم کی امامت کرے اوروہ اس سے راضی ہوں، اورتیسرا وہ آدمی جو رات اوردن میں صلاۃکے لیے پانچ باربلاتاہے '' ۱ ؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے سفیان ثوری کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ ابوالیقظان سے روایت کرتے ہیں، ۲-ابوالیقظان کانام عثمان بن قیس ہے ، انہیں عثمان بن عمیربھی کہا جاتا ہے اور یہی مشہورہے ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی اذان دیتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
55- بَاب مَا جَاءَ فِي مُعَاشَرَةِ النَّاسِ
۵۵-باب: حسن معاشرت (یعنی لوگوں کے ساتھ اچھے ڈھنگ سے رہنے )کابیان​


1987- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ ﷺ: "اتَّقِ اللهِ حَيْثُمَا كُنْتَ وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۸۹)، وانظر حم (۵/۱۵۳، ۱۵۸، ۱۷۷، ۲۲۸، ۲۳۶)، ودي/الرقاق ۷۴ (حسن)
1987/م1- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ وَأَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبٍ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
* تخريج : انظر ماقبلہ (حسن)
1987/م2- قَالَ مَحْمُودٌ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
قَالَ مَحْمُودٌ: وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ.
* تخريج : تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۶۶) (حسن)
۱۹۸۷- ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جہاں بھی رہواللہ سے ڈرو، برائی کے بعد (جوتم سے ہوجائے) بھلائی کروجو برائی کومٹادے ۱؎ اورلوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
۱۹۸۷/م۱- اس سند سے بھی ابوذر رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
۱۹۸۷/م۲- اس سند سے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
محمود بن غیلان کہتے ہیں: صحیح ابوذرکی حدیث ہے۔
وضاحت ۱؎ : مثلاً صلاۃ پڑھو، صدقہ و خیرات کرو اور کثرت سے توبہ و استغفار کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
56-بَاب مَا جَاءَ فِي ظَنِّ السُّوئِ
۵۶-باب: بدگمانی کابیان​


1988- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: و سَمِعْت عَبْدَ بْنَ حُمَيْدٍ يَذْكُرُ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ سُفْيَانَ، قَالَ: قَالَ سُفْيَانُ: الظَّنُّ ظَنَّانِ: فَظَنٌّ إِثْمٌ، وَظَنٌّ لَيْسَ بِإِثْمٍ، فَأَمَّا الظَّنُّ الَّذِي هُوَ إِثْمٌ فَالَّذِي يَظُنُّ ظَنًّا وَيَتَكَلَّمُ بِهِ، وَأَمَّا الظَّنُّ الَّذِي لَيْسَ بِإِثْمٍ فَالَّذِي يَظُنُّ وَلاَيَتَكَلَّمُ بِهِ.
* تخريج: خ/النکاح ۴۵ (۵۱۴۳)، والأدب ۵۷ (۶۰۶۴)، و۵۸ (۶۰۶۶)، والفرائض ۲ (۶۷۲۴)، م/البر والصلۃ ۹ (۲۵۶۳)، د/الأدب ۵۶ (۴۹۱۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۷۲۰)، وحم (۲/۲۴۵، ۳۱۲، ۳۴۲، ۴۶۵، ۴۷۰، ۴۸۲) (صحیح)
۱۹۸۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' بدگمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- سفیان کہتے ہیں کہ ظن دوطرح کاہوتاہے ، ایک طرح کا ظن گناہ کا سبب ہے اورایک طرح کا ظن گناہ کا سبب نہیں ہے، جو ظن گناہ کا سبب ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کے بارے میں گمان کرے اور اسے زبان پرلائے، اورجوظن گناہ کا سبب نہیں ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کے بارے میں گمان کرے اور اسے زبان پر نہ لائے۔
وضاحت ۱؎ : اسی حدیث میں بدگمانی سے بچنے کی سخت تاکید ہے، کیوں کہ یہ جھوٹ کی بدترین قسم ہے اس لیے عام حالات میں ہرمسلمان کی بابت اچھا خیال رکھنا ضروری ہے سوائے اس کے کہ کوئی واضح ثبوت اس کے برعکس موجود ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
57-بَاب مَا جَاءَ فِي الْمِزَاحِ
۵۷-باب: ہنسی مذاق، خوش طبعی اور دل لگی کابیان​


1989- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْوَضَّاحِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ لَيُخَالِطُنَا حَتَّى إِنْ كَانَ لَيَقُولُ لأَخٍ لِي صَغِيرٍ: "يَا أَبَا عُمَيْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ".
* تخريج: انظر حدیث رقم ۳۳۳ (صحیح)
1989/م- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ نَحْوَهُ، وَأَبُوالتَّيَّاحِ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ حُمَيْدٍ الضُّبَعِيُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۱۹۸۹- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ ہمارے گھروالوں کے ساتھ اس قدرمل جل کررہتے تھے کہ ہمارے چھوٹے بھائی سے فرماتے : ابوعمیر!نغیرکاکیاہوا؟ ۱؎ ۔
۱۹۸۹/م- اس سند سے بھی انس رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱ - یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- ابوالتیاح کانام یزید بن حمید ضبعی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : نغیرگوریا کی مانندایک چڑیا ہے جس کی چونچ لال ہوتی ہے ، ابوعمیر نے اس چڑیا کو پال رکھا تھا اوراس سے بہت پیار کرتے تھے ، جب وہ مرگئی تو نبی اکرم ﷺتسلی مزاح کے طور پر ان سے پوچھتے تھے۔


1990- حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّكَ تُدَاعِبُنَا! قَالَ: "إِنِّي لاَ أَقُولُ إِلاَّ حَقًّا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۴۹)، وانظر: حم (۲/۳۴۰، ۳۶۰) (صحیح)
۱۹۹۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! آپ ہم سے ہنسی مذاق کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:''میں(خوش طبعی اورمزاح میں بھی) حق کے سوا کچھ نہیں کہتا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : لوگوں کے سوال کا مقصد یہ تھا کہ آپ نے ہمیں مزاح (ہنسی مذاق) اور خوش طبعی کرنے سے منع فرمایا ہے اور آپ خود خوش طبعی کرتے ہیں، اسی لیے آپ نے فرمایاکہ مزاح اور خوش طبعی کے وقت بھی میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا ،جب کہ ایسے موقع پر دوسرے لوگ غیر مناسب اور ناحق باتیں بھی کہہ جاتے ہیں۔


1991- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِاللهِ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَجُلاً اسْتَحْمَلَ رَسُولَ اللهِ ﷺ فَقَالَ: "إِنِّي حَامِلُكَ عَلَى وَلَدِ النَّاقَةِ" فَقَالَ: يَارَسُولَ اللهِ! مَا أَصْنَعُ بِوَلَدِ النَّاقَةِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "وَهَلْ تَلِدُ الإِبِلَ إِلاَّ النُّوقُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: د/الأدب ۹۲ (۴۹۹۸) (تحفۃ الأشراف: ۶۵۵) (صحیح)
۱۹۹۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ایک آدمی نے رسول اللہﷺ سے سواری کی درخواست کی ، آپ نے فرمایا:'' میں تمہیں سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ دوں گا ''، اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اونٹنی کا بچہ کیا کروں گا؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' بھلا اونٹ کو اونٹنی کے سواکوئی اوربھی جنتی ہے؟'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ۔
وضاحت ۱؎ :یعنی اونٹ اونٹنی کا بچہ ہی تو ہے، ایسے ہی آپ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا تھا: ''لا تدخل الجنة عجوز'' یعنی بوڑھیا جنت میں نہیں جائیں گی، جس کا مطلب یہ تھا کہ جنت میں داخل ہوتے وقت ہر عورت نوجوان ہوگی، اسی طرح نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان : ''إني حاملك على ولد الناقة'' کا بھی حال ہے، مفہوم یہ ہے کہ اگر کہنے والے کی بات پر غور کرلیاجائے تو پھر سوال کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔


1992- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَهُ: " يَا ذَا الأُذُنَيْنِ " قَالَ مَحْمُودٌ: قَالَ أَبُو أُسَامَةَ: يَعْنِي مَازَحَهُ. وَهَذَا الْحَدِيثُ حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: د/الأدب ۹۲ (۵۰۰۲)، ویأتي في المناقب ۵۶ (برقم: ۳۸۲۸) (تحفۃ الأشراف: ۹۳۴)، وحم (۳/۱۱۷، ۱۲۷، ۲۴۲، ۲۶۰) (صحیح)
۱۹۹۲- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ان کو مخاطب کرتے ہوے فرمایا:'' اے دوکان والے! ''محمود بن غیلان کہتے ہیں: ابواسامہ نے کہا، یعنی آپ ﷺ نے اس سے مزاح کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
58-بَاب مَا جَاءَ فِي الْمِرَائِ
۵۸-باب: تکرار کرنے اور لڑائی جھگڑے کی مذمت کابیان​


1993- حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكَرِّمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ اللَّيْثِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَهُوَ بَاطِلٌ بُنِيَ لَهُ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ، وَمَنْ تَرَكَ الْمِرَائَ وَهُوَ مُحِقٌّ بُنِيَ لَهُ فِي وَسَطِهَا، وَمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ بُنِيَ لَهُ فِي أَعْلاَهَا". وَهَذَا الْحَدِيثُ حَدِيثٌ حَسَنٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ سَلَمَةَ بْنِ وَرْدَانَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۷ (۵۱) (تحفۃ الأشراف: ۸۶۸) (ضعیف)
سندمیں سلمہ بن وردان لیثی مدنی ضعیف راوی ہیں،صحیح الفاظ ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے اس طرح ہیں: ''أنا زعیم ببیت في ربض الجنۃ لمن ترک المزاح و إن کان محقا، و بیت في وسط الجنۃ لمن ترک الکذب و إن کان مازحا، و بیت في اعلی الجنۃ لمن حسن خلقہ'' (أبوداود رقم ۴۸۰۰) تفصیل کے لیے دیکھیے الصحیحۃ ۲۷۳)
۱۹۹۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جوشخص (جھگڑے کے وقت) جھوٹ بولنا چھوڑ دے حالانکہ وہ ناحق پرہے، اس کے لیے اطرافِ جنت میں ایک مکان بنایاجائے گا، جوشخص حق پر ہو تے ہوئے جھگڑا چھوڑدے اس کے لیے جنت کے بیچ میں ایک مکان بنایاجائے گا اورجوشخص اپنے اخلاق اچھے بنائے اس کے لیے اعلیٰ جنت میں ایک مکان بنایاجائے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے ، ہم اسے صرف سلمہ بن وردان کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں۔


1994- حَدَّثَنَا فَضَالَةُ بْنُ الْفَضْلِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ ابْنِ وَهْبِ ابْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "كَفَى بِكَ إِثْمًا أَنْ لاَتَزَالَ مُخَاصِمًا". وَهَذَا الْحَدِيثُ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۵۴۰) (ضعیف)
(سندمیں ''ادریس بن بنت وہب بن منبہ'' مجہول راوی ہے)
۱۹۹۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' تمہارے لیے یہی گناہ کافی ہے کہ تم ہمیشہ جھگڑتے رہو''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے ، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔


1995- حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنِ اللَّيْثِ - وَهُوَ ابْنُ أَبِي سُلَيْمٍ - عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَتُمَارِ أَخَاكَ وَلاَتُمَازِحْهُ وَلاَ تَعِدْهُ مَوْعِدَةً فَتُخْلِفَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَنَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَعَبْدُ الْمَلِكِ عِنْدِي هُوَ ابْنُ بَشِيرٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۱۵۱) (ضعیف)
(سندمیں ''لیث بن أبی سلیم'' ضعیف راوی ہیں)
۱۹۹۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اپنے بھائی سے مت جھگڑو ، نہ اس سے ہنسی مذاق کرو، اور نہ اس سے کوئی ایساوعدہ کروجس کی تم خلاف ورزی کرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے ، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
59-بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُدَارَاةِ
۵۹-باب: حسنِ معاملہ کابیان​


1996- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ وَأَنَا عِنْدَهُ، فَقَالَ: بِئْسَ ابْنُ الْعَشِيرَةِ ( أَوْ أَخُو الْعَشِيرَةِ )، ثُمَّ أَذِنَ لَهُ، فَأَلاَنَ لَهُ الْقَوْلَ، فَلَمَّا خَرَجَ، قُلْتُ لَهُ: يَارَسُولَ اللهِ! قُلْتَ لَهُ مَاقُلْتَ، ثُمَّ أَلَنْتَ لَهُ الْقَوْلَ، فَقَالَ: "يَا عَائِشَةُ! إِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ مَنْ تَرَكَهُ النَّاسُ أَوْ وَدَعَهُ النَّاسُ اتِّقَائَ فُحْشِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الأدب ۳۸ (۶۰۳۲)، و۴۸ (۶۰۵۴)، و ۸۲ (۶۱۳۱)، م/البر والصلۃ ۲۲ (۲۵۹۱)، د/الأدب ۶ (۴۷۹۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۵۴) (صحیح)
۱۹۹۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے کی اجازت مانگی ، اس وقت میں آپ کے پاس تھی،آپ نے فرمایا:'' یہ قوم کا برابیٹا ہے، یا '' قوم کا بھائی براہے ، پھر آپ نے اس کواندرآنے کی اجازت دے دی اور اس سے نرم گفتگوکی ، جب وہ نکل گیا تو میں نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول! آپ نے تو اس کو براکہاتھا، پھرآپ نے اس سے نرم گفتگوکی '' ۱؎ ، آپ نے فرمایا:'' عائشہ! لوگوں میں سب سے براوہ ہے جس کی بدزبانی سے بچنے کے لیے لوگ اسے چھوڑدیں'' ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس کے برا ہوتے ہوئے بھی اس کے مہمان ہونے پر اس کے ساتھ اچھابرتاؤ کیا، یہی باب سے مطابقت ہے۔
 
Top