7- بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ
۷-باب: مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ہمیشہ رہنے کا بیان
2165- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ أَبُو الْمُغِيرَةِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: خَطَبَنَا عُمَرُ بِالْجَابِيَةِ، فَقَالَ: يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قُمْتُ فِيكُمْ كَمَقَامِ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِينَا، فَقَالَ: أُوصِيكُمْ بِأَصْحَابِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِبُ حَتَّى يَحْلِفَ الرَّجُلُ، وَلاَ يُسْتَحْلَفُ وَيَشْهَدَ الشَّاهِدُ وَلاَ يُسْتَشْهَدُ، أَلاَ لاَ يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلاَّ كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ، عَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْفُرْقَةَ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ، وَهُوَ مِنَ الاثْنَيْنِ أَبْعَدُ، مَنْ أَرَادَ بُحْبُوحَةَ الْجَنَّةِ، فَلْيَلْزَمِ الْجَمَاعَةَ، مَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَائَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَذَلِكُمْ الْمُؤْمِنُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَاهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: ق/الأحکام ۲۷ (۲۳۶۳) (والنسائي في الکبری) وحم (۱/۱۸، ۲۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۳۰) (صحیح) (ویأتي الإشارۃ إلیہ برقم : ۲۳۰۳)
۲۱۶۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مقام جابیہ میں(میروالد) عمر رضی اللہ عنہ ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوے، انہوں نے کہا: لوگو! میں تمہارے درمیان اسی طرح (خطبہ دینے کے لیے ) کھڑا ہوا ہوں جیسے رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوتے تھے، آپ ﷺنے فرمایا:'' میں تمہیں اپنے صحابہ کی پیروی کی وصیت کرتا ہوں، پھر ان کے بعد آنے والوں (یعنی تابعین) کی پھر ان کے بعد آنے والوں(یعنی تبع تابعین)کی ، پھر جھوٹ عام ہوجائے گا، یہاں تک کہ قسم کھلائے بغیر آدمی قسم کھائے گا اورگواہ گواہی طلب کیے جانے سے پہلے ہی گواہی دے گا ، خبردار! جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے، تم لوگ جماعت کولازم پکڑواورپارٹی بندی سے بچو،کیوں کہ شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ رہتا ہے ، دوکے ساتھ اس کا رہنا نسبۃً زیادہ دورکی بات ہے ، جو شخص جنت کے درمیانی حصہ میں جانا چاہتاہووہ جماعت سے لازمی طورپر جڑارہے اور جسے اپنی نیکی سے خوشی ملے اورگناہ سے غم لاحق ہوحقیقت میں وہی مومن ہے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اسے ابن مبارک نے بھی محمد بن سوقہ سے روایت کیا ہے، ۳- یہ حدیث کئی سندوں سے عمر کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے آئی ہے ۔
2166- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يَدُ اللهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ".
وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۷۲۴) (صحیح)
۲۱۶۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' اللہ کا ہاتھ (اس کی مدد و نصرت) جماعت کے ساتھ ہوتا ہے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے ، ہم اسے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے صرف اسی سندسے جانتے ہیں ۔
2167- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنِي الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّ اللهَ لاَ يَجْمَعُ أُمَّتِي - أَوْ قَالَ: أُمَّةَ مُحَمَّدٍ ﷺ - عَلَى ضَلاَلَةٍ، وَيَدُ اللهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَذَّ شُذَّ إِلَى النَّارِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَسُلَيْمَانُ الْمَدَنِيُّ هُوَ عِنْدِي سُلَيْمَانُ ابْنُ سُفْيَانَ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَتَفْسِيرُ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ هُمْ أَهْلُ الْفِقْهِ وَالْعِلْمِ وَالْحَدِيثِ، قَالَ: و سَمِعْت الْجَارُودَ بْنَ مُعَاذٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحَسَنِ، يَقُولُ: سَأَلْتُ عَبْدَاللهِ بْنَ الْمُبَارَكِ مَنِ الْجَمَاعَةُ ؟ فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، قِيلَ لَهُ: قَدْ مَاتَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، قَالَ: فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ، قِيلَ لَهُ: قَدْ مَاتَ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ، فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَأَبُو حَمْزَةَ السُّكَّرِيُّ جَمَاعَةٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو حَمْزَةَ هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ وَكَانَ شَيْخًا صَالِحًا، وَإِنَّمَا قَالَ: هَذَا فِي حَيَاتِهِ عِنْدَنَا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۱۸۸) (صحیح)
(سندمیں ''سلیمان مدنی'' ضعیف ہیں، لیکن
''من شذ شذ إلى النار'' کے سوا دیگر ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں ، دیکھیے ظلال الجنۃ رقم: ۸۰)
۲۱۶۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ میری امت کو یایہ فرمایا: ''محمد ﷺ کی امت کوگمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا ، اللہ کا ہاتھ (اس کی مدد ونصرت ) جماعت کے ساتھ ہے ، جوشخص جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں گرا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- سلیمان مدنی میرے نزدیک سلیمان بن سفیان ہی ہیں، ان سے ابوداود طیالسی ، ابوعامر عقدی اورکئی اہل علم نے روایت کی ہے ،۳- اہل علم کے نزدیک ''جماعت'' سے مراد اصحاب فقہ اور اصحاب علم اوراصحاب حدیث ہیں،۴- علی بن حسین کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے پوچھا: جماعت سے کون لوگ مراد ہیں؟ انہوں نے کہا: ابوبکر وعمر، ان سے کہاگیا: ابوبکر وعمر تو وفات پاگئے، انہوں نے کہا: فلاں اورفلاں، ان سے کہا گیا : فلاں اورفلاں بھی تو وفات پاچکے ہیں توعبداللہ بن مبارک نے کہا: ابوحمزہ سکری جماعت ہیں ۱؎ ، ۵- ابوحمزہ کانام محمدبن میمون ہے، وہ صالح اورنیک شیخ تھے ، عبداللہ بن مبارک نے یہ بات ہم سے اس وقت کہی تھی جب ابوحمزہ باحیات تھے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اگر ایک آدمی بھی صحیح عقیدہ ومنہج پر ہو تو وہ اکیلے بھی جماعت ہے، اصل معیار صحیح عقیدہ و منہج پر ہونا ہے، نہ کہ بڑی تعداد میں ہونا، اس لیے تقلیدکے شیدائیوں کایہ کہنا کہ تقلید پر امت کی اکثریت متفق ہے، اس لیے مقلدین ہی سواد اعظم ہیں، سراسر مغالطہ ہے۔