• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
12- بَاب مِنْهُ
۱۲-باب: معروف ومنکرسے متعلق ایک اورباب​


2173- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَثَلُ الْقَائِمِ عَلَى حُدُودِ اللهِ وَالْمُدْهِنِ فِيهَا كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا عَلَى سَفِينَةٍ فِي الْبَحْرِ، فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلاَهَا، وَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا، فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا يَصْعَدُونَ فَيَسْتَقُونَ الْمَائَ، فَيَصُبُّونَ عَلَى الَّذِينَ فِي أَعْلاَهَا، فَقَالَ الَّذِينَ فِي أَعْلاَهَا: لاَ نَدَعُكُمْ تَصْعَدُونَ فَتُؤْذُونَنَا، فَقَالَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا: فَإِنَّا نَنْقُبُهَا مِنْ أَسْفَلِهَا فَنَسْتَقِي، فَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيْدِيهِمْ فَمَنَعُوهُمْ نَجَوْا جَمِيعًا، وَإِنْ تَرَكُوهُمْ غَرِقُوا جَمِيعًا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الشرکۃ ۶ (۲۴۹۳)، والشھادات ۳۰ (۲۶۸۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۲۸)، وحم (۴/۲۶۸، ۲۷۰، ۲۷۳) (صحیح)
۲۱۷۳- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' اللہ کے حدودپر قائم رہنے والے (یعنی اس کے احکام کی پابندی کرنے والے) اور اس کی مخالفت کرنے والوں کی مثال اس قوم کی طرح ہے ، جوقرعہ اندازی کے ذریعہ ایک کشتی میں سوار ہوئی ، بعض لوگوں کو کشتی کے بالائی طبقہ میں جگہ ملی اوربعض لوگوں کو نچلے حصہ میں ، نچلے طبقہ والے اوپر چڑھ کر پانی لیتے تھے تو بالائی طبقہ والوں پر پانی گرجاتا تھا، لہذا بالائی حصہ والوں نے کہا: ہم تمہیں اوپرنہیں چڑھنے دیں گے تاکہ ہمیں تکلیف پہنچاؤ(یہ سن کر)نچلے حصہ والوں نے کہا: ہم کشتی کے نیچے سوراخ کرکے پانی لیں گے، اب اگر بالائی طبقہ والے ان کے ہاتھ پکڑکر روکیں گے تو تمام نجات پاجائیں گے اوراگر انہیں ایسا کرنے سے منع نہیں کریں گے تو تمام کے تمام ڈوب جائیں گے۔امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَا جَاءَ أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ
۱۳-باب: ظالم بادشاہ کے سامنے حق کہنا سب سے بہتر جہادہے​


2174- حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مُصْعَبٍ أَبُويَزِيدَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْجِهَادِ كَلِمَةَ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: د/الملاحم ۱۷ (۴۳۴۴)، ق/الفتن ۲۰ (۴۰۱۱)، وحم ۳۰/۱۹، ۶۱) (تحفۃ الأشراف: ۴۲۳۴) (صحیح)
(متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ''عطیہ عوفي'' ضعیف ہیں۔ دیکھیے: الصحیحۃ: ۴۹۱)
۲۱۷۴- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا:'' ظالم بادشاہ کے سامنے حق کہنا سب سے بہتر جہاد ہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲- اس باب میں ابوامامہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ سب سے بہترجہاد اس وجہ سے ہے کہ دشمن سے مقابلہ کے وقت جو ڈرسوار رہتاہے ، وہ اپنے اندر جیتنے اورہارنے سے متعلق دونوں صفتوں کو سمیٹے ہوئے ہے،جب کہ کسی جابر بادشاہ کے سامنے حق بات کہنے میں صرف مغلوبیت کا خوف طاری رہتاہے،اسی لیے اسے سب سے بہترجہاد کہاگیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَا جَاءَ فِي سُؤَالِ النَّبِيِّ ﷺ ثَلاَثًا فِي أُمَّتِهِ
۱۴-باب: امت کے لیے نبی اکرمﷺ کی تین دعاؤں کابیان​


2175- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَال: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ رَاشِدٍ يُحَدِّثُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَبَّابِ ابْنِ الأَرَتِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ صَلاَةً، فَأَطَالَهَا، قَالُوا: يَارَسُولَ اللهِ! صَلَّيْتَ صَلاَةً لَمْ تَكُنْ تُصَلِّيهَا، قَالَ: أَجَلْ إِنَّهَا صَلاَةُ رَغْبَةٍ وَرَهْبَةٍ إِنِّي سَأَلْتُ اللهَ فِيهَا ثَلاَثًا، فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ وَمَنَعَنِي وَاحِدَةً، سَأَلْتُهُ أَنْ لاَ يُهْلِكَ أُمَّتِي بِسَنَةٍ فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُهُ أَنْ لاَيُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُهُ أَنْ لاَيُذِيقَ بَعْضَهُمْ بَأْسَ بَعْضٍ فَمَنَعَنِيهَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَابْنِ عُمَرَ.
* تخريج: ن/قیام اللیل ۱۶ (۱۶۳۹) (تحفۃ الأشراف: ۳۵۱۶)، وحم (۵/۱۰۸) (صحیح)
۲۱۷۵- خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے ایک بار کافی لمبی صلاۃ پڑھی، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول! آپ نے ایسی صلاۃ پڑھی ہے کہ اس سے پہلے ایسی صلاۃ نہیں پڑھی تھی ، آ پ نے فرمایا:'' ہاں، یہ امید و خوف کی صلاۃتھی، میں نے اس میں اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں مانگی ہیں، جن میں سے اللہ تعالیٰ نے دوکوقبول کرلیا اورایک کو نہیں قبول کیا، میں نے پہلی دعا یہ مانگی کہ میری امت کو عام قحط میں ہلاک نہ کرے ، اللہ نے میری یہ دعا قبول کرلی ، میں نے دوسری دعا یہ کی کہ ان پرغیروں میں سے کسی دشمن کو نہ مسلط کرے ، اللہ نے میری یہ دعا بھی قبول کرلی ، میں نے تیسری دعا یہ مانگی کہ ان میں آپس میں ایک کودوسرے کی لڑائی کا مزہ نہ چکھاتو اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا قبول نہیں فرمائی '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں سعد اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی میری دو دعائیں میری امت کے حق میں مقبول ہوئیں، اور تیسری دعا مقبول نہیں ہوئی، گویا یہ امت ہمیشہ اپنے لوگوں کے پھیلائے ہوئے فتنہ و فساد سے دوچار رہے گی، اور اس امت کے لوگ خود آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک ، اور قتل کریں گے، اور حدیث کا مقصد یہ ہے کہ امت کے لوگ اپنے آپ کو اس کا مستحق نہ بنالیں۔


2176- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي، قِلاَبَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَائَ الرَّحَبِيِّ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ اللهَ زَوَى لِيَ الأَرْضَ، فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا، وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ الأَحْمَرَ وَالأَبْيَضَ، وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لأُمَّتِي أَنْ لاَ يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ عَامَّةٍ وَأَنْ لاَ يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ، وَإِنَّ رَبِّي قَالَ: يَا مُحَمَّدُ! إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَائً فَإِنَّهُ لاَ يُرَدُّ، وَإِنِّي أَعْطَيْتُكَ لأُمَّتِكَ أَنْ لاَ أُهْلِكَهُمْ بِسَنَةٍ عَامَّةٍ، وَأَنْ لاَأُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ، فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ وَلَوْ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مَنْ بِأَقْطَارِهَا - أَوْ قَالَ مَنْ بَيْنَ أَقْطَارِهَا - حَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضًا وَيَسْبِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الفتن ۵ (۲۸۸۹)، د/الفتن ۱ (۴۲۵۲)، ق/الفتن ۹ (۳۹۵۲) (تحفۃ الأشراف: ۲۱۰۰) (صحیح)
۲۱۷۶- ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی تومیں نے مشرق (پورب) ومغرب(پچھم) کو دیکھا یقینا میری امت کی حکمرانی وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک میرے لیے زمین سمیٹی گئی، اورمجھے سرخ وسفید دوخزانے دے گئے ، میں نے اپنے رب سے اپنی امت کے لیے دعا کی کہ ان کوکسی عام قحط سے ہلاک نہ کرے اورنہ ان پر غیروں میں سے کوئی ایسا دشمن مسلط کر جو انہیں جڑ سے مٹادے ، میرے رب نے مجھ سے فرمایا: اے محمد! جب میں کوئی فیصلہ کرلیتاہوں تو اسے بدلتا نہیں، تیری امت کے حق میں تیری یہ دعا میں نے قبول کی کہ میں اسے عام قحط سے ہلاک وبربادنہیں کروں گا، اور نہ ہی ان پر کوئی ایسا دشمن مسلط کروں گا جو ان میں سے نہ ہو اور جو انہیں جڑ سے مٹادے، گو ان کے خلاف تمام روئے زمین کے لوگ جمع ہوجائیں، البتہ ایسا ہوگا کہ انہیں میں سے بعض لوگ بعض کو ہلاک کریں گے،اوربعض کو قیدی بنائیں گے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
15- بَاب مَا جَاءَ كَيْفَ يَكُونُ الرَّجُلُ فِي الْفِتْنَةِ
۱۵-باب: فتنہ کے وقت آدمی کو کیساہونا چاہئے؟​


2177- حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى الْقَزَّازُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ أُمِّ مَالِكٍ الْبَهْزِيَّةِ، قَالَتْ: ذَكَرَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فِتْنَةً، فَقَرَّبَهَا قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ مَنْ خَيْرُ النَّاسِ فِيهَا؟ قَالَ: "رَجُلٌ فِي مَاشِيَتِهِ يُؤَدِّي حَقَّهَا، وَيَعْبُدُ رَبَّهُ، وَرَجُلٌ آخِذٌ بِرَأْسِ فَرَسِهِ يُخِيفُ الْعَدُوَّ وَيُخِيفُونَهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ مُبَشِّرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَاهُ اللَّيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ أُمِّ مَالِكٍ الْبَهْزِيَّةِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۵۵) (صحیح)
(سند میں ایک راوی مبہم ہے، لیکن شواہد کی بنا پر حدیث صحیح لغیرہ ہے)
۲۱۷۷- ام مالک بہزیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فتنے کا ذکرکیا اور فرمایا :'' وہ بہت جلد ظاہر ہوگا''، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! اس وقت سب سے بہترکون شخص ہوگا ؟ آپ نے فرمایا:'' ایک وہ آدمی جو اپنے جانوروں کے درمیان ہو اور ان کاحق اداکر نے کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتاہو، اوردوسرا وہ آدمی جو اپنے گھوڑے کا سرپکڑے ہو، وہ دشمن کو ڈراتاہواوردشمن اسے ڈراتے ہوں ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث اس سندسے حسن غریب ہے،۲- لیث بن ابی سلیم نے بھی یہ حدیث ''عن طاؤوس عن أم مالك البهزية عن النبي ﷺ '' کی سند سے روایت کی ہے،۳- اس باب میں ام مبشر، ابوسعیدخدری اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی فتنہ کے ظہور کے وقت ایسا آدمی سب سے بہتر ہوگا جو فتنہ کی جگہوں سے دور رہ کر اپنے جانوروں کے پالنے پوسنے میں مشغول ہو،اور ان کی وجہ سے اس پر جو شرعی واجبات و حقوق ہیں مثلا زکاۃ و صدقات کی ادائیگی میں ان کا خاص خیال رکھتا ہو، ساتھ ہی رب العالمین کی اس کے حکم کے مطابق عبادت بھی کرتاہو، اسی طرح وہ آدمی بھی بہتر ہے جو اپنے گھوڑے کے ساتھ کسی دور دراز جگہ میں رہ کر وہاں موجود دشمنوں کا مقابلہ کرتاہو، انہیں خوف وہراس میں مبتلا رکھتاہو اور خود بھی ان سے خوف کھاتا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
16- باب
۱۶-باب: فتنہ وفساد سے متعلق ایک اور باب​


2178- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ سِيْمِينَ كُوْشَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "تَكُونُ فِتْنَةٌ تَسْتَنْظِفُ الْعَرَبُ قَتْلاَهَا فِي النَّارِ اللِّسَانُ فِيهَا أَشَدُّ مِنَ السَّيْفِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يَقُولُ: لاَ يُعْرَفُ لِزِيَادِ بْنِ سِيْمِينَ كُوْشَ غَيْرُ هَذَا الْحَدِيثِ، رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ لَيْثٍ فَرَفَعَهُ، وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ لَيْثٍ فَأَوْقَفَهُ.
* تخريج: د/الفتن ۳ (۴۲۶۵)، ق/الفتن ۱۲ (۳۹۶۷) (تحفۃ الأشراف: ۸۶۳۱)، وحم (۲/۲۱۲) (ضعیف)
(سندمیں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں، اور زیاد بن سیمین گوش لین الحدیث )
۲۱۷۸- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' ایک فتنہ ایساہوگا جو تمام عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا ، اس کے مقتول جہنمی ہوں گے، اس وقت زبان کھولنا تلوار مارنے سے زیادہ سخت ہوگا ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے ، ۲- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کوکہتے سنا: زیادبن سیمین کوش کی اس کے علاوہ دوسری کو ئی حدیث نہیں معلوم ہے ، ۳- حماد بن سلمہ نے اسے لیث سے روایت کرتے ہوے مرفوعاً بیان کیا ہے ، اورحماد بن زیدنے اسے لیث سے روایت کرتے ہوے موقوفاً بیان کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
17- بَاب مَا جَاءَ فِي رَفْعِ الأَمَانَةِ
۱۷-باب: امانت کے اٹھالیے جانے کابیان​


2179- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ حَدِيثَيْنِ، قَدْ رَأَيْتُ أَحَدَهُمَا وَأَنَا أَنْتَظِرُ الآخَرَ، حَدَّثَنَا: "أَنَّ الأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ، ثُمَّ نَزَلَ الْقُرْآنُ، فَعَلِمُوا مِنَ الْقُرْآنِ، وَعَلِمُوا مِنْ السُّنَّةِ"، ثُمَّ حَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِ الأَمَانَةِ فَقَالَ: "يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ فَتُقْبَضُ الأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثْلَ الْوَكْتِ، ثُمَّ يَنَامُ نَوْمَةً فَتُقْبَضُ الأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثْلَ أَثَرِ الْمَجْلِ كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلَى رِجْلِكَ، فَنَفَطَتْ فَتَرَاهُ مُنْتَبِرًا وَلَيْسَ فِيهِ شَيْئٌ"، ثُمَّ أَخَذَ حَصَاةً فَدَحْرَجَهَا عَلَى رِجْلِهِ، قَالَ: "فَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ لاَ يَكَادُ أَحَدُهُمْ يُؤَدِّي الأَمَانَةَ حَتَّى يُقَالَ: إِنَّ فِي بَنِي فُلاَنٍ رَجُلاً أَمِينًا، وَحَتَّى يُقَالَ لِلرَّجُلِ مَا أَجْلَدَهُ وَأَظْرَفَهُ وَأَعْقَلَهُ، وَمَا فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ" قَالَ: وَلَقَدْ أَتَى عَلَيَّ زَمَانٌ وَمَا أُبَالِي أَيُّكُمْ بَايَعْتُ فِيهِ لَئِنْ كَانَ مُسْلِمًا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ دِينُهُ، وَلَئِنْ كَانَ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ سَاعِيهِ، فَأَمَّا الْيَوْمَ فَمَا كُنْتُ لأُبَايِعَ مِنْكُمْ إِلاَّ فُلاَنًا وَفُلاَنًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الرقاق ۳۵ (۶۴۹۷)، والفتن ۱۳ (۷۰۸۶)، والإعتصام ۳ (۷۲۷۶)، م/الإیمان ۶۴ (۱۴۳) (تحفۃ الأشراف: ۳۳۲۸) (صحیح)
۲۱۷۹- حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہم سے رسول اللہﷺ نے دوحدیثیں بیان کیں ، جن میں سے ایک کی حقیقت تومیں نے دیکھ لی ۱؎ ، اوردوسری کا انتظارکررہا ہوں، آپ نے فرمایا:'' امانت لوگوں کے دلوں کے جڑمیں اتری پھر قرآن کریم اترا اور لوگوں نے قرآن سے اس کی اہمیت قرآن سے جانی اورسنت رسول سے اس کی اہمیت جانی ۲؎ ، پھر آپ نے ہم سے امانت کے اٹھ جانے کے بارے میں بیان کرتے ہوے فرمایا:'' آدمی (رات کو) سوئے گا اوراس کے دل سے امانت اٹھالی جائے گی (اور جب وہ صبح کو اٹھے گا) تو اس کا تھوڑاسااثرایک نقطہ کی طرح دل میں رہ جائے گا ، پھر جب دوسری بارسوئے گاتو اس کے دل سے امانت اٹھالی جائے گی اور اس کا اثر کھال موٹا ہونے کی طرح رہ جائے گا ۳؎ ، جیسے تم اپنے پاؤں پر چنگاری پھیرو تو آبلہ (پھپھولا) پڑجاتا ہے ، تم اسے پھولا ہوا پاتے ہو حالانکہ اس میں کچھ نہیں ہوتا''، پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ ایک کنکری لے کر اپنے پاؤں پر پھیر نے لگے اور فرمایا:'' لوگ اس طرح ہوجائیں گے کہ خرید وفروخت کریں گے لیکن ان میں کوئی امانت دارنہ ہوگا ، یہاں تک کہ کہاجائے گا : فلاں قبیلہ میں ایک امانت دارآدمی ہے، اورکسی آدمی کی تعریف میں یہ کہاجائے گا : کتنا مضبوط شحص ہے ! کتنا ہوشیاراورعقل مند ہے ! حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانہ برابربھی ایمان نہ ہوگا ''، حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے اوپر ایک ایساوقت آیا کہ خریدوفروخت میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا تھا ، اگرمیرا فریق مسلمان ہوتاتو اس کی دینداری میراحق لوٹادیتی اوراگریہودی یا نصرانی ہوتا تو اس کا سردارمیراحق لوٹادیتا، جہاں تک آج کی بات ہے تو میں تم میں سے صرف فلاں اور فلاں سے خریدوفروخت کرتا ہوں ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کا ظہور ہوچکا ہے اور قرآن وسنت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس امانت سے متعلق لوگوں کے دلوں میں مزید پختگی پیدا ہوئی، اور اس سے متعلق ایمانداری اور بڑھ گئی ہے۔
وضاحت ۲؎ : اس سے معلوم ہواکہ قرآن کی تشریح وتفسیرخودقرآن سے اورپھرسنت وحدیث نبوی سے سمجھنی چاہئے ، اسی طرح قرآن کے سمجھنے میں تیسرادرجہ فہم صحابہ ہےچوتھے درجہ میں تابعین وتبع تابعین ہیں جیساکہ پیچھے حدیث (۲۱۵۶)سے بھی اس کا معنی واضح ہوتاہے۔
وضاحت ۳؎ : یعنی جس طرح جسم پر نکلے ہوئے پھوڑے کی کھال اس کے اچھا ہونے کے وقت موٹی ہوجاتی ہے اسی طرح امانت کا حال ہوگا، گویا اس امانت کا درجہ اس امانت سے کہیں کم تر ہے جو ایک نقطہ کے برابر رہ گئی تھی، کیوں کہ یہاں صرف نشان باقی رہ گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
18- بَاب مَا جَاءَ لَتَرْكَبُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ
۱۸-باب: امت محمدیہ گزری امتوں کے نقش قدم پرچلے گی​


2180- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سِنَانِ بْنِ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ لَمَّا خَرَجَ إِلَى حُنَيْنٍ، مَرَّ بِشَجَرَةٍ لِلْمُشْرِكِينَ يُقَالُ لَهَا ذَاتُ أَنْوَاطٍ، يُعَلِّقُونَ عَلَيْهَا أَسْلِحَتَهُمْ، فَقَالُوا: يَارَسُولَ اللهِ! اجْعَلْ لَنَا ذَاتَ أَنْوَاطٍ كَمَا لَهُمْ ذَاتُ أَنْوَاطٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "سُبْحَانَ اللهِ! هَذَا كَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَى: اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَرْكَبُنَّ سُنَّةَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ اسْمُهُ الْحَارِثُ بْنُ عَوْفٍ، وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۱۶) (صحیح)
۲۱۸۰- ابوواقدلیثی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہﷺ حنین کے لیے نکلے توآپ کاگزرمشرکین کے ایک درخت کے پاس سے ہوا جسے ذات انواط کہاجاتاتھا،اس درخت پر مشرکین اپنے ہتھیارلٹکاتے تھے ۱؎ ، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقررفرمادیجئے جیساکہ مشرکین کا ایک ذات انواط ہے ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''سبحان اللہ! یہ توو ہی بات ہے جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہی تھی کہ ہمارے لیے بھی معبود بنادیجئے جیسا ان مشرکوں کے لیے ہے ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم گزشتہ امتوں کی پوری پوری پیروی کروگے ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوواقدلیثی کانام حارث بن عوف ہے، ۳- اس باب میں ابوسعیدخدری اورابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ذات انواط نامی درخت جھاؤ کی قسم سے تھا، مشرکین بطور حاجت برآری اس پر اپنا ہتھیار لٹکاتے اور اس درخت کے اردگرد اعتکاف کرتے تھے۔
وضاحت ۲؎ : مفہوم یہ ہے کہ تم خلاف شرع نافرمانی کے کاموں میں اپنے سے پہلے کی امتوں کے نقش قدم پر چلوگے، نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان کے مطابق آج مسلمانوں کا حال حقیقت میں ایسا ہی ہے، چنانچہ یہود و نصاری اور مشرکین کی کون سی عادات و اطوار ہیں جنہیں مسلمانوں نے نہ اپنا یا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
19-بَاب مَا جَاءَ فِي كَلاَمِ السِّبَاعِ
۱۹-باب: درندوں کے انسانوں سے گفتگو کرنے کابیان​


2181- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا أَبُونَضْرَةَ الْعَبْدِيُّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُكَلِّمَ السِّبَاعُ الإِنْسَ، وَحَتَّى تُكَلِّمَ الرَّجُلَ عَذَبَةُ سَوْطِهِ، وَشِرَاكُ نَعْلِهِ وَتُخْبِرَهُ فَخِذُهُ بِمَا أَحْدَثَ أَهْلُهُ مِنْ بَعْدِهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لاَنَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ الْقَاسِمِ بْنِ الْفَضْلِ، وَالْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَثَّقَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۳۷۱)، وحم (۳/۸۳-۸۴) (صحیح)
۲۱۸۱- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ درندے انسانوں سے گفتگونہ کرنے لگیں، آدمی سے اس کے کوڑے کا کنارہ گفتگوکرنے لگے ، اس کے جوتے کا تسمہ گفتگوکرنے لگے اوراس کی ران اس کا م کی خبردینے لگے جو اس کی بیوی نے اس کی غیرحاضری میں انجام دیا ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ، ہم اسے صرف قاسم بن فضل کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- قاسم بن فضل محدثین کے نزدیک ثقہ اورمامون ہیں،یحیٰ بن سعید قطان اورعبدالرحمن بن مہدی نے ان کی توثیق کی ہے،۳- اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
20-بَاب مَا جَاءَ فِي انْشِقَاقِ الْقَمَرِ
۲۰-باب: چاندکے شق (دوٹکڑے)ہونے کابیان​


2182- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: انْفَلَقَ الْقَمَرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "اشْهَدُوا". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأَنَسٍ وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/صفات المنافقین ۸ (۲۸۰۱) (تحفۃ الأشراف: ۷۳۹۰) (صحیح)
۲۱۸۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں چاند(دوٹکڑوں میں) ہوگیاتو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم لوگ گواہ رہو '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں ابن مسعود ، انس اورجبیر بن مطعم رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : چاند کا دوٹکڑوں میں بٹ جانا نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں ہوا، اس معجزہ کا ظہور اہل مکہ کے مطالبے پرہواتھا صحیحین میں ہے کہ چاند کے دوٹکڑے ہوگئے، یہاں تک کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو اس کے درمیان دیکھا، اس کا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر اور دوسرا اس سے نیچے تھا، یہ آپ ﷺ کے واضح معجزات میں سے ہے، ایسی متواتر احادیث سے اس کا ثبوت ہے جو صحیح سندوں سے ثابت ہیں، جمہور علماء اس معجزہ کے قائل ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
21-بَاب مَا جَاءَ فِي الْخَسْفِ
۲۱-باب: زمین دھنسنے کابیان​


2183- حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ قَالَ: أَشْرَفَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ مِنْ غُرْفَةٍ وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ السَّاعَةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَرَوْا عَشْرَ آيَاتٍ: طُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَيَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَالدَّابَّةَ، وَثَلاَثَةَ خُسُوفٍ خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَنَارٌ تَخْرُجُ مِنْ قَعْرِ عَدَنَ تَسُوقُ النَّاسَ أَوْ تَحْشُرُ النَّاسَ، فَتَبِيتُ مَعَهُمْ حَيْثُ بَاتُوا، وَتَقِيلُ مَعَهُمْ حَيْثُ قَالُوا".
* تخريج: م/الفتن ۱۳ (۲۹۰۱)، د/الملاحم ۱۲ (۴۳۱۱)، ق/الفتن ۲۸ (۴۰۴۱) (تحفۃ الأشراف: ۷۳۹۷)، وحم (۴/۷) (صحیح)
2183/م1- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ فُرَاتٍ نَحْوَهُ، وَزَادَ فِيهِ الدُّخَانَ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
2183/م2- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ نَحْوَ حَدِيثِ وَكِيعٍ، عَنْ سُفْيَانَ.
* تخريج: انظر رقم ۲۱۸۳ (صحیح)
2183/م3- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ وَالْمَسْعُودِيِّ سَمِعَا مِنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ نَحْوَ حَدِيثِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ فُرَاتٍ، وَزَادَ فِيهِ الدَّجَّالَ أَوْالدُّخَانَ.
* تخريج: انظر رقم ۲۱۸۳ (صحیح)
2183/م4- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِاللهِ الْعِجْلِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ فُرَاتٍ نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، وَزَادَ فِيهِ: قَالَ: "وَالْعَاشِرَةُ إِمَّا رِيحٌ تَطْرَحُهُمْ فِي الْبَحْرِ وَإِمَّا نُزُولُ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ".
* تخريج: انظر رقم ۲۱۸۳ (صحیح)
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ.
وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
۲۱۸۳- حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے ہماری طرف اپنے کمرے سے جھانکا، اس وقت ہم قیامت کاذکرکررہے تھے ، توآپ نے فرمایا:'' قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو! مغرب(پچھم) سے سورج کا نکلنا ، یاجوج ماجوج کا نکلنا ، دابہ (جانور) کانکلنا ، تین بارزمین کا دھنسنا: ایک پورب میں ، ایک پچھم میں اورایک جزیرہ عرب میں، عدن کے اندرسے آگ کانکلناجولوگوں کو ہانکے یاا کٹھاکرے گی، جہاں لوگ رات گزاریں گے وہیں رات گزارے گی اورجہاں لوگ قیلولہ کریں گے وہیں قیلولہ کرے گی ۔
۲۱۸۳/م۱- اس سند سے بھی حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اور اس میں ''الدخان'' (دھواں) کا اضافہ کیاہے۔
۲۱۸۳/م۲- اس سند سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، جیسی وکیع نے سفیان سے روایت کی ہے۔
۲۱۸۳/م۳- اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے، جیسی عبد الرحمن نے ''عن سفيان، عن فرات'' کی سند سے روایت کی ہے، اوراس میں دجال یا دخان( دھو اں)کا اضافہ کیا ہے ۔
۲۱۸۳/م۴- اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے جیسی ابوداود نے شعبہ سے روایت کی ہے، اوراس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:'' دسویں نشانی ہواکاچلنا ہے جو انہیں سمندرمیں پھینک دے گی یا عیسیٰ بن مریم کا نزول ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث صحیح ہے،۲- اس باب میں علی ، ابوہریرہ ، ام سلمہ اورصفیہ بنت حي رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : دس نشانیوں یہ ہیں: ۱- پچھم سے سورج کا نکلنا، ۲- یاجوج ماجوج کانکلنا ، ۳- دابہ (جانور) کا نکلنا، ۴- ۶- تین بارزمین کا دھنسنا، (پورب میں ، پچھم میں اورجزیرئہ عرب میں)،۷- عدن سے آگ کا نکلنا ، ۸- دھواں نکلنا، ۹- دجال کا نکلنا، ۱۰ - عیسی علیہ السلام کاآسمان دنیاسے نزول یعنی زمین پر اُترنا، ایک اورنشانی کا ذکرہے یعنی ہوا کاشاید اس سے مراد دخان(دھواں) ہو۔


2184- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْمُرْهِبِيِّ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صَفْوَانَ، عَنْ صَفِيَّةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ يَنْتَهِي النَّاسُ عَنْ غَزْوِ هَذَا الْبَيْتِ حَتَّى يَغْزُوَ جَيْشٌ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْبَيْدَائِ - أَوْ بِبَيْدَائَ مِنْ الأَرْضِ - خُسِفَ بِأَوَّلِهِمْ وَآخِرِهِمْ وَلَمْ يَنْجُ أَوْسَطُهُمْ" قُلْتُ: يَارَسُولَ اللهِ! فَمَنْ كَرِهَ مِنْهُمْ؟ قَالَ: "يَبْعَثُهُمْ اللهُ عَلَى مَا فِي أَنْفُسِهِمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الفتن ۳۰ (۴۰۶۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۰۲) (صحیح)
۲۱۸۴- ام المومنین صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' لوگ(اللہ کے) اس گھر پر حملہ کرنے سے بازنہیں آئیں گے ، یہاں تک کہ ایک ایسا لشکرلڑائی کرنے کے لیے آئے گا کہ جب اس لشکرکے لوگ مقام بیدا میں ہوں گے ، توان کے آگے والے اورپیچھے والے دھنسادے جائیں گے اوران کے بیچ والے بھی نجات نہیں پائیں گے (یعنی تمام لوگ دھنسادے جائیں گے)۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان میں سے جوناپسندکرتے رہے ہوں ان کے افعال کووہ بھی ؟ آپ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ ان کی نیتوں کے مطابق انہیں اٹھائے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2185- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا صَيْفِيُّ بْنُ رِبْعِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يَكُونُ فِي آخِرِ الأُمَّةِ خَسْفٌ وَمَسْخٌ وَقَذْفٌ" قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ ! أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ؟ قَالَ: "نَعَمْ، إِذَا ظَهَرَ الْخُبْثُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَعَبْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ تَكَلَّمَ فِيهِ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۴۲) (صحیح)
۲۱۸۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' اس امت کے آخری عہدمیں یہ واقعات ظاہر ہوں گے زمین کا دھنسنا ، صورت تبدیل ہونا اورآسمان سے پتھربرسنا''، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم ہلاک کردے جائیں گے حالانکہ ہم میں نیک لوگ بھی ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا:'' ہاں، جب فسق وفجورعام ہوجائے گا''۔امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث عائشہ کی روایت سے غریب ہے ، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲-راوی عبداللہ بن عمر عمری کے حفظ کے تعلق سے یحیی بن سعیدنے کلام کیاہے۔
 
Top