• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
38-بَاب مَا جَاءَ فِي مَعِيشَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَهْلِهِ
۳۸-باب: نبی اکرمﷺ اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی معاشی زندگی کابیان​


2356- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَدَعَتْ لِي بِطَعَامٍ، وَقَالَتْ: مَا أَشْبَعُ مِنْ طَعَامٍ، فَأَشَائُ أَنْ أَبْكِيَ إِلا بَكَيْتُ قَالَ: قُلْتُ لِمَ؟ قَالَتْ: أَذْكُرُ الْحَالَ الَّتِي فَارَقَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ الدُّنْيَا، وَاللهِ مَا شَبِعَ مِنْ خُبْزٍ وَلَحْمٍ مَرَّتَيْنِ فِي يَوْمٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر مایأتي بعدہ (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۲۷) (ضعیف)
(سندمیں مجالد بن سعید ضعیف ہیں، اگلی روایت صحیح ہے جس کا سیاق اس حدیث کے سیاق سے قدرے مختلف ہے)
۲۳۵۶- مسروق کہتے ہیں: میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے ہمارے لیے کھانا طلب کیااورکہاکہ میں کسی کھانے سے سیرنہیں ہوتی ہوں کہ رونا چاہتی ہوں پھر رونے لگتی ہوں۔ میں نے سوال کیا: ایسا کیوں؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اس حالت کو یاد کرتی ہوں جس پر رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوا، اللہ کی قسم! آپ روٹی اور گوشت سے ایک دن میں دوبار کبھی سیر نہیں ہوئے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2357- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ يُحَدِّثُ عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: مَا شَبِعَ رَسُولُ اللهِ ﷺ مِنْ خُبْزِ شَعِيرٍ يَوْمَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ حَتَّى قُبِضَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: م/الزہد ۱ (۲۹۷۰)، ق/الأطعمۃ ۴۹ (۳۳۴۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۱۴) (صحیح)
۲۳۵۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ﷺنے دوروز متواتر جو کی روٹی کبھی سیر ہوکرنہیں کھائی یہاں تک کہ آپ وفات پاگئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔


2358- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: مَا شَبِعَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَأَهْلُهُ ثَلاَثًا تِبَاعًا مِنْ خُبْزِ الْبُرِّ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا. هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: خ/الأطعمۃ ۲۳ (۵۴۱۴) نحوہ)، م/الزہد ۱ (۲۹۷۶)، ق/الأطعمۃ ۴۸ (۳۳۴۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۴۰) (صحیح)
۲۳۵۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اہل خانہ نے مسلسل تین دن تک گیہوں کی روٹی سیرہوکرنہیں کھائی یہاں تک کہ آپ رحلت فرماگئے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔


2359- حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا حَرِيزُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يَقُولُ: مَا كَانَ يَفْضُلُ عَنْ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ ﷺ خُبْزُ الشَّعِيرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَيَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ هَذَا كُوفِيٌّ، وَأَبُو بُكَيْرٍ وَالِدُ يَحْيَى رَوَى لَهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَيَحْيَى بْنُ عَبْدِاللهِ بْنِ بُكَيْرٍ مِصْرِيٌّ صَاحِبُ اللَّيْثِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۸۷۰)، وانظر حم (۵/۲۵۳) (صحیح)
۲۳۵۹- ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :نبی اکرمﷺ کے گھرسے جو کی روٹی(اہل خانہ کی) ضرورت سے زیادہ نہیں ہوتی تھی ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سندسے حسن صحیح غریب ہے، ۲- یحییٰ بن ابی بکیر کوفی ہیں، ابوبکیرجو یحییٰ کے والد ہیں سفیان ثوری نے ان کی حدیث روایت کی ہے، ۳- یحییٰ بن عبداللہ بن بکیر مصری ہیں اور لیث کے شاگرد ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی گھرمیں آٹے کی مقداراتنی کم ہوتی تھی کہ اس سے بمشکل آپ کے گھروالوں کی ضرورت پوری ہوتی ، کیونکہ یہ لوگ دوسروں کوہمیشہ اپنے پرترجیح دیتے تھے اور {وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ} (الحشر:9) کاکامل نمونہ تھے، بقدرکفاف زندگی گزارناپسندکرتے تھے، اسی لیے جو کی روٹی بھی ضرورت سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔


2360- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ هِلاَلِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَبِيتُ اللَّيَالِي الْمُتَتَابِعَةَ طَاوِيًا وَأَهْلُهُ لاَ يَجِدُونَ عَشَائً وَكَانَ أَكْثَرُ خُبْزِهِمْ خُبْزَ الشَّعِيرِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الأطعمۃ ۴۹ (۳۳۴۷) (تحفۃ الأشراف: ۶۲۳۳) (حسن)
۲۳۶۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہﷺ اور آپ کے گھروالے مسلسل کئی راتیں خالی پیٹ گزار دیتے ، اور رات کا کھانا نہیں پاتے تھے۔اور ان کی اکثر خوراک جوکی روٹی ہوتی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2361- حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "اللَّهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الرقاق ۱۷ (۶۴۶۰)، م/الزکاۃ ۴۳ (۱۰۵۵)، والزہد ۱ (۱۰۵۵/۱۸)، ق/الزہد ۹ (۴۱۳۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۹۸)، وحم (۲/۲۳۲، ۴۴۶، ۴۸۱) (صحیح)
۲۳۶۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے یہ دعاکی''اللَّهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا'' اے اللہ ! محمدﷺ کے گھروالوں کوصرف اتنی روزی دے جس سے ان کے جسم کا رشتہ برقراررہ سکے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : آپ ﷺایسی زندگی گزارناپسندکرتے تھے جودنیوی آلائشوں اورآرام وآسائش سے پاک ہو، کیونکہ بعثت نبوی کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ لوگوں کو دنیاکے ہنگاموں، مشاغل اورزیب وزینت سے ہٹاکرآخرت کی طرف متوجہ کریں، اسی لیے آﷺ نے اپنے اور اپنے گھروالوں کے حق میں مذکورہ دعافرمائی، آپ کی اس دعاسے علماء اورداعیان اسلام کو نصیحت حاصل کرناچاہئے کہ ہماری زندگی سادگی کانمونہ اوردنیاوی تکلفات سے پاک ہو ، اگراللہ ہمیں مال ودولت سے نوازے تومالدارصحابہ کرام کاکردارہمارے پیش نظرہوناچاہئے تاہم مال ودولت کا زیادہ سے زیادہ حصول ہماری زندگی کا مقصد نہیں ہوناچاہئے اورنہ اس کے لیے ہرقسم کا حربہ وہتھکنڈہ استعمال کرناچاہئے خواہ اس حربے اورہتھکنڈے کا استعمال کسی دینی کام کے آڑمیں ہی کیوں نہ ہو۔


2362- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ لاَ يَدَّخِرُ شَيْئًا لِغَدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ ثَابِتٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۷۳) (صحیح)
۲۳۶۲- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:نبی اکرمﷺ آنے والے کل کے لیے کچھ نہیں رکھ چھوڑتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے ،۲- یہ حدیث ''عن جعفر بن سليمان عن ثابت عن النبي ﷺ'' کی سند سے مرسلا بھی مروی ہے۔


2363- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُاللهِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: مَا أَكَلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَلَى خِوَانٍ وَلاَ أَكَلَ خُبْزًا مُرَقَّقًا حَتَّى مَاتَ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۷۸۸ (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۴) (صحیح)
۲۳۶۳- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے چوکی(یامیز) پر کھانا کبھی نہیں کھایا اور نہ ہی کبھی باریک آٹے کی روٹی کھائی یہاں تک کہ دنیاسے کوچ کرگئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث سعید بن ابی عروبہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔


2364- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالْمَجِيدِ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِينَارٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّهُ قِيلَ لَهُ: أَكَلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ النَّقِيَّ يَعْنِي الْحُوَّارَى، فَقَالَ سَهْلٌ: مَا رَأَى رَسُولُ اللهِ ﷺ النَّقِيَّ حَتَّى لَقِيَ اللهَ، فَقِيلَ لَهُ: هَلْ كَانَتْ لَكُمْ مَنَاخِلُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ؟ قَالَ: مَا كَانَتْ لَنَا مَنَاخِلُ، قِيلَ: فَكَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ بِالشَّعِيرِ؟ قَالَ: كُنَّا نَنْفُخُهُ، فَيَطِيرُ مِنْهُ مَا طَارَ، ثُمَّ نُثَرِّيهِ فَنَعْجِنُهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ أَبِي حَازِمٍ.
* تخريج: خ/الأطعمۃ ۲۳ (۵۴۱۳) (وانظر أیضا: ۵۴۱۰)، ق/الأطعمۃ ۴۴ (۳۳۳۵) (تحفۃ الأشراف: ۴۷۰۴)، وحم (۵/۳۳۲) (صحیح)
۲۳۶۴- سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے پوچھاگیا: کیا رسول اللہ ﷺ نے کبھی میدہ کی روٹی کھائی ہے؟ سہل نے جواب دیا : رسول اللہ ﷺ نے میدہ کی روٹی دیکھی بھی نہیں یہاں تک کہ رحلت فرماگیے۔ پھر ان سے پوچھاگیا: کیا آپ لوگوں کے پاس عہد نبوی میں چھلنی تھی؟ کہا ہم لوگوں کے پاس چھلنی نہیں تھی۔ پھر ان سے پوچھاگیا کہ آپ لوگ جو کے آٹے کوکیسے صاف کرتے تھے؟ تو کہا : پہلے ہم اس میں پھونکیں مارتے تھے توجو اڑنا ہوتا وہ اڑجاتاتھا پھر ہم اس میں پانی ڈال کراسے گوندھ لیتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس حدیث کو مالک بن انس نے بھی ابوحازم سے روایت کیا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
39-بَاب مَا جَاءَ فِي مَعِيشَةِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ
۳۹-باب: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی معاشی زندگی کابیان​


2365- حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ بَيَانٍ، عَنْ قَيْسِ ابْنِ أَبِي حَازِمٍ، قَال: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، يَقُولُ: إِنِّي لأَوَّلُ رَجُلٍ أَهْرَاقَ دَمًا فِي سَبِيلِ اللهِ، وَإِنِّي لأَوَّلُ رَجُلٍ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُنِي أَغْزُو فِي الْعِصَابَةِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ ﷺ مَا نَأْكُلُ إِلاَّ وَرَقَ الشَّجَرِ وَالْحُبْلَةِ حَتَّى إِنَّ أَحَدَنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ أَوْ الْبَعِيرُ، وَأَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ يُعَزِّرُونِي فِي الدِّينِ لَقَدْ خِبْتُ إِذًا وَضَلَّ عَمَلِي.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ بَيَانٍ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۱۵ (۳۸۲۸)، والأطعمۃ ۲۳ (۵۴۱۲)، والرقاق ۱۷ (۶۴۵۳)، م/الزہد ۱ (۲۹۶۶)، ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۳۱) (تحفۃ الأشراف: ۳۹۱۳)، وحم (۱/۱۷۴، ۱۸۱، ۱۸۶) (صحیح)
۲۳۶۵- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں خون بہایا (یعنی کافر کو قتل کیا) اور میں پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر پھینکا، میں نے اپنے آپ کو محمدﷺ کے ساتھیوں کی ایک جماعت کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے دیکھا ہے، کھانے کے لیے ہم درختوں کے پتے اور حبلہ(خاردار درخت کے پھل) کے علاوہ اور کچھ نہیں پاتے تھے، یہاں تک کہ ہم لوگ بکریوں اور اونٹوں کی طرح قضائے حاجت میں مینگنیاں نکالتے تھے، اورقبیلہء بنی اسد کے لوگ مجھے دین کے سلسلے میں طعن وتشنیع کرتے ہیں، اگر میں اسی لائق ہوں تو بڑا ہی محروم ہوں اور میرے تمام اعمال ضائع وبرباد ہوگئے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : سعد رضی اللہ عنہ نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب بعض جاہل لوگوں نے آپ پر چند الزامات لگائے تھے، ان الزامات میں سے ایک الزام یہ بھی تھا کہ آپ کو ٹھیک سے صلاۃ پڑھنا نہیں آتی ،یہ آپ کے کوفہ کے گورنری کے وقت کی بات ہے، اور شکایت خلیفہ ٔ وقت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کی گئی تھی۔


2366- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ، قَال: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: إِنِّي أَوَّلُ رَجُلٍ مِنَ الْعَرَبِ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُنَا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ وَمَا لَنَا طَعَامٌ إِلاَّ الْحُبْلَةَ، وَهَذَا السَّمُرَ حَتَّى إِنَّ أَحَدَنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ، ثُمَّ أَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ يُعَزِّرُونِي فِي الدِّينِ، لَقَدْ خِبْتُ إِذًا وَضَلَّ عَمَلِي.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ عُتْبَةَ بْنِ غَزْوَانَ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۳۶۶- سعد بن مالک (ابی وقاص) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں عرب کا پہلا شخص ہوں جس نے راہ خدا میں تیر پھینکا، اور ہم نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد کرتے وقت دیکھاہے کہ ہمارے پاس خاردار درختوں کے پھل اور کیکرکے درخت کے علاوہ کھانے کے لیے کچھ نہ تھا یہاں تک کہ ہم لوگ قضائے حاجت میں بکریوں کی طرح مینگنیاں نکالاکرتے تھے ۱؎ ، اور اب قبیلہء بنی اسد کے لوگ مجھے دین کے سلسلے میں ملامت کرنے لگے ہیں، اگر میں اسی لائق ہوں تو بڑاہی محروم ہوں اور میرے اعمال ضائع ہوگئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عتبہ بن غزوان سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ جہاد جیسے افضل عمل کو انجام دیتے وقت ہماری تنگی کا یہ حال تھا کہ ہم جنگلی درختوں کے پتے کھانے پر مجبورہوجاتے تھے ، کیونکہ وسائل کی کمی کے باعث اتناسامان خوراک ساتھ نہیں ہوتاتھا جو اختتام تک کفایت کرتا۔


2367- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعَلَيْهِ ثَوْبَانِ مُمَشَّقَانِ مِنْ كَتَّانٍ، فَتَمَخَّطَ فِي أَحَدِهِمَا، ثُمَّ قَالَ: بَخٍ بَخٍ، يَتَمَخَّطُ أَبُو هُرَيْرَةَ فِي الْكَتَّانِ، لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَإِنِّي لأَخِرُّ فِيمَا بَيْنَ مِنْبَرِ رَسُولِ اللهِ ﷺ وَحُجْرَةِ عَائِشَةَ مِنَ الْجُوعِ مَغْشِيًّا عَلَيَّ، فَيَجِيئُ الْجَائِي فَيَضَعُ رِجْلَهُ عَلَى عُنُقِي يَرَى أَنَّ بِيَ الْجُنُونَ وَمَا بِي جُنُونٌ وَمَا هُوَ إِلا الْجُوعُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: خ/الاعتصام ۱۶ (۷۳۲۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۴۱۴) (صحیح)
۲۳۶۷- محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ ہم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں موجود تھے، آپ کے پاس گیروسے رنگے ہوئے دو کتان کے کپڑے تھے، انہوں نے ایک کپڑے میں ناک پونچھی اور کہا: واہ واہ، ابوہریرہ! کتان میں ناک پونچھتا ہے، حالاں کہ ایک وہ زمانہ بھی تھا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے، اور حجرہ عائشہ کے درمیان بھوک کی شدت کی وجہ سے بے ہوش ہوکرگرپڑتا تو کوئی آنے والاآتا اور میری گردن پر اپناپاؤں رکھ دیتا اور سمجھتا کہ میں پاگل ہوں، حالاں کہ میں پاگل نہیں ہوتا تھا ایسا صرف بھوک کی شدت کی وجہ سے ہوتاتھا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اور اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ انتہائی تنگی کی زندگی گزارنے کے باوجودصحابہ کرام بے انتہاخوددار،صابر اورقانع تھے۔


2368- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلاَنِيُّ أَنَّ أَبَا عَلِيٍّ عَمْرَو بْنَ مَالِكٍ الْجَنْبِيَّ، أَخْبَرَهُ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ إِذَا صَلَّى بِالنَّاسِ يَخِرُّ رِجَالٌ مِنْ قَامَتِهِمْ فِي الصَّلاَةِ مِنَ الْخَصَاصَةِ وَهُمْ أَصْحَابُ الصُّفَّةِ، حَتَّى يَقُولَ الأَعْرَابُ: هَؤُلاَئِ مَجَانِينُ أَوْ مَجَانُونَ، فَإِذَا صَلَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ انْصَرَفَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: "لَوْ تَعْلَمُونَ مَا لَكُمْ عِنْدَ اللهِ لأَحْبَبْتُمْ أَنْ تَزْدَادُوا فَاقَةً وَحَاجَةً" قَالَ فَضَالَةُ: وَأَنَا يَوْمَئِذٍ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۳۵) (صحیح)
۲۳۶۸- فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ جب لوگوں کو صلاۃ پڑھاتے توصف میں کھڑے بہت سے لوگ بھوک کی شدت کی وجہ سے گرپڑتے تھے، یہ لوگ اصحاب صفہ تھے، یہاں تک کہ اعراب(دیہاتی لوگ) کہتے کہ یہ سب پاگل اورمجنون ہیں، پھر رسول اللہ ﷺجب صلاۃ سے فارغ ہوتے تو ان کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے : اگر تم لوگوں کو اللہ کے نزدیک اپنا مرتبہ معلوم ہوجائے تو تم اس سے کہیں زیادہ فقر وفاقہ اورحاجت کو پسند کرتے '' ۱؎ ، فضالہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ اصحاب صفہ کس قدرتنگی اورفقروفاقہ کی حالت میں تھے ، پھربھی ان کی خودداری کا یہ عالم تھا کہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے صبروقناعت کی زندگی گزارتے تھے، یہ بھی معلوم ہواکہ دینی علوم کے سیکھنے کے لیے ایسی جگہوں کا انتخاب کرناچاہئے جہاں تعلیمی وتربیتی معیاراچھاہوچاہے کھانے پینے کی سہولتوں کی کمی ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اصحاب صفہ کی زندگی سے ہمیں یہی سبق ملتاہے۔


2369- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُومُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ فِي سَاعَةٍ لاَ يَخْرُجُ فِيهَا، وَلاَ يَلْقَاهُ فِيهَا أَحَدٌ، فَأَتَاهُ أَبُوبَكْرٍ، فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكَ يَا أَبَا بَكْرٍ؟ فَقَالَ: خَرَجْتُ أَلْقَى رَسُولَ اللهِ ﷺ وَأَنْظُرُ فِي وَجْهِهِ وَالتَّسْلِيمَ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ جَاءَ عُمَرُ، فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكَ يَا عُمَرُ؟ قَالَ: الْجُوعُ يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "وَأَنَا قَدْ وَجَدْتُ بَعْضَ ذَلِكَ"، فَانْطَلَقُوا إِلَى مَنْزِلِ أَبِي الْهَيْثَمِ بْنِ التَّيْهَانِ الأَنْصَارِيِّ، وَكَانَ رَجُلاً كَثِيرَ النَّخْلِ وَالشَّائِ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ خَدَمٌ، فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَقَالُوا لامْرَأَتِهِ: أَيْنَ صَاحِبُكِ؟ فَقَالَتْ: انْطَلَقَ يَسْتَعْذِبُ لَنَا الْمَائَ، فَلَمْ يَلْبَثُوا أَنْ جَاءَ أَبُوالْهَيْثَمِ بِقِرْبَةٍ يَزْعَبُهَا فَوَضَعَهَا، ثُمَّ جَاءَ يَلْتَزِمُ النَّبِيَّ ﷺ وَيُفَدِّيهِ بِأَبِيهِ وَأُمِّهِ، ثُمَّ انْطَلَقَ بِهِمْ إِلَى حَدِيقَتِهِ، فَبَسَطَ لَهُمْ بِسَاطًا، ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَى نَخْلَةٍ، فَجَاءَ بِقِنْوٍ، فَوَضَعَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "أَفَلاَ تَنَقَّيْتَ لَنَا مِنْ رُطَبِهِ؟" فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنِّي أَرَدْتُ أَنْ تَخْتَارُوا، أَوْ قَالَ: تَخَيَّرُوا مِنْ رُطَبِهِ وَبُسْرِهِ، فَأَكَلُوا وَشَرِبُوا مِنْ ذَلِكَ الْمَائِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "هَذَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مِنَ النَّعِيمِ الَّذِي تُسْأَلُونَ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ظِلٌّ بَارِدٌ، وَرُطَبٌ طَيِّبٌ، وَمَائٌ بَارِدٌ"، فَانْطَلَقَ أَبُو الْهَيْثَمِ لِيَصْنَعَ لَهُمْ طَعَامًا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "لاَ تَذْبَحَنَّ ذَاتَ دَرٍّ" قَالَ: فَذَبَحَ لَهُمْ عَنَاقًا أَوْ جَدْيًا، فَأَتَاهُمْ بِهَا، فَأَكَلُوا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "هَلْ لَكَ خَادِمٌ؟" قَالَ: لاَ، قَالَ: "فَإِذَا أَتَانَا سَبْيٌ فَأْتِنَا" فَأُتِيَ النَّبِيُّ ﷺ بِرَأْسَيْنِ لَيْسَ مَعَهُمَا ثَالِثٌ، فَأَتَاهُ أَبُو الْهَيْثَمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "اخْتَرْ مِنْهُمَا" فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ! اخْتَرْ لِي، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "إِنَّ الْمُسْتَشَارَ مُؤْتَمَنٌ، خُذْ هَذَا، فَإِنِّي رَأَيْتُهُ يُصَلِّي وَاسْتَوْصِ بِهِ مَعْرُوفًا"، فَانْطَلَقَ أَبُوالْهَيْثَمِ إِلَى امْرَأَتِهِ، فَأَخْبَرَهَا بِقَوْلِ رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَقَالَتْ امْرَأَتُهُ: مَا أَنْتَ بِبَالِغٍ مَاقَالَ فِيهِ النَّبِيُّ ﷺ إِلاَّ أَنْ تُعْتِقَهُ، قَالَ: فَهُوَ عَتِيقٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "إِنَّ اللهَ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا وَلاَ خَلِيفَةً إِلاَّ وَلَهُ بِطَانَتَانِ: بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَاهُ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَبِطَانَةٌ لاَ تَأْلُوهُ خَبَالاً، وَمَنْ يُوقَ بِطَانَةَ السُّوئِ فَقَدْ وُقِيَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: د/الأدب ۱۲۳ (۵۱۲۸)، ق/الأدب ۳۷ (۳۷۴۵) (وکلاہما بقولہ: ''المستشار مؤتمن'') ویأتي عند المؤلف في الأدب ۵۷ (۲۸۲۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۷۷) (صحیح)
۲۳۶۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ خلاف معمول ایسے وقت میں گھر سے نکلے کہ جب آپ نہیں نکلتے تھے اور نہ اس وقت آپ سے کوئی ملاقات کرتاتھا، پھر آپ کے پاس ابوبکر رضی اللہ عنہ پہنچے تو آپ نے پوچھا: ابوبکر تم یہاں کیسے آئے ؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں ا س لیے نکلاتاکہ آپ سے ملاقات کروں اور آپ کے چہرہ انور کو دیکھوں او ر آپ پرسلام پیش کروں، کچھ وقفے کے بعد عمر بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ،آپ نے پوچھا : عمر!تم یہاں کیسے آئے؟ اس پر انہوں نے بھوک کی شکایت کی، آپ نے فرمایا:'' مجھے بھی کچھ بھوک لگی ہے ۱؎ ، پھر سب مل کر ابوالہیشم بن تیہان انصاری کے گھر پہنچے، ان کے پاس بہت زیادہ کھجور کے درخت اور بکریاں تھیں مگران کا کوئی خادم نہیں تھا ، ان لوگوں نے ابوالھیثم کو گھر پر نہیں پایا توان کی بیوی سے پوچھا : تمہارے شوہر کہاں ہیں؟ اس نے جواب دیاکہ وہ ہمارے لیے میٹھاپانی لانے گئے ہیں، گفتگو ہورہی تھی کہ اسی دوران!ابوالہیشم ایک بھری ہوئی مشک لیے آ پہنچے ، انہوں نے مشک کو رکھا اور رسول اللہ ﷺ سے لپٹ گئے اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فداہوں، پھر سب کو وہ اپنے باغ میں لے گئے اور ان کے لیے ایک بستر بچھایا پھر کھجور کے درخت کے پاس گئے اور وہاں سے کھجوروں کا گچھا لے کر آئے اور اسے رسول اللہ ﷺ کے سامنے رکھ دیا ۔ آپ نے فرمایا:'' ہمارے لیے اس میں سے تازہ کھجوروں کو چن کر کیوں نہیں لائے؟ عرض کیا : اللہ کے رسول! میں نے چاہا کہ آپ خود ان میں سے چن لیں، یا یہ کہاکہ آپ حضرات پکی کھجوروں کوکچی کھجوروں میں سے خود پسند کرلیں، بہر حال سب نے کھجور کھائی اور ان کے اس لائے ہوئے پانی کو پیا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یقینا یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال کیاجائے گا اوروہ نعمتیں یہ ہیں: باغ کا ٹھنڈا سایہ ، پکی ہوئی عمدہ کھجوریں اور ٹھنڈا پانی''، پھر ابوالھیثم اٹھ کھڑے ہوئے تاکہ ان لوگوں کے لیے کھانا تیار کریں تو آپ ﷺ نے ان سے کہا :'' دودھ والے جانور کو ذبح نہ کرنا'' ،چنانچہ آپ کے حکم کے مطابق انہوں نے بکری کا ایک مادہ بچہ یا نربچہ ذبح کیا اور اسے پکاکر ان حضرات کے سامنے پیش کیا، ان سبھوں نے اسے کھایااور پھر آپ نے ابوالھیثم سے پوچھا؟ کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے؟ انہوں نے نفی میں جواب دیاتوآپ نے فرمایا :''جب ہمارے پاس کوئی قیدی آئے تو تم ہم سے ملنا''، پھرنبی اکرم ﷺ کے پاس دوقیدی لائے گئے جن کے ساتھ تیسرا نہیں تھا ، ابوالھیثم بھی آئے تو آپ ﷺنے ان سے کہا کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کوپسند کرلو، انہوں نے کہا :اللہ کے رسول! آپ خود ہمارے لیے پسند کردیجئے ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' بے شک جس سے مشورہ لیاجائے وہ امین ہوتاہے۔ لہذا تم اس کو لے لو( ایک غلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)کیونکہ ہم نے اسے صلاۃ پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور اس غلام کے ساتھ اچھاسلوک کرنا'' ،پھر ابوالھیثم اپنی بیوی کے پاس گئے اور رسول اللہﷺکی باتوں سے اسے باخبر کیا،ان کی بیوی نے کہا کہ تم نبی اکرمﷺ کی وصیت کو پورا نہ کرسکو گے مگریہ کہ اس غلام کو آزاد کردو، اس لیے ابوالھیثم نے فوراً اسے آزاد کردیا، نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:'' اللہ تعالیٰ نے کسی نبی یا خلیفہ کو نہیں بھیجا ہے مگر اس کے ساتھ دورازدارساتھی ہوتے ہیں، ایک اسے بھلائی کا حکم دیتاہے اور برائی سے روکتاہے، جب کہ دوسرا ساتھی اسے خراب کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا، پس جسے برے ساتھی سے بچالیا گیا گو یا وہ بڑی آفت سے نجات پاگیا ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : کتاب الزہد اور اس باب سے اس حدیث کی مناسبت اسی ٹکڑے میں ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ اور آپ کے صحابہ بھی کھانے کے لیے کچھ نہیں پاتے تھے اور بھوک سے دو چار ہوتے تھے۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ اورآپ کے جاں نثارصحابہ کس قدرتنگ دستی کی زندگی گزاررہے تھے، ایسے احباب کے پاس طلب ضیافت کے لیے جاناجائزہے جن کی بابت علم ہو کہ وہ اس سے خوش ہوں گے ، اس حدیث میں مہمان کی عزت افزائی اور اس کی آمدپر اللہ کاشکراداکرنے کی ترغیب ہے ، اسی طرح گھرپرشوہرکی عدم موجودگی میں اگرکسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہوتو عورت اپنے شوہرکے مہمانوں کا استقبال کرسکتی ، اور انہیں خوش آمدیدکہہ سکتی ہے۔


2370- حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِاللهِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ خَرَجَ يَوْمًا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، فَذَكَرَ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَحَدِيثُ شَيْبَانَ أَتَمُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي عَوَانَةَ وَأَطْوَلُ، وَشَيْبَانُ ثِقَةٌ عِنْدَهُمْ صَاحِبُ كِتَابٍ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَيْضًا.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۳۷۰- ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے(مُرسل) روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ اور ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما گھر سے نکلے ، اس کے بعد راوی نے مذکورہ حدیث جیسی حدیث بیان کی،لیکن اس میں ابوہریرہ کا ذکرنہیں کیا، شیبان کی (سابقہ) حدیث ابوعوانہ کی (اس) حدیث سے زیادہ مکمل اور زیادہ طویل ہے، شیبان محدثین کے نزدیک ثقہ اور صاحب کتاب ہیں ۱؎ ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سندسے بھی مروی ہے، اور یہ حدیث ابن عباس سے بھی مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان کے پاس احادیث کا لکھاہوا مجموعہ بھی ہے ۔


2371- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا سَيَّارُ بْنُ حَاتِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي مَنْصُورٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ، قَالَ: شَكَوْنَا إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ الْجُوعَ، وَرَفَعْنَا عَنْ بُطُونِنَا عَنْ حَجَرٍ حَجَرٍ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ حَجَرَيْنِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۷۷۳) (ضعیف)
(سندمیں سیار بن حاتم وہم کے شکار ہوجایا کرتے تھے)
۲۳۷۱- ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے (جنگ خندق کے دوران) رسول اللہ ﷺ سے بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھایا جن پر ایک ایک پتھر بندھاہواتھا سو آپ نے اپنے مبارک پیٹ سے کپڑا اٹھایا تواس پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔


2372- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، قَال: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ ابْنَ بَشِيرٍ، يَقُولُ: أَلَسْتُمْ فِي طَعَامٍ وَشَرَابٍ مَا شِئْتُمْ؟ لَقَدْ رَأَيْتُ نَبِيَّكُمْ ﷺ وَمَا يَجِدُ مِنْ الدَّقَلِ مَا يَمْلأُ بِهِ بَطْنَهُ. قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الزہد ۱ (۲۹۷۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۲۱) (صحیح)
2372/م- قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى أَبُو عَوَانَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي الأَحْوَصِ، وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سِمَاكٍ عَنِ النُّعْمَانِ ابْنِ بَشِيرٍ عَنْ عُمَرَ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۳۷۲- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: تم لوگ جو چاہتے ہو کھاتے پیتے ہو حالاں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کواس حال میں دیکھاکہ ردی کھجور یں بھی اس مقدارمیں آپ کومیسرنہ تھیں جن سے آپ اپنا پیٹ بھرتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۲۳۷۲/م- ابوعوانہ اور ان کے علاوہ کئی لوگوں نے سماک بن حرب سے ابوالاحوص کی حدیث کی طرح روایت کی ہے، شعبہ نے یہ حدیث''عن سماك عن النعمان بن بشير عن عمر'' کی سند سے روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
40-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ
۴۰-باب: دل کی بے نیازی اوراستغناء اصل دولت ہے​


2373- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بُدَيْلِ بْنِ قُرَيْشٍ الْيَامِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ، وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو حَصِينٍ اسْمُهُ عُثْمَانُ بْنُ عَاصِمٍ الأَسَدِيُّ.
* تخريج: خ/الرقاق ۱۵ (۶۴۴۶)، م/الزکاۃ ۴۰ (۱۰۵۱)، ق/الزہد ۹ (۴۱۳۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۴۵)، وحإ (۲/۲۴۳، ۲۶۱، ۳۱۵، ۳۹۰، ۴۳۸، ۴۴۳، ۵۳۹، ۵۴۰) (صحیح)
۲۳۷۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مالداری ساز وسامان کی کثرت کانام نہیں ہے ، بلکہ اصل مالداری نفس کی مالداری ہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : انسان کے پاس جوکچھ ہے اسی پرصابروقانع رہ کردوسروں سے بے نیازرہنا اور ان سے کچھ نہ طلب کرنادرحقیقت یہی نفس کی مالداری ہے ، گویا بندہ اللہ کی تقسیم پرراضی رہے ، دوسرں کے مال ودولت کوللچائی ہوئی نظرسے نہ دیکھے اور زیادتی کی حرص نہ رکھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
41-بَاب مَا جَاءَ فِي أَخْذِ الْمَالِ بِحَقِّهِ
۴۱-باب: حلال اورجائز طریقہ سے مال ودولت حاصل کرنے کا بیان​


2374- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي الْوَلِيدِ، قَال: سَمِعْتُ خَوْلَةَ بِنْتَ قَيْسٍ وَكَانَتْ تَحْتَ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ مَنْ أَصَابَهُ بِحَقِّهِ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَرُبَّ مُتَخَوِّضٍ فِيمَا شَائَتْ بِهِ نَفْسُهُ مِنْ مَالِ اللهِ وَرَسُولِهِ لَيْسَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلاَّ النَّارُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْوَلِيدِ اسْمُهُ عُبَيْدُ سَنُوطَى.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۲۹) (صحیح)
۲۳۷۴- حمزہ بن عبدالمطلب کی بیوی خولہ بنت قیس رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :'' یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے ۱؎ جس نے اسے حلال طریقے سے حاصل کیااس کے لیے اس میں برکت ہوگی اور کتنے ایسے ہیں جواللہ اور اس کے رسول کے مال کو حرام وناجائزطریقہ سے حاصل کرنے والے ہیں ان کے لیے قیامت کے دن جہنم کی آ گ تیار ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : مال سے مراددنیاہے ، یعنی دنیابے انتہا میٹھی، ہری بھری ، اور دل کو لبھانے والی ہے ، زبان اور نگاہ سب کی لذت کی جامع ہے ، اس لیے اس کے حصول کے لیے حرام طریقہ سے بچ کر صرف حلال طریقہ اپناناچاہئے ، کیونکہ حلال طریقہ اپنانے والے کے لیے جنت اورحرام طریقہ اپنانے والے کے لیے جہنم ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
42- باب
۴۲- باب: درہم ودینار کے پجاری ملعون ہیں​


2375- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلاَلٍ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لُعِنَ عَبْدُ الدِّينَارِ لُعِنَ عَبْدُالدِّرْهَمِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيث مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَيْضًا أَتَمَّ مِنْ هَذَا وَأَطْوَلَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۴۸) (ضعیف)
(سندمیں حسن بصری مدلس ہیں، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع بھی نہیں ہے، اور روایت عنعنہ سے ہے)
۲۳۷۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''دینارکا بندہ ملعون ہے ، درہم کا بندہ ملعون ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث اس سند کے علاوہ ''عن أبي صالح عن أبي هريرة، عن النبي ﷺ ''کی سندسے مروی ہے اوریہ بھی سند اس سے زیادہ مکمل اور طویل ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
43- باب
۴۳-باب: دولت کی ہوس اور جاہ طلبی دین کے لیے انتہائی خطرناک ہیں​


2376- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ، عَنِ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلاَ فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْئِ عَلَى الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَيُرْوَى فِي هَذَا الْبَابِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَلاَ يَصِحُّ إِسْنَادُهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۳۶)، وانظر: حم (۳/۴۵۶، ۴۶۰)، ودي/الرقاق ۲۱ (۲۷۷۲) (صحیح)
۲۳۷۶- کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:'' دوبھوکے بھیڑیئے جنہیں بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑدیاجائے اتنا نقصان نہیں پہنچائیں گے جتنانقصان آدمی کے مال وجاہ کی حرص اس کے دین کوپہنچاتی ہے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے، اوروہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں لیکن اس کی سند صحیح نہیں ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ مال وجاہ کی محبت اورحرص جس کے اندرآگئی وہ ہلاکتوں سے اپنا دامن نہیں بچاسکتا، بدقسمتی سے آج امت اسی فتنہ سے دوچارہے اوراس کی تباہی کا یہ عالم ہے کہ جس انتشاراورشدیداختلافات کا یہ امت اوراس کی دینی جماعتیں شکارہیں ان کے اسباب میں بھی مال وجاہ کی محبت سرفہرست ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
44- باب
۴۴-باب: دنیا سے بے رغبتی کا بیان​


2377- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، أَخْبَرَنِي الْمَسْعُودِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ، قَالَ: نَامَ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَلَى حَصِيرٍ، فَقَامَ: وَقَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ! لَوْ اتَّخَذْنَا لَكَ وِطَائً، فَقَالَ: "مَا لِي وَمَا لِلدُّنْيَا مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلاَّ كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ، ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الزہد ۳ (۴۱۰۹) (تحفۃ الأشراف: ۹۴۴۳) (صحیح)
۲۳۷۷- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ایک چٹائی پرسوگئے، نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کے پہلو پر چٹائی کا نشان پڑگیاتھا، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم آپ کے لیے ایک بچھونا بنادیں تو بہتر ہوگا، آپﷺ نے فرمایا:'' مجھے دنیا سے کیامطلب ہے، میری اور دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سوار ہو جو ایک درخت کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے بیٹھے ، پھر وہاں سے کوچ کرجائے اور درخت کو اسی جگہ چھوڑ دے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
45-باب
۴۵-باب: ہرشخص کویہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کررہاہے​


2378- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ وَأَبُو دَاوُدَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ وَرْدَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: د/الأدب ۱۹ (۴۸۳۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۲۵)، وحم (۲/۳۰۳، ۳۳۴) (حسن)
۲۳۷۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' آدمی اپنے دوست کے دین پرہوتا ہے ، اس لیے تم میں سے ہرشخص کویہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کررہاہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ اچھے انسان کی صحبت سے اچھائی اوربرے انسان کی صحبت سے برائی حاصل ہوتی ہے، اس لیے کسی سے دوستی کرتے وقت یہ خیال رکھناچاہئے کہ دوست دیندارہوورنہ بری صحبت تباہی کا باعث ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
46-بَاب مَا جَاءَ مَثَلُ ابْنِ آدَمَ وَأَهْلِهِ وَوَلَدِهِ وَمَالِهِ وَعَمَلِهِ
۴۶-باب: مال و دولت ، اہل وعیال، رشتہ دار اور عمل کی مثال کابیان​


2379- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ هُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ الأَنْصَارِيُّ، قَال: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يَتْبَعُ الْمَيِّتَ ثَلاَثٌ فَيَرْجِعُ اثْنَانِ وَيَبْقَى وَاحِدٌ، يَتْبَعُهُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَعَمَلُهُ، فَيَرْجِعُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ، وَيَبْقَى عَمَلُهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الرقاق ۴۲ (۶۵۱۴)، م/الزہد ۱ (۲۹۶۰)، ن/الجنائز ۵۲ (۱۹۳۹) (تحفۃ الأشراف: ۹۵۰)، وحم (۳/۱۱۰) (صحیح)
۲۳۷۹- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''مردے کے ساتھ قبرتک تین چیزیں جاتی ہیں، پھردوچیزیں لوٹ آتی ہیں اور ساتھ میں ایک باقی رہ جاتی ہے ،اس کے رشتہ دار، اس کا مال اور اس کے اعمال ساتھ میں جاتے ہیں پھررشتہ دار، اورمال لوٹ آتے ہیں اور صرف اس کا عمل اس کے ساتھ باقی رہ جاتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
47-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ كَثْرَةِ الأَكْلِ
۴۷-باب: زیادہ کھانے پینے کی کراہت کابیان​


2380- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ الْحِمْصِيُّ وَحَبِيبُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ، عَنْ مِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "مَا مَلأَ آدَمِيٌّ وِعَائً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُكُلاَتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ، فَإِنْ كَانَ لاَ مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِهِ وَثُلُثٌ لِشَرَابِهِ وَثُلُثٌ لِنَفَسِهِ".
* تخريج: ق/الأطعمۃ ۵۰ (۳۳۴۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۷۵)، وحم (۴/۱۳۲) (صحیح)
2380/م- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ نَحْوَهُ، و قَالَ: الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِي كَرِبَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
۲۳۸۰- مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :''کسی آدمی نے کوئی برتن اپنے پیٹ سے زیادہ برانہیں بھرا، آدمی کے لیے چندلقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کوسیدھارکھیں اوراگرزیادہ ہی کھاناضروری ہوتو پیٹ کاایک تہائی حصہ اپنے کھانے کے لیے ، ایک تہائی پانی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے باقی رکھے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس حدیث کو ہم سے حسن بن عرفہ نے بیان کیا وہ کہتے ہیں:ہم سے اسماعیل بن عیاش نے اسی جیسی حدیث بیان کی، اورسندیوں بیان کی ''عن المقدام بن معديكرب عن النبي ﷺ'' اس میں انہوں نے''سمعت النبي ﷺ'' کاذکر نہیں کیا۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں زیادہ کھانے کی ممانعت ہے اورکم کھانے کی ترغیب ہے ، اس میں کوئی شک نہیں اورحکماء واطباء کا اس پر اتفاق ہے کہ کم خوری صحت کے لیے مفیدہے۔
 
Top