• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
6-بَاب مِنْهُ
۶-باب: قیامت کے دن حساب اور پیشی سے متعلق ایک اور باب​


2427- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْحَسَنِ وَقَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "يُجَائُ بِابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُ بَذَجٌ فَيُوقَفُ بَيْنَ يَدَيْ اللهِ، فَيَقُولُ اللهُ لَهُ: أَعْطَيْتُكَ وَخَوَّلْتُكَ وَأَنْعَمْتُ عَلَيْكَ، فَمَاذَا صَنَعْتَ؟ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ! جَمَعْتُهُ وَثَمَّرْتُهُ فَتَرَكْتُهُ أَكْثَرَ مَا كَانَ، فَارْجِعْنِي آتِكَ بِهِ، فَيَقُولُ لَهُ: أَرِنِي مَا قَدَّمْتَ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ ! جَمَعْتُهُ وَثَمَّرْتُهُ فَتَرَكْتُهُ أَكْثَرَ مَا كَانَ، فَارْجِعْنِي آتِكَ بِهِ كُلِّهِ، فَإِذَا عَبْدٌ لَمْ يُقَدِّمْ خَيْرًا فَيُمْضَى بِهِ إِلَى النَّارِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدَ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الْحَسَنِ قَوْلَهُ وَلَمْ يُسْنِدُوهُ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۳۱، و۱۱۴۱) (ضعیف)
(سندمیں اسماعیل بن مسلم بصری ضعیف راوی ہیں)
۲۴۲۷- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' ابن آدم کوقیامت کے روز بھیڑ کے بچے کی شکل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور پیش کیاجائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: میں نے تجھے مال واسباب سے نوازدے، اور تجھ پر انعام کیا اس میں تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا اے میرے رب! میں نے بہت سارا مال جمع کیا اور اسے بڑھایا اور دنیا میں اسے پہلے سے زیادہ ہی چھوڑ کر آیا، سومجھے دنیا میں دوبارہ بھیج !تاکہ میں ان سب کو لے آؤں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، جو کچھ تونے عمل خیر کیا ہے اسے دکھا، وہ کہے گا : اے میرے رب !میں نے بہت سارا مال جمع کیا ،اسے بڑھایا اور دنیا میں پہلے سے زیادہ ہی چھوڑ کرآیا، مجھے دوبارہ بھیج تاکہ میں اسے لے آؤں ، یہ اس بندے کاحال ہوگا جس نے خیراوربھلائی کی راہ میں کوئی مال خرچ نہیں کیاہوگا، چنانچہ اسے اللہ کے حکم کے مطابق جہنم میں ڈال دیاجائے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث کی روایت کئی لوگوں نے حسن بصری سے کی ہے، اور کہا ہے کہ یہ ان کا قول ہے، اسے مرفوع نہیں کیا، ۲- اسماعیل بن مسلم ضعیف ہیں، ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا گیا ہے، ۳- اس باب میں ابوہریرہ اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


2428- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ سُعَيْرٍ أَبُومُحَمَّدٍ التَّمِيمِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالاَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يُؤْتَى بِالْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَقُولُ اللهُ لَهُ: أَلَمْ أَجْعَلْ لَكَ سَمْعًا وَبَصَرًا وَمَالاً وَوَلَدًا، وَسَخَّرْتُ لَكَ الأَنْعَامَ وَالْحَرْثَ، وَتَرَكْتُكَ تَرْأَسُ وَتَرْبَعُ، فَكُنْتَ تَظُنُّ أَنَّكَ مُلاَقِي يَوْمَكَ هَذَا؟ قَالَ: فَيَقُولُ: لاَ، فَيَقُولُ لَهُ: الْيَوْمَ أَنْسَاكَ كَمَا نَسِيتَنِي".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ الْيَوْمَ أَنْسَاكَ يَقُولُ الْيَوْمَ أَتْرُكُكَ فِي الْعَذَابِ هَكَذَا فَسَّرُوهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذِهِ الآيَةَ فَالْيَوْمَ نَنْسَاهُمْ، قَالُوا: إِنَّمَا مَعْنَاهُ الْيَوْمَ نَتْرُكُهُمْ فِي الْعَذَابِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۰۱۳، ۱۲۴۵۶) (صحیح)
۲۴۲۸- ابوہریرہ اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت کے دن ایک بندے کو لایاجائے گا ، باری تعالیٰ اس سے فرمائے گا : کیا میں نے تجھے کان ، آنکھ مال اور اولاد سے نہیں نوازا تھا؟ اور چوپایوں اور کھیتی کو تیرے تابع کردیاتھا ، اور قوم کا تجھے سردار بنادیا تھاجن سے بھرپورخدمت لیاکرتاتھا، پھر کیاتجھے یہ خیال بھی تھا کہ تو آج کے دن مجھ سے ملاقات کرے گا؟ وہ عرض کرے گا: نہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: آج میں بھی تجھے بھول جاتاہوں جیسے تو مجھے دنیا میں بھول گیا تھا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث صحیح غریب ہے ، ۲- اللہ تعالیٰ کے فرمان: {اليوم أنساك} کا مطلب یہ ہے کہ آج کے دن میں تجھے عذاب میں ویسے ہی چھوڑ دوں گا جیسے بھولی چیز پڑی رہتی ہے۔ بعض اہل علم نے اسی طرح سے اس کی تفسیر کی ہے، ۳- بعض اہل علم آیت کریمہ {فَالْيَوْمَ نَنسَاهُمْ} کی یہ تفسیر کی ہے کہ آج کے دن ہم تمہیں عذاب میں بھولی ہوئی چیز کی طرح چھوڑدیں گے۔
وضاحت ۱؎ : مرادیہ ہے جب تجھے دنیامیں میری یادنہ رہی تو میں تجھے کیسے یادرکھوں گا، اس لیے تو آج سے ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کی عذاب میں پڑارہے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
7-بَاب مِنْهُ
۷-باب: قیامت کے دن انسانی اعمال پر گواہیوں کا بیان​


2429- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَرَأَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: {يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا} قَالَ: "أَتَدْرُونَ مَا أَخْبَارُهَا؟" قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: "فَإِنَّ أَخْبَارَهَا أَنْ تَشْهَدَ عَلَى كُلِّ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ بِمَا عَمِلَ عَلَى ظَهْرِهَا أَنْ تَقُولَ عَمِلَ كَذَا وَكَذَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا".
قَالَ: فَهَذِهِ أَخْبَارُهَا، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف و أعادہ في تفسیر إذا زلزلت (۳۳۵۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۷۶) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں یحییٰ بن ابی سلیمان لین الحدیث راوی ہیں)
۲۴۲۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت کریمہ :{يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا} کی تلاوت کی اور فرمایا:'' کیاتم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس کی خبریں کیاہوں گی ؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ نے فرمایا:'' اس کی خبریں یہ ہیں کہ وہ ہرمرد اورعورت کے خلاف گواہی دے گی، جوکام بھی انہوں نے زمین پرکیا ہوگا، وہ کہے گی کہ اس نے فلاں فلاں دن ایسا ایسا کام کیا''، آپ نے فرمایا:'' یہی اس کی خبریں ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
8-بَاب مَا جَاءَ فِي شَأْنِ الصُّورِ
۸-باب: صور کابیان​


2430- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَسْلَمَ الْعِجْلِيِّ، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَا الصُّورُ؟ قَالَ: "قَرْنٌ يُنْفَخُ فِيهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، وَلاَنَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِهِ.
* تخريج: د/السنۃ ۲۴ (۴۷۴۲) (تحفۃ الأشراف: ۸۶۰۸)، وحم (۲/۱۶۲، ۱۹۲)، ودي/الرقاق ۷۹ (۲۸۴۰)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر سورۃ القیامۃ (۳۳۳۹) (صحیح)
۲۴۳۰- عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک اعرابی (دیہاتی) نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا : صور کیاچیز ہے؟ آپ نے فرمایا:'' ایک سنکھ ہے جس میں پھونک ماری جائے گی ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- کئی لوگوں نے سلیمان تیمی سے اس حدیث کی روایت کی ہے، اسے ہم صرف سلیمان تیمی کی روایت سے جانتے ہیں۔


2431- حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَلاَئِ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "كَيْفَ أَنْعَمُ وَصَاحِبُ الْقَرْنِ قَدْ الْتَقَمَ الْقَرْنَ وَاسْتَمَعَ الإِذْنَ مَتَى يُؤْمَرُ بِالنَّفْخِ فَيَنْفُخُ"، فَكَأَنَّ ذَلِكَ ثَقُلَ عَلَى أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ لَهُمْ: "قُولُوا: حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ، عَلَى اللهِ تَوَكَّلْنَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وأعادہ في تفسیر سورۃ الزمر (۳۲۴۳) (تحفۃ الأشراف: ۴۱۹۵)، وحم (۳/۷، ۷۳) (صحیح)
( سندمیں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: الصحیحہ رقم: ۱۰۷۹)
۲۴۳۱- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں کیسے آرام کروں جب کہ صوروالے اسرافیل علیہ السلام صور کو منہ میں لیئے ہوئے اس حکم پر کان لگائے ہوئے ہیں کہ کب پھونکنے کا حکم صادر ہو اور اس میں پھونک ماری جائے،گویا یہ امر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پرسخت گذرا ،تو آپ نے فرمایا:'' کہو : " حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ، عَلَى اللهِ تَوَكَّلْنَا "یعنی اللہ ہمارے لیے کافی ہے کیا ہی اچھا کار ساز ہے وہ اللہ ہی پر ہم نے توکل کیا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- یہ حدیث عطیہ سے کئی سندوں سے ابوسعید خدری کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
9-بَاب مَا جَاءَ فِي شَأْنِ الصِّرَاطِ
۹-باب: پل صراط کابیان​


2432- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "شِعَارُ الْمُؤْمِنِ عَلَى الصِّرَاطِ رَبِّ سَلِّمْ سَلِّمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ، وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۳۳) (ضعیف)
(سندمیں نعمان بن سعد لین الحدیث ہیں اور عبد الرحمن بن اسحاق واسطی ضعیف )
۲۴۳۲- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' پل صراط پر مومن کا شعار یہ ہوگا: میرے رب ! مجھے سلامت رکھ، مجھے سلامت رکھ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث مغیرہ بن شعبہ کی روایت سے غریب ہے، اسے ہم صرف عبدالرحمن بن اسحاق (واسطی ہی) کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔


2433- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا بَدَلُ بْنُ الْمُحَبَّرِ، حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ مَيْمُونٍ الأَنْصَارِيُّ أَبُو الْخَطَّابِ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ أَنْ يَشْفَعَ لِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَقَالَ: "أَنَا فَاعِلٌ" قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! فَأَيْنَ أَطْلُبُكَ؟ قَالَ: "اطْلُبْنِي أَوَّلَ مَا تَطْلُبُنِي عَلَى الصِّرَاطِ"، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ أَلْقَكَ عَلَى الصِّرَاطِ، قَالَ: "فَاطْلُبْنِي عِنْدَ الْمِيزَانِ" قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ أَلْقَكَ عِنْدَ الْمِيزَانِ، قَالَ: "فَاطْلُبْنِي عِنْدَ الْحَوْضِ، فَإِنِّي لاَ أُخْطِئُ هَذِهِ الثَّلاَثَ الْمَوَاطِنَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۴) (صحیح)
۲۴۳۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ آپ قیامت کے دن میرے لیے شفاعت فرمائیں، آپ نے فرمایا:'' ضرور کروں گا''۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول !میں آپ کو کہاں تلاش کروں گا؟آپ نے فرمایا:'' سب سے پہلے مجھے پل صراط پر ڈھونڈھنا''، میں نے عرض کیا: اگرپل صراط پر آپ سے ملاقات نہ ہوسکے، تو فرمایا:'' تو اس کے بعد میزان کے پاس ڈھونڈھنا''، میں نے کہا: اگر میزان کے پاس بھی ملاقات نہ ہوسکے تو؟ فرمایا:'' اس کے بعد حوض کوثر پر ڈھونڈھنا، اس لیے کہ میں ان تین جگہوں میں سے کسی جگہ پر ضرور ملوں گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
10-بَاب مَا جَاءَ فِي الشَّفَاعَةِ
۱۰-باب: قیامت کے دن کی شفاعت کابیان​


2434- أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِلَحْمٍ، فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ، فَأَكَلَهُ، وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ، فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً، ثُمَّ قَالَ: "أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، هَلْ تَدْرُونَ لِمَ ذَاكَ؟ يَجْمَعُ اللهُ النَّاسَ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، فَيُسْمِعُهُمْ الدَّاعِي، وَيَنْفُذُهُمْ الْبَصَرُ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ مِنْهُمْ، فَبَلَغَ النَّاسُ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لاَ يُطِيقُونَ وَلاَ يَحْتَمِلُونَ، فَيَقُولُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَلاَ تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ أَلاَ تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ؟ فَيَقُولُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: عَلَيْكُمْ بِآدَمَ، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ، خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ الْمَلاَئِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلاَ تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلاَ تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَيَقُولُ لَهُمْ آدَمُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ، فَعَصَيْتُ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ، فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ ! أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الأَرْضِ، وَقَدْ سَمَّاكَ اللهُ عَبْدًا شَكُورًا، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلاَ تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلاَ تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ لَهُمْ نُوحٌ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُهَا عَلَى قَوْمِي نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُونَ: يَا إِبْرَاهِيمُ! أَنْتَ نَبِيُّ اللهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلاَ تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ فَيَقُولُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَدْ كَذَبْتُ ثَلاَثَ كَذِبَاتٍ،- فَذَكَرَهُنَّ أَبُو حَيَّانَ فِي الْحَدِيثِ - نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى، فَيَأْتُونَ مُوسَى، فَيَقُولُونَ: يَامُوسَى! أَنْتَ رَسُولُ اللهِ، فَضَّلَكَ اللهُ بِرِسَالَتِهِ، وَبِكَلاَمِهِ عَلَى الْبَشَرِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلاَ تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ فَيَقُولُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا، نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى، فَيَأْتُونَ عِيسَى، فَيَقُولُونَ: يَا عِيسَى! أَنْتَ رَسُولُ اللهِ، وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ، وَرُوحٌ مِنْهُ، وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلاَ تَرَى مَانَحْنُ فِيهِ؟ فَيَقُولُ عِيسَى: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ ذَنْبًا، نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ، قَالَ: فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا، فَيَقُولُونَ: يَا مُحَمَّدُ! أَنْتَ رَسُولُ اللهِ، وَخَاتَمُ الأَنْبِيَائِ، وَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلاَ تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ، فَأَخِرُّ سَاجِدًا لِرَبِّي، ثُمَّ يَفْتَحُ اللهُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ وَحُسْنِ الثَّنَائِ عَلَيْهِ شَيْئًا، لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي، ثُمَّ يُقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! ارْفَعْ رَأْسَكَ، سَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ! أُمَّتِي يَا رَبِّ أُمَّتِي يَا رَبِّ أُمَّتِي، فَيَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ! أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لاَ حِسَابَ عَلَيْهِ مِنَ الْبَابِ الأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، وَهُمْ شُرَكَائُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنْ الأَبْوَابِ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرَ وَكَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى".
وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَأَنَسٍ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ .
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ اسْمُهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدِ بْنِ حَيَّانَ كُوفِيٌّ، وَهُوَ ثِقَةٌ، وَأَبُو زُرْعَةَ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ اسْمُهُ هَرِمٌ.
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۳ (۳۳۴۰)، و ۹ (۳۳۶۱)، وتفسیر سورۃ الإسراء ۵ (۴۷۱۲)، م/الإیمان ۸۴ (۱۹۴)، ق/الأطعمۃ ۲۸ (۳۳۰۷) (وتقدیم مفصلا برقم ۱۸۳۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۲۷) (صحیح)
۲۴۳۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا ، اس میں سے آپ کو دست کاگوشت دیاگیا جوکہ آپ کو بہت پسند تھا، اسے آپ نے نوچ نوچ کرکھایا، پھر فرمایا:'' قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار رہوں گا، کیاتم لوگوں کو اس کی وجہ معلوم ہے؟ وہ اس لیے کہ اس دن اللہ تعالیٰ ایک ہموار کشادہ زمین پر اگلے پچھلے تمام لوگوں کو جمع کرے گا، جنہیں ایک پکارنے والا آواز دے گا اور انہیں ہرنگاہ والادیکھ سکے گا ، سورج ان سے بالکل قریب ہوگا جس سے لوگوں کا غم وکرب اس قدر بڑھ جائے گا جس کی نہ وہ طاقت رکھیں گے اور نہ ہی اسے برداشت کرسکیں گے، لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے: کیا نہیں دیکھتے کہ تمہاری مصیبت کہاں تک پہنچ گئی ہے، ایسے شخص کو کیوں نہیں دیکھتے جو تمہارے رب سے تمہارے لیے شفاعت کرے، تو بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلیں، لہذا لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آکر عرض کریں گے کہ آپ ابوالبشر ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ،آپ کے اندر اپنی روح پھونکی ، فرشتوں کو حکم دیا جنہوں نے آپ کا سجدہ کیا، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے۔ کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کتنی مصیبت لاحق ہے؟ آدم علیہ السلام ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب ایساغضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، یقینا اس نے مجھے ایک درخت سے منع فرمایا تھا ، لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، نوح کے پا س جاؤ، چنانچہ وہ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آکرعرض کریں گے، اے نوح! آپ زمین والوں کی طرف بھیجے گئے ،پہلے رسول تھے، اللہ نے آپ کو شکر گزار بندہ کہا ہے، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے ، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کتنی مصیبت لاحق ہے، نوح علیہ السلام ان لوگوں سے فرمائیں گے کہ آج میرارب ایسا غضبناک ہے کہ نہ تو اس سے پہلے ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، میرے لیے ایک مقبول دعا تھی جسے میں نے اپنی قوم کی ہلاکت کے لیے استعمال کرلیا، اور آج میری ذات کا معاملہ ہے،نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آکر عرض کریں گے: اے ابراہیم ! آپ زمین والوں میں سے اللہ کے نبی اور اس کے خلیل (یعنی گہرے دوست) ہیں، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں؟وہ فرمائیں گے کہ آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، اور میں دنیا کے اندر تین جھوٹ بول چکاہوں( ابو حیان نے اپنی روایت میں ان تینوں جھوٹ کا ذکر کیا ہے) آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، موسیٰ کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آکر عرض کریں گے کہ اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ نے آپ کو اپنی رسالت اور اپنے کلام کے ذریعے تمام لوگوں پر فضیلت عطا کی ہے، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے، کیاآپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں؟ وہ فرمائیں گے کہ آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ توایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، دنیا کے اندر میں نے ایک شخص کو مارڈا لا تھا جسے مارنے کا مجھے حکم نہیں دیاگیا تھا ، آج مجھے اپنی جان کی فکر ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اورکے پاس جاؤ، عیسیٰ کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آکر عرض کریں گے :اے عیسیٰ !آپ اللہ کے رسول ، اور اس کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا آپ اللہ کی روح ہیں، آپ نے لوگوں سے گودہی میں کلام کیا، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: آج کے دن میرارب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، اور انہوں نے اپنی کسی غلطی کا ذکر نہیں کیا اور کہاکہ آج تو میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ ، محمد ﷺ کے پاس جاؤ ، ابوہریرہ کہتے ہیں: چنانچہ وہ لوگ محمدﷺ کے پاس آکر عرض کریں گے: اے محمد! آپ اللہ کے رسول اور اس کے آخری نبی ہیں، آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے گئے ہیں، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کیجئے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں، ( آگے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:) پھر میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آکر اپنے رب کی تعظیم کے لیے سجدے میں گرجاؤں گا، پھر اللہ تعالیٰ میرے اوپر اپنے محامد اور حسن ثناء کو اس قدر کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے اتناکسی پر نہیں کھولا ہوگا، پھر مجھ سے کہاجائے گا کہ اے محمد! اپنے سرکو اٹھاؤ اور سوال کرو، اسے پورا کیاجائے گا، اور شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی، چنانچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور کہوں گا: اے میرے رب! میں اپنی امت کی نجات وفلاح مانگتاہوں ، اے میرے رب میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتاہوں ، اے میرے رب! میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتاہوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد ! اپنی امت میں سے ان لوگوں کو جنت کے دروازوں میں سے داہنے دروازے سے داخل کرلیں، جن پر کوئی حساب وکتاب نہیں ہے ،اور یہ سب (امت محمد) دیگر دروازوں میں بھی (داخل ہونے میں) اور لوگوں کے ساتھ شریک ہوں گے، پھر آپﷺ نے فرمایا:'' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جنت کے پٹوں میں سے دوپٹ کے درمیان کافاصلہ اتنا ہی ہے جتنا کہ مکہ اورہجر یا مکہ اور بصری کے درمیان فاصلہ ہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں ابوبکر صدیق ، انس، عقبہ بن عامر اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ کی اس شفاعت کابیان ہے جب سارے انبیاء اپنی اپنی بعض لغزشوں کے حوالے سے شفاعت کرنے سے معذرت کریں گے، چونکہ انبیاء علیہم السلام ایمان و تقوی کے بلند مرتبے پر فائز ہوتے ہیں، اس لیے ان کی معمولی غلطی بھی انہیں بڑی غلطی محسوس ہوتی ہے، اسی وجہ سے وہ بار گاہ الٰہی میں پیش ہونے سے معذرت کریں گے، لیکن نبی اکرم ﷺ اللہ کے حکم سے سفارش فرمائیں گے، اس سے آپ ﷺ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے،آپ کی شفاعت مختلف مرحلوں میں ہوگی،آپ اپنی امت کے حق میں شفاعت فرمائیں گے، جو مختلف مرحلوں میں ہوگی، اس حدیث میں پہلے مرحلہ کا ذکر ہے، جس میں آپ کی شفاعت پر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنت میں لے جانے کی اجازت دے گا جن پر حساب نہیں ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
11-بَاب مِنْهُ
۱۱-باب: امت محمدیہ کے اہل کبائر کی شفاعت کابیان​


2435- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "شَفَاعَتِي لأَهْلِ الْكَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۸۱) (صحیح)
۲۴۳۵- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لیے ہوگی '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی میری امت کے جو اہل کبائر ہوں گے اور جو اپنے گناہوں کی سزا جہنم میں بھگت رہے ہوں گے، ایسے لوگوں کی بخشش کے لیے میری مخصوص شفاعت ہوگی، باقی رفع درجات کے لیے انبیاء، اولیاء، اور دیگر متقی و پرہیز گار لوگوں کی شفاعت بھی ہوگی جو سنی جائے گی۔


2436- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "شَفَاعَتِي لأَهْلِ الْكَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي" قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ: فَقَالَ لِي جَابِرٌ: يَامُحَمَّدُ! مَنْ لَمْ يَكُنْ مِنْ أَهْلِ الْكَبَائِرِ فَمَا لَهُ وَلِلشَّفَاعَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ.
* تخريج: ق/الزہد ۳۷ (۴۳۱۰) (تحفۃ الأشراف: ۲۶۰۸)، وحم (۳/۲۱۳) (صحیح)
۲۴۳۶- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لیے ہوگی''۔
محمد بن علی الباقر کہتے ہیں: مجھ سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: محمد! جواہل کبائر میں سے نہ ہوں گے انہیں شفاعت سے کیا تعلق ؟۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث جعفر الصادق بن محمد الباقر کی روایت سے حسن غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
12-بَاب مِنْهُ
۱۲-باب: ستر ہزار مسلمان بلاحساب کتاب اور مزید لوگ شفاعت سے داخل جنت ہوں گے​


2437- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا إِسْماَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ الأَلْهَانِيِّ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "وَعَدَنِي رَبِّي أَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا لاَ حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلاَ عَذَابَ مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا وَثَلاَثُ حَثَيَاتٍ مِنْ حَثَيَاتِهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ق/الزہد ۳۴ (۴۲۸۶) (تحفۃ الأشراف: ۴۹۲۴)، وحم (۵/۲۵۰، ۲۶۸) (صحیح)
۲۴۳۷- ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :'' میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ میری امت میں سے ستر ہزار لوگوں کو جنت میں داخل کرے گا، نہ ان کا حساب ہوگا اورنہ ان پر کوئی عذاب ،(پھر) ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزارہوں گے، اور ان کے سوا میرے رب کی مٹھیوں میں سے تین مٹھیوں کے برابر بھی ہوں گے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔


2438- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا إِسْماَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَهْطٍ بِإِيلِيَائَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "يَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَكْثَرُ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ"، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ! سِوَاكَ، قَالَ: "سِوَايَ"، فَلَمَّا قَامَ قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا ابْنُ أَبِي الْجَذْعَائِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
وَابْنُ أَبِي الْجَذْعَائِ هُوَ عَبْدُ اللهِ، وَإِنَّمَا يُعْرَفُ لَهُ هَذَا الْحَدِيثُ الْوَاحِدُ.
* تخريج: ق/الزہد ۳۷ (۴۳۱۶) (تحفۃ الأشراف: ۵۲۱۲) (صحیح)
۲۴۳۸- عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں: میں ایلیاء میں ایک جماعت کے ساتھ تھا ،ان میں سے ایک آدمی نے کہاکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے :''میری امت کے ایک فرد کی شفاعت سے قبیلہء بنی تمیم کی تعداد سے بھی زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے''، کسی نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! کیا وہ شخص آپ کے علاوہ ہوگا ؟ آپ نے فرمایا:'' ہاں، میرے علاوہ ہوگا''، پھرجب وہ (راوی حدیث) کھڑے ہوئے تو میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا یہ ابن ابی جذعاء رضی اللہ عنہ ہیں ۔امام ترمذی کہتے ہیں ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- ابن ابی الجذعاء رضی اللہ عنہ کانام عبداللہ ہے، ان سے صرف یہی ایک حدیث مشہور ہے۔


2439- حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ الْكُوفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، عَنْ جِسْرٍ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: " يَشْفَعُ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِمِثْلِ رَبِيعَةَ وَمُضَرَ ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (لم یذکرہ المزي ولایوجد في اکثر نسخ السنن) (ضعیف مرسل)
(حسن بصری تابعی اور مدلس ہیں)
۲۴۳۹- حسن بصری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ قیامت کے دن قبیلہ ربیعہ اور مضر کے برابر، لوگوں کے لیے شفاعت کریں گے''۔


2440- حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَشْفَعُ لِلْفِئَامِ مِنَ النَّاسِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَشْفَعُ لِلْقَبِيلَةِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَشْفَعُ لِلْعَصَبَةِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَشْفَعُ لِلرَّجُلِ حَتَّى يَدْخُلُوا الْجَنَّةَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۱۹۷) (ضعیف)
(سندمیں ''عطیہ عوفی'' ضعیف ہیں)
۲۴۴۰- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میری امت کاکوئی شخص کئی جماعت کے لیے شفاعت کرے گا، کوئی ایک قبیلہ کے لیے شفاعت کرے گا، کوئی ایک گروہ کے لیے شفاعت کرے گا ، اور کوئی ایک آدمی کے لیے شفاعت کرے گا ، یہاں تک کہ سب جنت میں داخل ہوں جائیں گے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
13-بَاب مِنْهُ
۱۳-باب: صرف موحد ہی شفاعت نبوی کا مستحق ہوگا​


2441- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَتَانِي آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّي، فَخَيَّرَنِي بَيْنَ أَنْ يُدْخِلَ نِصْفَ أُمَّتِي الْجَنَّةَ وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ، فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ، وَهِيَ لِمَنْ مَاتَ لاَيُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا"، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ رَجُلٍ آخَرَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَلَمْ يَذْكُرْ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ. وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۲۰) (صحیح)
2441/م- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۲۰) (صحیح)
۲۴۴۱- عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا (جبرئیل علیہ السلام) میرے پاس آیااور مجھے اختیار دیاکہ میری آدھی امت جنت میں داخل ہو یا یہ کہ مجھے شفاعت کا حق حاصل ہو، چنانچہ میں نے شفاعت کو اختیار کیا ، یہ شفاعت ہر اس شخص کے لیے ہے جس کا خاتمہ شرک کی حالت پر نہیں ہوگا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ابوملیح نے ایک اور صحابی سے روایت کی ہے اورانہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، (لیکن ) اس میں عوف بن مالک کا ذکر نہیں کیا، اس حدیث میں ایک طویل قصہ مذکور ہے۔
۴۴۱ ۲/م- اس سند سے بھی عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے (اسی میں قصہ ہے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
14-بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الْحَوْضِ
۱۴-باب: حوض کوثر کابیان​


2442- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّ فِي حَوْضِي مِنَ الأَبَارِيقِ بِعَدَدِ نُجُومِ السَّمَائِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: خ/الرقاق ۵۳ (۶۵۸۰)، م/الفضائل ۹ (۲۳۰۳)، ق/الزہد ۳۶ (۴۳۰۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۳)، وحم (۳/۲۲۵، ۲۳۸) (صحیح)
۲۴۴۲- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بیشک میرے حوض پر آسمان کے تاروں کی تعداد کے برابر پیالے ہیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔


2443- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نِيْزَكَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوْضًا، وَإِنَّهُمْ يَتَبَاهَوْنَ أَيُّهُمْ أَكْثَرُ وَارِدَةً، وَإِنِّي أَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ وَارِدَةً".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى الأَشْعَثُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْحَسَنِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ سَمُرَةَ وَهُوَ أَصَحُّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۶۰۳) (صحیح)
(سندمیں سعید بن بشیر ضعیف راوی ہیں،اورحسن بصری مدلس، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: الصحیحۃ رقم : ۱۵۸۹)
۲۴۴۳- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت کے روز ہر نبی کے لیے ایک حوض ہوگا، اور وہ آپس میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے کہ کس کے حوض پرپانی پینے والے زیادہ جمع ہوتے ہیں، اور مجھے امید ہے کہ میرے حوض پر( اللہ کے فضل سے) سب سے زیادہ لوگ جمع ہوں گے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اشعث بن عبدالملک نے اس حدیث کو حسن بصری کے واسطے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے اور اس میں سمرہ کا ذکر نہیں کیا ہے ، یہ روایت زیادہ صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
15-بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ أَوَانِي الْحَوْضِ
۱۵-باب: حوض کوثر کے برتنوں کے وصف کابیان​


2444- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، عَنِ الْعَبَّاسِ، عَنْ أَبِي سَلاَّمٍ الْحَبَشِيِّ، قَالَ: بَعَثَ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ، فَحُمِلْتُ عَلَى الْبَرِيدِ، قَالَ: فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ قَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! لَقَدْ شَقَّ عَلَى مَرْكَبِي الْبَرِيدُ، فَقَالَ: يَا أَبَا سَلاَّمٍ! مَا أَرَدْتُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ، وَلَكِنْ بَلَغَنِي عَنْكَ حَدِيثٌ تُحَدِّثُهُ عَنْ ثَوْبَانَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْحَوْضِ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ تُشَافِهَنِي بِهِ، قَالَ أَبُو سَلاَّمٍ: حَدَّثَنِي ثَوْبَانُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "حَوْضِي مِنْ عَدَنَ إِلَى عَمَّانَ الْبَلْقَائِ مَاؤُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ وَأَكَاوِيبُهُ عَدَدُ نُجُومِ السَّمَائِ، مَنْ شَرِبَ مِنْهُ شَرْبَةً لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهَا أَبَدًا، أَوَّلُ النَّاسِ وُرُودًا عَلَيْهِ فُقَرَائُ الْمُهَاجِرِينَ الشُّعْثُ رُئُوسًا الدُّنْسُ ثِيَابًا الَّذِينَ لاَ يَنْكِحُونَ الْمُتَنَعِّمَاتِ وَلاَ تُفْتَحُ لَهُمْ السُّدَدُ" قَالَ عُمَرُ: لَكِنِّي نَكَحْتُ الْمُتَنَعِّمَاتِ، وَفُتِحَ لِيَ السُّدَدُ، وَنَكَحْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ عَبْدِ الْمَلِكِ لاَ جَرَمَ أَنِّي لاَ أَغْسِلُ رَأْسِي حَتَّى يَشْعَثَ وَلاَ أَغْسِلُ ثَوْبِي الَّذِي يَلِي جَسَدِي حَتَّى يَتَّسِخَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مَعْدَانَ ابْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ ثَوْبَانَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبُوسَلاَّمٍ الْحَبَشِيُّ اسْمُهُ مَمْطُورٌ وَهُوَ شَامِيٌّ ثِقَةٌ.
* تخريج: ق/الزہد ۳۶ (۴۳۰۳) (تحفۃ الأشراف: ۲۱۲۹) (صحیح)
( سند میں انقطاع ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر اس کا مرفوع حصہ صحیح ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: الصحیحہ رقم: ۱۰۸۲)
۲۴۴۴- ابوسلام حبشی کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے میرے پاس بلاوے کا پیغام بھیجا، چنانچہ میں ڈاک سواری خچر پرسوار ہوکرآپ کے پاس پہنچا ، میں نے کہا: اے امیرالمومنین! ڈاک سواری خچر کی سواری مجھ پر شاق گزری تو انہوں نے کہا : ابوسلام ! میں تمہیں تکلیف دینا نہیں چاہتا تھا، لیکن میں نے تمہارے بارے میں یہ سنا ہے کہ تم ثوبان رضی اللہ عنہ کے واسطے سے نبی اکرم ﷺ سے حوض کو ثر کے بارے میں ایک حدیث روایت کرتے ہو ،چنانچہ میری یہ خواہش ہوئی کہ وہ حدیث تم سے براہ راست سن لوں، ابوسلام نے کہا : ثوبان رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میراحوض اتنا بڑا ہے جتنا عدن سے اُردن والے عمان تک کافاصلہ ہے ، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے، اس کے پیالے آسمان کے تاروں کی تعداد کے برابر ہیں، اس سے جو ایک مرتبہ پی لے گا کبھی پیاسانہ ہوگا، سب سے پہلے اس پر فقراء مہاجرین پہنچیں گے، جن کے سردھول سے اٹے ہوں گے اور ان کے کپڑے میلے کچیلے ہوں گے، جوناز ونعم عورتوں سے نکاح نہیں کرسکتے اورنہ ان کے لیے جاہ ومنزلت کے دروازے کھولے جاتے''۔ عمر بن عبدالعزیز نے کہا: لیکن میں نے تو نا زونعم میں پلی عورتوں سے نکاح کیا اور میرے لیے جاہ ومنزلت کے دروازے بھی کھولے گئے، میں نے فاطمہ بنت عبدالملک سے نکاح کیا، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اپنے سرکو نہیں دھوتا یہاں تک کہ وہ غبار آلود نہ ہوجائے اور اپنے بدن کے کپڑے اس وقت تک نہیں دھوتا جب تک کہ میلے نہ ہوجائیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- یہ حدیث معدان بن ابی طلحہ کے واسطے سے ''عن ثوبان، عن النبي ﷺ '' کی سند سے بھی مروی ہے،۳- ابوسلام حبشی کانام ممطور ہے ، یہ شامی ہیں اور ثقہ راوی ہیں۔


2445- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّيُّ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِالصَّمَدِ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! مَا آنِيَةُ الْحَوْضِ؟ قَالَ: "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! لآنِيَتُهُ أَكْثَرُ مِنْ عَدَدِ نُجُومِ السَّمَائِ وَكَوَاكِبِهَا فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ مُصْحِيَةٍ مِنْ آنِيَةِ الْجَنَّةِ مَنْ شَرِبَ مِنْهَا شَرْبَةً لَمْ يَظْمَأْ آخِرَ مَا عَلَيْهِ عَرْضُهُ مِثْلُ طُولِهِ مَا بَيْنَ عُمَانَ إِلَى أَيْلَةَ، مَاؤُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَأَحْلَى مِنْ الْعَسَلِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي بَرْزَةَ الأَسْلَمِيِّ وَابْنِ عُمَرَ وَحَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ وَالْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ. وَرُوِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: حَوْضِي كَمَا بَيْنَ الْكُوفَةِ إِلَى الْحَجَرِ الأَسْوَدِ.
* تخريج: م/الفضائل ۹ (۲۳۰۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۵۳) (صحیح)
۲۴۴۵- ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حوض کوثر کے برتن کیسے ہیں ؟ آپ نے فرمایا:'' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقینا اس کے برتن تاروں سے بھی زیادہ ہیں اس تاریک رات میں جس میں آسمان سے بادل چھٹ گیا ہو، اور اس کے پیالے جنت کے برتنوں میں سے ہوں گے، اس سے جو ایک مرتبہ پی لے گا وہ کبھی پیاسانہ ہوگا، اس کی چوڑائی اس کی لمبائی کے برابر ہے ، اس کا فاصلہ اتنا ہے جتنا عمان سے ایلہ تک کا فاصلہ ہے۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں حذیفہ بن یمان ،عبداللہ بن عمرو، ابوبرزہ اسلمی، ابن عمر، حارثہ بن وہب اور مستورد بن شداد رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' میرے حوض کا فاصلہ اتنا ہے جتنا کوفہ سے حجر اسود تک کافاصلہ ہے''۔
 
Top