34-باب
۳۴- باب
2471- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: إِنْ كُنَّا يَئُولُ مُحَمَّدٍ نَمْكُثُ شَهْرًا مَا نَسْتَوْقِدُ بِنَارٍ إِنْ هُوَ إِلاَّ الْمَائُ وَالتَّمْرُ. قَالَ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الزہد ۱ (۲۹۷۲)، ق/الزہد ۱۰ (۴۱۴۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۶۵)، وراجع أیضا خ/الھبۃ ۱ (۲۵۶۷)، والرقاق ۱۷ (۶۴۵۸، ۶۵۴۵۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۶۵)، وحم (۶/۵۰، ۷۱، ۸۶) (صحیح)
۲۴۷۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ہم آل محمد (ﷺ) ایسے تھے کہ ایک ایک مہینہ چولہانہیں جلاتے تھے، ہمارا گذر بسر صرف کھجور اور پانی پرہوتاتھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
2472- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ أَسْلَمَ أَبُو حَاتِمٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: " لَقَدْ أُخِفْتُ فِي اللهِ وَمَا يُخَافُ أَحَدٌ، وَلَقَدْ أُوذِيتُ فِي اللهِ وَمَا يُؤْذَى أَحَدٌ، وَلَقَدْ أَتَتْ عَلَيَّ ثَلاَثُونَ مِنْ بَيْنِ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، وَمَا لِي وَلِبِلاَلٍ طَعَامٌ يَأْكُلُهُ ذُو كَبِدٍ إِلاَّ شَيْئٌ يُوَارِيهِ إِبْطُ بِلاَلٍ ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ حِينَ خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ هَارِبًا مِنْ مَكَّةَ وَمَعَهُ بِلاَلٌ إِنَّمَا كَانَ مَعَ بِلاَلٍ مِنَ الطَّعَامِ مَا يَحْمِلُهُ تَحْتَ إِبْطِهِ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۵۱) (تحفۃ الأشراف: ۳۴۱) (صحیح)
۲۴۷۲- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مجھے اللہ کی راہ میں ایساڈرایا گیا کہ اس طرح کسی کو نہیں ڈرایاگیا اور اللہ کی راہ میں مجھے ایسی تکلیفیں پہنچائی گئی ہیں کہ اس طرح کسی کو نہیں پہنچائی گئیں، مجھ پر مسلسل تیس دن ورات گزر جاتے اور میرے اور بلال کے لیے کوئی کھانا نہیں ہوتا کہ جسے کوئی جان والاکھائے سوائے تھوڑی سی چیز کے جسے بلال اپنی بغل میں چھپالیتے تھے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ـ اس حدیث میں وہ دن مراد ہیں کہ جب آپ ﷺ اہل مکہ سے بیزار ہوکر مکہ سے نکل گئے تھے اور ساتھ میں بلال تھے، ان کے پاس کچھ کھانا تھا جسے وہ بغل میں دبائے ہوئے تھے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ اللہ کے کلمہ کی سربلندی اور اس کے دین کے اظہار کے لیے آپ نے کس قدر جسمانی تکالیف برداشت کی ہیں، اور اس پر مستزاد یہ کہ مسلسل کئی کئی دن گذرجاتے اور آپ بھوکے رہتے، ظاہرہے بلال نے اپنی بغل میں جوکچھ چھپا رکھا تھا وہ کب تک ساتھ دیتا، اس حدیث میں داعیان حق کے لیے عبرت ونصیحت ہے۔
2473- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، يَقُولُ: خَرَجْتُ فِي يَوْمٍ شَاتٍ مِنْ بَيْتِ رَسُولِ اللهِ ﷺ وَقَدْ أَخَذْتُ إِهَابًا مَعْطُوبًا، فَحَوَّلْتُ وَسَطَهُ فَأَدْخَلْتُهُ عُنُقِي وَشَدَدْتُ وَسَطِي، فَحَزَمْتُهُ بِخُوصِ النَّخْلِ، وَإِنِّي لَشَدِيدُ الْجُوعِ، وَلَوْ كَانَ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللهِ ﷺ طَعَامٌ لَطَعِمْتُ مِنْهُ، فَخَرَجْتُ أَلْتَمِسُ شَيْئًا، فَمَرَرْتُ بِيَهُودِيٍّ فِي مَالٍ لَهُ وَهُوَ يَسْقِي بِبَكَرَةٍ لَهُ، فَاطَّلَعْتُ عَلَيْهِ مِنْ ثُلْمَةٍ فِي الْحَائِطِ، فَقَالَ: مَا لَكَ يَا أَعْرَابِيُّ! هَلْ لَكَ فِي كُلِّ دَلْوٍ بِتَمْرَةٍ، قُلْتُ: نَعَمْ، فَافْتَحْ الْبَابَ حَتَّى أَدْخُلَ، فَفَتَحَ فَدَخَلْتُ، فَأَعْطَانِي دَلْوَهُ، فَكُلَّمَا نَزَعْتُ دَلْوًا أَعْطَانِي تَمْرَةً، حَتَّى إِذَا امْتَلأَتْ كَفِّي أَرْسَلْتُ دَلْوَهُ، وَقُلْتُ: حَسْبِي فَأَكَلْتُهَا، ثُمَّ جَرَعْتُ مِنَ الْمَائِ، فَشَرِبْتُ، ثُمَّ جِئْتُ الْمَسْجِدَ، فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ فِيهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۳۸) (ضعیف)
(محمد بن کعب قرظی کے استاذ راوی مبہم ہیں)
۲۴۷۳- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک ٹھنڈے دن میں رسول اللہ ﷺ کے گھر سے میں نکلا اور ساتھ میں ایک بدبودار چمڑا لے لیا جس کے بال جھڑے ہوئے تھے، پھر بیچ سے میں نے اسے کاٹ کر اپنی گردن میں ڈال لیا اور اپنی کمر کو کھجور کی شاخ سے باندھ دیا، مجھے بہت سخت بھوک لگی ہوئی تھی ، اگر رسول اللہ ﷺ کے گھر میں کچھ کھانا ہوتا تو میں اس میں سے ضرور کھالیتا، چنانچہ میں کچھ کھانے کی تلاش میں نکلا، راستے میں ایک یہودی کے پاس سے گزرا جو اپنے باغ میں چرخی سے پانی دے رہاتھا، اس کو میں نے دیوار کی ایک سوراخ سے جھانکا تو اس نے کہا: اعرابی! کیابات ہے؟ کیاتو ایک کھجور پر ایک ڈول پانی کھینچے گا؟ میں نے کہا: ہاں، اور اپنا دروازہ کھول دو تاکہ میں اندرآجاؤں، اس نے دروازہ کھول دیا اور میں داخل ہوگیا، اس نے مجھے اپنا ڈول دیا ، پھر جب بھی میں ایک ڈول پانی نکالتا تووہ ایک کھجور مجھے دیتا یہاں تک کہ جب میری مٹھی بھر گئی تو میں نے اس کا ڈول چھوڑ دیا اور کہاکہ اتنا میرے لیے کافی ہے، چنانچہ میں نے اسے کھایا اور دوتین گھونٹ پانی پیا ، پھر میں مسجد میں آیااور وہیں رسول اللہ ﷺ کو موجود پایا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ صحابہ کرام کی زندگی کس قدر فقرو تنگ دستی سے دوچارتھی، یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ کی بھی یہی حالت تھی، اس فقر وفاقہ کے باوجود کسب حلال کا راستہ اپنا تے تھے، اور جوکچھ میسر ہوتا اسی پر قانع ہوتے تھے۔
2474- حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبَّاسٍ الْجُرَيْرِيِّ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ النَّهْدِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ أَصَابَهُمْ جُوعٌ، فَأَعْطَاهُمْ رَسُولُ اللهِ ﷺ تَمْرَةً تَمْرَةً. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الزہد ۱۲ (۴۱۵۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۱۷) (شاذ)
(مؤلف اور ابن ماجہ کے یہاں جو متن ہے وہ صحیح بخاری میں اسی سند سے مروی متن سے مختلف ہے، صحیح بخاری میں فی نفر سات سات کھجوریں ملنے کا تذکرہ ہے، دیکھیے: خ/الأطعمۃ ۲۳ (۵۴۱۱)، و۳۹ (۵۴۴۰)
۲۴۷۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کو ایک مرتبہ بھوک لگی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سب کو صرف ایک ایک کھجور دی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
2475- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ وَنَحْنُ ثَلاَثُ مِائَةٍ، نَحْمِلُ زَادَنَا عَلَى رِقَابِنَا، فَفَنِيَ زَادُنَا حَتَّى إِنْ كَانَ يَكُونُ لِلرَّجُلِ مِنَّا كُلَّ يَوْمٍ تَمْرَةٌ، فَقِيلَ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِاللهِ! وَأَيْنَ كَانَتْ تَقَعُ التَّمْرَةُ مِنَ الرَّجُلِ؟ فَقَالَ: لَقَدْ وَجَدْنَا فَقْدَهَا حِينَ فَقَدْنَاهَا، وَأَتَيْنَا الْبَحْرَ، فَإِذَا نَحْنُ بِحُوتٍ قَدْ قَذَفَهُ الْبَحْرُ، فَأَكَلْنَا مِنْهُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ يَوْمًا مَا أَحْبَبْنَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، وَرَوَاهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَتَمَّ مِنْ هَذَا وَأَطْوَلَ.
* تخريج: خ/الشرکۃ ۱ (۲۴۸۳)، والجھاد ۱۲۴ (۲۹۸۳)، والمغازي ۶۵ (۴۳۶۰-۴۳۶۲)، والأطعمۃ ۱۲ (۵۴۹۴)، م/الصید ۴ (۱۹۳۵)، ن/الصید ۳۵ (۴۳۵۶، ۴۳۵۹)، ق/الزھد ۱۲ (۴۱۵۹) (تحفۃ الأشراف: ۳۱۲۵)، ط/صفۃ النبی ۱۰ (۲۴)، ودي/الصید ۶ (۲۰۵۵) (صحیح)
۲۴۷۵- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں تین سوکی تعداد میں بھیجا، ہم اپنا اپنا زادسفر اٹھائے ہوئے تھے، ہمارا زادسفرختم ہوگیا نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہر آدمی کے حصہ میں صرف ایک ایک کھجور آتی تھی، ان سے کہاگیا: ابوعبداللہ ! ایک کھجور سے آدمی کاکیاہوتاہوگا؟ جب وہ بھی ختم ہوگئی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی ، انہوں نے فرمایا:''ہم سمندر کے کنارے پہنچے آخر ہمیں ایک مچھلی ملی، جسے سمندرنے باہرپھینک دیاتھا، چنانچہ ہم اس میں سے اٹھارہ دن تک جس طرح چاہا سیر ہوکر کھاتے رہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث جابر کے واسطے سے دوسری سند وں سے بھی مروی ہے، ۳- اس حدیث کو مالک بن انس نے وہب بن کیسان سے اس سے زیادہ مکمل اور مطول روایت کیاہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ صحابہ کرام دنیا سے کس قدر بے رغبت تھے، فقر وتنگدستی کی وجہ سے ان کی زندگی کس طرح پریشانی کے عالم میں گزرتی تھی،اس کے باوجود بھوک کی حالت میں بھی ان کا جذبہ جہاد بلند ہوتا تھا، کیوں کہ وہ صبر وضبط سے کام لیتے تھے۔