• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ طُرُوقِ الرَّجُلِ أَهْلَهُ لَيْلا
۱۹-باب: بیوی کے پاس سفر سے رات میں واپس آنامکروہ ہے​


2712- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ نُبَيْحٍ الْعَنَزِيِّ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَاهُمْ أَنْ يَطْرُقُوا النِّسَائَ لَيْلا.
وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَاهُمْ أَنْ يَطْرُقُوا النِّسَائَ لَيْلا قَالَ: فَطَرَقَ رَجُلانِ بَعْدَ نَهْيِ النَّبِيِّ ﷺ فَوَجَدَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلا.
* تخريج: خ/العمرۃ ۱۶ (۱۸۰۱)، والنکاح ۱۲۰ (۵۲۴۳)، م/الإمارۃ ۵۶ (۱۹۲۸/۱۸۴) (صحیح)
۲۷۱۲- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو سفر سے رات میں بیویوں کے پاس لوٹ کرآنے سے روکا ہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث کئی سندوں سے جابر رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے،۳- اس باب میں انس، ابن عمر، اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴- ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے لوگوں کو رات میں بیویوں کے پاس سفر سے واپس لوٹ کر آنے سے روکا ابن عباس کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺکے اس روکنے کے باوجود دوشخص رات میں لوٹ کر اپنی بیویوں کے پاس آئے (نتیجہ انہیں اس نافرمانی کا یہ ملا) کہ ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنی بیوی کے پاس ایک دوسرے مرد کو پایا۔
وضاحت ۱؎ : رات میں سفر سے واپس آکر اپنے گھروالوں کے پاس آنے کی ممانعت اس صورت میں ہے جب آمد کی پیشگی اطلاع نہ دی گئی ہو، اور اگر گھر والے اس کی آمد سے پہلے ہی باخبر ہیں تو پھر اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20-بَاب مَا جَاءَ فِي تَتْرِيبِ الْكِتَابِ
۲۰-باب: خط لکھ کر اس پر مٹی ڈالنے کابیان​


2713- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ حَدَّثَنَا شَبَابَةُ عَنْ حَمْزَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "إِذَا كَتَبَ أَحَدُكُمْ كِتَابًا فَلْيُتَرِّبْهُ فَإِنَّهُ أَنْجَحُ لِلْحَاجَةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ لا نَعْرِفُهُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
قَالَ: وَحَمْزَةُ هُوَ عِنْدِي ابْنُ عَمْرٍو النَّصِيبِيُّ هُوَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ.
* تخريج: ق/الأدب ۴۹ (۳۷۷۴) (تحفۃ الأشراف: ۲۶۹۹)
(سندمیں حمزۃ بن عمرو متروک الحدیث ہے اور ابوزبیر مکی مدلس ہیں اورروایت عنعنہ سے ہے، اورا بن ماجہ کی سند میں بقیہ ہیں اور روایت ابواحمد دمشقی سے ہے جو مجہول ہیں) (ضعیف) (الضعیفۃ ۱۷۳۸)
۲۷۱۳- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب تم میں سے کوئی تحریر لکھے تو لکھنے کے بعد اس پر مٹی ڈالنا چاہیے، کیوں کہ اس سے حاجت برآری کی زیادہ توقع ہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث منکر ہے ،۲- ہم اسے صرف اسی سند سے ابوزبیر کی روایت سے جانتے ہیں، ۳- حمزہ ہمارے نزدیک عمرونصیبی کے بیٹے ہیں، اور وہ حدیث بیان کرنے میں ضعیف مانے جاتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : تحریر پھیلی اور بگڑی ہوئی نہیں بلکہ صاف وستھری رہے گی توجس مقصد کے لیے لکھی گئی ہوگی ،اس مقصد کے جلد حاصل ہونے کی امید کی جائے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21-بابٌ
۲۱-باب​


2714- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عَنْبَسَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ أُمِّ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ؛ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَبَيْنَ يَدَيْهِ كَاتِبٌ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: ضَعِ الْقَلَمَ عَلَى أُذُنِكَ فَإِنَّهُ أَذْكَرُ لِلْمُمْلِي.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَهُوَ إِسْنَادٌ ضَعِيفٌ. وَعَنْبَسَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ زَاذَانَ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (التحفہ: ۴۷۴۳) (موضوع)
(سندمیں عنبسہ اور محمد بن زاذان دونوں متروک الحدیث ہیں)
۲۷۱۴- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا ۔ آپ کے سامنے ایک کاتب بیٹھا ہواتھا۔ میں نے سنا آپ اس سے فرمارہے تھے: تم اپنا قلم اپنے کان پر رکھے رہاکرو کیوں کہ اس سے لکھوانے والوں کو آگاہی ویاددہانی ہوجایاکرے گی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور یہ سند ضعیف ہے، ۳- عنبسہ بن عبدالرحمن اور محمد بن زاذان ، دونوں حدیث بیان کرنے میں ضعیف قراردیئے گئے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
22-بَاب مَا جَاءَ فِي تَعْلِيمِ السُّرْيَانِيَّةِ
۲۲-باب: سُریانی زبان سیکھنے کا بیان​


2715- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ؛ قَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ أَتَعَلَّمَ لَهُ كَلِمَاتٍ مِنْ كِتَابِ يَهُودَ قَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا آمَنُ يَهُودَ عَلَى كِتَابِي قَالَ: فَمَا مَرَّ بِي نِصْفُ شَهْرٍ حَتَّى تَعَلَّمْتُهُ لَهُ، قَالَ: فَلَمَّا تَعَلَّمْتُهُ كَانَ إِذَا كَتَبَ إِلَى يَهُودَ كَتَبْتُ إِلَيْهِمْ، وَإِذَا كَتَبُوا إِلَيْهِ قَرَأْتُ لَهُ كِتَابَهُمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ. رَوَاهُ الأَعْمَشُ عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَيْدٍالأَنْصَارِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ أَتَعَلَّمَ السُّرْيَانِيَّةَ.
* تخريج: خ/الأحکام ۴۰ (۷۱۹۵) (تعلیقاً)، د/العلم ۲ (۳۶۴۵) (تحفۃ الأشراف: ۳۷۰۲)، وحم (۵/۱۸۶) (حسن صحیح)
۲۷۱۵- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے لیے یہود کی کچھ تحریر سیکھ لوں، آپ نے فرمایا:'' قسم اللہ کی ! میں یہود کی تحریر پر اعتماد واطمینان نہیں کرتا، چنانچہ ابھی آدھا مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ میں نے آپ کے لیے اسے سیکھ لیا۔ کہتے ہیں: پھر جب میں نے سیکھ لیا اور آپ کو یہودیوں کے پاس کچھ لکھ کر بھیجنا ہوا تو میں نے لکھ کر ان کے پاس بھیج دیا، اور جب یہودہوں نے کوئی چیز لکھ کرآپ کے پا س بھیجی تو میں نے ان کی کتاب (تحریر) پڑھ کر آپ کو سنادی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث اس سند کے علاوہ بھی دوسری سند سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اسے اعمش نے ثابت بن عبید انصاری کے واسطہ سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں سریانی زبان سیکھ لوں۔
وضاحت ۱؎ : چونکہ یہود سے اگر کوئی چیز لکھائی جاتی یا ان سے کوئی چیز پڑھوائی جاتی دونوں صورتوں میں ان کی طرف سے کمی وزیادتی کا امکان تھا، اسی خطرہ کے پیش نظر آپ نے زید بن ثابت کو یہود کی زبان سیکھنے کا حکم دیا، یہ خطرہ آج بھی باقی ہے، اور ساتھ ہی دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے ضروری ہے کہ دوسری زبانیں بھی سیکھی جائیں، اس لیے امت مسلمہ کو چاہیے کہ دنیا کی ہرزبان سیکھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
23-بَاب فِي مُكَاتَبَةِ الْمُشْرِكِينَ
۲۳-باب: کفارو مشرکین سے خط وکتابت کرنے کابیان​


2716- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَتَبَ قَبْلَ مَوْتِهِ إِلَى كِسْرَى، وَإِلَى قَيْصَرَ، وَإِلَى النَّجَاشِيِّ، وَإِلَى كُلِّ جَبَّارٍ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ، وَلَيْسَ بِالنَّجَاشِيِّ الَّذِي صَلَّى عَلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: م/الجھاد ۲۷ (۱۷۷۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۹)، وحم (۳/۳۳۶) (صحیح)
۲۷۱۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات سے پہلے کسریٰ وقیصر،نجاشی اور سارے سرکش و متکبر بادشاہوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے ہوئے خطوط لکھ کر بھیجے۔ اس نجاشی سے وہ نجاشی (بادشاہ حبش اصحمہ) مراد نہیں ہے کہ جن کے انتقال پر نبی اکرم ﷺ نے صلاۃ جنازہ پڑھی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
24-بَاب مَا جَاءَ كَيْفَ يُكْتَبُ إِلَى أَهْلِ الشِّرْكِ
۲۴-باب: کفارو مشرکین کوکس انداز سے خط لکھاجائے؟​


2717- حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ، وَكَانُوا تُجَّارًا بِالشَّامِ فَأَتَوْهُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ قَالَ ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقُرِئَ فَإِذَا فِيهِ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِاللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ السَّلامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو سُفْيَانَ اسْمُهُ صَخْرُ بْنُ حَرْبٍ.
* تخريج: خ/بدء الوحی ۱ (۷)، والجھاد ۱۰۲ (۲۹۴۱)، وتفسیر آل عمران ۴ ( ۴۵۵۳)، م/الجھاد ۲۷ (۱۷۷۳)، د/الأدب ۱۲۸ (۵۱۳۶) (تحفۃ الأشراف: ۴۸۵۰) (صحیح)
۲۷۱۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیاکہ وہ قریش کے کچھ تاجروں کے ساتھ شام میں تھے کہ ہرقل (شہنشاہ شام) نے انہیں بلابھیجا ، تووہ سب اس کے پاس آئے، پھر سفیان نے آگے بات بڑھائی۔ کہا: پھر اس نے رسول اللہ ﷺ کا خط منگوایا ۔ پھر خط پڑھاگیا، اس میں لکھاتھا''بسم الله الرحمن الرحيم من محمد عبدالله ورسوله إلى هرقل عظيم الروم السلام على من اتبع الهدى أمابعد: '' '' میں شروع کرتاہوں اس اللہ کے نام سے جورحمان (بڑا مہربان) اوررحیم( نہایت رحم کرنے والا)ہے۔ یہ خط محمدکی جانب سے ہے جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اور ہرقل کے پاس بھیجاجارہاہے جو روم کے شہنشاہ ہیں۔ سلامتی ہے اس شخص کے لیے جو ہدایت کی پیروی کرے۔ امابعد: حمد ونعت کے بعد ...الخ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ابوسفیان کانام صخر بن حرب رضی اللہ عنہ تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
25-بَاب مَا جَاءَ فِي خَتْمِ الْكِتَابَ
۲۵-باب: خط( مکتوب) پر مہر لگانے کا بیان​


2718- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ لَمَّا أَرَادَ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ أَنْ يَكْتُبَ إِلَى الْعَجَمِ قِيلَ لَهُ: إِنَّ الْعَجَمَ لاَيَقْبَلُونَ إِلاَّ كِتَابًا عَلَيْهِ خَاتَمٌ فَاصْطَنَعَ خَاتَمًا قَالَ فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِهِ فِي كَفِّهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/العلم ۷ (۶۵)، والجھاد ۱۰۱ (۲۹۳۸)، واللباس ۵۰ (۵۸۷۲)، ۵۲ (۵۸۷۵)، والأحکام ۱۵ (۷۱۶۲)، م/اللباس ۱۳ (۲۰۹۲/۵۶)، د/الخاتم ۱ (۴۲۱۴)، ن/الزینۃ ۴۷ (۵۲۰۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۸)، وحم (۳/۱۶۸-۱۶۹، ۱۷۰، ۱۸۱، ۲۲۳، ۲۷۵) (صحیح)
۲۷۱۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے جب عجمی (بادشاہوں) کوخطوط بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو آپ کو بتایاگیا کہ عجمی بغیر مہر لگاہوا خط قبول نہیں کرتے چنانچہ آپ نے (مہر کے لیے) ایک انگوٹھی بنوائی ، گویا کہ میں آپ کی ہتھیلی میں اس کی چمک کو اس وقت دیکھ رہاہوں ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
26-بَاب كَيْفَ السَّلامُ
۲۶-باب: سلام کس انداز سے کیاجائے؟​


2719- حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الأَسْوَدِ؛ قَالَ: أَقْبَلْتُ أَنَا وَصَاحِبَانِ لِي قَدْ ذَهَبَتْ أَسْمَاعُنَا، وَأَبْصَارُنَا مِنْ الْجَهْدِ؛ فَجَعَلْنَا نَعْرِضُ أَنْفُسَنَا عَلَى أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ فَلَيْسَ أَحَدٌ يَقْبَلُنَا؛ فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ ﷺ فَأَتَى بِنَا أَهْلَهُ فَإِذَا ثَلاثَةُ أَعْنُزٍ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "احْتَلِبُوا هَذَا اللَّبَنَ بَيْنَنَا"، فَكُنَّا نَحْتَلِبُهُ؛ فَيَشْرَبُ كُلُّ إِنْسَانٍ نَصِيبَهُ، وَنَرْفَعُ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ نَصِيبَهُ فَيَجِيئُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنَ اللَّيْلِ؛ فَيُسَلِّمُ تَسْلِيمًا لايُوقِظُ النَّائِمَ، وَيُسْمِعُ الْيَقْظَانَ، ثُمَّ يَأْتِي الْمَسْجِدَ؛ فَيُصَلِّي، ثُمَّ يَأْتِي شَرَابَهُ فَيَشْرَبُهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الأشربۃ والأطعمۃ ۳۲ (۲۰۵۵)، ن/عمل الیوم واللیلۃ ۱۲۳ (۳۲۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۴۶)، وحم (۶/۳۶۲) (صحیح)
۲۷۱۹- مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے دو دوست (مدینہ) آئے، فقروفاقہ اورجہد ومشقت کی بنا پر ہماری سماعت متاثر ہوگئی تھی ۱؎ اورہماری آنکھیں دھنس گئی تھیں، ہم نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرنے لگے لیکن ہمیں کسی نے قبول نہ کیا ۲؎ ، پھر ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس گئے تو آپ ہمیں اپنے گھر لے آئے، اس وقت آپ کے پاس تین بکریاں تھیں۔ آپ نے فرمایا:'' ان کا دودھ ہم سب کے لیے دو ہو''، توہم دوہتے اور ہرشخص اپنا حصہ پیتا اور رسول اللہ ﷺ کا حصہ اٹھاکر رکھ دیتے، پھر رسول اللہ ﷺ رات میں تشریف لاتے اور اس انداز سے سلام کرتے تھے کہ سونے والا جاگ نہ اٹھے اور جاگنے والا سن بھی لے ۳؎ ، پھر آپ مسجد آتے صلاۃِتہجد پڑھتے پھرجاکر اپنے حصے کادودھ پیتے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ہم اونچا سننے لگے تھے۔
وضاحت ۲؎ : وہ سوچتے یہ تو خود ہی مررہے ہیں یہ کیاکام کریں گے۔اور وہ ہمیں کام نہ دیتے۔
وضاحت۳؎ : نہ آواز بھاری ، بلند اور کرخت ہوتی کہ سونے والا چونک کر اٹھ بیٹھے اور نہ ہی اتنی باریک ،ہلکی اور پست کہ جاگنے والا بھی نہ سن سکے۔ بلکہ آواز درمیانی ہوتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
27-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ التَّسْلِيمِ عَلَى مَنْ يَبُولُ
۲۷-باب: پیشاب کرتے ہوئے شخص کوسلام کرنے کی کراہت کابیان​


2720- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلاً سَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ يَبُولُ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ يَعْنِي السَّلاَمَ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۹۰ (حسن صحیح)
2720/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الضَّحَّاكِ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ. وَفِي الْبَاب عَنْ عَلْقَمَةَ ابْنِ الْفَغْوَائِ وَجَابِرٍ وَالْبَرَائِ وَالْمُهَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (حسن صحیح)
۲۷۲۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کو اس وقت سلام کیا جب آپ پیشاب کررہے تھے، تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔
۲۷۲۰/م- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سندسے اسی طرح روایت کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علقمہ بن فغواء ، جابر ، براء اور مہاجر بن قنفد رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
28-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَنْ يَقُولَ عَلَيْكَ السَّلامُ مُبْتَدِئًا
۲۸-باب: بات چیت کی ابتداء '' علیک السلام'' سے کہہ کر مکروہ ہے​


2721- حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ قَالَ: طَلَبْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَيْهِ؛ فَجَلَسْتُ؛ فَإِذَا نَفَرٌ هُوَ فِيهِمْ وَلاأَعْرِفُهُ وَهُوَ يُصْلِحُ بَيْنَهُمْ فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ مَعَهُ بَعْضُهُمْ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ قُلْتُ: عَلَيْكَ السَّلامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! عَلَيْكَ السَّلامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! عَلَيْكَ السَّلامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ إِنَّ عَلَيْكَ السَّلامُ تَحِيَّةُ الْمَيِّتِ إِنَّ عَلَيْكَ السَّلامُ تَحِيَّةُ الْمَيِّتِ ثَلاثًا، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ: إِذَا لَقِيَ الرَّجُلُ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ فَلْيَقُلْ السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، ثُمَّ رَدَّ عَلَيَّ النَّبِيُّ ﷺ قَالَ: "وَعَلَيْكَ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَعَلَيْكَ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ أَبُو غِفَارٍ عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي جُرَيٍّ جَابِرِ بْنِ سُلَيْمٍ الْهُجَيْمِيِّ؛ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَأَبُو تَمِيمَةَ اسْمُهُ طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدٍ.
* تخريج: د/الأدب ۱۵۱ (۵۲۰۹)، ن/عمل الیوم واللیلۃ ۱۲۳ (۳۱۷-۳۲۰) (تحفۃ الأشراف: ۲۱۲۳ و۱۵۵۹۸) (صحیح)
۲۷۲۱- جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ سے ملنا چاہتا تھا، مگر آپ تک پہنچ نہ سکا، میں بیٹھارہا پھر کچھ لوگ سامنے آئے جن میں آپ ﷺبھی تھے۔میں آپ سے واقف نہ تھا،آپ ان لوگوں میں صلح صفائی کرارہے تھے، جب آپ(اس کام سے ) فارغ ہوئے تو آپ کے ساتھ کچھ دوسرے لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے، ان لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول ! جب میں نے (لوگوں کو) ایسا کہتے دیکھا تومیں نے کہا:'' علیک السلام یارسول اللہ!'' (آپ پر سلامتی ہو اے اللہ کے رسول )اور ایسا میں نے تین بارکہا، آپ نے فرمایا: '' علیک السلام میت کا سلام ہے'' ۱؎ ، آپ نے بھی ایسا تین بار کہا، پھر آپ میری طرف پوری طرح متوجہ ہوئے اورفرمایا:'' جب آدمی اپنے مسلمان بھائی سے ملے تو اس کے لیے مناسبیہ ہے کہ کہے'' السلام علیکم ورحمۃ اللہ '' پھر آپ نے میرے سلام کاجواب اس طرح لوٹایا، فرمایا:'' وعلیک ورحمۃ اللہ وعلیک ورحمۃ اللہ وعلیک ورحمۃ اللہ'' (تین بار)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابوغفار نے یہ حدیث بسند ابوتمیمہ الہجیمیعن ابی جری جابر بن سلیم الہجیمی سے روایت کی ہے، ہجیمی کہتے ہیں: میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا پھر آگے پوری حدیث بیان کردی۔ ابوتمیمہ کانام طریف بن مجالد ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں '' علیک السلام'' کہنے کی جو ممانعت ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں سلام کا یہی رواج تھا ، ورنہ اسلام میں تو زندوں اور مردوں دونوں کے لیے '' السلام علیکم'' ہی سلام ہے، چنانچہ مردوں کے لیے سلام کے تعلق سے حدیث کے یہ الفاظ ہیں:''السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين'' ۔


2722- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ أَبِي غِفَارٍ الْمُثَنَّى بْنِ سَعِيدٍ الطَّائِيِّ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سُلَيمٍ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْتُ: عَلَيْكَ السَّلاَمُ فَقَالَ: "لاَ تَقُلْ: عَلَيْكَ السَّلاَمُ وَلَكِنْ قُلْ: السَّلاَمُ عَلَيْكَ"، وَذَكَرَ قِصَّةً طَوِيلَةً. وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۷۲۲- جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، پھر آپ سے عرض کیا:'' علیک السلام'' آپ پر سلامتی ہو تو آپ نے فرمایا : '' علیک السلام'' مت کہو بلکہ '' السلام علیک '' کہو اور آگے پورا لمباقصہ بیان کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2723- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُالصَّمَدِ بْنُ عَبْدِالْوَارِثِ حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ إِذَا سَلَّمَ سَلَّمَ ثَلاثًا وَإِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلاثًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: خ/العلم ۳۰ (۹۴، ۹۵)، والاستئذان ۱۳ (۶۲۴۴) (تحفۃ الأشراف: ۵۰۰) (صحیح)
۲۷۲۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺجب سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے اور جب کوئی بات کہتے تو اسے تین بار دھراتے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : تاکہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔
 
Top