• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5-بَاب مَا جَاءَ: كَمْ يُشَمَّتُ الْعَاطِسُ
۵-باب: چھینکنے والے کا جواب کتنی باردیاجائے؟​


2743- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ، أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: عَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَأَنَا شَاهِدٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "يَرْحَمُكَ اللَّهُ"، ثُمَّ عَطَسَ الثَّانِيَةَ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "هَذَا رَجُلٌ مَزْكُومٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الزہد ۹ (۲۹۹۳)، د/الأدب ۱۰۰ (۵۰۳۷)، ق/الأدب ۲۰ (۱۷۱۴) (تحفۃ الأشراف: ۴۵۱۳)، ودي/الاستئذان ۳۲ (۲۷۰۳) (صحیح)
2743/م1- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ إِلاَّ أَنَّهُ قَالَ لَهُ فِي الثَّالِثَةِ: "أَنْتَ مَزْكُومٌ". قَالَ: هَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ الْمُبَارَكِ.
* تخريج : انظر ماقبلہ (صحیح)
2743/م2- وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ هَذَا الْحَدِيثَ نَحْوَ رِوَايَةِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَحْمَدُ بْنُ الْحَكَمِ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ بِهَذَا. وَرَوَى عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ نَحْوَ رِوَايَةِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، وَقَالَ لَهُ فِي الثَّالِثَةِ: "أَنْتَ مَزْكُومٌ"، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۷۴۳- سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میری موجودگی میں رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص کوچھینک آئی تو آپ ﷺنے فرمایا: ''يرحمك الله''( اللہ تم پررحم فرمایے) پھراسے دوبارہ چھینک آئی تو آپ نے فرمایا:'' اسے تو زکام ہوگیاہے '' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۲۷۴۳/م۱- محمدبن بشار نے مجھ سے بیان کیا وہ کہتے ہیں مجھ سے بیان کیایحییٰ بن سعید نے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے بیان کیاعکرمہ بن عمار نے اورعکرمہ نے ایاس بن سلمہ سے ،ایاس نے اپنے باپ سلمہ سے اورسلمہ رضی اللہ عنہ نے نبیﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ، مگر اس روایت میں یہ ہے کہ آپ نے اس آدمی کے تیسری بار چھینکنے پر فرمایا:'' تمہیں توزکام ہوگیا ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:یہ ابن مبارک کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔
۲۷۴۳/م۲- اور شعبہ نے اس حدیث کو عکرمہ بن عمار سے یحییٰ بن سعید کی روایت کی طرح روایت کیا ہے۔ بیان کیااسے ہم سے احمد بن حکم بصری نے، انہوں نے کہا: بیان کیا ہم سے محمد بن بشار نے، وہ کہتے ہیں: بیان کیاہم سے شعبہ نے اورشعبہ نے عکرمہ بن عمار سے اسی طرح روایت کی ہے۔
اورعبدالرحمن بن مہدی نے عکرمہ بن عمار سے ابن مبارک کی روایت کی طرح روایت کی ہے۔ اس روایت میں ہے کہ آپ نے اس سے تیسری بار چھینکنے پر فرمایا:'' تمہیں زکام ہوگیا ہے۔ اسے بیان کیا مجھ سے اسحاق بن منصور نے، وہ کہتے ہیں: بیان کیا مجھ سے عبدالرحمن بن مہدی نے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہواکہ ایک یادوسے زیادہ بارچھینک آنے پرجواب دینے کی ضرورت نہیں۔
وضاحت ۲؎ : ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ ''تیسری بارچھینکنے پرجواب نہ دینے ''کی روایت ہی زیادہ صحیح ہے۔


2744- حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ السَّلُولِيُّ الْكُوفِيُّ، عَنْ عَبْدِالسَّلامِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّهِ عَنْ أَبِيهَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "يُشَمَّتُ الْعَاطِسُ ثَلاثًا فَإِنْ زَادَ فَإِنْ شِئْتَ؛ فَشَمِّتْهُ وَإِنْ شِئْتَ فَلاَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَإِسْنَادُهُ مَجْهُولٌ.
* تخريج: د/الأدب ۱۰۰ (۵۰۳۶) (تحفۃ الأشراف: ۹۷۴۶) (ضعیف)
(سندمیں ''یزید بن عبد الرحمن ابوخالدالدالانی'' بہت غلطیاں کرجاتے تھے، اور ''عمر بن اسحاق بن ابی طلحہ'' اور ان کی ماں ''حمیدہ یا عبیدہ'' دونوں مجہول ہیں)
۲۷۴۴- عبیدبن رفاعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''چھینکنے والے کی چھینک کاجواب تین بار دیا جائے گا، اور اگر تین بار سے زیادہ چھینکیں آئیں تو تمہیں اختیارہے جی چاہے تو جواب دو اور جی چاہے تو نہ دو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث غریب ہے اوراس کی سند مجہول ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6-بَاب مَا جَاءَ فِي خَفْضِ الصَّوْتِ وَتَخْمِيرِ الْوَجْهِ عِنْدَ الْعُطَاسِ
۶-باب: چھینکتے وقت آواز دھیمی کرنے اور منہ ڈھانپ لینے کابیان​


2745- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَزِيرٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا عَطَسَ غَطَّى وَجْهَهُ بِيَدِهِ أَوْ بِثَوْبِهِ، وَغَضَّ بِهَا صَوْتَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الأدب ۹۸ (۵۰۲۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۸۱) (حسن صحیح)
۲۷۴۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ کو جب چھینک آتی تھی تو اپنے ہاتھ سے یا اپنے کپڑے سے منہ ڈھانپ لیتے، اور اپنی آواز کودھیمی کرتے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ چھینک آتے وقت دوسروں کا خیال رکھاجائے ، ایسانہ ہو کہ ناک سے نکلے ہوئے ذرات دوسروں پرپڑیں، اس لیے ہاتھ یا کپڑے منہ پر رکھ لینا چاہئے ، اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اسلام نے تہذیب وشائستگی کے ساتھ ساتھ نظافت پربھی زوردیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
7-بَاب مَا جَاءَ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعُطَاسَ وَيَكْرَهُ التَّثَاؤُبَ
۷-باب: اللہ تعالیٰ چھینک کو پسندکرتاہے اور جمائی کوناپسندکرتاہے​


2746- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ عَجْلانَ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "الْعُطَاسُ مِنَ اللَّهِ، وَالتَّثَاؤُبُ مِنَ الشَّيْطَانِ؛ فَإِذَا تَثَائَبَ أَحَدُكُمْ؛ فَلْيَضَعْ يَدَهُ عَلَى فِيهِ، وَإِذَا قَالَ: آهْ آهْ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَضْحَكُ مِنْ جَوْفِهِ، وَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعُطَاسَ، وَيَكْرَهُ التَّثَاؤُبَ؛ فَإِذَا قَالَ الرَّجُلُ: آهْ آهْ إِذَا تَثَائَبَ؛ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَضْحَكُ فِي جَوْفِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ن/عمل الیوم واللیلۃ ۸۲ (۲۱۷)، ق/الإقامۃ ۴۲ (۹۶۹)، وانظر مایاتي بعدہ (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۱۹) (حسن صحیح)
۲۷۴۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' چھینکنا اللہ کی جانب سے ہے اور جمائی شیطان کی جانب سے ہے۔ جب کسی کو جمائی آئے تو اسے چاہیے کہ جمائی آتے وقت اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لے، اور جب جمائی لینے والا آہ ، آہ کرتاہے تو شیطان جمائی لینے والے کے پیٹ میں گھس کر ہنستاہے۔ اور بیشک اللہ چھینک کو پسند کرتاہے اور جمائی لینے کوناپسند کرتاہے۔ تو (جان لو) کہ آدمی جب جمائی کے وقت آہ آہ کی آواز نکالتاہے تو اس وقت شیطان اس کے پیٹ کے اندر گھس کر ہنستاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2747- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلالُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعُطَاسَ، وَيَكْرَهُ التَّثَاؤُبَ؛ فَإِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ؛ فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ؛ فَحَقٌّ عَلَى كُلِّ مَنْ سَمِعَهُ أَنْ يَقُولَ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَأَمَّا التَّثَاؤُبُ؛ فَإِذَا تَثَائَبَ أَحَدُكُمْ؛ فَلْيَرُدَّهُ مَا اسْتَطَاعَ، وَلا يَقُولَنَّ: هَاهْ هَاهْ؛ فَإِنَّمَا ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ يَضْحَكُ مِنْهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَجْلانَ، وَابْنُ أَبِي ذِئْبٍ أَحْفَظُ لِحَدِيثِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، وَأَثْبَتُ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ، قَالَ: سَمِعْت أَبَا بَكْرٍ الْعَطَّارَ الْبَصْرِيَّ يَذْكُرُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلاَنَ: أَحَادِيثُ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ رَوَى بَعْضَهَا سَعِيدٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَبَعْضُهَا عَنْ سَعِيدٍ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَاخْتَلَطَ عَلَيَّ فَجَعَلْتُهَا عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: خ/بدء الخلق ۱۱ (۳۲۸۹)، والأدب ۱۲۵ (۶۲۲۳)، و ۲۶ (۶۲۶۲)، م/الزہد ۹ (۲۹۹۵)، د/الأدب ۹۷ (۵۰۲۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۲۲)، وحم (۲/۲۶۵، ۴۲۸، ۵۱۷) وانظر ما تقدم برقم ۳۷۰ (صحیح)
۲۷۴۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتاہے اور جمائی کو ناپسند، پس جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ'' الحمد للہ'' کہے تو ہرمسلمان کے لیے جواسے سنے ''یرحمک اللہ'' کہنا ضروری ہے۔ اب رہی جمائی کی بات تو جس کسی کو جمائی آئے ،اسے چاہیے کہ وہ اپنی طاقت بھر اسے روکے اور ہاہ ہاہ نہ کہے، کیوں کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے، اور شیطان اس سے ہنستاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث صحیح ہے،۲- اوریہ ابن عجلان کی (اوپر مذکور) روایت سے زیادہ صحیح ہے ، ۳-ابن ابی ذئب: سعیدمقبری کی حدیث کو زیادہ یادرکھنے والے (احفظ ) اور محمد بن عجلان سے زیادہ قوی (اثبت) ہیں، ۴- میں نے ابوبکر عطاربصری سے سناہے وہ روایت کرتے ہیں: علی بن مدینی کے واسطہ سے یحییٰ بن سعید سے اوریحییٰ بن سعید کہتے ہیں: محمد بن عجلان کہتے ہیں: سعید مقبری کی احادیث کامعاملہ یہ ہے کہ سعید نے بعض حدیثیں (بلاواسطہ) ابوہریرہ سے روایت کی ہیں۔ اوربعض حدیثیں بواسطہ ایک شخص کے ابوہریرہ سے روایت کی گئی ہیں۔ تو وہ سب میرے ذہن میں گڈمڈ ہوگئیں۔ مجھے یاد نہیں رہا کہ بلاواسطہ کون تھیں اور بواسطہ کون؟ تو میں نے سبھی رایتوں کو سعیدکے واسطہ سے ابوہریرہ سے روایت کردی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
8-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْعُطَاسَ فِي الصَّلاَةِ مِنْ الشَّيْطَانِ
۸-باب: صلاۃ میں چھینک شیطان کی جانب سے آتی ہے​


2748- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ رَفَعَهُ قَالَ: "الْعُطَاسُ وَالنُّعَاسُ وَالتَّثَاؤُبُ فِي الصَّلاَةِ وَالْحَيْضُ وَالْقَيْئُ وَالرُّعَافُ مِنْ الشَّيْطَانِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قُلْتُ لَهُ: مَا اسْمُ جَدِّ عَدِيٍّ؟ قَالَ: لا أَدْرِي، وَذُكِرَ عَنْ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ قَالَ:اسْمُهُ دِينَارٌ.
* تخريج: ق/الإقامۃ ۴۲ (۹۶۹) (تحفۃ الأشراف: ۳۵۴۳) (ضعیف)
(سندمیں ''ثابت انصاری'' مجہول، اور ''ابوالیقظان'' ضعیف ہیں)
۲۷۴۸- ثابت کے باپ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' صلاۃ میں چھینک ، اونگھ ، جمائی ، حیض ، قے اور نکسیر شیطان کی طرف سے ہوتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ہم اسے صرف شریک کی روایت جانتے ہیں جسے وہ ابوالیقظان سے روایت کرتے ہیں،۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس روایت '' عن عدی بن ثابت عن ابیہ عن جدہ'' کے تعلق سے پوچھا کہ عدی کے دادا کاکیانام ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نہیں جانتا، لیکن یحییٰ بن معین سے پوچھاگیا تو انہوں نے کہاکہ ان کانام دینارہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
9-بَاب كَرَاهِيَةِ أَنْ يُقَامَ الرَّجُلُ مِنْ مَجْلِسِهِ ثُمَّ يُجْلَسُ فِيهِ
۹-باب: کسی کو اٹھاکر اس کی جگہ بیٹھ جانا مکروہ ہے​


2749- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "لاَ يُقِمْ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ مِنْ مَجْلِسِهِ، ثُمَّ يَجْلِسُ فِيهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/السلام ۱۱ (۲۱۷۷) (تحفۃ الأشراف: ۷۵۴۱)، وانظر مایأتي (صحیح)
۲۷۴۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کے بیٹھنے کی جگہ سے اٹھاکر خود اس کی جگہ نہ بیٹھ جائے'' ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2750- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لا يُقِمْ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ مِنْ مَجْلِسِهِ، ثُمَّ يَجْلِسُ فِيهِ"، قَالَ: وَكَانَ الرَّجُلُ يَقُومُ لابْنِ عُمَرَ فَلاَ يَجْلِسُ فِيهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۶۹۴۴) (صحیح)
۲۷۵۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے اٹھاکر خود اس جگہ نہ بیٹھ جائے'' ۔
راوی سالم کہتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہما کے احترام میں آدمی ان کے آنے پر اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہوجاتاتھا لیکن وہ (اس ممانعت کی وجہ سے) اس کی جگہ نہیں بیٹھتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
10-بَاب مَا جَاءَ: إِذَا قَامَ الرَّجُلُ مِنْ مَجْلِسِهِ ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ
۱۰-باب: مجلس میں بیٹھا ہوا آدمی کسی ضرورت سے اٹھ کر جائے اور پھر واپس آئے تووہ اپنی جگہ پربیٹھنے کا زیادہ مستحق ہے​


2751- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَمِّهِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ، عَنْ وَهْبِ بْنِ حُذَيْفَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "الرَّجُلُ أَحَقُّ بِمَجْلِسِهِ، وَإِنْ خَرَجَ لِحَاجَتِهِ، ثُمَّ عَادَ؛ فَهُوَ أَحَقُّ بِمَجْلِسِهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۹۶) (صحیح)
۲۷۵۱- وہب بن حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' آدمی اپنے بیٹھنے کی جگہ کا زیادہ مستحق ہے، اگرو ہ کسی ضرورت سے اٹھ کر جائے اورپھر واپس آئے تو وہی اپنی جگہ پر بیٹھنے کا زیادہ حق رکھتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں ابوبکرہ ،ا بوسعیدخدری اورا بوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
11-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْجُلُوسِ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ بِغَيْرِ إِذْنِهِمَا
۱۱-باب: بغیر اجازت دوآدمیوں کے بیچ میں بیٹھنے کی کراہت کابیان​


2752- حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ، أَخْبَرَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "لاَ يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ اثْنَيْنِ إِلاَّ بِإِذْنِهِمَا". قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَقَدْ رَوَاهُ عَامِرٌ الأَحْوَلُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ أَيْضًا.
* تخريج: د/الأدب ۲۴ (۴۸۴۴، ۴۸۴۵) (تحفۃ الأشراف: ۸۶۵۶)، وحم (۲/۲۱۳) (حسن صحیح)
۲۷۵۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ دوآدمیوں کے بیچ میں بیٹھ کر تفریق پیداکرے مگران کی اجازت سے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس حدیث کوعامر احول نے عمروبن شعیب سے بھی روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہوا کہ بیٹھے ہوئے دوآدمیوں کے درمیان بغیر اجازت کسی کا بیٹھناصحیح نہیں، اگروہ دونوں اجازت دے دیں تو پھر بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
12-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْقُعُودِ وَسْطَ الْحَلْقَةِ
۱۲-باب: مجلس کے بیچ میں بیٹھنے کی کراہت کابیان​


2753- حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ أَنَّ رَجُلا قَعَدَ وَسْطَ حَلْقَةٍ فَقَالَ حُذَيْفَةُ: مَلْعُونٌ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ، أَوْ لَعَنَ اللَّهُ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ ﷺ مَنْ قَعَدَ وَسْطَ الْحَلْقَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَأَبُو مِجْلَزٍ اسْمُهُ لَاحِقُ بْنُ حُمَيْدٍ.
* تخريج: د/الأدب ۱۷ (۴۸۲۶) (تحفۃ الأشراف: ۳۳۸۹)، وحم (۵/۳۸۳، ۴۰۱) (ضعیف)


(ابومجلز اور حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان سند میں انقطاع ہے)
۲۷۵۳- ابومجلز سے روایت ہے کہ ایک آدمی حلقہ کے بیچ میں بیٹھ گیا، تو حذیفہ نے کہا :محمد ﷺ کے فرمان کے مطابق وہ شخص ملعون ہے جو بیٹھے ہوئے لوگوں کے حلقہ (دائرہ) کے بیچ میں جاکر بیٹھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ابومجلز کانام لاحق بن حمید ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے مرادوہ آدمی ہے جومجلس کے کنارے نہ بیٹھ کر لوگوں کی گردنوں کوپھاندتاہوابیچ حلقہ میں جاکر بیٹھے، اور لوگوں کے درمیان حائل ہوجائے، البتہ ایساآدمی جس کا انتظاراسی بناپر ہو کہ وہ مجلس کے درمیان آکربیٹھے تو وہ اس لعنت میں داخل نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
13-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ قِيَامِ الرَّجُلِ لِلرَّجُلِ
۱۳- آدمی کا آدمی کے (اعزاز وتکریم کے) لیے کھڑا ہونا (یعنی قیام تعظیمی) مکروہ ہے​


2754- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ؛ قَالَ: لَمْ يَكُنْ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: وَكَانُوا إِذَا رَأَوْهُ لَمْ يَقُومُوا لِمَا يَعْلَمُونَ مِنْ كَرَاهِيَتِهِ لِذَلِكَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۲۵) (صحیح)
۲۷۵۴- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: کوئی شخص انہیں یعنی(صحابہ) کورسول اللہ سے زیادہ محبوب نہ تھا کہتے ہیں:(لیکن) وہ لوگ آپ کو دیکھ کر (ادباً) کھڑے نہ ہوتے تھے۔ اس لیے کہ وہ لوگ جانتے تھے کہ آپ ﷺ اسے ناپسند کرتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔


2755- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ؛ قَالَ: خَرَجَ مُعَاوِيَةُ فَقَامَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَابْنُ صَفْوَانَ حِينَ رَأَوْهُ فَقَالَ: اجْلِسَا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَتَمَثَّلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَامَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ.
* تخريج: د/الأدب ۱۶۵ (۵۲۲۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۴۸)، وحم (۴/۱۰۰) (صحیح)
۲۷۵۵- ابومجلز کہتے ہیں : معاویہ رضی اللہ عنہ باہر نکلے، عبداللہ بن زبیر اور ابن صفوان انہیں دیکھ کر (احتراما) کھڑے ہوگئے۔ تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا تم دونوں بیٹھ جاؤ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص یہ پسند کرے کہ لوگ اس کے سامنے باادب کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں ابوامامہ سے بھی روایت ہے۔
ہم سے بیان کیا ہناد نے وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا ابواسامہ نے اورابواسامہ نے حبیب بن شہید سے حبیب بن شہید نے ابومجلز سے ابومجلز نے معاویہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کی۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ ادب وتعظیم کی خاطرکسی کے لیے کھڑا ہونا مکروہ ہے، البتہ کسی معذورشخص کی مددکے لیے اٹھ کھڑاہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے، نیزاگرکسی آنے والے کے لیے بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے کوئی آگے بڑھ کر اس کو لے کرمجلس میں آئے اوربیٹھائے تو اس میں کوئی حرج نہیں جیساکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ کے لیے کرتی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
14-بَاب مَا جَاءَ فِي تَقْلِيمِ الأَظْفَارِ
۱۴-باب: ناخن کاٹنے کابیان​


2756- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلالُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "خَمْسٌ مِنَ الْفِطْرَةِ؛ الاسْتِحْدَادُ، وَالْخِتَانُ، وَقَصُّ الشَّارِبِ، وَنَتْفُ الإِبْطِ، وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ". قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/اللباس ۶۳ (۵۸۸۹)، و۶۴ (۵۸۹۱)، والاستئذان ۵۱ (۶۶۹۷)، م/الطہارۃ ۱۶ (۲۵۷)، د/الترجل ۱۶ (۴۱۹۸)، ن/الطہارۃ ۹ (۹)، و ۱۰ (۱۰)، والزینۃ ۵۳ (۵۰۴۶)، ق/الطھارۃ ۸ (۲۹۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۸۶)، وط/صفۃ النبی اکرم ﷺ ۳ (۴) (موقوفا) وحم (۲/۲۲۹، ۲۴۰، ۲۸۴، ۴۱۱، ۴۸۹) (صحیح)
۲۷۵۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' پانچ چیزیں فطرت سے ہیں ۱؎ ، (۱) شرمگاہ کے بال مونڈنا، (۲) ختنہ کرنا، (۳) مونچھیں کترنا ،(۴) بغل کے بال اکھیڑنا، (۵) ناخن تراشنا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی انبیاء کی وہ سنتیں ہیں جن کی اقتداء کرنے کا ہمیں حکم دیاگیا ہے۔یہ ساری شریعتوں میں تھیں، کیونکہ یہ فطرتِ انسانی کے اندر داخل ہیں۔


2757- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَهَنَّادٌ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "عَشْرٌ مِنْ الْفِطْرَةِ؛ قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَائُ اللِّحْيَةِ، وَالسِّوَاكُ، وَالاسْتِنْشَاقُ، وَقَصُّ الأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَنَتْفُ الإِبْطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَائِ". قَالَ زَكَرِيَّا: قَالَ مُصْعَبٌ: وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلاَّ أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى انْتِقَاصُ الْمَائِ الاسْتِنْجَائُ بِالْمَائِ. وَفِي الْبَاب عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: م/الطہارۃ ۱۶ (۲۶۱)، د/الطہارۃ ۲۹ (۵۳)، ن/الزینۃ ۱ (۵۰۴۳)، ق/الطہارۃ ۸ (۲۹۳) (تحفۃ الأشراف: ۸۸ا۱۶)، وحم (۶/۱۳۷) (صحیح)
۲۷۵۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' دس ۱؎ چیزیں فطرت سے ہیں (۱) مونچھیں کترنا (۲) ڈاڑھی بڑھانا (۳) مسوا ک کرنا (۴) ناک میں پانی ڈالنا (۵) ناخن کاٹنا (۶) انگلیوں کے جوڑوں کی پشت دھونا (۶) بغل کے بال اکھیڑنا (۸) ناف سے نیچے کے بال مونڈنا (۹) پانی سے استنجا کرنا ، زکریا (راوی) کہتے ہیں کہ مصعب نے کہا: دسویں چیز میں بھول گیا۔ ہوسکتاہے کہ وہ کلی کرناہو''،انتقاص الماء سے مراد پانی سے استنجاء کرناہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں عمار بن یاسر ، ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : پچھلی حدیث میں پانچ کاذکرہے ، اوراس میں دس کا ، دونوں میں کوئی تضادنہیں، پانچ دس میں داخل ہیں، یا پہلے آپ کو پانچ کے بارے میں بتایا گیا، بعدمیں دس کے بارے میں بتایاگیا۔
 
Top