• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207

3219- حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُجَالِدٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ بَيَانٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: بَنَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِامْرَأَةٍ مِنْ نِسَائِهِ؛ فَأَرْسَلَنِي فَدَعَوْتُ قَوْمًا إِلَى الطَّعَامِ فَلَمَّا أَكَلُوا، وَخَرَجُوا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مُنْطَلِقًا قِبَلَ بَيْتِ عَائِشَةَ فَرَأَى رَجُلَيْنِ جَالِسَيْنِ؛ فَانْصَرَفَ رَاجِعًا قَامَ الرَّجُلانِ؛ فَخَرَجَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَتَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلاَّ أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ -إِلَى - طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ} وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ بَيَانٍ وَرَوَى ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ هَذَا الْحَدِيثَ بِطُولِهِ.
* تخريج: خ/النکاح ۶۹ (۵۱۷۰)، وانظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۲۵۷) (صحیح)
۳۲۱۹- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کے ساتھ شادی والی رات گزاری ، پھر آپ نے مجھے کچھ لوگوں کوکھانے پر بلانے کے لیے بھیجا۔ جب لوگ کھاپی کر چلے گئے، توآپ اٹھے،'' عائشہ کے گھر کارخ کیا پھرآپ کی نظر دوبیٹھے ہوئے آدمیوں پر پڑی ۔ تو آپ (فوراً) پلٹ پڑے (انہیں اس کا احساس ہوگیا) وہ دونوں اٹھے اور وہاں سے نکل گئے۔ اسی موقع پر اللہ عزوجل نے آیت {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلاَّ أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلاَ مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ} نازل فرمائی،اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- بیان کی روایت سے یہ حدیث حسن غریب ہے ،۲- ثابت نے انس کے واسطہ سے یہ حدیث پوری کی پوری بیان کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ قصہ پچھلی حدیث میں گزرا۔


3220- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُجْمِرِ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ الأَنْصَارِيَّ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَيْدٍ الَّذِي كَانَ أُرِيَ النِّدَائَ بِالصَّلاةِ أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ: أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَنَحْنُ فِي مَجْلِسِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ؛ فَقَالَ لَهُ: بَشِيرُ بْنُ سَعْدٍ أَمَرَنَا اللَّهُ أَنْ نُصَلِّيَ عَلَيْكَ فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَتَّى تَمَنَّيْنَا أَنَّهُ لَمْ يَسْأَلْهُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ وَالسَّلامُ كَمَا قَدْ عُلِّمْتُمْ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي حُمَيْدٍ وَكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، وَطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَزَيْدِ بْنِ خَارِجَةَ وَيُقَالُ ابْنُ جَارِيَةَ وَبُرَيْدَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الصلاۃ ۱۷ (۴۰۵)، د/الصلاۃ ۱۸۳ (۹۸۰)، ن/السھو ۴۹ (۱۲۸۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۰۷)، ط/صلاۃ السفر ۲۲ (۶۷)، وحم (۵/۲۷۴)، ودي/الصلاۃ ۸۵ (۱۳۸۲) (صحیح)
۳۲۲۰- ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہم سعد بن عبادہ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے ،آپ سے بشیر بن سعد نے کہا: اللہ نے ہمیں آپ پر صلاۃ ( درود)بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ تو ہم کیسے آپ پر صلاۃ( درود) بھیجیں ، راوی کہتے ہیں: آپ (یہ سن کر) خاموش رہے۔ یہاں تک کہ ہم سوچنے لگے کہ انہوں نے نہ پوچھا ہوتا تو ہی ٹھیک تھا،پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہو: '' اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ''،اور سلام تو ویساہی ہے جیساکہ تم (التحیات میں) جانتے ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی، ابوحمید، کعب بن عجرہ اور طلحہ بن عبید اللہ اور ابوسعید خدری اور زید بن خارجہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اورزیدکوابن جاریہ اورابن بریدہ بھی کہا جاتاہے۔
وضاحت ۱؎ : مولف یہ حدیث ارشادباری تعالیٰ {إِنَّ اللَّهَ وَمَلاَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} (الأحزاب:56)کے تفسیرمیں ذکرکی ہے۔


3221- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ عَوْفٍ، عَنِ الْحَسَنِ، وَمُحَمَّدٍ وَخِلاسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلام كَانَ رَجُلاً حَيِيًّا سَتِيرًا مَا يُرَى مِنْ جِلْدِهِ شَيْئٌ اسْتِحْيَائً مِنْهُ؛ فَآذَاهُ مَنْ آذَاهُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَقَالُوا: مَا يَسْتَتِرُ هَذَا التَّسَتُّرَ إِلاَّ مِنْ عَيْبٍ بِجِلْدِهِ إِمَّا بَرَصٌ، وَإِمَّا أُدْرَةٌ، وَإِمَّا آفَةٌ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَرَادَ أَنْ يُبَرِّئَهُ مِمَّا قَالُوا: وَإِنَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَم خَلاَ يَوْمًا وَحْدَهُ فَوَضَعَ ثِيَابَهُ عَلَى حَجَرٍ، ثُمَّ اغْتَسَلَ فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ إِلَى ثِيَابِهِ لِيَأْخُذَهَا، وَإِنَّ الْحَجَرَ عَدَا بِثَوْبِهِ؛ فَأَخَذَ مُوسَى عَصَاهُ؛ فَطَلَبَ الْحَجَرَ؛ فَجَعَلَ يَقُولُ ثَوْبِي حَجَرُ ثَوْبِي حَجَرُ حَتَّى انْتَهَى إِلَى مَلإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ؛ فَرَأَوْهُ عُرْيَانًا أَحْسَنَ النَّاسِ خَلْقًا، وَأَبْرَأَهُ مِمَّا كَانُوا يَقُولُونَ: قَالَ: وَقَامَ الْحَجَرُ فَأَخَذَ ثَوْبَهُ وَلَبِسَهُ، وَطَفِقَ بِالْحَجَرِ ضَرْبًا بِعَصَاهُ فَوَاللَّهِ إِنَّ بِالْحَجَرِ لَنَدَبًا مِنْ أَثَرِ عَصَاهُ ثَلاَثًا أَوْ أَرْبَعًا أَوْ خَمْسًا فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَفِيهِ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۲۸ (۳۴۰۴)، وتفسیر سورۃ الأحزاب ۱۱ (۴۷۹۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۴۲، و۱۲۳۰۲، و۱۴۴۸۰) (صحیح)
۳۲۲۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' موسیٰ علیہ السلام با حیا ، پردہ پوش انسان تھے ، ان کے بدن کا کوئی حصہ ان کے شرماجانے کے ڈرسے دیکھانہ جاسکتا تھا، مگر انہیں تکلیف پہنچائی جس کسی بھی اسرائیلی نے تکلیف پہنچائی'' ، ان لوگوں نے کہا: یہ شخص (اتنی زبردست) سترپوشی محض اس وجہ سے کررہاہے کہ اسے کوئی جلدی بیماری ہے: یا تو اسے برص ہے، یا اس کے خصیے بڑھ گئے ہیں، یا اسے کوئی اور بیماری لاحق ہے۔ اللہ نے چاہا کہ ان پر جو تہمت اور جو الزامات لگائے جارہے ہیں ان سے انہیں بری کردے۔ (تو ہوایوں کہ) موسیٰ علیہ السلام ایک دن تنہا تھے، کپڑے اتار کرایک پتھر پر رکھ کر نہانے لگے، جب نہا چکے اور اپنے کپڑے لینے کے لیے آگے بڑھے تو پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی اٹھائی ، پتھر کو بلانے اور کہنے لگے ''ثوبی حجر، ثوبی حجر'' (پتھر: میرا کپڑا دے،پتھر!میراکپڑادے) اور یہ کہتے ہوئے پیچھے پیچھے دوڑتے رہے یہاں تک کہ وہ پتھر بنی اسرائیل کی ایک جماعت (ایک گروہ)کے پاس جاپہنچا ، دوسروں نے انہیں (مادرزاد) ننگا اپنی خلقت وبناوٹ میں لوگوں سے اچھا دیکھا۔ اللہ نے انہیں ان تمام عیبوں اورخرابیوں سے پاک وصاف دکھادیا جو عیب وہ ان میں بتارہے تھے۔ آپ نے فرمایا:'' پھروہ پتھر رکگیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے کپڑے لے کر پہن لیے، پھر اپنی لاٹھی سے پتھر کو پیٹنے لگے۔ تو قسم اللہ کی پتھر پرلاٹھی کی مارسے تین ،چار یا پانچ چوٹ کے نشان تھے۔ یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی اس آیت { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا} ۱؎
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے مروی ہے، اور اس میں ایک حدیث انس کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اے ایمان لانے والو! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنے جھوٹے الزامات سے تکلیف پہنچائی ، تو اللہ نے انہیں اس تہمت سے بری قراردیا، وہ اللہ کے نزدیک بڑی عزت ومرتبت والاتھا (الاحزاب:۶۹)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
35-بَاب وَمِنْ سُورَةِ سَبَأٍ
۳۵-باب: سورہ سبا سے بعض آیات کی تفسیر​


3222- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالاَ: أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحَكَمِ النَّخَعِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَبْرَةَ النَّخَعِيُّ، عَنْ فَرْوَةَ بْنِ مُسَيْكٍ الْمُرَادِيِّ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَلاَ أُقَاتِلُ مَنْ أَدْبَرَ مِنْ قَوْمِي بِمَنْ أَقْبَلَ مِنْهُمْ؛ فَأَذِنَ لِي فِي قِتَالِهِمْ، وَأَمَّرَنِي فَلَمَّا خَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهِ سَأَلَ عَنِّي: "مَا فَعَلَ الْغُطَيْفِيُّ"؛ فَأُخْبِرَ أَنِّي قَدْ سِرْتُ قَالَ: فَأَرْسَلَ فِي أَثَرِي؛ فَرَدَّنِي؛ فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فَقَالَ: "ادْعُ الْقَوْمَ فَمَنْ أَسْلَمَ مِنْهُمْ؛ فَاقْبَلْ مِنْهُ، وَمَنْ لَمْ يُسْلِمْ؛ فَلاَ تَعْجَلْ حَتَّى أُحْدِثَ إِلَيْكَ" قَالَ: وَأُنْزِلَ فِي سَبَإٍ مَا أُنْزِلَ فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَمَا سَبَأٌ أَرْضٌ أَوْ امْرَأَةٌ؟ قَالَ: "لَيْسَ بِأَرْضٍ وَلا امْرَأَةٍ وَلَكِنَّهُ رَجُلٌ وَلَدَ عَشْرَةً مِنَ الْعَرَبِ فَتَيَامَنَ مِنْهُمْ سِتَّةٌ، وَتَشَائَمَ مِنْهُمْ أَرْبَعَةٌ. فَأَمَّا الَّذِينَ تَشَائَمُوا فَلَخْمٌ وَجُذَامُ، وَغَسَّانُ، وَعَامِلَةُ وَأَمَّا الَّذِينَ تَيَامَنُوا: فَالأُزْدُ، وَالأَشْعَرِيُّونَ، وَحِمْيَرٌ، وَكِنْدَةُ، وَمَذْحِجٌ، وَأنْمَارٌ"، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَمَا أَنْمَارٌ؟ قَالَ: "الَّذِينَ مِنْهُمْ خَثْعَمُ وَبَجِيلَةُ" وَرُوِيَ هَذَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: د/الحروف ۲۰ (۳۹۸۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۲۳) (حسن صحیح)
۳۲۲۲- فروہ بن مسیک مرادی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺکے پاس آیااور عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں اپنی قوم کے ان لوگوں کے ساتھ مل کر جو ایمان لے آئے ہیں ان لوگوں سے نہ لڑوں جو ایمان نہیں لائے ہیں، تو آپ نے مجھے ان سے لڑنے کی اجازت دے دی، اورمجھے میری قوم کا امیر بنادیا، جب میں آپ کے پاس سے اٹھ کر چلاگیا تو آپ نے میرے متعلق پوچھاکہ غطیفی نے کیاکیا؟ آپ کو بتایاگیا کہ میں تو جاچکاہوں، مجھے لوٹا لانے کے لیے میرے پیچھے آپ نے آدمی دوڑا ئے، تو میں آپ کے پاس آگیا، آپ اس وقت اپنے کچھ صحابہ کے درمیان تشریف فرماتھے، آپ نے فرمایا:'' لوگوں کو تم دعوت دو، تو ان میں سے جو اسلام لے آئے اس کے اسلام و ایمان کو قبول کرلو، اور جو اسلام نہ لائے تو اس کے معاملے میں جلدی نہ کرو، یہاں تک کہ میں تمہیں نیا (وتازہ) حکم نہ بھیجوں۔ راوی کہتے ہیں: سبا کے متعلق (کلام پاک میں) جونازل ہوا سوہوا (اسی مجلس کے ) ایک شخص نے پوچھا: اللہ کے رسول! سبا کیا ہے، سبا کوئی سرزمین ہے، یا کسی عورت کانام ہے؟ آپ نے فرمایا:'' وہ نہ کوئی مُلک ہے اور نہ ہی وہ کسی عورت کا نام بلکہ سبا نام کاا یک عربی شخص تھا جس کے دس بچے تھے، جن میں سے چھ کو اس نے باعث خیر وبرکت جانا اور چار سے بد شگونی لی (انہیں منحوس جانا) تو جنہیں اس نے منحوس سمجھا وہ: لخم، جذام، غسّان اور عاملہ ہیں، اورجنہیں مبارک سمجھا وہ اُزد، اشعری، حمیر ، مذحج ، انمار اور کندہ ہیں، ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! انمار کون سا قبیلہ ہے؟ آپ نے فرمایا:'' اسی قبیلہ کی شاخیں خشعم اور بجیلہ ہیں۔ یہ حدیث ابن عباس سے مروی ہے ، وہ اسے نبی اکرمﷺسے روایت کرتے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔


3223- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِذَا قَضَى اللَّهُ فِي السَّمَائِ أَمْرًا ضَرَبَتِ الْمَلاَئِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ كَأَنَّهَا سِلْسِلَةٌ عَلَى صَفْوَانٍ فَـ {إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ } قَالَ: وَالشَّيَاطِينُ بَعْضُهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/تفسیر سورۃ الحجر ۱ (۴۷۰۱)، والتوحید ۳۲ (۷۴۸۱)، د/الحروف ۲۱ (۳۹۸۹)، ق/المقدمۃ ۱۳ (۱۹۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۴۹) (صحیح)
۳۲۲۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جب اللہ آسمان پرکسی معاملے کا حکم وفیصلہ صادر فرماتاہے تو فرشتے عجزوانکساری کے ساتھ (حکم برداری کے جذبہ سے) اپنے پر ہلاتے ہیں۔ ان کے پرہلانے سے پھڑپھڑا نے کی ایسی آواز پیدا ہوتی ہے گویا کہ زنجیر پتھرپر گھسٹ رہی ہے، پھرجب ان کے دلوں کی گھبراہٹ جاتی رہتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں:حق بات کہی ہے۔ وہی بلند وبالاہے ، آپ نے فرمایا:'' شیاطین (زمین سے آسمان تک ) یکے بعد دیگرے (اللہ کے احکام اور فیصلوں کو اچک کر اپنے چیلوں تک پہنچانے کے لیے تاک وانتظار میں)لگے رہتے ہیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ ارشادباری تعالیٰ {وَلاَ تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلاَّ لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ } (سبأ:23) کی طرف اشارہ ہے۔


3224- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ جَالِسٌ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ إِذْ رُمِيَ بِنَجْمٍ؛ فَاسْتَنَارَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ لِمِثْلِ هَذَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا رَأَيْتُمُوهُ" قَالُوا: كُنَّا نَقُولُ يَمُوتُ عَظِيمٌ أَوْ يُولَدُ عَظِيمٌ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "فَإِنَّهُ لاَ يُرْمَى بِهِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ وَلَكِنَّ رَبَّنَا عَزَّ وَجَلَّ إِذَا قَضَى أَمْرًا سَبَّحَ لَهُ حَمَلَةُ الْعَرْشِ، ثُمَّ سَبَّحَ أَهْلُ السَّمَائِ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ حَتَّى يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ إِلَى هَذِهِ السَّمَائِ، ثُمَّ سَأَلَ أَهْلُ السَّمَائِ السَّادِسَةِ أَهْلَ السَّمَائِ السَّابِعَةِ: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ: قَالَ: فَيُخْبِرُونَهُمْ، ثُمَّ يَسْتَخْبِرُ أَهْلُ كُلِّ سَمَائٍ حَتَّى يَبْلُغَ الْخَبَرُ أَهْلَ السَّمَائِ الدُّنْيَا، وَتَخْتَطِفُ الشَّيَاطِينُ السَّمْعَ؛ فَيُرْمَوْنَ؛ فَيَقْذِفُونَهُ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ فَمَا جَائُوا بِهِ عَلَى وَجْهِهِ فَهُوَ حَقٌّ وَلَكِنَّهُمْ يُحَرِّفُونَهُ وَيَزِيدُونَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۲۸۵) (صحیح)
3224/م- وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ رِجَالٍ مِنْ الأَنْصَارِ قَالُوا: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَذَكَرَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۲۲۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺصحابہ کرام کی ایک جماعت میں تشریف فرماتھے کہ یکایک ایک تارہ ٹوٹاجس سے روشنی پھیل گئی، رسول اللہ ﷺنے لوگوں سے پوچھا: زمانہء جاہلیت میں جب تم لوگ ایسی کوئی چیز دیکھتے تو کیا کہتے تھے؟ انہوں نے کہا: ہم کہتے تھے کوئی بڑا آدمی مرے گا یا کوئی بڑی شخصیت جنم لے گی ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' یہ کسی کے مرنے کی وجہ سے نہیں ٹوٹتا ، بلکہ اللہ بزرگ وبرتر جب کسی امر کا فیصلہ کرتاہے تو عرش کو اٹھانے والے فرشتے تسبیح وتہلیل کرتے ہیں، پھر ان سے قریبی آسمان کے فرشتے تسبیح کرتے ہیں، پھر ان سے قریبی ، اس طرح تسبیح کا یہ غلغلہ ہمارے اس آسمان تک آپہنچتا ہے، چھٹے آسمان والے فرشتے ساتویں آسمان والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں: تمہارے رب نے کیا کہاہے؟ (کیا حکم صادر فرمایا ہے؟) تو وہ انہیں بتاتے ہیں، پھر اسی طرح ہر نیچے آسمان والے اوپر کے آسمان والوں سے پوچھتے ہیں، اس طرح بات دنیا سے قریبی آسمان والوں تک آپہنچتی ہے۔ اور کی جانے والی بات چیت کوشیاطین اچک لیتے ہیں۔(جب وہ اچکنے کی کوشش کرتے ہیں تو سننے سے بازرکھنے کے لیے تارہ پھینک کر )انہیں مارا جاتا ہے اور وہ اسے (اُچکی ہوئی بات کو) اپنے یاروں (کاہنوں) کی طرف پھینک دیتے ہیں تو وہ جیسی ہے اگرویسی ہی اسے پہنچا تے ہیں تو وہ حق ہوتی ہے، مگر لوگ اسے بدل دیتے اور گھٹابڑھادیتے ہیں ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۳۲۲۴/م- یہ حدیث زہری سے بطریق: علی بن الحسین، عن ابن عباس، عن رجال من الأنصار''مروی ہے کہتے ہیں: ہم نبی اکرمﷺ کے پاس تھے، آگے انہوں نے اسی کی ہم معنی حدیث بیان کی۔
وضاحت ۱؎ : مولف نے یہ حدیث سابقہ آیت ہی کی تفسیرمیں ذکرکی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
36-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْمَلاَئِكَةِ
۳۶-باب: سورہ فاطر( ملائکہ) سے بعض آیات کی تفسیر​


3225- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى، مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلاً مِنْ ثَقِيفٍ يُحَدِّثُ عَنْ رَجُلٍ مِنْ كِنَانَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ فِي هَذِهِ الآيَةِ: {ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ} قَالَ: "هَؤُلاَئِ كُلُّهُمْ بِمَنْزِلَةٍ وَاحِدَةٍ وَكُلُّهُمْ فِي الْجَنَّةِ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۴۴۶) (صحیح)
۳۲۲۵- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺنے اس آیت {ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ} ۱؎ کے سلسلے میں فرمایا:'' یہ سب ایک ہی درجے میں ہوں گے اور یہ سب کے سب جنت میں جانے والے لوگ ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : پھر ہم نے اللہ کے حکم سے کتاب کا وارث ان لوگوں کو بنادیاجن کوہم نے اپنے بندوں میں سے منتخب کیاتھا، توا ن میں سے بعض تو خود اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہیں، اور بعض میانہ روی اختیار کرنے والے ہیں اور ان میں سے بعض نیکی وبھلائی کے کاموں میں سبقت لے جانے والے لوگ ہیں(فاطر:۳۲)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
37-بَاب وَمِنْ سُورَةِ يس
۳۷-باب: سورہ یٓس سے بعض آیات کی تفسیر​


3226- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَزِيرٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الأَزْرَقُ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: كَانَتْ بَنُو سَلَمَةَ فِي نَاحِيَةِ الْمَدِينَةِ فَأَرَادُوا النُّقْلَةَ إِلَى قُرْبِ الْمَسْجِدِ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةَ: {إِنَّا نَحْنُ نُحْيِ الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ }[يس: 12] فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ آثَارَكُمْ تُكْتَبُ فَلاَ تَنْتَقِلُوا".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ وَأَبُو سُفْيَانَ هُوَ طَرِيفٌ السَّعْدِيُّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۳۵۸) (صحیح)
۳۲۲۶- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : بنوسلمہ (قبیلہ کے لوگ) مدینہ کے کسی نواحی علاقہ میں رہتے تھے۔ انہوں نے وہاں سے منتقل ہوکر مسجد (نبوی) کے قریب آکر آباد ہونے کا ارادہ کیا تویہ آیت {إِنَّا نَحْنُ نُحْيِ الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ} ۱؎ نازل ہوئی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تمہارے قدم لکھے جاتے ہیں،اس لیے تم اپنے گھر نہ بدلو''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ثوری سے مروی یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : ہم مردوں کو زندہ کرتے ہیں اوروہ جو آگے بھیجتے ہیں اسے ہم لکھ لیتے ہیں اور (مسجد کی طرف آنے وجانے والے) آثار قدم بھی ہم (گن کر) لکھ لیتے ہیں(یٓس:۱۲)۔


3227- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ وَالنَّبِيُّ ﷺ جَالِسٌ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "أَتَدْرِي يَا أَبَا ذَرٍّ! أَيْنَ تَذْهَبُ هَذِهِ؟" قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: "فَإِنَّهَا تَذْهَبُ فَتَسْتَأْذِنُ فِي السُّجُودِ؛ فَيُؤْذَنُ لَهَا وَكَأَنَّهَا قَدْ قِيلَ لَهَا: اطْلُعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ؛ فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِهَا" قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ: {وَذَلِكَ مُسْتَقَرٌّ} لَهَا قَالَ وَذَلِكَ فِي قِرَائَةِ عَبْدِ اللَّهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۱۸۶ (صحیح)
۳۲۲۷- ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں مسجد میں سورج ڈوبنے کے وقت داخل ہوا ، آپ وہاں تشریف فرماتھے۔ آپ نے فرمایا:'' ابوذر!کیا تم جانتے ہو یہ (سورج) کہاں جاتاہے؟''، ابوذر کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی کومعلوم ، آپ نے فرمایا:'' وہ جاکر سجدہ کی اجازت مانگتاہے تو اسے اجازت دے دی جاتی ہے گویا کہ اس سے کہاجاتاہے وہیں سے نکلو جہاں سے آئے ہو۔ پھر وہ (قیامت کے قریب) اپنے ڈوبنے کی جگہ سے نکلے گا ۔ ابوذر کہتے ہیں:پھر آپ نے {وَذَلِكَ مُسْتَقَرٌّ لَهَا} (یہی اس کے ٹھہر نے کی جگہ ہے) پڑھا ۔ راوی کہتے ہیں: یہی عبداللہ بن مسعود کی قرأت ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : مشہورقراء ت ہے وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ} ( يــس : 38)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
38-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الصَّافَّاتِ
۳۸-باب: سورہ الصافات سے بعض آیات کی تفسیر​


3228- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ بِشْرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَا مِنْ دَاعٍ دَعَا إِلَى شَيْئٍ إِلاَّ كَانَ مَوْقُوفًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ لاَزِمًا بِهِ لاَ يُفَارِقُهُ، وَإِنْ دَعَا رَجُلٌ رَجُلاً"، ثُمَّ قَرَأَ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ مَا لَكُمْ لاَ تَنَاصَرُونَ}[الصافات: 24-25].
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۴۸) (ضعیف)
(سندمیں لیث بن ابی سلیم ضعیف ہیں)
۳۲۲۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس کسی نے بھی کسی چیز کی طرف دعوت دی قیامت کے دن وہ اسی کے ساتھ چمٹااورٹھہرا رہے گا، وہ اسے چھوڑ کر آگے نہیں جاسکتا اگر چہ ایک آدمی نے ایک آدمی ہی کو بلایاہو'' پھر آپ نے آیت {وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ مَا لَكُمْ لاَتَنَاصَرُونَ} ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : انہیں روک لو، ان سے پوچھاجائے گا: کیا بات ہے؟ تم لوگ ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے؟ (الصافات: ۲۴-۲۵ ) ۔


3229- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَى مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ}[الصافات: 147] قَالَ: عِشْرُونَ أَلْفًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵) (ضعیف الإسناد)
(اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے)
۳۲۲۹- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے آیت کریمہ: {وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَى مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ} ۱؎ کے بارے میں پوچھاتوآپ نے فرمایا: '' ایک لاکھ بیس ہزار تھے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : ہم نے انہیں (یعنی یونس کو) ایک لاکھ بلکہ اس سے کچھ زیادہ کی طرف بھیجا (الصافات:۷۷)۔


3230- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِ اللَّهِ: {وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهُ هُمُ الْبَاقِينَ} قَالَ: "حَامٌ وَسَامٌ وَيَافِثُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: يُقَالُ: يَافِتُ وَيَافِثُ بِالتَّائِ وَالثَّائِ وَيُقَالُ يَفِثُ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَنَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ بَشِيرٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۶۰۵) (ضعیف الإسناد)
(حسن بصری کے سمرہ رضی اللہ عنہ سے سماع میں سخت اختلاف ہے، نیز حسن مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کیے ہوئے ہیں)
۳۲۳۰- سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے اللہ تعالیٰ کے قول { وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهُ هُمُ الْبَاقِينَ } ۱؎ کی تفسیر میں فرمایا:'' (نوح کے تین بیٹے) حام ، سام اور یافث تھے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ، ہم اسے صرف سعید بن بشیر کی روایت سے ہی جانتے ہیں، ۲-یافت ''ت'' سے اور یافث ''ث'' سے دونوں طرح سے کہاجاتاہے '' یفث'' بھی کہاجاتاہے۔
وضاحت ۱؎ : ہم نے نوح ہی کی اولاد کو باقی رکھا(الصافات :۷۷)۔


3231- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "سَامٌ أَبُو الْعَرَبِ وَحَامٌ أَبُو الْحَبَشِ وَيَافِثُ أَبُو الرُّومِ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۶۰۶) (ضعیف)
(دیکھیے پچھلی حدیث کا بیان)
۳۲۳۱- سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:''سام ابوالعرب (عربوں کے باپ) ہیں اور حام ابوالحبش (اہل حبشہ کے باپ) ہیں اور یافث ابوالروم (رومیوں کے باپ) ہیں''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
39-بَاب وَمِنْ سُورَةِ ص
۳۹-باب: سورہ ''ص'' سے بعض آیات کی تفسیر​


3232- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ -الْمَعْنَى وَاحِدٌ-، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُوأَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ يَحْيَى قَالَ عَبْدٌ: -هُوَ ابْنُ عَبَّادٍ-، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَرِضَ أَبُو طَالِبٍ؛ فَجَاءَتْهُ قُرَيْشٌ، وَجَاءَهُ النَّبِيُّ ﷺ وَعِنْدَ أَبِي طَالِبٍ مَجْلِسُ رَجُلٍ فَقَامَ أَبُو جَهْلٍ كَيْ يَمْنَعَهُ، وَشَكَوْهُ إِلَى أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي! مَا تُرِيدُ مِنْ قَوْمِكَ؟ قَالَ: "إِنِّي أُرِيدُ مِنْهُمْ كَلِمَةً وَاحِدَةً تَدِينُ لَهُمْ بِهَا الْعَرَبُ، وَتُؤَدِّي إِلَيْهِمُ الْعَجَمُ الْجِزْيَةَ"، قَالَ: كَلِمَةً وَاحِدَةً؟ قَالَ: "كَلِمَةً وَاحِدَةً" قَالَ: "يَا عَمِّ! قُولُوا لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ" فَقَالُوا: إِلَهًا وَاحِدًا {مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الآخِرَةِإِنْ هَذَا إِلا اخْتِلاقٌ} قَالَ: فَنَزَلَ فِيهِمْ الْقُرْآنُ: {ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ. بَلْ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ -إِلَى قَوْلِهِ- مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلاَّ اخْتِلاَقٌ}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الأَعْمَشِ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ. و قَالَ: يَحْيَى بْنُ عِمَارَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۵۶۴۵، و۵۶۴۷) (ضعیف الإسناد) (سندمیں یحییٰ بن عباد یا یحیی بن عمارہ لین الحدیث راوی ہیں)
3232/م- حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ نَحْوَهُ عَنْ الأَعْمَشِ.
* تخريج : انظر ماقبلہ (ضعیف الإسناد)
۳۲۳۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : ابوطالب بیمار پڑے، تو قریش ان کے پاس آئے، اور نبی اکرم ﷺ بھی آئے، ابوطالب کے پاس صرف ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ تھی، ابوجہل اٹھاکہ وہ آپ کو وہاں بیٹھنے سے روک دے، اوران سب نے ابوطالب سے آپ کی شکایت کی، ابوطالب نے آپ سے کہا: بھتیجے!تم اپنی قوم سے کیاچاہتے ہو؟ آپ نے فرمایا:'' میں ان سے صرف ایک ایساکلمہ تسلیم کرانا چاہتاہوں جسے یہ قبول کرلیں تو اس کلمہ کے ذریعہ پورا عرب مطیع وفرماں بردارہوجائے گا اور عجم کے لوگ انہیں جزیہ اداکریں گے، انہوں نے کہا: ایک ہی کلمہ؟ آپ نے فرمایا:'' ہاں، ایک ہی کلمہ''، آپ نے فرمایا:'' چچا جان ! آپ لوگ لا إلہ الا اللہ کہہ دیجئے ، انہوں نے کہا : ایک معبود کوتسلیم کرلیں؟ یہ بات توہم نے اگلے لوگوں میں نہیں سنی ہے، یہ تو صرف بناوٹی اور (تمہاری) گھڑی ہوئی بات ہے، (ہم یہ بات تسلیم نہیں کرسکتے) ابن عباس کہتے ہیں: اسی پر ان ہی لوگوں سے متعلق سورہ ''ص'' کی آیات {ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ} {مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلاَّ اخْتِلاَقٌ } ۱؎ تک نازل ہوئیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- یحییٰ بن سعید نے بھی سفیان سے ، سفیان نے اعمش سے اسی حدیث کے مثل حدیث بیان کی،اور یحیی بن سعید نے یحیی بن عباد کے بجائے '' یحییٰ بن عمارہ'' کہا۔
۳۲۳۲/م- اس سندسے سفیان ثوری نے أعمش سے اسی طرح روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : صٓ ،اس نصیحت والے قرآن کی قسم،بلکہ کفارغرورومخالفت میں پڑے ہوئے ہیں، ہم نے ان سے پہلے بھی بہت سی امتوں کوتباہ کرڈالا، انہوں نے ہرچندچیخ وپکارکی لیکن وہ چھٹکارے کا نہ تھا اور کافروں کو اس بات پرتعجب ہواکہ انہیں میں سے ایک انہیں ڈرانے والاآگیااورکہنے لگے کہ یہ تو جادوگراورجھوٹاہے ، کیا اس نے سارے معبودوں کا ایک ہی معبودکردیا،واقعی یہ تو بہت ہی عجیب بات ہے ، ان کے سرداریہ کہتے ہوئے چلے کہ چلوجی اوراپنے معبودوں پر جمے رہویقینااس بات میں تو کوئی غرض ہے ، ہم نے تو یہ بات پچھلے دین میں بھی نہیں سنی،کچھ نہیں یہ تو صرف گھڑنت ہے(ص: ۱-۷)۔


3233- حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَتَانِي اللَّيْلَةَ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ قَالَ: أَحْسَبُهُ قَالَ: فِي الْمَنَامِ؛ فَقَالَ: يَامُحَمَّدُ! هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَى؟ قَالَ: قُلْتُ: لا، قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ، أَوْ قَالَ فِي نَحْرِي؛ فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ! هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَى؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ فِي الْكَفَّارَاتِ وَالْكَفَّارَاتُ الْمُكْثُ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ، وَالْمَشْيُ عَلَى الأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ، وَإِسْبَاغُ الْوُضُوئِ فِي الْمَكَارِهِ، وَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ عَاشَ بِخَيْرٍ، وَمَاتَ بِخَيْرٍ، وَكَانَ مِنْ خَطِيئَتِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ، وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! إِذَا صَلَّيْتَ فَقُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ، وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ، وَإِذَا أَرَدْتَ بِعِبَادِكَ فِتْنَةً؛ فَاقْبِضْنِي إِلَيْكَ غَيْرَ مَفْتُونٍ قَالَ: وَالدَّرَجَاتُ إِفْشَائُ السَّلامِ، وَإِطْعَامُ الطَّعَامِ، وَالصَّلاَةُ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ ذَكَرُوا بَيْنَ أَبِي قِلابَةَ وَبَيْنَ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ رَجُلا، وَقَدْ رَوَاهُ قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلاجِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۴۱۷) (صحیح)
۳۲۳۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میرا بزرگ وبرتر رب بہترین صورت میں میرے پاس آیا- مجھے خیال پڑتاہے کہ آپ نے فرمایا:'' -خواب میں- رب کریم نے کہا: اے محمد! کیا تمہیں معلوم ہے کہ ملا ٔ اعلی (اونچے مرتبے والے فرشتے) کس بات پر آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں''، آپ نے فرمایا:'' میں نے کہاکہ میں نہیں جانتا تو اللہ نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے بیچ میں رکھ دیا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنی چھاتیوں کے درمیان محسوس کی، یا اپنے سینے میں یا (نحری)کہا، (ہاتھ کندھے پررکھنے کے بعد) آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، وہ میں جان گیا، رب کریم نے کہا: اے محمد! کیاتم جانتے ہو ملا ٔ اعلی میں کس بات پر جھگڑا ہورہاہے، (بحث وتکرار ہورہی ہے) ؟ میں نے کہا: ہاں، کفارات گناہوں کو مٹادینے والی چیزوں کے بارے میں (کہ وہ کون کون سی چیزیں ہیں؟) (فرمایا:'')کفارات یہ ہیں: (۱) صلاۃ کے بعد مسجد میں بیٹھ کر دوسری صلاۃ کا انتظار کرنا، (۲) پیروں سے چل کر صلاۃ باجماعت کے لیے مسجد میں جانا، (۳) ناگواری کے باوجود باقاعدگی سے وضوکرنا، جو ایسا کرے گا بھلائی کی زندگی گزارے گا، اور بھلائی کے ساتھ مرے گا اور اپنے گناہوں سے اس طرح پاک وصاف ہوجائے گا جس طرح وہ اس دن پاک وصاف تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا، رب کریم کہے گا: اے محمد! جب تم صلاۃ پڑھ چکو تو کہو :'' اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ وَإِذَا أَرَدْتَ بِعِبَادِكَ فِتْنَةً فَاقْبِضْنِي إِلَيْكَ غَيْرَ مَفْتُونٍ '' ۱؎ آپ نے فرمایا:'' درجات بلند کرنے والی چیزیں (۱) سلام کو پھیلانا عام کرنا ہے، (۲) (محتاج ومسکین) کو کھانا کھلانا ہے، (۳) رات کو تہجدپڑھنا ہے کہ جب لوگ سورہے ہوں '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- کچھ محدثین نے ابوقلابہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کے درمیان اس حدیث میں ایک شخص کا ذکر کیا ہے۔(اوروہ خالدبن لجلاج ہیں ان روایت کے آگے آرہی ہے)۲- اس حدیث کوقتادہ نے ابوقلابہ سے روایت کی ہے اور ابوقلابہ نے خالد بن لجلاج سے ، اورخالدبن لجلاج نے ابن عباس سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اے اللہ میں تجھ سے بھلے کام کرنے کی توفیق طلب کرتاہوں، اور ناپسندیدہ و منکر کاموں سے بچنا چاہتاہوں اور مسکینوں سے محبت کرنا چاہتاہوں، اور جب تواپنے بندوں کو کسی آزمائش میں ڈالنا چاہیے تو فتنے میں ڈالے جانے سے پہلے مجھے اپنے پاس بلالے۔
وضاحت ۲؎ : مولف نے اس حدیث کو ارشادباری تعالیٰ {مَا كَانَ لِي مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلإِ الأَعْلَى إِذْ يَخْتَصِمُونَ}(ص:69) کی تفسیرمیں ذکرکیا ہے۔


3234- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلاَجِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "أَتَانِي رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَبِّ، وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَى؟ قُلْتُ: رَبِّ لاَ أَدْرِي؛ فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ؛ فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ؛ فَعَلِمْتُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ؛ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! فَقُلْتُ: لَبَّيْكَ رَبِّ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَى؟ قُلْتُ: فِي الدَّرَجَاتِ وَالْكَفَّارَاتِ، وَفِي نَقْلِ الأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ، وَإِسْبَاغِ الْوُضُوئِ فِي الْمَكْرُوهَاتِ، وَانْتِظَارِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الصَّلاةِ، وَمَنْ يُحَافِظْ عَلَيْهِنَّ عَاشَ بِخَيْرٍ، وَمَاتَ بِخَيْرٍ وَكَانَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَائِشٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِطُولِهِ وَقَالَ: "إِنِّي نَعَسْتُ؛ فَاسْتَثْقَلْتُ نَوْمًا فَرَأَيْتُ رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ فَقَالَ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَى".
* تخريج: انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۵۷۸۷) (صحیح)
۳۲۳۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' مجھے میرا رب(خواب میں) بہترین صورت میں نظر آیا،اور اس نے مجھ سے کہا: محمد! میں نے کہا : میرے رب ! میں تیری خدمت میں حاضر وموجود ہوں، کہا: اونچے مرتبے والے فرشتوں کی جماعت کس بات پر جھگڑ رہی ہے؟ میں نے عرض کیا: رب! میں نہیں جانتا، (اس پر) میرے رب نے اپنا دست شفقت وعزت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھاجس کی ٹھنڈک میں نے اپنی چھاتیوں کے درمیان (سینے میں) محسوس کی، اور مجھے مشرق ومغرب کے درمیان کی چیزوں کا علم حاصل ہوگیا، (پھر) کہا: محمد! میں نے عرض کیا: رب ! میں حاضر ہوں، اور تیرے حضور میری موجود گی میری خوش بختی ہے۔ فرمایا:''فرشتوں کی اونچے مرتبے والی جماعت کس بات پرجھگڑ رہی ہے؟ میں نے کہا: انسان کا درجہ ومرتبہ بڑھانے والی اور گناہوں کو مٹانے والی چیزوں کے بارے میں (کہ وہ کیاکیا ہیں) تکرار کررہے ہیں، جماعتوں کی طرف جانے کے لیے اٹھنے والے قدموں کے بارے میں اور طبیعت کے نہ چاہتے ہوئے بھی مکمل وضو کرنے کے بارے میں۔ اور ایک صلاۃ پڑھ کر دوسری صلاۃ کاانتظار کرنے کے بارے میں، جو شخص ان کی پابندی کرے گا وہ بھلائی کے ساتھ زندگی گزارے گا، اور خیر (بھلائی) ہی کے ساتھ مرے گا، اور اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک وصاف ہوجائے گا جس دن کہ ان کی ماں نے جنا تھا، اور وہ گناہوں سے پاک وصاف تھا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲- اس باب میں معاذ بن جبل اور عبدالرحمن بن عائش رضی اللہ عنہما ۱؎ کی بھی نبی اکرمﷺسے روایت ہے، اور اس پوری لمبی حدیث کومعاذ بن جبل نے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا، (اس میں ہے) میں نے ذراسی اونگھ لی، تو مجھے گہری نیند آگئی، پھر میں نے اپنے رب کو بہترین صورت میں دیکھا، میرے رب نے کہا: ''فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَى'' فرشتوں کی (سب سے اونچے مرتبے کی جماعت) کس بات پر لڑ جھگڑ رہی ہے؟
وضاحت ۱؎ : معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی حدیث توخودمؤلف کے یہاں آرہی ہے ، اورعبدالرحمن بن عائش رضی اللہ عنہ کی حدیث بغوی کی شرح السنہ میں ہے ،ان عبدالرحمن بن عائش کی صحابیت کے بارے میں اختلاف ہے، صحیح یہی معلوم ہوتاہے کہ صحابی نہیں ہیں، معاذکی اگلی حدیث بھی انہی کے واسطہ سے ہے اوران کے اورمعاذکے درمیان بھی ایک راوی ہے ۔


3235- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هَانِئٍ أَبُو هَانِئٍ الْيَشْكُرِيُّ، حَدَّثَنَا جَهْضَمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ سَلامٍ، عَنْ أَبِي سَلامٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَايِشٍ الْحَضْرَمِيِّ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنْ مَالِكِ بْنِ يَخَامِرَ السَّكْسَكِيِّ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: احْتُبِسَ عَنَّا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ذَاتَ غَدَاةٍ عَنْ صَلاةِ الصُّبْحِ حَتَّى كِدْنَا نَتَرَائَى عَيْنَ الشَّمْسِ؛ فَخَرَجَ سَرِيعًا؛ فَثُوِّبَ بِالصَّلاةِ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَتَجَوَّزَ فِي صَلاتِهِ؛ فَلَمَّا سَلَّمَ دَعَا بِصَوْتِهِ فَقَالَ لَنَا: "عَلَى مَصَافِّكُمْ كَمَا أَنْتُمْ"، ثُمَّ انْفَتَلَ إِلَيْنَا ثُمَّ قَالَ: "أَمَا إِنِّي سَأُحَدِّثُكُمْ مَا حَبَسَنِي عَنْكُمْ الْغَدَاةَ أَنِّي قُمْتُ مِنْ اللَّيْلِ؛ فَتَوَضَّأْتُ، وَصَلَّيْتُ مَا قُدِّرَ لِي؛ فَنَعَسْتُ فِي صَلاتِي؛ فَاسْتَثْقَلْتُ؛ فَإِذَا أَنَا بِرَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ؛ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَبِّ قَالَ: فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَى؟ قُلْتُ: لاأَدْرِي رَبِّ قَالَهَا ثَلاثًا، قَالَ: فَرَأَيْتُهُ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ أَنَامِلِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ؛ فَتَجَلَّى لِي كُلُّ شَيْئٍ، وَعَرَفْتُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَبِّ قَالَ: فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَى؟ قُلْتُ: فِي الْكَفَّارَاتِ قَالَ: مَا هُنَّ؟ قُلْتُ: مَشْيُ الأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ، وَالْجُلُوسُ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ، وَإِسْبَاغُ الْوُضُوئِ فِي الْمَكْرُوهَاتِ، قَالَ: ثُمَّ فِيمَ قُلْتُ: إِطْعَامُ الطَّعَامِ، وَلِينُ الْكَلامِ، وَالصَّلاةُ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ، قَالَ: سَلْ قُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ، وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ، وَأَنْ تَغْفِرَ لِي، وَتَرْحَمَنِي، وَإِذَا أَرَدْتَ فِتْنَةَ قَوْمٍ؛ فَتَوَفَّنِي غَيْرَ مَفْتُونٍ أَسْأَلُكَ حُبَّكَ، وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ، وَحُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُ إِلَى حُبِّكَ " قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّهَا حَقٌّ فَادْرُسُوهَا ثُمَّ تَعَلَّمُوهَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. سَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، و قَالَ: هَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ اللَّجْلاجِ حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَايِشٍ الْحَضْرَمِيُّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَهَذَا غَيْرُ مَحْفُوظٍ هَكَذَا ذَكَرَ الْوَلِيدُ فِي حَدِيثِهِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَايِشٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَرَوَى بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ هَذَا الْحَدِيثَ بِهَذَا الإِسْنَادِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَايِشٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَهَذَا أَصَحُّ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَايِشٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنَ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۶۲) (صحیح)
۳۲۳۵ - معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک صبح رسول اللہ ﷺنے ہمیں صلاۃ پڑھانے سے روکے رکھا، یہاں تک کہ قریب تھا کہ ہم سورج کی ٹکیہ کو دیکھ لیں، پھرآپ تیزی سے (حجرہ سے) باہر تشریف لائے ، لوگوں کو صلاۃ کھڑی کرنے کے لیے بلایا، آپ نے صلاۃ پڑھائی، اور صلاۃ مختصر کی ، پھر جب آپ نے سلام پھیراتو آواز دے کر لوگوں کو (اپنے قریب) بلایا، فرمایا: اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤ ، پھر آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے، آپ نے فرمایا:'' میں آپ حضرات کو بتاؤں گا کہ فجرمیں بروقت مجھے تم لوگوں کے پاس مسجد میں پہنچنے سے کس چیز نے روک لیا، میں رات میں اٹھا، وضوکیا، (تہجد کی) صلاۃ پڑھی جتنی بھی میرے نام لکھی گئی تھی، پھر میں صلاۃ میں اونگھنے لگا یہاں تک کہ مجھے گہری نیند آگئی، اچانک کیا دیکھتاہوں کہ میں اپنے بزرگ وبرتر رب کے ساتھ ہوں و ہ بہتر صورت وشکل میں ہے، اس نے کہا: اے محمد! میں نے کہا: میرے رب! میں حاضر ہوں، اس نے کہا: ملا ٔعلی (فرشتوں کی اونچے مرتبے والی جماعت) کس بات پر جھگڑرہی ہے؟ میں نے عرض کیا: رب کریم میں نہیں جانتا، اللہ تعالیٰ نے یہ بات تین بار پوچھی، آپ نے فرمایا:'' میں نے اللہ ذوالجلال کودیکھا کہ اس نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا یہاں تک کہ میں نے اس کی انگلیوں کی ٹھنڈک اپنے سینے کے اندر محسوس کی، ہرچیز میرے سامنے روشن ہوکرآگئی، اور میں جان گیا (اورپہچان گیا) پھر اللہ عزوجل نے فرمایا: اے محمد! میں نے کہا: رب! میں حاضر ہوں ، اس نے کہا: ملا ٔاعلی کے فرشتے کس بات پرجھگڑ رہے ہیں؟ میں نے کہا: کفارات کے بارے میں، اس نے پوچھا : وہ کیاہیں؟ میں نے کہا: صلاۃ باجماعت کے لیے پیروں سے چل کرجانا، صلاۃ کے بعد مسجد میں بیٹھ کر (دوسری صلاۃکے انتظارمیں ) رہنا، ناگواری کے وقت بھی مکمل وضو کرنا ، اس نے پوچھا: پھر کس چیزکے بارے میں (بحث کررہے ہیں) ؟ میں نے کہا: (محتاجوں اورضرورت مندوں کو) کھانا کھلانے کے بارے میں، نرم بات چیت میں،جب لوگ سورہے ہوں اس وقت اٹھ کر صلاۃ پڑھنے کے بارے میں، رب کریمنیفرمایا: مانگو(اور مانگتے وقت کہو) کہو: ''اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ وَأَنْ تَغْفِرَ لِي وَتَرْحَمَنِي وَإِذَا أَرَدْتَ فِتْنَةَ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِي غَيْرَ مَفْتُونٍ أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَحُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُ إِلَى حُبِّكَ'' ۱؎ ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' یہ حق ہے، اسے پڑھو یاد کرو اور دوسروں کو پڑھاؤ سکھاؤ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہاکہ یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور یہ بھی کہا کہ یہ حدیث ولید بن مسلم کی اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جسے وہ عبدالرحمن بن یزیدبن جابر سے روایت کرتے ہیں، کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا خالد بن لجلاج نے، وہ کہتے ہیں : مجھ سے بیان کیاعبدالرحمن بن عائش حضرمی نے،وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آگے یہی حدیث بیان کی، اور یہ غیر محفوظ ہے، ولیدنے اسی طرح اپنی حدیث میں جسے انہوں نے عبدالرحمن بن عائش سے روایت کیا ہے ذکر کیا ہے ، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا، جبکہ بشر بن بکر نے ، روایت کیاعبدالرحمن بن یزید بن جابر سے، یہ حدیث اسی سند کے ساتھ، انہوں نے راویت کیا، عبدالرحمن بن عائش سے اورعبدالرحمن نے نبی اکرم ﷺ سے(بلفظ ''عن'' اور یہ زیادہ صحیح ہے، کیونکہ عبدالرحمن بن عائش نے نبی اکرمﷺسے نہیں سنا ہے۔
وضاحت ۱؎ : اے اللہ ! میں تجھ سے بھلے کاموں کے کرنے اور منکرات (ناپسندیدہ کاموں) سے بچنے کی توفیق طلب کرتاہوں، اور مساکین سے محبت کرنا چاہتاہوں، اور چاہتاہوں کہ تجھے معاف کردے اور مجھ پر رحم فرما، اور جب تو کسی قوم کو آزمائش میں ڈالنا چاہے، تومجھے تو فتنہ میں ڈالنے سے پہلے موت دے دے، میں تجھ سے اور اس شخص سے جو تجھ سے محبت کرتاہو، محبت کرنے کی توفیق طلب کرتاہوں، اور تجھ سے ایسے کام کرنے کی توفیق چاہتاہوں جو کام تیری محبت کے حصول کا سبب بنے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
40-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الزُّمَرِ
۴۰-باب: سورہ زمر سے بعض آیات کی تفسیر​


3236- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ}[الزمر: 31] قَالَ الزُّبَيْرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَتُكَرَّرُ عَلَيْنَا الْخُصُومَةُ بَعْدَ الَّذِي كَانَ بَيْنَنَا فِي الدُّنْيَا، قَالَ: نَعَمْ؛ فَقَالَ: "إِنَّ الأَمْرَ إِذًا لَشَدِيدٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۶۲۹) (حسن)
۳۲۳۶- عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اپنے باپ (زبیر)سے روایت کرتے ہیں کہ جب آیت {ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ } ۱؎ نازل ہوئی تو زبیربن عوام رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اس دنیا میں ہمارا آپس میں جو لڑائی جھگڑا ہے اس کے بعد بھی دوبارہ ہمارے درمیان (آخرت میں) لڑائی جھگڑے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا:'' ہاں، انہوں نے کہا: پھر تو معاملہ بڑا سخت ہوگا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : پھر تم قیامت کے دن اپنے رب کے پاس توحید وشرک کے سلسلے میں) جھگڑرہے ہوگے(الروم:۳۱)۔


3237- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلاَلٍ وَسُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقْرَأُ يَا {عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لاَ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا}[الزمر: 53] وَلاَ يُبَالِي.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ ثَابِتٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ: وَشَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ يَرْوِي عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ الأَنْصَارِيَّةِ وَأُمُّ سَلَمَةَ الأَنْصَارِيَّةُ هِيَ أَسْمَائُ بِنْتُ يَزِيدَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۷۱) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں ''شہر بن حوشب'' ضعیف ہیں)
۳۲۳۷- اسماء بنت یزید کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو آیت {يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لاَ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا} ۱؎ پڑھتے ہوئے سناہے۔ اللہ کوئی غم اور فکر نہیں ہوتی (کہ اللہ کی اس چھوٹ اور مہربانی سے کون فائدہ اٹھارہا ہے اور کون محروم رہ رہاہے) ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ہم اسے صرف ثابت کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ شہر بن حوشب سے روایت کرتے ہیں،۳- شہر بن حوشب ام سلمہ انصاریہ سے روایت کرتے ہیں، اور ام سلمہ انصاریہ اسماء بنت یزید ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے (یعنی گناہ کیے ہیں) اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوؤ، اللہ سبھی گناہ معاف کردیتاہے(الزمر:۵۳)۔
وضاحت ۲؎ : احمدکی روایت میں'' لا يبالي''کے بعدآیت کا اگلاٹکڑابھی ہے {إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ}(الشورى : 5) صاحب تحفہ الأحوذی فرماتے ہیں: شایدپہلے ''لایبالی''کا لفظ بھی آیت میں شامل تھا جو بعد میں منسوخ ہوگیا۔


3238- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ وَسُلَيْمَانُ الأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: جَاءَ يَهُودِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ عَلَى إِصْبَعٍ وَالأَرَضِينَ عَلَى إِصْبَعٍ وَالْجِبَالَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْخَلائِقَ عَلَى إِصْبَعٍ ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ قَالَ: فَضَحِكَ النَّبِيُّ ﷺ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ قَالَ: {وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ }[الزمر: 67].
قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/تفسیر سورۃ الزمر ۲ (۴۸۱۱)، والتوحید ۱۹ (۷۴۱۴)، و۲۶ (۷۴۵۱)، و ۳۶ (۷۵۱۳)، م/المنافقین ح ۱۹ (۲۷۸۶) (تحفۃ الأشراف: ۴۹۰۴) (صحیح)
۳۲۳۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک یہودی نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر کہا: محمد! اللہ آسمانوں کو ایک انگلی پر روکے ہوئے ہے، زمینوں کو ایک انگلی پر اٹھائے ہوئے ہے، پہاڑوں کوایک انگلی سے تھامے ہوئے ہے، اورمخلوقات کو ایک انگلی پر آباد کئے ہوئے ہے، پھر کہتاہے :میں ہی (ساری کائنات کا) بادشاہ ہوں۔(یہ سن کر) آپ ﷺ کھلکھلا کر ہنس پڑے، فرمایا:'' پھربھی لوگوں نے اللہ کی قدر وعزت نہ کی جیسی کہ کرنی چاہیے تھی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3239- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: فَضَحِكَ النَّبِيُّ ﷺ تَعَجُّبًا وَتَصْدِيقًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۲۳۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:پس نبی اکرمﷺتعجب سے اور(اس کی باتوں کی)تصدیق میں ہنس پڑے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔


3240- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ، حَدَّثَنَا أَبُوكُدَيْنَةَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَرَّ يَهُودِيٌّ بِالنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ: "يَا يَهُودِيُّ! حَدِّثْنَا" فَقَالَ: كَيْفَ تَقُولُ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ! إِذَا وَضَعَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ عَلَى ذِهْ وَالأَرْضَ عَلَى ذِهْ وَالْمَائَ عَلَى ذِهْ وَالْجِبَالَ عَلَى ذِهْ، وَسَائِرَ الْخَلْقِ عَلَى ذِهْ، وَأَشَارَ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ بِخِنْصَرِهِ أَوَّلاً، ثُمَّ تَابَعَ حَتَّى بَلَغَ الإِبْهَامَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو كُدَيْنَةَ اسْمُهُ يَحْيَى بْنُ الْمُهَلَّبِ قَالَ: رَأَيْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ شُجَاعٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّلْتِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۴۵۷) (ضعیف)
(سندمیں عطاء بن السائب مختلط راوی ہیں)
۳۲۴۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : ایک یہودی کا نبی اکرمﷺکے پاس سے گزر ہوا، نبی اکرمﷺ نے اس (یہودی) سے کہا: ہم سے کچھ بات چیت کرو، اس نے کہا: ابوالقاسم ! آپ کیاکہتے ہیں: جب اللہ آسمانوں کو اس پراٹھائیگا ۱؎ اور زمینوں کو اس پر اور پانی کواس پر اور پہاڑوں کو اس پر اور ساری مخلوق کو اس پر، ابوجعفر محمد بن صلت نے (یہ بات بیان کرتے ہوئے) پہلے چھنگلی (کانی انگلی) کی طرف اشارہ کیا، اور یکے بعد دیگرے اشارہ کرتے ہوئے انگوٹھے تک پہنچے، (اس موقع پر بطور جواب)اللہ تعالیٰ نے { وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ } ۲؎ نازل کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲- ہم اسے (ابن عباس کی روایت سے) صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۳- ابوکدینہ کا نام یحییٰ بن مہلب ہے، وہ کہتے ہیں : میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کودیکھاہے، انہوں نے یہ حدیث حسن بن شجاع سے اورحسن نے محمد بن صلت سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : احمدکی روایت میں یوں ہے''یوم یحمل...''۔
وضاحت ۲؎ : انہوں نے اللہ کی (ان ساری قدرتوں کے باوجود ) صحیح قدر ومنزلت نہ جانی، نہ پہچانی(الزمر:۶۷)۔


3241- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَتَدْرِي مَا سَعَةُ جَهَنَّمَ؟ قُلْتُ: لاَ، قَالَ: أَجَلْ، وَاللَّهِ مَاتَدْرِي حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ أَنَّهَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ قَوْلِهِ: {وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ} قَالَتْ: قُلْتُ: فَأَيْنَ النَّاسُ يَوْمَئِذٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟! قَالَ: عَلَى جِسْرِ جَهَنَّمَ، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۲۸) (صحیح الإسناد)
۳۲۴۱- مجاہد کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کیاتمہیں معلوم ہے جہنم کتنی بڑی ہے؟ میں نے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: بے شک، قسم اللہ کی، مجھے بھی معلوم نہ تھا، (مگر) عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیاکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے آیت {وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ} ۱؎ کے تعلق سے پوچھا : رسول اللہ ! پھر اس دن لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا:'' جہنم کے پل پر، (اس سے مجھے معلوم ہوگیا کہ جہنم بہت لمبی چوڑی ہوگی) اس حدیث کے سلسلے میں پوری ایک کہانی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : ساری زمین قیامت کے دن رب کی ایک مٹھی میں ہوگی اور سارے آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے (الزمر:۶۷)۔


3242- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! {وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ}[الزمر: 67] فَأَيْنَ الْمُؤْمِنُونَ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: "عَلَى الصِّرَاطِ يَا عَائِشَةُ". هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (صحیح)
۳۲۴۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:اللہ کے رسول! {وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ } ( زمین ساری کی ساری قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی، اور آسمان سارے کے سارے اس کے ہاتھ لپٹے ہوئے ہوں گے) پھر اس دن مومن لوگ کہاں پرہوں گے؟ آپ نے فرمایا:''عائشہ ! وہ لوگ (پل) صراط پر ہوں گے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3243- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "كَيْفَ أَنْعَمُ وَقَدْ الْتَقَمَ صَاحِبُ الْقَرْنِ الْقَرْنَ وَحَنَى جَبْهَتَهُ وَأَصْغَى سَمْعَهُ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْمَرَ أَنْ يَنْفُخَ فَيَنْفُخَ!" قَالَ الْمُسْلِمُونَ: فَكَيْفَ نَقُولُ يَارَسُولَ اللَّهِ؟! قَالَ: "قُولُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ تَوَكَّلْنَا عَلَى اللَّهِ رَبِّنَا" وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَاهُ الأَعْمَشُ -أَيْضًا- عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۲۴۴) (صحیح)
(سندمیں عطیہ ضعیف راوی ہیں،لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
۳۲۴۳- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں کیسے چین سے رہ سکتاہوں جب کہ صور پھونکنے والا صور کو منہ سے لگائے ہوئے اپنا رخ اسی کی طرف کئے ہوئے ہے، اسی کی طرف کان لگائے ہوئے ہے، انتظار میں ہے کہ اسے صور پھونکنے کا حکم دیا جایے تو وہ فوراً صور پھونک دے، مسلمانوں نے کہا: ہم (ایسے موقعوں پر) کیا کہیں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا:'' کہو: {حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ تَوَكَّلْنَا عَلَى اللَّهِ رَبِّنَا } (ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے، ہم نے اپنے رب اللہ پر بھروسہ کر رکھاہے) راوی کہتے ہیں: کبھی کبھی سفیان نے ''توكلنا على الله ربنا'' کے بجائے ''على الله توكلنا'' روایت کیا ہے۔ ( اس کے معنی بھی وہی ہیں) ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اعمش نے بھی اسے عطیہ سے اور عطیہ نے ابوسعیدخدری سے روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : مولف نے یہ حدیث ارشادباری تعالیٰ: { وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الأَرْضِ} (الزمر:68)کی تفسیرمیں ذکرکی ہے۔


3244- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَسْلَمَ الْعِجْلِيِّ، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ أَعْرَابِيٌّ يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا الصُّورُ؟ قَالَ: "قَرْنٌ يُنْفَخُ فِيهِ". قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۴۳۰ (صحیح)
۳۲۴۴- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : ایک اعرابی نے کہا: اللہ کے رسول! صور کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:''ایک سینگ (بھوپو) ہے جس میں پھونکا جائے گا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے اور ہم اسے صرف سلیمان تیمی کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : تو آواز گونجتی اور دور تک جاتی ہے۔


3245- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ يَهُودِيٌّ: بِسُوقِ الْمَدِينَةِ لا وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْبَشَرِ قَالَ: فَرَفَعَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ يَدَهُ فَصَكَّ بِهَا وَجْهَهُ قَالَ تَقُولُ هَذَا وَفِينَا نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "{وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ إِلا مَنْ شَائَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ}[الزمر: 68] فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ رَفَعَ رَأْسَهُ؛ فَإِذَا مُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ فَلا أَدْرِي أَرَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلِي أَمْ كَانَ مِمَّنْ اسْتَثْنَى اللَّهُ، وَمَنْ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى فَقَدْ كَذَبَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۶۲) (حسن صحیح)
۳۲۴۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے مدینہ کے بازار میں کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ کو تمام انسانوں میں سے چن لیا، (یہ سنا) تو ایک انصاری شخص نے ہاتھ اٹھا کر ایک طمانچہ اس کے منہ پر ماردیا، کہا: تو ایسا کہتاہے جب کہ (تمام انسانوں اورجنوں کے سردار) نبی اکرمﷺہمارے درمیان موجود ہیں۔ (دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے) رسول اللہﷺ نے آیت :{وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ إِلا مَنْ شَائَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ } ۱؎ پڑھی اورکہا:سب سے پہلا سر اٹھانے والا میں ہوں گاتو موسیٰ مجھے عرش کا ایک پایہ پکڑے ہوئے دکھائی دیں گے، میں نہیں کہہ سکتاکہ موسیٰ نے مجھ سے پہلے سر اٹھا یا ہوگا یا وہ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے {إلا من شاء الله} کہہ کر مستثنیٰ کردیاہے ۲؎ اور جس نے کہا : میں یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر ہوں اس نے غلط کہا ۳؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : جب صور پھونکا جائے گا آواز کی کڑک سے سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے گا آسمانوں وزمین کے سبھی لوگ غشی کھاجائیں گے، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا، تو وہ کھڑے ہوکر دیکھتے ہوں گے (کہ ان کے ساتھ کیا کیا جاتاہے؟(الزمر:۶۹) ۔
وضاحت ۲؎ : روز حشرکا یہ واقعہ سنانے کہ آپ ﷺموسیٰ علیہ السلام کی فضیلیت ذکرکرناچاہتے ہیں نیز اپنی خاکساری کا اظہار فرمارہے ہیں، اپنی خاکساری ظاہری کرنادوسری بات ہے ، اورفی نفسہ موسیٰ علیہ السلام کیا تمام انبیاء کے افضل ہونا اوربات ہے البتہ اس طرح کسی نبی کا نام لیکر آپ کے ساتھ مقابلہ کرکے آپ کی فضیلت بیان کرنے والے کوتاؤمیں آکرماردینامناسب نہیں ہے، آپ نے اس وقت یہی تعلیم دہی ہے۔
وضاحت ۳؎ : حقیقت میں نبی اکرمﷺسب سے افضل نبی ہیں، اور سیدالأنبیاء والرسل ہیں، لیکن انبیاء کا آپس میں تقابل عام حالات میں صحیح نہیں ہے ، بلکہ خلاف ادب ہے ، اس کا تواضح وانکساری اورانبیاء ورسل کی غرض واحترام میں آپ نے ادب سکھایا اور اس طرح کے موازنہ پر تنقیدفرمائی۔


3246- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ أَخْبَرَنِي أَبُو إِسْحَاقَ أَنَّ الأَغَرَّ أَبَا مُسْلِمٍ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "يُنَادِي مُنَادٍ إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَحْيَوْا فَلا تَمُوتُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلا تَسْقَمُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلا تَهْرَمُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَنْعَمُوا فَلا تَبْأَسُوا أَبَدًا فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: {وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ}"[الزخرف: 72].
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى ابْنُ الْمُبَارَكِ وَغَيْرُهُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الثَّوْرِيِّ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
* تخريج: م/الجنۃ ۸ (۲۸۳۷) (تحفۃ الأشراف: ۳۹۶۳، ۱۲۱۹۳) (صحیح)
۳۲۴۶- ابوسعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' پکارنے والا پکار کر کہے گا: (جنت میں) تم ہمیشہ زندہ رہوگے ، کبھی مروگے نہیں، تم صحت مند رہو گے، کبھی بیمار نہ ہو گے، کبھی محتاج وحاجتمند نہ ہوگے، اللہ تعالیٰ کے قول: { وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ } ۱؎ کا یہی مطلب ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابن مبارک وغیرہ نے یہ حدیث ثوری سے روایت کی ہے، اور انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیاہے۔
وضاحت ۱؎ : یہی وہ جنت ہے جس کے تم اپنے نیک اعمال کے بدلے وارث بنائے جاؤگے(الزخرف:۷۲)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
41-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْمُؤْمِنِ
۴۱-باب: سورہ مومن سے بعض آیات کی تفسیر​


3247- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ وَالأَعْمَشِ، عَنْ ذَرٍّ عَنْ يُسَيْعٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: "الدُّعَائُ هُوَ الْعِبَادَةُ " ثُمَّ قَرَأَ: {وَقَالَ رَبُّكُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۹۶۹ (صحیح)
۳۲۴۷- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺکو فرماتے ہوئے سنا: دعاہی عبادت ہے، پھر آپ نے آیت: {وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ} (غافر:60) ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : تمہارے رب نے فرمایا:مجھ سے دعاکرو میں تمہاری دعاقبول کروں گا۔ جولوگ بڑا بن کر میری عبادت(دعاء) سے منہ پھیرتے ہیں وہ ذلت خواری کے ساتھ جہنم میں جائیں گے(المؤمن :۶۰)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
42-بَاب وَمِنْ سُورَةِ حم السَّجْدَةِ
۴۲-باب: سورہ حم سجدہ(فصلت) سے بعض آیات کی تفسیر​


3248- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: اخْتَصَمَ عِنْدَ الْبَيْتِ ثَلاثَةُ نَفَرٍ قُرَشِيَّانِ وَثَقَفِيٌّ أَوْ ثَقَفِيَّانِ وَقُرَشِيٌّ قَلِيلٌ فِقْهُ قُلُوبِهِمْ كَثِيرٌ شَحْمُ بُطُونِهِمْ فَقَالَ أَحَدُهُمْ: أَتَرَوْنَ أَنَّ اللَّهَ يَسْمَعُ مَا نَقُولُ فَقَالَ الآخَرُ: يَسْمَعُ إِذَا جَهَرْنَا، وَلا يَسْمَعُ إِذَا أَخْفَيْنَا، وَقَالَ الآخَرُ: إِنْ كَانَ يَسْمَعُ إِذَا جَهَرْنَا فَإِنَّهُ يَسْمَعُ إِذَا أَخْفَيْنَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلا أَبْصَارُكُمْ وَلاجُلُودُكُمْ}. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/تفسیر سورۃ المومن ۱ (۴۸۱۶)، و۲ (۴۸۱۷)، والتوحید ۴۱ (۷۵۲۱)، م/المنافقین ح ۵ (۲۷۷۵) (تحفۃ الأشراف: ۹۳۳۵) (صحیح)
۳۲۴۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : تین آدمی خانہ کعبہ کے قریب جھگڑ بیٹھے ، دوقریشی تھے اور ایک ثقفی ، یا دو ثقفی تھے اور ایک قریشی، ان کے پیٹوں پر چربی چڑھی تھی ، ان میں سے ایک نے کہا: کیاسمجھتے ہوکہ ہم جو کہتے ہیں اللہ اسے سنتاہے، دوسرے نے کہا: ہم جب زورسے بولتے ہیں تو وہ سنتاہے اور جب ہم دھیرے بولتے ہیں تووہ نہیں سنتا ۔ تیسرے نے کہا: اگروہ ہمارے زور سے بولنے کو سنتاہے تو وہ ہمارے دھیرے بولنے کو بھی سنتاہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : { وَمَا كُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلاَ أَبْصَارُكُمْ وَلاَ جُلُودُكُمْ } (فصلت :22) ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اورتم (اپنی بداعمالیاں)اس وجہ سے پوشیدہ رکھتے ہی نہ تھے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان اورتمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں گواہی دیں گی، ہاں تم یہ سمجھتے رہے کہ تم جوکچھ بھی کررہے ہواس میں سے بہت سے اعمال سے اللہ بے خبرہے (حٓم السجدہ:۲۲)۔


3249- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: كُنْتُ مُسْتَتِرًا بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ فَجَاءَ ثَلاثَةُ نَفَرٍ كَثِيرٌ شَحْمُ بُطُونِهِمْ قَلِيلٌ فِقْهُ قُلُوبِهِمْ قُرَشِيٌّ، وَخَتَنَاهُ ثَقَفِيَّانِ أَوْ ثَقَفِيٌّ، وَخَتَنَاهُ قُرَشِيَّانِ؛ فَتَكَلَّمُوا بِكَلامٍ لَمْ أَفْهَمْهُ فَقَالَ أَحَدُهُمْ: أَتَرَوْنَ أَنَّ اللَّهَ يَسْمَعُ كَلامَنَا هَذَا فَقَال الآخَرُ: إِنَّا إِذَا رَفَعْنَا أَصْوَاتَنَا سَمِعَهُ، وَإِذَا لَمْ نَرْفَعْ أَصْوَاتَنَا لَمْ يَسْمَعْهُ فَقَالَ الآخَرُ: إِنْ سَمِعَ مِنْهُ شَيْئًا سَمِعَهُ كُلَّهُ فَقَال عَبْدُ اللَّهِ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَأَنْزَلْ اللَّهُ: {وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلاَأَبْصَارُكُمْ وَلا جُلُودُكُمْ -إِلَى قَوْلِهِ- فَأَصْبَحْتُمْ مِنْ الْخَاسِرِينَ}. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۹۳۹۷) (صحیح)
3249/م- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۹۵۹۹) (صحیح)
۳۲۴۹- عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں کعبہ کے پردوں میں چھپا ہواکھڑا تھا، تین ناسمجھ جن کے پیٹوں کی چربی زیادہ تھی ) آئے ، ایک قریشی تھا اور دو اس کے سالے ثقفی تھے، یا ایک ثقفی تھا اوردو اس کے قریشی سالے تھے، انہوں نے ایک ایسی زبان میں بات کی جسے میں سمجھ نہ سکا، ان میں سے ایک نے کہا: تمہارا کیاخیال ہے: کیا اللہ ہماری یہ بات چیت سنتاہے؟ دوسرے نے کہا: جب ہم بآواز بلند بات چیت کرتے ہیں تو سنتاہے، اور جب ہم اپنی آواز بلند نہیں کرتے ہیں تو نہیں سنتا ہے، تیسرے نے کہا: اگر وہ ہماری بات چیت کا کچھ حصہ سن سکتاہے تو وہ سبھی کچھ سن سکتاہے، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے اس کا ذکر نبی اکرمﷺسے کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر آیت {وَمَا كُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلاَ أَبْصَارُكُمْ وَلاَ جُلُودُكُمْ}(فصلت:22)سے لے کر {فَأَصْبَحْتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَ}(فصلت:23) تک نازل فرمائی۔
امام ترمذی کہتے ہیںـ:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۳۲۴۹/م- اس سندسے سفیان ثوری نے اعمش سے ، اعمش نے عمارہ بن عمیرسے اورعمارہ نے وہب بن ربیعہ کے واسطہ سے عبداللہ سے اسی طرح روایت کی۔


3250- حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْفَلاسُ، حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي حَزْمٍ الْقُطَعِيُّ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَرَأَ: {إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا} قَالَ: قَدْ قَالَ النَّاسُ: ثُمَّ كَفَرَ أَكْثَرُهُمْ فَمَنْ مَاتَ عَلَيْهَا فَهُوَ مِمَّنْ اسْتَقَامَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۴۲۳) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں سہیل بن ابی حزم ضعیف راوی ہیں)
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ يَقُولُ: رَوَى عَفَّانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَلِيٍّ حَدِيثًا، وَيُرْوَى فِي هَذِهِ الآيَةِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا مَعْنَى اسْتَقَامُوا.
۳۲۵۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے آیت {إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا} ( فصلت:30) ۱؎ پڑھی، آپ نے فرمایا:'' بہتوں نے تو ''ربنا الله '' کہنے کے باوجود بھی کفرکیا ، سنو جو اپنے ایمان پر آخروقت تک قائم رہ کر مرا وہ استقامت کاراستہ اختیار کرنے والوں میں سے ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۳- میں نے ابوزرعہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ عفان نے عمروبن علی سے ایک حدیث روایت کی ہے،۴- اس آیت کے سلسلے نبی اکرمﷺاور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سے'' استقاموا ''کا معنی مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : (واقعی)جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رباللہ ہے پھراسی پرقائم رہے ان پرفرشتے اترتے ہیں اورکہتے ہیں:تم نہ ڈرو، نہ غم کرو،اور اس جنت کا خوشخبری سن لوجس کا تم سے وعدہ کیا گیاتھا (حٓم السجدۃ:۳۰)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
43-بَاب وَمِنْ سُورَةِ حم عسق
۴۳-باب: حٓمٓ عسق (سورہ شوریٰ) سے بعض آیات کی تفسیر​


3251- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ قَال: سَمِعْتُ طَاوُسًا قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ هَذِهِ الآيَةِ: {قُلْ لاَ أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى} فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ: قُرْبَى آلِ مُحَمَّدٍ ﷺ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَعَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لَمْ يَكُنْ بَطْنٌ مِنْ قُرَيْشٍ إِلاَّ كَانَ لَهُ فِيهِمْ قَرَابَةٌ فَقَالَ: إِلاَّ أَنْ تَصِلُوا مَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ مِنَ الْقَرَابَةِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: خ/المناقب ۱ (۳۴۹۷)، وتفسیر سورۃ الشوری ۱ (۴۸۱۸) (تحفۃ الأشراف: ۵۷۲۳) (صحیح)
۳۲۵۱- طاؤس کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت { قُلْ لاَ أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى} ۱؎ کے بارے میں پوچھا گیا،اس پر سعید بن جبیرنے کہا: قربیٰ سے مراد آل محمدہیں، ابن عباس نے کہا: (تم نے رشتہ داری کی تشریح میں جلدبازی کی ہے) قریش کی کوئی شاخ ایسی نہیں تھی جس میں آپ کی رشتہ داری نہ ہو، (آیت کامفہوم ہے) اللہ نے کہا: میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا (بس میں تو یہ چاہتا ہوں کہ) ہمارے اور تمہارے درمیان جو رشتہ داری ہے اس کا پاس ولحاظ رکھو اور ایک دوسرے سے حسن سلوک کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث کئی سندوں سے ابن عباس سے آئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اے نبی! کہہ دو میں تم سے (اپنی دعوت وتبلیغ کا) کوئی اجر نہیں مانگتا، ہاں چاہتاہوں کہ قرابت داروں میں الفت ومحبت پیداہو (الشوریٰ:۲۳)۔


3252- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ الْوَازِعِ قَالَ: حَدَّثَنِي شَيْخٌ مِنْ بَنِي مُرَّةَ قَالَ: قَدِمْتُ الْكُوفَةَ؛ فَأُخْبِرْتُ عَنْ بِلالِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ فَقُلْتُ: إِنَّ فِيهِ لَمُعْتَبَرًا فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ مَحْبُوسٌ فِي دَارِهِ الَّتِي قَدْ كَانَ بَنَى قَالَ: وَإِذَا كُلُّ شَيْئٍ مِنْهُ قَدْ تَغَيَّرَ مِنَ الْعَذَابِ وَالضَّرْبِ، وَإِذَا هُوَ فِي قُشَاشٍ فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ يَا بِلاَلُ! لَقَدْ رَأَيْتُكَ وَأَنْتَ تَمُرُّ بِنَا تُمْسِكُ بِأَنْفِكَ مِنْ غَيْرِ غُبَارٍ وَأَنْتَ فِي حَالِكَ هَذَا الْيَوْمَ فَقَالَ: مِمَّنْ أَنْتَ فَقُلْتُ: مِنْ بَنِي مُرَّةَ بْنِ عَبَّادٍ فَقَالَ: أَلا أُحَدِّثُكَ حَدِيثًا عَسَى اللَّهُ أَنْ يَنْفَعَكَ بِهِ قُلْتُ: هَاتِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي أَبُو بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ أَبِي مُوسَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "لاَيُصِيبُ عَبْدًا نَكْبَةٌ فَمَا فَوْقَهَا أَوْ دُونَهَا إِلا بِذَنْبٍ وَمَا يَعْفُو اللَّهُ عَنْهُ أَكْثَرُ، قَالَ وَقَرَأَ: {وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۰۷۹) (ضعیف الإسناد)
( سند میں ''شیخ من بنی مرہ'' مبہم راوی ہے ، نیز عبیداللہ بن الوازع الکلابی البصری مجہول ہے)
۳۲۵۲- بنی مرہ کے ایک شیخ کہتے ہیں کہ میں کوفہ آیا مجھے بلال بن ابوبردہ ۱؎ کے حالات کا علم ہواتومیں نے (جی میں ) کہاکہ ان میں عبرت وموعظت ہے، میں ان کے پاس آیا، وہ اپنے اس گھر میں محبوس ومقید تھے جسے انہوں نے خود (اپنے عیش وآرام کے لیے) بنوایاتھا، عذاب اور مارپیٹ کے سبب ان کی ہرچیز کی صورت وشکل بدل چکی تھی، وہ چیتھڑا پہنے ہوئے تھے، میں نے کہا: اے بلال! تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں ، میں نے آپ کواس وقت بھی دیکھاہے جب آپ بغیر دھول اور گردوغبار کے (نزاکت ونفاست سے) ناک پکڑ کر ہمارے پاس سے گزرجاتے تھے، اور آج آپ اس حالت میں ہیں ہو؟ انہوں نے کہا: تم کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ میں نے کہا: نبی مرہ بن عباد سے، انہوں نے کہا: کیا میں تم سے ایک ایسی حدیث نہ بتاؤں جس سے امید ہے کہ اللہ تمہیں اس سے فائدہ پہنچائے گا، میں نے کہا: پیش فرمائیے، انہوں نے کہا: مجھ سے میرے باپ ابوبردہ نے بیان کیااوروہ اپنے باپ ابوموسیٰ اشعری سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس کسی بندے کو چھوٹی یا بڑی جو بھی مصیبت پہنچتی ہے اس کے گناہ کے سبب ہی پہنچتی ہے، اور اللہ اس کے جن گناہوں سے درگزر فرمادیتاہے وہ تو بہت ہوتے ہیں۔ پھر انہوں نے آیت پڑھی{وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ}(الشورى:30) پڑھی ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پوتے تھے، بصرہ کے قاضی تھے، بڑے متکبراورظالم تھے، کسی وجہ سے قیدکردیئے گئے تھے۔
وضاحت ۲؎ : تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی کے سبب سے پہنچتی ہے، اور بہت سے گناہ تو وہ (یونہی) معاف کردیتاہے، یعنی ان کی وجہ سے مصیبت میں نہیں ڈالتا(الشوریٰ:۳۰) ۔
 
Top