40-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الزُّمَرِ
۴۰-باب: سورہ زمر سے بعض آیات کی تفسیر
3236- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ}[الزمر: 31] قَالَ الزُّبَيْرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَتُكَرَّرُ عَلَيْنَا الْخُصُومَةُ بَعْدَ الَّذِي كَانَ بَيْنَنَا فِي الدُّنْيَا، قَالَ: نَعَمْ؛ فَقَالَ: "إِنَّ الأَمْرَ إِذًا لَشَدِيدٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۶۲۹) (حسن)
۳۲۳۶- عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اپنے باپ (زبیر)سے روایت کرتے ہیں کہ جب آیت
{ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ } ۱؎ نازل ہوئی تو زبیربن عوام رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اس دنیا میں ہمارا آپس میں جو لڑائی جھگڑا ہے اس کے بعد بھی دوبارہ ہمارے درمیان (آخرت میں) لڑائی جھگڑے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا:'' ہاں، انہوں نے کہا: پھر تو معاملہ بڑا سخت ہوگا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : پھر تم قیامت کے دن اپنے رب کے پاس توحید وشرک کے سلسلے میں) جھگڑرہے ہوگے(الروم:۳۱)۔
3237- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلاَلٍ وَسُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقْرَأُ يَا {عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لاَ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا}[الزمر: 53] وَلاَ يُبَالِي.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ ثَابِتٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ: وَشَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ يَرْوِي عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ الأَنْصَارِيَّةِ وَأُمُّ سَلَمَةَ الأَنْصَارِيَّةُ هِيَ أَسْمَائُ بِنْتُ يَزِيدَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۷۱) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں ''شہر بن حوشب'' ضعیف ہیں)
۳۲۳۷- اسماء بنت یزید کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو آیت
{يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لاَ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا} ۱؎ پڑھتے ہوئے سناہے۔ اللہ کوئی غم اور فکر نہیں ہوتی (کہ اللہ کی اس چھوٹ اور مہربانی سے کون فائدہ اٹھارہا ہے اور کون محروم رہ رہاہے) ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ہم اسے صرف ثابت کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ شہر بن حوشب سے روایت کرتے ہیں،۳- شہر بن حوشب ام سلمہ انصاریہ سے روایت کرتے ہیں، اور ام سلمہ انصاریہ اسماء بنت یزید ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے (یعنی گناہ کیے ہیں) اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوؤ، اللہ سبھی گناہ معاف کردیتاہے(الزمر:۵۳)۔
وضاحت ۲؎ : احمدکی روایت میں'' لا يبالي''کے بعدآیت کا اگلاٹکڑابھی ہے
{إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ}(الشورى : 5) صاحب تحفہ الأحوذی فرماتے ہیں: شایدپہلے ''لایبالی''کا لفظ بھی آیت میں شامل تھا جو بعد میں منسوخ ہوگیا۔
3238- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ وَسُلَيْمَانُ الأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: جَاءَ يَهُودِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ عَلَى إِصْبَعٍ وَالأَرَضِينَ عَلَى إِصْبَعٍ وَالْجِبَالَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْخَلائِقَ عَلَى إِصْبَعٍ ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ قَالَ: فَضَحِكَ النَّبِيُّ ﷺ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ قَالَ: {وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ }[الزمر: 67].
قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/تفسیر سورۃ الزمر ۲ (۴۸۱۱)، والتوحید ۱۹ (۷۴۱۴)، و۲۶ (۷۴۵۱)، و ۳۶ (۷۵۱۳)، م/المنافقین ح ۱۹ (۲۷۸۶) (تحفۃ الأشراف: ۴۹۰۴) (صحیح)
۳۲۳۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک یہودی نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر کہا: محمد! اللہ آسمانوں کو ایک انگلی پر روکے ہوئے ہے، زمینوں کو ایک انگلی پر اٹھائے ہوئے ہے، پہاڑوں کوایک انگلی سے تھامے ہوئے ہے، اورمخلوقات کو ایک انگلی پر آباد کئے ہوئے ہے، پھر کہتاہے :میں ہی (ساری کائنات کا) بادشاہ ہوں۔(یہ سن کر) آپ ﷺ کھلکھلا کر ہنس پڑے، فرمایا:'' پھربھی لوگوں نے اللہ کی قدر وعزت نہ کی جیسی کہ کرنی چاہیے تھی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
3239- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: فَضَحِكَ النَّبِيُّ ﷺ تَعَجُّبًا وَتَصْدِيقًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۲۳۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:پس نبی اکرمﷺتعجب سے اور(اس کی باتوں کی)تصدیق میں ہنس پڑے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
3240- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ، حَدَّثَنَا أَبُوكُدَيْنَةَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَرَّ يَهُودِيٌّ بِالنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ: "يَا يَهُودِيُّ! حَدِّثْنَا" فَقَالَ: كَيْفَ تَقُولُ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ! إِذَا وَضَعَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ عَلَى ذِهْ وَالأَرْضَ عَلَى ذِهْ وَالْمَائَ عَلَى ذِهْ وَالْجِبَالَ عَلَى ذِهْ، وَسَائِرَ الْخَلْقِ عَلَى ذِهْ، وَأَشَارَ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ بِخِنْصَرِهِ أَوَّلاً، ثُمَّ تَابَعَ حَتَّى بَلَغَ الإِبْهَامَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو كُدَيْنَةَ اسْمُهُ يَحْيَى بْنُ الْمُهَلَّبِ قَالَ: رَأَيْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ شُجَاعٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّلْتِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۴۵۷) (ضعیف)
(سندمیں عطاء بن السائب مختلط راوی ہیں)
۳۲۴۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : ایک یہودی کا نبی اکرمﷺکے پاس سے گزر ہوا، نبی اکرمﷺ نے اس (یہودی) سے کہا: ہم سے کچھ بات چیت کرو، اس نے کہا: ابوالقاسم ! آپ کیاکہتے ہیں: جب اللہ آسمانوں کو اس پراٹھائیگا ۱؎ اور زمینوں کو اس پر اور پانی کواس پر اور پہاڑوں کو اس پر اور ساری مخلوق کو اس پر، ابوجعفر محمد بن صلت نے (یہ بات بیان کرتے ہوئے) پہلے چھنگلی (کانی انگلی) کی طرف اشارہ کیا، اور یکے بعد دیگرے اشارہ کرتے ہوئے انگوٹھے تک پہنچے، (اس موقع پر بطور جواب)اللہ تعالیٰ نے
{ وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ } ۲؎ نازل کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲- ہم اسے (ابن عباس کی روایت سے) صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۳- ابوکدینہ کا نام یحییٰ بن مہلب ہے، وہ کہتے ہیں : میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کودیکھاہے، انہوں نے یہ حدیث حسن بن شجاع سے اورحسن نے محمد بن صلت سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : احمدکی روایت میں یوں ہے
''یوم یحمل...''۔
وضاحت ۲؎ : انہوں نے اللہ کی (ان ساری قدرتوں کے باوجود ) صحیح قدر ومنزلت نہ جانی، نہ پہچانی(الزمر:۶۷)۔
3241- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَتَدْرِي مَا سَعَةُ جَهَنَّمَ؟ قُلْتُ: لاَ، قَالَ: أَجَلْ، وَاللَّهِ مَاتَدْرِي حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ أَنَّهَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ قَوْلِهِ: {وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ} قَالَتْ: قُلْتُ: فَأَيْنَ النَّاسُ يَوْمَئِذٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟! قَالَ: عَلَى جِسْرِ جَهَنَّمَ، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۲۸) (صحیح الإسناد)
۳۲۴۱- مجاہد کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کیاتمہیں معلوم ہے جہنم کتنی بڑی ہے؟ میں نے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: بے شک، قسم اللہ کی، مجھے بھی معلوم نہ تھا، (مگر) عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیاکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے آیت
{وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ} ۱؎ کے تعلق سے پوچھا : رسول اللہ ! پھر اس دن لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا:'' جہنم کے پل پر، (اس سے مجھے معلوم ہوگیا کہ جہنم بہت لمبی چوڑی ہوگی) اس حدیث کے سلسلے میں پوری ایک کہانی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : ساری زمین قیامت کے دن رب کی ایک مٹھی میں ہوگی اور سارے آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے (الزمر:۶۷)۔
3242- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! {وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ}[الزمر: 67] فَأَيْنَ الْمُؤْمِنُونَ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: "عَلَى الصِّرَاطِ يَا عَائِشَةُ". هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (صحیح)
۳۲۴۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:اللہ کے رسول!
{وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ } ( زمین ساری کی ساری قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی، اور آسمان سارے کے سارے اس کے ہاتھ لپٹے ہوئے ہوں گے) پھر اس دن مومن لوگ کہاں پرہوں گے؟ آپ نے فرمایا:''عائشہ ! وہ لوگ (پل) صراط پر ہوں گے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
3243- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "كَيْفَ أَنْعَمُ وَقَدْ الْتَقَمَ صَاحِبُ الْقَرْنِ الْقَرْنَ وَحَنَى جَبْهَتَهُ وَأَصْغَى سَمْعَهُ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْمَرَ أَنْ يَنْفُخَ فَيَنْفُخَ!" قَالَ الْمُسْلِمُونَ: فَكَيْفَ نَقُولُ يَارَسُولَ اللَّهِ؟! قَالَ: "قُولُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ تَوَكَّلْنَا عَلَى اللَّهِ رَبِّنَا" وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَاهُ الأَعْمَشُ -أَيْضًا- عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۲۴۴) (صحیح)
(سندمیں عطیہ ضعیف راوی ہیں،لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
۳۲۴۳- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں کیسے چین سے رہ سکتاہوں جب کہ صور پھونکنے والا صور کو منہ سے لگائے ہوئے اپنا رخ اسی کی طرف کئے ہوئے ہے، اسی کی طرف کان لگائے ہوئے ہے، انتظار میں ہے کہ اسے صور پھونکنے کا حکم دیا جایے تو وہ فوراً صور پھونک دے، مسلمانوں نے کہا: ہم (ایسے موقعوں پر) کیا کہیں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا:'' کہو:
{حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ تَوَكَّلْنَا عَلَى اللَّهِ رَبِّنَا } (ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے، ہم نے اپنے رب اللہ پر بھروسہ کر رکھاہے) راوی کہتے ہیں: کبھی کبھی سفیان نے
''توكلنا على الله ربنا'' کے بجائے
''على الله توكلنا'' روایت کیا ہے۔ ( اس کے معنی بھی وہی ہیں) ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اعمش نے بھی اسے عطیہ سے اور عطیہ نے ابوسعیدخدری سے روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : مولف نے یہ حدیث ارشادباری تعالیٰ:
{ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الأَرْضِ} (الزمر:68)کی تفسیرمیں ذکرکی ہے۔
3244- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَسْلَمَ الْعِجْلِيِّ، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ أَعْرَابِيٌّ يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا الصُّورُ؟ قَالَ: "قَرْنٌ يُنْفَخُ فِيهِ". قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۴۳۰ (صحیح)
۳۲۴۴- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : ایک اعرابی نے کہا: اللہ کے رسول! صور کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:''ایک سینگ (بھوپو) ہے جس میں پھونکا جائے گا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے اور ہم اسے صرف سلیمان تیمی کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : تو آواز گونجتی اور دور تک جاتی ہے۔
3245- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ يَهُودِيٌّ: بِسُوقِ الْمَدِينَةِ لا وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْبَشَرِ قَالَ: فَرَفَعَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ يَدَهُ فَصَكَّ بِهَا وَجْهَهُ قَالَ تَقُولُ هَذَا وَفِينَا نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "{وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ إِلا مَنْ شَائَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ}[الزمر: 68] فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ رَفَعَ رَأْسَهُ؛ فَإِذَا مُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ فَلا أَدْرِي أَرَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلِي أَمْ كَانَ مِمَّنْ اسْتَثْنَى اللَّهُ، وَمَنْ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى فَقَدْ كَذَبَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۶۲) (حسن صحیح)
۳۲۴۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے مدینہ کے بازار میں کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ کو تمام انسانوں میں سے چن لیا، (یہ سنا) تو ایک انصاری شخص نے ہاتھ اٹھا کر ایک طمانچہ اس کے منہ پر ماردیا، کہا: تو ایسا کہتاہے جب کہ (تمام انسانوں اورجنوں کے سردار) نبی اکرمﷺہمارے درمیان موجود ہیں۔ (دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے) رسول اللہﷺ نے آیت :
{وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ إِلا مَنْ شَائَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ } ۱؎ پڑھی اورکہا:سب سے پہلا سر اٹھانے والا میں ہوں گاتو موسیٰ مجھے عرش کا ایک پایہ پکڑے ہوئے دکھائی دیں گے، میں نہیں کہہ سکتاکہ موسیٰ نے مجھ سے پہلے سر اٹھا یا ہوگا یا وہ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے
{إلا من شاء الله} کہہ کر مستثنیٰ کردیاہے ۲؎ اور جس نے کہا : میں یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر ہوں اس نے غلط کہا ۳؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : جب صور پھونکا جائے گا آواز کی کڑک سے سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے گا آسمانوں وزمین کے سبھی لوگ غشی کھاجائیں گے، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا، تو وہ کھڑے ہوکر دیکھتے ہوں گے (کہ ان کے ساتھ کیا کیا جاتاہے؟(الزمر:۶۹) ۔
وضاحت ۲؎ : روز حشرکا یہ واقعہ سنانے کہ آپ ﷺموسیٰ علیہ السلام کی فضیلیت ذکرکرناچاہتے ہیں نیز اپنی خاکساری کا اظہار فرمارہے ہیں، اپنی خاکساری ظاہری کرنادوسری بات ہے ، اورفی نفسہ موسیٰ علیہ السلام کیا تمام انبیاء کے افضل ہونا اوربات ہے البتہ اس طرح کسی نبی کا نام لیکر آپ کے ساتھ مقابلہ کرکے آپ کی فضیلت بیان کرنے والے کوتاؤمیں آکرماردینامناسب نہیں ہے، آپ نے اس وقت یہی تعلیم دہی ہے۔
وضاحت ۳؎ : حقیقت میں نبی اکرمﷺسب سے افضل نبی ہیں، اور سیدالأنبیاء والرسل ہیں، لیکن انبیاء کا آپس میں تقابل عام حالات میں صحیح نہیں ہے ، بلکہ خلاف ادب ہے ، اس کا تواضح وانکساری اورانبیاء ورسل کی غرض واحترام میں آپ نے ادب سکھایا اور اس طرح کے موازنہ پر تنقیدفرمائی۔
3246- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ أَخْبَرَنِي أَبُو إِسْحَاقَ أَنَّ الأَغَرَّ أَبَا مُسْلِمٍ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "يُنَادِي مُنَادٍ إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَحْيَوْا فَلا تَمُوتُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلا تَسْقَمُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلا تَهْرَمُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَنْعَمُوا فَلا تَبْأَسُوا أَبَدًا فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: {وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ}"[الزخرف: 72].
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى ابْنُ الْمُبَارَكِ وَغَيْرُهُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الثَّوْرِيِّ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
* تخريج: م/الجنۃ ۸ (۲۸۳۷) (تحفۃ الأشراف: ۳۹۶۳، ۱۲۱۹۳) (صحیح)
۳۲۴۶- ابوسعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' پکارنے والا پکار کر کہے گا: (جنت میں) تم ہمیشہ زندہ رہوگے ، کبھی مروگے نہیں، تم صحت مند رہو گے، کبھی بیمار نہ ہو گے، کبھی محتاج وحاجتمند نہ ہوگے، اللہ تعالیٰ کے قول:
{ وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ } ۱؎ کا یہی مطلب ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابن مبارک وغیرہ نے یہ حدیث ثوری سے روایت کی ہے، اور انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیاہے۔
وضاحت ۱؎ : یہی وہ جنت ہے جس کے تم اپنے نیک اعمال کے بدلے وارث بنائے جاؤگے(الزخرف:۷۲)۔