• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
44-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الزُّخْرُفِ
۴۴-باب: سورہ زخرف سے بعض آیات کی تفسیر​


3253- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ وَيَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي غَالِبٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَا ضَلَّ قَوْمٌ بَعْدَ هُدًى كَانُوا عَلَيْهِ إِلا أُوتُوا الْجَدَلَ ثُمَّ تَلا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ هَذِهِ الآيَةَ: {مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلا جَدَلا بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ}. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ حَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، وَحَجَّاجٌ ثِقَةٌ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ، وَأَبُو غَالِبٍ اسْمُهُ حَزَوَّرُ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۷ (۴۸) (تحفۃ الأشراف: ۴۹۳۶) (حسن)
۳۲۵۳- ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کوئی قوم ہدایت پانے کے بعد جب گمراہ ہوجاتی ہے توجھگڑا لو اورمناظرہ باز ہوجاتی ہے،اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی {مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلا جَدَلا بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ} ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ہم اسے صرف حجاج بن دینار کی روایت سے جانتے ہیں، حجاج ثقہ، مقارب الحدیث ہیں اور ابوغالب کانام حزور ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ لوگ تیرے سامنے صرف جھگڑے کے طور پر کہتے ہیں بلکہ یہ لوگ طبعاً جھگڑالو ہیں(الزخرف:۵۸)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
45-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الدُّخَانِ
۴۵-باب: سورہ دخان سے بعض آیات کی تفسیر​


3254- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْجُدِّيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ وَمَنْصُورٍ سَمِعَا أَبَا الضُّحَى يُحَدِّثُ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِاللَّهِ فَقَالَ: إِنَّ قَاصًّا يَقُصُّ يَقُولُ إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنَ الأَرْضِ الدُّخَانُ فَيَأْخُذُ بِمَسَامِعِ الْكُفَّارِ، وَيَأْخُذُ الْمُؤْمِنَ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ قَالَ: فَغَضِبَ وَكَانَ مُتَّكِئًا؛ فَجَلَسَ، ثُمَّ قَالَ: إِذَا سُئِلَ أَحَدُكُمْ عَمَّا يَعْلَمُ؛ فَلْيَقُلْ بِهِ قَالَ مَنْصُورٌ: فَلْيُخْبِرْ بِهِ، وَإِذَا سُئِلَ عَمَّا لاَيَعْلَمُ فَلْيَقُلْ: اللَّهُ أَعْلَمُ؛ فَإِنَّ مِنْ عِلْمِ الرَّجُلِ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لاَ يَعْلَمُ أَنْ يَقُولَ: اللَّهُ أَعْلَمُ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ لِنَبِيِّهِ: {قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُتَكَلِّفِينَ} إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لَمَّا رَأَى قُرَيْشًا اسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ قَالَ: اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ؛ فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ؛ فَأَحْصَتْ كُلَّ شَيْئٍ حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ وَقَالَ أَحَدُهُمَا: الْعِظَامَ قَالَ: وَجَعَلَ يَخْرُجُ مِنَ الأَرْضِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ؛ فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ: إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ لَهُمْ قَالَ فَهَذَا لِقَوْلِهِ: {يَوْمَ تَأْتِي السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ} قَالَ مَنْصُورٌ: هَذَا لِقَوْلِهِ رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ؛ فَهَلْ يُكْشَفُ عَذَابُ الآخِرَةِ قَدْ مَضَى الْبَطْشَةُ، وَاللِّزَامُ وَالدُّخَانُ و قَالَ أَحَدُهُمْ: الْقَمَرُ وَقَالَ الآخَرُ: الرُّومُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَاللِّزَامُ يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الاستسقاء ۲ (۱۰۰۷)، و۱۳ (۱۰۲۰)، تفسیر سورۃ یوسف ۴ (۴۶۹۳)، وتفسیر سورۃ الفرقان ۵ (۴۷۶۷)، وتفسیر الروم ۱ (۴۷۷۴)، وتفسیر ص ۳ (۴۸۰۹)، وتفسیر الدخان ۱ (۴۸۲۰)، و۲ (۴۸۲۱)، و۳ (۴۸۲۲)، م/المنافقین ۷ (۲۷۹۸) (تحفۃ الأشراف: ۹۵۷۴) (صحیح)
۳۲۵۴- مسروق کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آکرکہا: ایک قصہ گو(واعظ) قصہ بیان کرتے ہوئے کہہ رہاتھا (قیامت کے قریب) زمین سے دھواں نکلے گا ،جس سے کافروں کے کان بند ہوجائیں گے، اور مسلمانوں کو زکام ہوجائے گا۔ مسروق کہتے ہیں: یہ سن کر عبداللہ غصہ ہوگئے (پہلے) ٹیک لگائے ہوئے تھے، (سنبھل کر ) بیٹھ گئے۔ پھر کہا: تم میں سے جب کسی سے کوئی چیز پوچھی جائے اور وہ اس کے بارے میں جانتا ہو توا سے بتانی چاہیے اور جب کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو اسے اللہ اعلم (اللہ بہتر جانتا ہے) کہنا چاہیے، کیوں کہ یہ آدمی کے علم وجانکاری ہی کی بات ہے کہ جب اس سے کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو وہ کہہ دے'' اللہ اعلم''(اللہ بہترجانتاہے) ، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا:''{ قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُتَكَلِّفِينَ } ۱؎ (بات اس دخان کی یہ ہے کہ ) جب رسول اللہ ﷺ نے قریش کو دیکھا کہ وہ نافرمانی ہی کیے جارہے ہیں توآپ نے کہا: اے اللہ! یوسف علیہ السلام کے سات سالہ قحط کی طرح ان پر سات سالہ قحط بھیج کر ہماری مدد کر (آپ کی دعا قبول ہوگئی)، ان پر قحط پڑگیا، ہرچیز اس سے متاثر ہوگئی، لوگ چمڑے اور مردار کھانے لگے (اس حدیث کے دونوں راویوں اعمش ومنصور میں سے ایک نے کہا ہڈیاں بھی کھانے لگے) ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: دھواں جیسی چیز زمین سے نکلنے لگی، تو ابوسفیان نے آپ کے پاس آکر کہا: آپ کی قوم ہلاک وبرباد ہوگئی، آپ ان کی خاطر اللہ سے دعا فرمادیجئے عبداللہ نے کہا: یہی مراد ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان {فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاء بِدُخَانٍ مُّبِينٍ يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ} (الدخان :10-11) ۲؎ کا، منصور کہتے ہیں:یہی مفہوم ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان {رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ} (الدخان:12) ۳؎ کا، تو کیا آخرت کا عذاب ٹالا جاسکے گا؟ ۔ عبداللہ کہتے ہیں: بطشہ ، لزام(بدر) اور دخان کا ذکر وزمانہ گزرگیا اعمش اور منصور دونوں راویوں میں سے، ایک نے کہا: قمر (چاند ) کا شق ہونا گزرگیا، اور دوسرے نے کہا: روم کے مغلوب ہونے کا واقعہ بھی پیش آچکا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- لزام سے مراد یوم بدر ہے۔
وضاحت ۱؎ : کہہ دو میں تم سے اس کام پر کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ، اور میں خود سے باتیں بنانے والا بھی نہیں ہوں (ص:۸۶)۔
وضاحت ۲؎ : جس دن آسمان کھلا ہوا دھواں لائے گا یہ (دھواں ) لوگوں کو ڈھانپ لے گا، یہ بڑا تکلیف دہ عذاب ہے(الدخان:۱۰)۔
وضاحت۳؎ : اے ہمارے رب ! ہم سے عذاب کو ٹال دے ہم ایمان لانے والے ہیں(الدخان:۱۲)۔


3255- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلا وَلَهُ بَابَانِ بَابٌ يَصْعَدُ مِنْهُ عَمَلُهُ، وَبَابٌ يَنْزِلُ مِنْهُ رِزْقُهُ؛ فَإِذَا مَاتَ بَكَيَا عَلَيْهِ؛ فَذَلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: {فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمْ السَّمَائُ وَالأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنْظَرِينَ}" [الدخان: 29].
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَمُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ وَيَزِيدُ بْنُ أَبَانَ الرَّقَاشِيُّ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۵) (ضعیف)
(سندمیں یزید بن ابان رقاشی ضعیف راوی ہیں)
۳۲۵۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' ہرمومن کے لیے دو دروازے ہیں، ایک دروازہ وہ ہے جس سے اس کے نیک عمل چڑھتے ہیں اور ایک دروازہ وہ ہے جس سے اس کی روزی اترتی ہے،جب وہ مرجاتاہے تو یہ دونوں اس پر روتے ہیں، یہی ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: {فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاء وَالأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنظَرِينَ} (الدخان: 29) ۱؎ کامطلب ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے مرفوع صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- موسیٰ بن عبیدہ اور یزید بن ابان رقاشی حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں۔
وضاحت ۱؎ : (کفار ومشرکین) پر زمین وآسمان کو ئی بھی نہ رویا اور انہیں کسی بھی طرح کی مہلت نہ دی گئی(الدخان:۲۹)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
46-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الأَحْقَافِ
۴۶-باب: سورہ احقاف سے بعض آیات کی تفسیر​


3256- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُحَيَّاةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنِ ابْنِ أَخِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلاَمٍ قَالَ: لَمَّا أُرِيدَ عُثْمَانُ جَاءَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَلامٍ فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ: مَا جَاءَ بِكَ قَالَ: جِئْتُ فِي نَصْرِكَ قَالَ: اخْرُجْ إِلَى النَّاسِ؛ فَاطْرُدْهُمْ عَنِّي؛ فَإِنَّكَ خَارِجٌ خَيْرٌ لِي مِنْكَ دَاخِلٌ؛ فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ إِلَى النَّاسِ فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّهُ كَانَ اسْمِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ فُلانٌ فَسَمَّانِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَبْدَاللَّهِ وَنَزَلَ فِيَّ آيَاتٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ نَزَلَتْ فِيَّ: {وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} وَنَزَلَتْ فِيَّ قُلْ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ إِنَّ لِلَّهِ سَيْفًا مَغْمُودًا عَنْكُمْ وَإِنَّ الْمَلائِكَةَ قَدْ جَاوَرَتْكُمْ فِي بَلَدِكُمْ هَذَا الَّذِي نَزَلَ فِيهِ نَبِيُّكُمْ فَاللَّهَ اللَّهَ فِي هَذَا الرَّجُلِ أَنْ تَقْتُلُوهُ فَوَاللَّهِ إِنْ قَتَلْتُمُوهُ لَتَطْرُدُنَّ جِيرَانَكُمْ الْمَلائِكَةَ وَلَتَسُلُّنَّ سَيْفَ اللَّهِ الْمَغْمُودَ عَنْكُمْ فَلا يُغْمَدُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالَ: فَقَالُوا: اقْتُلُوا الْيَهُودِيَّ، وَاقْتُلُوا عُثْمَانَ .
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَاهُ شُعَيْبُ بْنُ صَفْوَانَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ ابْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلامٍ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلامٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۳۴۴) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں ابن اخی عبد اللہ بن سلام مجہول راوی ہے)
۳۲۵۶- عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے بھتیجے کہتے ہیں کہ جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو جان سے مارڈالنے کا ارادہ کرلیاگیا تو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے ، عثمان نے ان سے کہا: تم کس مقصد سے یہاں آئے ہو؟ انہوں نے کہا: میں آپ کی مدد میں(آپ کو بچانے کے لیے) آیاہوں، انہوں نے کہا: تم لوگوں کے پاس جاؤ اور انہیں مجھ سے دور ہٹا دو ، تمہارا میرے پاس رہنے سے باہر رہنا زیادہ بہتر ہے، چنانچہ عبداللہ بن سلام لوگوں کے پاس آئے اور انہیں مخاطب کرکے کہا: لوگو! میرانام جاہلیت میں فلاں تھا (یعنی حصین)پھر رسول اللہ ﷺ نے میرانام عبداللہ رکھا ، میرے بارے میں کتاب اللہ کی کئی آیات نازل ہوئیں ، میرے بارے میں آیت: { وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ } (الأحقاف :10) ۱؎ اور میرے ہی حق میں { شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ} (الرعد:43) ۲؎ آیت اتری ہے،بیشک اللہ کے پاس ایسی تلوار ہے جو تمہیں نظر نہیں آتی ، بیشک تمہارے اس شہر میں جس میں تمہارے بنی بھیجے گئے، فرشتے تمہارے پڑوسی ہیں، تو ڈرو اللہ سے، ڈرو اللہ سے اس شخص (عثمان) کے قتل کردینے سے،قسم ہے اللہ کی اگر تم لوگوں نے انہیں قتل کرڈالا تو تم اپنے پڑوسی فرشتوں کو اپنے سے دور کردو گے (بھگادوگے) اور اللہ کی وہ تلوار جو تمہاری نظروں سے پوشیدہ ہے تمہارے خلاف سونت دی جائے گی، پھر وہ قیامت تک میان میں ڈالی نہ جاسکے گی، راوی کہتے ہیں:لوگوں نے (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات سن کر) کہا: اس یہودی کو قتل کردو، اور عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی مار ڈالو قتل کردو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- اس حدیث کو شعیب بن صفوان نے عبدالملک بن عمیر سے اورعبدالملک بن عمیرنے ابن محمد بن عبداللہ بن سلام سے اورابن محمد نے اپنے دادا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : بنی اسرائیل میں سے گواہی دینے والے نے اس کے مثل گواہی دی (یعنی اس بات پر گواہی دی کہ قرآن اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے) اور ایمان لایا اور تم نے تکبر کیا، اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا(الاحقاف:۱۰)۔
وضاحت ۲؎ : اے نبی کہہ دو ! اللہ میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور وہ بھی گواہ ہے جس کے پاس کتاب کاعلم ہے(اس سے مراد عبداللہ بن سلام ہیں کہ حق کیا ہے اور کس کے پاس ہے) (الرعد:۴۳)۔


3257- حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا رَأَى مَخِيلَةً أَقْبَلَ وَأَدْبَرَ؛ فَإِذَا مَطَرَتْ سُرِّيَ عَنْهُ قَالَتْ: فَقُلْتُ لَهُ: فَقَالَ: وَمَا أَدْرِي لَعَلَّهُ كَمَا قَالَ اللَّه تَعَالَى: {فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: خ/بدء الخلق ۵ (۳۲۰۶)، وتفسیر الاحقاف ۲ (۴۸۲۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۸۶) (صحیح)
۳۲۵۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرمﷺجب برسنے والا کوئی بادل دیکھتے تو آگے بڑھتے پیچھے ہٹتے (اندر آتے باہر جاتے) مگر جب بارش ہونے لگتی تو اسے دیکھ خوش ہوجاتے، میں نے عرض کیا: ایساکیوں کرتے ہیں؟ آپﷺنے فرمایا:'' میں (صحیح ) جانتا تو نہیں شاید وہ کچھ ایسا ہی نہ ہو جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے {فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا} (الأحقاف : 24) ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : جب انہوں نے اسے بحیثیت بادل اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے کہا: یہ بادل ہم پر برسنے آرہا ہے، بلکہ یہ وہ عذاب ہے جس کی تم نے جلدی مچارکھی تھی (آندھی ہے کہ جس میں نہایت دردناک عذاب ہے) (الاحقاف : ۲۴)۔


3258- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ دَاوُدَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ: قُلْتُ لابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: هَلْ صَحِبَ النَّبِيَّ ﷺ لَيْلَةَ الْجِنِّ مِنْكُمْ أَحَدٌ قَالَ: مَا صَحِبَهُ مِنَّا أَحَدٌ، وَلَكِنْ قَدْ افْتَقَدْنَاهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَهُوَ بِمَكَّةَ فَقُلْنَا: اغْتِيلَ أَوْ اسْتُطِيرَ مَافُعِلَ بِهِ فَبِتْنَا بِشَرِّ لَيْلَةٍ بَاتَ بِهَا قَوْمٌ حَتَّى إِذَا أَصْبَحْنَا أَوْ كَانَ فِي وَجْهِ الصُّبْحِ إِذَا نَحْنُ بِهِ يَجِيئُ مِنْ قِبَلِ حِرَائَ قَالَ فَذَكَرُوا لَهُ الَّذِي كَانُوا فِيهِ فَقَالَ: "أَتَانِي دَاعِي الْجِنِّ فَأَتَيْتُهُمْ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِمْ" فَانْطَلَقَ فَأَرَانَا آثَارَهُمْ وَآثَارَ نِيرَانِهِمْ قَالَ الشَّعْبِيُّ وَسَأَلُوهُ الزَّادَ وَكَانُوا مِنْ جِنِّ الْجَزِيرَةِ فَقَالَ: "كُلُّ عَظْمٍ يُذْكَرُ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ يَقَعُ فِي أَيْدِيكُمْ أَوْفَرَ مَا كَانَ لَحْمًا وَكُلُّ بَعْرَةٍ أَوْ رَوْثَةٍ عَلَفٌ لِدَوَابِّكُمْ" فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "فَلا تَسْتَنْجُوا بِهِمَا فَإِنَّهُمَا زَادُ إِخْوَانِكُمُ الْجِنِّ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الصلاۃ ۳۳ (۴۵۰)، د/الطھارۃ ۴۲ (۸۵) (تحفۃ الأشراف: ۹۳۶۳) (صحیح)
(اس حدیث پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو: الضعیفۃ رقم ۱۰۳۸)
۳۲۵۸- علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا:کیا جنوں والی رات میں آپ لوگوں میں سے کوئی نبی اکرمﷺکے ساتھ تھا؟ انہوں نے کہا: ہم میں سے کوئی آپ کے ساتھ نہیں تھا، آپ مکہ میں تھے اس وقت کی بات ہے، ایک رات ہم نے آپ کو نائب پایا، ہم نے کہا: آپ کا اغوا کرلیاگیا ہے یا(جن) اڑا لے گئے ہیں، آپ کے ساتھ کیاکیاگیا ہے؟ بری سے بری رات جو کوئی قوم گزار سکتی ہے ہم نے ویسی ہی اضطراب وبے چینی کی رات گزاری، یہاں تک کہ جب صبح ہوئی، یا صبح تڑکے کا وقت تھا اچانک ہم نے دیکھا کہ آپ حرا کی جانب سے تشریف لارہے ہیں، لوگوں نے آپ سے اپنی اس فکر وتشویش کا ذکر کیا جس سے وہ رات کے وقت دوچار تھے، آپﷺنے فرمایا:'' جنوں کا قاصد (مجھے بلانے) آیا، تو میں ان کے پاس گیا، اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا''، ابن مسعود کہتے ہیں:ـ پھر آپ اٹھ کر چلے اورہمیں ان کے آثار (نشانات وثبوت) دکھائے، اور ان کی آگ کے نشانات دکھائے۔ شعبی کہتے ہیں: جنوں نے آپ سے توشہ مانگا ، اور وہ جزیرہ کے رہنے والے جن تھے، آپ نے فرمایا:'' ہر ہڈی جس پر اللہ کا نام لیاجائے گا تمہارے ہاتھ میں پہنچ کر پہلے سے زیادہ گوشت والی بن جائے گی، ہر مینگنی اور لید (گوبر) تمہارے جانوروں کا چارہ ہے ، پھر رسول اللہ ﷺنے (صحابہ سے) فرمایا:'' (اسی وجہ سے) ''ان دونوں چیزوں سے استنجا نہ کرو کیوں کہ یہ دونوں چیزیں تمہارے بھائی جنوں کی خوراک ہیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
47-بَاب وَمِنْ سُورَةِ مُحَمَّدٍ ﷺ
۴۷-باب: سورہ محمد سے بعض آیات کی تفسیر​


3259- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: {وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ} فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "إِنِّي لأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ فِي الْيَوْمِ سَبْعِينَ مَرَّةً". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَيُرْوَى عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَيْضًا عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " إِنِّي لأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ".
وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ إِنِّي لأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ، وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: ن/عمل الیوم واللیلۃ ۱۴۵ (۴۳۴-۴۳۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۷۸) (صحیح)
۳۲۵۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرمﷺنے آیت: {وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ} ۱؎ کی تفسیر میں فرمایا:'' میں اللہ سے ہردن ستر بار مغفرت طلب کرتاہوں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' میں دن میں اللہ سے سوبار مغفرت طلب کرتاہوں،۳- نیزمتعدد دیگرسندوں سے بھی نبی اکرمﷺسے مروی ہے کہ میں اللہ سے ہردن سومرتبہ استغفار طلب کرتاہوں۔
وضاحت ۱؎ : تو اپنے گناہوں کے لیے اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے مغفرت مانگ(محمد:۱۹)۔


3260- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، عَنْ الْعَلائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: تَلا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمًا هَذِهِ الآيَةَ: {وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ}[محمد: 38] قَالُوا: وَمَنْ يُسْتَبْدَلُ بِنَا قَالَ: فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى مَنْكِبِ سَلْمَانَ، ثُمَّ قَالَ: هَذَا وَقَوْمُهُ هَذَا وَقَوْمُهُ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ فِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ، وَقَدْ رَوَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ أَيْضًا هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الْعَلائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۳۶) (صحیح)
( سند میں ایک راوی مبہم ہے، لیکن آنے والی حدیث کی متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
۳۲۶۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ایک دن یہ آیت { وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ } ۱؎ تلاوت فرمائی، صحابہ نے کہا: ہمارے بدلے کون لوگ لائے جائیں گے؟ آپﷺ نے سلمان کے کندھے پرہاتھ مارا (رکھا) پھر فرمایا:'' یہ اوراس کی قوم ، یہ اور اس کی قوم''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- اس کی سند میں کلام ہے،۳- عبداللہ بن جعفرنے بھی یہ حدیث علاء بن عبدالرحمن سے روایت کی ہے۔(ان کی روایت آگے آرہی ہے)
وضاحت ۱؎ : اے عرب کے لوگو! تم ( ایمان وجہاد سے) پھر جاؤ گے تو تمہارے بدلے اللہ دوسری قوم کو لاکرکھڑا کرے گا، وہ تمہارے جیسے نہیں (بلکہ تم سے اچھے)ہوں گے(محمد:۳۸)۔


3261- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ نَجِيحٍ، عَنْ الْعَلائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ قَالَ: قَالَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَنْ هَؤُلائِ الَّذِينَ ذَكَرَ اللَّهُ إِنْ تَوَلَّيْنَا اسْتُبْدِلُوا بِنَا ثُمَّ لَمْ يَكُونُوا أَمْثَالَنَا؟ قَالَ: وَكَانَ سَلْمَانُ بِجَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَخِذَ سَلْمَانَ وَقَالَ: "هَذَا وَأَصْحَابُهُ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ كَانَ الإِيمَانُ مَنُوطًا بِالثُّرَيَّا لَتَنَاوَلَهُ رِجَالٌ مِنْ فَارِسَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ نَجِيحٍ هُوَ وَالِدُ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
3261/م- وَقَدْ رَوَى عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْكَثِيرَ، و حَدَّثَنَا عَلِيٌّ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ نَجِيحٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، و حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ الْعَلائِ نَحْوَهُ إِلا أَنَّهُ قَالَ: مُعَلَّقٌ بِالثُّرَيَّا.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۲۶۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ نے کیا ہے کہ اگر ہم پلٹ جائیں گے تو وہ ہماری جگہ لے آئے جائیں گے،اور وہ ہم جیسے نہ ہوں گے، سلمان رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پہلومیں بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺنے سلمان رضی اللہ عنہ کی ران پر ہاتھ رکھا اور فرمایا:'' یہ اور ان کے اصحاب ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر ایمان ثریا ۱؎ کے ساتھ بھی معلق ہوگا تو بھی فارس کے کچھ لوگ اسے پالیں گے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ عبداللہ بن جعفربن نجیح : علی بن المدینی کے والدہیں، ۲- علی بن حجرنے عبداللہ بن جعفر سے بہت سے احادیث راویت کی ہیں۔
۳۲۶۱/م- علی بن حجرنے ہمیں یہ حدیث بطریق:اسماعیل بن جعفر، عن عبداللہ بن جعفر، روایت کی ہے،نیز : ہم سے بشربن معاذ نے یہ حدیث بطریق''عبدالله بن جعفر، عن العلاء ''بھی روایت کی ہے مگراس طریق میں ''معلق بالثريا''کے الفاظ ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ثریا سات ستارے ہیں جوسب ستاروں سے زیادہ بلندی پرہیں،اورآپ ﷺکے ارشادکا مطلب یہ ہے کہ اگرایمان (یا دین ، یاعلم جیساکہ دیگرروایات میں ہے اورسب کاحاصل مطلب ایک ہی ہے)ثریا پر بھی چلاجائے تو بھی سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو قوم کے کچھ لوگ وہاں بھی جاکرحاصل کرلیں گے ، اور یہ پیشین گوئی اس طرح ہوگئی کہ اہل فارس میں سیکڑوں علماء اسلام پیداہوئے ، اوربقول امام احمدبن حنبل :اگراس سے محدثین نہیں مرادہوں تومیں نہیں سمجھتاکہ تب پھرکون مرادہوں گے، رحمہم اللہ جمیعا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
48-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْفَتْحِ
۴۸-باب: سورہ فتح سے بعض آیات کی تفسیر​


3262- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ قَال: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ فَكَلَّمْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَسَكَتَ، ثُمَّ كَلَّمْتُهُ؛ فَسَكَتَ، ثُمَّ كَلَّمْتُهُ؛ فَسَكَتَ فَحَرَّكْتُ رَاحِلَتِي؛ فَتَنَحَّيْتُ، وَقُلْتُ: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ! نَزَرْتَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ثَلاثَ مَرَّاتٍ كَلُّ ذَلِكَ لا يُكَلِّمُكَ مَا أَخْلَقَكَ بِأَنْ يَنْزِلَ فِيكَ قُرْآنٌ قَالَ: فَمَا نَشِبْتُ أَنْ سَمِعْتُ صَارِخًا يَصْرُخُ بِي قَالَ: فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: "يَا ابْنَ الْخَطَّابِ! لَقَدْ أُنْزِلَ عَلَيَّ هَذِهِ اللَّيْلَةَ سُورَةٌ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي مِنْهَا مَا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا}".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ مَالِكٍ مُرْسَلاً.
* تخريج: خ/المغازي ۳۵ (۴۱۷۷)، وتفسیر سورۃ الفتح ۱ (۴۸۳۳)، وفضائل القرآن ۱۲ (۵۰۱۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۸۷) (صحیح)
۳۲۶۲- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی سفر میں تھے ، میں نے آپ سے کچھ کہا، آپ خاموش رہے، میں نے پھر آپ سے بات کی آپ پھر خاموش رہے، میں نے پھر بات کی آپ (اس باربھی) خاموش رہے، میں نے اپنی سواری کو جھٹکا دیا اور ایک جانب (کنارے) ہوگیا، اور (اپنے آپ سے ) کہا: ابن خطاب! تیری ماں تجھ پرروئے، تو نے رسول اللہ ﷺ سے تین بار اصرار کیا، اور آپ نے تجھ سے ایک بار بھی بات نہیں کی، تو اس کا مستحق اورسزاوار ہے کہ تیرے بارے میں کوئی آیت نازل ہو ( اور تجھے سرزنش کی جائے) عمر بن خطاب کہتے ہیں: ابھی کچھ بھی دیر نہ ہوئی تھی کہ میں نے ایک پکارنے والے کو سنا ، وہ مجھے پکار رہاتھا، عمر بن خطاب کہتے ہیں: میں رسول اللہﷺ کے پاس گیا،آپ نے فرمایا:'' ابن خطاب! آج رات مجھ پر ایک ایسی سورہ نازل ہوئی ہے جو مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر سورج نکلتاہے اور وہ سورہ یہ ہے {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا} ۱؎ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ،۲- بعض نے اس حدیث کو مالک سے مرسلاً (بلاعاً) روایت کیاہے۔
وضاحت ۱؎ : بیشک اے نبی!ہم نے آپ کوایک کھلم کھلافتح دی ہے(الفتح : ۱ )۔


3263- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: نَزَلَتْ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ: {لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ} مَرْجِعَهُ مِنَ الْحُدَيْبِيَةِ؛ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "لَقَدْ نَزَلَتْ عَلَيَّ آيَةٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا عَلَى الأَرْضِ"، ثُمَّ قَرَأَهَا النَّبِيُّ ﷺ عَلَيْهِمْ فَقَالُوا هَنِيئًا مَرِيئًا يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَدْ بَيَّنَ اللَّهُ لَكَ مَاذَا يُفْعَلُ بِكَ فَمَاذَا يُفْعَلُ بِنَا فَنَزَلَتْ عَلَيْهِ: {لِيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ -حَتَّى بَلَغَ- فَوْزًا عَظِيمًا}. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِيهِ عَنْ مُجَمِّعِ بْنِ جَارِيَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۲) (صحیح الإسناد)
۳۲۶۳- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نبی اکرمﷺپر حدیبیہ سے واپسی کے وقت {لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ}(الفتح :2) ۱؎ نازل ہوئی، تونبی اکرمﷺنے فرمایا:'' مجھ پر ایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے زمین کی ساری چیزوں سے زیادہ محبوب ہے، پھر آپ نے وہ آیت سب کو پڑھ کر سنائی، لوگوں نے (سن کر) هنيأ مريئًا کہا، (آپ کے لیے خوش گوار اور مبارک ہو، اے اللہ کے نبی! اللہ نے آپ کو بتادیا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا مگر ہمارے ساتھ کیاکیا جائے گا؟ اس پر آیت {لِيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ}سے لے کر سے {فَوْزًا عَظِيمًا} (الفتح:5) تک نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں مجمع بن جاریہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : (اللہ نے جہاداس لیے فرض کیاہے) تاکہ اللہ تمہارے اگلے پچھلے گناہ بخش دے(الفتح:۲)۔
وضاحت ۲؎ : تاکہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے باغوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی،جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان سے ان کے گناہ دورکردے اوراللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی کامیابی ہے(الفتح:۵)۔


3264- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ ثَمَانِينَ هَبَطُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَأَصْحَابِهِ مِنْ جَبَلِ التَّنْعِيمِ عِنْدَ صَلاَةِ الصُّبْحِ وَهُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يَقْتُلُوهُ؛ فَأُخِذُوا أَخْذًا فَأَعْتَقَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ}[الفتح: 24] الآيَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الجھاد ۴۶ (۱۸۰۸)، د/الجھاد ۱۳۰ (۲۶۸۸) (تحفۃ الأشراف: ۳۰۹) (صحیح)
۳۲۶۴- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ اورصحابہ پرحملہ آور ہونے کے لیے اسی (۸۰) کی تعدادمیں کافر تنعیم پہاڑ سے صلاۃ فجر کے وقت اترے ، وہ چاہتے تھے کہ نبی اکرمﷺ کو قتل کردیں، مگر سب کے سب پکڑے گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں چھوڑ دیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت: {كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ} ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : وہی ہے جس نے ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے(الفتح:۲۴)۔


3265- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ ثُوَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ {وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى} قَالَ: "لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ الْحَسَنِ بْنِ قَزَعَةَ.
قَالَ: وَسَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۱) (صحیح)
۳۲۶۵- اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:نبی اکرمﷺنے {وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى} کے متعلق فرمایا : ''اس سے مراد '' لا إله إلا الله'' ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- اسے ہم حسن بن قزعہ کے سوا کسی اور کو مرفوع روایت کرتے ہوئے نہیں جانتے،۳- میں نے ابوزرعہ سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس سند کے سوا کسی اور سند سے اسے مرفوع نہیں جانا۔
وضاحت ۱؎ : '' لا إله إلا الله'' ( اللہ نے انہیں تقوے کی بات پر جمائے رکھا(الفتح:۲۶)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
49-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْحُجُرَاتِ
۴۹-باب: سورہ حجرات سے بعض آیات کی تفسیر​


3266- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ بْنِ جَمِيلٍ الْجُمَحِيُّ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! اسْتَعْمِلْهُ عَلَى قَوْمِهِ فَقَالَ عُمَرُ: لاَ تَسْتَعْمِلْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَتَكَلَّمَا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا فَقَال أَبُو بَكْرٍ: لِعُمَرَ مَا أَرَدْتَ إِلاَّ خِلاَفِي فَقَالَ: مَا أَرَدْتُ خِلاَفَكَ قَالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ} قَالَ: فَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بَعْدَ ذَلِكَ إِذَا تَكَلَّمَ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ لَمْ يُسْمِعْ كَلاَمَهُ حَتَّى يَسْتَفْهِمَهُ قَالَ: وَمَا ذَكَرَ ابْنُ الزُّبَيْرِ جَدَّهُ يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ مُرْسَلٌ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ.
* تخريج: خ/المغازي ۶۸ (۴۳۶۷)، وتفسیر الحجرات ۲ (۴۸۴۷)، والاعتصام ۶ (۷۳۰۲) (تحفۃ الأشراف: ۵۲۶۹) (صحیح)
۳۲۶۶- عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اقرع بن حابس نبی اکرمﷺکے پاس آئے ، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا:اللہ کے رسول! آپ انہیں ان کی اپنی قوم پر عامل بنادیجئے ، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ! آپ انہیں عامل نہ بنائیے ، ان دونوں حضرات نے آپ کی موجودگی میں آپس میں توتو میں میں کی، ان کی آوازیں بلند ہوگئیں، ابوبکر نے عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ کو تو بس ہماری مخالفت ہی کرنی ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ کی مخالفت نہیں کرتا، چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی { لاَ تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ } ۱؎ اس واقعہ کے بعد عمر رضی اللہ عنہ جب نبی اکرمﷺسے گفتگو کرتے تو اتنے دھیرے بولتے کہ بات سنائی نہیں پڑتی، سامع کو ان سے پوچھنا پڑجاتا، راوی کہتے ہیں: ابن زبیر نے اپنے نانا یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں کیا ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- بعض نے اس حدیث کو ابن ابی ملیکہ سے مرسل طریقہ سے روایت کیا ہے اور اس میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا ذکر نہیں کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : رسول اللہﷺ کے سامنے اپنی آواز بلندنہ کرو(الحجرات:۲)۔
وضاحت ۲؎ : یعنی: ابن زبیرنے آپ ﷺکے سامنے پست ترین آواز سے بات نہ کرنے کے سلسلے میں صرف عمرکاذکرکیا،اپنے نانا ابوبکر رضی اللہ عنہ کاذکرنہیں کیا۔


3267- حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ فِي قَوْلِهِ: {إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَائِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لايَعْقِلُونَ} قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ؛ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ حَمْدِي زَيْنٌ وَإِنَّ ذَمِّي شَيْنٌ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "ذَاكَ اللَّهُ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (صحیح)
۳۲۶۷- براء بن عازب رضی اللہ عنہما اللہ تعالی کے اس فرمان {إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَائِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لايَعْقِلُونَ} ۱؎ کی تفسیر میں کہتے ہیں: ایک شخص نے (آپ کے دروازے پر) کھڑے ہوکر(پکارکر)کہا: اللہ کے رسول! میری تعریف میری عزت ہے اور میری مذمت ذلت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' یہ صفت تو اللہ کی ہے ( یہ اللہ ہی کی شان ہے)''۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : اے نبی جولوگ آپ کو حجروں کے باہر سے آواز دے کر پکارتے ہیں، ان کی اکثریت بے عقلوں کی ہے (الحجرات:۴)۔


3268- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِسْحَاقَ الْجَوْهَرِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ صَاحِبُ الْهَرَوِيِّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ قَال: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي جَبِيرَةَ بْنِ الضَّحَّاكِ قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ مِنَّا يَكُونَ لَهُ الاسْمَانِ وَالثَّلاثَةُ؛ فَيُدْعَى بِبَعْضِهَا فَعَسَى أَنْ يَكْرَهَ قَالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةَ: {وَلا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ أَبُو جَبِيرَةَ هُوَ أَخُو ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ بْنِ خَلِيفَةَ أَنْصَارِيٌّ، وَأَبُو زَيْدٍ سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ صَاحِبُ الْهَرَوِيِّ بَصْرِيٌّ ثِقَةٌ.
* تخريج: د/الأدب ۷۱ (۴۹۶۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۸۲) (صحیح)
3268/م- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي جَبِيرَةَ بْنِ الضَّحَّاكِ نَحْوَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۲۶۸- ابوجبیرہ بن ضحاک کہتے ہیں: ہم میں سے بہت سے لوگوں کے دو دو تین تین نام ہواکرتے تھے، ان میں سے بعض کو بعض نام سے پکاراجاتاتھا، اور بعض نام سے پکار نااسے برا لگتا تھا، اس پر یہ آیت { وَلاَ تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ} ۱؎ نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ابو جبیرہ ، یہ ثابت بن ضحاک بن خلیفہ انصاری کے بھائی ہیں، اور ابوزید سعید بن الربیع صاحب الہروی بصرہ کے رہنے والے ثقہ (معتبر) شخص ہیں۔
۳۲۶۸/م- اس سندسے داود نے شعبی سے اورشعبی نے ابوجبیرہ بن ضحاک سے اسی طرح روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : لوگوں کو برے القاب ( برے ناموں ) سے نہ پکارو(الحجرات:۱۱)۔


3269- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، عَنِ الْمُسْتَمِرِّ بْنِ الرَّيَّانِ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ قَالَ: قَرَأَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ: {وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِنَ الأَمْرِ لَعَنِتُّمْ} قَالَ: هَذَا نَبِيُّكُمْ ﷺ يُوحَى إِلَيْهِ وَخِيَارُ أَئِمَّتِكُمْ لَوْ أَطَاعَهُمْ فِي كَثِيرٍ مِنْ الأَمْرِ لَعَنِتُوا فَكَيْفَ بِكُمُ الْيَوْمَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: سَأَلْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ عَنِ الْمُسْتَمِرِّ بْنِ الرَّيَّانِ فَقَالَ: ثِقَةٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۳۸۳) (صحیح الإسناد)
۳۲۶۹- ابونضرہ کہتے ہیں کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے آیت: {وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الأَمْرِ لَعَنِتُّمْ}(الحجرات:7) ۱؎ تلاوت کی اور اس کی تشریح میں کہا: یہ تمہارے نبی اکرمﷺہیں ، ان پر وحی بھیجی جاتی ہے اور اگر وہ بہت سارے معاملات میں تمہاری امت کے چیدہ لوگوں کی اطاعت کرنے لگیں گے توتم تکلیف میں مبتلا ہوجاتے، چنانچہ(آج) اب تمہاری باتیں کب اور کیسے مانی جاسکتی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- علی بن مدینی کہتے ہیں: میں نے یحییٰ بن سعید قطان سے مستمر بن ریان کے بارے میں پوچھا توانہوں نے کہا :وہ ثقہ ہیں۔
وضاحت ۱؎ : جان لو تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے، اگر وہ بیشتر معاملات میں تمہاری بات ماننے لگ جائے تو تم مشقت وتکلیف میں پڑجاؤگے(الحجرات:۷)۔


3270- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ خَطَبَ النَّاسَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَتَعَاظُمَهَا بِآبَائِهَا؛ فَالنَّاسُ رَجُلاَنِ بَرٌّ تَقِيٌّ كَرِيمٌ عَلَى اللَّهِ، وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ هَيِّنٌ عَلَى اللَّهِ، وَالنَّاسُ بَنُو آدَمَ، وَخَلَقَ اللَّهُ آدَمَ مِنْ تُرَابٍ قَالَ اللَّهُ: {يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ . وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ يُضَعَّفُ ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَغَيْرُهُ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ هُوَ وَالِدُ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ. قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۲۰۱) (صحیح)
(سندمیں علی بن المدینی کے والد عبد اللہ بن جعفر ضعیف راوی ہیں،لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
۳۲۷۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:فتح مکہ کے دن رسول اللہﷺ نے لوگوں کو خطاب فرمایا:'' لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کا فخر وغرور اور خاندانی تکبرختم کردیا ہے، اب لوگ صرف دوطرح کے ہیں (۱) اللہ کی نظر میں نیک متقی ، کریم وشریف اور (۲) دوسرا فاجر بدبخت ، اللہ کی نظر میں ذلیل وکمزور ، لوگ سب کے سب آدم کی اولاد ہیں۔ اورآدم کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''{يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ} ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ،۲- ہم اس حدیث کو صرف اسی سند کے سوا جسے عبداللہ بن دینار ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کسی اور سند سے مروی نہیں جانتے،۳- عبداللہ بن جعفر ضعیف قرارد یئے گئے ہیں، انہیں یحییٰ بن معین وغیر ہ نے ضعیف کہاہے، اور عبداللہ بن جعفر - یہ علی ابن مدینی -کے والد ہیں،۴- اس باب میں ا بوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اے لوگو! ہم نے تمہیں نر اور مادہ (کے ملاپ) سے پیدا کیا اور ہم نے تمہیں کنبوں اور قبیلوں میں تقسیم کردیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، ( کہ کون کس قبیلے اور کس خاندان کا ہے) بے شک اللہ کی نظر میں تم میں سب سے زیادہ معزز ومحترم وہ شخص ہے جواللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ بے شک اللہ جاننے والا اور خبر رکھنے ولا ہے(الحجرات:۱۳)۔


3271- حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ الأَعْرَجُ الْبَغْدَادِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سَلامِ بْنِ أَبِي مُطِيعٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الْحَسَبُ الْمَالُ وَالْكَرَمُ التَّقْوَى". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سَمُرَةَ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ سَلامِ بْنِ أَبِي مُطِيعٍ.
* تخريج: ق/الزہد ۲۴ (۴۲۱۹) (تحفۃ الأشراف: ۴۵۹۸)، وحإ (۵/۱۰) (صحیح)
( سندمیں سلام بن ابی مطیع قتادہ سے روایت میں ضعیف راوی ہیں، نیز حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
۳۲۷۱- سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: '' حسب'' مال کو کہتے ہیں اور ''کرم'' سے مراد تقویٰ ہے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- ہم اسے صرف سلام بن ابی مطیع کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : مؤلف یہ حدیث ارشادباری تعالیٰ {إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ} ( الحجرات:۱۳) ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
50-بَاب وَمِنْ سُورَةِ ق
۵۰-باب: سورہ قٓ سے بعض آیات کی تفسیر​


3272- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "لاَ تَزَالُ جَهَنَّمُ تَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِيدٍ حَتَّى يَضَعَ فِيهَا رَبُّ الْعِزَّةِ قَدَمَهُ فَتَقُولُ: قَطْ قَطْ وَعِزَّتِكَ، وَيُزْوَى بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَفِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: خ/الأیمان والنذور ۱۲ (۶۶۶۱)، م/الجنۃ ۱۳ (۲۸۴۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۵) (صحیح)
۳۲۷۲- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' جہنم کہتی رہے گی{هَلْ مِن مَّزِيدٍ} (ق:30) ۱؎ یہاں تک کہ اللہ رب العزت اپنا قدم اس میں رکھ دے گا ، اس وقت جہنم قط-قط (بس،بس کہے گی)اورقسم ہے تیری عزت وبزرگی کی( اس کے بعد) جہنم کا ایک حصہ دوسرے حصے میں ضم ہوجائے گا ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : کوئی اور (جہنمی) ہوتو لاؤ، (ڈال دو اسے میرے پیٹ میں) (قٓ: ۳۰)۔
وضاحت ۲؎ : یعنی ایک حصہ دوسرے حصہ سے چمٹ کر یکجاہو جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
51-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الذَّارِيَاتِ
۵۱-باب: سورہ الذاریات سے بعض آیات کی تفسیر​


3273- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سَلامٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ رَبِيعَةَ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ؛ فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَذَكَرْتُ عِنْدَهُ وَافِدَ عَادٍ فَقُلْتُ: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ وَافِدِ عَادٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "وَمَا وَافِدُ عَادٍ؟" قَالَ: فَقُلْتُ: عَلَى الْخَبِيرِ سَقَطْتَ إِنَّ عَادًا لَمَّا أُقْحِطَتْ بَعَثَتْ قَيْلا فَنَزَلَ عَلَى بَكْرِ بْنِ مُعَاوِيَةَ فَسَقَاهُ الْخَمْرَ وَغَنَّتْهُ الْجَرَادَتَانِ، ثُمَّ خَرَجَ يُرِيدُ جِبَالَ مَهْرَةَ فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي لَمْ آتِكَ لِمَرِيضٍ فَأُدَاوِيَهُ، وَلا لأَسِيرٍ فَأُفَادِيَهُ فَاسْقِ عَبْدَكَ مَا كُنْتَ مُسْقِيَهُ، وَاسْقِ مَعَهُ بَكْرَ بْنَ مُعَاوِيَةَ يَشْكُرُ لَهُ الْخَمْرَ الَّتِي سَقَاهُ؛ فَرُفِعَ لَهُ سَحَابَاتٌ فَقِيلَ لَهُ: اخْتَرْ إِحْدَاهُنَّ؛ فَاخْتَارَ السَّوْدَائَ مِنْهُنَّ؛ فَقِيلَ لَهُ: خُذْهَا رَمَادًا رِمْدِدًا، لا تَذَرُ مِنْ عَادٍ أَحَدًا، وَذُكِرَ أَنَّهُ لَمْ يُرْسَلْ عَلَيْهِمْ مِنْ الرِّيحِ إِلا قَدْرُ هَذِهِ الْحَلْقَةِ -يَعْنِي حَلْقَةَ الْخَاتَمِ- ثُمَّ قَرَأَ: {إِذْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ الرِّيحَ الْعَقِيمَ مَا تَذَرُ مِنْ شَيْئٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ} [الذاريات:41-42] الآيَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سَلاَّمٍ أَبِي الْمُنْذِرِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حَسَّانَ وَيُقَالُ لَهُ الْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ.
* تخريج: ق/الجھاد ۲۰ (۲۸۱۶) (تحفۃ الأشراف: ۳۲۷۷) (حسن)
۳۲۷۳- ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی ربیعہ کے ایک شخص نے کہا: میں مدینہ آیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہاں آپ کے پاس (دوران گفتگو) میں نے قوم عاد کے قاصد کا ذکر کیا، اورمیں نے کہا: میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں عاد کے قاصد جیسا بن جاؤں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عاد کے قاصد کا قصہ کیا ہے؟ میں نے کہا: (اچھاہوا) آپ نے واقف کار سے پوچھا (میں آپ کو بتاتاہوں) قوم عاد جب قحط سے دوچار ہوئی تو اس نے قیل (نامی شخص) کو (امداد وتعاون حاصل کرنے کے لیے مکہ ) بھیجا ، وہ (آکر) بکر بن معاویہ کے پاس ٹھہرا، بکر نے اسے شراب پلائی ، اور دو مشہور مغنیاں اسے اپنے نغموں سے محظوظ کرتی رہیں ، پھر قیل نے وہاں سے نکل کر مہرہ کے پہاڑوں کا رخ کیا ( مہرہ ایک قبیلہ کے دادا کانام ہے) اس نے (دعا مانگی) کہا : اے اللہ! میں تیرے پاس کوئی مریض لے کر نہیں آیا کہ اس کا علاج کراؤں، اورنہ کسی قیدی کے لیے آیا اسے آزاد کرالوں، تو اپنے بندے کو پلا ( یعنی مجھے) جو تجھے پلانا ہے اور اس کے ساتھ بکر بن معاویہ کو بھی پلا ( اس نے یہ دعا کرکے) اس شراب کا شکریہ ادا کیا، جو بکر بن معاویہ نے اسے پلائی تھی، (انجام کار ) اس کے لیے (آسمان پر ) کئی بدلیاں چھائیں اور اس سے کہاگیا کہ تم ان میں سے کسی ایک کو اپنے لیے چن لو، اس نے ان میں سے کالی رنگ کی بدلی کو پسند کرلیا، کہاگیا: اسے لے لو اپنی ہلاکت وبربادی کی صورت میں، عاد قوم کے کسی فرد کو بھی نہ باقی چھوڑے گی، اور یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ عاد پر ہوا (آندھی) اس حلقہ یعنی انگوٹھی کے حلقہ کے برابر ہی چھوڑی گئی۔ پھر آپ نے آیت {إِذْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيحَ الْعَقِيمَ مَا تَذَرُ مِن شَيْئٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلاَّ جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ} [الذاريات :41-42]پڑھی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کوکئی لوگوں نے سلام ابو منذر سے، سلام نے عاصم بن ابی النجود سے،عاصم نے ابووائل سے اورابووائل نے (عن رجل من ربیعۃ کی جگہ) حارث بن حسان سے روایت کیا ہے۔(یہ روایت آگے آرہی ہے) ۲- حارث بن حسان کو حارث بن یزید بھی کہاجاتاہے۔
وضاحت ۱؎ : یاد کرو اس وقت کو جب ہم نے ان پر بانجھ ہوا بھیجی جس چیز کو بھی وہ ہوا چھوجاتی اسے چورا چورا کردیتی(الذاریات:۴۲)


3274- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، حَدَّثَنَا سَلامُ بْنُ سُلَيْمَانَ النَّحْوِيُّ أَبُوالْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنِ الْحَارِثِ بْنَ يَزِيدَ الْبَكْرِيِّ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ؛ فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا هُوَ غَاصٌّ بِالنَّاسِ وَإِذَا رَايَاتٌ سُودٌ تَخْفُقُ وَإِذَا بِلالٌ مُتَقَلِّدٌ السَّيْفَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ؟ قَالُوا: يُرِيدُ أَنْ يَبْعَثَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَجْهًا فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ نَحْوًا مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ بِمَعْنَاهُ.
قَالَ: وَيُقَالُ لَهُ: الْحَارِثُ بْنُ حَسَّانَ أَيْضًا.
* تخريج: انظر ماقبلہ (حسن)
۳۲۷۴- حارث بن یزید البکری کہتے ہیں: میں مدینہ آیا، مسجد نبوی میں گیا، وہ لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی، کالے جھنڈ ہوا میں اڑرہے تھے اور بلال رضی اللہ عنہ آپ کے سامنے تلوار لٹکائے ہوئے کھڑے تھے، میں نے پوچھا: کیا معاملہ ہے؟ لوگوں نے کہا: آپ کا ارادہ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو (فوجی دستہ کے ساتھ) کسی طرف بھیجنے کا ہے، پھر پوری لمبی حدیث سفیان بن عیینہ کی حدیث کی طرح اسی کے ہم معنی بیان کی ۔
حارث بن یزید کو حارث بن حسان بھی کہاجاتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
52-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الطُّورِ
۵۲-باب: سورہ طورسے بعض آیات کی تفسیر​


3275- حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ رِشْدِينَ بْنِ كُرَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِدْبَارُ النُّجُومِ الرَّكْعَتَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ وَإِدْبَارُ السُّجُودِ الرَّكْعَتَانِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَنَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ رِشْدِينَ بْنِ كُرَيْبٍ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، وَرِشْدِينَ بْنِ كُرَيْبٍ أَيُّهُمَا أَوْثَقُ قَالَ: مَا أَقْرَبَهُمَا وَمُحَمَّدٌ عِنْدِي أَرْجَحُ قَالَ: وَسَأَلْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ عَنْ هَذَا فَقَالَ: مَا أَقْرَبْهُمَا وَرِشْدِينُ بْنُ كُرَيْبٍ أَرْجَحُهُمَا عِنْدِي قَالَ: وَالْقَوْلُ عِنْدِي مَا قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ، وَرِشْدِينُ أَرْجَحُ مِنْ مُحَمَّدٍ، وَأَقْدَمُ وَقَدْ أَدْرَكَ رِشْدِينُ ابْنَ عَبَّاسٍ وَرَآهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۳۴۸) (ضعیف)
(سندمیں رشدین بن کریب ضعیف راوی ہیں )
۳۲۷۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ''إِدْبَارُ السُّجُودِ '' ۱؎ (نجوم کے پیچھے ) سے مراد صلاۃ فجر سے پہلے کی دورکعتیں یعنی سنتیں ہیں اور ''إِدْبَارُ السُّجُودِ'' (سجدوں کے بعد) سے مراد مغرب کے بعد کی دورکتیں ہیں ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- ہم اس حدیث کومرفوعاً صرف محمد بن فضیل کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ رشدین بن کریب سے روایت کرتے ہیں،۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے محمد(بن فضیل) اور رشدین بن کریب کے بارے میں پوچھا کہ ان دونوں میں کون زیادہ ثقہ ہے؟ انہوں نے کہا: دونوں ایک سے ہیں، لیکن محمدبن فضیل میرے نزدیک زیادہ راجح ہیں (یعنی انہیں فوقیت حاصل ہے) ۴- میں نے عبداللہ بن عبدالرحمن (دارمی)سے اس بارے میں پوچھا (آپ کیا کہتے ہیں؟) کہا : کیا خوب دونوں میں یکسانیت ہے، لیکن رشدین بن کریب میرے نزدیک ان دونوں میں قابل ترجیح ہیں، کہتے ہیں: میرے نزدیک بات وہی درست ہے جو ابومحمدیعنی دارمی نے کہی ہے، رشدین محمد بن فضیل سے راجح ہیں اور پہلے کے بھی ہیں، رشدین نے ابن عباس کا زمانہ پایا ہے اور انہیں دیکھا بھی ہے۔
وضاحت ۱؎ : سورہ طورمیں''إِدْبَارُ السُّجُودِ''(ہمزہ کے کسرہ ساتھ)ہے، اورسورہ ق میں ''أَدْبَارُ السُّجُودِ''لیکن اس حدیث میں یہاں بھی ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ روایت ہے، بہرحال یہاں انہی دونوں کی تفسیرمقصود ہے، (ادبارالسجودبفتح الہمزہ کی صورت میں بعض لوگوں نے اس کا معنی ''سجدوں کے بعدیعنی صلاتوں کے بعد کی تسبیحات ''بیان کیاہے۔
وضاحت ۲؎ : مولف یہ حدیث ارشادباری تعالیٰ{ إِدْبَارُ السُّجُودِ}(الطور: ۴۹)کی تفسیرمیں لائے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
53-بَاب وَمِنْ سُورَةِ وَالنَّجْمِ
۵۳-باب: سورہ نجم سے بعض آیات کی تفسیر​


3276- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: لَمَّا بَلَغَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى قَالَ: انْتَهَى إِلَيْهَا مَايَعْرُجُ مِنْ الأَرْضِ وَمَا يَنْزِلُ مِنْ فَوْقٍ قَالَ: فَأَعْطَاهُ اللَّهُ عِنْدَهَا ثَلاَثًا لَمْ يُعْطِهِنَّ نَبِيًّا كَانَ قَبْلَهُ؛ فُرِضَتْ عَلَيْهِ الصَّلاةُ خَمْسًا، وَأُعْطِيَ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَغُفِرَ لأُمَّتِهِ الْمُقْحِمَاتُ مَا لَمْ يُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: {إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى} قَالَ: السِّدْرَةُ فِي السَّمَائِ السَّادِسَةِ قَالَ سُفْيَانُ: فَرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ، وَأَشَارَ سُفْيَانُ بِيَدِهِ؛ فَأَرْعَدَهَا و قَالَ غَيْرُ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ إِلَيْهَا يَنْتَهِي عِلْمُ الْخَلْقِ لاَ عِلْمَ لَهُمْ بِمَا فَوْقَ ذَلِكَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الإیمان ۷۶ (۱۷۳)، ن/الصلاۃ ۱ (۴۵۲) (تحفۃ الأشراف: ۹۵۴۸)، وحم (۱/۳۸۷، ۴۲۲) (صحیح)
۳۲۷۶- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ ( معراج کی رات ) سدرۃ المنتہی کے پاس پہنچے توکہا: یہی وہ آخری جگہ ہے جہاں زمین سے چیزیں اٹھ کر پہنچتی ہیں اور یہی وہ بلندی کی آخری حد ہے جہاں سے چیزیں نیچے آتی اور اترتی ہیں، یہیں اللہ نے آپ کو وہ تین چیزیں عطا فرمائیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو عطانہیں فرمائی تھیں، (۱) آپ پر پانچ صلاتیں فرض کی گئیں، (۲) سورہ بقرہ کی خواتیم (آخری آیات) عطاکی گئیں، (۳) اور آپ کی امتیوں میں سے جنہوں نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا ، ان کے مہلک وبھیانک گناہ بھی بخش دیئے گئے،(پھر) ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت {إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى} (النجم:16) ۱؎ پڑھ کر کہا'' السدرہ'' (بیری کادرخت) چھٹے آسمان پر ہے ، سفیان کہتے ہیں: سونے کے پروانے ڈھانپ رہے تھے اور سفیان نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکے انہیں چونکا دیا (یعنی تصور میں چونک کر ان پر وانوں کے اڑنے کی کیفیت دکھائی) مالک بن مغول کے سوا اور لوگ کہتے ہیں کہ یہیں تک مخلوق کے علم کی پہنچ ہے اس سے اوپر کیا کچھ ہے کیا کچھ ہوتاہے انہیں اس کا کچھ بھی علم اور کچھ بھی خبر نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : ڈھانپ رہی تھی سدرہ کوجوچیزڈھانپ رہی تھی (النجم:۱۶)۔


3277- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ قَالَ: سَأَلْتُ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ عَنْ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى} فَقَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَأَى جِبْرِيلَ وَلَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/بدء الخلق ۷ (۳۲۳۲)، وتفسیر سورۃ النجم ۲ (۴۸۵۶)، و۳ (۴۸۵۷)، م/الإیمان ۷۶ (۱۷۴) (تحفۃ الأشراف: ۹۲۰۵) (صحیح)
۳۲۷۷- شیبانی کہتے ہیں: میں نے زر بن حبیش سے آیت :{فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى} (النجم:9) ۱؎ کی تفسیر پوچھی توانہوں نے کہا: مجھے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے خبردی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرئیل کو دیکھا اور ان کے چھ سو پر تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : دوکمانوں کے برابر یا اس سے بھی کچھ کم فرق رہ گیا(النجم:۹)۔


3278- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ: لَقِيَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَعْبًا بِعَرَفَةَ؛ فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْئٍ؛ فَكَبَّرَ حَتَّى جَاوَبَتْهُ الْجِبَالُ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّا بَنُو هَاشِمٍ فَقَالَ كَعْبٌ: إِنَّ اللَّهَ قَسَمَ رُؤْيَتَهُ وَكَلامَهُ بَيْنَ مُحَمَّدٍ وَمُوسَى؛ فَكَلَّمَ مُوسَى مَرَّتَيْنِ وَرَآهُ مُحَمَّدٌ مَرَّتَيْنِ قَالَ مَسْرُوقٌ: فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ: هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ فَقَالَتْ: لَقَدْ تَكَلَّمْتَ بِشَيْئٍ قَفَّ لَهُ شَعْرِي قُلْتُ: رُوَيْدًا، ثُمَّ قَرَأْتُ: {لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى} فَقَالَتْ: أَيْنَ يُذْهَبُ بِكَ؟ إِنَّمَا هُوَ جِبْرِيلُ مَنْ أَخْبَرَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَى رَبَّهُ أَوْ كَتَمَ شَيْئًا مِمَّا أُمِرَ بِهِ أَوْ يَعْلَمُ الْخَمْسَ الَّتِي قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ}[لقمان: 34] فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ وَلَكِنَّهُ رَأَى جِبْرِيلَ لَمْ يَرَهُ فِي صُورَتِهِ إِلا مَرَّتَيْنِ مَرَّةً عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى وَمَرَّةً فِي جِيَادٍ لَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ قَدْ سَدَّ الْأُفُقَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ وَحَدِيثُ دَاوُدَ أَقْصَرُ مِنْ حَدِيثِ مُجَالِدٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (بقصۃ ابن عباس مع کعب) وانظر حدیث رقم ۳۰۶۸ (للجزء الأخیر) (ضعیف الإسناد)
۳۲۷۸- عامر شراحیل شعبی کہتے ہیں: ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ملاقات کعب الاحبار سے عرفہ میں ہوئی ، انہوں نے کعب سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا توا نہوں نے تکبیرات پڑھیں جن کی صدائے بازگشت پہاڑوں میں گونجنے لگی، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ہم بنو ہاشم سے تعلق رکھتے ہیں ، کعب نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اپنی رُویت ودیدار کو اور اپنے کلام کو محمد ﷺ اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان تقسیم کردیا ہے۔ اللہ نے موسیٰ سے دوباربات کی ، اور محمد ﷺ نے اللہ کو دوبار دیکھا۔
مسروق کہتے ہیں: میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا ، میں نے ان سے پوچھا : کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا: تم نے تو ایسی بات کہی ہے جسے سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ہیں، میں نے کہا: ٹھہریئے، جلدی نہ کیجئے (پوری بات سن لیجئے) پھر میں نے آیت {لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى} تلاوت کی ۱؎ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:''تمہیں کہاں لے جایا گیا ہے؟ ( کہاں بہکا دیے گئے ہو؟) یہ دیکھے جانے والے تو جبرئیل تھے، تمہیں جویہ خبردے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ یا جن باتوں کا آپ کو حکم دیاگیاہے ان میں سے آپ نے کچھ چھپالیا ہے، یا وہ پانچ چیزیں جانتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے۔ {إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ الخ} ( اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور اللہ ہی جانتاہے کہ بارش کب اور کہاں نازل ہوگی) اس نے بڑا جھوٹ بولا ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ آپ نے جبرئیل کو دیکھا، جبرئیل کو آپ نے ان کی اپنی اصل صورت میں صرف دومرتبہ دیکھا ہے، (ایک بار) سدرۃ المنتہی کے پاس اور ایک بار جیاد میں (جیاد نشیبی مکہ کا ایک محلہ ہے)جبرئیل علیہ السلام کے چھ سو بازو تھے، انہوں نے سارے افق کو اپنے پروں سے ڈھانپ رکھاتھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: داود بن أبی ہند نے شعبی سے، شعبی نے مسروق سے اورمسروق نے عائشہ کے واسطہ سے ، نبی اکرمﷺ سے اس جیسی حدیث روایت کی، داود کی حدیث مجالد کی حدیث سے چھوٹی ہے۔(لیکن وہی صحیح ہے)
وضاحت ۱؎ : پھر آپ نے اللہ کی بڑی آیا ت ونشانیاں دیکھیں (النجم:۱۸)۔
وضاحت ۲؎ : سورہ لقمان: ۳۴۔


3279- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمْرِو بْنِ نَبْهَانَ بْنِ صَفْوَانَ الْبَصْرِيُّ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ الْعَنْبَرِيُّ أَبُو غَسَّانَ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ قُلْتُ: أَلَيْسَ اللَّهُ يَقُولُ: {لا تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ}[الأنعام: 103] قَالَ: وَيْحَكَ ذَاكَ إِذَا تَجَلَّى بِنُورِهِ الَّذِي هُوَ نُورُهُ وَقَالَ أُرِيَهُ مَرَّتَيْنِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۶۰۴۰) (ضعیف)
(سندمیں حکم بن ابان سے وہم ہوجایا کرتاتھا)
۳۲۸۹- عکرمہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا : محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے، میں نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے {لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ} ۱؎ انہوں نے کہا: تم پر افسوس ہے (تم سمجھ نہیں سکے) یہ تو اس وقت کی بات ہے جب وہ اپنے ذاتی نور کے ساتھ تجلی فرمائے ، انہوں نے کہا: آپ نے اپنے رب کودوبار دیکھاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : ا س کو آنکھیں نہیں پاسکتی ہیں ہاں وہ خود نگاہوں کوپالیتا ہے(الانعام:۱۰۳)۔


3280- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأُمَوِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِ اللَّهِ: {وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى} {فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى} {فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى} قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَدْ رَآهُ النَّبِيُّ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۵۶۳) (حسن صحیح)
۳۲۸۰- ابوسلمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت : {وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى} ۱؎ {فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى} ۲؎ {فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى} ۳؎ کی تفسیر میں کہا: نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : النجم: ۱۳، وضاحت ۲؎ : النجم: ۱۰، وضاحت ۳؎ : النجم:۹


3281- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَابْنُ أَبِي رِزْمَةَ وَأَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: {مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى} قَالَ: رَآهُ بِقَلْبِهِ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۱۲۱) (صحیح)
( عکرمہ سے سماک کی روایت میں اضطراب پایاجاتاہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
۳۲۸۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت { مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى } ۱؎ پڑھی، کہا: نبی اکرمﷺنے اپنے رب کو دل کی آنکھ سے دیکھا ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : جو کچھ انہوں نے دیکھا اسے دل نے جھٹلایا نہیں (بلکہ اس کی تصدیق کی) (النجم:۱۱)۔


3282- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التُّسْتَرِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ: قُلْتُ لأَبِي ذَرٍّ: لَوْ أَدْرَكْتُ النَّبِيَّ ﷺ لَسَأَلْتُهُ فَقَال: عَمَّا كُنْتَ تَسْأَلُهُ قُلْتُ: أَسْأَلُهُ هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ فَقَالَ: قَدْ سَأَلْتُهُ؛ فَقَالَ: نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: م/الإیمان ۷۸ (۱۷۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۳۸) (صحیح)
۳۲۸۲- عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر میں نے نبی اکرمﷺ کو پایا ہوتا تو آپ سے پوچھتا، انہوں نے کہا: تم آپﷺ سے کیا پوچھتے؟ میں نے کہا: میں یہ پوچھتاکہ کیا آپ (محمد ﷺ) نے اپنے رب کودیکھا ہے؟ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے آپ سے یہ بات پوچھی تھی، آپ نے فرمایا:'' وہ نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتاہوں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔


3283- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى وَابْنُ أَبِي رِزْمَةَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ {مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى} قَالَ رَأَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ جِبْرِيلَ فِي حُلَّةٍ مِنْ رَفْرَفٍ قَدْ مَلأَ مَا بَيْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) وراجع خ (۴۸۵۸) (تحفۃ الأشراف: ۹۳۹۴) (صحیح)
۳۲۸۳- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس آیت: {مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى} کی تفسیر میں کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺنے جبرئیل علیہ السلام کو باریک ریشمی جوڑا پہنے ہوئے دیکھا ۔ آسمان وزمین کی ساری جگہیں ان کے وجود سے بھرگئی تھیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3284- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَائٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: {الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلاَّ اللَّمَمَ} قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "إِنْ تَغْفِرْ اللَّهُمَّ تَغْفِرْ جَمَّا وَأَيُّ عَبْدٍ لَكَ لا أَلَمَّا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَاقَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۹۴۹) (صحیح)
۳۲۸۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت {الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلاَّ اللَّمَمَ} ۱؎ کی تفسیر میں کہتے ہیں: نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' اے رب اگر بخشتاہے تو سب ہی گناہ بخش دے، اور تیرا کون سابندہ ایسا ہے جس سے کوئی چھوٹا گناہ بھی سرزد نہ ہواہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف زکریا بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : جولوگ بڑے گناہوں سے بچتے ہیں مگر چھوٹے گناہ (جوکبھی ان سے سرزد ہوجائیں تو وہ بھی معاف ہوجائیں گے) (النجم:۳۲)۔
 
Top