53-بَاب وَمِنْ سُورَةِ وَالنَّجْمِ
۵۳-باب: سورہ نجم سے بعض آیات کی تفسیر
3276- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: لَمَّا بَلَغَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى قَالَ: انْتَهَى إِلَيْهَا مَايَعْرُجُ مِنْ الأَرْضِ وَمَا يَنْزِلُ مِنْ فَوْقٍ قَالَ: فَأَعْطَاهُ اللَّهُ عِنْدَهَا ثَلاَثًا لَمْ يُعْطِهِنَّ نَبِيًّا كَانَ قَبْلَهُ؛ فُرِضَتْ عَلَيْهِ الصَّلاةُ خَمْسًا، وَأُعْطِيَ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَغُفِرَ لأُمَّتِهِ الْمُقْحِمَاتُ مَا لَمْ يُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: {إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى} قَالَ: السِّدْرَةُ فِي السَّمَائِ السَّادِسَةِ قَالَ سُفْيَانُ: فَرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ، وَأَشَارَ سُفْيَانُ بِيَدِهِ؛ فَأَرْعَدَهَا و قَالَ غَيْرُ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ إِلَيْهَا يَنْتَهِي عِلْمُ الْخَلْقِ لاَ عِلْمَ لَهُمْ بِمَا فَوْقَ ذَلِكَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الإیمان ۷۶ (۱۷۳)، ن/الصلاۃ ۱ (۴۵۲) (تحفۃ الأشراف: ۹۵۴۸)، وحم (۱/۳۸۷، ۴۲۲) (صحیح)
۳۲۷۶- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ ( معراج کی رات ) سدرۃ المنتہی کے پاس پہنچے توکہا: یہی وہ آخری جگہ ہے جہاں زمین سے چیزیں اٹھ کر پہنچتی ہیں اور یہی وہ بلندی کی آخری حد ہے جہاں سے چیزیں نیچے آتی اور اترتی ہیں، یہیں اللہ نے آپ کو وہ تین چیزیں عطا فرمائیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو عطانہیں فرمائی تھیں، (۱) آپ پر پانچ صلاتیں فرض کی گئیں، (۲) سورہ بقرہ کی خواتیم (آخری آیات) عطاکی گئیں، (۳) اور آپ کی امتیوں میں سے جنہوں نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا ، ان کے مہلک وبھیانک گناہ بھی بخش دیئے گئے،(پھر) ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت
{إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى} (النجم:16) ۱؎ پڑھ کر کہا'' السدرہ'' (بیری کادرخت) چھٹے آسمان پر ہے ، سفیان کہتے ہیں: سونے کے پروانے ڈھانپ رہے تھے اور سفیان نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکے انہیں چونکا دیا (یعنی تصور میں چونک کر ان پر وانوں کے اڑنے کی کیفیت دکھائی) مالک بن مغول کے سوا اور لوگ کہتے ہیں کہ یہیں تک مخلوق کے علم کی پہنچ ہے اس سے اوپر کیا کچھ ہے کیا کچھ ہوتاہے انہیں اس کا کچھ بھی علم اور کچھ بھی خبر نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : ڈھانپ رہی تھی سدرہ کوجوچیزڈھانپ رہی تھی (النجم:۱۶)۔
3277- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ قَالَ: سَأَلْتُ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ عَنْ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى} فَقَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَأَى جِبْرِيلَ وَلَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/بدء الخلق ۷ (۳۲۳۲)، وتفسیر سورۃ النجم ۲ (۴۸۵۶)، و۳ (۴۸۵۷)، م/الإیمان ۷۶ (۱۷۴) (تحفۃ الأشراف: ۹۲۰۵) (صحیح)
۳۲۷۷- شیبانی کہتے ہیں: میں نے زر بن حبیش سے آیت :
{فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى} (النجم:9) ۱؎ کی تفسیر پوچھی توانہوں نے کہا: مجھے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے خبردی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرئیل کو دیکھا اور ان کے چھ سو پر تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : دوکمانوں کے برابر یا اس سے بھی کچھ کم فرق رہ گیا(النجم:۹)۔
3278- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ: لَقِيَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَعْبًا بِعَرَفَةَ؛ فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْئٍ؛ فَكَبَّرَ حَتَّى جَاوَبَتْهُ الْجِبَالُ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّا بَنُو هَاشِمٍ فَقَالَ كَعْبٌ: إِنَّ اللَّهَ قَسَمَ رُؤْيَتَهُ وَكَلامَهُ بَيْنَ مُحَمَّدٍ وَمُوسَى؛ فَكَلَّمَ مُوسَى مَرَّتَيْنِ وَرَآهُ مُحَمَّدٌ مَرَّتَيْنِ قَالَ مَسْرُوقٌ: فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ: هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ فَقَالَتْ: لَقَدْ تَكَلَّمْتَ بِشَيْئٍ قَفَّ لَهُ شَعْرِي قُلْتُ: رُوَيْدًا، ثُمَّ قَرَأْتُ: {لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى} فَقَالَتْ: أَيْنَ يُذْهَبُ بِكَ؟ إِنَّمَا هُوَ جِبْرِيلُ مَنْ أَخْبَرَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَى رَبَّهُ أَوْ كَتَمَ شَيْئًا مِمَّا أُمِرَ بِهِ أَوْ يَعْلَمُ الْخَمْسَ الَّتِي قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ}[لقمان: 34] فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ وَلَكِنَّهُ رَأَى جِبْرِيلَ لَمْ يَرَهُ فِي صُورَتِهِ إِلا مَرَّتَيْنِ مَرَّةً عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى وَمَرَّةً فِي جِيَادٍ لَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ قَدْ سَدَّ الْأُفُقَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ وَحَدِيثُ دَاوُدَ أَقْصَرُ مِنْ حَدِيثِ مُجَالِدٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (بقصۃ ابن عباس مع کعب) وانظر حدیث رقم ۳۰۶۸ (للجزء الأخیر) (ضعیف الإسناد)
۳۲۷۸- عامر شراحیل شعبی کہتے ہیں: ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ملاقات کعب الاحبار سے عرفہ میں ہوئی ، انہوں نے کعب سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا توا نہوں نے تکبیرات پڑھیں جن کی صدائے بازگشت پہاڑوں میں گونجنے لگی، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ہم بنو ہاشم سے تعلق رکھتے ہیں ، کعب نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اپنی رُویت ودیدار کو اور اپنے کلام کو محمد ﷺ اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان تقسیم کردیا ہے۔ اللہ نے موسیٰ سے دوباربات کی ، اور محمد ﷺ نے اللہ کو دوبار دیکھا۔
مسروق کہتے ہیں: میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا ، میں نے ان سے پوچھا : کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا: تم نے تو ایسی بات کہی ہے جسے سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ہیں، میں نے کہا: ٹھہریئے، جلدی نہ کیجئے (پوری بات سن لیجئے) پھر میں نے آیت
{لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى} تلاوت کی ۱؎ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:''تمہیں کہاں لے جایا گیا ہے؟ ( کہاں بہکا دیے گئے ہو؟) یہ دیکھے جانے والے تو جبرئیل تھے، تمہیں جویہ خبردے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ یا جن باتوں کا آپ کو حکم دیاگیاہے ان میں سے آپ نے کچھ چھپالیا ہے، یا وہ پانچ چیزیں جانتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے۔
{إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ الخ} ( اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور اللہ ہی جانتاہے کہ بارش کب اور کہاں نازل ہوگی) اس نے بڑا جھوٹ بولا ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ آپ نے جبرئیل کو دیکھا، جبرئیل کو آپ نے ان کی اپنی اصل صورت میں صرف دومرتبہ دیکھا ہے، (ایک بار) سدرۃ المنتہی کے پاس اور ایک بار جیاد میں (جیاد نشیبی مکہ کا ایک محلہ ہے)جبرئیل علیہ السلام کے چھ سو بازو تھے، انہوں نے سارے افق کو اپنے پروں سے ڈھانپ رکھاتھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: داود بن أبی ہند نے شعبی سے، شعبی نے مسروق سے اورمسروق نے عائشہ کے واسطہ سے ، نبی اکرمﷺ سے اس جیسی حدیث روایت کی، داود کی حدیث مجالد کی حدیث سے چھوٹی ہے۔(لیکن وہی صحیح ہے)
وضاحت ۱؎ : پھر آپ نے اللہ کی بڑی آیا ت ونشانیاں دیکھیں (النجم:۱۸)۔
وضاحت ۲؎ : سورہ لقمان: ۳۴۔
3279- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمْرِو بْنِ نَبْهَانَ بْنِ صَفْوَانَ الْبَصْرِيُّ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ الْعَنْبَرِيُّ أَبُو غَسَّانَ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ قُلْتُ: أَلَيْسَ اللَّهُ يَقُولُ: {لا تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ}[الأنعام: 103] قَالَ: وَيْحَكَ ذَاكَ إِذَا تَجَلَّى بِنُورِهِ الَّذِي هُوَ نُورُهُ وَقَالَ أُرِيَهُ مَرَّتَيْنِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۶۰۴۰) (ضعیف)
(سندمیں حکم بن ابان سے وہم ہوجایا کرتاتھا)
۳۲۸۹- عکرمہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا : محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے، میں نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے
{لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ} ۱؎ انہوں نے کہا: تم پر افسوس ہے (تم سمجھ نہیں سکے) یہ تو اس وقت کی بات ہے جب وہ اپنے ذاتی نور کے ساتھ تجلی فرمائے ، انہوں نے کہا: آپ نے اپنے رب کودوبار دیکھاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : ا س کو آنکھیں نہیں پاسکتی ہیں ہاں وہ خود نگاہوں کوپالیتا ہے(الانعام:۱۰۳)۔
3280- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأُمَوِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِ اللَّهِ: {وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى} {فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى} {فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى} قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَدْ رَآهُ النَّبِيُّ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۵۶۳) (حسن صحیح)
۳۲۸۰- ابوسلمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت :
{وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى} ۱؎
{فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى} ۲؎
{فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى} ۳؎ کی تفسیر میں کہا: نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : النجم: ۱۳، وضاحت ۲؎ : النجم: ۱۰، وضاحت ۳؎ : النجم:۹
3281- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَابْنُ أَبِي رِزْمَةَ وَأَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: {مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى} قَالَ: رَآهُ بِقَلْبِهِ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۱۲۱) (صحیح)
( عکرمہ سے سماک کی روایت میں اضطراب پایاجاتاہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
۳۲۸۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت
{ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى } ۱؎ پڑھی، کہا: نبی اکرمﷺنے اپنے رب کو دل کی آنکھ سے دیکھا ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : جو کچھ انہوں نے دیکھا اسے دل نے جھٹلایا نہیں (بلکہ اس کی تصدیق کی) (النجم:۱۱)۔
3282- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التُّسْتَرِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ: قُلْتُ لأَبِي ذَرٍّ: لَوْ أَدْرَكْتُ النَّبِيَّ ﷺ لَسَأَلْتُهُ فَقَال: عَمَّا كُنْتَ تَسْأَلُهُ قُلْتُ: أَسْأَلُهُ هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ فَقَالَ: قَدْ سَأَلْتُهُ؛ فَقَالَ: نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: م/الإیمان ۷۸ (۱۷۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۳۸) (صحیح)
۳۲۸۲- عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر میں نے نبی اکرمﷺ کو پایا ہوتا تو آپ سے پوچھتا، انہوں نے کہا: تم آپﷺ سے کیا پوچھتے؟ میں نے کہا: میں یہ پوچھتاکہ کیا آپ (محمد ﷺ) نے اپنے رب کودیکھا ہے؟ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے آپ سے یہ بات پوچھی تھی، آپ نے فرمایا:'' وہ نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتاہوں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
3283- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى وَابْنُ أَبِي رِزْمَةَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ {مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى} قَالَ رَأَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ جِبْرِيلَ فِي حُلَّةٍ مِنْ رَفْرَفٍ قَدْ مَلأَ مَا بَيْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) وراجع خ (۴۸۵۸) (تحفۃ الأشراف: ۹۳۹۴) (صحیح)
۳۲۸۳- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس آیت:
{مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى} کی تفسیر میں کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺنے جبرئیل علیہ السلام کو باریک ریشمی جوڑا پہنے ہوئے دیکھا ۔ آسمان وزمین کی ساری جگہیں ان کے وجود سے بھرگئی تھیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
3284- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَائٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: {الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلاَّ اللَّمَمَ} قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "إِنْ تَغْفِرْ اللَّهُمَّ تَغْفِرْ جَمَّا وَأَيُّ عَبْدٍ لَكَ لا أَلَمَّا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَاقَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۹۴۹) (صحیح)
۳۲۸۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت
{الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلاَّ اللَّمَمَ} ۱؎ کی تفسیر میں کہتے ہیں: نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' اے رب اگر بخشتاہے تو سب ہی گناہ بخش دے، اور تیرا کون سابندہ ایسا ہے جس سے کوئی چھوٹا گناہ بھی سرزد نہ ہواہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف زکریا بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : جولوگ بڑے گناہوں سے بچتے ہیں مگر چھوٹے گناہ (جوکبھی ان سے سرزد ہوجائیں تو وہ بھی معاف ہوجائیں گے) (النجم:۳۲)۔