• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
54-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْقَمَرِ
۵۴-باب: سورہ قمر سے بعض آیات کی تفسیر​


3285- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِمِنًى فَانْشَقَّ الْقَمَرُ فَلْقَتَيْنِ فَلْقَةٌ مِنْ وَرَائِ الْجَبَلِ وَفَلْقَةٌ دُونَهُ فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "اشْهَدُوا" يَعْنِي {اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ}. قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/المناقب ۲۷ (۳۶۳۶)، ومناقب الأنصار ۳۶ (۳۸۶۹)، وتفسیر سورۃ القمر ۱ (۴۸۶۴)، م/المنافقین ۸ (۲۸۰۰) (تحفۃ الأشراف: ۹۳۳۶) (صحیح)
۳۲۸۵- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس دوران کہ ہم منیٰ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ، چاند دوٹکڑے ہوگیا، ایک ٹکڑا (اس جانب ) پہاڑ کے پیچھے اور دوسرا ٹکڑا اس جانب (پہاڑ کے آگے) رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا:'' گواہ رہو، یعنی اس بات کے گواہ رہو کہ {اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ} (یعنی: قیامت قریب ہے اورچانددوٹکڑے ہوچکے ہیں)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : قیامت قریب آچکی ہے اور چاند کے دوٹکڑے ہوچکے ہیں(القمر:۱)۔


3286- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: سَأَلَ أَهْلُ مَكَّةَ النَّبِيَّ ﷺ آيَةً فَانْشَقَّ الْقَمَرُ بِمَكَّةَ مَرَّتَيْنِ ۱؎ فَنَزَلَتْ: {اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ -إِلَى قَوْلِهِ- سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ}[القمر: 1-2] يَقُولُ ذَاهِبٌ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/المنافقین ۸ (۲۸۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۴) (صحیح)
۳۲۸۶- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : اہل مکہ نے نبی اکرمﷺسے نشانی (معجزہ) کا مطالبہ کیا جس پر مکہ میں چاند دوبار دوٹکڑے ہوا، اس پر آیت {اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ} سے لے کر{ سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ} نازل ہوئی ، راوی کہتے ہیں: {سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ }میں مستمر کا مطلب ہے ''ذاہب''(یعنی وہ جادوجوچلاآرہاہو)
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں ''مرتین''کا معنی یہ نہیں ہے کہ چاندکے ٹکڑے ہونے کا واقعہ دومرتبہ ہوا، یہ واقعہ دومرتبہ ہوانہیں، صرف ایک مرتبہ ہوا،یہاں''مرتين''سے مراد'' فلقتين''ہی ہے۔


3287- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ لَنَا النَّبِيُّ ﷺ: "اشْهَدُوا". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۳۲۸۵ (صحیح)
۳۲۸۷- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں چاند دوٹکڑے ہو تو نبی اکرم ﷺ نے ہم سے فرمایا:'' تم سب گواہ رہو''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3288- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: انْفَلَقَ الْقَمَرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "اشْهَدُوا". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/المنافقین ۸ (۲۸۰۱) (تحفۃ الأشراف: ۷۳۹) (صحیح)
۳۲۸۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺکے زمانے میں چانددوٹکڑے ہواتو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''تم سب گواہ رہو''۔امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3289- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ حَتَّى صَارَ فِرْقَتَيْنِ عَلَى هَذَا الْجَبَلِ وَعَلَى هَذَا الْجَبَلِ فَقَالُوا: سَحَرَنَا مُحَمَّدٌ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَئِنْ كَانَ سَحَرَنَا فَمَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْحَرَ النَّاسَ كُلَّهُمْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ نَحْوَهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۱۹۷) (صحیح الإسناد)
۳۲۸۹- جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :نبی اکرمﷺکے زمانہ میں چاند پھٹ کر دوٹکڑے ہوگیا، ایک ٹکڑا اس پہاڑ پر اور ایک ٹکڑا اس پہاڑ پر، ان لوگوں نے کہا: محمد (ﷺ) نے ہم پر جادو کردیا ہے، لیکن ان ہی میں سے بعض نے (اس کی تردید کی) کہا: اگر انہوں نے ہمیں جادوکردیا ہے تو (باہرکے) سبھی لوگوں کو جادو کے زیر اثر نہیں لاسکتے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ان میں سے بعض نے یہ حدیث حصین سے حصین نے جبیر بن محمد بن جبیر بن مطعم سے ، جبیر نے اپنے باپ محمد سے، محمد نے ان (جبیرپوتا) کے دادا جبیر بن مطعم سے اسی طرح روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ باہر سے آنے والوں نے چاند کے دوٹکڑے ہونے کی خبردی تھی۔


3290- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَأَبُو بَكْرٍ بُنْدَارٌ قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ الْمَخْزُومِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: جَاءَ مُشْرِكُو قُرَيْشٍ يُخَاصِمُونَ النَّبِيَّ ﷺ فِي الْقَدَرِ فَنَزَلَتْ: {يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ إِنَّا كُلَّ شَيْئٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ} [القمر: 48-49].
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۱۵۷ (صحیح)
۳۲۹۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مشرکین قریش آکر نبی اکرمﷺ سے تقدیر کے مسئلہ میں لڑنے (اور الجھنے) لگے اس پر آیت کریمہ: {يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ إِنَّا كُلَّ شَيْئٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ}نازل ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یاد کرو اس دن کو جب جہنم میں وہ اپنے مونہوں نے بل گھسیٹے جائیں گے ( کہاجائے گا) دوزخ کا عذاب چکھوہم نے ہر چیز تقدیر کے مطابق پیداکی ہے(القمر:۴۸)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
55-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الرَّحْمَنِ
۵۵-باب: سورہ رحمن سے بعض آیات کی تفسیر​


3291- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ وَاقِدٍ أَبُو مُسْلِمٍ السَّعْدِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَرَأَ عَلَيْهِمْ سُورَةَ الرَّحْمَنِ مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا؛ فَسَكَتُوا فَقَالَ: "لَقَدْ قَرَأْتُهَا عَلَى الْجِنِّ لَيْلَةَ الْجِنِّ؛ فَكَانُوا أَحْسَنَ مَرْدُودًا مِنْكُمْ كُنْتُ كُلَّمَا أَتَيْتُ عَلَى قَوْلِهِ: {فَبِأَيِّ آلائِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ} قَالُوا: لاَ بِشَيْئٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ فَلَكَ الْحَمْدُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ ابْنُ حَنْبَلٍ: كَأَنَّ زُهَيْرَ بْنَ مُحَمَّدٍ الَّذِي وَقَعَ بِالشَّامِ لَيْسَ هُوَ الَّذِي يُرْوَى عَنْهُ بِالْعِرَاقِ كَأَنَّهُ رَجُلٌ آخَرُ قَلَبُوا اسْمَهُ يَعْنِي لِمَا يَرْوُونَ عَنْهُ مِنْ الْمَنَاكِيرِ وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيَّ يَقُولُ: أَهْلُ الشَّامِ يَرْوُونَ عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ مَنَاكِيرَ وَأَهْلُ الْعِرَاقِ يَرْوُونَ عَنْهُ أَحَادِيثَ مُقَارِبَةً.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۰۱۷) (حسن)
۳۲۹۱- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے پاس آئے اوران کے سامنے سورہ رحمن شروع سے آخر تک پڑھی، لوگ (سن کر) چپ رہے، آپ نے کہا: میں نے یہ سورہ اپنی جنوں سے ملاقات والی رات میں جنوں کو پڑھ کر سنائی توانہوں نے مجھے تمہارے بالمقابل اچھا جواب دیا، جب بھی میں پڑھتاہواآیت {فَبِأَيِّ آلائِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ }پر پہنچتا تووہ کہتے ''لاَ بِشَيْئٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ فَلَكَ الْحَمْدُ'' (اے ہمارے رب ! ہم تیری نعمتوں میں سے کسی نعمت کا بھی انکار نہیں کرتے ، تیرے ہی لیے ہیں ساری تعریفیں) ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے ولید بن مسلم کی روایت کے سواجسے وہ زہیر بن محمد سے روایت کرتے ہیں، اور کسی سے نہیں جانتے،۲- احمد بن حنبل کہتے ہیں: زہیر بن محمد جو شام میں ہیں، وہ زہیر نہیں جن سے اہل عراق روایت کرتے ہیں گویا کہ وہ دوسرے آدمی ہیں، لوگوں نے ان کانام اس وجہ سے تبدیل کردیا ہے (تاکہ لوگ ان کانام نہ جان سکیں) کیوں کہ لوگ ان سے منکر احادیث بیان کرتے تھے،۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ اہل شام زہیر بن محمد سے مناکیر (منکر احادیث) روایت کرتے ہیں، اور اہل عراق ان سے صحیح احادیث روایت کرتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : {فَبِأَيِّ آلائِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ}کا جملہ پوری سورت میں ۳۱بارآیاہے ، توکیا اس حدیث پرعمل کرتے ہوئے صلاۃ میں مقتدی امام کے جواب میں ۳۱بارایساکہیں گے ؟وہ بھی زورسے ،ایساسلف سے کوئی تعامل مروی نہیں ہے، اس لیے اس کا مطلب :یا تو یہ ہے کہ صلاۃسے باہرجب سنیں توایساجواب دیں، یا صلاۃ میں ایک بارجواب دیں کافی ہوگا ، اس بارے میں امام احمدکا فتوی ہے کہ اپنے دل میں سرّاًکہہ لے (مغنی) اورزیادہ ترعلماء صرف نوافل اورسنن میں اس طرح کے جواب کے قائل ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
56-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْوَاقِعَةِ
۵۶-باب: سورہ واقعہ سے بعض آیات کی تفسیر​


3292- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَعَبْدُالرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "يَقُولُ اللَّهُ أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِينَ مَا لا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ، وَاقْرَئُوا إِنْ شِئْتُمْ {فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَائً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ}[السجدة: 17] وَفِي الْجَنَّةِ شَجَرَةٌ يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لايَقْطَعُهَا، وَاقْرَئُوا إِنْ شِئْتُمْ: {وَظِلٍّ مَمْدُودٍ} وَمَوْضِعُ سَوْطٍ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا وَاقْرَئُوا إِنْ شِئْتُمْ: {فَمَنْ زُحْزِحَ عَنْ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلا مَتَاعُ الْغُرُورِ}[آل عمران: 185]. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف:۱۵۰۴۲، و۱۵۰۵۲) (حسن صحیح)
۳۲۹۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ فرماتا ہے: میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی چیزیں تیار کی ہیں جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ ہی کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال آیا ہے،تم چاہوتواس آیت کو پڑھ لو { فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَائً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ } ۱؎ جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کی (گھنی) چھاؤں میں سوار سوبرس تک بھی چلتا چلاجائے تو بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو،تم چاہو تو آیت کا یہ ٹکڑا{وَظِلٍّ مَمْدُودٍ} ۲؎ پڑھ لو، جنت میں ایک کوڑا رکھنے کی جگہ برابر دنیا اور دنیا میں جوکچھ ہے اس سے بہتر ہے، چاہو تو دلیل کے طورپر یہ آیت پڑھ لو{فَمَنْ زُحْزِحَ عَنْ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورِ} ۳؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : ان کے نیک اعمال کے بدلے میں ان کی آنکھ کی ٹھنڈک کے طور پر جو چیز تیار کی گئی ہے اسے کوئی بھی نہیں جانتا (السجدۃ:۱۷)۔
وضاحت ۲؎ : پھیلاہوالمبالمباسایہ (الواقعہ: ۳۰)
وضاحت ۳؎ : جو شخص جہنم سے بچالیاگیا اور جنت میں داخل کردیاگیا تو وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے(آل عمران:۸۵ ۱)۔


3293- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَشَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لايَقْطَعُهَا وَإِنْ شِئْتُمْ فَاقْرَئُوا: {وَظِلٍّ مَمْدُودٍ وَمَائٍ مَسْكُوبٍ}.
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۳) (صحیح)
۳۲۹۳- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جنت میں ایک درخت ہے، سوار اس کے سایہ میں سوسال تک چلے گا پھربھی اس درخت کے سایہ کو عبورنہ کرسکے گا، اگر چاہو تو پڑھو { وَظِلٍّ مَمْدُودٍ وَمَائٍ مَسْكُوبٍ.} ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوسعید خدری سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : ان کے لیے دراز سایہ ہے اور (فراواں) بہتاہوا پانی (الواقعہ:۳۰)۔


3294- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِهِ: {وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ} قَالَ: ارْتِفَاعُهَا كَمَا بَيْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ وَمَسِيرَةُ مَا بَيْنَهُمَا خَمْسُ مِائَةِ عَامٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ رِشْدِينَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ، وَارْتِفَاعُهَا كَمَا بَيْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ قَالَ: ارْتِفَاعُ الْفُرُشِ الْمَرْفُوعَةِ فِي الدَّرَجَاتِ وَالدَّرَجَاتُ مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۵۴۰ (ضعیف)
۳۲۹۴- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے آیت کریمہ: {وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ } ۱؎ کے سلسلے میں فرمایا:'' ان بچھونوں کی اونچائی اتنی ہے جنتا آسمان وزمین کے درمیان کا فاصلہ ہے اور ان کے درمیان چلنے کی مسافت پانچ سوسال کی ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے ، ہم اسے صرف رشدین کی روایت سے جانتے ہیں،۲- بعض اہل علم کہتے ہیں:اس حدیث میں''ارتفاعها كما بين السماء والأرض'' کا مفہوم یہ ہے کہ بچھونوں کی اونچائی درجات کی بلندی کے مطابق ہوگی اور ہردودرجے کے درمیان کا فاصلہ اتناہوگا جتناآسمان وزمین کے درمیان کا فاصلہ ہے ۔
وضاحت ۱؎ : جنتیوں کے اونچے اونچے بچھونے ہوں گے (الواقعہ:۳۴)۔


3295- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا إسْرَائِيلُ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَى، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ" قَالَ: شُكْرُكُمْ تَقُولُونَ مُطِرْنَا بِنَوْئِ كَذَا وَكَذَا وَبِنَجْمِ كَذَا وَكَذَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ لاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ، وَرَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَى، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۷۳) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں ''عبد الاعلی بن عامر'' کو وہم ہوجایاکرتاتھا)
۳۲۹۵- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے آیت {وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ} ۱؎ کے متعلق فرمایا:'' تمہارا '' شکر'' یہ ہوتاہے : تم کہتے ہوکہ یہ بارش فلاں فلاں نچھتر کے باعث اور فلاں فلاں ستاروں کی گردش کی بدولت ہوئی ہے۔ اس طرح تم جھوٹ بول کر حقیقت کو جھٹلاتے ہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے ،ہم اسے اسرائیل کی روایت کے سوا اور کسی سند سے مرفوع نہیں جانتے،۲- اس حدیث کو سفیان ثوری نے عبدالاعلی سے، عبدالاعلیٰ نے ابوعبدالرحمن سلمی سے، اورعبدالرحمن نے علی سے اسی طرح روایت کیاہے، اور اسے مرفوعاً روایت نہیں کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : اور تم اپنے رزق (کاشکریہ یہ اداکرتے ہوکہ)تم (اللہ کی رزاقیت کی)تکذیب کرتے ہو (الواقعہ:۸۲)۔


3296- حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبَانَ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي قَوْلِهِ: {إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَائً} قَالَ: "إِنَّ مِنَ الْمُنْشَآتِ اللائِي كُنَّ فِي الدُّنْيَا عَجَائِزَ عُمْشًا رُمْصًا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعَا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، وَمُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ، وَيَزِيدُ بْنُ أَبَانَ الرَّقَاشِيُّ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۶) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں ''موسی بن عبیدہ'' اور ''یزید بن ابان وقاشی'' دونوں ضعیف ہیں)
۳۲۹۶- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے آیت: {إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَائً} ۱؎ کے سلسلے میں فرمایا: ''ان نئی اٹھان والی عورتوں میں وہ عورتیں بھی ہیں جو دنیا میں بوڑھی تھیں،جن کی آنکھیں خراب ہوچکی ہوں اور ان سے پانی بہتارہتاہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے مرفوع صرف موسیٰ بن عبیدہ کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اور موسیٰ بن عبیدہ اور یزید بن ابان رقاشی حدیث بیان کرنے میں ضعیف قرار دیئے گئے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ہم انہیں نئی اٹھان اٹھائیں گے نئی اٹھان (الواقعہ:۸۲)۔


3297- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَدْ شِبْتَ قَالَ: "شَيَّبَتْنِي هُودٌ، وَالْوَاقِعَةُ، وَالْمُرْسَلاتُ، {وَعَمَّ يَتَسَائَلُونَ} وَ {إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَرَوَى عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ نَحْوَ هَذَا. وَ قَدْ رُوِي عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ شَيْئٌ مِنْ هَذَا مُرْسَلا. وَرَوَى أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ شَيْبَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ هَاشِمُ بْنُ الْوَلِيدِ الْهَرَوِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۱۷۵) (صحیح) (الصحیحۃ ۹۵۵)
۳۲۹۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: آپ تو بوڑھے ہوچلے؟ آپ نے فرمایا:'' مجھے سورہ ہود، واقعہ، مرسلات ، عم یتسائلون اور سورہ '' إذا الشمس کوّرت'' نے بوڑھا کردیا ہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ، ہم اسے ابن عباس کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲-علی بن صالح نے یہ حدیث اسی طرح ابواسحاق سے ، اور ابواسحاق نے ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے،۳- اس حدیث کی کچھ باتیں ابواسحاق ابومیسرہ سے مرسلاً روایت کی گئی ہیں۔ ابوبکر بن عیاش نے ابواسحاق کے واسطہ سے، ابواسحاق نے عکرمہ سے، اورعکرمہ نے نبی اکرم ﷺ سے شیبان کی اس حدیث جیسی روایت کی ہے جسے انہوں نے ابواسحاق سے روایت کی ہے اور انہوں نے اس روایت میں ابن عباس سے روایت کا ذکر نہیں کیاہے۔
وضاحت ۱؎ : کیوں کہ ان میں قیامت کی خبریں اور عذاب کی آیتیں ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
57- بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْحَدِيدِ
۵۷-باب: سورہ الحدید سے بعض آیات کی تفسیر​


3298- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ الْمَعْنَى وَاحِدٌ، قَالُوا: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَ الْحَسَنُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: بَيْنَمَا نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ جَالِسٌ وَأَصْحَابُهُ إِذْ أَتَى عَلَيْهِمْ سَحَابٌ فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ: "هَلْ تَدْرُونَ مَا هَذَا؟"، فَقَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " هَذَا الْعَنَانُ هَذِهِ رَوَايَا الأَرْضِ يَسُوقُهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِلَى قَوْمٍ لاَ يَشْكُرُونَهُ، وَلاَ يَدْعُونَهُ "، قَالَ: "هَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَكُمْ" قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: "فَإِنَّهَا الرَّقِيعُ سَقْفٌ مَحْفُوظٌ وَمَوْجٌ مَكْفُوفٌ" ثُمَّ قَالَ: "هَلْ تَدْرُونَ كَمْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهَا؟" قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: "بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ" ثُمَّ قَالَ: "هَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَ ذَلِكَ" قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: "فَإِنَّ فَوْقَ ذَلِكَ سَمَائَيْنِ مَا بَيْنَهُمَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ حَتَّى عَدَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ مَا بَيْنَ كُلِّ سَمَائَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ"، ثُمَّ قَالَ: "هَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَ ذَلِكَ" قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: "فَإِنَّ فَوْقَ ذَلِكَ الْعَرْشَ وَبَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَائِ بُعْدُ مَا بَيْنَ السَّمَائَيْنِ" ثُمَّ قَالَ: "هَلْ تَدْرُونَ مَا الَّذِي تَحْتَكُمْ" قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: "فَإِنَّهَا الأَرْضُ" ثُمَّ قَالَ: "هَلْ تَدْرُونَ مَا الَّذِي تَحْتَ ذَلِكَ" قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: "فَإِنَّ تَحْتَهَا أَرْضًا أُخْرَى بَيْنَهُمَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ حَتَّى عَدَّ سَبْعَ أَرَضِينَ بَيْنَ كُلِّ أَرْضَيْنِ مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ"، ثُمَّ قَالَ: "وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَنَّكُمْ دَلَّيْتُمْ رَجُلًا بِحَبْلٍ إِلَى الأَرْضِ السُّفْلَى لَهَبَطَ عَلَى اللَّهِ ثُمَّ قَرَأَ: {هُوَ الأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْئٍ عَلِيمٌ}".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ قَالَ: وَيُرْوَى عَنْ أَيُّوبَ، وَيُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، وَعَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ قَالُوا: لَمْ يَسْمَعْ الْحَسَنُ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَفَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذَا الْحَدِيثَ فَقَالُوا: إِنَّمَا هَبَطَ عَلَى عِلْمِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ وَسُلْطَانِهِ وَعِلْمُ اللَّهِ وَقُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ وَهُوَ عَلَى الْعَرْشِ كَمَا وَصَفَ فِي كِتَابهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۵۳) (ضعیف)
(ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حسن بصری کا سماع نہیں ہے، نیز وہ مدلس ہیں)
۳۲۹۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : اس دوران کہ نبی اکرمﷺاور صحابہ بیٹھے ہوئے تھے ، ان پر ایک بدلی آئی ، نبی اکرمﷺنے ان سے فرمایا:'' کیاتم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں'' ،آپ نے فرمایا:'' یہ بادل ہے اور یہ زمین کے گوشے وکنارے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس بادل کو ایک ایسی قوم کے پاس ہانک کر لے جارہاہے جو اس کی شکرگزار نہیں ہے اور نہ ہی اس کو پکارتے ہیں''، پھرآپ نے فرمایا:'' کیاتم جانتے ہو تمہارے اوپر کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں'' ، آپ نے فرمایا:''یہ آسمان رقیع ہے، ایسی چھت ہے جو (جنوں سے) محفوظ کردی گئی ہے، ایک ایسی( لہر) ہے جو (بغیر ستون کے) روکی ہوئی ہے، پھر آپ نے پوچھا : کیا تم جانتے ہوکہ کتنا فاصلہ ہے تمہارے اور اس کے درمیان؟لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں''۔ آپ نے فرمایا:'' تمہارے اور اس کے درمیان پانچ سوسال مسافت کی دوری ہے''۔ پھر آپ نے پوچھا: کیا تمہیں معلوم ہے اور اس سے اوپر کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے، آپ نے فرمایا:'' اس کے اوپر دوآسمان ہیں جن کے بیچ میں پانچ سوسال کی مسافت ہے۔ ایسے ہی آپ نے سات آسمان گنائے، اور ہر دو آسمان کے درمیان وہی فاصلہ ہے جو آسمان وزمین کے درمیان ہے، پھر آپ نے پوچھا: اوراس کے اوپر کیا ہے؟ لوگوں نے کہا:اللہ اوراس کے رسول زیادہ جانتے ہیں،اوراس کے رسول آپ نے فرمایا:'' اس کے اوپر عرش ہے، عرش اور آسمان کے درمیان اتنی دوری ہے جتنی دوری دو آسمانوں کے درمیان ہے، آپ نے پوچھا : کیا تم جانتے ہو تمہارے نیچے کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں: آپ نے فرمایا:'' یہ زمین ہے''، آپ نے فرمایا:'' کیا تم جانتے ہو اس کے نیچے کیا ہے؟'' ۔لوگوں نے کہا: اللہ اوراس کے رسول زیادہ جانتے ہیں آپ نے فرمایا:'' اس کے نیچے دوسری زمین ہے۔ ان دونوں کے درمیان پانچ سوسال کی مسافت کی دوری ہے، اس طرح آپ نے سات زمینیں شمار کیں، اور ہرزمین کے درمیان پانچ سوسال کی مسافت کی دوری بتائی''، پھرآپ نے فرمایا:''قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدکی جان ہے! اگر تم کوئی رسی زمین کی نچلی سطح تک لٹکاؤ تو وہ اللہ ہی تک پہنچے گی ، پھر آپ نے آیت {هُوَ الأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْئٍ عَلِيمٌ } ۱؎ پڑھی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲- ایوب ، یونس بن عبید اور علی بن زید سے مروی ہے ، ان لوگوں نے کہا ہے کہ حسن بصری نے ابوہریرہ سے نہیں سناہے،۳- بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے کہا: مرادیہ ہے کہ وہ رسی اللہ کے علم پر اتری ہے، اور اللہ اور اس کی قدرت وحکومت ہر جگہ ہے اور جیسا کہ اس نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں اپنے متعلق بتایا ہے وہ عرش پر مستوی ہے۔
وضاحت ۱؎ : وہی اول وآخر ہے وہی ظاہر وباطن ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے(الحدید:۳)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
58-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْمُجَادَلَةِ
۵۸-باب: سورہ مجادلہ سے بعض آیات کی تفسیر​


3299- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوانِيُّ الْمَعْنَى وَاحِدٌ قَالا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: كُنْتُ رَجُلا قَدْ أُوتِيتُ مِنْ جِمَاعِ النِّسَائِ مَا لَمْ يُؤْتَ غَيْرِي فَلَمَّا دَخَلَ رَمَضَانُ تَظَاهَرْتُ مِنْ امْرَأَتِي حَتَّى يَنْسَلِخَ رَمَضَانُ فَرَقًا مِنْ أَنْ أُصِيبَ مِنْهَا فِي لَيْلَتِي؛ فَأَتَتَابَعَ فِي ذَلِكَ إِلَى أَنْ يُدْرِكَنِي النَّهَارُ وَأَنَا لا أَقْدِرُ أَنْ أَنْزِعَ فَبَيْنَمَا هِيَ تَخْدُمُنِي ذَاتَ لَيْلَةٍ إِذْ تَكَشَّفَ لِي مِنْهَا شَيْئٌ؛ فَوَثَبْتُ عَلَيْهَا فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ عَلَى قَوْمِي؛ فَأَخْبَرْتُهُمْ خَبَرِي؛ فَقُلْتُ: انْطَلِقُوا مَعِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَأُخْبِرَهُ بِأَمْرِي فَقَالُوا: لا وَاللَّهِ لا نَفْعَلُ نَتَخَوَّفُ أَنْ يَنْزِلَ فِينَا قُرْآنٌ أَوْ يَقُولَ: فِينَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَقَالَةً يَبْقَى عَلَيْنَا عَارُهَا، وَلَكِنْ اذْهَبْ أَنْتَ؛ فَاصْنَعْ مَا بَدَا لَكَ قَالَ: فَخَرَجْتُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ؛ فَأَخْبَرْتُهُ خَبَرِي فَقَالَ: "أَنْتَ بِذَاكَ" قُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ قَالَ: "أَنْتَ بِذَاكَ" قُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ، قَالَ: "أَنْتَ بِذَاكَ" قُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ وَهَا أَنَا ذَا فَأَمْضِ فِيَّ حُكْمَ اللَّهِ؛ فَإِنِّي صَابِرٌ لِذَلِكَ قَالَ: أَعْتِقْ رَقَبَةً قَالَ: فَضَرَبْتُ صَفْحَةَ عُنُقِي بِيَدِي فَقُلْتُ: لا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لا أَمْلِكُ غَيْرَهَا قَالَ: صُمْ شَهْرَيْنِ قُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! وَهَلْ أَصَابَنِي مَاأَصَابَنِي إِلا فِي الصِّيَامِ قَالَ: فَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ بِتْنَا لَيْلَتَنَا هَذِهِ وَحْشَى مَا لَنَا عَشَائٌ قَالَ: اذْهَبْ إِلَى صَاحِبِ صَدَقَةِ بَنِي زُرَيْقٍ فَقُلْ لَهُ: فَلْيَدْفَعْهَا إِلَيْكَ؛ فَأَطْعِمْ عَنْكَ مِنْهَا وَسْقًا سِتِّينَ مِسْكِينًا، ثُمَّ اسْتَعِنْ بِسَائِرِهِ عَلَيْكَ، وَعَلَى عِيَالِكَ قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى قَوْمِي؛ فَقُلْتُ: وَجَدْتُ عِنْدَكُمْ الضِّيقَ وَسُوئَ الرَّأْيِ، وَوَجَدْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ السَّعَةَ وَالْبَرَكَةَ أَمَرَ لِي بِصَدَقَتِكُمْ؛ فَادْفَعُوهَا إِلَيَّ فَدَفَعُوهَا إِلَيَّ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ قَالَ مُحَمَّدٌ: سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ لَمْ يَسْمَعْ عِنْدِي مِنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ، قَالَ: وَيُقَالُ: سَلَمَةُ بْنُ صَخْرٍ، وَيُقَالُ: سَلْمَانُ بْنُ صَخْرٍ، وَفِي الْبَاب عَنْ خَوْلَةَ بِنْتِ ثَعْلَبَةَ وَهِيَ امْرَأَةُ أَوْسِ بْنِ الصَّامِتِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۱۹۸ (صحیح)
۳۲۹۹- سلمہ بن صخرانصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے عورت سے جماع کی جتنی شہوت وقوت ملی تھی (میں سمجھتا ہوں) اتنی کسی کوبھی نہ ملی ہوگی، جب رمضان کا مہینہ آیا تو میں نے اس ڈر سے کہ کہیں میں رمضان کی رات میں بیوی سے ملوں (صحبت کربیٹھوں) اور پے در پے جماع کئے ہی جاؤں کہ اتنے میں صبح ہوجائے اور میں اسے چھوڑ کر علیحدہ نہ ہوپاؤں ، میں نے رمضان کے ختم ہونے تک کے لیے بیوی سے ظہار ۱؎ کرلیا، پھر ایسا ہواکہ ایک رات میری بیوی میری خدمت کررہی تھی کہ اچانک مجھے اس کی ایک چیز دکھائی پڑگئی تو میں (اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا) اسے دھر دبوچا، جب صبح ہوئی تو میں اپنی قوم کے پاس آیا اورانہیں اپنے حال سے باخبر کیا، میں نے ان سے کہا کہ میرے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس چلو تاکہ میں آپ کو اپنے معاملے سے باخبر کردوں ، ان لوگوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم ! ہم نہ جائیں گے ، ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہمارے متعلق قرآن (کوئی آیت) نازل نہ ہوجائے، یار سول اللہ ﷺ کوئی بات نہ کہہ دیں جس کی شرمندگی برقرار رہے، البتہ تم خود ہی جاؤ اور جو مناسب ہو کرو، تو میں گھر سے نکلا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا اور آپ کو اپنی بات بتائی، آپ نے فرمایا:'' تم نے یہ کام کیا ہے؟ میں نے کہا: ہاں ، میں نے ایساکیا ہے، آپ نے کہا: تم نے ایساکیا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، میں نے ایساکیا ہے آپ نے (تیسری بار بھی یہی ) پوچھا: تو نے یہ بات کی ہے، میں نے کہا: ہاں، مجھ سے ہی ایسی بات ہوئی ہے، مجھ پرا للہ کا حکم جاری ونافذ فرمائیے ، میں اپنی اس بات پر ثابت وقائم رہنے والا ہوں، آپ نے فرمایا:'' ایک غلام آزاد کرو، میں نے اپنی گردن پر ہاتھ مار کر کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں اپنی اس گردن کے سوا کسی اور گردن کا مالک نہیں ہوں (غلام کیسے آزاد کروں) آپ نے فرمایا:'' پھر دومہینے کے صیام رکھو، میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے جو پریشانی ومصیبت لاحق ہوئی ہے وہ اسی صیام ہی کی وجہ سے تو لاحق ہوئی ہے، آپ نے فرمایا:'' تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلادو''،میں نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! ہم نے یہ رات بھوکے رہ کر گزاری ہے، ہمارے پاس رات کابھی کھانا نہ تھا، آپ نے فرمایا:'' بنو زریق کے صدقہ دینے والوں کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ تمہیں صدقہ کا مال دے دیں اوراس میں سے تم ایک وسق ساٹھ مسکینوں کو اپنے کفارہ کے طورپر کھلادو اور باقی جوکچھ بچے وہ اپنے اوپر اورا پنے بال بچوں پر خرچ کرو، وہ کہتے ہیں: پھر میں لوٹ کر اپنی قوم کے پاس آیا ، میں نے کہا: میں نے تمہارے پاس تنگی ،بدخیالی اور بری رائے وتجویز پائی، جب کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کشادگی اور برکت پائی، رسول اللہ ﷺ نے مجھے تمہارا صدقہ لینے کا حکم دیا ہے تو تم لوگ اسے مجھے دے دو، چنانچہ ان لوگوں نے مجھے دے دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: سلیمان بن یسارنے میرے نزدیک سلمہ بن صخر سے نہیں سنا ہے، سلمہ بن صخر کو سلمان بن صخربھی کہتے ہیں،۳- اس باب میں خولہ بنت ثعلبہ سے بھی روایت ہے، اور یہ اوس بن صامت کی بیوی ہیں( رضی اللہ عنہما )۔
وضاحت ۱؎ : میں نے کہہ دیا کہ تومجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح حرام ہے۔تاکہ رمضان بھرتوجماع سے بچارہ سکوں،اورحالت صوم میں جماع کی نوبت نہ آنے پائے۔


3300- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ الأَشْجَعِيُّ، عَنْ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ الثَّقَفِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلْقَمَةَ الأَنْمَارِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمْ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً} قَالَ لِي النَّبِيُّ ﷺ مَا تَرَى دِينَارًا قُلْتُ لايُطِيقُونَهُ قَالَ فَنِصْفُ دِينَارٍ قُلْتُ لاَ يُطِيقُونَهُ قَالَ فَكَمْ قُلْتُ شَعِيرَةٌ قَالَ إِنَّكَ لَزَهِيدٌ قَالَ فَنَزَلَتْ: {أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ} الآيَةَ قَالَ: فَبِي خَفَّفَ اللَّهُ عَنْ هَذِهِ الأُمَّةِ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
وَمَعْنَى قَوْلِهِ: شَعِيرَةٌ يَعْنِي وَزْنَ شَعِيرَةٍ مِنْ ذَهَبٍ وَأَبُو الْجَعْدِ اسْمُهُ رَافِعٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۴۹) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں علی بن علقمہ لین الحدیث راوی ہیں)
۳۳۰۰- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت کریمہ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً } ۱؎ نازل ہوئی تو نبی اکرمﷺنے مجھ سے پوچھا: تمہاری کیا رائے ہے، ایک دینار صدقہ مقرر کردوں؟ میں نے کہا: لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے، آپ نے فرمایا: '' تو کیا آدھا دینار مقرر کردوں؟ میں نے کہا: اس کی بھی طاقت نہیں رکھتے'' ، آپ نے فرمایا:'' پھر کتنا کردوں؟'' میں نے کہا: ایک جو کردیں ، آپ نے فرمایا:'' تم تو بالکل ہی گھٹا دینے والے نکلے''، اس پریہ آیت نازل ہوئی {أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ } ۲؎ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ نے میری وجہ سے فضل فرماکر اس امت کے معاملے میں تخفیف فرمادی (یعنی اس حکم کو منسوخ کردیا)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- علی رضی اللہ عنہ کے قول ''شعیرہ'' سے مراد ایک جو کے برابر ہے۔
وضاحت ۱؎ : اے ایمان والو! جب رسول اللہ (ﷺ) سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیاکرو (المجادلہ:۱۲) ۔
وضاحت ۲؎ : کیاتم اس حکم سے ڈرگئے کہ تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقے دے دیاکرو(المجادلہ:۱۳)۔


3301- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ يَهُودِيًّا أَتَى عَلَى النَّبِيِّ ﷺ وَأَصْحَابِهِ فَقَالَ: السَّامُ عَلَيْكُمْ؛ فَرَدَّ عَلَيْهِ الْقَوْمُ فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهَ ﷺ: "هَلْ تَدْرُونَ مَا قَالَ هَذَا" قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ سَلَّمَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ! قَالَ: لا وَلَكِنَّهُ قَالَ: كَذَا وَكَذَا رُدُّوهُ عَلَيَّ؛ فَرَدُّوهُ، قَالَ: قُلْتَ: السَّامُّ عَلَيْكُمْ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ عِنْدَ ذَلِكَ إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ فَقُولُوا: عَلَيْكَ مَا قُلْتَ، قَالَ: {وَإِذَا جَائُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ}[المجادلة: 8].
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۵) (صحیح)
۳۳۰۱- انس ابن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک یہودی نے نبی اکرمﷺاور آپ کے صحابہ کے پاس آکر کہا: '' السام علیکم'' (تم پر موت آئے) لوگوں نے اسے اس کے ''سام'' کا جواب دیا، نبی اکرمﷺنے لوگوں سے پوچھا: کیا تم جانتے ہو اس نے کیا کہا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں، اے اللہ کے نبی ! اس نے تو سلام کیا ہے، آپ نے فرمایا:'' نہیں، بلکہ اس نے تو ایسا ایسا کہا ہے، تم لوگ اس (یہودی)کولوٹاکرمیرے پاس لاؤ،لوگ اس کولوٹاکرلائے ،آپ نے اس یہودی سے پوچھا: تونے '' السام علیکم'' کہاہے؟ اس نے کہا: ہاں، نبی اکرمﷺنے اسی وقت سے یہ حکم صادر فرمایادیا کہ جب اہل کتاب میں سے کوئی تمہیں سلام کرے تو تم اس کے جواب میں ''علیک ماقلت''( جو تم نے کہی وہی تمہارے لیے بھی ہے) کہہ دیاکرو، اور آپ نے یہ آیت پڑھی{وَإِذَا جَائُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ } ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ یہودی جب تمہارے پاس آتے ہیں تووہ تمہیں اس طرح سلام کرتے ہیں جس طرح اللہ نے تمہیں سلام نہیں کیاہے (المجادلہ:۸)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
59-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْحَشْرِ
۵۹-باب: سورہ حشر سے بعض آیات کی تفسیر​


3302- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: حَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ، وَقَطَّعَ وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْتَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ} [الحشر: 5].
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/المزارعۃ ۴ (۲۳۵۶)، والجھاد ۱۵۴ (۳۰۲۰)، والمغازي ۱۴ (۳۹۶۰)، م/الجھاد ۱۰ (۱۷۴۶)، د/الجھاد ۹۱ (۲۶۱۵)، ق/الجھاد (۲۸۴۴)، ودي/السیر ۲۳ (۲۵۰۳) (صحیح)
۳۳۰۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے بنی نضیر کے کھجور کے درخت جلادئے اور کاٹ ڈالے، اس جگہ کانام بویرہ تھا، اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْتَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ} ۱؎ نازل فرمائی ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : جو ان کے درخت تم نے کاٹے یا ان کو اپنی جڑوں پر قائم (وسالم) چھوڑدیا یہ سب کچھ اذن الٰہی سے تھا، اوراس لیے بھی تھاکہ اللہ ایسے فاسقوں کو رسوا کرے (الحشر:۵)۔
وضاحت ۲؎ : یہ غزوئہ بنونضیرکا واقعہ ہے ،جس میں ایک جنگی مصلحت کے تحت نبیﷺنے بنونضیرکے بعض کھجورکے درختوں کو کاٹ ڈالنے کاحکم دیاتھا، اس پر یہودیوں نے یہ پروپیگنڈہ کیاتھاکہ دیکھومحمددین الٰہی کے دعویداربنتے ہیں،بھلادین الٰہی میں پھلداردرختوں کو کاٹ ڈالنے کا معاملہ جائز ہوسکتاہے؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کوجواب دیا کہ یہ سب اللہ کے حکم سے کسی مصلحت کے تحت ہوا(ایک خاص مصلحت یہ تھی کہ یہ مسلمانوں کی حکومت اورغلبے کا اظہارتھا)۔


3303- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا}[الحشر:5] قَالَ: اللِّينَةُ: النَّخْلَةُ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ، قَالَ: اسْتَنْزَلُوهُمْ مِنْ حُصُونِهِمْ، قَالَ: وَأُمِرُوا بِقَطْعِ النَّخْلِ فَحَكَّ فِي صُدُورِهِمْ؛ فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ: قَدْ قَطَعْنَا بَعْضًا، وَتَرَكْنَا بَعْضًا فَلَنَسْأَلَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ هَلْ لَنَا فِيمَا قَطَعْنَا مِنْ أَجْرٍ، وَهَلْ عَلَيْنَا فِيمَا تَرَكْنَا مِنْ وِزْرٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا} الآيَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۵۴۸۸) (صحیح الإسناد)
3303/م- وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ مُرْسَلا، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِي بِذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعَ مِنِّي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ هَذَا الْحَدِيثَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۳۰۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا} کی تفسیر میں فرماتے ہیں:''لِينَةٍ'' سے مراد کھجور کے درخت ہیں اور ''وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ'' (تاکہ اللہ فاسقوں کو ذلیل کرے ) کے بارے میں کہتے ہیں : ان کی ذلت یہی ہے کہ مسلمانوں نے انہیں ان کے قلعوں سے نکال بھگایا اور(مسلمانوں کویہودکے) کھجور کے درخت کاٹ ڈالنے کا حکم دیاگیا، تو ان کے دلوں میں یہ بات کھٹکی، مسلمانوں نے کہا: ہم نے بعض درخت کاٹ ڈالے اور بعض چھوڑدیئے ہیں تو اب ہم رسول اللہ ﷺ سے پوچھیں گے کہ ہم نے جو درخت کاٹے ہیں کیا ہمیں ان کا کچھ اجر وثواب ملے گا، اور جو درخت ہم نے نہیں کاٹے ہیں کیا ہمیں اس کا کچھ عذاب ہوگا؟ تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی،{مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا} ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
۱۳۳۰۳/م- بعض اور لوگوں نے یہ حدیث بطریق: حفص بن غیاث ، عن حبیب بن أبوعمارۃ، عن سعیدبن جبیر ، مرسلاً روایت کی ہے، اور اس کی سند میں عبداللہ بن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : تم نے کھجوروں کے جودرخت کاٹ ڈالے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پرباقی رہنے دیا ، یہ سب اللہ تعالیٰ کے فرمان سے تھا اور اس لیے بھی تھا کہ اللہ فاسقوں کورسواکرے۔


3304-حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلا مِنَ الأَنْصَارِ بَاتَ بِهِ ضَيْفٌ فَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ إِلا قُوتُهُ، وَقُوتُ صِبْيَانِهِ فَقَالَ لامْرَأَتِهِ: نَوِّمِي الصِّبْيَةَ، وَأَطْفِئِي السِّرَاجَ، وَقَرِّبِي لِلضَّيْفِ مَا عِنْدَكِ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةَ:{وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْكَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ}[الحشر:9] هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/مناقب الأنصار ۱۰ (۳۷۹۷)، وتفسیر سورۃ الحشر ۶ (۴۸۸۹)، م/الأشربۃ ۳۲ (۲۰۵۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۱۹) (صحیح)
۳۳۰۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک انصاری شخص کے پاس رات میں ایک مہمان آیا، اس انصاری کے پاس (اس وقت) صرف اس کے اور اس کے بچوں بھرکاہی کھاناتھا ، اس نے اپنی بیوی سے کہا(ایساکرو) بچوں کو (کسی طرح) سلادو اور (کھانا کھلانے چلوتو) چراغ بجھادو، اور جوکچھ تمہارے پاس ہووہ مہمان کے قریب رکھ دو، اس پر آیت {وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ} ۱؎ نازل ہوئی ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ خود محتاج و ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی اپنے پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں(الحشر:۹)۔
وضاحت ۲؎ : یہ انصاری شخص ابوطلحہ رضی اللہ عنہ تھے، جیساکہ صحیح مسلم میں صراحت ہے ، اس واقعہ میں یہ بھی ہے کہ دونوں میاں بیوی اندھیرے میں برتن اپنے سامنے رکھ کرخودبھی کھانے کامظاہرہ کررہے تھے تاکہ مہمان کو یہ اندازہ ہو کہ وہ بھی کھارہے ہیں، چراغ بجھادینے کی یہی حکمت تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
60-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْمُمْتَحِنَةِ
۶۰-باب: سورہ ممتحنہ سے بعض آیات کی تفسیر​


3305- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ -هُوَ ابْنُ الْحَنَفِيَّةِ-، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ قَال: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ يَقُولُ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنَا وَالزُّبَيْرَ وَالْمِقْدَادَ بْنَ الأَسْوَدِ فَقَالَ: "انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ فَإِنَّ فِيهَا ظَعِينَةً مَعَهَا كِتَابٌ؛ فَخُذُوهُ مِنْهَا؛ فَأْتُونِي بِهِ؛ فَخَرَجْنَا تَتَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى أَتَيْنَا الرَّوْضَةَ؛ فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ فَقُلْنَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ فَقَالَتْ: مَا مَعِي مِنْ كِتَابٍ فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَتُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ، قَالَ: فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا قَالَ: فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَإِذَا هُوَ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى نَاسٍ مِنْ الْمُشْرِكِينَ بِمَكَّةَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: مَا هَذَا يَا حَاطِبُ" قَالَ: لاتَعْجَلْ عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ، وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا وَكَانَ مَنْ مَعَكَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ بِهَا أَهْلِيهِمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِمَكَّةَ؛ فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنْ نَسَبٍ فِيهِمْ أَنْ أَتَّخِذَ فِيهِمْ يَدًا يَحْمُونَ بِهَا قَرَابَتِي، وَمَا فَعَلْتُ ذَلِكَ كُفْرًا وَلا ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي، وَلا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الإِسْلامِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "صَدَقَ" فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا فَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ" قَالَ: وَفِيهِ أُنْزِلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَائَ}[الممتحنة:1] السُّورَةَ. قَالَ عَمْرٌو: وَقَدْ رَأَيْتُ ابْنَ أَبِي رَافِعٍ، وَكَانَ كَاتِبًا لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيح. وَفِيهِ عَنْ عُمَرَ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ.
وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ هَذَا الْحَدِيثَ نَحْوَ هَذَا وَذَكَرُوا هَذَا الْحَرْفَ وَقَالُوا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَتُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ، وَقَدْ رُوِيَ أَيْضًا عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ ذَكَرَ بَعْضُهُمْ فِيهِ فَقَالَ: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُجَرِّدَنَّكِ.
* تخريج: خ/الجھاد ۱۴۱ (۳۷۰۰)، والمغازي ۹ (۳۹۸۳)، وتفسیر سورۃ الممتحنۃ ۱ (۴۸۹۰)، م/فضائل الصحابۃ ۳۶ (۲۴۹۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۲۷)، وحم (۱/۷۹) (صحیح)
َ ۳۳۰۵- عبید اللہ بن ابورافع کہتے ہیں : میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہﷺ نے مجھے زبیر اور مقداد بن اسود کوبھیجا، کہا:جاؤ، روضہ خاخ ۱؎ پر پہنچو وہاں ایک ھودج سوار عورت ہے، اس کے پاس ایک خط ہے، وہ خط جاکر اس سے لے لو، اور میرے پاس لے آؤ ، چنانچہ ہم نکل پڑے ، ہمارے گھوڑے ہمیں لیے لیے دوڑمیں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی کوشش کررہے تھے، ہم روضہ پہنچے، ہمیں ہودج سوار عورت مل گئی، ہم نے اس سے کہا: خط نکال ، اس نے کہا: ہمارے پا س کوئی خط نہیں ہے، ہم نے کہا: خط نکالتی ہے یا پھر اپنے کپڑے اتارتی ہے؟ (یہ سن کر) اپنی چوٹی (جوڑے) سے اس نے خط نکالا ، ہم اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آگئے،وہ خط حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کی جانب سے تھا، مکہ کے کچھ مشرکین کے پاس بھیجا گیاتھا، نبی اکرمﷺکے بعض اقدامات کی انہیں خبردی گئی تھی، آپ نے کہا: حاطب! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارے خلاف حکم فرمانے میں جلدی نہ کریں، میں ایک ایسا شخص تھا جو قریش کے ساتھ مل جل کر رہتاتھا، لیکن (خاندانی طورپر) قریشی نہ تھا، باقی جو مہاجرین آپ کے ساتھ تھے ان کی وہاں رشتہ داریاں تھیں جس کی وجہ سے وہ رشتہ دار مکہ میں ان کے گھروالوں اور ان کے مالوں کی حفاظت وحمایت کرتے تھے، میں نے مناسب سمجھا کہ جب ہمارا ان سے کوئی خاندانی ونسبی تعلق نہیں ہے تو میں ان پر احسان کرکے کسی کا ہاتھ پکڑ لوں جس کی وجہ سے یہ اہل مکہ ہمارے گھر اور رشتہ داروں کی حفاظت وحمایت کریں ، میں نے ایساکفر اختیار کرلینے یا اپنے دین سے مرتد ہوجانے یا کفر کو پسند کرلینے کی وجہ سے نہیں کیا ہے، نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' حاطب نے سچ اور (صحیح) بات کہی ہے، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ! مجھے اجازت دیجئے ، میں اس منافق کی گردن ماردوں، نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' یہ جنگ بدر میں موجود رہے ہیں، تمہیں معلوم نہیں، یقینا اللہ نے بدر والوں کی حالت (یعنی ان کے جذبہ جاں فروشی) کو دیکھ کر کہہ دیا ہے: جو چاہو کرو ہم نے تمہارے گناہ بخش دیئے ہیں، اسی سلسلے میں یہ پوری سورہ { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَائَ تَلْقَونَ إليْهِمْ بِالمَودَّةِ} آخرتک نازل ہوئی۔
عمر و(راوی حدیث) کہتے ہیں : میں نے عبیداللہ بن ابی رافع کودیکھا ہے، وہ علی رضی اللہ عنہ کے کاتب (محرر) تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اسی طرح کئی ایک نے یہ حدیث سفیان بن عیینہ سے روایت کی ہے ، اور ان سبھوں نے بھی یہی لفظ ذکر کیا ہے کہ علی اور زبیر رضی اللہ عنہما وغیرہ نے کہا: تمہیں خط نکال کردینا ہوگا، ورنہ پھر تمہیں کپڑے اتارنے پڑیں گے،۳- ابوعبدالرحمن السلمی سے بھی یہ حدیث مروی ہوئی ہے، انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے اسی حدیث کے مانند روایت کیاہے،۴- اس باب میں عمر اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
اور بعضوں نے ذکر کیا کہ انہوں نے کہاکہ توخط نکال دے ورنہ ہم تجھے ننگا کردیں گے۔
وضاحت ۱؎ : خاخ ایک جگہ کانام ہے اس کے اور مدینہ کے درمیان ۱۲میل کا فاصلہ ہے۔
وضاحت ۲؎ : اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ، تم انہیں دوستی کا پیغام بھیجتے ہو (الممتحنۃ:۱)۔


3306- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَمْتَحِنُ إِلا بِالآيَةِ الَّتِي قَالَ اللَّهُ: {إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ}[الممتحنة:12] الآيَةَ قَالَ مَعْمَرٌ: فَأَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُوسٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: مَا مَسَّتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَدَ امْرَأَةٍ إِلا امْرَأَةً يَمْلِكُهَا.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر : خ/الأحکام ۴۹ (۷۲۱۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۴۰) (صحیح)
۳۳۰۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ کسی کاامتحان نہیں لیا کرتے تھے مگر اس آیت سے جس میں اللہ نے {إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ } ۱؎ کہاہے ۔
معمر کہتے ہیں: ابن طاؤس نے مجھے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے خبردی ہے کہ ان کے باپ نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ نے اس عورت کے سوا جس کے آپ مالک ہوتے کسی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اے مومنوا! جب تمہارے پاس مومن عورتیں (مکہ سے)ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو، اللہ توان کے ایمان کوجانتاہی ہے ، اگرتم یہ جان لوکہ یہ واقعی مومن عورتیں ہیں تو ان کو ان کے کافرشوہروں کے پاس نہ لوٹاؤ، نہ تو وہ کافروں کے لیے حلال ہیں نہ کافر ان کے لیے حلال ہیں ( الممتحنۃ:۱۰)اورامتحان لینے کامطلب یہ ہے کہ کافرہوں اوراپنے شوہروں سے ناراض ہوکر، یا کسی مسلمان کے عشق میں گرفتارہو کر آئی ہوں، اورجب تحقیق ہوجائے تب بھی صلح حدیبیہ کی شق کے مطابق ان عورتوں کو واپس نہیں کیا جاسکتاکیونکہ مسلمان عورت کافرمردکے لیے حرام ہے، (مردوں کو بھلے واپس کیا جائیگا)
وضاحت ۲؎ : اس سے اشارہ اس بات کا ہے کہ آپ عورتوں سے بیعت زبانی لیتے تھے، اوربعض روایات میں آتاہے کہ آپ نے اپناہاتھ ان کے ہاتھوں پررکھ کر بیعت لیاوہ اکثرمرسل روایات ہیں، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے اپنے اوران کے ہاتھوں کے درمیان کوئی حائل (موٹاکپڑاوغیرہ )رکھاہو، جیساکہ بعض روایات میں آتاہے ''لیس فی نسخۃالالبانی، وہوضعیف لأجل أبی نصرالاسدی فہومجہول ''۔


3307- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الشَّيْبَانِيُّ قَال: سَمِعْتُ شَهْرَ بْنَ حَوْشَبٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنَا أُمُّ سَلَمَةَ الأَنْصَارِيَّةُ قَالَتْ: قَالَتْ امْرَأَةٌ مِنْ النِّسْوَةِ: مَا هَذَا الْمَعْرُوفُ الَّذِي لا يَنْبَغِي لَنَا أَنْ نَعْصِيَكَ فِيهِ قَالَ: "لا تَنُحْنَ"، قُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ بَنِي فُلانٍ قَدْ أَسْعَدُونِي عَلَى عَمِّي، وَلا بُدَّ لِي مِنْ قَضَائِهِنَّ؛ فَأَبَى عَلَيَّ فَأَتَيْتُهُ مِرَارًا؛ فَأَذِنَ لِي فِي قَضَائِهِنَّ؛ فَلَمْ أَنُحْ بَعْدَ قَضَائِهِنَّ وَلا عَلَى غَيْرِهِ حَتَّى السَّاعَةَ، وَلَمْ يَبْقَ مِنْ النِّسْوَةِ امْرَأَةٌ إِلا وَقَدْ نَاحَتْ غَيْرِي .
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَفِيهِ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ: أُمُّ سَلَمَةَ الأَنْصَارِيَّةُ هِيَ أَسْمَائُ بِنْتُ يَزِيدَ بْنِ السَّكَنِ.
* تخريج: ق/الجنائز ۵۱ (۱۵۷۹) (۱۵۷۶۹) (حسن)
۳۳۰۷- ام سلمہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : عورتوں میں سے ایک عورت نے عرض کیا: (اللہ کے رسول!) اس معروف سے کیا مراد ہے جس میں ہمیں آپ کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے، آپ نے فرمایا:'' وہ یہی ہے کہ تم (کسی کے مرنے پر) نوحہ مت کرو''، میں نے کہا: اللہ کے رسول! فلاں قبیلے کی عورتوں نے نوحہ کرنے میں میری مدد کی تھی جب میں نے اپنے چچا پرنوحہ کیا تھا،اس لیے میرے لیے ضروری ہے کہ جب ان کے نوحہ کرنے کا وقت آئے تومیں ان کے ساتھ نوحہ میں شریک ہوکر اس کا بدلہ چکاؤں، آپ نے انکار کیا، (مجھے اجازت نہ دی) میں نے کئی بار آپ سے اپنی عرض دہرائی تو آپ نے مجھے ان کا بدلہ چکا دینے کی اجازت دے دی، اس بدلہ کے چکادینے کے بعد پھر میں نے نہ ان پر اور نہ ہی کسی اور پراب قیامت تک نوحہ (جبکہ)میرے سواکوئی عورت ایسی باقی نہیں ہے جس نے نوحہ نہ کیاہو ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے،۳- عبد بن حمید کہتے ہیں ، ام سلمہ انصاریہ ہی اسماء بنت یزید بن السکن ہیں رضی اللہ عنہا ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان عورتوں میں سے ہرعورت نے نوحہ کیاہے۔


3308- حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنِ الأَغَرِّ بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ خَلِيفَةَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي نَصْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {إِذَا جَاءَكُمْ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ} قَالَ: كَانَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا جَاءَتْ النَّبِيَّ ﷺ لِتُسْلِمَ حَلَّفَهَا بِاللَّهِ مَا خَرَجْتُ مِنْ بُغْضِ زَوْجِي مَا خَرَجْتُ إِلاَّ حُبًّا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: لم یوردہ في ترجمۃ أبي نصر عن ابن عباس) (ضعیف)
(سندمیں راوی قیس بن الربیع کوفی صدوق راوی ہیں، لیکن بوڑھاپے میں حافظہ میں تبدیلی آگئی تھی ، اور ان کے بیٹے نے اُن کی کتاب میں وہ احادیث داخل کردیں جو اُن کی روایت سے نہیں تھیں، اورانہوں ان روایات کو بیان کیا،اور ابوالنصر اسد ی بصری کو ابوزرعہ نے ثقہ کہا ہے، اور امام بخاری کہتے ہیں کہ ابونصر کا سماع ابن عباس سے غیر معروف ہے(صحیح البخاری ، النکاح (۵۱۰۵) تہذیب الکمال ۳۴/۳۴۳)اور حافظ ابن حجر ابونصر أسدی کو مجہول کہتے ہیں(التقریب ) ۱؎ ۔
۳۳۰۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت {إِذَا جَاءَكُمْ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ} کی تفسیرمیں کہتے ہیں : جب کوئی عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس ایمان لانے کے لیے آتی تو آپ اسے اللہ تعالیٰ کی قسم دلاکر کہلاتے کہ میں اپنے شوہر سے ناراضگی کے باعث کفر سے نہیں نکلی ہوں بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت لے کر اسلام قبول کرنے آئی ہوں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث تحفۃ الأحوذی میں نہیں ہے، نیز سنن ترمذی کے مکتبۃ المعارف والے نسخے میں بھی نہیں ہے، جب کہ ضعیف سنن الترمذی میں یہ حدیث موجود ہے، اور شیخ البانی نے إتحاف الخیرۃ المہرۃ ۸/ ۱۷۴) کا حوالہ دیا ہے ،واضح رہے کہ یہ حدیث عارضۃ الأحوذی شرح صحیح الترمذی لابن العربی المالکی کے مطبوعہ نسخے بتحقیق جمال مرعشلی میں موجو د ہے، اور حاشیہ میں یہ نوٹ ہے کہ مزی نے اس حدیث کو تحفۃ الأشراف میں نہیں ذکر کیا ہے، اور یہ ترمذی کے دوسرے نسخوں میں موجود نہیں ہے ۱۲/۱۴۱)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
61-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الصَّفِّ
۶۱-باب: سورہ الصف سے بعض آیات کی تفسیر​


3309- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلامٍ قَالَ: قَعَدْنَا نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَتَذَاكَرْنَا فَقُلْنَا: لَوْ نَعْلَمُ أَيَّ الأَعْمَالِ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ لَعَمِلْنَاهُ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَالاَ تَفْعَلُونَ} قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ: فَقَرَأَهَا عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: فَقَرَأَهَا عَلَيْنَا ابْنُ سَلامٍ قَالَ يَحْيَى: فَقَرَأَهَا عَلَيْنَا أَبُوسَلَمَةَ قَالَ ابْنُ كَثِيرٍ: فَقَرَأَهَا عَلَيْنَا الأَوْزَاعِيُّ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَقَرَأَهَا عَلَيْنَا ابْنُ كَثِيرٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ خُولِفَ مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ فِي إِسْنَادِ هَذَا الْحَدِيثِ عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، وَرَوَى ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلامٍ أَوْ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَلامٍ وَرَوَى الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الأَوْزَاعِيِّ نَحْوَ رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ كَثِيرٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۳۴۰) (صحیح الإسناد)
۳۳۰۹- عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم چند صحابہ بیٹھے ہوئے تھے ، آپس میں باتیں کرنے لگے، ہم نے کہا: اگر ہم جان پاتے کہ کونسا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے تو ہم اسی پر عمل کرتے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لاَ تَفْعَلُونَ} ۱؎ عبداللہ بن سلام کہتے ہیں: یہ سورہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے پڑھ کر سنائی ، ابوسلمہ کہتے ہیں: یہ سورہ ہمارے سامنے ابن سلام نے پڑھی، اور یحییٰ کہتے ہیں: یہ سورہ ہمارے سامنے ابوسلمہ نے پڑھ کر سنائی، اور محمد بن کثیر کہتے ہیں: ہمارے سامنے اسے اوزاعی نے پڑھ کرسنایا، اور عبداللہ کہتے ہیں: یہ سورہ ہمیں ابن کثیر نے پڑھ کر سنائی ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث کی اوزاعی سے روایت کرنے میں محمد بن کثیر کی مخالفت کی گئی ہے۔(اس کی تفصیل یہ ہے)۲- ابن مبارک نے اوزاعی سے روایت کی، اوزاعی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، یحییٰ نے ہلال بن ابومیمونہ سے، ہلال نے عطاء بن یسارسے، اورعطاء نے عبداللہ بن سلام سے، یا ابوسلمہ کے واسطہ سے عبداللہ بن سلام سے، ۳-ولید بن مسلم نے اوزاعی سے یہ حدیث اسی طرح روایت کی ہے جس طرح محمد بن کثیر نے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : زمین وآسمان کی ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے، اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو(الصف:۱-۳)یعنی: یہ تمناکیوں کرتے ہو کہ اے کاش ہم جان لیتے کہ کونسا عمل اللہ کو زیادہ پسندیدہ ہے ، تو ہم اس کو انجام دیتے، جبکہ تم ایسانہیں کرتے (یعنی: اکثرایسا نہیں کرتے)توگویا تم وہ بات کہتے ہوجوکرتے نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
62-بَاب وَمِنْ الْجُمُعَةِ
۶۲-باب: سورہ جمعہ سے بعض آیات کی تفسیر​


3310- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ الدِّيْلِيُّ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حِينَ أُنْزِلَتْ سُورَةُ الْجُمُعَةِ فَتَلاهَا؛ فَلَمَّا بَلَغَ {وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ} قَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَارَسُولَ اللَّهِ! مَنْ هَؤُلاَئِ الَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِنَا؟ فَلَمْ يُكَلِّمْهُ قَالَ: وَسَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ فِينَا قَالَ: فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى سَلْمَانَ يَدَهُ فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ كَانَ الإِيمَانُ بِالثُّرَيَّا لَتَنَاوَلَهُ رِجَالٌ مِنْ هَؤُلاَئِ ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ مَدَنِيٌّ، وَثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ شَامِيٌّ، وَأَبُو الْغَيْثِ اسْمُهُ سَالِمٌ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ مَدَنِيٌّ ثِقَةٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ هُوَ وَالِدُ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: خ/تفسیر الجمعۃ ۱ (۴۸۹۷)، م/فضائل الصحابۃ ۵۹ (۲۵۴۶/۲۳۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۱۷) (صحیح)
۳۳۱۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : جس وقت سورہ جمعہ نازل ہوئی اس وقت ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے، آپ نے اس کی تلاوت کی، جب آپ {وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ} ۱؎ پر پہنچے تو ایک شخص نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں جو اب تک ہم سے نہیں ملے ہیں؟ (آپ خاموش رہے) اس سے کوئی بات نہ کی، سلمان (فارسی) رضی اللہ عنہ ہمارے درمیان موجود تھے، آپ نے اپنا ہاتھ سلمان پر رکھ کر فرمایا:'' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر ایمان ثریا پر ہوتا تو بھی (اتنی بلندی اور دوری پر پہنچ کر) ان کی قوم کے لوگ اسے حاصل کرکے ہی رہتے ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، اور عبداللہ بن جعفر ،علی بن المدینی کے والدہیں، یحییٰ بن معین نے انہیں ضعیف کہا ہے،۲- ثور بن زید مدنی ہیں، اور ثور بن یزید شامی ہیں، اور ابوالغیث کا نام سالم ہے ، یہ عبداللہ بن مطیع کے آزاد کردہ غلام ہیں، مدنی اورثقہ ہیں،۳- یہ حدیث ابوہریرہ کے واسطے سے نبیﷺ سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے۔(اوراسی بنیادپرصحیح ہے)
وضاحت ۱؎ : اوراللہ نے اس نبی کو ان میں سے ان دوسرے لوگوں کے لیے بھی بھیجا ہے جواب تک ان سے ملے نہیں ہیں(الجمعۃ: ۳)
وضاحت ۲؎ : سورہ ''محمد''آیت نمبر۳۸{وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ }(محمد:38)کی تفسیرمیں بھی یہی حدیث (رقم ۳۲۶۰)مؤلف لائے ہیں، حافظ ابن حجرکہتے ہیں:''دونوں آیات کے نزول پر آپﷺنے ایسافرمایاہو، ایسابالکل ممکن ہے'' ۔


3311- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: بَيْنَمَا النَّبِيُّ ﷺ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَائِمًا إِذْ قَدِمَتْ عِيرُ الْمَدِينَةِ فَابْتَدَرَهَا أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَتَّى لَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ إِلا اثْنَا عَشَرَ رَجُلا فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَنَزَلَتْ الآيَةَ: {وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا}.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
3311/م-حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِنَحْوِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجمعۃ ۳۸ (۹۳۶)، والبیوع ۶ (۲۰۵۸)، و۱۱ (۲۰۶۴)، وتفسیر الجمعۃ ۱ (۴۸۹۹)، م/الجمعۃ ۱۱ (۸۶۳) (تحفۃ الأشراف: ۲۲۹۲، و۲۲۳۹) (صحیح)
۳۳۱۱- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس دوران کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن کھڑے خطبہ دے رہے تھے، مدینہ کا (تجارتی) قافلہ آگیا، (یہ سن کر) صحابہ بھی (خطبہ چھوڑکر) ادھر ہی لپک لیے، صرف بارہ آدمی باقی رہ گئے جن میں ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما بھی تھے، اسی موقع پر آیت {وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا} ۱؎ نازل ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۳۳۱۱/م- اس سند سے جابرنے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اور جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشہ نظر آجائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑدیتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کے پاس جو ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے(الجمعۃ:۱۱)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
63-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْمُنَافِقِينَ
۶۳-باب: سورہ منافقین سے بعض آیات کی تفسیر​


3312- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَمِّي؛ فَسَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ ابْنَ سَلُولٍ يَقُولُ لأَصْحَابِهِ: لا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا وَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لِيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْهَا الأَذَلَّ؛ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمِّي؛ فَذَكَرَ ذَلِكَ عَمِّي للنَّبِيِّ ﷺ فَدَعَانِي النَّبِيُّ ﷺ فَحَدَّثْتُهُ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ وَأَصْحَابِهِ؛ فَحَلَفُوا مَا قَالُوا فَكَذَّبَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَصَدَّقَهُ فَأَصَابَنِي شَيْئٌ لَمْ يُصِبْنِي قَطُّ مِثْلُهُ؛ فَجَلَسْتُ فِي الْبَيْتِ فَقَالَ: عَمِّي مَا أَرَدْتَ إِلا أَنْ كَذَّبَكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَمَقَتَكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ} فَبَعَثَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَرَأَهَا، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ صَدَّقَكَ .
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/تفسیر المنافقین ۱ (۴۹۰۰)، و ۲(۴۹۰۱)، و۳ (۴۹۰۳)، و۴ (۴۹۰۴)، م/المنافقین ح ۱ (۲۷۷۲) (تحفۃ الأشراف: ۳۶۷۸) (صحیح)
۳۳۱۲- زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے چچا کے ساتھ تھا ، میں نے عبداللہ بن أبی بن سلول کواپنے ساتھیوں سے کہتے ہوئے سنا کہ ان لوگوں پر خرچ نہ کرو، جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہیں، یہاں تک کہ وہ تتربتر ہوجائیں، اگر ہم اب لوٹ کر مدینہ جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا، میں نے یہ بات اپنے چچا کو بتائی تو میرے چچا نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کردیا ،آپ نے مجھے بلاکر پوچھا تو میں نے آپ کو (بھی) بتادیا، آپ ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلاکر پوچھا، توانہوں نے قسم کھالی کہ ہم نے نہیں کہی ہے، رسول اللہﷺ نے مجھے جھوٹا اور اسے سچا تسلیم کرلیا، اس کا مجھے اتنا رنج وملال ہواکہ اس جیسا صدمہ، اوررنج وملال مجھے کبھی نہ ہواتھا، میں (مارے شرم وندامت اور صدمہ کے) اپنے گھر میں ہی بیٹھ رہا، میرے چچا نے کہا: تو نے یہی چاہا تھاکہ رسول اللہ ﷺ تمہیں جھٹلا دیں اور تجھ پر خفا ہوں؟ اس پراللہ تعالیٰ نے {إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ } والی سورت نازل فرمائی، تو آپ نے مجھے بلابھیجا (جب میں آیا تو) آپ نے یہ سورہ پڑھ کر سنائی، پھر فرمایا:'' اللہ نے تجھے سچا قرار دے دیا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3313- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِي سَعْدٍ الأَزْدِيِّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَكَانَ مَعَنَا أُنَاسٌ مِنْ الأَعْرَابِ؛ فَكُنَّا نَبْتَدِرُ الْمَائَ وَكَانَ الأَعْرَابُ يَسْبِقُونَّا إِلَيْهِ؛ فَسَبَقَ أَعْرَابِيٌّ أَصْحَابَهُ؛ فَيَسْبَقُ الأَعْرَابِيُّ فَيَمْلأُ الْحَوْضَ وَيَجْعَلُ حَوْلَهُ حِجَارَةً، وَيَجْعَلُ النِّطْعَ عَلَيْهِ حَتَّى يَجِيئَ أَصْحَابُهُ قَالَ: فَأَتَى رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ أَعْرَابِيًّا؛ فَأَرْخَى زِمَامَ نَاقَتِهِ لِتَشْرَبَ؛ فَأَبَى أَنْ يَدَعَهُ؛ فَانْتَزَعَ قِبَاضَ الْمَائِ؛ فَرَفَعَ الأَعْرَابِيُّ خَشَبَتَهُ؛ فَضَرَبَ بِهَا رَأْسَ الأَنْصَارِيِّ؛ فَشَجَّهُ فَأَتَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ رَأْسَ الْمُنَافِقِينَ؛ فَأَخْبَرَهُ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِهِ؛ فَغَضِبَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، ثُمَّ قَالَ: لا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِهِ يَعْنِي الأَعْرَابَ، وَكَانُوا يَحْضُرُونَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عِنْدَ الطَّعَامِ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِذَا انْفَضُّوا مِنْ عِنْدِ مُحَمَّدٍ؛ فَأْتُوا مُحَمَّدًا بِالطَّعَامِ؛ فَلْيَأْكُلْ هُوَ وَمَنْ عِنْدَهُ ثُمَّ قَالَ لأَصْحَابِهِ: لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْهَا الأَذَلَّ قَالَ زَيْدٌ: وَأَنَا رِدْفُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَسَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ فَأَخْبَرْتُ عَمِّي فَانْطَلَقَ؛ فَأَخْبَرَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ؛ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَحَلَفَ وَجَحَدَ قَالَ فَصَدَّقَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَكَذَّبَنِي قَالَ: فَجَاءَ عَمِّي إِلَيَّ فَقَالَ: مَا أَرَدْتَ إِلا أَنْ مَقَتَكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَكَذَّبَكَ وَالْمُسْلِمُونَ قَالَ: فَوَقَعَ عَلَيَّ مِنْ الْهَمِّ مَا لَمْ يَقَعْ عَلَى أَحَدٍ قَالَ: فَبَيْنَمَا أَنَا أَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي سَفَرٍ قَدْ خَفَقْتُ بِرَأْسِي مِنْ الْهَمِّ إِذْ أَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَعَرَكَ أُذُنِي وَضَحِكَ فِي وَجْهِي فَمَا كَانَ يَسُرُّنِي أَنَّ لِي بِهَا الْخُلْدَ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ لَحِقَنِي فَقَالَ: مَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قُلْتُ مَا قَالَ لِي شَيْئًا إِلا أَنَّهُ عَرَكَ أُذُنِي وَضَحِكَ فِي وَجْهِي فَقَالَ: أَبْشِرْ، ثُمَّ لَحِقَنِي عُمَرُ فَقُلْتُ لَهُ: مِثْلَ قَوْلِي لأَبِي بَكْرٍ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سُورَةَ الْمُنَافِقِينَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وانظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۳۶۹۱) (صحیح الإسناد)
۳۳۱۳- زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ (غزوہ بنی مصطلق میں) جہاد کے لیے نکلے، ہمارے ساتھ کچھ اعرابی بھی تھے (جب کہیں پانی نظرآتا)تو ہم ایک دوسرے سے پہلے پہنچ کر حاصل کرلینے کی کوشش کرتے، اعرابی پانی تک پہنچنے میں ہم سے آگے بڑھ جاتے (اس وقت ایسا ہوا) ایک دیہاتی اپنے ساتھیوں سے آگے نکل گیا، جب آگے نکلتا تو حوض کو بھرتا اور اس کے ارد گرد پتھر رکھتا، اس پر چمڑے کی چٹائی ڈال دیتا، پھر اس کے ساتھی آتے ، اسی موقع پر انصاریوں میں سے ایک اعرابی کے پاس آیا، اور اپنی اونٹنی کی مہار ڈھیلی کردی تاکہ وہ پانی پی لے، مگر اس اعرابی شخص نے پانی پینے نہ دیا، انصاری نے باندھ توڑ دیا اعرابی نے لٹھ اٹھائی اور انصاری کے سرپر مارکراس کا سرتوڑ دیا، وہ انصاری منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی کے پاس آیا، وہ اس کے (ہم خیال ) ساتھیوں میں سے تھا، اس نے اسے واقعہ کی اطلاع دی، عبداللہ بن ابی یہ خبر سن کر بھڑک اٹھا ، غصہ میں آگیا، کہا : ان لوگوں پر تم لوگ خرچ نہ کرو جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہیں جب تک کہ وہ (یعنی اعرابی) ہٹ نہ جائیں جب کہ ان کا معمول یہ تھا کہ کھانے کے وقت وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس اکٹھا ااور موجود ہوتے تھے، عبداللہ بن ابی نے کہا: جب وہ لوگ محمدکے پاس سے چلے جائیں تو محمدکے پاس کھانا لے کر آؤ تاکہ محمد (ﷺ) اور ان کے ساتھ (خاص) موجود لوگ کھالیں، پھر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اگر ہم مدینہ (بسلامت) پہنچ گئے تو تم میں جو عزت والے ہیں انہیں ذلت والوں(اعرابیوں) کو مدینہ سے ضرور نکال بھگادینا چاہیے، زید کہتے ہیں: میں سواری پر رسول اللہ ﷺ کے پیچھے بیٹھا ہواتھا، میں نے عبداللہ بن ابی کی بات سن لی، تو اپنے چچا کو بتادی ، چچا گئے، انہوں نے جاکر رسول اللہ ﷺ کو خبردیدی، رسول اللہ ﷺ نے کسی کو بھیج کر اسے بلوایا، اس نے آکر قسمیں کھائیں اور انکار کیا (کہ میں نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں) تو رسول اللہ ﷺ نے اسے سچا مان لیااور مجھے جھوٹا ٹھہرادیا، پھر میرے چچا میرے پاس آئے ، بولے (بیٹے) تو نے کیا سوچاتھا کہ رسول اللہ ﷺ تجھ پر غصہ ہوں اور اور رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں نے تجھے جھوٹا ٹھہرا دیا، (یہ سن کر) مجھے اتناغم اور صدمہ ہواکہ شاید اتنا غم اور صدمہ کسی اور کو نہ ہوا ہوگا، میں غم سے اپنا سر جھکا ئے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں چلا ہی جارہا تھاکہ یکایک آپ میرے قریب آئے میرے کان کو جھٹکا دیا اور میرے سامنے مسکرادیئے مجھے اس سے اتنی خوشی ہوئی کہ اس کے بدلے میں اگرمجھے دنیا میں جنت مل جاتی توبھی اتنی خوشی نہ ہوتی، پھر مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ ملے، مجھ سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ نے تم سے کیا کہا؟ میں نے کہا: مجھ سے آپ نے کچھ نہیں کہا: البتہ میرے کان پکڑ کر آپ نے ہلا ئے اور مجھے دیکھ کرہنسے، ابوبکر نے کہا: خوش ہوجاؤ، پھر مجھے عمر رضی اللہ عنہ ملے، میں نے انہیں بھی وہی بات بتائی، جو میں نے ابوبکر سے کہی تھی، پھر صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے (صلاۃ فجر میں) سورہ منافقین پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3314- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ قَال: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ كَعْبٍ الْقُرَظِيَّ مُنْذُ أَرْبَعِينَ سَنَةً يُحَدِّثُ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ قَالَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ: {لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْهَا الأَذَلَّ} قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ؛ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَحَلَفَ مَا قَالَهُ فَلاَمَنِي قَوْمِي وَقَالُوا: مَاأَرَدْتَ إِلاَّ هَذِهِ؛ فَأَتَيْتُ الْبَيْتَ وَنِمْتُ كَئِيبًا حَزِينًا؛ فَأَتَانِي النَّبِيُّ ﷺ أَوْ أَتَيْتُهُ فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ صَدَّقَكَ قَالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةَ: {هُمْ الَّذِينَ يَقُولُونَ لاَ تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا}. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۳۳۱۲ (تحفۃ الأشراف: ۳۶۸۳) (صحیح)
۳۳۱۴- حکم بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں محمد بن کعب قرظی کو چالیس سال سے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے سن رہاہوں کہ غزوہ تبوک میں عبداللہ بن أبی نے کہا: اگر ہم مدینہ لوٹے تو عزت والے لوگ ذلت والوں کو مدینہ سے ضرور نکال باہرکریں گے، وہ کہتے ہیں: میں یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا ، اور آپ کو یہ بات بتادی (جب اس سے باز پرس ہوئی) تو وہ قسم کھاگیا کہ اس نے تو ایسی کوئی بات کہی ہی نہیں ہے، میری قوم نے مجھے ملامت کی ، لوگوں نے کہا: تجھے اس طرح کی (جھوٹ) بات کہنے سے کیا ملا؟ میں گھر آگیا، رنج وغم میں ڈوبا ہوا لیٹ گیا، پھر نبی اکرم ﷺ میرے پاس آئے یا میں آپ کے پاس پہنچا (راوی کو شک ہوگیا ہے کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے یہ کہا یا وہ کہا) آپ نے فرمایا:'' اللہ نے تجھے سچا ٹھہرایا ہے یہ آیت نازل ہوئی ہے: {هُمْ الَّذِينَ يَقُولُونَ لاَ تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا } ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : وہی لوگ تھے جو کہتے تھے ان لوگوں پر خرچ نہ کرو، جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہیں یہاں تک کہ وہ منتشر ہوجائیں (المنافقون:۷)۔


3315- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَقُولُ: كُنَّا فِي غَزَاةٍ قَالَ سُفْيَانُ: يَرَوْنَ أَنَّهَا غَزْوَةُ بَنِي الْمُصْطَلِقِ فَكَسَعَ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ رَجُلا مِنَ الأَنْصَارِ فَقَالَ الْمُهَاجِرِيُّ: يَالِلْمُهَاجِرِينَ، وَقَالَ الأَنْصَارِيُّ: يَالِلأَنْصَارِ؛ فَسَمِعَ ذَلِكَ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ: "مَا بَالُ دَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ" قَالُوا: رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ كَسَعَ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "دَعُوهَا فَإِنَّهَا مُنْتِنَةٌ" فَسَمِعَ ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولٍ فَقَالَ: أَوَقَدْ فَعَلُوهَا وَاللَّهِ {لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْهَا الأَذَلَّ} فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "دَعْهُ لا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ" وَقَالَ غَيْرُ عَمْرٍو: فَقَالَ لَهُ: ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَاللَّهِ لاَ تَنْقَلِبُ حَتَّى تُقِرَّ أَنَّكَ الذَّلِيلُ وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْعَزِيزُ فَفَعَلَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/تفسیر المنافقین ۶ (۴۹۰۷)، م/البر والصلۃ ۱۶ (۲۵۸۴/۶۳) (تحفۃ الأشراف: ۲۵۲۵) (صحیح)
۳۳۱۵- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : ہم ایک غزوہ میں تھے،(سفیان کہتے ہیں : لوگوں کا خیال یہ تھا کہ وہ غزوہ بنی مصطلق تھا)، مہاجرین میں سے ایک شخص نے ایک انصاری شخص کے چوتڑ پر لات ماردی، مہاجر نے پکارا اے مہاجرین، انصاری نے کہا: اے انصاریو! یہ (آواز) نبی اکرم ﷺ نے سن لی ، فرمایا:'' جاہلیت کی کیسی پکار ہورہی ہے؟ لوگوں نے بتایا: ایک مہاجر شخص نے ایک انصاری شخص کو لات ماردی ہے، آپ نے فرمایا:'' یہ (پکار) چھوڑدو، یہ قبیح وناپسندیدہ پکار ہے، یہ بات عبداللہ بن ابی بن سلول نے سنی تو اس نے کہا: واقعی انہوں نے ایسا کیا ہے؟ قسم اللہ کی مدینہ پہنچ کر ہم میں سے عزت دار لوگ ذلیل و بے وقعت لوگوں کو نکال دیں گے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ! مجھے اجازت دیجئے میں اس منافق کی گردن اڑادوں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جانے دو (گردن نہ مارو) لوگ یہ باتیں نہ کرنے لگیں کہ محمد تو اپنے ساتھیوں کو قتل کردیتا ہے، عمر وبن دینارکے علاوہ دوسرے راویوں نے کہا: عبداللہ بن ابی سے اس کے بیٹے عبداللہ ابن عبداللہ نے (تو یہاں تک) کہہ دیا کہ تم پلٹ نہیں سکتے جب تک یہ اقرار نہ کرلو کہ تم ہی ذلیل ہو اور رسول اللہ ﷺ ہی باعزت ہیں تو اس نے اقرار کرلیا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3316- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا أَبُو جَنَابٍ الْكَلْبِيُّ، عَنِ الضَّحَّاكِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: مَنْ كَانَ لَهُ مَالٌ يُبَلِّغُهُ حَجَّ بَيْتِ رَبِّهِ أَوْ تَجِبُ عَلَيْهِ فِيهِ الزَّكَاةُ؛ فَلَمْ يَفْعَلْ يَسْأَلَ الرَّجْعَةَ عِنْدَ الْمَوْتِ فَقَالَ رَجُلٌ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ! اتَّقِ اللَّهَ إِنَّمَا يَسْأَلُ الرَّجْعَةَ الْكُفَّارُ قَالَ: سَأَتْلُو عَلَيْكَ بِذَلِكَ قُرْآنًا {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَتُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلاَ أَوْلاَدُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمْ الْخَاسِرُونَ وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمْ الْمَوْتُ - إِلَى قَوْلِهِ - وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ} قَالَ: فَمَا يُوجِبُ الزَّكَاةَ قَالَ: إِذَا بَلَغَ الْمَالُ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ؛ فَصَاعِدًا قَالَ: فَمَا يُوجِبُ الْحَجَّ قَالَ: الزَّادُ وَالْبَعِيرُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۶۸۹) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں ضحاک بن مزاحم کثیر الارسال ہیں، اور ابوجناب کلبی ضعیف راوی ہیں)


3316/م-حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ الثَّوْرِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي حَيَّةَ، عَنْ الضَّحَّاكِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِنَحْوِهِ.
وَ قَالَ: هَكَذَا رَوَى سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي جَنَابٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلَهُ: وَلَمْ يَرْفَعُوهُ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَأَبُوجَنَابٍ اسْمُهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي حَيَّةَ، وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (ضعیف)
۳۳۱۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جس کے پاس اتنا مال ہوکہ وہ حج بیت اللہ کو جاسکے یا اس پر اس میں زکاۃ واجب ہوتی ہو اور وہ حج کو نہ جائے ، زکاۃ ادانہ کرے تو وہ مرتے وقت اللہ سے درخواست کرے گا کہ اسے وہ دنیا میں دوبارہ لوٹا دے، ایک شخص نے کہا: ابن عباس! اللہ سے ڈرو، دوبارہ لوٹادیئے جانے کی آرزو تو کفار کریں گے (نہ کہ مسلمین) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں تمہیں اس کے متعلق قرآن پڑھ کر سناتاہوں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلاَ أَوْلاَدُكُمْ } سے {وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ} ۱؎ تک ۔
اس نے پوچھا: کتنے مال میں زکاۃ واجب ہوجاتی ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جب مال دوسو درہم ۱؎ ہوجائے یا زیادہ، پھر پوچھا: حج کب واجب ہوتاہے؟ کہا: جب توشہ اور سواری کا انتظام ہوجائے۔
۳۳۱۶/م- اس سندسے ضحاک نے ابن عباس کے واسطہ سے، نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی، ۲-ایسے ہی روایت کی سفیان بن عیینہ اوردوسروں نے ، یہ حدیث ابو جناب سے، ابوجناب نے ضحاک سے ، اورضحاک نے ابن عباس سے ان کے اپنے قول سے اور انہوں نے اسے مرفوعاً روایت نہیں کیا ہے،، اور یہ عبدالرزاق کی روایت کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہے، اور ابوجناب کانام یحییٰ بن ابوحیہ ہے، اور وہ حدیث بیان کرنے میں قوی نہیں ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اے لوگوجو ایمان لائے ہو! تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں، اور جس نے ایسا کیا وہی لوگ ہیں خسارہ اٹھانے والے ہوں گے، اور جو روزی ہم نے تمہیں دی ہے اس میں سے خرچ کرو اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آئے اور وہ کہنے لگے کہ اے میرے رب! کیوں نہ تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دے لیتا، اورنیک لوگوں میں سے ہوجاتااورجب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہرگزمہلت نہیں دیتااور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو سب معلوم ہے(المنافقین :۹-۱۱)۔
وضاحت ۲؎ : یعنی ۵۹۵گرام چاندی ہوجائے تو اس پرزکاۃ ہے ، ۱۲فیصدزکاۃ ہے۔
 
Top