99-بَاب فِي فَضْلِ التَّوْبَةِ وَالاسْتِغْفَارِ وَمَا ذُكِرَ مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ لِعِبَادِهِ
۹۹- باب: توبہ واستغفار کی فضیلت اور بندوں پر اللہ کی رحمتوں کابیان
3535- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ قَالَ: أَتَيْتُ صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ الْمُرَادِيَّ أَسْأَلُهُ عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكَ يَا زِرُّ فَقُلْتُ: ابْتِغَائَ الْعِلْمِ فَقَالَ: إِنَّ الْمَلاَئِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِمَا يَطْلُبُ فَقُلْتُ إِنَّهُ حَكَّ فِي صَدْرِي الْمَسْحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ بَعْدَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ، وَكُنْتَ امْرَأً مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ فَجِئْتُ أَسْأَلُكَ هَلْ سَمِعْتَهُ يَذْكُرُ فِي ذَلِكَ شَيْئًا قَالَ: نَعَمْ كَانَ يَأْمُرُنَا إِذَا كُنَّا سَفَرًا أَوْ مُسَافِرِينَ أَنْ لاَ نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ إِلاَّ مِنْ جَنَابَةٍ لَكِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ فَقُلْتُ: هَلْ سَمِعْتَهُ يَذْكُرُ فِي الْهَوَى شَيْئًا قَالَ: نَعَمْ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ؛ فَبَيْنَا نَحْنُ عِنْدَهُ إِذْ نَادَاهُ أَعْرَابِيٌّ بِصَوْتٍ لَهُ جَهْوَرِيٍّ يَامُحَمَّدُ! فَأَجَابَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نَحْوًا مِنْ صَوْتِهِ هَاؤُمُ فَقُلْنَا لَهُ وَيْحَكَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ فَإِنَّكَ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ، وَقَدْ نُهِيتَ عَنْ هَذَا فَقَالَ: وَاللَّهِ لاَ أَغْضُضُ قَالَ الأَعْرَابِيُّ: الْمَرْئُ يُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَمَّا يَلْحَقْ بِهِمْ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "الْمَرْئُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" فَمَا زَالَ يُحَدِّثُنَا حَتَّى ذَكَرَ بَابًا مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ مَسِيرَةُ سَبْعِينَ عَامًا عَرْضُهُ، أَوْ يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي عَرْضِهِ أَرْبَعِينَ أَوْ سَبْعِينَ عَامًا قَالَ سُفْيَانُ: قِبَلَ الشَّامِ خَلَقَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ مَفْتُوحًا -يَعْنِي: لِلتَّوْبَةِ- لاَ يُغْلَقُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۹۶ (حسن)
۳۵۳۵- زربن حبیش کہتے ہیں: میں صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ کے پاس موزوں پر مسح کا مسئلہ پوچھنے آیا، انہوں نے (مجھ سے ) پوچھا اے زر کون سا جذبہ تمہیں لے کر یہاں آیا ہے، میں نے کہا: علم کی تلاش وطلب مجھے یہاں لے کر آئی ہے، انہوں نے کہا: فرشتے علم کی طلب وتلاش سے خوش ہو کر طالب علم کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں، میں نے ان سے کہا: پیشاب پاخانے سے فراغت کے بعد موزوں پر مسح کی بات میرے دل میں کھٹکی (کہ مسح کریں یا نہ کریں) میں خود بھی صحابی رسول ہوں، میں آپ سے یہ پوچھنے آیاہوں کہ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو اس سلسلے میں کوئی بات بیان کرتے ہوئے سنی ہے؟ کہا: ہاں (سنی ہے) جب ہم سفر پرہوتے یا سفر کرنے والے ہوتے تو آپﷺ ہمیں حکم دیتے تھے کہ ''ہم سفر کے دوران تین دن و رات اپنے موزے نہ نکالیں ، مگرغسل جنابت کے لیے، پاخانہ پیشاب کرکے اور سو کر اٹھنے پر موزے نہ نکالیں''، (پہنے رہیں، مسح کا وقت آئے ان پر مسح کرلیں) میں نے ان سے پوچھا : کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے انسان کی خواہش و تمنا کا ذکرکرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں ، ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کررہے تھے، اس دوران کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے ایک اعرابی نے آپ کو یا محمد!کہہ کر بلندآواز سے پکارا ، رسول اللہ ﷺ نے اسے اسی کی آواز میں جواب دیا، آجاؤ (میں یہاں ہوں) ہم نے اس سے کہا: تمہارا ناس ہو، اپنی آواز دھیمی کرلو، کیوں کہ تم نبی اکرم ﷺ کے پاس ہو، اورتمہیں اس سے منع کیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس بلند آواز سے بولا جائے، اعرابی نے کہا: (نہ ) قسم اللہ کی میں اپنی آواز پست نہیں کروں گا، اس نے
''الْمَرْئُ يُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَمَّا يَلْحَقْ بِهِمْ'' ۱؎ کہہ کر آپ سے اپنی انتہائی محبت و تعلق کا اظہار کیا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
''الْمَرْئُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ'' ( آپ نے فرمایا:'' جو شخص جس شخص سے زیادہ محبت کرتا ہے قیامت کے دن وہ اسی کے ساتھ رہے گا۔) وہ ہم سے (یعنی زر کہتے ہیں ہم سے صفوان بن عسال) حدیث بیان کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے پچھمی سمت میں ایک ایسے دروازے کا ذکر کیا جس کی چوڑا ئی ستر سال کی مسافت کے برابر ہے ( راوی کو شک ہوگیا ہے یہ کہا یا یہ کہا) کہ دروزے کی چوڑائی اتنی ہوگی ؛ سوار اس میں چلے گا تو چالیس سال یا ستر سال میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچے گا، سفیان (راوی) کہتے ہیں: یہ دروازہ شام کی جانب پڑے گا، جب اللہ نے آسمانوں اورزمین کو پیدا کیا ہے تبھی اللہ نے یہ دروازہ بھی بنایا ہے اور یہ دروازہ تو بہ کرنے والوں کے لیے کھلا ہواہے اور (توبہ کا یہ دروازہ) اس وقت تک بند نہ ہوگا جب تک کہ سورج اس دروازہ کی طرف سے (یعنی پچھم سے) طلوع نہ ہونے لگے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتاہے لیکن وہ ان کے درجے تک نہیں پہنچ پاتا۔
3536- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ قَالَ: أَتَيْتُ صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ الْمُرَادِيَّ فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكَ قُلْتُ ابْتِغَائَ الْعِلْمِ قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ الْمَلائِكَةَ تَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِمَا يَفْعَلُ قَالَ: قُلْتُ لَهُ: إِنَّهُ حَاكَ أَوْ حَكَّ فِي نَفْسِي شَيْئٌ مِنَ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ فَهَلْ حَفِظْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِيهِ شَيْئًا، قَالَ: نَعَمْ كُنَّا إِذَا كُنَّا فِي سَفَرٍ أَوْ مُسَافِرِينَ أُمِرْنَا أَنْ لاَ نَخْلَعَ خِفَافَنَا ثَلاَثًا إِلاَّ مِنْ جَنَابَةٍ، وَلَكِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ قَالَ: فَقُلْتُ: فَهَلْ حَفِظْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي الْهَوَى شَيْئًا، قَالَ: نَعَمْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ؛ فَنَادَاهُ رَجُلٌ كَانَ فِي آخِرِ الْقَوْمِ بِصَوْتٍ جَهْوَرِيٍّ أَعْرَابِيٌّ جِلْفٌ جَافٍ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! يَا مُحَمَّدُ! فَقَالَ لَهُ: الْقَوْمُ مَهْ إِنَّكَ قَدْ نُهِيتَ عَنْ هَذَا فَأَجَابَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نَحْوًا مِنْ صَوْتِهِ هَاؤُمُ فَقَالَ الرَّجُلُ: يُحِبُّ الْقَوْمَ، وَلَمَّا يَلْحَقْ بِهِمْ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "الْمَرْئُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ "، قَالَ زِرٌّ: فَمَا بَرِحَ يُحَدِّثُنِي حَتَّى حَدَّثَنِي أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ بِالْمَغْرِبِ بَابًا عَرْضُهُ مَسِيرَةُ سَبْعِينَ عَامًا لِلتَّوْبَةِ لاَ يُغْلَقُ مَا لَمْ تَطْلُعْ الشَّمْسُ مِنْ قِبَلِهِ وَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لاَيَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا} [الأنعام: 158] الآيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح الإسناد)
۳۵۳۶- زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ، انہوں نے پوچھا: تمہیں کیا چیز یہاں لے کر آئی ہے؟ میں نے کہا: علم حاصل کرنے آیاہوں، انہوں نے کہا: مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ'' فرشتے طالب علم کے کام (ومقصد) سے خوش ہوکر طالب علم کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں''، وہ کہتے ہیں : میں نے کہا: میرے جی میں یہ خیال گزرا یا میرے دل میں موزوں پر مسح کے بارے میں کچھ بات کھٹکی، تو کیااس بارے میں آپ کو رسول اللہ ﷺ کی کوئی بات یاد ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، ہم جب سفر میں ہوں (یا سفر کرنے والے ہوں) تو ہمیں حکم دیا گیا کہ ''ہم تین دن تک اپنے موزے پیروں سے نہ نکالیں ، سوائے جنابت کی صورت میں ، پاخانہ کرکے آئے ہوں یا پیشاب کرکے، یا سوکر اٹھے ہوں توموزے نہ نکالیں''۔
پھر میں نے ان سے پوچھا : کیا آپ کو محبت وچاہت کے سلسلے میں بھی رسول اللہ ﷺ کی کوئی بات یا دہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی سفر میں تھے تو آپ کو ایک آدمی نے جو لوگوں میں سب سے پیچھے چل رہاتھا اورگنوار، بے وقوف اور سخت مزاج تھا، بلند آواز سے پکارا، کہا: اے محمد! اے محمد ! لوگوں نے اس سے کہا: ٹھہر، ٹھہر، اس طرح پکارنے سے تمہیں روکا گیا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے اسے اسی کی طرح بھاری اور بلند آواز میں جواب دیا: بڑھ آ، بڑھ آ، آجا آجا ( وہ جب قریب آگیا) تو بولا: آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتاہے لیکن ان کے درجے تک نہیں پہنچاہوتاہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو انسان جس سے محبت کرتاہے اسی کے ساتھ اٹھا یاجائے گا''۔
زر کہتے ہیں: وہ مجھ سے حدیث بیان کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ'' اللہ نے مغرب میں توبہ کا ایک دروازہ بنایا ہے جس کی چوڑائی ستر سال کی مسافت ہے، وہ بند نہ کیا جائے گا یہاں تک کہ سورج ادھر سے نکلنے لگے ( یعنی قیامت تک) اور اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے :
{ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لاَ يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا} ۱؎ جس دن کہ تیرے رب کی بعض آیات کا ظہور ہوگا اس وقت کسی شخص کو اس کا ایمان کام نہ دے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : الأنعام:۱۵۸۔
3537- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ق/الزہد ۳۰ (۴۲۵۳) (تحفۃ الأشراف: ۶۶۷۴) (حسن)
3537/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (حسن)
۳۵۳۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا :'' اللہ اپنے بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتاہے جب تک کہ (موت کے وقت) اس کے گلے سے خرخر کی آواز نہ آنے لگے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
۳۵۳۷/م- ابوعامر عقدی نے عبدالرحمن سے اسی سند کے ساتھ، اسی طرح کی حدیث روایت کی۔
وضاحت ۱؎ : روح جسم سے نکلنے کے لیے اس کے گلے تک پہنچ نہ جائے۔
3538- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لَلَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ أَحَدِكُمْ مِنْ أَحَدِكُمْ بِضَالَّتِهِ إِذَا وَجَدَهَا". وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ وَأَنَسٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الزِّنَادِ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مَكْحُولٍ بِإِسْنَادٍ لَهُ عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا.
* تخريج: م/التوبۃ ۱ (۲۶۷۵/۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۸۸۰)، وحم (۲/۳۱۶، ۵۰۰) (صحیح)
۳۵۳۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس سے کہیں زیادہ خوش ہوتاہے جتنا کہ کوئی شخص اپنی کھوئی ہوئی چیز(خاص طورسے گم شدہ سواری کی اونٹنی پاکر خوش ہوتاہے)''۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، یعنی ابوالزناد کی روایت سے،۲- یہ حدیث مکحول سے بھی ان کی اپنی سند سے آئی ہے، انہوں نے ابوذرکے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے،۳- اس باب میں ابن مسعود، نعمان بن بشیر اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ بندوں کے ساتھ اللہ کے کمال رحمت کی دلیل ہے ، اسی کمالِ رحمت کے سبب اللہ بندوں کی گمراہی ، یا نافرمانی کی روش سے از حدناخوش ہوتاہے ، اور تو بہ کرلینے پر ازحدخوش ہوتاہے کہ اب بندہ میری رحمت کا مستحق ہوگیا۔
3539- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ قَاصِّ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ، عَنْ أَبِي صِرْمَةَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ أَنَّهُ قَالَ: حِينَ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَدْ كَتَمْتُ عَنْكُمْ شَيْئًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "لَوْلا أَنَّكُمْ تُذْنِبُونَ لَخَلَقَ اللَّهُ خَلْقًا يُذْنِبُونَ وَيَغْفِرُ لَهُمْ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج: م/التوبۃ ۲ (۲۷۴۸) (تحفۃ الأشراف: ۳۵۰۰) (صحیح)
3539/م- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الرِّجَالِ، عَنْ عُمَرَ مَوْلَى غُفْرَةَ، عَنْ مُحَمَدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۳۴۸۶) (صحیح)
۳۵۳۹- ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ان کی موت کا وقت قریب آگیا تو انہوں نے کہا: میں نے تم لوگوں سے ایک بات چھپا رکھی ہے، (میں اسے اس وقت ظاہر کردینا چاہتاہوں) میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سناہے: اگر تم لوگ گناہ نہ کرو تو اللہ ایک ایسی مخلوق پیدا کردے جو گناہ کرتی پھر اللہ انہیں بخشتا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- یہ حدیث محمد بن کعب سے آئی ہے اورانہوں نے اسے ابوایوب کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔
۳۵۳۹/م- محمد بن کعب قرظی سے اور محمد نے ابوایوب کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔
وضاحت ۱؎ : صحیح مسلم کی روایت میں ہے
''فیستغفرون فیغفرلہم''یعنی وہ گناہ کریں پھرتوبہ واستغفارکریں تو اللہ انہیں بخش دیتا ہے، اس سے استغفاراورتوبہ کی فضیلت بتانی ہے۔
3540- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِسْحَاقَ الْجَوْهَرِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ فَائِدٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَال: سَمِعْتُ بَكْرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيَّ يَقُولُ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: يَاابْنَ آدَمَ! إِنَّكَ مَادَعَوْتَنِي وَرَجَوْتَنِي غَفَرْتُ لَكَ عَلَى مَا كَانَ فِيكَ، وَلاَ أُبَالِي يَا ابْنَ آدَمَ! لَوْ بَلَغَتْ ذُنُوبُكَ عَنَانَ السَّمَائِ، ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِي غَفَرْتُ لَكَ، وَلاَ أُبَالِي يَا ابْنَ آدَمَ! إِنَّكَ لَوْ أَتَيْتَنِي بِقُرَابِ الأَرْضِ خَطَايَا، ثُمَّ لَقِيتَنِي لاَ تُشْرِكُ بِي شَيْئًا لأَتَيْتُكَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۵۳) (صحیح)
۳۵۴۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ''اللہ کہتا ہے : اے آدم کے بیٹے! جب تک تو مجھ سے دعائیں کرتارہے گا اور مجھ سے اپنی امیدیں اور توقعات وابستہ رکھے گا میں تجھے بخشتارہوں گا ، چاہے تیرے گناہ کسی بھی درجے پر پہنچے ہوئے ہوں، مجھے کسی بات کی پرواہ و ڈر نہیں ہے، اے آدم کے بیٹے! اگر تیرے گناہ آسمان کو چھونے لگیں پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرنے لگے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کسی بات کی پرواہ نہ ہوگی۔ اے آدم کے بیٹے ! اگرتو زمین برابر بھی گناہ کر بیٹھے اور پھرمجھ سے (مغفرت طلب کرنے کے لیے) ملے لیکن میرے ساتھ کسی طرح کا شرک نہ کیا ہو تو میں تیرے پاس اس کے برابر مغفرت لے کر آؤں گا (اور تجھے بخش دوں گا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے اور ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے مشرک کی بے انتہا خطرناکی اورتوبہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔