31-بَاب مَنَاقِبِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا
۳۱-باب : حسن وحسین رضی اللہ عنہما کے مناقب کابیان
3768- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۱۳۴)، وحم (۳/۳، ۲۲، ۶۴، ۸۰) (صحیح)
(سند میں یزید بن أبی زیاد ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ رقم ۷۹۶)
3768/م- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ يَزِيدَ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَابْنُ أَبِي نُعْمٍ هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي نُعْمٍ الْبَجَلِيُّ الْكُوفِيُّ، وَيُكْنَى أَبَا الْحَكَمِ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۷۶۸- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' حسن اور حسین اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں'' ۱؎ ۔
۳۷۶۸/م- ہم سے سفیان بن وکیع نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے جریر اور محمد بن فضیل نے یزید کے واسطہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، ابن ابی نعم کانام عبدالرحمن بن ابی نعم بجلی کوفی ہے اور ان کی کنیت ابوالحکم ہے۔
وضاحت ۱؎ : ''جنت میں جوانوں کے سردار''اس کے محدثین نے کئی معانی بیان کئے ہیں، (۱) جولوگ جوانی کی حالت میں وفات پائے (اورجنتی ہیں)ان کے سردار یہ دونوں ہوں گے ، اس بیان کے وقت وہ دونوں جوان تھے، شہادت جوانی کے بعد حالت کہولت میں ہوئی ، لیکن جوانی کی حالت میں وفات پانے والوں کے سردار بنادیئے گئے ہیں(۲) جنت میں سبھی لوگ جوانی کی عمر میں کردیئے جائیں گے ، اس لیے مرادیہ ہے کہ انبیاء اورخلفائے راشدین کے سوا دیگر لوگوں کے سردار یہ دونوں ہوں گے (۳) اس زمانہ کے (جب یہ دونوں جوان تھے) ان جوانوں کے یہ سردار ہیں جومرنے کے بعدجنت میں جائیں گے ، واللہ اعلم۔
3769- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْمُهَاجِرِ أَخْبَرَنِي مُسْلِمُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ النَّبَّالُ، أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ: طَرَقْتُ النَّبِيَّ ﷺ ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي بَعْضِ الْحَاجَةِ فَخَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ وَهُوَ مُشْتَمِلٌ عَلَى شَيْئٍ لاَأَدْرِي مَا هُوَ فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْ حَاجَتِي قُلْتُ: مَا هَذَا؟ الَّذِي أَنْتَ مُشْتَمِلٌ عَلَيْهِ، قَالَ: فَكَشَفَهُ فَإِذَا حَسَنٌ وَحُسَيْنٌ عَلَى وَرِكَيْهِ فَقَالَ: هَذَانِ ابْنَايَ وَابْنَا ابْنَتِيَ اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا؛ فَأَحِبَّهُمَا وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُمَا. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۶) (حسن)
۳۷۶۹- اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں ایک رات کسی ضرورت سے نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپ ﷺ نکلے تو آپ ایک ایسی چیز لپیٹے ہوئے تھے جسے میں نہیں جان پارہاتھا کہ کیا ہے، پھر جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوا تو میں نے عرض کیا: یہ کیا ہے جس کو آپ لپیٹے ہوئے ہیں؟ تو آپ نے اسے کھولا تو وہ حسن اورحسین رضی اللہ عنہما تھے، آپﷺ کے کولہے سے چپکے ہوئے تھے، پھر آپ نے فرمایا:'' یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں، اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتاہوں ، تو بھی ان سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو ان سے محبت کرے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
3770- حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نُعْمٍ أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ، عَنْ دَمِ الْبَعُوضِ يُصِيبُ الثَّوْبَ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: انْظُرُوا إِلَى هَذَا يَسْأَلُ عَنْ دَمِ الْبَعُوضِ، وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "إِنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ، وَمَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج: خ/الأدب ۱۸ (۵۹۹۴) (تحفۃ الأشراف: ۷۳۰۰) (صحیح)
۳۷۷۰- عبدالرحمن بن ابی نعم سے روایت ہے کہ اہل عراق کے ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مچھر کے خون کے بارے میں پوچھا جو کپڑے میں لگ جائے کہ ا س کا کیا حکم ہے؟ ۱؎ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اس شخص کو دیکھو یہ مچھر کے خون کا حکم پوچھ رہاہے! حالاں کہ انہیں لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے نواسہ کوقتل کیا ہے، اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : ''حسن اور حسین رضی اللہ عنہما یہ دونوں میری دنیا کے پھول ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث صحیح ہے،۲- اسے شعبہ اور مہدی بن میمون نے بھی محمد بن ابی یعقوب سے روایت کیا ہے،۳- ابوہریرہ کے واسطے سے بھی نبی اکرمﷺ سے اسی طرح کی روایت آئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ سائل نے حالت احرام میں مچھرمارنے کے فدیہ کے بارے میں سوال کیاتھا، ہوسکتاہے کہ مؤلف کی روایت میں کسی راوی نے مبہم روایت کردی ہو، سیاق وسباق کے لحاظ سے صحیح صورتِ حال مسئلہ وہی ہے جو صحیح بخاری میں ہے۔
3771- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، حَدَّثَنَا رَزِينٌ قَالَ: حَدَّثَتْنِي سَلْمَى قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ وَهِيَ تَبْكِي فَقُلْتُ: مَا يُبْكِيكِ قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ تَعْنِي فِي الْمَنَامِ، وَعَلَى رَأْسِهِ، وَلِحْيَتِهِ التُّرَابُ فَقُلْتُ: مَا لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟! قَالَ: شَهِدْتُ قَتْلَ الْحُسَيْنِ آنِفًا. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۷۹) (ضعیف)
(سندمیں سلمی البکریۃ ضعیف راوی ہیں)
۳۷۷۱- سلمیٰ کہتی ہیں کہ میں ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی ،وہ رورہی تھیں، میں نے پوچھا: آپ کیوں رورہی ہیں؟ وہ بولیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے (یعنی خواب میں ) آپ کے سراور داڑھی پر مٹی تھی، تو میں نے عرض کیا: آپ کو کیاہوا ہے؟ اللہ کے رسول ! تو آپ نے فرمایا:'' میں حسین کاقتل ابھی ابھی دیکھا ہے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
3772- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنِي يُوسُفُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَيُّ أَهْلِ بَيْتِكَ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: "الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ" وَكَانَ يَقُولُ لِفَاطِمَةَ: "ادْعِي لِيَ ابْنَيَّ" فَيَشُمُّهُمَا وَيَضُمُّهُمَا إِلَيْهِ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۶) (ضعیف)
(سندمیں یوسف بن ابراہیم ضعیف راوی ہیں)
۳۷۷۲- انس بن مالک کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ کے اہل بیت میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:'' حسن اور حسین رضی اللہ عنہما ، آپ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرماتے: میرے دونوں بیٹوں کو بلاؤ ، پھر آپ انہیں چومتے اور انہیں اپنے سینہ سے لگاتے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: انس کی روایت سے یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔
3773- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا الأَشْعَثُ هُوَ ابْنُ عَبْدِالْمَلِكِ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: صَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْمِنْبَرَ فَقَالَ: "إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ يُصْلِحُ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: يَعْنِي الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ.
* تخريج: خ/الصلح ۹ (۲۷۰۴)، والمناقب ۲۵ (۳۶۲۹)، وفضائل الصحابۃ ۲۲ (۳۷۴۶)، والفتن ۲۰ (۷۱۰۹)، د/السنۃ ۱۳ (۴۶۶۲)، ن/الجمعۃ ۲۷ (۱۴۱۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۵۸)، وحم (۵/۳۷، ۴۴، ۴۹، ۵۱) (صحیح)
۳۷۷۳- ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے منبر پر چڑھ کرفرمایا:'' میرا یہ بیٹا سردار ہے ،اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اور
''ابني هذا'' سے مراد حسن بن علی ہیں رضی اللہ عنہما ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی میرا یہ نواسہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کا سبب بنے گا، چنانچہ خلافت کے مسئلہ کو لے کر جب مسلمانوں کے دوگروہ ہوگئے، ایک گروہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور دوسرا حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، تو حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کرکے مسلمانوں کو قتل و خونریزی سے بچا کر اس امت پر بڑا احسان کیا اور یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے
(جزاہ اللہ عن المسلمین خیر الجزاء)۔
3774- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَال: سَمِعْتُ أَبِي بُرَيْدَةَ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَخْطُبُنَا إِذْ جَاءَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عَلَيْهِمَا قَمِيصَانِ أَحْمَرَانِ يَمْشِيَانِ، وَيَعْثُرَانِ؛ فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنَ الْمِنْبَرِ؛ فَحَمَلَهُمَا، وَوَضَعَهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: صَدَقَ اللَّهُ إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ، وَأَوْلاَدُكُمْ فِتْنَةٌ؛ فَنَظَرْتُ إِلَى هَذَيْنِ الصَّبِيَّيْنِ يَمْشِيَانِ، وَيَعْثُرَانِ فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قَطَعْتُ حَدِيثِي وَرَفَعْتُهُمَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۳۳ (۱۱۰۹)، ن/الجمعۃ ۳۰ (۱۴۱۴)، والعیدین ۲۷ (۱۵۸۶)، ق/اللباس ۲۰ (۳۶۰۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۸)، وحم (۵/۳۵۴) (صحیح)
۳۷۷۴- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک حسن اورحسین رضی اللہ عنہما دونوں سرخ قمیص پہنے ہوئے گرتے پڑتے چلے آرہے تھے ، آپ نے منبرسے اتر کر ان دونوں کو اٹھالیا، اور ان کو لاکر اپنے سامنے بٹھالیا ، پھر فرمایا:'' اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے
{إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلاَدُكُمْ فِتْنَةٌ } ۱؎ (تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزئش ہیں) میں نے ان دونوں کو گرتے پڑتے آتے ہوئے دیکھا تو صبر نہیں کرسکا، یہاں تک کہ اپنی بات روک کر میں نے انہیں اٹھالیا '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف حسین بن واقد کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : التغابن:۱۵۔
وضاحت ۲؎ : جہاں یہ بچوں کے ساتھ آپﷺ کے کمال شفقت کی دلیل ہے ، وہیں حسن اورحسین رضی اللہ عنہما کے آپ کے نزدیک مقام ومرتبہ کی بھی بات ہے۔
3775- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ رَاشِدٍ عَنْ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَامِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الأَسْبَاطِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَإِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۴۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۵۰)، وحم (۴/۱۷۲) (حسن)
(تراجع الالبانی ۳۷۵) الصحیحہ ۱۲۲۷)
۳۷۷۵- یعلی بن مرّہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں ۱؎ اللہ اس شخص سے محبت کرتاہے جو حسین سے محبت کرتاہے، حسین قبائل میں سے ایک قبیلہ ہیں '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں۱- یہ حدیث حسن ہے ہم اسے صرف عبداللہ بن عثمان بن خثیم کی روایت سے جانتے ہیں، ۲-اسے عبداللہ بن عثمان بن خثیم سے متعدد لوگوں نے روایت کیاہے۔
وضاحت ۱؎ : بقول قاضی عیاض: اللہ کے رسول ﷺمن جانب اللہ مطلع کردیئے گئے تھے کہ کچھ لوگ حسین سے بغض رکھیں گے اس لیے آپ نے پیشگی بیان کردیا کہ ''حسین سے محبت مجھ سے محبت ہے ، اورحسین سے دشمنی مجھ سے دشمنی ہے کیونکہ ہم دونوں ایک ہی ہیں۔
وضاحت ۲؎ : یعنی: حسین کی بہت ہی زیادہ اولادہوگی ، یعنی ان کی نسل خوب پھیلے گی کہ قبائل بن جائیں گے، سوایساہی ہوا۔
3776- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: لَمْ يَكُنْ مِنْهُمْ أَحَدٌ أَشْبَهَ بِرَسُولِ اللَّهِ مِنَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۲۲ (۳۷۵۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۹) (صحیح)
۳۷۷۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : لوگوں میں حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے زیادہ اللہ کے رسول کے مشابہ کوئی نہیں تھا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
3777- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَكَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ يُشْبِهُهُ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ الزُّبَيْرِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۸۲۶ (صحیح)
۳۷۷۷- ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اورحسن بن علی رضی اللہ عنہما ان سے مشابہت رکھتے تھے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوبکر صدیق ، ابن عباس اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
3778- حَدَّثَنَا خَلادُ بْنُ أَسْلَمَ أَبُو بَكْرٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ قَالَتْ: حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ زِيَادٍ فَجِيئَ بِرَأْسِ الْحُسَيْنِ؛ فَجَعَلَ يَقُولُ: بِقَضِيبٍ لَهُ فِي أَنْفِهِ، وَيَقُولُ: مَا رَأَيْتُ مِثْلَ هَذَا حُسْنًالِمَ يُذكَر قَالَ قُلْتُ: أَمَا إِنَّهُ كَانَ مِنْ أَشْبَهِهِمْ بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۹) (صحیح)
۳۷۷۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں عبیداللہ بن زیاد کے پاس تھا کہ حسین رضی اللہ عنہ کا سرلایا گیا تو وہ ان کی ناک میں اپنی چھڑی مارکرکہنے لگا میں نے اس جیسا خوبصورت کسی کو نہیں دیکھا کیوں ان کاذکرحسن سے کیا جاتاہے (جب کہ وہ حسین نہیں ہے) ۱؎ ۔ تو میں نے کہا: سنو یہ اہل بیت میں رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ تھے ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ جملہ اس نے حسین رضی اللہ عنہ کے حسن اور آپ کی خوبصورتی سے متعلق طعن و استہزاء کے طورپر کہاتھا، اسی لیے انس بن مالک نے اسے جواب دیا۔
وضاحت ۲؎ : اس سے پہلے حدیث رقم ۳۷۸۶ کے تحت زہری کی ایک روایت انس رضی اللہ عنہ سے گزری ہے ، اس میں ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے زیادہ اللہ کے رسول ﷺ سے مشابہ کوئی نہیں تھا اور اس روایت میں یہ ہے کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما سب سے زیادہ مشابہ تھے، بظاہر دونوں روایتوں میں تعارض پایا جارہاہے، علماء نے دونوں روایتوں میں تطبیق کی جو صورت نکالی ہے وہ یہ ہے : (۱) زہری کی روایت میں جو مذکورہے یہ اس وقت کی بات ہے جب حسن رضی اللہ عنہ باحیات تھے اور اس وقت وہ اپنے بھائی حسین بن علی کے بہ نسبت رسول اللہﷺ سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے اور انس رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں جو مذکور ہے یہ حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد کا واقعہ ہے ۔ (۲) یہ بھی کہاجاتاہے کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو جن لوگوں نے اللہ کے رسول سے مشابہ قراردیا ہے تو ان لوگوں نے حسن کو مستثنیٰ کرکے یہ بات کہی ہے۔ (۳) یہ بھی ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک کسی نہ کسی صورت میں اللہ کے رسول سے مشابہ تھے۔(دیکھئے اگلی روایت)
3779- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: الْحَسَنُ أَشْبَهُ بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَا بَيْنَ الصَّدْرِ إِلَى الرَّأْسِ، وَالْحُسَيْنُ أَشْبَهُ بِالنَّبِيِّ ﷺ مَا كَانَ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ.
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۰۲) (ضعیف)
(سندمیں ہانی بن ہانی مجہول الحال راوی ہیں)
۳۷۷۹- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : حسن سینہ سے سرتک کے حصہ میں رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ تھے، اور حسین اس حصہ میں جو اس سے نیچے کا ہے سب سے زیادہ نبی اکرم ﷺ سے مشابہ تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
3780- حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ: لَمَّا جِيئَ بِرَأْسِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ، وَأَصْحَابِهِ نُضِّدَتْ فِي الْمَسْجِدِ فِي الرَّحَبَةِ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِمْ وَهُمْ يَقُولُونَ: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ فَإِذَا حَيَّةٌ قَدْ جَاءَتْ تَخَلَّلُ الرُّئُوسَ حَتَّى دَخَلَتْ فِي مَنْخَرَيْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ زِيَادٍ؛ فَمَكَثَتْ هُنَيْهَةً، ثُمَّ خَرَجَتْ؛ فَذَهَبَتْ حَتَّى تَغَيَّبَتْ، ثُمَّ قَالُوا: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ؛ فَفَعَلَتْ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاثًا.
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۹۱۴۰) (صحیح الإسناد)
۳۷۸۰- عمارہ بن عمیر کہتے ہیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لائے گئے ۱؎ اورکوفہ کی ایک مسجد میں انہیں ترتیب سے رکھ دیاگیا اور میں وہاں پہنچا تو لوگ یہ کہہ رہے تھے: آیا آیا، تو کیا دیکھتاہوں کہ ایک سانپ سروں کے بیچ سے ہوکر آیا اور عبید اللہ بن زیاد کے دونوں نتھنوں میں داخل ہوگیا اور تھوڑی دیر اس میں رہا پھر نکل کر چلاگیا، یہاں تک کہ غائب ہوگیا، پھر لوگ کہنے لگے: آیا آیا اس طرح دو یا تین بار ہوا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے مناقب میں ا س حدیث کو لاکر امام ترمذی نواسہ رسول کے اس دشمن کا حشر بتانا چاہتے ہیں جس نے حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ گستاخی کرتے ہوئے اپنی چھڑی سے آپ کی ناک ،آنکھ اور منہ پر ماراتھا کہ اللہ نے نواسہ رسول کے اس دشمن کے ساتھ کیسا سلوک کیا اسے اہل دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔(عبداللہ بن زیادکو مختارثقفی کے فرستادہ ابراہیم بن اشترنے سن چھیاسٹھ میں مقام جازر میں جوموصل سے پانچ فرسخ پرہے قتل کیا تھا)۔
3781- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالاَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: سَأَلَتْنِي أُمِّي مَتَى عَهْدُكَ تَعْنِي بِالنَّبِيِّ ﷺ فَقُلْتُ: مَا لِي بِهِ عَهْدٌ مُنْذُ كَذَا وَكَذَا فَنَالَتْ مِنِّي فَقُلْتُ لَهَا: دَعِينِي آتِي النَّبِيَّ ﷺ فَأُصَلِّيَ مَعَهُ الْمَغْرِبَ وَأَسْأَلُهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لِي وَلَكِ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الْمَغْرِبَ؛ فَصَلَّى حَتَّى صَلَّى الْعِشَائَ، ثُمَّ انْفَتَلَ؛ فَتَبِعْتُهُ؛ فَسَمِعَ صَوْتِي فَقَالَ: مَنْ هَذَا حُذَيْفَةُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: مَا حَاجَتُكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ وَلأُمِّكَ قَالَ: إِنَّ هَذَا مَلَكٌ لَمْ يَنْزِلْ الأَرْضَ قَطُّ قَبْلَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيَّ، وَيُبَشِّرَنِي بِأَنَّ فَاطِمَةَ سَيِّدَةُ نِسَائِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَأَنَّ الْحَسَنَ، وَالْحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۳۳۲۳) (صحیح)
۳۷۸۱- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میری والدہ نے پوچھا: تو نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حال ہی میں کب گئے تھے؟ میں نے کہا: اتنے اتنے دنوں سے میں ان کے پاس نہیں جاسکاہوں، تو وہ مجھ پر خفاہوئیں، میں نے ان سے کہا: اب مجھے نبی اکرم ﷺ کے پاس جانے دیجئے میں آپ کے ساتھ صلاۃِ مغرب پڑھوں گا اور آپ سے میں اپنے اور آپ کے لیے دعا مغفرت کی درخواست کروں گا، چنانچہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ کے ساتھ مغرب پڑھی پھر آپ (نوافل) پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ نے عشاء پڑھی، پھر آپ لوٹے تو میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے پیچھے چلا، آپ نے میری آواز سنی تو فرمایا:'' کون ہو؟ حذیفہ؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، حذیفہ ہوں، آپ نے کہا: '' کیا بات ہے؟ بخشے اللہ تمہیں اور تمہاری ماں کو''(پھر)آپ نے فرمایا:'' یہ ایک فرشتہ تھا جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا، اس نے انپے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین رضی اللہ عنہما اہل جنت کے جوانوں (یعنی جو دنیا میں جوان تھے ان )کے سردار ہیں '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسرائیل کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : خصوصی فرشتہ کے ذریعہ مذکورہ خوشخبری ان تینوں ماں بیٹوں کی خصوصی فضیلت پردلالت کرتی ہے۔
3782- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَسَامَةَ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَائِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَبْصَرَ حَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۲۲ (۳۷۴۹)، م/فضائل الصحابۃ ۸ (۲۴۲۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۳) (صحیح)
۳۷۸۲- براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو فرمایا:'' اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتاہوں ،تو بھی ان دونوں سے محبت فرما''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
3783- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ قَال: سَمِعْتُ الْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍ يَقُولُ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَاضِعًا الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ عَلَى عَاتِقِهِ وَهُوَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الْفُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۷۸۳- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا،آپ اپنے کندھے پر حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بٹھائے ہوئے تھے اور فرمارہے تھے: ''اے اللہ ! میں اس سے محبت کرتاہوں تو بھی اس سے محبت فرما''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور یہ فضیل بن مرزوق کی(مذکورہ) روایت سے زیادہ صحیح ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جس روایت میں صرف حسن کو کندھے پر اٹھائے ہونے کاتذکرہ ہے وہ اس روایت سے زیادہ صحیح ہے جس میں ہے کہ حسن وحسین رضی اللہ عنہما دونوں کو اٹھائے ہوئے تھے، حالانکہ یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ یہ دوالگ الگ واقعے ہیں، اوردونوں کے لیے یہ بات کہے جانے میں کوئی تضاد بھی نہیں۔
3784- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ وَهْرَامٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَامِلَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَى عَاتِقِهِ فَقَالَ رَجُلٌ: نِعْمَ الْمَرْكَبُ رَكِبْتَ يَا غُلاَمُ! فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "وَنِعْمَ الرَّاكِبُ هُوَ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَزَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ قَدْ ضَعَّفَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۰۹۶) (ضعیف)
(سندمیں زمعہ بن صالح ضعیف راوی ہیں)
۳۷۸۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے تو ایک شخص نے کہا:بیٹے ! کیاہی اچھی سواری ہے جس پر تو سوار ہے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اور سوار بھی کیا ہی اچھا ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- زمعہ بن صالح کی بعض محدثین نے ان کے حفظ کے تعلق سے تضعیف کی ہے۔
3785- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ كَثِيرٍ النَّوَّائِ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، عَنِ الْمُسَيِّبِ بْنِ نَجَبَةَ قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "إِنَّ كُلَّ نَبِيٍّ أُعْطِيَ سَبْعَةَ نُجَبَائَ أَوْ نُقَبَائَ، وَأُعْطِيتُ أَنَا أَرْبَعَةَ عَشَرَ قُلْنَا: مَنْ هُمْ؟ قَالَ: أَنَا وَابْنَايَ، وَجَعْفَرُ، وَحَمْزَةُ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَمُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ، وَبِلاَلٌ، وَسَلْمَانُ، وَالْمِقْدَادُ، وَحُذَيْفَةُ، وَعَمَّارٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۸۰) (ضعیف)
(سندمیں مسیب بن نجبہ لین الحدیث اور کثیر النواء ضعیف اور ابوادریس المرہبی شیعی ہیں، اور حدیث میں تشیع واضح ہے)
۳۷۸۵- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' ہر نبی کو اللہ نے سات نقیب عنایت فرمائے ہیں، اور مجھے چودہ، ہم نے عرض کیا : وہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا:'' میں، میرے دونوں نواسے، جعفر، حمزہ، ابوبکر، عمر، مصعب بن عمیر، بلال، سلمان، مقداد ، حذیفہ ، عمار اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲- یہ حدیث علی رضی اللہ عنہ سے موقوفاً بھی آئی ہے۔