21- باب
۲۱-باب
3717- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي هَارُونَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: إِنَّا كُنَّا لَنَعْرِفُ الْمُنَافِقِينَ نَحْنُ مَعْشَرَ الأَنْصَارِ بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هَارُونَ، وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي أَبِي هَارُونَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۲۶۴) (ضعیف جداً)
(سندمیں ابوہارون العبدی متروک راوی ہے)
۳۷۱۷- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہم گروہِ انصار، منافقوں کو علی سے ان کے بغض رکھنے کی وجہ سے خوب پہچانتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف ابوہارون کی روایت سے جانتے ہیں اور شعبہ نے ابوہارون کے سلسلہ میں کلام کیاہے،۲- یہ حدیث اعمش سے بھی روایت کی گئی ہے، جسے انہوں نے ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابوسعید خدری سے روایت کی ہے۔
3717/أ- حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبِي نَصْرٍ، عَنِ الْمُسَاوِرِ الْحِمْيَرِيِّ، عَنْ أُمِّهِ قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَسَمِعْتُهَا تَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "لاَ يُحِبُّ عَلِيًّا مُنَافِقٌ، وَلاَ يَبْغَضُهُ مُؤْمِنٌ".
وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ أَبُونَصْرٍ الْوَرَّاقُ، وَرَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۲۶۴) (ضعیف)
(سندمیں مساور حمیری اور اس کی ماں دونوں مجہول راوی ہیں)
۳۷۱۷/أ- مساور حمیری اپنی ماں سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں: میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی تو میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : علی سے کوئی منافق دوستی نہیں کرتا اورنہ کوئی مومن ان سے بغض رکھتا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲- عبداللہ بن عبدالرحمن سے مراد ابونصر ورّاق ہیں اور ان سے سفیان ثوری نے روایت کی ہے،۳- اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت آئی ہے۔
3718- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى الْفَزَارِيُّ ابْنُ بِنْتِ السُّدِّيِّ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي رَبِيعَةَ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي بِحُبِّ أَرْبَعَةٍ وَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ يُحِبُّهُمْ" قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! سَمِّهِمْ لَنَا قَالَ: "عَلِيٌّ مِنْهُمْ" يَقُولُ: ذَلِكَ ثَلاَثًا، وَأَبُو ذَرٍّ، وَالْمِقْدَادُ وَسَلْمَانُ أَمَرَنِي بِحُبِّهِمْ، وَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ يُحِبُّهُمْ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۴۹) (تحفۃ الأشراف: ۲۰۰۸)، وحم (۵/۳۵۶) (ضعیف)
(سندمیں ابوربیعہ ایادی لین الحدیث، اور شریک القاضی ضعیف الحفظ ہیں)
۳۷۱۸- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ نے مجھے چار شخصوں سے محبت کا حکم دیا ہے، اور مجھے بتایا ہے کہ وہ بھی ان سے محبت کرتاہے''، عرض کیاگیا : اللہ کے رسول ! ہمیں ان کانام بتادیجئے، آپ نے فرمایا:'' علی انہیں میں سے ہیں، آپ اس جملہ کو تین بار دہرارہے تھے اور باقی تین: ابوذر ، مقداد اور سلمان ہیں، مجھے اللہ نے ان لوگوں سے محبت کرنے کا حکم دیاہے، اور مجھے اس نے بتایا ہے کہ وہ بھی ان لوگوں سے محبت رکھتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف شریک کی روایت سے جانتے ہیں۔
3719- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "عَلِيٌّ مِنِّي وَأَنَا مِنْ عَلِيٍّ، وَلا يُؤَدِّي عَنِّي إِلاَّ أَنَا أَوْ عَلِيٌّ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۱۹) (تحفۃ الأشراف: ۳۲۹۰)، وحم (۴/۱۶۴، ۹۵) (حسن)
(سندمیں شریک القاضی ضعیف الحفظ اورابواسحاق سبیعی مدلس وصاحب اختلاط راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ رقم ۱۹۸۰، وتراجع الالبانی ۳۷۸)
۳۷۱۹- حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں اور میری جانب سے نقض عہد کی بات میرے یا علی کے علاوہ کوئی اور ادا نہیں کرے گا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : اہل عرب کا یہ طریقہ تھا کہ نقض عہد یا صلح کی تنفیذ کا اعلان جب تک قوم کے سردار یا اس کے کسی خاص قریبی فرد کی طرف سے نہ ہوتا وہ اسے قبول نہ کرتے تھے، اسی لیے جب رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر الحجاج بنا کر بھیجا اور پھر بعد میں اللہ کے اس فرمان
{إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا} (سورة التوبة:28)کے ذریعہ اعلان برأت کی خاطر علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا تو آپ نے علی کی تکریم میں اسی موقع پر یہ بات کہی :
'' علی منی و أنا من علی و لا یؤدی عنی الا أنا أو علی''۔
3720- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحِ ابْنِ حَيٍّ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرٍ التَّيْمِيِّ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: آخَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَيْنَ أَصْحَابِهِ فَجَاءَ عَلِيٌّ تَدْمَعُ عَيْنَاهُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! آخَيْتَ بَيْنَ أَصْحَابِكَ، وَلَمْ تُؤَاخِ بَيْنِي وَبَيْنَ أَحَدٍ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَنْتَ أَخِي فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أَوْفَى.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۶۷۷) (ضعیف)
(سندمیں حکیم بن جبیر ضعیف رافضی ہے)
۳۷۲۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کے درمیان باہمی بھائی چارا کرایا تو علی روتے ہوئے آئے اور کہا: اللہ کے رسول ! آپ نے اپنے اصحاب کے درمیان بھائی چارا کرایا ہے اور میری بھائی چارگی کسی سے نہیں کرائی؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:'' تم میرے بھائی ہو دنیا اور آخرت دونوں میں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں زید بن ابی اوفیٰ سے بھی روایت ہے۔
3721- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ عِيسَى بْنِ عُمَرَ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ طَيْرٌ؛ فَقَالَ: "اللَّهُمَّ ائْتِنِي بِأَحَبِّ خَلْقِكَ إِلَيْكَ يَأْكُلُ مَعِي هَذَا الطَّيْرَ"؛ فَجَاءَ عَلِيٌّ فَأَكَلَ مَعَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ السُّدِّيِّ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ أَنَسٍ، وَعِيسَى بْنُ عُمَرَ هُوَ كُوفِيٌّ وَالسُّدِّيُّ اسْمُهُ إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَقَدْ أَدْرَكَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، وَرَأَى الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ وَثَّقَهُ شُعْبَةُ، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَزَائِدَةُ، وَوَثَّقَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۲۸) (ضعیف)
(سندمیں سفیان بن وکیع ضعیف اورساقط الحدیث ہیں،اور اسماعیل بن عبد الرحمن السدی الکبیر روایت میں وہم کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ تشیع سے متہم ، اور اس روایت میں تشیع ہے بھی)
۳۷۲۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک پرندہ تھا ، آپ نے دعا فرمائی کہ اے للہ ! میرے پاس ایک ایسے شخص کو لے آجو تیری مخلوق میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہوتاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندہ کا گوشت کھائے ،تو علی آئے اور انہوں نے آپ کے ساتھ کھانا کھایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے سدی کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- یہ حدیث انس سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے،۳- عیسیٰ بن عمر کو فی ہیں۴- اور سدی کانام اسماعیل بن عبدالرحمن ہے، اور ان کا سماع انس بن مالک سے ہے،اور حسین بن علی کی رؤیت بھی انہیں حاصل ہے، شعبہ ، سفیان ثوری اور زائدہ نے ان کی توثیق کی ہے، نیز یحییٰ بن سعید القطان نے بھی انہیں ثقہ کہا ہے۔
3722- حَدَّثَنَا خَلادُ بْنُ أَسْلَمَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ هِنْدٍ الْجَمَلِيِّ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: كُنْتُ إِذَا سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَعْطَانِي وَإِذَا سَكَتُّ ابْتَدَأَنِي. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۰۰) (ضعیف)
(سندمیں عبد اللہ بن عمرو بن ہند جملی کا علی رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے، یعنی: سند میں انقطاع ہے)
۳۷۲۲- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب بھی میں رسول اللہ ﷺ سے مانگتاتوآپ مجھے دیتے تھے اور جب میں چپ رہتا توخودہی پہل کرتے ''(دینے میں یا بولنے میں)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
3723- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الرُّومِيِّ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مُنْكَرٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ شَرِيكٍ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ الصُّنَابِحِيِّ، وَلا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ وَاحِدٍ مِنْ الثِّقَاتِ عَنْ شَرِيكٍ، وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۰۹) (موضوع)
(سندمیں شریک القاضی حافظہ کے ضعیف ہیں اور شریک کے سوا کسی نے سند میں صنابحی کا ذکر نہیں کیا ہے، جس سے پتہ چلا کہ سند میں انقطاع بھی ہواہے، اس حدیث پر ابن الجوزی اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے موضوع کا حکم لگایا ہے، ابن تیمیہ کہتے ہیں: یہ حدیث ضعیف بلکہ عارفین حدیث کے یہاں موضوع ہے، لیکن ترمذی وغیرہ نے اس کی روایت کی ہے بایں ہمہ یہ جھوٹ ہے ، اس حدیث کی مفصل تخریج ہم نے اپنی کتاب شیخ الاسلام ابن تیمیہ وجہودہ فی الحدیث وعلومہ میں کی ہے حدیث نمبر ۳۷۶)
۳۷۲۳- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ، اور منکر ہے،۲- بعض راویوں نے اس حدیث کوشریک سے روایت کیا ہے، اور انہوں نے اس میں صنابحی کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے، اور ہم نہیں جانتے کہ یہ حدیث کسی ثقہ راوی کے واسطہ سے شریک سے آئی ہو، اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔
3724- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَمَّرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ: مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا تُرَابٍ قَالَ: أَمَّا مَا ذَكَرْتَ ثَلاثًا قَالَهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَلَنْ أَسُبَّهُ لأَنْ تَكُونَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ لِعَلِيٍّ، وَخَلَفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! تَخْلُفُنِي مَعَ النِّسَائِ وَالصِّبْيَانِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلا أَنَّهُ لا نُبُوَّةَ بَعْدِي"، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ يَوْمَ خَيْبَرَ: لأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ قَالَ: فَتَطَاوَلْنَا لَهَا فَقَالَ: ادْعُوا لِي عَلِيًّا؛ فَأَتَاهُ وَبِهِ رَمَدٌ فَبَصَقَ فِي عَيْنِهِ؛ فَدَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ؛ فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةَ: {نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَكُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَكُمْ}[آل عمران:61] الآيَةَ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلِيًّا، وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: اللَّهُمَّ هَؤُلائِ أَهْلِي.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۹ (۳۷۰۶)، والمغازي ۷۸ (۴۴۱۶)، م/فضائل الصحابۃ ۴ (۲۴۰۴/۳۲)، ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۷۲)، وحم (۱/۱۷۰، ۱۷۷) (صحیح)
۳۷۲۴- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے اُن کو امیر بنایا تو پوچھا کہ تم ابوتراب (علی) کو برا بھلا کیوں نہیں کہتے؟ انہوں نے کہا: جب تک مجھے وہ تین باتیں یا درہیں گی جنہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے میں انہیں ہرگز برا نہیں کہہ سکتا، اور ان میں سے ایک کابھی میرے لیے ہونا مجھے اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میرے لیے سرخ اونٹ ہوں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو علی سے فرماتے ہوئے سنا ہے (آپ نے انہیں اپنے کسی غزوہ میں مدینہ میں اپنا جانشیں مقرر کیاتھا تو آپ سے علی نے کہا تھا: اللہ کے رسول ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جارہے ہیں)، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:'' کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تم میرے لیے اسی طرح ہو جس طرح ہارون موسیٰ کے لیے تھے، مگر فرق صرف اتنا ہے کہ میرے بعد نبوت نہیں ۱؎ ، اور دوسری یہ کہ میں نے آپ کو خیبر کے دن فرماتے ہوئے سنا کہ آج میں پرچم ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتاہے اور اس سے اللہ اور اس کے رسول بھی محبت کرتے ہیں ، سعدبن ابی وقاص کہتے ہیں تو ہم سب نے اس کے لیے اپنی گردنیں بلند کیں، یعنی ہم سب کو اس کی خواہش ہوئی ، آپ نے فرمایا:'' علی کو بلاؤ ،چنانچہ وہ آپ کے پاس آئے اور انہیں آشوب چشم کی شکایت تھی تو آپ نے اپنا لعاب مبارک ان کی آنکھ میں لگا یا اور پرچم انہیں دے دیا چنانچہ ا للہ نے انہیں فتح دی، تیسری بات یہ ہے کہ جب آیت کریمہ
{نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَكُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَكُمْ } اتری۔ تورسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور فرمایا:'' اے اللہ ! یہ میرے اہل ہیں '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ علی رضی اللہ عنہ کے آپ ﷺسے نہایت قریب ہو نے کی دلیل ہے ، نیز یہ ختم نبوت کی ایک واضح دلیل ہے۔
وضاحت ۲؎ : اس آیت مباہلہ میں جن لوگوں کو نبی اکرمﷺکا اہل مراد لیا گیا ان میں علی رضی اللہ عنہ بھی شامل کئے گئے ،
{ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاء}(الجمعة:4)
3725- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الأَحْوَصُ بْنُ جَوَّابٍ أَبُو الْجَوَّابِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَائِ قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ ﷺ جَيْشَيْنِ، وَأَمَّرَ عَلَى أَحَدِهِمَا عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَعَلَى الآخَرِ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ، وَقَالَ: "إِذَا كَانَ الْقِتَالُ فَعَلِيٌّ"، قَالَ: فَافْتَتَحَ عَلِيٌّ حِصْنًا؛ فَأَخَذَ مِنْهُ جَارِيَةً فَكَتَبَ مَعِي خَالِدٌ كِتَابًا إِلَى النَّبِيِّ ﷺ يَشِي بِهِ قَالَ: فَقَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَرَأَ الْكِتَابَ: فَتَغَيَّرَ لَوْنُهُ، ثُمَّ قَالَ: "مَا تَرَى فِي رَجُلٍ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ؟" قَالَ: قُلْتُ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ، وَغَضَبِ رَسُولِهِ، وَإِنَّمَا أَنَا رَسُولٌ فَسَكَتَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: انظر رقم : ۱۷۰۴ (ضعیف الإسناد)
۳۷۲۵- براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دو لشکر بھیجے اور ان دونوں میں سے ایک کا امیرعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اور دوسرے کا خالد بن ولید کو بنایا اورفرمایا : جب لڑائی ہوتو علی امیر رہیں گے چنانچہ علی نے ایک قلعہ فتح کیا اور اس سے (مال غنیمت میں سے) ایک لونڈی لے لی، تو میرے ساتھ خالد رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ کو ایک خط لکھ کر بھیجا جس میں وہ آپﷺ سے علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کررہے تھے، وہ کہتے ہیں: چنانچہ میں نبی اکرمﷺ کے پاس آیا آپ نے خط پڑھا تو آپ کا رنگ متغیر ہوگیا پھر آپ نے فرمایا:'' تم کیا چاہتے ہو ایک ایسے شخص کے سلسلے میں جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: میں اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے اللہ کی پناہ چاہتاہوں ، میں تو صرف ایک قاصد ہوں، پھر آپ خاموش ہوگئے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
3726- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ الأَجْلَحِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: دَعَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلِيًّا يَوْمَ الطَّائِفِ؛ فَانْتَجَاهُ فَقَالَ النَّاسُ: لَقَدْ طَالَ نَجْوَاهُ مَعَ ابْنِ عَمِّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَا انْتَجَيْتُهُ وَلَكِنَّ اللَّهَ انْتَجَاهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ الأَجْلَحِ، وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ ابْنِ فُضَيْلٍ أَيْضًا عَنِ الأَجْلَحِ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ، " وَلَكِنَّ اللَّهَ انْتَجَاهُ " يَقُولُ اللَّهُ: أَمَرَنِي أَنْ أَنْتَجِيَ مَعَهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۶۵۴) (ضعیف)
(سندمیں ابوالزبیر مدلس ہیں اورروایت عنعنہ سے کی ہے)
۳۷۲۶- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے غزوئہ طائف کے دن علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے سرگوشی کے انداز میں کچھ باتیں کیں ، لوگ کہنے لگے: آپ نے اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ بڑی دیر تک سرگوشی کی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں نے ان سے سرگوشی نہیں کی ہے بلکہ اللہ نے ان سے سرگوشی کی ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اجلح کی روایت سے جانتے ہیں، اور اسے ابن فضیل کے علاوہ دوسرے راویوں نے بھی اجلح سے روایت کیا ہے،۲- آپ کے قول ''بلکہ اللہ نے ان سے سرگوشی کی ہے'' کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے مجھے ان کے ساتھ سرگوشی کا حکم دیا ہے۔
3727- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِعَلِيٍّ: "يَا عَلِيُّ لاَ يَحِلُّ لأَحَدٍ أَنْ يُجْنِبَ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ غَيْرِي، وَغَيْرِكَ". قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ: قُلْتُ لِضِرَارِ بْنِ صُرَدٍ مَا مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ: لاَ يَحِلُّ لأَحَدٍ يَسْتَطْرِقُهُ جُنُبًا غَيْرِي، وَغَيْرِكَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَسَمِعَ مِنِّي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ هَذَا الْحَدِيثَ فَاسْتَغْرَبَهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۲۰۳) (ضعیف)
(سندمیں عطیہ عوفی ضعیف ہیں، اور سالم بن ابی حفصہ غالی شیعہ ہے، اور روایت میں تشیع ہے)
۳۷۲۷- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے علی سے فرمایا:'' علی ! میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس مسجد میں جنبی رہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- علی بن منذر کہتے ہیں: میں نے ضرار بن صرد سے پوچھا: اس حدیث کا مفہوم کیا ہے؟تو انہوں نے کہا: اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ حالت جنابت میں وہ اس مسجد میں سے گذرے،۳- مجھ سے محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو سنا تو وہ اچنبھے میں پڑگئے۔
3728- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَابِسٍ، عَنْ مُسْلِمٍ الْمُلاَئِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: بُعِثَ النَّبِيُّ ﷺ يَوْمَ الاثْنَيْنِ وَصَلَّى عَلِيٌّ يَوْمَ الثُّلاَثَائِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُسْلِمٍ الأَعْوَرِ، وَمُسْلِمٌ الأَعْوَرُ لَيْسَ عِنْدَهُمْ بِذَلِكَ الْقَوِيِّ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ حَبَّةَ عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَ هَذَا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۹) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں علی بن عابس اور مسلم بن کیسان اعور دونوں ضعیف راوی ہیں)
۳۷۲۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو دوشنبہ کو مبعوث کیاگیا اور علی نے منگل کو صلاۃ پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اور یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف مسلم اعور کی روایت سے جانتے ہیں اور مسلم اعور محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں،۲- اسی طرح یہ حدیث مسلم اعورسے بھی آئی ہے اور مسلم نے حبہ کے واسطہ سے اسی طرح علی سے روایت کی ہے،۳- اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
3729- حَدَّثَنَا خَلادُ بْنُ أَسْلَمَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ هِنْدٍ الْجَمَلِيِّ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: كُنْتُ إِذَا سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَعْطَانِي وَإِذَا سَكَتُّ ابْتَدَأَنِي. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۳۷۲۲ (ضعیف)
۳۷۲۹- عبداللہ بن عمرو بن ہند جملی سے روایت ہے کہ علی کہتے تھے: جب بھی میں رسول اللہ ﷺ سے مانگتا توآپ مجھے دیتے تھے اور جب میں چپ رہتا توخودہی پہل کرتے (دینے میں یا بولنے میں)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
3730- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُوأَحْمَدَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ: أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلاَّ أَنَّهُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ، وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۳۷۰) (صحیح)
(سندمیں شریک القاضی ضعیف الحفظ ہیں، مگر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث (۳۷۲۴) سے تقویت پاکر یہ حدیث بھی صحیح ہے)
۳۷۳۰- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے علی سے فرمایا:'' تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے ہارون موسیٰ کے لیے تھے ، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں''۔(اورہارون علیہ السلام اللہ کے نبی تھے)۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲- اس باب میں سعد، زید بن ارقم، ابوہریرہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔
3731- حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ عَبْدِالسَّلاَمِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ: أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلاَّ أَنَّهُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ سَعْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَيُسْتَغْرَبُ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۸۳۰ (صحیح)
۳۷۳۱- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے علی سے فرمایا:'' تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے ہارون ، موسیٰ کے لیے تھے، مگر اتنی بات ضرور ہے کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۲- اور یہ سعدبن ابی وقاص کے واسطہ سے جسے وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کئی سندوں سے آئی ہے،۳- اور یحییٰ بن سعید انصاری کی سند سے یہ حدیث غریب سمجھی جاتی ہے۔
3732- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي بَلْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَمَرَ بِسَدِّ الأَبْوَابِ إِلا بَابَ عَلِيٍّ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ؛ لا نَعْرِفُهُ عَنْ شُعْبَةَ بِهَذَا الإِسْنَادِ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۳۱۴) (صحیح)
۳۷۳۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے علی کے دروازے کے علاوہ (مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام) دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے شعبہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : مناقب ابی بکر رضی اللہ عنہ میں یہ حدیث گزری کہ ''نبی اکرمﷺنے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دروازے کے سوامسجدنبوی میں کھلنے والے سارے دروازوں کو بندکردینے کا حکم دیا''ان دونوں حدیثوں کے درمیان بظاہرنظرآنے والے تعارض کو اس طرح دورکیا گیاہے ،کہ شروع میں مسجدمیں کھلنے والے تمام دروازے سوائے علی کے بندکردینے کا حکم ہوا، تو لوگوں نے دروازے بندکرکے روشن دان کھول لیے اورنبی اکرمﷺ کے مرض کے ایام میں آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے روشن دان کے سوا سارے لوگوں کے روشندان بندکردیئے ، (یہ روشن اوپربھی ہوتے تھے اورنیچے بھی، نیچے والے سے لوگ آمد ورفت بھی کرتے تھے ، مسجدکی طرف دروازوں کے بندہوجانے کے بعد مسجد میں آنے جانے کے لیے لوگوں نے استعمال کرناشروع کردیاتھا، (کما فی کتب مشکل الحدیث )
3733- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنِي أَخِي مُوسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَخَذَ بِيَدِ حَسَنٍ وَحُسَيْنٍ فَقَالَ: "مَنْ أَحَبَّنِي وَأَحَبَّ هَذَيْنِ وَأَبَاهُمَا وَأُمَّهُمَا كَانَ مَعِي فِي دَرَجَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۷۳)، وحم (۱/۷۷) (ضعیف)
(سند میں علی بن جعفر مجہول ہیں، اور حدیث کا متن منکر ہے، ملاحظہ ہو الضعیفۃ رقم: ۳۱۲۲)
۳۷۳۳- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ''جو مجھ سے محبت کرے، اور ان دونوں سے، اور ان دونوں کے باپ اور ان دونوں کی ماں سے محبت کرے، تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ میں ہوگا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے جعفر بن محمد کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں ۔
3734- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي بَلْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَوَّلُ مَنْ صَلَّى عَلِيٌّ .
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي بَلْجٍ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ حُمَيْدٍ، وَأَبُو بَلْجٍ اسْمُهُ يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ.
وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا فَقَالَ بَعْضُهُمْ: أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ، و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الرِّجَالِ أَبُوبَكْرٍ، وَأَسْلَمَ عَلِيٌّ وَهُوَ غُلاَمٌ ابْنُ ثَمَانِ سِنِينَ، وَأَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ النِّسَائِ خَدِيجَةُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (۶۳۱۵) (صحیح)
۳۷۳۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : پہلے پہل جس نے صلاۃ پڑھی وہ علی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، شعبہ کی یہ حدیث جسے وہ ابوبلج سے روایت کرتے ہیں ہم اسے صرف محمد بن حمید کی روایت سے جانتے ہیں اور ابوبلج کانام یحییٰ بن سلیم ہے،۲- اہل علم نے اس سلسلہ میں اختلاف کیا ہے، بعض راویوں نے کہا ہے کہ پہلے پہل جس نے اسلام قبول کیا ہے وہ ابوبکر صدیق ہیں، اور بعضوں نے کہا ہے کہ پہلے پہل جو اسلام لائے ہیں وہ علی ہیں، اور بعض اہل علم نے کہا ہے: بڑے مردوں میں جو پہلے پہل اسلام لائے ہیں وہ ابوبکر ہیں اور علی جب اسلام لائے تو وہ آٹھ سال کی عمر کے لڑکے تھے، اور عورتوں میں جوسب سے پہلے اسلام لائی ہیں وہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اوریہی قول سب سے بہترہے۔
3735- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ قَال: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ يَقُولُ: أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ قَالَ عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ فَأَنْكَرَهُ فَقَالَ: أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو حَمْزَةَ اسْمُهُ طَلْحَةُ بْنُ يَزِيدَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۳۶۶۴) (صحیح)
۳۷۳۵- زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا وہ علی ہیں ۔
عمرو بن مرہ کہتے ہیں: میں نے اسے ابراہیم نخعی سے ذکر کیا تو انہوں نے اس کا انکار کیا اور کہا: سب سے پہلے جس نے اسلام قبول کیا وہ ابوبکر صدیق ہیں رضی اللہ عنہ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
3736- حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عُثْمَانَ ابْنِ أَخِي يَحْيَى بْنِ عِيسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عِيسَى الرَّمْلِيُّ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: لَقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الأُمِّيُّ ﷺ أَنَّهُ لاَ يُحِبُّكَ إِلاَّ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يَبْغَضُكَ إِلاَّ مُنَافِقٌ قَالَ عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ: أَنَا مِنَ الْقَرْنِ الَّذِينَ دَعَا لَهُمُ النَّبِيُّ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الإیمان ۳۳ (۷۸)، ن/الإیمان ۱۹ (۵۰۲۱)، و۲۰ (۵۰۲۵)، ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۱۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۹۲) وحم (۱/۸۴، ۹۵) (صحیح)
۳۷۳۶- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی امی ﷺ نے مجھ سے فرمایا:'' تم سے صرف مومن ہی محبت کرتاہے اور منافق ہی بغض رکھتا ہے'' ۱؎ ۔عدی بن ثابت کہتے ہیں: میں اس طبقے کے لوگوں میں سے ہوں، جن کے لیے نبی اکرمﷺ نے دعافرمائی ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے شرعی محبت اورعداوت مرادہے، مثلاً ایک آدمی علی سے تومحبت رکھتاہے مگرابوبکروعمر رضی اللہ عنہما سے بغض رکھتاہے تو اس کی محبت ایمان کی علامت نہیں ہوگی ، اورجہاں تک بغض کا معاملہ ہے ،تو صرف علی سے بھی بغض ایمان کی نفی کے لیے کافی ہے ، خواہ وہ ابوبکروعمروعثمان رضی اللہ عنہم سے محبت ہی کیوں نہ رکھتاہو۔
وضاحت ۲؎ : یعنی: ارشادنبوی ''اے اللہ تو اس سے محبت رکھ جو علی سے محبت رکھتاہے ، کہ مصداق میں اس دعائے نبوی کے افراد میں شامل ہوں کیونکہ میں علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتاہوں۔
3737- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَيَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: أَخْبَرَنَا أَبُوعَاصِمٍ، عَنْ أَبِي الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ صُبَيْحٍ قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ شَرَاحِيلَ قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ عَطِيَّةَ قَالَتْ: بَعَثَ النَّبِيُّ ﷺ جَيْشًا فِيهِمْ عَلِيٌّ قَالَتْ: فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يَقُولُ: اللَّهُمَّ لاَ تُمِتْنِي حَتَّى تُرِيَنِي عَلِيًّا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۴۲) (ضعیف)
(سندمیں ام شراحیل مجہول راوی ہیں)
۳۷۳۷- ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا جس میں علی بھی تھے، میں نے نبی اکرم ﷺ کو سنا آپ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے یہ دعا فرمارہے تھے: ''اے اللہ ! تو مجھے مارنا نہیں جب تک کہ مجھے علی کو دکھانہ دے ''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔