• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
35-بَاب مَنَاقِبِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۳۵-باب: عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3798- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: جَاءَ عَمَّارٌ يَسْتَأْذِنُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: "ائْذَنُوا لَهُ مَرْحَبًا بِالطَّيِّبِ الْمُطَيَّبِ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۴۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۰۰) (صحیح)
۳۷۹۸- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : عمار نے آکر نبی اکرم ﷺ سے اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا:'' انہیں اجازت دے دو، مرحبا مرد پاک ذات و پاک صفات کو''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3799- حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ سِيَاهٍ كُوفِيٌّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَا خُيِّرَ عَمَّارٌ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلاّ اخْتَارَ أَرْشَدَهُمَا".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ سِيَاهٍ وَهُوَ شَيْخٌ كُوفِيٌّ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ النَّاسُ لَهُ ابْنٌ يُقَالُ لَهُ: يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ثِقَةٌ رَوَى عَنْهُ يَحْيَى بْنُ آدَمَ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۴۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۹۶) (صحیح)
۳۷۹۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عمار کو جب بھی دوباتوں کے درمیان اختیار دیاگیا تو انہوں نے اسی کو اختیار کیا جو ان دونوں میں سب سے بہتر اور حق سے زیادہ قریب ہوتی تھی '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے عبدالعزیز بن سیاہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، اور یہ ایک کوفی شیخ ہیں اور ان سے لوگوں نے روایت کی ہے، ان کا ایک لڑکا تھا جسے یزید بن عبدالعزیز کہاجاتاتھا، ان سے یحییٰ بن آدم نے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ بات عمار رضی اللہ عنہ کے فطرتاً حق پسندہونے ، اوراللہ کی طرف سے ان کے لیے حسن توفیق پر دلیل ہے۔


3799/م- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مَوْلًى لِرِبْعِيٍّ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: "إِنِّي لاَ أَدْرِي مَا قَدْرُ بَقَائِي فِيكُمْ فَاقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي، وَأَشَارَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ وَاهْتَدُوا بِهَدْيِ عَمَّارٍ، وَمَا حَدَّثَكُمْ ابْنُ مَسْعُودٍ فَصَدِّقُوهُ".
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَرَوَى إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ هِلاَلٍ مَوْلَى رِبْعِيٍّ، عَنْ رِبْعِيٍّ، عَنْ حُذَيْفَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ. وَقَدْ رَوَى سَالِمٌ الْمُرَادِيُّ الْكُوفِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ هَرِمٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۳۲۶۳ (صحیح)
۳۷۹۹/م- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرمایا:'' میں نہیں جانتا کہ میں تم میں کب تک رہوں گا (یعنی کتنے دنوں تک زندہ رہوں گا) تو تم ان دونوں کی پیروی کرنا جو میرے بعد ہوں گے( اور آپ نے ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی طرف اشارہ کیا اور عمار کی روش پر چلنا اور ابن مسعود جو تم سے بیان کریں اسے سچ جاننا '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے ،۲- ابراہیم بن سعد نے بھی اس حدیث کی روایت، بطریق :سفیان عن عبدالملک بن عمیر، عن ہلال مولی ربعی، عن حذیفہ ، عن النبیﷺ''اسی طرح کی ہے، اور سالم مرادی کوفی نے بطریق: عمرو بن ہرم عن ربعی، عن حذیفہ، عن النبیﷺ اسی طرح روایت کی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں عمار رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما اورابن مسعود رضی اللہ کی منقبت بھی بیان کی گئی ہے، یہ منقبت یہ ہے کہ بزبان رسالت ان کے ہدایت پر ہو نے کی گواہی ہے۔


3800- حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْعَلائِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَبْشِرْ عَمَّارُ تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَبِي الْيَسَرِ، وَحُذَيْفَةَ، قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْعَلائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وھو جماعۃ من الصحابۃ غیرہ (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۸۱) (صحیح)
۳۸۰۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عمار! تمہیں ایک باغی جماعت قتل کرے گی '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث علاء بن عبدالرحمن کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں ام سلمہ، عبدالرحمن بن عمرو، ابو یسر اور حذیفہ رضی اللہ عنہم احادیث آئی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں اس بات کی گواہی اللہ کے رسولﷺکی زبان سے ہے کہ قتل ہونے کے وقت عمارحق والی جماعت کے ساتھ ہوں گے اور ان کے قاتل اس بابت حق پر نہیں ہوں گے ، اور اس حق وناحق سے مراد اعتقادی (توحیدوشرک کا)حق وناحق نہیں مرادہے بلکہ اس وقت سیاسی طورپر حق وناحق پر ہو نے کی گواہی ہے ، عمار اس وقت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو اس وقت خلیقہ برحق تھے ، اورفریق مخالف معاویہ رضی اللہ عنہ تھے جو علی رضی اللہ عنہ سے خلافت کے سیاسی مسئلہ پر جنگ کررہے تھے ، اس میں عمار رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تھی ، یہ جنگ صفین کا واقعہ ہے اس واقعہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ جو علی سے برسرپیکارہوگئے تھے، یہ ان کی اجتہادی غلطی تھی جو معاف ہے ،( رضی اللہ عنہم اجمعین)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
36-بَاب مَنَاقِبِ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۳۶-باب: ابوذر رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3801- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عُمَيْرٍ وَهُوَ أَبُوالْيَقْظَانِ، عَنْ أَبِي حَرْبِ بْنِ أَبِي الأَسْوَدِ الدِّيْلِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "مَا أَظَلَّتِ الْخَضْرَائُ، وَلاَ أَقَلَّتِ الْغَبْرَائُ أَصْدَقَ مِنْ أَبِي ذَرٍّ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ، وَأَبِي ذَرٍّ، قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۵۶) (تحفۃ الأشراف: ۸۹۵۷)، وحم (۲/۱۶۳، ۱۷۵) (صحیح)
۳۸۰۱- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا :'' آسمان نے کسی پر سایہ نہیں کیا اور نہ زمین نے اپنے اوپر کسی کو پناہ دی جو ابوذر رضی اللہ عنہ سے زیادہ سچا ہو '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں ابوالدرداء اور ابوذر سے حدیثیں آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے ابوذر رضی اللہ عنہ کی سچائی سے متعلق مبالغہ اور تاکید مقصود ہے۔


3802- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنِي أَبُو زُمَيْلٍ -هُوَ سِمَاكُ بْنُ الْوَلِيدِ الْحَنَفِيُّ-، عَنْ مَالِكِ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَا أَظَلَّتِ الْخَضْرَائُ، وَلاَ أَقَلَّتِ الْغَبْرَائُ مِنْ ذِي لَهْجَةٍ أَصْدَقَ، وَلاَ أَوْفَى مِنْ أَبِي ذَرٍّ شِبْهِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلاَم" فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: كَالْحَاسِدِ يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَفَتَعْرِفُ ذَلِكَ لَهُ؟ قَالَ: "نَعَمْ فَاعْرِفُوهُ لَهُ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: يَمْشِي فِي الأَرْضِ بِزُهْدِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلام.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۷۶) (ضعیف)
(سندمیں مرثد الزمانی لین الحدیث راوی ہیں)
۳۸۰۲- ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' آسمان نے کسی پر سایہ نہیں کیا اور نہ زمین نے کسی کو پناہ دی جو ابوذر سے -جو عیسیٰ بن مریم کے مشابہ ہیں- زیادہ زبان کا سچا اور اس کا پاس ولحاظ رکھنے والاہو''، یہ سن کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رشک کے انداز میں بولے: اللہ کے رسول ! کیا ہم یہ بات انہیں بتادیں؟ آپ نے فرمایا:'' ہاں، بتادو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲- اور بعضوں نے اس حدیث کوروایت کیا ہے اس میں ہے کہ آپ نے فرمایا:'' ابوذر زمین پر عیسیٰ بن مریم کی زاہدانہ چال چلتے ہیں''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
37- بَاب مَنَاقِبِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلاَمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۳۷-باب: عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3803- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُحَيَّاةَ يَحْيَى بْنُ يَعْلَى بْنِ عَطَائٍ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنِ ابْنِ أَخِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلاَمٍ قَالَ: لَمَّا أُرِيدَ قَتْلُ عُثْمَانَ جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ: مَا جَاءَ بِكَ قَالَ: جِئْتُ فِي نَصْرِكَ قَالَ: اخْرُجْ إِلَى النَّاسِ؛ فَاطْرُدْهُمْ عَنِّي فَإِنَّكَ خَارِجًا خَيْرٌ لِي مِنْكَ دَاخِلا؛ فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ إِلَى النَّاسِ فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّهُ كَانَ اسْمِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ فُلانٌ؛ فَسَمَّانِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَبْدَ اللَّهِ وَنَزَلَتْ فِيَّ آيَاتٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَنَزَلَتْ فِيَّ: {وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ}[الأحقاف:10] وَنَزَلَتْ فِيَّ: {قُلْ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابَ}[الرعد: 43] إِنَّ لِلَّهِ سَيْفًا مَغْمُودًا عَنْكُمْ، وَإِنَّ الْمَلائِكَةَ قَدْ جَاوَرَتْكُمْ فِي بَلَدِكُمْ هَذَا الَّذِي نَزَلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَاللَّهَ اللَّهَ فِي هَذَا الرَّجُلِ أَنْ تَقْتُلُوهُ فَوَاللَّهِ لَئِنْ قَتَلْتُمُوهُ لَتَطْرُدُنَّ جِيرَانَكُمْ الْمَلاَئِكَةَ، وَلَتَسُلُّنَّ سَيْفَ اللَّهِ الْمَغْمُودَ عَنْكُمْ فَلاَ يُغْمَدُ عَنْكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالُوا اقْتُلُوا الْيَهُودِيَّ، وَاقْتُلُوا عُثْمَانَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ؛ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، وَقَدْ رَوَى شُعَيْبُ بْنُ صَفْوَانَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ فَقَالَ عَنْ ابْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلاَمٍ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلاَمٍ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۳۲۵۶ (ضعیف الإسناد)
۳۸۰۳- عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے بھتیجے کہتے ہیں کہ جب لوگوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا ارادہ کیاتو عبداللہ بن سلام عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ،عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تم کیوں آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: میں آپ کی مدد کے لیے آیاہوں تو آپ نے کہا: تم لوگوں کے پاس جاؤ اور انہیں میرے پاس سے آنے بھگاؤ کیوں کہ تمہارا باہر رہنا میرے حق میں تمہارے اندر رہنے سے زیادہ بہتر ہے ،چنانچہ عبداللہ بن سلام نکل کر لوگوں کے پاس آئے اوران سے کہا : لوگو! میرا نام جاہلیت میں فلاں تھا تو رسول اللہ ﷺ نے میرانام عبداللہ رکھا، اور میری شان میں اللہ کی کتاب کی کئی آیتیں نازل ہوئیں، چنانچہ { وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ إِنَّ اللَّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} ۱؎ {قُلْ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابَ} ۲؎ میرے ہی سلسلہ میں اتری ، اللہ کی تلوار میان میں ہے اور فرشتے تمہارے اس شہر مدینہ میں جس میں رسول اللہ ﷺ اترے تمہارے ہمسایہ ہیں، لہذا تم اس شخص کے قتل میں اللہ سے ڈرو، قسم اللہ کی ! اگر تم نے اسے قتل کردیا ، تم اپنے ہمسایہ فرشتوں کو اپنے پاس سے بھگادوگے، اور اللہ کی تلوار کو جو میان میں ہے باہر کھینچ لوگے ، پھر وہ قیامت تک میان میں نہیں آسکے گی تو لوگ ان کی یہ نصیحت سن کربولے: اس یہودی کو قتل کرو اور عثمان کو بھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف عبدالملک بن عمیر کی روایت سے جانتے ہیں، ۲-شعیب بن صفوان نے بھی حدیث عبدالملک بن عمیر سے روایت کی ہے ،انہوں نے سند میں ''عن ابن محمد بن عبدالله بن سلام عن جده عبدالله بن سلام'' کہا ہے۔


3804- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عُمَيْرَةَ قَالَ: لَمَّا حَضَرَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ الْمَوْتُ قِيلَ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ! أَوْصِنَا قَالَ: أَجْلِسُونِي فَقَالَ: إِنَّ الْعِلْمَ وَالإِيمَانَ مَكَانَهُمَا مَنِ ابْتَغَاهُمَا وَجَدَهُمَا يَقُولُ ذَلِكَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، وَالْتَمِسُوا الْعِلْمَ عِنْدَ أَرْبَعَةِ رَهْطٍ عِنْدَ عُوَيْمِرٍ أَبِي الدَّرْدَائِ، وَعِنْدَ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ، وَعِنْدَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَعِنْدَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَلاَمٍ الَّذِي كَانَ يَهُودِيًّا فَأَسْلَمَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " إِنَّهُ عَاشِرُ عَشَرَةٍ فِي الْجَنَّةِ ".
وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۶۸) (صحیح)
۳۸۰۴- یزید بن عمیر ہ کہتے ہیں کہ جب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے مرنے کا وقت آیا تو ان سے کہاگیا: اے ابوعبدالرحمن! ہمیں کچھ وصیت کیجئے ، تو انہوں نے کہا: مجھے بٹھاؤ ، پھر بولے: علم اور ایمان دونوں اپنی جگہ پر قائم ہیں جو انہیں ڈھونڈے گا ضرور پائے گا، انہوں نے اسے تین بار کہا ، پھر بولے: علم کو چارآدمیوں کے پاس ڈھونڈو: عویمر ابوالدرداء کے پاس ، سلمان فارسی کے پاس، عبداللہ بن مسعود کے پاس اور عبداللہ بن سلام کے پاس، (جو یہودی تھے پھر اسلام لائے) کیوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ وہ ان دس لوگوں میں سے ہیں جو جنتی ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں عبداللہ بن سلام کی فضیلت شہادت ایک تو صحابی رسول کی زبان سے ہے ، دوسرے رسول اللہﷺکی زبان سے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
38-بَاب مَنَاقِبِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۳۸-باب: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3805- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ يَحْيَى بْنِ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي الزَّعْرَائِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "اقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي مِنْ أَصْحَابِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، وَاهْتَدُوا بِهَدْيِ عَمَّارٍ، وَتَمَسَّكُوا بِعَهْدِ ابْنِ مَسْعُودٍ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، وَيَحْيَى بْنُ سَلَمَةَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَأَبُوالزَّعْرَائِ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَانِئٍ، وَأَبُو الزَّعْرَائِ الَّذِي رَوَى عَنْهُ شُعْبَةُ، وَالثَّوْرِيُّ وَابْنُ عُيَيْنَةَ اسْمُهُ عَمْرُو بْنُ عَمْرٍو وَهُوَ ابْنُ أَخِي أَبِي الأَحْوَصِ صَاحِبِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۳۵۲) (صحیح)
(الصحیحہ ۱۲۳۳ ، وتراجع الالبانی ۳۷۷)
۳۸۰۵- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم ان دونوں کی پیروی کروجو میرے اصحاب میں سے میرے بعد ہوں گے یعنی ابوبکر وعمر کی، اور عمار کی روش پر چلو، اور ابن مسعود کے عہد (وصیت)کو مضبوطی سے تھامے رہو '' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں :۱- ابن مسعود کی یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲- ہم اسے صرف یحییٰ بن سلمہ بن کہیل کی روایت سے جانتے ہیں،اور یحییٰ بن سلمہ حدیث میں ضعیف ہیں،۳- ابوالزعراء کانام عبداللہ بن ہانی ٔ ہے، اوروہ ابوالزعراء جن سے شعبہ ، ثوری اور ابن عیینہ نے روایت کی ہے ان کانام عمرو بن عمرو ہے، اور وہ عبداللہ بن مسعود کے شاگرد ابوالا ٔ حوص کے بھتیجے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کے اوّل وآخر ٹکڑے میں خلافت صدیقی وفاروقی کی طرف اشارہ ہے ، ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما کی اقتداء سے مراد نبی اکرمﷺ کے بعد بالترتیب ان دونوں کی خلافت ہے ، اورابن مسعود رضی اللہ عنہ کی وصیت سے مراد بھی یہی ہے کہ انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی تائید کی تھی، یہی مراد ہے،ان کی وصیت مضبوطی سے تھامنے سے ۔


3806- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا مُوسَى يَقُولُ: لَقَدْ قَدِمْتُ أَنَا وَأَخِي مِنَ الْيَمَنِ، وَمَا نُرَى حِينًا إِلاَّ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ ﷺ لِمَا نَرَى مِنْ دُخُولِهِ وَدُخُولِ أُمِّهِ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۲۷ (۳۷۶۳)، والمغازي ۷۴ (۴۳۸۴)، م/فضائل الصحابۃ ۲۲ (۲۴۶۰) (تحفۃ الأشراف: ۸۹۷۹) (صحیح)
۳۸۰۶- اسود بن یزید سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے بھائی دونوں یمن سے آئے تو ہم ایک عرصہ تک یہی سمجھتے رہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اہل بیت ہی کے ایک فرد ہیں، کیوں کہ ہم انہیں اور ان کی والدہ کو کثرت سے نبی اکرم ﷺ کے پاس(ان کے گھرمیں) آتے جاتے دیکھتے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس سند سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- سفیان ثوری نے بھی اسے ابواسحاق سے روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نبیﷺ سے ازحد قربت اور برابرساتھ رہنے کی دلیل ہے جو ان کے فضل وشرف کی بات ہے ، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ابن مسعود کی ہر روایت اور فتوی ضرورہی تمام صحابہ کی روایتوں اور فتاوی پرمقدم ہوگا، کیونکہ امہات المومنین تک کی بعض روایات یا تو منسوخ ہیں یا انہیں گھر سے باہر کے بعض احوال کا علم نہیں ہوسکاتھا، اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔


3807- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: أَتَيْنَا عَلَى حُذَيْفَةَ فَقُلْنَا: حَدِّثْنَا مَنْ أَقْرَبُ النَّاسِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ هَدْيًا وَدَلاَّ فَنَأْخُذَ عَنْهُ، وَنَسْمَعَ مِنْهُ قَالَ: كَانَ أَقْرَبُ النَّاسِ هَدْيًا وَدَلا وَسَمْتًا بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ ابْنُ مَسْعُودٍ حَتَّى يَتَوَارَى مِنَّا فِي بَيْتِهِ، وَلَقَدْ عَلِمَ الْمَحْفُوظُونَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ هُوَ مِنْ أَقْرَبِهِمْ إِلَى اللَّهِ زُلْفَى.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۲۷ (۳۷۶۲) (تحفۃ الأشراف: ۳۳۷۴) (صحیح)
۳۸۰۷- عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ ہم حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو ہم نے ان سے کہا: آپ ہمیں بتائیے کہ لوگوں میںچال ڈھال میں رسول اللہ ﷺ سے سب سے قریب کون ہے کہ ہم اس کے طورطریقے کو اپنائیں، اور اس کی باتیں سنیں؟ تو انہوں نے کہا کہ لوگوں میں چال ڈھال اور طور طریقے میں رسول اللہ ﷺ سے سب سے قریب ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں، یہاں تک کہ وہ ہم سے اوجھل ہوکر آپ کے گھر کے اندر بھی جایا کرتے تھے، اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کو جو کسی طرح کی تحریف یا نسیان سے محفوظ ہیں یہ بخوبی معلوم ہے کہ ام عبد کے بیٹے یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان سب میں اللہ سے سب سے نزدیک ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی لوگ جو بیان کریں گے وہ بالکل حقیقت کے مطابق ہوگا، اور انہوں نے یہ بیان کیا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول ﷺکے طورطریقے سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے ،اور ان سے ازحدقریب تھے ، یہ صحابہ کی زبان سے ابن مسعود کی فضیلت کا اعتراف ہے۔


3808- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا صَاعِدٌ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لَوْ كُنْتُ مُؤَمِّرًا أَحَدًا مِنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنْهُمْ لأَمَّرْتُ عَلَيْهِمْ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ" .
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ؛ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ.
* تخريج: ق/المدقمۃ ۱۱ (۱۳۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۴۵) (ضعیف)
(سندمیں ''حارث اعور'' ضعیف اور ابواسحاق سبیعی مدلس اور مختلط راوی ہیں،اور روایت عنعنہ سے ہے)
۳۸۰۸- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اگر میں بغیر مشورہ کے ان میں سے کسی کو امیر بناتا تو ام عبد کے بیٹے (عبداللہ بن مسعود) کو امیر بناتا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف حارث کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ علی سے روایت کرتے ہیں۔


3809- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لَوْ كُنْتُ مُؤَمِّرًا أَحَدًا مِنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ لأَمَّرْتُ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ".
* تخريج: انظر ماقبلہ (ضعیف)
۳۸۰۹- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اگر میں بغیر مشورہ کے کسی کو امیر بناتاتو ام عبد کے بیٹے (عبداللہ بن مسعود) کو امیر بناتا''۔


3810- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "خُذُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ مِنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَسَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۲۶ (۳۷۵۸)، و۲۷ (۳۷۶۰)، وفضائل الأنصار ۱۴ (۳۸۰۶)، و۱۶ (۳۸۰۸)، وفضائل القرآن ۸ (۴۹۹۹)، م/فضائل الصحابۃ ۲۲ (۲۴۶۴) (تحفۃ الأشراف: ۸۹۳۲) (صحیح)
۳۸۱۰- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قرآن مجید چار لوگوں سے سیکھو: ابن مسعود ، ابی بن کعب ،معاذبن جبل، اور سالم مولی ابی حذیفہ سے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ یہ چارصحابہ خاص طورپر قرآن کے نبی اکرمﷺ سے اخذکرنے ، یادکرنے ، بہترطریقے سے ادا کرنے میں ممتاز تھے، اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ ان کے سوا دیگرصحابہ کو قرآن یادہی نہیں تھا ، اوراس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان سے مروی قراء ت کی ضرورہی پابندی کی جائے ، کیونکہ عثمان رضی اللہ عنہ نے اعلی ترین مقصد کے تحت ایک قراء ت کے سوا تمام قراء توں کو ختم کرادیاتھا (اس قراء تو ں سے مراد معروف سبعہ کی قراء تیں نہیں مراد صحابہ کے مصاحف ہیں)۔


3811- حَدَّثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَخْلَدٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ خَيْثَمَةَ بْنِ أَبِي سَبْرَةَ قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَسَأَلْتُ اللَّهَ أَنْ يُيَسِّرَ لِي جَلِيسًا صَالِحًا؛ فَيَسَّرَ لِي أَبَاهُرَيْرَةَ؛ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ لَهُ: إِنِّي سَأَلْتُ اللَّهَ أَنْ يُيَسِّرَ لِي جَلِيسًا صَالِحًا فَوُفِّقْتَ لِي فَقَالَ لِي: مِمَّنْ أَنْتَ قُلْتُ: مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ جِئْتُ أَلْتَمِسُ الْخَيْرَ، وَأَطْلُبُهُ قَالَ أَلَيْسَ فِيكُمْ سَعْدُ بْنُ مَالِكٍ مُجَابُ الدَّعْوَةِ، وَابْنُ مَسْعُودٍ صَاحِبُ طَهُورِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَنَعْلَيْهِ، وَحُذَيْفَةُ صَاحِبُ سِرِّ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَعَمَّارٌ الَّذِي أَجَارَهُ اللَّهُ مِنَ الشَّيْطَانِ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ، وَسَلْمَانُ صَاحِبُ الْكِتَابَيْنِ قَالَ قَتَادَةُ: وَالْكِتَابَانِ الإِنْجِيلُ وَالْفُرْقَانُ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ. وَخَيْثَمَةُ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَبْرَةَ إِنَّمَا نُسِبَ إِلَى جَدِّهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۰۶) (صحیح)
۳۸۱۱- خیثمہ بن ابی سبرہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو میں نے اللہ سے اپنے لیے ایک صالح ہم نشیں پانے کی دعاء کی، چنانچہ اللہ نے مجھے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہم نشینی کی توفیق بخشی ۱؎ ، میں ان کے پاس بیٹھنے لگا تو میں نے ان سے عرض کیا: میں نے اللہ سے اپنے لیے ایک صالح ہم نشیں کی توفیق مرحمت فرمانے کی دعاء کی تھی، چنانچہ مجھے آپ کی ہم نشینی کی توفیق ملی ہے، انہوں نے مجھ سے پوچھا: تم کہاں کے ہو؟ میں نے عرض کیا: میرا تعلق اہل کوفہ سے ہے اور میں خیر کی تلاش وطلب میں یہاں آیاہوں، انہوں نے کہا: کیا تمہارے یہاں سعد بن مالک جو مستجاب الدعوات ہیں ۲؎ اور ابن مسعود جو رسول اللہ ﷺ کے لیے وضو کے پانی کا انتظام کرنے والے اور آپ کے کفش بردار ہیں اور حذیفہ جو آپ کے ہمراز ہیں اور عمار جنہیں اللہ نے شیطان سے اپنے نبی کی زبانی پناہ دی ہے اور سلمان جو دونوں کتابوں والے ہیں موجود نہیں ہیں ۔ راوی حدیث قتادہ کہتے ہیں : کتابان سے مراد انجیل اور قرآن ہیں ۳؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- خیثمہ یہ عبدالرحمن بن ابوسبرہ کے بیٹے ہیں ان کی نسبت ان کے دادا کی طرف کردی گئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : ٹھیک یہی معاملہ علقمہ بن قیس کوفی کے ساتھ بھی پیش آیاتھا، وہ شام آئے تو یہی دعاء کی ، تو انہیں ابوالدرداء رضی اللہ عنہ صحبت میسر ہوئی، انہوں بھی علقمہ سے بالکل یہی بات کہی جو اس حدیث میں ہے ۔
وضاحت ۲؎ : جن کی دعائیں رب العزت کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہیں۔اوریہ سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ہیں۔
وضاحت ۳؎ : انہیں صاحب کتابیں اس لیے کہاگیا ہے کیوں کہ وہ پہلے مجوسی تھے ، تلاش حق میں پہلے دین عیسیٰ قبول کئے ،پھر مشرف بہ اسلام ہوئے اور قرآن پر ایمان لائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
39-بَاب مَنَاقِبِ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۳۹-باب: حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3812- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَوْ اسْتَخْلَفْتَ قَالَ: إِنْ أَسْتَخْلِفْ عَلَيْكُمْ فَعَصَيْتُمُوهُ عُذِّبْتُمْ، وَلَكِنْ مَا حَدَّثَكُمْ حُذَيْفَةُ؛ فَصَدِّقُوهُ، وَمَا أَقْرَأَكُمْ عَبْدُ اللَّهِ فَاقْرَئُوهُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَقُلْتُ لإِسْحَاقَ بْنِ عِيسَى: يَقُولُونَ: هَذَا عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ: عَنْ زَاذَانَ إِنْ شَائَ اللَّهُ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَهُوَ حَدِيثُ شَرِيكٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۳۲۲) (ضعیف)
(سندمیں ابوالیقظان اور شریک القاضی دونوں ضعیف راوی ہیں، ابوالیقظان شیعی بھی ہے)
۳۸۱۲- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! کاش ! آپ اپنا جانشین مقرر فرمادیتے، آپ نے فرمایا:'' اگر میں نے اپنا جانشین مقرر کردیا اور تم نے اس کی نافرمانی کی تو تم عذاب دیئے جاؤ گے، البتہ حذیفہ جو کچھ تم سے کہیں تم ان کی تصدیق کرو''، اورجو عبداللہ (بن مسعود) ۱؎ تمہیں پڑھائیں انہیں پڑھ لو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے اور یہ شریک کی روایت سے ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث شریک اور ابوالیقظان کی وجہ سے سنداً ضعیف ہے ،مگر خلافت کے بارے میں ابن مسعودکی وصیت کی بابت ایک صحیح حدیث (رقم :(۳۸۱۸)گزرچکی ہے ، اس حدیث کا ما حصل یہ ہے کہ آپ نے واضح طورپر اپنے جانشین کا نام تو نہیں بتایا ، مگر حذیفہ رضی اللہ کی احالہ کرکے اشارہ کردیا کہ جو حذیفہ بتائیں، وہی میری بات ہے ، ابوحذیفہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بعد میں بتادیا، (نیز دیکھئے حدیث رقم : ۲/۳۸)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
40-بَاب مَنَاقِبِ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۴۰-باب: زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3813- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ فَرَضَ لأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ فِي ثَلاثَةِ آلافٍ وَخَمْسِ مِائَةٍ، وَفَرَضَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِي ثَلاثَةِ آلافٍ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لأَبِيهِ: لِمَ فَضَّلْتَ أُسَامَةَ عَلَيَّ فَوَاللَّهِ مَا سَبَقَنِي إِلَى مَشْهَدٍ قَالَ: لأَنَّ زَيْدًا كَانَ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنْ أَبِيكَ، وَكَانَ أُسَامَةُ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنْكَ فَآثَرْتُ حُبَّ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَلَى حُبِّي.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۰۱) (ضعیف)
(سند میں سفیان بن وکیع ضعیف راوی ہیں)
۳۸۱۳- اسلم عدوی مولیٰ عمرسے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے لیے بیت المال سے ساڑھے تین ہزار کا، وظیفہ مقرر کیا، اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے لیے تین ہزار کا تو عبداللہ بن عمر نے اپنے باپ سے عرض کیا: آپ نے اسامہ کو مجھ پر ترجیح دی؟ اللہ کی قسم ! وہ مجھ سے کسی غزوہ میں آگے نہیں رہے، تو انہوں نے کہا: اس لیے کہ زید رسول اللہ ﷺ کو تمہارے باپ سے اور اسامہ تم سے زیادہ محبوب تھے، اس لیے میں نے رسول اللہ ﷺ کے محبوب کو اپنے محبوب پر ترجیح دی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔


3814- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: مَا كُنَّا نَدْعُو زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ إِلا زَيْدَ ابْنَ مُحَمَّدٍ حَتَّى نَزَلَتْ: {ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ}[الأحزاب: 5].
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۳۲۰۹ (صحیح)
۳۸۱۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم زید بن حارثہ کو زید بن محمد ہی کہہ کر پکارتے تھے یہاں تک کہ آیت کریمہ {ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ } ۱؎ نازل ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : تم متبنی (لے پالک) لوگوں کو ان کے اپنے باپوں کے نام پکاراکرو، یہی بات اللہ کے نزدیک زیادہ قرین انصاف بات ہے (الاحزاب:۵)۔


3815- حَدَّثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَخْلَدٍ الْبَصْرِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الرُّومِيِّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي جَبَلَةُ بْنُ حَارِثَةَ أَخُو زَيْدٍ قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! ابْعَثْ مَعِي أَخِي زَيْدًا قَالَ: هُوَ ذَا؟ قَالَ: فَإِنْ انْطَلَقَ مَعَكَ لَمْ أَمْنَعْهُ قَالَ زَيْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَاللَّهِ لا أَخْتَارُ عَلَيْكَ أَحَدًا قَالَ: فَرَأَيْتُ رَأْيَ أَخِي أَفْضَلَ مِنْ رَأْيِي.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ الرُّومِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۱۸۲) (حسن) (تراجع الألبانی ۶۰۰)
۳۸۱۵- زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بھائی جبلہ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اورمیں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میرے بھائی زید کو میرے ساتھ بھیج دیجئے ، آپ نے فرمایا:'' وہ موجود ہیں اگر تمہارے ساتھ جانا چاہ رہے ہیں تو میں انہیں نہیں روکوں گا، یہ سن کر زید نے کہا: اللہ کے رسول ! قسم اللہ کی ! میں آپ کے مقابلہ میں کسی اور کو اختیارنہیں کرسکتا، جبلہ کہتے ہیں: تو میں نے دیکھا کہ میرے بھائی کی رائے میری رائے سے افضل تھی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے ، ہم اسے صرف ابن رومی کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ علی بن مسہر سے روایت کرتے ہیں۔


3816- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بَعَثَ بَعْثًا، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ فَطَعَنَ النَّاسُ فِي إِمْرَتِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "إِنْ تَطْعَنُوا فِي إِمْرَتِهِ فَقَدْ كُنْتُمْ تَطْعَنُونَ فِي إِمْرَةِ أَبِيهِ مِنْ قَبْلُ، وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كَانَ لَخَلِيقًا لِلإِمَارَةِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ، وَإِنَّ هَذَا مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ بَعْدَهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/المغازي ۸۷ (۴۴۶۹) (تحفۃ الأشراف: ۷۲۳۶) (صحیح)
3816/م- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۸۱۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور اس کا امیر اسامہ بن زید کو بنایا تو لوگ ان کی امارت پر تنقید کرنے لگے چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اگر تم ان کی امارت میں طعن کرتے ہو تو اس سے پہلے ان کے باپ کی امارت پر بھی طعن کرچکے ہو ۱؎ ، قسم اللہ کی ! وہ (زید) امارت کے مستحق تھے اور وہ مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب تھے، اور ان کے بعد یہ بھی ( اسامہ) لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۳۸۱۶/م- عبداللہ بن دینار نے عمر کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مالک بن انس کی حدیث ہی جیسی حدیث روایت کی۔
وضاحت ۱؎ : آپ کا اشارہ غزوہ موتہ میں زید کو امیربنانے کے واقعے کی طرف ہے ، اس حدیث سے دونوں باپ بیٹوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
41-بَاب مَنَاقِبِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۴۱-باب: اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے مناقب کابیان​


3817- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ هَبَطْتُ وَهَبَطَ النَّاسُ الْمَدِينَةَ فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَقَدْ أَصْمَتَ فَلَمْ يَتَكَلَّمْ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَضَعُ يَدَيْهِ عَلَيَّ وَيَرْفَعُهُمَا فَأَعْرِفُ أَنَّهُ يَدْعُولِي.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲) (حسن)
۳۸۱۷- اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ کی بیماری شدید ہوگئی تو میں (جرف سے) اتر کر مدینہ آیا اور (میرے ساتھ) کچھ اور لوگ بھی آئے ، میں رسول اللہ ﷺ کے پاس اندر گیا تو آپ کی زبان بند ہوچکی تھی، پھر اس کے بعد آپ کچھ نہیں بولے ، آپ اپنے دونوں ہاتھ میرے اوپر رکھتے اور اٹھاتے تھے تو میں یہی سمجھ رہاتھا کہ آپ میرے لیے دعا فرمارہے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔


3818- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: أَرَادَ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يُنَحِّيَ مُخَاطَ أُسَامَةَ قَالَتْ عَائِشَةُ: دَعْنِي حَتَّى أَكُونَ أَنَا الَّذِي أَفْعَلُ قَالَ: "يَا عَائِشَةُ! أَحِبِّيهِ فَإِنِّي أُحِبُّهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۷۵) (صحیح)
۳۸۱۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اسامہ کی ناک پونچھنے کا ارادہ فرمایا ۱؎ تو میں نے کہا: آپ چھوڑیں میں صاف کئے دیتی ہوں، آپ نے فرمایا:'' عائشہ ! تم اس سے محبت کرو کیوں کہ میں اس سے محبت کرتاہوں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ اس وقت کی بات ہے جب اسامہ بچے تھے، آدمی اسی بچے کی ناک پونچھتاہے جس سے انتہائی محبت رکھتاہے، جیسے اپنے بچے بسااوقات آدمی کسی رشتہ دار یا دوست کے بچے سے محبت تو رکھتاہے لیکن اس کی محبت میں اس حدتک نہیں جاتاکہ اس کی ناک پونچھے اس لیے آپﷺکا اسامہ کی ناک پونچھنے کے لیے اٹھنا ان سے آپ کی انتہائی محبت کی دلیل ہے۔


3819- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ قَالَ: حَدَّثَ عُمَرُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ إِذْ جَاءَ عَلِيٌّ وَالْعَبَّاسُ يَسْتَأْذِنَانِ فَقَالا: يَا أُسَامَةُ! اسْتَأْذِنْ لَنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! عَلِيٌّ وَالْعَبَّاسُ يَسْتَأْذِنَانِ فَقَالَ: أَتَدْرِي مَا جَاءَ بِهِمَا قُلْتُ: لاَ أَدْرِي فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "لَكِنِّي أَدْرِي فَأَذِنَ لَهُمَا" فَدَخَلا فَقَالا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ أَيُّ أَهْلِكَ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ فَقَالا: مَا جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ عَنْ أَهْلِكَ قَالَ: "أَحَبُّ أَهْلِي إِلَيَّ مَنْ قَدْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَأَنْعَمْتُ عَلَيْهِ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ" قَالاَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: "ثُمَّ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ" قَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! جَعَلْتَ عَمَّكَ آخِرَهُمْ قَالَ: "لأَنَّ عَلِيًّا قَدْ سَبَقَكَ بِالْهِجْرَةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَكَانَ شُعْبَةُ يُضَعِّفُ عُمَرَ بْنَ أَبِي سَلَمَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳) (ضعیف)
(سندمیں عمر بن ابی سلمہ روایت حدیث میں غلطیاں کرجاتے تھے)
۳۸۱۹- اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں نبی اکرمﷺ کے پاس بیٹھا ہواتھا، اتنے میں علی اور عباس رضی اللہ عنہما دونوں اندر آنے کی اجازت مانگنے لگے ،انہو ں نے کہا: اسامہ! ہمارے لیے رسول اللہ ﷺ سے اجازت مانگو، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! علی اور عباس دونوں اندر آنے کی جازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا:'' کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ کیوں آئے ہیں؟ میں نے عرض کیا: میں نہیں جانتا، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' مجھے تو معلوم ہے''، پھر آپ نے انہیں اجازت دے دی وہ اندر آئے اور عرض کیاکہ ہم آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں تاکہ ہم آپ سے پوچھیں کہ آپ کے اہل میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا:'' فاطمہ بنت محمد''، تو وہ دونوں بولے: ہم آپ کی اولاد کے متعلق نہیں پوچھتے ہیں، آپ نے فرمایا:'' میرے گھروالوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جس پر اللہ نے انعام کیا اور میں نے انعام کیا ہے، اور وہ اسامہ بن زید ہیں''، وہ دونوں بولے :پھر کون؟ آپ نے فرمایا:'' پھر علی بن ابی طالب ہیں''،عباس بولے: اللہ کے رسول ! آپ نے اپنے چچا کو پیچھے کردیا، آپ نے فرمایا:'' علی نے تم سے پہلے ہجرت کی ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- شعبہ : عمربن ابی سلمہ کو ضعیف قراردیتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
42-بَاب مَنَاقِبِ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۴۲-باب: جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3820- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو الأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ بَيَانٍ، عَنْ قَيْسِ ابْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: مَا حَجَبَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مُنْذُ أَسْلَمْتُ وَلاَ رَآنِي إِلاَّ ضَحِكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجھاد ۱۶۲ (۳۰۳۵)، وفضائل الأنصار ۲۱ (۳۸۲۲)، والأدب ۶۸ (۶۰۹۰)، م/فضائل الصحابۃ ۲۹ (۲۴۷۵)، ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۵۹) (تحفۃ الأشراف: ۳۲۲۴) (صحیح)
۳۸۲۰- جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : جب سے میں اسلام لایاہوں رسول اللہ ﷺ نے مجھے (اجازت مانگنے پر اندر داخل ہو نے سے)منع نہیں فرمایا ۱؎ اور جب بھی آپ نے مجھے دیکھا آپ مسکرائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جب بھی اندر آنے کی اجازت طلب کی آپ نے اجازت دیدی ، منع نہیں کیا، اجازت کے بعدمستورات کو پردہ کراکر اندر آنے دینے میں کوئی حرج نہیں، اس سے خواہ مخواہ یہ نکتہ نکالنے کی ضرورت نہیں کہ اس سے خاص مردانہ حلیہ مراد ہے ،ہر بار اجازت لینے پر اندر آنے کی اجازت دیدینااس آدمی سے خاص لگاؤکی دلیل ہے ۔


3821- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسٍ عَنْ جَرِيرٍ قَالَ: مَا حَجَبَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مُنْذُ أَسْلَمْتُ وَلاَ رَآنِي إِلاَّ تَبَسَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۸۲۱- جریربن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے جب سے میں اسلام لایاہوں مجھے (اندرجانے سے)منع نہیں کیا اور جب بھی آپ نے مجھے دیکھا آپ مسکرائے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
43-بَاب مَنَاقِبِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا
۴۳-باب: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے مناقب کابیان​


3822- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ أَبِي جَهْضَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ رَأَى جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلام مَرَّتَيْنِ، وَدَعَا لَهُ النَّبِيُّ ﷺ مَرَّتَيْنِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ، وَلاَ نَعْرِفُ لأَبِي جَهْضَمٍ سَمَاعًا مِنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَقَدْ رَوَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبُو جَهْضَمٍ اسْمُهُ مُوسَى بْنُ سَالِمٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۵۰۲) (ضعیف)
(سندمیں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں)
۳۸۲۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے جبرئیل علیہ السلام کو دوبار دیکھا اور نبی اکرم ﷺ نے ان کے لیے دومرتبہ دعائیں کیں ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث مرسل ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ ابوجہضم کا ابن عباس سے سماع ہے یا نہیں ۲-یہ حدیث عبید اللہ بن عبداللہ بن عباس سے بھی ابن عباس کے واسطہ سے آئی ہے، ۳- اور ابوجہضم کانام موسیٰ بن سالم ہے۔


3823- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُكْتِبُ الْمُؤَدِّبُ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ الْمُزَنِيُّ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: دَعَا لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يُؤْتِيَنِي اللَّهُ الْحِكْمَةَ مَرَّتَيْنِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عَطَائٍ، وَقَدْ رَوَاهُ عِكْرِمَةُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) وانظر مایأتي (صحیح)
۳۸۲۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دوبار مجھے حکمت سے نوازے جانے کی دعا فرمائی ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے عطا کی روایت سے غریب ہے اور اسے عکرمہ نے ابن عباس سے روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : ایک مرتبہ اپنے سینہ سے چمٹا کر آپ ﷺ نے ان کے حق میں یہ دعا کی کہ رب العالمین انہیں علم و حکمت عطا فرما اور دوسری مرتبہ جب وہ آپ ﷺ کے لیے وضو کا پانی رکھ رہے تھے تو یہ دعا کی کہ اللہ تو انہیں دین کی سمجھ عطا فرما۔


3824- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: ضَمَّنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَقَالَ: "اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْحِكْمَةَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۲۴ (۳۷۵۶)، والاعتصام ۱ (۷۲۷۰)، ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۶۶) (تحفۃ الأشراف: ۶۰۴۹) (صحیح)
۳۸۲۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے سینے سے لگاکرفرمایا:'' اے اللہ ! اسے حکمت سکھادے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : حکمت سے مراد ''سنت''ہے قرآن کی تفسیر کی تعلیم کی دعابھی آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے لیے کی تھی، یہاں سنت کی تعلیم کی دعاء کا تذکرہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
44-بَاب مَنَاقِبِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا
۴۴-باب: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مناقب کابیان​


3825- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّمَا فِي يَدِي قِطْعَةُ إِسْتَبْرَقٍ، وَلاَ أُشِيرُ بِهَا إِلَى مَوْضِعٍ مِنَ الْجَنَّةِ إِلاَّ طَارَتْ بِي إِلَيْهِ فَقَصَصْتُهَا عَلَى حَفْصَةَ؛ فَقَصَّتْهَا حَفْصَةُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: "إِنَّ أَخَاكِ رَجُلٌ صَالِحٌ أَوْ إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ رَجُلٌ صَالِحٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/التہجد ۲۱ (۱۱۵۶)، والتعبیر ۲۵ (۶۹۹۱)، م/فضائل الصحابۃ ۳۱ (۲۴۷۸) (تحفۃ الأشراف: ۷۵۱۴) (صحیح)
۳۸۲۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : میں نے خواب میں دیکھا گویا میرے ہاتھ میں موٹے ریشم کا ایک ٹکڑا ہے اور اس سے میں جنت کی جس جگہ کی جانب اشارہ کرتاہوں تو وہ مجھے اڑا کر وہاں پہنچادیتاہے، تو میں نے یہ خواب (ام المومنین) حفصہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا پھر حفصہ نے اسے نبی اکرم ﷺ سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا:'' تیرا بھائی ایک مرد صالح ہے یا فرمایا:'' عبداللہ مرد صالح ہیں '' ۱؎ ۔امام ترمذی : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : کسی کے صالح ہونے کی شہادت اللہ کے رسول ﷺدیں، اس کے شرف کا کیا پوچھنا!۔
 
Top