• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
153- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَنْ يَخُصَّ الإِمَامُ نَفْسَهُ بِالدُّعَاءِ
۱۵۳- باب: امام کا دعا کو اپنے لیے خاص کر نے کی کراہت کا بیان​


357- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنِي حَبِيبُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ يَزِيدَ ابْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِي حَيٍّ الْمُؤَذِّنِ الْحِمْصِيِّ، عَنْ ثَوْبَانَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ:"لاَ يَحِلُّ لامْرِءِ أَنْ يَنْظُرَ فِي جَوْفِ بَيْتِ امْرِءِ حَتَّى يَسْتَأْذِنَ، فَإِنْ نَظَرَ فَقَدْ دَخَلَ، وَلاَ يَؤُمَّ قَوْمًا فَيَخُصَّ نَفْسَهُ بِدَعْوَةٍ دُونَهُمْ، فَإِنْ فَعَلَ فَقَدْ خَانَهُمْ، وَلاَ يَقُومُ إِلَى الصَّلاَةِ وَهُوَ حَقِنٌ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي أُمَامَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ثَوْبَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ السَّفْرِ بْنِ نُسَيْرٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَكَأَنَّ حَدِيثَ يَزِيدَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِي حَيٍّ الْمُؤَذِّنِ، عَنْ ثَوْبَانَ فِي هَذَا: أَجْوَدُ إِسْنَادًا وَأَشْهَرُ.
* تخريج: الطہارۃ ۴۳ (۹۰)، ق/الإمامۃ ۳۱ (۹۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۸۹)، حم (۵/۲۸۰) (ضعیف)
(سندمیں''یزید بن شریح ''ضعیف ہیں، مگراس کے '' ولا يقوم إلى الصلاة و هو حقن'' پیشاب...'' والے ٹکڑے کے صحیح شواہد موجودہیں)
۳۵۷- ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' کسی آدمی کے لیے جائزنہیں کہ وہ کسی کے گھر کے اندرجھانک کردیکھے جب تک کہ گھرمیں داخل ہونے کی اجازت نہ لے لے۔ اگر اس نے (جھانک کر)دیکھا تو گویا وہ اندر داخل ہوگیا۔ اورکوئی لوگوں کی امامت اس طرح نہ کرے کہ ان کو چھوڑ کردعاکو صرف اپنے لیے خاص کرے، اگر اس نے ایسا کیا تواس نے ا ن سے خیانت کی، اورنہ کوئی صلاۃ کے لیے کھڑا ہواورحال یہ ہوکہ وہ پاخانہ اور پیشاب کوروکے ہوئے ہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- یہ حدیث معاویہ بن صالح سے بھی مروی ہے، معاویہ نے اس کو بطریق : '' سَفْرِ بْنِ نُسَيْرٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ '' روایت کی ہے، نیزیہ حدیث یزید بن شریح ہی کے واسطے سے بطریق : '' أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ '' روایت کی گئی ہے۔ یزید بن شریح کی حدیث بطریق : '' أَبِي حَيٍّ الْمُؤَذِّنِ، عَنْ ثَوْبَانَ '' سند کے اعتبار سے سب سے عمدہ اور مشہور ہے،۳- اس باب میں ابوہریرہ اور ابوامامہ رضی اللہ عنہما سے احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
154- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ أَمَّ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ
۱۵۴- باب: جوکسی قوم کی امامت کرے، اور لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں​


358- حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ وَاصِلِ بْنِ عَبْدِالأَعْلَى الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ الأَسَدِيُّ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ دَلْهَمٍ، عَنْ الْحَسَنِ قَال: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: لَعَنَ رَسُولُ اللهِ ﷺ ثَلاَثَةً: رَجُلٌ أَمَّ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ، وَامْرَأَةٌ بَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَلَيْهَا سَاخِطٌ، وَرَجُلٌ سَمِعَ حَيَّ عَلَى الْفَلاَحِ، ثُمَّ لَمْ يُجِبْ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَطَلْحَةَ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَبِي أُمَامَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ لاَ يَصِحُّ، لأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَمُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ تَكَلَّمَ فِيهِ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَضَعَّفَهُ، وَلَيْسَ بِالْحَافِظِ. وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَؤُمَّ الرَّجُلُ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ، فَإِذَا كَانَ الإِمَامُ غَيْرَ ظَالِمٍ فَإِنَّمَا الإِثْمُ عَلَى مَنْ كَرِهَهُ. و قَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ فِي هَذَا: إِذَا كَرِهَ وَاحِدٌ، أَوْ اثْنَانِ، أَوْ ثَلاَثَةٌ فَلاَ بَأْسَ أَنْ يُصَلِّيَ بِهِمْ، حَتَّى يَكْرَهَهُ أَكْثَرُ الْقَوْمِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۲۸) (ضعیف جدا)
(سندمیں محمدبن القاسم کی علماء نے تکذیب کی ہے، اس لیے اس کی سند سخت ضعیف ہے، لیکن اس کے پہلے ٹکڑے کے صحیح شواہد موجودہیں، دیکھیے اگلی دونوں حدیثیں)
۳۵۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے تین لوگوں پرلعنت فرمائی ہے: ایک وہ شخص جولوگوں کی امامت کرے اور لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں۔ دوسری وہ عورت جو رات گزارے اور اس کا شوہر اس سے ناراض ہو، تیسرا وہ جو'' حي على الفلاح'' سُنے اوراس کا جواب نہ دے(یعنی جماعت میں حاضرنہ ہو)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث صحیح نہیں ہے کیوں کہ حقیقت میں یہ حدیث حسن (بصری)سے بغیر کسی واسطے کے نبی اکرمﷺ سے مرسلاًمروی ہے، ۲- محمد بن قاسم کے سلسلہ میں احمد بن حنبل نے کلام کیا ہے، انہوں نے انہیں ضعیف قراردیا ہے۔اور یہ کہ وہ حافظ نہیں ہیں ۱؎ ، ۳- اس باب میں ابن عباس ، طلحہ، عبداللہ بن عمرو اور ابوامامہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- بعض اہل علم کے یہاں یہ مکروہ ہے کہ آدمی لوگوں کی امامت کرے اوروہ اسے ناپسند کرتے ہوں او ر جب امام ظالم (قصوروار) نہ ہو تو گناہ اسی پر ہوگا جو ناپسند کرے ۔احمد اور اسحاق بن راہویہ کااس سلسلہ میں یہ کہنا ہے کہ جب ایک یا دو یاتین لوگ ناپسند کریں تو اس کے انہیں صلاۃ پڑھانے میں کوئی حرج نہیں، الا یہ کہ لوگوں کی اکثریت اُسے ناپسند کرتی ہو۔
وضاحت ۱؎ : اس عبارت کا ماحصل یہ ہے کہ اس کا موصول ہونا صحیح نہیں ہے اس لیے محمد بن قاسم اسے موصول روایت کرنے میں منفردہیں اوروہ ضعیف ہیں اس لیے صحیح یہی ہے کہ یہ مرسل ہے، اورمرسل ضعیف ہے ۔


359- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلاَلِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الْمُصْطَلِقِ قَالَ: كَانَ يُقَالُ: أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ اثْنَانِ: امْرَأَةٌ عَصَتْ زَوْجَهَا، وَإِمَامُ قَوْمٍ وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ. قَالَ هَنَّادٌ: قَالَ جَرِيرٌ: قَالَ مَنْصُورٌ: فَسَأَلْنَا عَنْ أَمْرِ الإِمَامِ؟ فَقِيلَ لَنَا: إِنَّمَا عَنَى بِهَذَا أَئِمَّةً ظَلَمَةً، فَأَمَّا مَنْ أَقَامَ السُّنَّةَ فَإِنَّمَا الإِثْمُ عَلَى مَنْ كَرِهَهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۱۴) (صحیح الإسناد)
۳۵۹- عمروبن حارث بن مصطلق کہتے ہیں: کہا جاتاتھا کہ قیامت کے روز سب سے سخت عذاب دوطرح کے لوگوں کو ہوگا: ایک اس عورت کو جو اپنے شوہر کی نافرمانی کرے، دوسرے اس امام کو جسے لوگ ناپسند کرتے ہوں۔
منصور کہتے ہیں کہ ہم نے امام کے معاملے میں پوچھا توہمیں بتایا گیا کہ اس سے مراد ظالم ائمہ ہیں،لیکن جوامام سنت قائم کرے تو گناہ اس پر ہوگا جواسے ناپسند کرے۔


360- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو غَالِبٍ قَال: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"ثَلاَثَةٌ لاَتُجَاوِزُ صَلاَتُهُمْ آذَانَهُمْ: الْعَبْدُ الآبِقُ حَتَّى يَرْجِعَ، وَامْرَأَةٌ بَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَلَيْهَا سَاخِطٌ، وَإِمَامُ قَوْمٍ وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَأَبُو غَالِبٍ اسْمُهُ: حَزَوَّرٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۹۳۷) (حسن)
۳۶۰- ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ( ﷺ )نے فرمایا: ''تین لوگوں کی صلاۃان کے کانوں سے اوپر نہیں جاتی: ایک بھگوڑے غلام کی جب تک کہ وہ(اپنے مالک کے پاس) لوٹ نہ آئے، دوسرے عورت کی جورات گزارے اور اس کا شوہر اس سے ناراض ہو، تیسرے اس امام کی جسے لوگ ناپسند کرتے ہوں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
155- بَاب مَا جَاءَ إِذَا صَلَّى الإِمَامُ قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا
۱۵۵- باب: جب امام بیٹھ کرصلاۃ پڑھے تو مقتدی بھی بیٹھ کرپڑھیں​


361- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ قَالَ: خَرَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ فَرَسٍ فَجُحِشَ، فَصَلَّى بِنَا قَاعِدًا، فَصَلَّيْنَا مَعَهُ قُعُودًا، ثُمَّ انْصَرَفَ فَقَالَ: إِنَّمَا الإِمَامُ، أَوْ إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ، لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِذَا صَلَّى قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا أَجْمَعُونَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَمُعَاوِيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ خَرَّ عَنْ فَرَسٍ فَجُحِشَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، مِنْهُمْ جَابِرُ بْنُ عَبْدِاللهِ، وَأُسَيْدُبْنُ حُضَيْرٍ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ، وَغَيْرُهُمْ. وَبِهَذَا الْحَدِيثِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا صَلَّى الإِمَامُ جَالِسًا لَمْ يُصَلِّ مَنْ خَلْفَهُ إِلاَّ قِيَامًا، فَإِنْ صَلَّوْا قُعُودًا لَمْ تُجْزِهِمْ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ.
* تخريج: خ/الصلاۃ ۱۸ (۳۷۸)، والأذان ۵۱ (۶۸۹)، و۸۲ (۸۳۲)، و۱۲۸ (۸۰۵)، وتقصیر الصلاۃ ۱۷ (۱۱۱۴)، م/الصلاۃ ۱۹ (۴۱۱)، د/الصلاۃ ۶۹ (۶۰۱)، ن/الإمامۃ ۱۶ (۷۹۵)، و۴۰ (۸۳۳)، والتطبیق ۲۲ (۱۰۶۲)، ق/الإقامۃ ۱۴۴ (۱۲۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۲۳)، وکذا (۱۵۲۹)، ط/الجماعۃ ۵ (۱۶)، حم (۳/۱۱۰، ۱۶۲) (صحیح)
۳۶۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ گھوڑے سے گرپڑے ، آپ کوخراش آگئی ۱؎ توآپ نے ہمیں بیٹھ کر صلاۃ پڑھائی، ہم نے بھی آپ کے ساتھ بیٹھ کرصلاۃ پڑھی۔ پھرآپ نے ہماری طرف پلٹکر فرمایا:'' امام ہوتا ہی اس لیے ہے یا امام بنایاہی اس لیے گیا ہے تاکہ اس کی اقتداء کی جائے، جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو،اور جب وہ رکوع کرے،توتم بھی رکوع کرو،اور جب وہ سراٹھائے توتم بھی سراٹھاؤ، اور جب وہ'' سمع الله لمن حمده '' کہے توتم '' ربنا لك الحمد''کہو، اور جب وہ سجدہ کرے توتم بھی سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کرصلاۃ پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کرصلاۃ پڑھو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عائشہ ، ابوہریرہ، جابر، ابن عمر اور معاویہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- بعض صحابہ کرام جن میں میں جابر بن عبداللہ ، اسید بن حضیر اورابوہریرہ رضی اللہ عنہم وغیرہ ہیں اسی حدیث کی طرف گئے ہیں اوریہی قول احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی ہے،۴- بعض اہل علم کاکہنا ہے کہ جب امام بیٹھ کرپڑھے تو مقتدی کھڑے ہوکر ہی پڑھیں، اگر انہوں نے بیٹھ کر پڑھی تویہ صلاۃ انہیں کافی نہ ہوگی ، یہ سفیان ثوری ، مالک بن انس، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی دائیں پہلوکی جلد چھل گئی جس کی وجہ سے کھڑے ہو کرصلاۃپڑھنامشکل اوردشوارہوگیا۔
وضاحت ۲؎ : اوریہی راجح قول ہے ، اس حدیث میں مذکورواقعہ پہلے کاہے ، اس کے بعدمرض الموت میں آپﷺ نے بیٹھ کرامامت کی تو ابوبکراور صحابہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکرہی صلاۃ پڑھی ، اس لیے بیٹھ کراقتداء کرنے کی بات منسوخ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
156- بَاب مِنْهُ
۱۵۶ - باب: امام کی پیروی سے متعلق ایک اور باب​


362- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ قَاعِدًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ:"إِذَا صَلَّى الإِمَامُ جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا". وَرُوِيَ عَنْهَا: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَرَجَ فِي مَرَضِهِ، وَأَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَصَلَّى إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ وَالنَّاسُ يَأْتَمُّونَ بِأَبِي بَكْرٍ، وَأَبُو بَكْرٍ يَأْتَمُّ بِالنَّبِيِّ ﷺ. وَرُوِيَ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ قَاعِدًا. وَرُوِي عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ وَهُوَ قَاعِدٌ.
* تخريج: ن/الإمامۃ ۸ (۷۸۷)، ولیس عندہ ''قاعداً'' (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۱۲)، حم (۶/۱۵۹) (صحیح)
۳۶۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺنے اپنی اس بیماری میں جس میں آپ کی وفات ہوئی ابوبکر کے پیچھے بیٹھ کر صلاۃ پڑھی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح غریب ہے۔اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جب امام بیٹھ کرصلاۃ پڑھے توتم بھی بیٹھ کرصلاۃ پڑھو''،اوران سے یہ بھی مروی ہے کہ ''نبی اکرم ﷺاپنی بیماری میں نکلے اور ابوبکر لوگوں کو صلاۃ پڑھارہے تھے تو آپ نے ابوبکر کے پہلو میں صلاۃ پڑھی، لوگ ابوبکر کی اقتداء کررہے تھے اور ابوبکر نبی اکرمﷺ کی اقتداء کررہے تھے۔
اورانہیں سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ابوبکر کے پیچھے بیٹھ کرصلاۃ پڑھی۔
اور انس بن مالک سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ابوبکر کے پیچھے بیٹھ کرصلاۃ پڑھی ۔


363- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي مَرَضِهِ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ قَاعِدًا فِي ثَوْبٍ مُتَوَشِّحًا بِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ: وَهَكَذَا رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ. وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ، عَنْ ثَابِتٍ. وَمَنْ ذَكَرَ فِيهِ عَنْ ثَابِتٍ، فَهُوَ أَصَحُّ.
* تخريج: تفرد المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۹۷)، وانظر حم (۳/۱۵۹، ۲۱۶، ۲۴۳) (صحیح)
۳۶۳- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنی بیماری میں ابوبکر کے پیچھے بیٹھ کر صلاۃ پڑھی اور آپ ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسی طرح اسے یحییٰ بن ایوب نے بھی حمید سے، اورحمیدنے ثابت سے اور ثابت نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے، ۳- نیزاسے اوربھی کئی لوگوں نے حمید سے اورحمیدنے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اوران لوگوں نے اس میں ثابت کے واسطے کا ذکرنہیں کیاہے، لیکن جس نے ثابت کے واسطے کاذکر کیاہے، وہ زیادہ صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
157- بَاب مَا جَاءَ فِي الإِمَامِ يَنْهَضُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ نَاسِيًا
۱۵۷- باب: امام دورکعت کے بعد بیٹھنے کے بجائے بھول کر کھڑا ہوجائے توکیا حکم ہے؟​


364- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: صَلَّى بِنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَنَهَضَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ، فَسَبَّحَ بِهِ الْقَوْمُ وَسَبَّحَ بِهِمْ، فَلَمَّا صَلَّى بَقِيَّةَ صَلاَتِهِ سَلَّمَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْ السَّهْوِ، وَهُوَ جَالِسٌ، ثُمَّ حَدَّثَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ فَعَلَ بِهِمْ مِثْلَ الَّذِي فَعَلَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَسَعْدٍ، وَعَبْدِاللهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي ابْنِ أَبِي لَيْلَى مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ. قَالَ أَحْمَدُ: لاَ يُحْتَجُّ بِحَدِيثِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى. و قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ: ابْنُ أَبِي لَيْلَى هُوَ صَدُوقٌ، وَلاَ أَرْوِي عَنْهُ، لأَنَّهُ لاَ يَدْرِي صَحِيحَ حَدِيثِهِ مِنْ سَقِيمِهِ، وَكُلُّ مَنْ كَانَ مِثْلَ هَذَا فَلاَ أَرْوِي عَنْهُ شَيْئًا. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ. رَوَاهُ سُفْيَانُ عَنْ جَابِرٍ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُبَيْلٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ. وَجَابِرٌ الْجُعْفِيُّ قَدْ ضَعَّفَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، تَرَكَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَغَيْرُهُمَا. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا قَامَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مَضَى فِي صَلاَتِهِ وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ: مِنْهُمْ مَنْ رَأَى قَبْلَ التَّسْلِيمِ، وَمِنْهُمْ مَنْ رَأَى بَعْدَ التَّسْلِيمِ. وَمَنْ رَأَى قَبْلَ التَّسْلِيمِ فَحَدِيثُهُ أَصَحُّ، لِمَا رَوَى الزُّهْرِيُّ وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيُّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ عَنْ عَبْدِ اللهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ.
* تخريج: د/الصلاۃ (۱۰۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۰۴)، حم (۴/۲۴۷، ۲۵۳، ۲۵۴)، دي/الصلاۃ ۱۷۶ (۱۵۴۲) (صحیح)
۳۶۴- عامر بن شراخیل شعبی کہتے ہیں: ہمیں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے صلاۃ پڑھائی، دورکعت کے بعد (بیٹھنے کے بجائے) وہ کھڑے ہوگئے ،تولوگوں نے انہیں سبحان اللہ کہہ کریاددلایاکہ وہ بیٹھ جائیں تو انہوں نے ''سبحان اللہ'' کہہ کرانہیں اشارہ کیا کہ وہ لوگ کھڑے ہوجائیں، پھر جب انہوں نے اپنی بقیہ صلاۃ پڑھ لی تو سلام پھیرا پھربیٹھے بیٹھے سہو کے دوسجدے کئے۔ پھر لوگوں سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہﷺ نے لوگوں کے ساتھ ایساہی کیا تھا جیسے انہوں نے (مغیرہ نے) کیاہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ان سے کئی اوربھی سندوں سے مروی ہے، ۲- بعض اہل علم نے ابن ابی لیلیٰ کے سلسلہ میں ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیاہے۔احمد کہتے ہیں: ابن ابی لیلیٰ کی حدیث لائق استدلال نہیں ۔محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: ابن ابی لیلیٰ صدوق (سچے) ہیں لیکن میں ان سے روایت نہیں کرتا اس لیے کہ یہ نہیں معلوم کہ ان کی حدیثیں کون سی صحیح ہیں اور کون سی ضعیف ہیں، اورجو بھی ایسا ہو میں اس سے روایت نہیں کرتا۔ ۴- یہ حدیث مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے اوربھی سندوں سے مروی ہے، ۵- اسے سفیان نے بطریق : ''جَابِرٍ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُبَيْلٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ '' روایت کیا ہے۔اورجابر جعفی کوبعض اہل علم نے ضعیف قراردیاہے،یحییٰ بن سعید اورعبدالرحمن بن مہدی وغیرہ نے ان سے حدیثیں نہیں لی ہیں۔ ۵- اس باب میں عقبہ بن عامر، سعد اور عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں، ۶- اسی پراہل علم کاعمل ہے کہ آدمی جب دورکعتیں پڑھ کر کھڑاہوجائے تو اپنی صلاۃجاری رکھے اور(اخیرمیں) دوسجدے کرلے ،۷- ان میں سے بعض کا خیال ہے کہ سجدے سلام پھیرنے سے پہلے کرے اوربعض کا ٰخیال ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد کرے۔ ۸-جس کا خیال ہے کہ سلام پھیر نے سے پہلے کرے اس کی حدیث زیادہ صحیح ہے اس لیے کہ اُسے زہری اور یحییٰ بن سعید انصاری نے عبدالرحمن بن اعرج سے اور عبدالرحمن نے عبداللہ ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔


365- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ الْمَسْعُودِيِّ، عَنْ زِيَادِ ابْنِ عِلاَقَةَ قَالَ: صَلَّى بِنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَلَمَّا صَلَّى رَكْعَتَيْنِ قَامَ وَلَمْ يَجْلِسْ، فَسَبَّحَ بِهِ مَنْ خَلْفَهُ، فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنْ قُومُوا، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلاَتِهِ سَلَّمَ وَسَجَدَ سَجْدَتَيْ السَّهْوِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: هَكَذَا صَنَعَ رَسُولُ اللهِ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۰) (صحیح)
۳۶۵- زیاد بن علاقہ کہتے ہیں کہ ہمیں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے صلاۃ پڑھائی ،جب دورکعتیں پڑھ چکے تو (تشہد میں)بغیر بیٹھے کھڑے ہوگئے۔ توجولوگ ان کے پیچھے تھے انہوں نے سبحان اللہ کہا، تو انہوں نے انہیں اشارہ کیاکہ تم بھی کھڑے ہوجاؤ پھر جب وہ اپنی صلاۃ سے فارغ ہوئے توانہوں نے سلام پھیرااورسہو کے دوسجدے کئے اور سلام پھیرا ، اور کہا: ایسے ہی رسول اللہﷺ نے کیاتھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے اوربھی سندوں سے نبی اکرمﷺ سے مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
158- بَاب مَا جَاءَ فِي مِقْدَارِ الْقُعُودِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ
۱۵۸- باب: پہلی دونوں رکعتوں میں قعدہ (تشہد کے لیے بیٹھنے) کی مقدار کا بیان​


366- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ هُوَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا سَعْدُ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ كَأَنَّهُ عَلَى الرَّضْفِ، قَالَ شُعْبَةُ: ثُمَّ حَرَّكَ سَعْدٌ شَفَتَيْهِ بِشَيْئٍ، فَأَقُولُ: حَتَّى يَقُومَ ؟ فَيَقُولُ حَتَّى يَقُومَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، إِلاَّ أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: يَخْتَارُونَ أَنْ لاَ يُطِيلَ الرَّجُلُ الْقُعُودَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ، وَلاَ يَزِيدَ عَلَى التَّشَهُّدِ شَيْئًا. وَقَالُوا: إِنْ زَادَ عَلَى التَّشَهُّدِ فَعَلَيْهِ سَجْدَتَا السَّهْوِ، هَكَذَا رُوِيَ عَنْ الشَّعْبِيِّ وَغَيْرِهِ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۸۸ (۹۹۵)، ن/التطبیق ۱۰۵ (۱۱۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۰۹)، حم (۱/۳۸۶، ۴۱۰، ۴۲۸، ۴۶۰) (ضعیف)
(ابوعبیدہ کا اپنے والد ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے)
۳۶۶- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب پہلی دونوں رکعتوں میں بیٹھتے توایسالگتاگویا آپ گرم پتھرپر بیٹھے ہیں ۱؎ ،شعبہ (راوی) کہتے ہیں: پھرسعد نے اپنے دونوں ہونٹوں کوکسی چیز کے ساتھ حرکت دی ۲؎ تو میں نے کہا: یہاں تک کہ آپ کھڑے ہوجاتے؟ تو انہوں نے کہا : یہاں تک کہ آپ کھڑے ہوجاتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، مگر ابوعبیدہ کا اپنے باپ سے سماع نہیں ہے، ۲- اہل علم کاعمل اسی پر ہے، وہ اسی کو پسندکرتے ہیں کہ آدمی پہلی دونوں رکعتوں میں قعدہ کولمبانہ کرے اورتشہد سے زیادہ کچھ نہ پڑھے، ان لوگوں کاکہنا ہے کہ اگراس نے تشہد سے زیادہ کوئی چیزپڑھی تو اس پرسہوکے دوسجدے لازم ہوجائیں گے، شعبی وغیرہ سے اسی طرح مروی ہے۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی بہت جلد اٹھ جاتے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی چپکے سے کوئی بات کہی جسے میں سن نہیں سکا۔
وضاحت ۳؎ : ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ اثرتوسنداً ضعیف ہے،مگرابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی اثرجواسی معنی میں ہے صحیح ہے ،اوراسی پر امت کا تعامل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
159- بَاب مَا جَاءَ فِي الإِشَارَةِ فِي الصَّلاَةِ
۱۵۹- باب: صلاۃ میں اشارہ کرنے کا بیان​


367- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ نَابِلٍ صَاحِبِ الْعَبَاءِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ صُهَيْبٍ قَالَ: مَرَرْتُ بِرَسُولِ اللهِ ﷺ وَهُوَ يُصَلِّي، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَرَدَّ إِلَيَّ إِشَارَةً. وَقَالَ: لاَ أَعْلَمُ إِلاَّ أَنَّهُ قَالَ: إِشَارَةً بِإِصْبَعِهِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ بِلاَلٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ، وَعَائِشَةَ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۷۰ (۹۲۵)، ن/السہو ۶ (۱۱۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۶۶)، حم (۴/۳۳۲)، دي/الصلاۃ ۹۴ (۱۴۰۱) (صحیح)
۳۶۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں رسول اللہﷺ کے پاس سے گزرااور آپ صلاۃ پڑھ رہے تھے ،میں نے سلام کیا تو آپ نے مجھے اشارے سے جواب دیا، راوی (ابن عمر)کہتے ہیں کہ میرایہی خیال ہے کہ صہیب نے کہا : آپ نے اپنی انگلی کے اشارے سے جواب دیا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: صہیب کی حدیث حسن ہے ۲؎ ،۲- اس باب میں بلال ، ابوہریرہ، انس، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ صلاۃمیں سلام کاجواب اشارہ سے دینا مشروع ہے، یہی جمہورکی رائے ہے، بعض لوگ اسے ممنوع کہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پہلے جائزتھا بعد میں منسوخ ہوگیا، لیکن یہ صحیح نہیں،بلکہ صحیح یہ ہے کہ پہلے صلاۃ میں کلام کرنا جائزتھا تو لوگ سلام کا جواب بھی ''وعلیکم السلام'' کہہ کردیتے تھے، پھرجب صلاۃ میں کلام کرنا ناجائزقراردے دیا گیا تو '' وعلیکم السلام'' کہہ کرسلام کا جواب دینا بھی ناجائزہوگیا اوراس کے بدلے اشارے سے سلام کاجواب دینا مشروع ہوا، اس اشارے کی نوعیت کے سلسلہ میں احادیث مختلف ہیں، بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا اوربعض سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا اس طرح کہ ہاتھ کی پشت اوپرتھی اور ہتھیلی نیچے تھی، اور بعض احادیث میں ہے کہ آپﷺ نے سر سے اشارہ کیا ان سب سے معلوم ہوا کہ یہ تینوں صورتیں جائز ہیں۔
وضاحت ۲؎ : اگلی حدیث نمبر۳۶۸کے تحت مولف نے اس حدیث پر حکم لگایا ہے ۔


368- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قُلْتُ لِبِلاَلٍ: كَيْفَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ حِينَ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ، وَهُوَ فِي الصَّلاَةِ ؟ قَالَ: كَانَ يُشِيرُ بِيَدِهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَحَدِيثُ صُهَيْبٍ حَسَنٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ عَنْ بُكَيْرٍ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قُلْتُ لِبِلاَلٍ: كَيْفَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَصْنَعُ حَيْثُ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ فِي مَسْجِدِ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ؟ قَالَ: كَانَ يَرُدُّ إِشَارَةً. وَكِلاَ الْحَدِيثَيْنِ عِنْدِي صَحِيحٌ، لأَنَّ قِصَّةَ حَدِيثِ صُهَيْبٍ غَيْرُ قِصَّةِ حَدِيثِ بِلاَلٍ. وَإِنْ كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَوَى عَنْهُمَا فَاحْتَمَلَ أَنْ يَكُونَ سَمِعَ مِنْهُمَا جَمِيعًا.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۷۰ (۹۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۳۸)، حم (۶/۱۲) (صحیح)
۳۶۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی اکرمﷺصحابہ کوجب وہ سلام کرتے اورآپ صلاۃ میں ہوتے توکیسے جواب دیتے تھے؟ توبلال نے کہا: آپ اپنے ہاتھ کے اشارہ سے جواب دیتے تھے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اورصہیب کی حدیث حسن ہے، ہم اسے صرف لیث ہی کی روایت سے جانتے ہیں انہوں نے بکیر سے روایت کی ہے اوریہ زید ابن اسلم سے بھی مروی ہے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے بلال سے پوچھا : نبی اکرمﷺ کس طرح جواب دیتے تھے جب لوگ مسجد بنی عمرو بن عوف میں آپ کو سلام کرتے تھے؟ توانہوں نے جواب دیا کہ آپ اشارے سے جواب دیتے تھے۔ میرے نزدیک دونوں حدیثیں صحیح ہیں، اس لیے کہ صہیب رضی اللہ عنہ کا قصہ بلال رضی اللہ عنہ کے قصے کے علاوہ ہے،ا گرچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان دونوں سے روایت کی ہے، تو اس بات کا احتمال ہے کہ انہوں نے دونوں سے سُنا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
160-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ التَّسْبِيحَ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقَ لِلنِّسَاءِ
۱۶۰- باب: صلاۃ میں امام کے سہوپرمردوں کے ''سبحان اللہ'' کہنے اورعورتوں کے دستک دینے کا بیان​


369- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ، وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عُمَرَ. و قَالَ عَلِيٌّ: كُنْتُ إِذَا اسْتَأْذَنْتُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ يُصَلِّي سَبَّحَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ.
* تخريج: خ/العمل فی الصلاۃ ۵ (۱۲۰۳)، م/الصلاۃ ۲۳ (۴۲۲)، والصلاۃ ۱۷۳ (۹۳۹)، ن/السہو ۱۵ (۱۲۰۸)، ق/الإقامۃ ۶۵ (۱۰۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۱۷)، حم (۲/۲۶۱، ۳۱۷، ۳۷۶، ۴۳۲، ۴۴۰، ۴۷۳، ۴۷۹، ۴۹۲، ۵۰۷)، دي/الصلاۃ ۹۵ (۱۴۰۳) (صحیح)
۳۶۹- ا بوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''صلاۃ میں مردوں کے لیے ''سبحان اللہ'' کہہ کرامام کواس کے سہو پرمتنبہ کرنا اورعورتوں کے لیے دستک دینا ہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی ، سہل بن سعد، جابر، ابوسعید ، ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں نبی اکرمﷺ سے اندرآنے کی اجازت مانگتا اور آپ صلاۃ پڑھ رہے ہوتے توآپ سبحان اللہ کہتے، ۴- اہل علم کا اسی پر عمل ہے احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ جب امام صلاۃ میں بھول جائے تومرد سبحان اللہ کہہ کر اسے متنبہ کریں اورعورتیں زبان سے کچھ کہنے کے بجائے سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی کوبائیں ہاتھ کی پُشت پر مارکراسے متنبہ کریں، کچھ لوگ ''سبحان اللہ'' کہنے کے بجائے'' اللہ اکبر'' کہہ کرامام کومتنبہ کرتے ہیں یہ سنت سے ثابت نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
161- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ التَّثَاؤُبِ فِي الصَّلاَةِ
۱۶۱- باب: صلاۃ میں جمائی لینے کی کراہت کا بیان​


370- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ الْعَلاَءِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"التَّثَاؤُبُ فِي الصَّلاَةِ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا تَثَائَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَكْظِمْ مَا اسْتَطَاعَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَجَدِّ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ التَّثَاؤُبَ فِي الصَّلاَةِ. قَالَ إِبْرَاهِيمُ: إِنِّي لأَرُدُّ التَّثَاؤُبَ بِالتَّنَحْنُحِ.
* تخريج: خ/بدء الخلق ۱۱ (۳۲۸۹)، والأدب ۱۲۵ (۶۲۲۳)، و۱۲۸ (۶۲۲۶)، م/الزہد ۹ (۲۹۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۶۲)، وکذا (۱۳۰۱۹)، حم (۲/۲۶۵، ۳۹۷، ۴۲۸، ۵۱۷)، ویأتي عند المؤلف في الأدب برقم: ۲۷۴۶) (صحیح)
۳۷۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : ''صلاۃمیں جمائی آنا شیطان کی طرف سے ہے،جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے توجہاں تک ہو سکے اسے روکے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوسعید خدری اورعدی بن ثابت کے دادا (عبیدبن عازب) سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے صلاۃ میں جمائی لینے کو مکروہ کہا ہے، ابراہیم کہتے ہیں کہ میں جمائی کو کھنکھار سے لوٹا دیتا ہوں۔
وضاحت ۱؎ : اوراگر روکنا ممکن نہ ہوتومنہ پرہاتھ رکھے، کہتے ہیں: ہاتھ رکھنا بھی اسے روکنے کی کوشش ہے ، جس کا حکم حدیث میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
162- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ صَلاَةَ الْقَاعِدِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلاَةِ الْقَائِمِ
۱۶۲- باب: بیٹھ کر صلاۃ پڑھنے کا ثواب کھڑے ہوکر پڑھنے سے آدھا ہے​


371- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنْ صَلاَةِ الرَّجُلِ، وَهُوَ قَاعِدٌ؟ فَقَالَ:"مَنْ صَلَّى قَائِمًا فَهُوَ أَفْضَلُ، وَمَنْ صَلَّى قَاعِدًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ، وَمَنْ صَلَّى نَائِمًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَاعِدِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَنَسٍ، وَالسَّائِبِ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/تقصیر الصلاۃ ۱۷ (۱۱۱۵)، و۱۸ (۱۱۱۶)، د/الصلاۃ ۱۷۹ (۹۵۱)، ن/قیام اللیل ۲۱ (۱۶۶۱)، ق/الإقامۃ ۱۴۱ (۱۲۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۳۱)، حم (۴/۴۳۳، ۴۳۵، ۴۴۲، ۴۴۳) (صحیح)
۳۷۱- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے آدمی کی صلاۃ کے بارے میں پوچھاجسے وہ بیٹھ کرپڑھ رہاہو؟ تو آپ نے فرمایا: ''جو کھڑے ہوکرصلاۃ پڑھے وہ بیٹھ کرپڑھنے والے کے بالمقابل افضل ہے، کیوں کہ اُسے کھڑے ہوکرپڑھنے والے سے آدھا ثواب ملے گا، اور جو لیٹ کر پڑھے اسے بیٹھ کرپڑھنے والے سے آدھاملے گا'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عمران بن حصین کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو ، انس ، سائب اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اوریہ فرمان نفل صلاۃ کے بارے میں ہے ، جیساکہ آگے آرہاہے۔


372- وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ بِهَذَا الإِسْنَادِ، إِلاَّ أَنَّهُ يَقُولُ: عَنْ عِمْرَانَ ابْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنْ صَلاَةِ الْمَرِيضِ؟ فَقَالَ:"صَلِّ قَائِمًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ".
حَدَّثَنَا بِذَلِكَ هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ بِهَذَا الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلاَ نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ نَحْوَ رِوَايَةِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ. وَقَدْ رَوَى أَبُو أُسَامَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ نَحْوَ رِوَايَةِ عِيسَى بْنِ يُونُسَ. وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ: فِي صَلاَةِ التَّطَوُّعِ.
* تخريج: خ/تقصیر الصلاۃ ۱۹ (۱۱۱۷)، د/الصلاۃ ۱۷۹ (۹۵۲)، وانظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۳۱) (صحیح)




372/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ عَبْدِالْمَلِكِ، عَنْ الْحَسَنِ قَالَ: إِنْ شَاءَ الرَّجُلُ صَلَّى صَلاَةَ التَّطَوُّعِ قَائِمًا وَجَالِسًا وَمُضْطَجِعًا. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي صَلاَةِ الْمَرِيضِ إِذَا لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُصَلِّيَ جَالِسًا. فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: يُصَلِّي عَلَى جَنْبِهِ الأَيْمَنِ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: يُصَلِّي مُسْتَلْقِيًا عَلَى قَفَاهُ، وَرِجْلاَهُ إِلَى الْقِبْلَةِ. قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ:"مَنْ صَلَّى جَالِسًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ"، قَالَ: هَذَا لِلصَّحِيحِ وَلِمَنْ لَيْسَ لَهُ عُذْرٌ، يَعْنِي فِي النَّوَافِلِ، فَأَمَّا مَنْ كَانَ لَهُ عُذْرٌ مِنْ مَرَضٍ أَوْ غَيْرِهِ فَصَلَّى جَالِسًا: فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ الْقَائِمِ. وَقَدْ رُوِيَ فِي بَعْضِ هَذَا الْحَدِيثِ مِثْلُ قَوْلِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۸۴۹۸) (صحیح الإسناد)
۳۷۲- یہ حدیث ابراہیم بن طہمان کے طریق سے بھی اسی سند سے مروی ہے، مگر اس میں یوں ہے: عمران بن حصین کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے مریض کی صلاۃ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا :'' کھڑے ہوکر پڑھو، اگر اس کی طاقت نہ ہوتو بیٹھ کرپڑھو اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹ کر پہلو کے بل پڑھو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- اہل علم کے نزدیک اس حدیث میں جس صلاۃ کا ذکر ہے اس سے مراد نفلی صلاۃ ہے۔ ۲-ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ابن عدی نے بیان کیا ، اورابن عدی نے اشعث بن عبدالملک سے اوراشعث نے حسن سے روایت کی ،وہ کہتے ہیں کہ نفل صلاۃ اگرچاہے توآدمی کھڑے ہوکر پڑھے اور چاہے تو بیٹھ کر پڑھے اور چاہے تو لیٹ کر، ۳- اورمریض کی صلاۃ کے سلسلہ میں جب وہ بیٹھ کرصلاۃ نہ پڑھ سکے اہل علم نے اختلاف کیاہے:بعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے داہنے پہلوپر لیٹ کر پڑھے، اور بعض کہتے ہیں اپنی گدی کے بل چت لیٹ کر پڑھے اوراس کے دونوں پاؤں قبلہ کی طرف ہوں،۴- سفیان ثوری کہتے ہیں کہ اس حدیث میں جو یہ ہے کہ جو بیٹھ کر صلاۃپڑھے گا اُسے کھڑے ہوکرپڑھنے والے کے آدھاثواب ملے گا تویہ (نوافل) میں تندرست کے لیے ہے اوراس شخص کے لیے ہے جسے کوئی عذر(شرعی)نہ ہو،رہاوہ شخص جس کے پاس بیماری یاکسی اور چیز کا عذر ہو اور وہ بیٹھ کر (فرض) صلاۃ پڑھے تو اسے کھڑے ہوکر پڑھنے والے کی طرح پورا پورا ثواب ملے گا۔
اس حدیث کے بعض طرق میں سفیان ثوری کے قول کی طرح کامضمون (مرفوعاًبھی) مروی ہے۔
 
Top