• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
134- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْخُمْرَةِ
۱۳۴- باب: چھوٹی چٹائی پر صلاۃ پڑھنے کا بیان​


331- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُصَلِّي عَلَى الْخُمْرَةِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأُمِّ سُلَيْمٍ، وَعَائِشَةَ، وَمَيْمُونَةَ، وَأُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الأَسَدِ، وَلَمْ تَسْمَعْ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ، وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَبِهِ يَقُولُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ. و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ: قَدْ ثَبَتَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ الصَّلاَةُ عَلَى الْخُمْرَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْخُمْرَةُ هُوَ حَصِيرٌ قَصِيرٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۱۱۵)، وانظر: حم (۱/۲۶۹، ۳۰۹، ۳۲، ۳۵۸) (حسن صحیح)
۳۳۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺخمرہ( چھوٹی چٹائی) پر صلاۃ پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ام حبیبہ ، ابن عمر، ام سلیم، عائشہ، میمونہ، ام کلثوم بنت ابی سلمہ بن عبدالاسد (ام کلثوم بنت ابی سلمہ نے نبی اکرمﷺ سے نہیں سناہے) اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا یہی خیال ہے،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے خمرہ پر صلاۃ ثابت ہے، ۴- خمرہ چھوٹی چٹائی کوکہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
135- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْحَصِيرِ
۱۳۵- باب: چٹائی پرصلاۃ پڑھنے کا بیان​


332- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى عَلَى حَصِيرٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، إِلاَّ أَنَّ قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ اخْتَارُوا الصَّلاَةَ عَلَى الأَرْضِ اسْتِحْبَابًا. وَأَبُو سُفْيَانَ اسْمُهُ طَلْحَةُ بْنُ نَافِعٍ.
* تخريج: م/الصلاۃ ۵۲ (۵۱۹)، والصلاۃ ۴۸ (۶۶۱)، ق/الإقامۃ ۶۳ (۱۰۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۸۲)، حم (۳/۱۰، ۵۲، ۵۹) (صحیح)
۳۳۲- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے چٹائی پرصلاۃ پڑھی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں انس اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اکثر اہل علم کا عمل اسی پرہے ، البتہ اہل علم کی ایک جماعت نے زمین پر صلاۃ پڑھنے کو استحباباً پسندکیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں'' حصیر'' اور اوپروالی میں ''خمرہ'' کا لفظ آیا ہے، فرق یہ ہے کہ ''خمرۃ'' چھوٹی ہوتی ہے اس پر ایک آدمی ہی صلاۃپڑھ سکتا ہے اور حصیر بڑی اورلمبی ہوتی ہے جس پر ایک سے زیادہ آدمی صلاۃپڑھ سکتے ہیں، دونوں ہی کھجورکے پتوں سے بنی جاتی تھیں، اوراس زمانہ میں ٹاٹ ، پلاسٹک ، اون اور کاٹن سے مختلف سائز کے مصلے تیارہوتے ہیں، عمدہ اور نفیس قالین بھی بنائے جاتے ہیں، جو مساجد اورگھروں میں استعمال ہوتے ہیں۔مذکوربالا حدیث میں ان کے جواز کی دلیل پائی جاتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
136- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْبُسُطِ
۱۳۶- باب: بچھونے پرصلاۃ پڑھنے کا بیان​


333- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ الضُّبَعِيِّ، قَال: سَمِعْتُ أَنَسَ ابْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُخَالِطُنَا، حَتَّى إِنْ كَانَ يَقُولُ لأَخٍ لِي صَغِيرٍ:"يَاأَبَا عُمَيْرٍ! مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ؟" قَالَ: وَنُضِحَ بِسَاطٌ لَنَا فَصَلَّى عَلَيْهِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَهُمْ: لَمْ يَرَوْا بِالصَّلاَةِ عَلَى الْبِسَاطِ وَالطُّنْفُسَةِ بَأْسًا. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. وَاسْمُ أَبِي التَّيَّاحِ: يَزِيدُ بْنُ حُمَيْدٍ.
* تخريج: خ/الأدب ۸۱ (۶۱۲۹)، و۱۱۲ (۶۲۰۳)، م/المساجد ۴۸ (۶۵۹)، ق/الأدب ۲۴ (۳۷۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۲)، حم (۳/۲۱۲)، ویأتي عند المؤلف في البر والصلۃ برقم: (۱۹۸۹) (صحیح)
۳۳۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہم سے گھل مل جایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ میرے چھوٹے بھائی سے کہتے: ابوعمیر! نغیر(بلبل) کا کیاہوا؟ہماری چٹائی ۱؎ پرچھڑکاؤکیاگیا پھر آپ نے اس پر صلاۃ پڑھی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے، ۳-صحابہ کرام اوران کے بعد کے لوگوں میں سے اکثراہل علم کاعمل اسی پر ہے۔ وہ چادر اور قالین پرصلاۃ پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : بساط یعنی بچھاون سے مرادچٹائی ہے کیونکہ یہ زمین پربچھائی جاتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
137- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ فِي الْحِيطَانِ
۱۳۷- باب: باغات میں صلاۃ پڑھنے کا بیان​


334- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَسْتَحِبُّ الصَّلاَةَ فِي الْحِيطَانِ. قَالَ أَبُو دَاوُدَ: يَعْنِي الْبَسَاتِينَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مُعَاذٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَنَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ. وَالْحَسَنُ بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ قَدْ ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَغَيْرُهُ. وَأَبُو الزُّبَيْرِ اسْمُهُ: مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ تَدْرُسَ. وَأَبُو الطُّفَيْلِ اسْمُهُ: عَامِرُ بْنُ وَاثِلَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۲۳) (ضعیف)
(سندمیں حسن بن ابی جعفرضعیف ہیں)
۳۳۴- معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ باغات میں صلاۃ پڑھنا پسند فرماتے تھے۔
ابوداود کہتے ہیں: حیطان سے مراد بساتین ہیں (باغات)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: معاذ کی حدیث غریب ہے، اسے ہم حسن بن ابی جعفر ہی کی روایت سے جانتے ہیں، اورحسن بن ابی جعفر کو یحییٰ بن سعید وغیرہ نے ضعیف قراردیاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
138- بَاب مَا جَاءَ فِي سُتْرَةِ الْمُصَلِّي
۱۳۸- باب: مصلی کے سترے کا بیان ۱ ؎​
وضاحت ۱؎ : سترہ ایسی چیز ہے جسے مصلی اپنے آگے نصب کرے یا کھڑا کرے، خواہ وہ دیوارہویاستون، نیزہ ہویا لکڑی وغیرہ تاکہ یہ گزرنے والے اورمصلی کے درمیان آڑرہے ، اس کی سخت تاکید ہے ، نیز میدان یا مسجدمیں اس سلسلے میں کوئی فرق نہیں ہے، اورخانہ کعبہ میں سترہ کے آگے سے گزرنے والی حدیثیں ضعیف ہیں۔


335- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَهَنَّادٌ، قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤَخَّرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ، وَلاَ يُبَالِي مَنْ مَرَّ وَرَاءَ ذَلِكَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، وَابْنِ عُمَرَ وَسَبْرَةَ بْنِ مَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ، وَأَبِي جُحَيْفَةَ، وَعَائِشَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ طَلْحَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَقَالُوا: سُتْرَةُ الإِمَامِ سُتْرَةٌ لِمَنْ خَلْفَهُ.
* تخريج: م/الصلاۃ ۴۷ (۴۹۹)، د/الصلاۃ ۱۰۲ (۶۸۵)، ق/الإقامۃ ۳۶ (۹۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۱۱)، حم (۱/۱۶۱، ۱۶۲) (حسن صحیح)
۳۳۵- طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:''جب تم سے کوئی اپنے آگے کجاوے کی پچھلی لکڑی کی مانند کوئی چیز رکھ لے تو صلاۃ پڑھے اور اس کی پرواہ نہ کرے کہ اس کے آگے سے کون گزراہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- طلحہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ ، سہل بن ابی حثمہ، ابن عمر، سبرہ بن معبد جہنی، ابوجحیفہ اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
139- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْمُرُورِ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي
۱۳۹- باب: مصلی کے آگے سے گزرنے کی کراہت کا بیان​


336- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ أَرْسَلَهُ إِلَى أَبِي جُهَيْمٍ يَسْأَلُهُ مَاذَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي الْمَارِّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي؟ فَقَالَ أَبُو جُهَيْمٍ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَي الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ". قَالَ أَبُوالنَّضْرِ: لاَ أَدْرِي قَالَ: أَرْبَعِينَ يَوْمًا، أَوْ: شَهْرًا، أَوْ: سَنَةً.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي جُهَيْمٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ:"لأَنْ يَقِفَ أَحَدُكُمْ مِائَةَ عَامٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْ أَخِيهِ وَهُوَ يُصَلِّي". وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: كَرِهُوا الْمُرُورَ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي، وَلَمْ يَرَوْا أَنَّ ذَلِكَ يَقْطَعُ صَلاَةَ الرَّجُلِ. وَاسْمُ أَبِي النَّضْرِ سَالِمٌ، مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ الْمَدِينِيِّ.
* تخريج: خ/الصلاۃ ۱۰۱ (۵۱۰)، م/الصلاۃ ۴۸ (۵۰۷)، د/الصلاۃ ۱۰۹ (۷۰۱)، ن/القبلۃ ۸ (۷۵۷)، ق/الإقامۃ ۳۷ (۹۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۸۴)، ط/قصرالصلاۃ ۱۰ (۳۴)، حم (۴/۱۶۹)، دي/الصلاۃ ۱۳۰ (۱۴۵۶) (صحیح)
۳۳۶- بسربن سعید سے روایت ہے کہ زید بن خالد جہنی نے انہیں ابوجہیم رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان سے یہ پوچھیں کہ انہوں نے مصلی کے آگے سے گزرنے والے کے بارے میں رسول اللہﷺ سے کیا سناہے؟توابوجہیم رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے : اگر مصلی کے آگے سے گزرنے والاجان لے کہ اس پر کیا( گناہ) ہے تو اس کے لیے مصلی کے آگے سے گزرنے سے چا لیس... تک کھڑا رہنا بہتر ہوگا۔
ابونضرسالم کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے چالیس دن کہا، یا چالیس مہینے کہا یا چالیس سال۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوجہیم رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوسعید خدری ، ابوہریرہ، ابن عمر اورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:'' تم میں سے کسی کا سوسال کھڑے رہنا اس بات سے بہتر ہے کہ وہ اپنے بھائی کے سامنے سے گزرے اور وہ صلاۃ پڑھ رہاہو''، ۴- اہل علم کے نزدیک عمل اسی پر ہے، ان لوگوں نے مصلی کے آگے سے گزرنے کو مکروہ جاناہے، لیکن ان کی یہ رائے نہیں کہ آدمی کی صلاۃ کو باطل کرد ے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
140- بَاب مَا جَاءَ لاَ يَقْطَعُ الصَّلاَةَ شَيْئٌ
۱۴۰- باب: کوئی بھی چیز صلاۃ کو باطل نہیں کرتی​


337- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كُنْتُ رَدِيفَ الْفَضْلِ عَلَى أَتَانٍ فَجِئْنَا وَالنَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ بِمِنًى، قَالَ: فَنَزَلْنَا عَنْهَا فَوَصَلْنَا الصَّفَّ، فَمَرَّتْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ فَلَمْ تَقْطَعْ صَلاَتَهُمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ التَّابِعِينَ، قَالُوا: لاَ يَقْطَعُ الصَّلاَةَ شَيْئٌ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ.
* تخريج: خ/العلم ۱۸ (۷۶) والصلاۃ ۹۰ (۴۹۳)، والأذان ۱۶۱ (۸۶۱)، وجزاء الصید ۲۵ (۱۸۵۷)، والمغازي ۷۷ (۴۴۱۱)، م/الصلاۃ ۴۷ (۵۰۴)، د/الصلاۃ ۱۱۳ (۷۱۵)، ن/القبلۃ ۷ (۷۵۳)، ق/الإقامۃ ۳۸ (۹۴۷) (تحفۃ الأشراف: ۵۸۳۴)، حم (۱/۲۱۹، ۲۶۴، ۲۶۵، ۳۳۷، ۳۴۲، ۳۶۵)، دي/الصلاۃ ۲۹ (۱۴۵۵) (صحیح)
۳۳۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک گدھی پر(اپنے بھائی) فضل رضی اللہ عنہ کے پیچھے سوار تھا، ہم آئے اور نبی اکرمﷺ منیٰ میں صحابہ کو صلاۃ پڑھارہے تھے، ہم گدھی سے اترے اور صف میں مل گئے۔ اوروہ( گدھی) ان لوگوں کے سامنے پھرنے لگی، تواس نے ان کی صلاۃ باطل نہیں کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عائشہ،فضل بن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ اوران کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا اسی پرعمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ صلاۃ کو کوئی چیزباطل نہیں کرتی،سفیان ثوری اور شافعی بھی یہی کہتے ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں ہے کہ کوئی بھی چیزصلاۃ کوباطل نہیں کرتی ، جبکہ اگلی حدیث میں ہے کہ کتا، گدھااورعورت کے مصلی کے آگے سے گزرنے سے صلاۃباطل ہوجاتی ہے ، ان دونوں حدیثوں میں اس طرح جمع کیا گیاہے ، ۱- صحیح بخاری میں''وہ گدھی ان لوگوں کے سامنے سے گزری تو اس سے ان کی صلاۃباطل نہیں ہوئی''کا جملہ نہیں ہے اصل واقعہ صرف یہ ہے کہ گدھی یا وہ دونوں صرف صف کے بعض حصوں سے گزرے تھے جبکہ امام (آپﷺ) کاسترہ صف کے ان حصوں کا سترہ بھی ہوگیاتھا (آپ خصوصامیدان میں بغیرسترہ کے صلاۃ پڑھتے ہی نہیں تھے) ۲-پہلی حدیث یا اس معنی کی دوسری حدیثوں سے اس بات پر استدلال کسی طرح واضح نہیں ہے، ۳- جبکہ اگلی حدیث قولی میں امت کے لیے خاص حکم ہے ،اور زیادہ صحیح حدیث ہے ، اس لیے مذکورہ تینوں چیزوں کے مصلی کے آگے سے گزرنے سے صلاۃ باطل ہوجاتی ہے (باطل کا معنی اگلی حدیث کے حاشیہ میں ملاحظہ کریں)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
141- بَاب مَا جَاءَ أَنَّهُ لاَ يَقْطَعُ الصَّلاَةَ إِلاَّ الْكَلْبُ وَالْحِمَارُ وَالْمَرْأَةُ
۱۴۱- باب: صلاۃ کوکتے، گدھے اورعورت کے سوا کوئی اور چیز باطل نہیں کرتی​


338- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، وَمَنْصُورُ بْنُ زَاذَانَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلاَلٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الصَّامِتِ قَال: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِذَا صَلَّى الرَّجُلُ وَلَيْسَ بَيْنَ يَدَيْهِ كَآخِرَةِ الرَّحْلِ، أَوْ كَوَاسِطَةِ الرَّحْلِ: قَطَعَ صَلاَتَهُ الْكَلْبُ الأَسْوَدُ وَالْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ". فَقُلْتُ لأَبِي ذَرٍّ: مَا بَالُ الأَسْوَدِ مِنْ الأَحْمَرِ مِنْ الأَبْيَضِ؟ فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي! سَأَلْتَنِي كَمَا سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ؟ فَقَالَ:"الْكَلْبُ الأَسْوَدُ شَيْطَانٌ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَالْحَكَمِ بْنِ عَمْرٍو الْغِفَارِيِّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَيْهِ، قَالُوا: يَقْطَعُ الصَّلاةَ الْحِمَارُ وَالْمَرْأَةُ وَالْكَلْبُ الأَسْوَدُ. قَالَ أَحْمَدُ: الَّذِي لاَ أَشُكُّ فِيهِ أَنَّ الْكَلْبَ الأَسْوَدَ يَقْطَعُ الصَّلاَةَ، وَفِي نَفْسِي مِنْ الْحِمَارِ وَالْمَرْأَةِ شَيْئٌ. قَالَ إِسْحَاقُ: لاَيَقْطَعُهَا شَيْئٌ إِلاَّ الْكَلْبُ الأَسْوَدُ.
* تخريج: م/الصلاۃ ۵۰ (۵۱۰)، د/الصلاۃ ۱۱۰ (۷۰۲)، ن/القبلۃ ۷ (۷۵۱)، ق/الإقامۃ ۳۸ (۹۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۳۹)، حم (۵/۱۴۹، ۵۵۱، ۱۶۰، ۱۶۱)، دي/الصلاۃ ۱۲۸ (۱۴۵۴) (صحیح)
۳۳۸- ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:''جب آدمی صلاۃ پڑھے اور اس کے سامنے کجاوے کی آخری (لکڑی یاکہا :کجاوے کی بیچ کی لکڑی کی طرح) کوئی چیزنہ ہوتو: کالے کتے، عورت اور گدھے کے گزرنے سے اس کی صلاۃ باطل ہوجائے گی'' ۱؎ میں نے ابوذر سے کہا: لال، اور سفید کے مقابلے میں کالے کی کیا خصوصیت ہے؟ انہوں نے کہا: میرے بھتیجے ! تم نے مجھ سے ایسے ہی پوچھا ہے جیسے میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا تھا تو آپ نے فرمایا: ''کالا کتا شیطان ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوسعیدخدری ، حکم بن عمرو بن غفاری ، ابوہریرہ اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں؛ وہ کہتے ہیں کہ گدھا، عورت اور کالا کتا صلاۃ کوباطل کردیتا ہے۔ احمدبن حنبل کہتے ہیں: مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ کالا کتا صلاۃ باطل کر دیتاہے لیکن گدھے اور عورت کے سلسلے میں مجھے کچھ تذبذب ہے،اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: کالے کتے کے سوا کوئی اور چیز صلاۃ باطل نہیں کرتی۔
وضاحت ۱؎ : یہاں باطل ہونے سے مرادصلاۃ کے ثواب اوراس کی برکت میں کمی واقع ہونا ہے، سرے سے صلاۃ کاباطل ہونا مراد نہیں،بعض علماء بالکل باطل ہوجانے کے بھی قائل ہیں کیونکہ ظاہری الفاظ سے یہی ثابت ہوتا ہے ،اس لیے مصلیکو سترہ کی طرف صلاۃ پڑھنے کی ازحد خیال کرنا چاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
142- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ
۱۴۲- باب: ایک کپڑے میں صلاۃ پڑھنے کا بیان​


339- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللهِ ﷺ يُصَلِّي فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ مُشْتَمِلاً فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرٍ، وَسَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، وَأَنَسٍ، وَعَمْرِو بْنِ أَبِي أَسِيدٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَكَيْسَانَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ، وَأُمِّ هَانِئٍ، وَعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، وَطَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ، وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ الأَنْصَارِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ، قَالُوا: لاَ بَأْسَ بِالصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ. وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: يُصَلِّي الرَّجُلُ فِي ثَوْبَيْنِ.
* تخريج: خ/الصلاۃ ۴ (۳۵۶)، م/الصلاۃ ۵۲ (۵۱۷)، د/الصلاۃ ۷۸ (۶۲۸)، ن/القبلۃ ۱۴ (۷۶۵)، ق/الإقامۃ ۶۹ (۱۰۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۸۴)، وکذا (۱۰۶۸۲)، ط/الجماعۃ۹(۲۹)، حم (۴/۲۶، ۲۷) (صحیح)
۳۳۹- عمربن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں اس حال میں صلاۃ پڑھتے دیکھا ، کہ آپ ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عمربن ابی سلمہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ، جابر، سلمہ بن الاکوع، انس، عمروبن ابی اسید، عبادہ بن صامت، ابوسعید خدری، کیسان، ابن عباس ، عائشہ، ام ہانی، عمار بن یاسر، طلق بن علی، اورعبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ صحابہ کرام اوران کے بعد تابعین وغیرہم سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ایک کپڑے میں صلاۃ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اوربعض اہل علم نے کہاہے کہ آدمی دوکپڑوں میں صلاۃ پڑھے۔
وضاحت ۱؎ : شیخین کی روایت میں '' واضعاً طرفيه على عاتقيه'' کااضافہ ہے یعنی آپ اس کے دونوں کنارے اپنے دونوں کندھوں پرڈالے ہوئے تھے، اس سے ثابت ہواکہ اگرایک کپڑے میں بھی صلاۃپڑھے تو دونوں کندھوں کو ضرورڈھانکے رہے ، ورنہ صلاۃ نہیں ہوگی ، اس بابت بعض واضح روایات مروی ہیں، نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ نے اس وقت سرکو نہیں ڈھانکا تھا، ایک کپڑے میں سرکو ڈھانکا ہی نہیں جاسکتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
143- بَاب مَا جَاءَ فِي ابْتِدَاءِ الْقِبْلَةِ
۱۴۳- باب: قبلے کی ابتدا کا بیان​


340- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ ﷺ الْمَدِينَةَ، صَلَّى نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُحِبُّ أَنْ يُوَجِّهَ إِلَى الْكَعْبَةِ، فَأَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى: {قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا، فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ} فَوَجَّهَ نَحْوَ الْكَعْبَةِ، وَكَانَ يُحِبُّ ذَلِكَ، فَصَلَّى رَجُلٌ مَعَهُ الْعَصْرَ، ثُمَّ مَرَّ عَلَى قَوْمٍ مِنْ الأَنْصَارِ وَهُمْ رُكُوعٌ فِي صَلاَةِ الْعَصْرِ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، فَقَالَ: هُوَ يَشْهَدُ أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ، وَأَنَّهُ قَدْ وَجَّهَ إِلَى الْكَعْبَةِ، قَالَ: فَانْحَرَفُوا وَهُمْ رُكُوعٌ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعُمَارَةَ بْنِ أَوْسٍ، وَعَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ، وَأَنَسٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ.
* تخريج: خ/الإیمان ۳۰ (۴۰)، والصلاۃ ۳۱ (۳۹۹)، وتفسیر البقرۃ ۱۲ (۴۴۸۶)، و۱۸ (۴۴۹۲)، وأخبار الآحاد۱ (۷۲۵۲)، م/المساجد ۲ (۵۲۵)، ن/الصلاۃ ۲۲ (۴۸۹، ۴۹۰)، والقبلۃ ۱ (۷۴۳)، ق/الإقامۃ ۵۶ (۱۰۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۴)، وکذا (۱۸۴۹)، حم (۴/۲۸۳، ۳۰۴)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر البقرۃ (۲۹۶۲) (صحیح)
۳۴۰- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب رسول اللہﷺ مدینے آئے تو سولہ یاسترہ ماہ تک آپ نے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے صلاۃ پڑھی اور رسول اللہﷺ کعبہ کی طرف رخ کرنا پسندفرماتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ''قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ'' (ہم آپ کے چہرے کو باربارآسمان کی طرف اٹھتے ہوے دیکھ رہے ہیں، اب ہم آپ کو اس قبلہ کی جانب متوجہ کریں گے جس سے آپ خوش ہوجائیں، اب آپ اپنا رخ مسجد حرام کی طرف پھیر لیجئے)نازل فرمائی، توآپ نے اپنا چہرہ کعبہ کی طرف پھیرلیااورآپ یہی چاہتے بھی تھے، ایک شخص نے آپ کے ساتھ عصر پڑھی ، پھروہ انصارکے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا اوروہ لوگ عصر میں بیت المقدس کی طرف چہرہ کئے رکوع کی حالت میں تھے ، اس نے کہا: میں گواہی دیتاہوں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ اس حال میں صلاۃ پڑھی ہے کہ آپ اپنارخ کعبہ کی طرف کئے ہوئے تھے، تووہ لوگ بھی رکوع کی حالت ہی میں (خانہ کعبہ کی طرف) پھر گئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- براء کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عمر، ابن عباس، عمارہ بن اوس، عمرو بن عوف مزنی اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


341- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانُوا رُكُوعًا فِي صَلاَةِ الصُّبْحِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الصلاۃ ۳۲ (۴۰۳)، وتفسیر البقرۃ ۱۴ (۴۴۸۸)، و۱۶ (۴۴۹۰)، و۱۷ (۴۴۹۱)، و۸ (۴۴۹۲)، و۱۹ (۴۴۹۳)، و۲۰ (۴۴۹۴)، م/المساجد ۲ (۵۲۶)، ن/الصلاۃ ۲۴ (۴۹۴)، والقبلۃ ۳ (۷۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۷۱۵۴)، وکذا (۷۲۲۸)، ط/القبلۃ ۴ (۶)، حم (۲/۱۱۳) (صحیح)
۳۴۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں وہ لوگ صلاۃِفجر میں رکوع میں تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ قباء کا واقعہ ہے اس میں اوراس سے پہلے والی روایت میں کوئی تعارض نہیں ہے،کیونکہ جولوگ مدینہ میں تھے انہیں یہ خبر عصر کے وقت ہی پہنچ گئی تھی(جیسے بنوحارثہ کے لوگ) اور قباء کے لوگوں کو یہ خبردیرسے دوسرے دن صلاۃِفجرمیں پہنچی۔
 
Top