• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
144- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ
۱۴۴- باب: مشرق اور مغرب کے درمیان میں جوہے سب قبلہ ہے​


342- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي مَعْشَرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌَ".
* تخريج: ق/الإقامۃ ۵۶ (۱۰۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۲۴) (صحیح)
۳۴۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺنے فرمایا: '' مشرق (پورب ) اور مغرب (پچھم) کے درمیان جوہے سب قبلہ ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ ان ملکوں کے لیے ہے جو قبلے کے شمال (اُتر) یاجنوب(دکھن) میں واقع ہیں، جیسے مدینہ (شمال میں) اوریمن (جنوب میں) اوربرصغیرہندوپاک یا مصروغیرہ کے لوگوں کے لیے اسی کو یوں کہاجائیگا''شمال اورجنوب کے درمیان جو فضاکا حصہ ہے وہ سب قبلہ ہے ''یعنی اپنے ملک کے قبلے کی سمت میں ذرا سا ٹیڑھاکھڑا ہو نے میں (جو جان بوجھ کر نہ ہو) کوئی حرج نہیں۔


343- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي مَعْشَرٍ: مِثْلَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ قَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي أَبِي مَعْشَرٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَاسْمُهُ"نَجِيحٌ، مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ". قَالَ مُحَمَّدٌ: لاَ أَرْوِي عَنْهُ شَيْئًا، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ النَّاسُ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَحَدِيثُ عَبْدِاللهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيِّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الأَخْنَسِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَقْوَى مِنْ حَدِيثِ أَبِي مَعْشَرٍ وَأَصَحُّ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۴۳- یحیی بن موسیٰ کا بیان ہے کہ ہم سے محمدبن ابی معشر نے بھی اسی کے مثل بیان کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث ان سے اوربھی کئی سندوں سے مروی ہے،۲- بعض اہل علم نے ابومعشر کے حفظ کے تعلق سے کلام کیاہے۔ ان کانام نجیح ہے، وہ بنی ہاشم کے مولیٰ ہیں، ۳- محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: میں ان سے کوئی روایت نہیں کرتا حالاں کہ لوگوں نے ان سے روایت کی ہے نیزبخاری کہتے ہیں کہ عبداللہ بن جعفر مخرمی کی حدیث جسے انہوں نے بسند عثمان بن محمد اخنسی عن سعید المقبری عن أبی ہریرہ روایت کی ہے، ابومعشر کی حدیث سے زیادہ قوی اور زیادہ صحیح ہے۔(یہ حدیث آگے آرہی ہے جو اسی معنی کی ہے)


344- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بَكْرٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيُّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الأَخْنَسِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ، وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَإِنَّمَا قِيلَ عَبْدُاللهِ بْنُ جَعْفَرٍ"الْمَخْرَمِيُّ" لأَنَّهُ مِنْ وَلَدِ"الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ". وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ"مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ" مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَابْنُ عَبَّاسٍ. وقَالَ ابْنُ عُمَرَ: إِذَا جَعَلْتَ الْمَغْرِبَ عَنْ يَمِينِكَ، وَالْمَشْرِقَ عَنْ يَسَارِكَ فَمَا بَيْنَهُمَا قِبْلَةٌ، إِذَا اسْتَقْبَلْتَ الْقِبْلَةَ. وَ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ. هَذَا لأَهْلِ الْمَشْرِقِ، وَاخْتَارَ عَبْدُاللهِ ابْنُ الْمُبَارَكِ التَّيَاسُرَ لأَهْلِ مَرْوٍ.
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۴۲ (تحفۃ الأشراف: ۲۹۹۶) (صحیح)
۳۴۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' مشرق (پورب) اور مغرب(پچھم) کے درمیان جو ہے وہ سب قبلہ ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- کئی صحابہ سے مروی ہے کہ مشرق ومغرب کے درمیان جو ہے سب قبلہ ہے۔ ان میں عمربن خطاب، علی بن ابی طالب، اور ابن عباس رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں، ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب آپ مغرب کو دائیں طرف اور مشرق کو بائیں طرف رکھ کر قبلہ رخ کھڑے ہوں گے تو ان دونوں سمتوں کے درمیان جو ہوگا وہ قبلہ ہوگا، ابن مبارک کہتے ہیں : مشرق ومغرب کے درمیان جو ہے سب قبلہ ہے،یہ اہل مشرق ۱؎ کے لیے ہے۔ اور عبداللہ بن مبارک نے اہل مرو ۲؎ کے لیے بائیں طرف جھکنے کوپسندکیاہے۔
وضاحت ۱؎ : یہاں مشرق سے مراد وہ ممالک ہیں جن پر مشرق کا اطلاق ہوتا ہے جیسے عراق ۔
وضاحت ۲؎ : قاموس میں ہے کہ مرو ایران کا ایک شہرہے اورعلامہ محمد طاہرمغنی میں کہتے ہیں کہ یہ خراسان کا ایک شہر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
145- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي لِغَيْرِ الْقِبْلَةِ فِي الْغَيْمِ
۱۴۵- باب: جوشخص بدلی میں غیر قبلہ کی طرف منہ کرکے صلاۃ پڑھ لے اس کا کیا حکم ہے؟​


345- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ سَعِيدٍ السَّمَّانُ، عَنْ عَاصِمِ ابْنِ عُبَيْدِاللهِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ، فَلَمْ نَدْرِ أَيْنَ الْقِبْلَةُ، فَصَلَّى كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا عَلَى حِيَالِهِ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا ذَكَرْنَا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَنَزَلَ {فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِذَاكَ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ أَشْعَثَ السَّمَّانِ، وَأَشْعَثُ بْنُ سَعِيدٍ أَبُو الرَّبِيعِ السَّمَّانُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ. وَقَدْ ذَهَبَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا. قَالُوا: إِذَا صَلَّى فِي الْغَيْمِ لِغَيْرِ الْقِبْلَةِ، ثُمَّ اسْتَبَانَ لَهُ بَعْدَمَا صَلَّى أَنَّهُ صَلَّى لِغَيْرِ الْقِبْلَةِ فَإِنَّ صَلاَتَهُ جَائِزَةٌ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ.
* تخريج: ق/الإقامۃ ۶۰ (۱۰۲۰)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر البقرۃ (۲۹۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۳۵) (حسن صحیح)
(سند میں اشعث بن سعید السمان متکلم فیہ راوی ہیں، حتی کہ بعض علماء نے بڑی شدیدجرح کی ہے ، اور انہیں غیر ثقہ اور منکر الحدیث بلکہ مترو ک الحدیث قرار دیا ہے، لیکن امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ نہ تو متروک ہے اور نہ محدثین کے یہاں حافظ حدیث ہے، ابواحمد الحاکم کہتے ہیں: ليس بالقوي عندهم یعنی محدثین کے یہاں اشعث زیادہ قوی راوی نہیں ہے ، ابن عدی کہتے ہیں: اس کی احادیث میں سے بعض غیر محفوظ ہیں، اور ضعف کے باوجود ان کی حدیثیں لکھی جائیں گی (تہذیب الکمال ۵۲۳) خلاصہ یہ کہ ان کی احادیث کو شواہد ومتابعات کے باب میں جانچا اور پرکھا جائے گا اسی کو اعتبار کہتے ہیں، اور ترمذی نے سند پر کلام کرکے اشعث کے بارے لکھا ہے کہ حدیث میں ان کی تضعیف کی گئی ہے ، اور اکثر علماء کا فتویٰ بھی اسی حدیث کے مطابق ہے ، اس شواہد کی بناپر یہ حدیث حسن ہے)۔
۳۴۵- عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم ایک تاریک رات میں رسول اللہﷺ کے ساتھ سفرمیں تھے۔ توہم نہیں جان سکے کہ قبلہ کس طرف ہے، ہم میں سے ہرشخص نے اسی طرف رخ کرکے صلاۃ پڑھ لی جس طرف پہلے سے اس کا رخ تھا۔ جب ہم نے صبح کی اور نبی اکرمﷺ سے اس کا ذکرکیا چنانچہ اس وقت آیت کریمہ{فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ } (تم جس طرف رخ کرلو اللہ کا منہ اسی طرف ہے) نازل ہوئی ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ ہم اسے صرف اشعث بن سمان ہی کی روایت سے جانتے ہیں، اور اشعث بن سعید ابوالربیع سمان حدیث کے معاملے میں ضعیف گردانے جاتے ہیں، ۲- اکثر اہل علم اسی کی طرف گئے ہیں کہ جب کوئی بدلی میں غیر قبلہ کی طرف صلاۃ پڑھ لے پھر صلاۃ پڑھ لینے کے بعدپتہ چلے اس نے غیر قبلہ کی طرف رخ کرکے صلاۃ پڑھی ہے تو اس کی صلاۃ درست ہے۔سفیان ثوری ، ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
146- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ مَا يُصَلَّى إِلَيْهِ وَفِيهِ
۱۴۶-باب: جن چیزوں کی طرف یا جن جگہوں میں صلاۃ پڑھنا مکروہ ہے​


346- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا الْمُقْرِءُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ جَبِيرَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى أَنْ يُصَلَّى فِي سَبْعَةِ مَوَاطِنَ فِي الْمَزْبَلَةِ، وَالْمَجْزَرَةِ، وَالْمَقْبَرَةِ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ، وَفِي الْحَمَّامِ، وَفِي مَعَاطِنِ الإِبِلِ، وَفَوْقَ ظَهْرِ بَيْتِ اللَّهِ.
* تخريج: ق/المساجد ۴ (۷۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۷۶۶۰) (ضعیف)
(سندمیں زید بن جبیرہ متروک الحدیث ہے)
۳۴۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے سات مقامات میں صلاۃ پڑھنے سے منع فرمایا ہے: کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ میں ، مذبح میں، قبرستان میں ، عام راستوں پر،حمام (غسل خانہ )میں اونٹ باندھنے کی جگہ میں اور بیت اللہ کی چھت پر۔


347- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ جَبِيرَةَ، عَنْ دَاوُدَ ابْنِ حُصَيْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ: نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مَرْثَدٍ، وَجَابِرٍ، وَأَنَسٍ. أَبُو مَرْثَدٍ اسْمُهُ: كَنَّازُ بْنُ حُصَيْنٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِذَاكَ الْقَوِيِّ، وَقَدْ تُكُلِّمَ فِي زَيْدِ بْنِ جَبِيرَةَ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَزَيْدُ بْنُ جُبَيْرٍ الْكُوفِيُّ أَثْبَتُ مِنْ هَذَا وَأَقْدَمُ، وَقَدْ سَمِعَ مِنْ ابْنِ عُمَرَ. وَقَدْ رَوَى اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ: مِثْلَهُ. وَحَدِيثُ دَاوُدَ عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّﷺ أَشْبَهُ وَأَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ. وَعَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْعُمَرِيُّ ضَعَّفَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، مِنْهُمْ: يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف)
۳۴۷- اس سند سے بھی اس مفہوم کی حدیث مروی ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کی سند کوئی زیادہ قوی نہیں ہے، زید بن جبیرۃ کے سلسلہ میں ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیاگیاہے،۲- زید بن جبیرکوفی ان سے زیادہ قوی اوران سے پہلے کے ہیں انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا ہے،۳- اس باب میں ابومرثد کنّازبن حصین ، جابر اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- لیث بن سعد نے یہ حدیث بطریق : ''عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ '' اسی طرح روایت کی ہے۔داود کی حدیث جسے انہوں نے بطریق : '' عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ '' سے روایت کی ہے۔ لیث بن سعد کی حدیث سے زیادہ قرین صواب اور زیادہ صحیح ہے، عبداللہ بن عمر عمری کو بعض اہل حدیث نے ان کے حفظ کے تعلق سے ضعیف گردانا ہے،انہیں میں سے یحییٰ بن سعیدالقطان بھی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
147- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ وَأَعْطَانِ الإِبِلِ
۱۴۷- باب: بکریوں کے باڑوں اور اونٹ باندھنے کی جگہوں میں صلاۃ پڑھنے کا بیان​


348- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"صَلُّوا فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ، وَلاَ تُصَلُّوا فِي أَعْطَانِ الإِبِلِ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۶۷)، وانظر حم (۲/۴۵۱، ۴۹۱، ۵۰۸) (صحیح)
۳۴۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''بکریوں کے باڑے میں صلاۃ پڑھو ۱؎ اور اونٹ باندھنے کی جگہ میں نہ پڑھو''۔
وضاحت ۱؎ : ''صَلُّوا فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ''میں امراباحت کے لیے ہے یعنی بکریوں کے باڑوں میں صلاۃپڑھنا جائزاورمباح ہے تم اس میں صلاۃپڑھ سکتے ہو اور''وَلاَ تُصَلُّوا فِي أَعْطَانِ الإِبِلِ ''میں نہی تحریمی ہے، یعنی حرام ہے۔


349- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِمِثْلِهِ أَوْ بِنَحْوِهِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَالْبَرَاءِ، وَسَبْرَةَ بْنِ مَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَعَلَيْهِ الْعَمَلُ عِنْدَ أَصْحَابِنَا، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. وَحَدِيثُ أَبِي حَصِينٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَرَوَاهُ إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَوْقُوفًا وَلَمْ يَرْفَعْهُ. وَاسْمُ أَبِي حَصِينٍ: عُثْمَانُ بْنُ عَاصِمٍ الأَسَدِيُّ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۴۹) (صحیح)
۳۴۹- اس سند سے بھی اسی کے مثل یااسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ہمارے اصحاب کے نزدیک عمل اسی پر ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے،۲- ابوحصین کی حدیث جسے انہوں نے بطریق : ''أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ '' روایت کی ہے غریب ہے، ۳- اسے اسرائیل نے بطریق : '' أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ '' موقوفاً روایت کیا ہے، اورانہوں نے اسے مرفوع نہیں کیاہے ،۴- اس باب میں جابر بن سمرہ ، براء ، سبرہ بن معبد جہنی، عبداللہ بن مغفل، ابن عمر اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


350- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ الضُّبَعِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو التَّيَّاحِ الضُّبَعِيُّ اسْمُهُ: يَزِيدُ بْنُ حُمَيْدٍ.
* تخريج: خ/الوضوء ۶۶ (۲۳۴)، والصلاۃ ۴۹ (۴۲۹)، م/المساجد ۱ (۵۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۳)، حم (۳/۱۲۳، ۱۳۱، ۱۹۴، ۲۱۲، ۲۴۴) (صحیح)
۳۵۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ بکریوں کے باڑے میں صلاۃ پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
148- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الدَّابَّةِ حَيْثُ مَا تَوَجَّهَتْ بِهِ
۱۴۸- باب: سواری کے او پر صلاۃ پڑھنے کا بیان جس طرف بھی وہ متوجہ ہوجائے​


351- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَيَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ ﷺ فِي حَاجَةٍ، فَجِئْتُ وَهُوَ يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ، وَالسُّجُودُ أَخْفَضُ مِنَ الرُّكُوعِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ جَابِرٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ، لاَ نَعْلَمُ بَيْنَهُمْ اخْتِلاَفًا، لاَ يَرَوْنَ بَأْسًا أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ عَلَى رَاحِلَتِهِ تَطَوُّعًا، حَيْثُ مَا كَانَ وَجْهُهُ إِلَى الْقِبْلَةِ أَوْ غَيْرِهَا.
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۷۷ (۱۲۲۷)، وراجع أیضا: م/المساجد ۷ (۵۴۰)، ن/السہو ۶ (۱۱۹۰)، ق/الإقامۃ ۵۹ (۱۰۱۸)، (تحفۃ الأشراف:۲۷۵۰)، حم (۳/۳۳۴) (صحیح)
۳۵۱- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے نبی اکرمﷺ نے ایک ضرورت سے بھیجا تومیں ضرورت پوری کرکے آیا تو (دیکھاکہ) آپ اپنی سواری پر مشرق (پورب) کی طرف رخ کرکے صلاۃ پڑھ رہے تھے، اور سجدہ رکوع سے زیادہ پست تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،یہ حدیث دیگر اورسندوں سے بھی جابر سے مروی ہے، ۲- اس باب میں انس، ابن عمر، ابوسعید، عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اوراسی پر بیشتر اہل علم کے نزدیک عمل ہے، ہم ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں جانتے،یہ لوگ آدمی کے اپنی سواری پرنفل صلاۃ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، خواہ اس کا رخ قبلہ کی طرف ہو یا کسی اور طرف ہو۔
وضاحت ۱؎ : واضح رہے کہ یہ جواز صرف سنن ونوافل کے لیے ہے ، نہ کہ فرائض کے لیے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
149- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ إِلَى الرَّاحِلَةِ
۱۴۹- باب: سواری کی طرف منہ کرکے صلاۃ پڑھنے کا بیان​


352- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى إِلَى بَعِيرِهِ، أَوْ رَاحِلَتِهِ، وَكَانَ يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ حَيْثُ مَاتَوَجَّهَتْ بِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، لاَ يَرَوْنَ بِالصَّلاَةِ إِلَى الْبَعِيرِ بَأْسًا أَنْ يَسْتَتِرَ بِهِ.
* تخريج: م/الصلاۃ ۴۷ (۵۰۲)، د/الصلاۃ ۱۰۴ (۶۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۰۸)، دي/الصلاۃ ۱۲۶ (۱۴۵۲)، وراجع إیضا: خ/الصلاۃ ۵۰ (۴۳۰) (صحیح)
۳۵۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنے اونٹ یا اپنی سواری کی طرف منہ کرکے صلاۃ پڑھی، نیز اپنی سواری پر صلاۃ پڑھتے رہتے چاہے وہ جس طرف متوجہ ہوتی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہی بعض اہل علم کا قول ہے کہ اونٹ کو سترہ بناکر اس کی طرف منہ کرکے صلاۃ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : پچھلی حدیث کے حاشیہ میں امام ترمذی نے اسی کی طرف اشارہ کیاہے ، ایسے میں شرط صرف یہ ہے کہ تکبیرتحریمہ کے وقت منہ قبلہ کی طرف کرکے اس کے بعد سواری چاہے جدھرجائے، لیکن یہ صرف نفل صلاتوں میں تھا، فرض صلاۃ میں سواری سے اترکرقبلہ رخ ہوکرہی پڑھتے تھے۔
وضاحت ۲؎ : اوروہ جوگزراکہ آپ اونٹوں کے باڑے میں صلاۃنہیں پڑھتے تھے اوراس سے منع فرمایا ، تو باڑے کے اندرمعاملہ دوسرا ہے ، اورکہیں راستے میں صرف اونٹ کو بیٹھا کراس کے سامنے پڑھنے کا معاملہ دوسرا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
150- بَاب مَا جَاءَ إِذَا حَضَرَ الْعَشَاءُ وَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَابْدَئُوا بِالْعَشَاءِ
۱۵۰- باب: شام کا کھانا حاضر ہو اور صلاۃ کھڑی ہوجائے تو پہلے کھانا کھالو​


353- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"إِذَا حَضَرَ الْعَشَاءُ وَأُقِيمَتْ الصَّلاَةُ فَابْدَئُوا بِالْعَشَاءِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَائِشَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَسَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَعَلَيْهِ الْعَمَلُ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَابْنُ عُمَرَ. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ، يَقُولاَنِ: يَبْدَأُ بِالْعَشَاءِ وَإِنْ فَاتَتْهُ الصَّلاَةُ فِي الْجَمَاعَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: يَبْدَأُ بِالْعَشَاءِ إِذَا كَانَ طَعَامًا يَخَافُ فَسَادَهُ. وَالَّذِي ذَهَبَ إِلَيْهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَشْبَهُ بِالاتِّبَاعِ. وَإِنَّمَا أَرَادُوا أَنْ لاَيَقُومَ الرَّجُلُ إِلَى الصَّلاَةِ وَقَلْبُهُ مَشْغُولٌ بِسَبَبِ شَيْئٍ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ: لاَ نَقُومُ إِلَى الصَّلاَةِ وَفِي أَنْفُسِنَا شَيْئٌ.
* تخريج: خ/الأذان ۴۲ (۶۷۲)، الأطعمۃ ۵۸ (۵۴۶۳)، م/المساجد ۶ (۵۵۷)، ن/الإمامۃ ۵۱ (۸۵۴)، ق/الإقامۃ ۳۴ (۹۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۶)، حم (۳/۱۰۰، ۱۱۰، ۱۶۱، ۲۳۱، ۲۳۸، ۲۴۹)، دي/الصلاۃ۵۸ (صحیح)
۳۵۳- انس رضی اللہ عنہ سے کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ''جب شام کاکھانا حاضر ہو ، اورصلاۃ کھڑی کردی جائے ۱؎ تو پہلے کھا لو''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عائشہ، ابن عمر، سلمہ بن اکوع، اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام میں سے اہل علم کااسی پرعمل ہے۔ انہیں میں سے ابوبکر ، عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنہم بھی ہیں، اوریہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ پہلے کھاناکھائے اگرچہ جماعت چھوٹجائے۔ ۴- اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ پہلے کھانا کھائے گا جب اسے کھانا خراب ہونے کا اندیشہ ہو،لیکن جس کی طرف صحابہ کرام وغیرہ میں سے بعض اہل علم گئے ہیں، وہ اتباع کے زیادہ لائق ہے، ان لوگوں کا مقصود یہ ہے کہ آدمی ایسی حالت میں صلاۃ میں نہ کھڑا ہوکہ اس کادل کسی چیزکے سبب مشغول ہو،اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم صلاۃ کے لیے کھڑے نہیں ہوتے جب تک ہمارا دل کسی اور چیز میں لگاہوتا ہے۔
وضاحت ۱؎ : بعض لوگوں نے صلاۃسے مغرب کی صلاۃمرادلی ہے او اس میں واردحکم کوصائم کے لیے خاص ماناہے، لیکن مناسب یہی ہے کہ اس حکم کی علّت کے پیش نظراسے عموم پرمحمول کیاجائے،خواہ دوپہرکا کھاناہو یا شام کا۔


354- وَرُوِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ:"إِذَا وُضِعَ الْعَشَاءُ وَأُقِيمَتْ الصَّلاَةُ فَابْدَئُوا بِالْعَشَاءِ". قَالَ: وَتَعَشَّى ابْنُ عُمَرَ وَهُوَ يَسْمَعُ قِرَائَةَ الإِمَامِ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِذَلِكَ هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
* تخريج: خ/الأذان ۴۲ (۶۷۳، ۶۷۴)، م/المساجد ۶ (۵۵۹)، ق/الإقامۃ ۳۴ (۹۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۷۸۲۵)، کذا (۸۲۱۲)، حم (۲/۱۰۳) (صحیح)
۳۵۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''جب شام کاکھانا(تمہارے سامنے) رکھ دیا جائے اور صلاۃ کھڑی ہوجائے تو پہلے کھانا کھاؤ''، ابن عمر رضی اللہ عنہما شام کا کھانا کھارہے تھے اور امام کی قرأت سن رہے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
151- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عِنْدَ النُّعَاسِ
۱۵۱- باب: اونگھتے وقت صلاۃ پڑھنے کا بیان​


355- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْكِلاَبِيُّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِذَا نَعَسَ أَحَدُكُمْ وَهُوَ يُصَلِّي فَلْيَرْقُدْ حَتَّى يَذْهَبَ عَنْهُ النَّوْمُ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا صَلَّى وَهُوَ يَنْعَسُ لَعَلَّهُ يَذْهَبُ يَسْتَغْفِرُ، فَيَسُبُّ نَفْسَهُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الوضوء ۵۳ (۲۱۲)، م/المسافرین ۳۱ (۷۸۶)، د/الصلاۃ ۳۰۸ (۱۳۱۰)، ن/الطہارۃ ۱۱۷ (۱۶۲)، ق/الإقامۃ ۱۸۴ (۱۳۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۸۷)، حم (۶/۵۶، ۲۰۲، ۲۰۵، ۲۵۹)، دي/الصلاۃ ۱۰۷ (۱۴۲۳) (صحیح)
۳۵۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:''جب تم میں سے کوئی اونگھے اوروہ صلاۃ پڑھ رہاہو توسوجائے یہاں تک کہ اس سے نیند چلی جائے، اس لیے کہ تم میں سے کوئی جب صلاۃ پڑھے اوراونگھ رہا ہو تو شاید وہ استغفار کرنا چاہتا ہو لیکن اپنے آپ کو گالیاں دے بیٹھے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں انس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
152- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ زَارَ قَوْمًا لاَ يُصَلِّي بِهِمْ
۱۵۲- باب: جو کسی قوم کی زیارت کرے تو وہ ان کی امامت نہ کرے​


356- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ وَهَنَّادٌ، قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبَانَ بْنِ يَزِيدَ الْعَطَّارِ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ الْعُقَيْلِيِّ، عَنْ أَبِي عَطِيَّةَ رَجُلٍ مِنْهُمْ قَالَ: كَانَ مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ يَأْتِينَا فِي مُصَلاَّنَا يَتَحَدَّثُ، فَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ يَوْمًا، فَقُلْنَا لَهُ: تَقَدَّمْ، فَقَالَ: لِيَتَقَدَّمْ بَعْضُكُمْ حَتَّى أُحَدِّثَكُمْ لِمَ لاَ أَتَقَدَّمُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ:"مَنْ زَارَ قَوْمًا فَلاَ يَؤُمَّهُمْ، وَلْيَؤُمَّهُمْ رَجُلٌ مِنْهُمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، قَالُوا: صَاحِبُ الْمَنْزِلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ مِنْ الزَّائِرِ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أَذِنَ لَهُ فَلاَ بَأْسَ أَنْ يُصَلِّيَ بِهِ. و قَالَ إِسْحَاقُ بِحَدِيثِ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، وَشَدَّدَ فِي أَنْ لاَ يُصَلِّيَ أَحَدٌ بِصَاحِبِ الْمَنْزِلِ، وَإِنْ أَذِنَ لَهُ صَاحِبُ الْمَنْزِلِ. قَالَ: وَكَذَلِكَ فِي الْمَسْجِدِ، لاَ يُصَلِّي بِهِمْ فِي الْمَسْجِدِ إِذَا زَارَهُمْ، يَقُولُ: لِيُصَلِّ بِهِمْ رَجُلٌ مِنْهُمْ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۶۶ (۵۹۶)، ن/الإمامۃ ۹ (۷۸۸)، حم (۳/۴۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۸۶) (صحیح)
(مالک بن حویرث کا مذکورہ قصہ صحیح نہیں ہے ، صرف متنِ حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی ۴۸۱)
۳۵۶- ابوعطیہ عقیلی کہتے ہیں: مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہماری صلاۃپڑھنے کی جگہ میں آتے اورحدیث بیان کرتے تھے توایک دن صلاۃ کا وقت ہوا تو ہم نے ان سے کہاکہ آپ آگے بڑھئے (اورصلاۃپڑھائیے)۔ انہوں نے کہا:تمہیں میں سے کوئی آگے بڑھ کر صلاۃپڑھائے یہاں تک کہ میں تمہیں بتاؤں کہ میں کیوں نہیں آگے بڑھتا، میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے سناہے :'' جو کسی قوم کی زیارت کوجائے تو ان کی امامت نہ کرے بلکہ ان کی امامت ان ہی میں سے کسی آدمی کوکرنی چاہئے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ صاحب خانہ زیارت کرنے والے سے زیادہ امامت کا حق دار ہے،بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب اسے اجازت دے دی جائے تواس کے صلاۃ پڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، اسحاق بن راہویہ نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق کہاہے اور انہوں نے اس مسئلہ میں سختی برتی ہے کہ صاحب خانہ کو کوئی اور صلاۃ نہ پڑھائے اگرچہ صاحب خانہ اسے اجازت دیدے، نیزوہ کہتے ہیں: اسی طرح کا حکم مسجد کے بارے میں بھی ہے کہ وہ جب ان کی زیارت کے لیے آیاہوانہیں میں سے کسی آدمی کوان کی صلاۃ پڑھانی چاہئے۔
 
Top