- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
10-بَاب مَا جَاءَ مَا يُسْتَحَبُّ عَلَيْهِ الإِفْطَارُ
۱۰-باب: کس چیزسے صوم کھولنا مستحب ہے؟
694- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ وَجَدَ تَمْرًا فَلْيُفْطِرْ عَلَيْهِ وَمَنْ لاَ فَلْيُفْطِرْ عَلَى مَاءِ فَإِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ لاَ نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَاهُ عَنْ شُعْبَةَ مِثْلَ هَذَا غَيْرَ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، وَهُوَ حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَلاَ نَعْلَمُ لَهُ أَصْلاً مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ عَنْ أَنَسٍ. وَقَدْرَوَى أَصْحَابُ شُعْبَةَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ الرَّبَابِ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، وَهُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، وَهَكَذَا رَوَوْا عَنْ شُعُبَةَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ سَلْمَانَ. وَلَمْ يُذْكَرْ فِيهِ (شُعْبَةُ عَنْ الرَّبَابِ) وَالصَّحِيحُ مَا رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ: عَنْ عَاصِمٍ الأَحَوَلِ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ الرَّبَابِ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ. وَابْنُ عَوْنٍ يَقُولُ: عَنْ أُمِّ الرَّائِحِ بِنْتِ صُلَيْعٍ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ وَالرَّبَابُ هِيَ أُمُّ الرَّائِحِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائی فی الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۶) (ضعیف)
(سندمیں سعید بن عامر حافظہ کے ضعیف ہیں اور ان سے اس کی سند میں وہم ہوابھی ہے ، دیکھئے الارواء رقم : ۹۲۲)
۶۹۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جسے کھجورمیسرہو،توچاہئے کہ وہ اسی سے صوم کھولے، اورجسے کھجور میسرنہ ہوتوچاہئے کہ وہ پانی سے کھولے کیونکہ پانی پاکیزہ چیزہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۲- ہم نہیں جانتے کہ انس کی حدیث سعید بن عامرکے علاوہ کسی اورنے بھی شعبہ سے روایت کی ہے، یہ حدیث غیر محفوظ ہے ۱؎ ، ہم اس کی کوئی اصل عبدالعزیزکی روایت سے جسے انہوں نے انس سے روایت کی ہو نہیں جانتے ،اور شعبہ کے شاگروں نے یہ حدیث بطریق:''شعبة، عن عاصم، عن حفصة بنت سيرين، عن الرباب، عن سلمان بن عامر، عن النبي ﷺ '' روایت کی ہے ، اور یہ سعید بن عامر کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، کچھ اور لوگوں نے اس کی بطریق : '' شعبة، عن عاصم، عن حفصة، عن سلمان بن عامر'' روایت کی ہے اوراس میں شعبہ کی رباب سے روایت کرنے کاذکرنہیں کیا گیا ہے اورصحیح وہ ہے جسے سفیان ثوری، ابن عیینہ اوردیگرکئی لوگوں نے بطریق : '' عاصم الأحول، عن حفصة بنت سيرين، عن الرباب، عن سلمان بن عامر '' روایت کی ہے، اورابن عون کہتے ہیں : عن أم الرائح بنت صليع، عن سلمان بن عامر'' اور رَباب ہی دراصل ام الرائح ہیں ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ سعیدبن عامر''عن شعبة عن عبدالعزيز بن صهيب عن أنس'' کے طریق سے اس کی روایت میں منفردہیں، شعبہ کے دوسرے تلامذہ نے ان کی مخالفت کی ہے، ان لوگوں نے اسے '' عن شعبة عن عاصم الأحول عن حفصة بنت سيرين عن سلمان بن عامر''کے طریق سے روایت کی ہے، اور عاصم الاحول کے تلامذہ مثلاً سفیان ثوری اورابن عیینہ وغیرہم نے بھی اسے اسی طرح سے روایت کیا ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی ابن عون نے اپنی روایت میں ''عن الرباب''کہنے کے بجائے ''عن ام الروائح بنت صلیع ''کہا ہے، اوررباب ام الروائح کے علاوہ کوئی اورعورت نہیں ہیں بلکہ دونوں ایک ہی ہیں۔
695- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ. ح و حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ الرَّبَابِ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّيِّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى تَمْرٍ". زَادَ ابْنُ عُيَيْنَةَ"فَإِنَّهُ بَرَكَةٌ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى مَاءِ فَإِنَّهُ طَهُورٌ". قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الصوم ۲۱ (۲۳۵۵)، ق/الصیام ۲۵ (۱۶۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۸۶)، حم (۴/، ۱۷، ۱۹، ۲۱۳، ۲۱۵)، دي/الصوم ۱۲ (۱۷۷۳)، وانظر أیضا ما تقدم برقم ۶۵۸ (ضعیف)
(الرباب ام الرائح لین الحدیث ہیں،اس حدیث کی تصحیح ترمذی کے علاوہ : ابن خزیمہ اورابن حبان نے بھی کی ہے ، البانی نے پہلے اس کی تصحیح کی تھی بعد میں اسے ضعیف الجامع الصغیر میں رکھ دیا (رقم: ۳۶۹) دیکھئے: تراجع الألبانی رقم: ۱۳۲ و ارواء رقم : ۹۲۲ ۱ ؎ )
۶۹۵- سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''جب تم میں سے کوئی افطار کرے توچاہئے کہ کھجور سے افطارکرے کیونکہ اس میں برکت ہے اور جسے(کھجور) میسر نہ ہو تو وہ پانی سے افطار کرے کیونکہ یہ پاکیزہ چیزہے ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اگرچہ قولاً اس کی سند صحیح نہیں ہے، مگر فعلاً یہ حدیث دیگر طرق سے ثابت ہے۔
وضاحت ۲؎ : یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ اگرافطارمیں کھجورمیسرہو توکھجورہی سے افطارکرے کیونکہ یہ مقوی معدہ، مقوی اعصاب اورجسم میں واقع ہونے والی کمزوریوں کابہترین بدل ہے اوراگرکھجورمیّسرنہ ہوسکے تو پھر پانی سے افطاربہترہے نبی اکرمﷺ تازہ کھجورسے افطارکیاکرتے تھے اگرتازہ کھجورنہیں ملتی تو خشک کھجورسے افطارکرتے اوراگروہ بھی نہ ملتی تو چندگھونٹ پانی سے افطارکرتے تھے۔ان دونوں چیزوں کے علاوہ اجروثواب وغیرہ کی نیت سے کسی اورچیزمثلاً نمک وغیرہ سے افطارکرنابدعت ہے، جوملاؤں نے ایجادکی ہے۔
696- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُفْطِرُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى رُطَبَاتٍ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ رُطَبَاتٌ فَتُمَيْرَاتٌ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تُمَيْرَاتٌ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ يُفْطِرُ فِي الشِّتَاءِ عَلَى تَمَرَاتٍ، وَفِي الصَّيْفِ عَلَى الْمَاءِ.
* تخريج: د/الصیام ۲۱ (۲۳۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۵) (صحیح)
۶۹۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ (مغرب ) پڑھنے سے پہلے چند ترکھجوروں سے افطار کرتے تھے، اور اگر ترکھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوروں سے اور اگر خشک کھجوریں بھی میسر نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اور یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہﷺ سردیوں میں چند کھجوروں سے افطار کرتے اور گرمیوں میں پانی سے۔