• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
30- بَاب مَا جَاءَ فِي الْكُحْلِ لِلصَّائِمِ
۳۰-باب: صائم کے سرمہ لگانے کا بیان​


726- حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى بْنُ وَاصِلٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَطِيَّةَ، حَدَّثَنَا أَبُوعَاتِكَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: اشْتَكَتْ عَيْنِي أَفَأَكْتَحِلُ وَأَنَا صَائِمٌ قَالَ:"نَعَمْ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي رَافِعٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ. وَلاَ يَصِحُّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي هَذَا الْبَابِ شَيْئٌ. وَأَبُوعَاتِكَةَ يُضَعَّفُ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْكُحْلِ لِلصَّائِمِ؛ فَكَرِهَهُ بَعْضُهُمْ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ، وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْكُحْلِ لِلصَّائِمِ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۲۲) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں ابوعاتک طریف سلمان ضعیف راوی ہے)
۷۲۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکر پوچھا : میری آنکھ آگئی ہے، کیا میں سرمہ لگالوں ،میں صوم سے ہوں؟ آپ نے فرمایا :'' ہاں'' (لگالو)۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- انس کی حدیث کی سند قوی نہیں ہے، ۲- اس باب میں نبی اکرمﷺ سے مروی کوئی چیز صحیح نہیں، ۳- ابوعاتکہ ضعیف قراردیے جاتے ہیں،۴- اس باب میں ابورافع سے بھی روایت ہے،۵ - صائم کے سرمہ لگانے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض نے اسے مکروہ قراردیاہے ۱؎ یہ سفیان ثوری ، ابن مبارک ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے اور بعض اہل علم نے صائم کو سرمہ لگانے کی رخصت دی ہے اور یہ شافعی کا قو ل ہے۔
وضاحت ۱؎ : ان کی دلیل معبدبن ہوذہ کی حدیث ہے جس کی تخریج ابوداودنے کی ہے، اس میں ہے کہ نبی اکرمﷺنے مشک ملاہوا سرمہ سوتے وقت لگانے کا حکم دیااورفرمایاصائم اس سے پرہیزکرے، لیکن یہ حدیث منکرہے،جیساکہ ابوداودنے یحییٰ بن معین کے حوالے سے نقل کیا ہے، لہذا اس حدیث کے روسے صائمکے سرمہ لگانے کی کراہت پراستدلال صحیح نہیں، راجح یہی ہے کہ صائم کے لیے بغیرکراہت کے سرمہ لگاناجائزہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
31-بَاب مَا جَاءَ فِي الْقُبْلَةِ لِلصَّائِمِ
۳۱-باب: صائم کے بوسہ لینے کا بیان​


727- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَقُتَيْبَةُ قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلاَقَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُقَبِّلُ فِي شَهْرِ الصَّوْمِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَحَفْصَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ فِي الْقُبْلَةِ لِلصَّائِمِ فَرَخَّصَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْقُبْلَةِ لِلشَّيْخِ، وَلَمْ يُرَخِّصُوا لِلشَّابِّ مَخَافَةَ أَنْ لاَ يَسْلَمَ لَهُ صَوْمُهُ، وَالْمُبَاشَرَةُ عِنْدَهُمْ أَشَدُّ، وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: الْقُبْلَةُ تُنْقِصُ الأَجْرَ، وَلاَ تُفْطِرُ الصَّائِمَ، وَرَأَوْا أَنَّ لِلصَّائِمِ إِذَا مَلَكَ نَفْسَهُ أَنْ يُقَبِّلَ وَإِذَا لَمْ يَأْمَنْ عَلَى نَفْسِهِ تَرَكَ الْقُبْلَةَ، لِيَسْلَمَ لَهُ صَوْمُهُ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ.
* تخريج: م/الصیام ۱۲ (۱۱۱۰)، د/الصیام ۳۳ (۲۳۸۳)، ق/الصیام ۱۹ (۱۶۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۲۳) (صحیح)
۷۲۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ ماہصیام (رمضان) میں بوسہ لیتے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمر بن خطاب ، حفصہ ، ابوسعید خدری ، ام سلمہ ، ابن عباس، انس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- صائم کے بوسہ لینے کے سلسلے میں صحابہ کرام وغیرہم کا اختلاف ہے۔ بعض صحابہ نے بوڑھے کے لیے بوسہ لینے کی رخصت دی ہے۔ اورنوجوانوں کے لیے اس اندیشے کے پیش نظررخصت نہیں دی کہ اس کا صوم محفوظ وماموں نہیں رہ سکے گا۔ جماع ان کے نزدیک زیادہ سخت چیز ہے۔بعض اہل علم نے کہاہے : بوسہ اجر کم کردیتاہے لیکن اس سے صائم کا صوم نہیں ٹوٹتا ، ان کا خیال ہے کہ صائم کواگراپنے نفس پر قابو(کنٹرول) ہو تووہ بوسہ لے سکتاہے اور جب وہ اپنے آپ پرکنٹرول نہ رکھ سکے تو بوسہ نہ لے تاکہ اس کاصوم محفوظ ومامون رہے۔ یہ سفیان ثوری اور شافعی کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے صوم کی حالت میں بوسہ کاجواز ثابت ہوتا ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس میں فرض اورنفل صیام کی تفریق صحیح نہیں، رمضان کے صیام کی حالت میں بھی بوسہ لیاجاسکتاہے، لیکن یہ ایسے شخص کے لیے ہے جو اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھتاہواورجسے اپنے نفس پر قابونہ ہو اس کے لیے یہ رعایت نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
32-بَاب مَا جَاءَ فِي مُبَاشَرَةِ الصَّائِمِ
۳۲- باب: صائم کا بوس وکنارکیا ہے؟​


728- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُبَاشِرُنِي وَهُوَ صَائِمٌ وَكَانَ أَمْلَكَكُمْ لإِرْبِهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وانظر ما بعدہ (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۱۸) (صحیح)
۷۲۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ صوم کی حالت میں مجھ سے بوس وکنارکرتے تھے ، آپ اپنی خواہش پرتم میں سب سے زیادہ کنٹرول رکھنے والے تھے۔


729- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ وَالأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُقَبِّلُ وَيُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ، وَكَانَ أَمْلَكَكُمْ لإِرْبِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مَيْسَرَةَ اسْمُهُ عَمْرُو بْنُ شُرَحْبِيلَ، وَمَعْنَى لإِرْبِهِ لِنَفْسِهِ.
* تخريج: م/الصیام ۱۲ (۱۱۰۶)، د/الصیام ۳۳ (۲۳۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۵ و۱۷۴۰۷) (صحیح) وأخرجہ کل من: خ/الصوم ۲۳ (۱۹۲۷)، وم/الصیام (المصدرالسابق)، وق/الصیام ۱۹ (۱۶۸۴)، ودي/الصوم ۲۱ (۱۷۶۳)، من غیر ہذا الطریق۔
۷۲۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ صوم کی حالت میں بوسہ لیتے اور اپنی بیویوں کے ساتھ لپٹ کرلیٹتے تھے، آپ اپنی جنسی خواہش پرتم میں سب سے زیادہ کنٹرول رکھنے والے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اور '' لإربه'' کے معنی ''لنفسه '' (اپنے نفس پر )کے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
33- بَاب مَا جَاءَ لاَ صِيَامَ لِمَنْ لَمْ يَعْزِمْ مِنَ اللَّيْلِ
۳۳-باب: جورات ہی کوصوم کی نیت نہ کرے اس کا صوم نہیں​


730- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"مَنْ لَمْ يُجْمِعِ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلاَ صِيَامَ لَهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ حَفْصَةَ، حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَوْلُهُ، وَهُوَ أَصَحُّ. وَهَكَذَا أَيْضًا رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّهْرِيِّ مَوْقُوفًا، وَلاَ نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَهُ إِلاَّ يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَإِنَّمَا مَعْنَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: لاَ صِيَامَ لِمَنْ لَمْ يُجْمِعِ الصِّيَامَ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ فِي رَمَضَانَ. أَوْ فِي قَضَاءِ رَمَضَانَ، أَوْ فِي صِيَامِ نَذْرٍ إِذَا لَمْ يَنْوِهِ مِنْ اللَّيْلِ لَمْ يُجْزِهِ، وَأَمَّا صِيَامُ التَّطَوُّعِ فَمُبَاحٌ لَهُ أَنْ يَنْوِيَهُ بَعْدَ مَا أَصْبَحَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: د/الصیام ۷۱ (۲۴۵۴)، ن/الصیام ۶۸ (۳۳۳۳)، ق/الصیام ۲۶ (۱۷۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۰۲)، حم (۶/۲۸۷)، دي/الصوم ۱۰ (۱۷۴۰) (صحیح)
۷۳۰- ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''جس نے صوم کی نیت فجر سے پہلے نہیں کرلی ، اس کا صوم نہیں ہوا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کوہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں، نیزاسے نافع سے بھی روایت کیا گیا ہے انہوں نے ابن عمرسے روایت کی ہے اور اسے ابن عمرہی کا قول قراردیا ہے، اس کا موقوف ہوناہی زیادہ صحیح ہے، اور اسی طرح یہ حدیث زہری سے بھی موقوفاً مروی ہے،ہم نہیں جانتے کہ کسی نے اسے مرفوع کیا ہے یحیی بن ایوب کے سوا،۲- اس کا معنی اہل علم کے نزدیک صرف یہ ہے کہ اس کا صوم نہیں ہوتا، جو رمضان میں یا رمضان کی قضا میں یا نذر کے صیاممیں صوم کی نیت طلوع فجرسے پہلے نہیں کرتا۔ اگر اس نے رات میں نیت نہیں کی تواس کاصوم نہیں ہوا، البتہ نفل صوم میں اس کے لیے صبح ہوجانے کے بعد بھی صوم کی نیت کرنامباح ہے ۔ یہی شافعی ،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : بظاہریہ عام ہے فرض اورنفل دونوں قسم کے صیام کو شامل ہے لیکن جمہورنے اسے فرض کے ساتھ خاص ماناہے اورراجح بھی یہی ہے، اس کی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے جس میں ہے کہ نبی اکرمﷺ میرے پاس آتے اورپوچھتے: کیا کھانے کی کوئی چیز ہے؟ تو اگرمیں کہتی کہ نہیں تو آپ فرماتے : میں صوم سے ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
34-بَاب مَا جَاءَ فِي إِفْطَارِ الصَّائِمِ الْمُتَطَوِّعِ
۳۴-باب: نفلی صیام کے توڑنے کا بیان​


731- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ ابْنِ أُمِّ هَانِئٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ قَالَتْ: كُنْتُ قَاعِدَةً عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَأُتِيَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَ مِنْهُ، ثُمَّ نَاوَلَنِي فَشَرِبْتُ مِنْهُ، فَقُلْتُ: إِنِّي أَذْنَبْتُ فَاسْتَغْفِرْ لِي فَقَالَ وَمَا ذَاكِ قَالَتْ: كُنْتُ صَائِمَةً فَأَفْطَرْتُ فَقَالَ: أَمِنْ قَضَاءِ كُنْتِ تَقْضِينَهُ قَالَتْ: لاَ، قَالَ: فَلاَ يَضُرُّكِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَعَائِشَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف : ۱۸۰۱۵) (صحیح)
(متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے ، ورنہ ''سماک''جب منفرد ہوں تو ان کی روایت میں بڑا اضطراب پایاجاتاہے ، یہی حال اگلی حدیث میں ہے )
۷۳۱- ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، اتنے میں آپ کے پاس پینے کی کوئی چیز لائی گئی، آپ نے اس میں سے پیا، پھر مجھے دیا تو میں نے بھی پیا۔ پھرمیں نے عرض کیا: میں نے گناہ کاکام کرلیاہے۔ آپ میرے لیے بخشش کی دعاکردیجئے۔ آپ نے پوچھا: کیابات ہے؟میں نے کہا: میں صوم سے تھی اورمیں نے صوم توڑدیاتو آپ نے پوچھا: کیاکوئی قضا کا صوم تھا جسے تم قضا کررہی تھی؟ عرض کیا :نہیں،آپ نے فرمایا:'' تو اس سے تمہیں کوئی نقصان ہونے والا نہیں ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں ابوسعیدخدری اورام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں ۔


732- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: كُنْتُ أَسْمَعُ سِمَاكَ بْنَ حَرْبٍ يَقُولُ: أَحَدُ ابْنَيْ أُمِّ هَانِئٍ، حَدَّثَنِي فَلَقِيتُ أَنَا أَفْضَلَهُمَا وَكَانَ اسْمُهُ جَعْدَةَ، وَكَانَتْ أُمُّ هَانِئٍ جَدَّتَهُ. فَحَدَّثَنِي عَنْ جَدَّتِهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ دَخَلَ عَلَيْهَا فَدَعَى بِشَرَابٍ فَشَرِبَ. ثُمَّ نَاوَلَهَا فَشَرِبَتْ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَمَا إِنِّي كُنْتُ صَائِمَةً فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"الصَّائِمُ الْمُتَطَوِّعُ أَمِينُ نَفْسِهِ إِنْ شَاءَ صَامَ، وَإِنْ شَاءَ أَفْطَرَ". قَالَ شُعْبَةُ: فَقُلْتُ لَهُ: أَأَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ أُمِّ هَانِئٍ؟ قَالَ: لاَ أَخْبَرَنِي أَبُو صَالِحٍ وَأَهْلُنَا عَنْ أُمِّ هَانِئٍ. وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ فَقَالَ: عَنْ هَارُونَ بْنِ بِنْتِ أُمِّ هَانِئٍ عَنْ أُمِّ هَانِئٍ. وَرِوَايَةُ شُعْبَةَ أَحْسَنُ. هَكَذَا حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، عَنْ أَبِي دَاوُدَ فَقَالَ: أَمِينُ نَفْسِهِ، و حَدَّثَنَا غَيْرُ مَحْمُودٍ، عَنْ أَبِي دَاوُدَ فَقَالَ: أَمِيرُ نَفْسِهِ أَوْ أَمِينُ نَفْسِهِ عَلَى الشَّكِّ، وَهَكَذَا رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ شُعْبَةَ أَمِينُ أَوْ أَمِيرُ نَفْسِهِ عَلَى الشَّكِّ. قَالَ: وَحَدِيثُ أُمِّ هَانِئٍ فِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ الصَّائِمَ الْمُتَطَوِّعَ إِذَا أَفْطَرَ فَلاَ قَضَاءَ عَلَيْهِ. إِلاَّ أَنْ يُحِبَّ أَنْ يَقْضِيَهُ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ وَالشَّافِعِيِّ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۰۱) (صحیح)
(سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح لغیرہ ہے)
۷۳۲- شعبہ کہتے ہیں کہ میں سماک بن حرب کو کہتے سنا کہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے دونوں بیٹوں میں سے ایک نے مجھ سے حدیث بیان کی تومیں ان دونوں میں جو سب سے افضل تھا اس سے ملا ، اس کانام جعدہ تھا، ام ہانی اس کی دادی تھیں، اس نے مجھ سے بیان کیا کہ اس کی دادی کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ان کے ہاں آئے توآپ نے کو ئی پینے کی چیزمنگائی اوراسے پیا۔ پھر آپ نے انہیں دیا تو انہوں نے بھی پیا۔ پھرانہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول ! میں تو صوم سے تھی۔ تورسول اللہﷺ نے فرمایا: '' نفل صوم رکھنے والا اپنے نفس کا امین ہے، چاہے تو صوم رکھے اور چاہے تو نہ رکھے''۔
شعبہ کہتے ہیں: میں نے سماک سے پوچھا :کیا آپ نے اسے ام ہانی سے سناہے؟ کہا :نہیں،مجھے ابوصالح نے اور ہمارے گھروالوں نے خبردی ہے اور ان لوگوں نے ام ہانی سے روایت کی۔
حماد بن سلمہ نے بھی یہ حدیث سماک بن حرب سے روایت کی ہے۔اس میں ہے ام ہانی کی لڑکی کے بیٹے ہارون سے روایت ہے، انہوں نے ام ہانی سے روایت کی ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- شعبہ کی روایت سب سے بہتر ہے، اسی طرح ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ہے اورمحمودنے ابوداود سے روایت کی ہے، اس میں '' أمين نفسه ''ہے، البتہ ابوداود سے محمود کے علاوہ دوسرے لوگوں نے جوروایت کی توان لوگوں نے'' أمير نفسه أو أمين نفسه'' شک کے ساتھ کہا۔ اور اسی طرح شعبہ سے متعددسندوں سے بھی ''أمين أو أمير نفسه'' شک کے ساتھ واردہے۔ام ہانی کی حدیث کی سند میں کلام ہے۔ ۲- اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ نفل صوم رکھنے والا اگر صوم توڑ دے توا س پرکوئی قضالازم نہیں الایہ کہ وہ قضا کرنا چاہے۔ یہی سفیان ثوری ، احمد ، اسحاق بن راہویہ اور شافعی کا قول ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہی جمہورکا قول ہے، ان کی دلیل ام ہانی کی روایت ہے جس میں ہے '' فإن شئت فأقضى وإن شئت فلا تقضى'' نیز ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس میں ہے ''أفطر فصم مكانه إن شئت ''یہ دونوں روایتیں اس بات پردلالت کرتی ہیں کہ نفل صوم توڑدینے پرقضالازم نہیں، حنفیہ کہتے ہیں کہ قضالازم ہے،ان کی دلیل عائشہ و حفصہ رضی اللہ عنہما کی روایت ہے جو ایک باب کے بعد آرہی ہے، لیکن وہ ضعیف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
35- بَاب صِيَامِ الْمُتَطَوِّعِ بِغَيْرِ تَبْيِيتٍ
۳۵-باب: رات میں صوم کی نیت کئے بغیر نفلی صوم رکھنے کا بیان​


733- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَمَّتِهِ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَوْمًا فَقَالَ: هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْئٌ قَالَتْ: قُلْتُ: لاَ، قَالَ: فَإِنِّي صَائِمٌ.
* تخريج: م/الصیام ۳۲ (۱۱۵۴)، د/الصیام ۷۲ (۲۴۵۵)، ن/الصیام ۶۷ (۲۳۲۴)، ق/الصیام ۲۶ (۱۷۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۷۲)، حم (۶/۴۹، ۲۰۷) (حسن صحیح)
۷۳۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک دن میرے پاس آئے اور آپ نے پوچھا: کیا تمہارے پاس کچھ( کھانے کو)ہے میں نے عرض کیا : نہیں ، تو آپ نے فرمایا:'' تو میں صوم سے ہوں''۔


734- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ سُفْيَانَ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَأْتِينِي فَيَقُولُ: أَعِنْدَكِ غَدَائٌ فَأَقُولُ: لاَ فَيَقُولُ إِنِّي صَائِمٌ قَالَتْ: فَأَتَانِي يَوْمًا فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّهُ قَدْ أُهْدِيَتْ لَنَا هَدِيَّةٌ قَالَ: وَمَا هِيَ قَالَتْ: قُلْتُ: حَيْسٌ قَالَ: أَمَا إِنِّي قَدْ أَصْبَحْتُ صَائِمًا قَالَتْ: ثُمَّ أَكَلَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (حسن صحیح)
۷۳۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ میرے پاس آتے تو پوچھتے : کیا تمہارے پاس کھاناہے؟ میں کہتی : نہیں ۔ توآپ فرماتے :'' تو میں صوم سے ہوں''، ایک دن آپ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے پاس ایک ہدیہ آیا ہے۔آپ نے پوچھا:'' کیا چیز ہے ؟ ''میں نے عرض کیا : ''حیس''، آپ نے فرمایا: ''میں صبح سے صوم سے ہوں''، پھر آپ نے کھالیا ۔امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : ایک قسم کا کھانا جو کھجور ، ستّو اور گھی سے تیار کیاجاتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
36-بَاب مَا جَاءَ فِي إِيجَابِ الْقَضَاءِ عَلَيْهِ
۳۶-باب: نفل صوم توڑنے پر اس کی قضا لازم ہے​


735- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُنْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ صَائِمَتَيْنِ، فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ، فَجَاءَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فَبَدَرَتْنِي إِلَيْهِ حَفْصَةُ. وَكَانَتْ ابْنَةَ أَبِيهَا فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّا كُنَّا صَائِمَتَيْنِ فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ، قَالَ: اقْضِيَا يَوْمًا آخَرَ مَكَانَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى صَالِحُ بْنُ أَبِي الأَخْضَرِ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ مِثْلَ هَذَا. وَرَوَاهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَمَعْمَرٌ وَعُبَيْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ وَزِيَادُ بْنُ سَعْدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْحُفَّاظِ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ مُرْسَلاً. وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ عُرْوَةَ، وَهَذَا أَصَحُّ لأَنَّهُ رُوِيَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: سَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ قُلْتُ: لَهُ أَحَدَّثَكَ عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ قَالَ: لَمْ أَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ فِي هَذَا شَيْئًا وَلَكِنِّي سَمِعْتُ فِي خِلاَفَةِ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِالْمَلِكِ مِنْ نَاسٍ عَنْ بَعْضِ مَنْ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ.
735/م- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ عِيسَى بْنِ يَزِيدَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ فَرَأَوْا عَلَيْهِ الْقَضَاءَ إِذَا أَفْطَرَ وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائی فی الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۴۱۹) (ضعیف)
(جعفر بن برقان زہری سے روایت میں ضعیف ہیں، نیز صحیح بات یہ ہے کہ اس میں عروہ کا واسطہ غلط ہے سند میں عروہ ہیں ہی نہیں )
۷۳۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور حفصہ دونوں صوم سے تھیں، ہمارے پاس کھانے کی ایک چیز آئی جس کی ہمیں رغبت ہوئی، توہم نے اس میں سے کھالیا ۔ اتنے میں رسول اللہﷺ آگئے ، تو حفصہ مجھ سے سبقت کرگئیں - وہ اپنے باپ ہی کی بیٹی توتھیں- انہوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! ہم لوگ صوم سے تھے۔ ہمارے سامنے کھانا آگیا، تو ہمیں اس کی خواہش ہوئی توہم نے اُسے کھالیا ، آپ نے فرمایا :''تم دونوں کسی اور دن اس کی قضا کرلینا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- صالح بن ابی اخضر اور محمد بن ابی حفصہ نے یہ حدیث بسندزہری عن عروہ عن عائشہ اسی کے مثل روایت کی ہے ۔ اور اسے مالک بن انس ،معمر، عبیدا للہ بن عمر، زیاد بن سعد اوردوسرے کئی حفاظ نے بسند الزہری عن عائشہ مرسلاً روایت کی ہے او ر ان لوگوں نے اس میں عروہ کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ اس لیے کہ ابن جریج سے مروی ہے کہ میں نے زہری سے پوچھا: کیا آپ سے اسے عروہ نے بیان کیا اورعروہ سے عائشہ نے روایت کی ہے؟ توانہوں نے کہا: میں نے اس سلسلے میں عروہ سے کوئی چیز نہیں سنی ہے۔ میں نے سلیمان بن عبدالملک کے عہد خلافت میں بعض ایسے لوگوں سے سنا ہے جنہوں نے ایسے شخص سے روایت کی ہے جس نے اس حدیث کے بارے میں عائشہ سے پوچھا،۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت اسی حدیث کی طرف گئی ہے۔ان لوگوں کاکہنا ہے کہ کوئی نفل صوم توڑدے تواس پر قضالازم ہے ۱؎ مالک بن انس کا یہی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : لیکن جمہورنے اسے تخییرپرمحمول کیا ہے کیونکہ ام ہانی کی ایک روایت میں ہے ''وإن كان تطوعاً فإن شئت فأقضي وإن شئت فلا تقضي'' (اوراگرنفلی صیام ہے توچاہوتو تم اس کی قضاکرواورچاہوتو نہ کرو)اس روایت کی تخریج احمدنے کی ہے اورابوداودنے بھی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
37-بَاب مَا جَاءَ فِي وِصَالِ شَعْبَانَ بِرَمَضَانَ
۳۷-باب: صوم رکھ کرشعبان کورمضان سے ملادینے کا بیان​


736- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ إِلاَّ شَعْبَانَ وَرَمَضَانَ. وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فِي شَهْرٍ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ كَانَ يَصُومُهُ إِلاَّ قَلِيلاً بَلْ كَانَ يَصُومُهُ كُلَّهُ.
* تخريج: ن/الصیام ۳۳ (۲۱۷۷)، و۷۰ (۲۳۵۴)، ق/الصیام ۴ (۱۶۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۳۲) (صحیح) وأخرجہ کل من : د/الصیام ۱۱ (۲۳۳۶)، ون/الصیام ۷۰ (۲۳۵۵)، وحم (۶/۳۱۱) من غیر ہذا الطریق۔
۷۳۶- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو لگاتاردو مہینوں کے صیام رکھتے نہیں دیکھا سوائے شعبان ۱؎ اوررمضان کے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن ہے ،۲- اس باب میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے،۳- اور یہ حدیث ابوسلمہ سے بروایت عائشہ بھی مروی ہے وہ کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں صیام رکھتے نہیں دیکھا،آپ شعبان کے سارے صیام رکھتے ، سوائے چنددنوں کے بلکہ پورے ہی شعبان صوم رکھتے تھے۔
وضاحت ۱؎ : شعبان میں زیادہ صوم رکھنے کی وجہ ایک حدیث میں یہ بیان ہو ئی ہے کہ اس مہینہ میں اعمال رب العالمین کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں تو آپ نے اس بات کو پسند فرمایاکہ جب آپ کے اعمال بارگاہ الٰہی میں پیش ہوں تو آپ صوم کی حالت میں ہوں۔


737- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِذَلِكَ. وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ قَالَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ: هُوَ جَائِزٌ فِي كَلاَمِ الْعَرَبِ إِذَا صَامَ أَكْثَرَ الشَّهْرِ أَنْ يُقَالَ صَامَ الشَّهْرَ كُلَّهُ وَيُقَالُ قَامَ فُلاَنٌ لَيْلَهُ أَجْمَعَ وَلَعَلَّهُ تَعَشَّى وَاشْتَغَلَ بِبَعْضِ أَمْرِهِ كَأَنَّ ابْنَ الْمُبَارَكِ قَدْ رَأَى كِلاَ الْحَدِيثَيْنِ مُتَّفِقَيْنِ يَقُولُ إِنَّمَا مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُ كَانَ يَصُومُ أَكْثَرَ الشَّهْرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ نَحْوَ رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو.
* تخريج: تفرد المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۵۶) (حسن صحیح)
وأخرجہ کل من : خ/الصوم ۵۲ (۱۹۶۹) ، وم/الصیام ۳۴ (۱۱۵۶)، ون/الصیام ۳۴ (۲۱۷۹، ۲۱۸۰)، و۳۵ (۲۱۸۱-۲۱۸۷)، وق/الصیام ۳۰ (۱۷۱۰)، وط/الصیام ۲۲ (۵۶)، وحم (۶/۳۹، ۵۸، ۸۴، ۱۰۷، ۱۲۸، ۱۴۳، ۱۰۳، ۱۶۵، ۲۳۳، ۲۴۲، ۲۴۹، ۲۶۸)، من غیر ہذا الطریق ویتصرف یسیر فی السیاق
۷۳۷- اس سند سے بھی اسے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن مبارک اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ کلام عرب میں یہ جائز ہے کہ جب کوئی مہینے کے اکثر ایام صوم رکھے تو کہا جائے کہ اس نے پورے مہینے کے صیام رکھے، اور کہا جائے کہ اس نے پوری رات صلاۃ پڑھی حالاں کہ اس نے شام کا کھانا بھی کھایا اوربعض دوسرے کاموں میں بھی مشغول رہا۔گویا ابن مبارک دونوں حدیثوں کو ایک دوسرے کے موافق سمجھتے ہیں۔ اس طرح اس حدیث کا مفہوم یہ ہوا کہ آپ اس مہینے کے اکثر ایام میں صوم رکھتے تھے،۲- سالم ابوالنضراوردوسرے کئی لوگوں نے بھی بطریق ابوسلمہ عن عائشہ محمدبن عمروکی طرح روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
38- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّوْمِ فِي النِّصْفِ الثَّانِي مِنْ شَعْبَانَ لِحَالِ رَمَضَانَ
۳۸-باب: رمضان کی تعظیم میں شعبان کے دوسرے نصف میں صوم رکھنے کی کراہت​


738- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلاَءِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِذَا بَقِيَ نِصْفٌ مِنْ شَعْبَانَ فَلاَ تَصُومُوا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ. وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنْ يَكُونَ الرَّجُلُ مُفْطِرًا. فَإِذَا بَقِيَ مِنْ شَعْبَانَ شَيْئٌ أَخَذَ فِي الصَّوْمِ لِحَالِ شَهْرِ رَمَضَانَ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مَا يُشْبِهُ قَوْلَهُمْ حَيْثُ قَالَ ﷺ:"لاَ تَقَدَّمُوا شَهْرَ رَمَضَانَ بِصِيَامٍ إِلاَّ أَنْ يُوَافِقَ ذَلِكَ صَوْمًا كَانَ يَصُومُهُ أَحَدُكُمْ" وَقَدْ دَلَّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّمَا الْكَرَاهِيَةُ عَلَى مَنْ يَتَعَمَّدُ الصِّيَامَ لِحَالِ رَمَضَانَ.
* تخريج: د/الصیام ۱۲ (۲۳۳۷)، دي/الصوم ۳۴ (۱۷۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۵۱) (صحیح)
وأخرجہ کل من : ق/الصیام ۵ (۱۶۵۱)، ودي/الصوم ۳۴ (۱۷۸۱) من غیر ہذا الطریق۔
۷۳۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جب آدھا شعبان رہ جائے تو صوم نہ رکھو'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ہم اسے ان الفاظ کے ساتھ صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،۲- اوراس حدیث کا مفہوم بعض اہل علم کے نزدیک یہ ہے کہ آدمی پہلے سے صوم نہ رکھ رہاہو، پھر جب شعبان ختم ہونے کے کچھ دن باقی رہ جائیں توماہ رمضان کی تعظیم میں صوم رکھنا شروع کردے۔نیزابوہریرہ سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے وہ چیزیں روایت کی ہے جو ان لوگوں کے قول سے ملتاجلتاہے جیساکہ آپ ﷺ نے فرمایا : ''ماہ رمضان کے استقبال میں پہلے سے صوم نہ رکھو'' اس کے کہ ان ایام میں کوئی ایسا صوم پڑجائے جسے تم پہلے سے رکھتے آ رہے ہو۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کراہت اس شخص کے لئے ہے جوعمداً رمضان کی تعظیم میں صوم رکھے۔
وضاحت ۱؎ : شعبان کے نصف ثانی میں صوم رکھنے کی ممانعت امت کو اس لیے ہے تاکہ رمضان کے صیام کے لیے قوّت وتوانائی برقراررہے، رہے نبی اکرمﷺاس ممانعت میں داخل نہیں اس لیے کہ آپ کے بارے میں آتاہے کہ آپ شعبان کے صیام کو رمضان سے ملا لیاکرتے تھے چونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لیے صوم آپ کے لیے کمزوری کا سبب نہیں بنتاتھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
39-بَاب مَا جَاءَ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ
۳۹-باب: پندرھویں شعبان کی رات کا بیان ۱؎​


739- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ : فَقَدْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ لَيْلَةً فَخَرَجْتُ فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ فَقَالَ: أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ قُلْتُ: يَارَسُولَ اللهِ! إِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ فَقَالَ: إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ.
وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكرٍ الصِّدِّيقِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الْحَجَّاجِ وسَمِعْت مُحَمَّدًا يُضَعِّفُ هَذَا الْحَدِيثَ. وَ قَالَ: يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ، وَالْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ.
* تخريج: ق/الاقامۃ ۱۹۱ (۱۳۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۵) (ضعیف)
(مؤلف نے سبب بیان کردیاہے کہ حجاج بن ارطاۃ ضعیف راوی ہے، اور سند میں دوجگہ انقطاع ہے)
۷۳۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہﷺ کو غائب پایا۔تو میں(آپ کی تلاش میں) باہر نکلی توکیادیکھتی ہوں کہ آپ بقیع قبرستان میں ہیں۔ آپ نے فرمایا: '' کیا تم ڈررہی تھی کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے؟'' میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرا گمان تھا کہ آپ اپنی کسی بیوی کے ہاں گئے ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ پندرھویں شعبان ۲؎ کی رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتاہے،اورقبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کوہم اس سند سے صرف حجاج کی روایت سے جانتے ہیں،۲- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو اس حدیث کی تضعیف کرتے سناہے،نیز فرمایا: یحیی بن ابی کثیر کا عروہ سے اور حجاج بن ارطاۃ کا یحیی بن ابی کثیر سے سماع نہیں ، ۳- اس باب میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس باب کا ذکر یہاں استطراداً شعبان کے ذکرکی وجہ سے کیا گیا ہے ورنہ گفتگویہاں صرف صیام کے سلسلہ میں ہے۔
وضاحت ۲؎ : اسی کو بر صغیر ہندو پاک میں لیلۃ البراء ت بھی کہتے ہیں، جس کا فارسی ترجمہ''شبِ براء ت'' ہے۔اوراس میں ہونے والے اعمال بدعت وخرافات کے قبیل سے ہیں ، نصف شعبان کی رات کی فضیلت کے حوالے سے کوئی ایک بھی صحیح روایت اورحدیث احادیث کی کتب میں نہیں ہے۔
 
Top