• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
60-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْحِجَامَةِ لِلصَّائِمِ
۶۰-باب: صائم کے پچھنا لگوانے کی کراہت کا بیان​


774- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ النَّيْسَابُورِيُّ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ وَيَحْيَى بْنُ مُوسَى، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ قَارِظٍ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَسَعْدٍ، وَشَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، وَثَوْبَانَ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، وَعَائِشَةَ، وَمَعْقِلِ بْنِ سِنَانٍ وَيُقَالُ: ابْنُ يَسَارٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي مُوسَى، وَبِلاَلٍ وَسَعْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَذُكِرَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ أَنَّهُ قَالَ: أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ. وَذُكِرَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِاللهِ أَنَّهُ قَالَ: أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثُ ثَوْبَانَ وَشَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ. لأَنَّ يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ رَوَى عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ الْحَدِيثَيْنِ جَمِيعًا حَدِيثَ ثَوْبَانَ وَحَدِيثَ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ. وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ الْحِجَامَةَ لِلصَّائِمِ حَتَّى أَنَّ بَعْضَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ احْتَجَمَ بِاللَّيْلِ، مِنْهُمْ أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ وَابْنُ عُمَرَ، وَبِهَذَا يَقُولُ ابْنُ الْمُبَارَكِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت إِسْحَاقَ بْنَ مَنْصُورٍ يَقُولُ: قَالَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ: مَنْ احْتَجَمَ وَهُوَ صَائِمٌ فَعَلَيْهِ الْقَضَاءُ. قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ: وَهَكَذَا قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ: حَدَّثَنَا الزَّعْفَرَانِيُّ قَالَ: وقَالَ الشَّافِعِيُّ: قَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ احْتَجَمَ وَهُوَ صَائِمٌ. وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: <أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ> وَلاَ أَعْلَمُ وَاحِدًا مِنْ هَذَيْنِ الْحَدِيثَيْنِ ثَابِتًا. وَلَوْ تَوَقَّى رَجُلٌ الْحِجَامَةَ وَهُوَ صَائِمٌ كَانَ أَحَبَّ إِلَيَّ وَلَوْ احْتَجَمَ صَائِمٌ لَمْ أَرَ ذَلِكَ أَنْ يُفْطِرَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا كَانَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ بِبَغْدَادَ. وَأَمَّا بِمِصْرَ، فَمَالَ إِلَى الرُّخْصَةِ وَلَمْ يَرَ بِالْحِجَامَةِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا وَاحْتَجَّ بِأَنَّ النَّبِيَّ ﷺ احْتَجَمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهُوَ مُحْرِمٌ صَائِمٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۵۵۶) (صحیح)
۷۷۴- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''سینگی (پچھنا) لگانے اورلگوانے والے دونوں کاصوم نہیں رہا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے صحیح رافع بن خدیج کی روایت ہے، ۳- اورعلی بن عبداللہ(ابن المدینی) کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے صحیح ثوبان اور شداد بن اوس کی حدیثیں ہیں، اس لیے کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوقلابہ سے ثوبان اور شداد بن اوس دونوں کی حدیثوں کی ایک ساتھ روایت کی ہے،۴- اس باب میں علی، سعد، شداد بن اوس، ثوبان ، اسامہ بن زید ، عائشہ ، معقل بن سنان (ابن یسار بھی کہاجاتاہے) ، ابوہریرہ ، ابن عباس ، ابوموسیٰ ، بلال اور سعد رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ، ۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے صائم کے لیے پچھنا لگوانے کومکروہ قراردیا ہے، یہاں تک کہ بعض صحابہ نے رات کو پچھنا لگوایا ۔ ان میں موسیٰ اشعری، اور ابن عمربھی ہیں۔ ابن مبارک بھی یہی کہتے ہیں: ۶-عبدالرحمن بن مہدی کہتے ہیں کہ جس نے صوم کی حالت میں پچھنا لگوایا ، اس پر اس کی قضا ہے، اسحاق بن منصور کہتے ہیں : اسی طرح احمد اور اسحاق بن راہویہ نے بھی کہا ہے ،۷- شافعی کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے صوم کی حالت میں پچھنا لگوایا۔ اور نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ''پچھنا لگانے اور لگوانے والے دونوں نے صوم توڑدیا'' ، اور میں ان دونوں حدیثوں میں سے ایک بھی صحیح نہیں جانتا، لیکن اگر کوئی صوم کی حالت میں پچھنا لگوانے سے اجتناب کرے تویہ مجھے زیادہ محبوب ہے، اور اگر کوئی صائم پچھنا لگوالے تومیں نہیں سمجھتاکہ اس سے اس کا صوم ٹوٹ گیا،۸- بغداد میں شافعی کا بھی یہی قول تھا کہ اس سے صوم ٹوٹ جاتاہے۔ البتہ مصر میں وہ رخصت کی طرف مائل ہوگئے تھے اورصائم کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ نبی اکرمﷺ نے حجۃ الوداع میں احرام کی حالت میں پچھنا لگوایاتھا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : گویاان کاموقف یہ تھا کہ سینگی لگوانے سے صوم ٹوٹ جانے کاحکم منسوخ ہوگیا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
61- بَاب مَا جَاءَ مِنَ الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
۶۱- باب: صائم کے لیے پچھنالگوانے کی رخصت کا بیان​


775- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلاَلٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: احْتَجَمَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَهُوَ مُحْرِمٌ صَائِمٌ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، هَكَذَا رَوَى وَهِيبٌ نَحْوَ رِوَايَةِ عَبْدِ الْوَارِثِ. وَرَوَى إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ مُرْسَلاً وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: خ/الصوم ۳۲ (۱۹۳۸)، والطب ۱۲ (۵۶۹۵)، د/الصیام ۲۹ (۲۳۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۸۹) (صحیح) ''احتجم وھو صائم ''کے لفظ سے صحیح ہے جو بسند عبدالوارث صحیح بخاری میں موجود ہے، اور ترمذی کا یہ سیاق سنن ابی داود میں بسند یزید عن مقسم عن ابن عباس موجودہے، جب کہ حکم اور حجاج نے مقسم سے روایت میں'' محرم'' کالفظ نہیں ذکر کیا ہے،در اصل الگ الگ نبی اکرمﷺنے دونوں حالت میں حجامت کرائی ، جس کا ذکر صحیح بخاری میں بسند وہیب عن ایوب ، عن عکرمہ ، عن ابن عباس ہے کہ أن النبي ﷺ احتجم وهو محرم، واحتجم وهو صائم:۱۸۳۵، ۱۹۳۸) پتہ چلا کہ پچھنا لگوانے کا یہ کام حالت صوم واحرام میں ایک ساتھ نہیں ہوا ہے، بلکہ دو الگ الگ واقعہ ہے) وقد أخرجہ کل من: خ/جزاء الصید ۱۱ (۱۸۳۵)، واطلب ۱۵ (۵۷۰۰)، م/الحج ۱۱ (۱۲۰۲)، د/الحج ۳۶ (۱۸۳۵، ۱۸۳۶)، ق/الحج ۸۷ (۳۰۸۱)، حم (۱/۲۱۵، ۲۲۱، ۲۲۲، ۲۳۶، ۲۴۸، ۲۴۹، ۲۶۰، ۲۸۳، ۲۸۶، ۲۹۲، ۳۰۶، ۳۱۵، ۳۳۳، ۳۴۶، ۳۵۱، ۳۷۲، ۳۷۴)، دي/المناسک ۲۰ (۱۸۲۰)، من غیر ہذا الطریق۔
۷۷۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے پچھنا لگوایا،آپ محرم تھے اورصوم سے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اسی طرح وہیب نے بھی عبدالوارث کی طرح روایت کی ہے، ۳-اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ نے ایوب سے اورایوب نے عکرمہ سے مرسلاً روایت کی ہے اور،عکرمہ نے ا س میں ابن عباس کاذکرنہیں کیا ہے۔


776- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللهِ الأَنْصَارِيُّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ احْتَجَمَ وَهُوَ صَائِمٌ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۶۵۰۷) (صحیح)
۷۷۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے پچھنا لگوایا،آپ صوم سے تھے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔


777- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ احْتَجَمَ فِيمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ وَهُوَ مُحْرِمٌ صَائِمٌ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَجَابِرٍ وأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ وَلَمْ يَرَوْا بِالْحِجَامَةِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۶۴۹۵) (منکر)
(اس لفظ کے ساتھ منکر ہے، صحیح یہ ہے کہ نبی اکرمﷺنے حالت احرام میں سینگی لگوائی تو صوم سے نہیں تھے کماتقدم اور حالت صیام میں سینگی لگانے کا واقعہ الگ ہے)
۷۷۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ایسے وقت میں پچھنا لگوایا جس میں آپ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے ،آپ احرام باندھے ہوے تھے اور صوم کی حالت میں تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوسعیدخدری ، جابر اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ صائم کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ۔ سفیان ثوری ، مالک بن انس ، اور شافعی کابھی یہی قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
62- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْوِصَالِ لِلصَّائِمِ
۶۲- باب: افطار کیے بغیر مسلسل صوم رکھنے کی کراہت کا بیان​


778- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ وَخَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"لاَ تُوَاصِلُوا"، قَالُوا: فَإِنَّكَ تُوَاصِلُ يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ:"إِنِّي لَسْتُ كَأَحَدِكُمْ إِنَّ رَبِّي يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِي". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ ، وَعَائِشَةَ ، وَابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ، وَبَشِيرِ ابْنِ الْخَصَاصِيَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ . كَرِهُوا الْوِصَالَ فِي الصِّيَامِ. وَرُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ كَانَ يُوَاصِلُ الأَيَّامَ وَلاَ يُفْطِرُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۵) (صحیح)
۷۷۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''صوم وصال ۱؎ مت رکھو''، لوگوں نے عرض کیا: آپ تو رکھتے ہیں؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا:''میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ میرارب مجھے کھلاتا پلاتاہے'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی ، ابوہریرہ، عائشہ، ابن عمر، جابر، ابوسعید خدری، اور بشیربن خصاصیہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ، ۳- اہل علم کا اسی پرعمل ہے، وہ بغیر افطار کیے لگاتارصوم رکھنے کو مکروہ کہتے ہیں، ۴- عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ کئی دنوں کوملالیتے تھے (درمیان میں) افطار نہیں کرتے تھے۔
وضاحت ۱؎ : صوم وصال یہ ہے کہ آدمی قصداً دویا دوسے زیادہ دن تک افطار نہ کرے، مسلسل صیام رکھے نہ رات میں کچھ کھائے پیئے اورنہ سحری ہی کے وقت، صوم وصال نبی اکرمﷺ کے لیے جائز تھا لیکن امت کے لیے جائزنہیں۔
وضاحت ۲؎ : ''میرارب مجھے کھلاتاپلاتا ہے'' اسے جمہور نے مجازاً قوت پر محمول کیا ہے کہ کھانے پینے سے جو قوت حاصل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ وہ قوت مجھے یوں ہی بغیر کھائے پیے دے دیتا ہے،اور بعض نے اسے حقیقت پر محمول کرتے ہوے کھانے پینے سے جنت کا کھانا پینا مرادلیاہے، حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کواپنے معارف کی ایسی غذاکھلاتا ہے جس سے آپ کے دل پر لذت سرگوشی ومناجات کا فیضان ہوتا ہے، اللہ کے قرب سے آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے اوراللہ کی محبت کی نعمت سے آپ کو سرشاری نصیب ہوتی ہے اور اس کی جناب کی طرف شوق میں افزونی ہوتی ہے، یہ ہے وہ غذاجو آپ کو اللہ کی جانب سے عطاہوتی ہے، یہ روحانی غذایسی ہے جو آپ کو دنیوی غذاسے کئی کئی دنوں تک کے لیے بے نیازکردیتی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
63-بَاب مَا جَاءَ فِي الْجُنُبِ يُدْرِكُهُ الْفَجْرُ وَهُوَ يُرِيدُ الصَّوْمَ
۶۳-باب: جنبی کو فجر پالے اوروہ صوم رکھنا چاہتاہو تو کیا حکم ہے​


779- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ وَأُمُّ سَلَمَةَ زَوْجَا النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُدْرِكُهُ الْفَجْرُ وَهُوَ جُنُبٌ مِنْ أَهْلِهِ ثُمَّ يَغْتَسِلُ فَيَصُومُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَقَدْ قَالَ: قَوْمٌ مِنْ التَّابِعِينَ إِذَا أَصْبَحَ جُنُبًا يَقْضِي ذَلِكَ الْيَوْمَ. وَالْقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ.
* تخريج: خ/الصوم ۲۲ (۱۹۲۶)، م/الصیام ۱۳ (۱۱۰۹)، د/الصیام ۳۶ (۲۳۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۹۶)، ط/الصیام ۴ (۱۲)، حم (۶/۳۸، ودي/الصوم ۲۲ (۱۷۶۶) من غیر ہذا الطریق (صحیح)
۷۷۹- ام المومنین عائشہ اورا م المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کو فجر پالیتی اور اپنی بیویوں سے صحبت کی وجہ سے حالت جنابت میں ہوتے پھر آپ غسل فرماتے اور صوم رکھتے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیںـ: ۱- عائشہ اور ام سلمہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثراہل علم کا اسی پرعمل ہے۔ سفیان، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے اور تابعین کی ایک جماعت کہتی ہیـ کہ جب کوئی حالت جنابت میں صبح کرے تو وہ اس دن کی قضاکرے لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ ام المومنین عائشہ اورام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث ابوہریرہ کی حدیث ''من أصبح جنبا فلا صوم له''کے معارض ہے، اس کا جواب یہ دیاجاتاہے کہ عائشہ اورام سلمہ کی حدیث کو ابوہریرہ کی حدیث پرترجیح حاصل ہے کیونکہ یہ دونوں نبی اکرمﷺ کی بیویوں میں سے ہیں اوربیویاں اپنے شوہروں کے حالات سے زیادہ واقفیت رکھتی ہیں، دوسرے ابوہریرہ تنہا ہیں اور یہ دوہیں اوردوکی روایت کو اکیلے کی روایت پرترجیح دی جائے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
64- بَاب مَا جَاءَ فِي إِجَابَةِ الصَّائِمِ الدَّعْوَةَ
۶۴- باب: صائم دعوت قبول کرے اس کا بیان​


780- حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَاءِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ إِلَى طَعَامٍ فَلْيُجِبْ فَإِنْ كَانَ صَائِمًا فَلْيُصَلِّ يَعْنِي الدُّعَاءَ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۴۳۳) (صحیح)
وأخرجہ : کل من : م/الصیام ۲۸ (۱۱۵۰)، د/الصیام ۷۵ (۲۴۶۰)، ق/الصیام ۴۷ (۱۷۵۰)، حم (۲/۲۴۲)، دي/الصیام ۳۱ (۱۷۷۸)، من غیر ہذا الطریق۔
۷۸۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ''جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت ملے تو اسے قبول کرے، اوراگروہ صوم سے ہوتوچاہئے کہ دعاکرے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی صاحب طعام کے لیے برکت کی دعاکرے، کیو نکہ طبرانی کی روایت میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے واردہے جس میں ''وإن كان صائما فليدع بالبركة''کے الفاظ آئے ہیں،باب کی حدیث میں''فلیصل''کے بعد''يعني الدعاء''کے جوالفاظ آئے ہیں یہ ''فليصل''کی تفسیرہے جوخودامام ترمذی نے کی ہے یاکسی اورراوی نے، مطلب یہ ہے کہ یہاں صلاۃ پڑھنا مرادنہیں بلکہ اس سے مراددعاہے، بعض لوگوں نے اسے ظاہر پر محمول کیاہے، اس صورت میں اس حدیث کا مطلب یہ ہوگاکہ وہ دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرے اس کے گھرجائے اورگھرکے کسی کونے میں جاکردورکعت صلاۃ پڑھے جیساکہ نبی اکرمﷺ نے ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھرمیں پڑھی تھی۔


781- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ وَهُوَ صَائِمٌ فَلْيَقُلْ إِنِّي صَائِمٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَكِلاَ الْحَدِيثَيْنِ فِي هَذَا الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۷۱) (صحیح)
۷۸۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے اور وہ صوم سے ہوتو چاہئے کہ وہ کہے میں صوم سے ہوں'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیںـ: اس باب میں ابوہریرہ سے مروی دونوں حدیثیں حسن صحیح ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ''میں صوم سے ہوں''کہنے کاحکم دعوت قبول نہ کرنے کی معذرت کے طورپر ہے، اگرچہ نوافل کاچھپانابہترہے، لیکن یہاں اس کے ظاہر کرنے کاحکم اس لیے ہے کہ تاکہ داعی کے دل میں مدعوکے خلاف کوئی غلط فہمی اورکدورت راہ نہ پائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
65-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ صَوْمِ الْمَرْأَةِ إِلاَّ بِإِذْنِ زَوْجِهَا
۶۵-باب: شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے نفل صوم رکھنے کی کراہت کا بیان​


782- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"لاَ تَصُومُ الْمَرْأَةُ وَزَوْجُهَا شَاهِدٌ يَوْمًا مِنْ غَيْرِ شَهْرِ رَمَضَانَ إِلاَّ بِإِذْنِهِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: ق/الصیام ۵۳ (۱۷۶۱)، (بدون ذکر رمضان)، دي/الصوم ۲۰ (۱۷۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۸۰)، حم (۲/۲۴۵، ۴۶۴) (صحیح)
۷۸۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''عورت اپنے شوہر کی موجود گی میں ماہ رمضان کے علاوہ کوئی اور صوم بغیراس کی اجازت کے نہ رکھے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیںـ: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عباس اور ابوسعید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : '' لا تصوم'' نفی کا صیغہ جو نہی کے معنی میں ہے، مسلم کی روایت میں ''لا يحل للمرأة أن تصوم''کے الفاظ واردہیں، یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شوہرکی موجودگی میں نفلی صیام عورت کے لیے بغیر شوہر کی اجازت کے جائز نہیں، اوریہ ممانعت مطلقاً ہے اس میں یوم عرفہ اورعاشوراء کے صیام بھی داخل ہیں بعض لوگوں نے عرفہ اورعاشوراء کے صیام کو مستثنیٰ کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
66-بَاب مَا جَاءَ فِي تَأْخِيرِ قَضَاءِ رَمَضَانَ
۶۶-باب: صیامِ رمضان کی قضا دیرسے کرنے کا بیان​


783- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ السُّدِّيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ الْبَهِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا كُنْتُ أَقْضِي مَا يَكُونُ عَلَيَّ مِنْ رَمَضَانَ إِلاَّ فِي شَعْبَانَ حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ وَقَدْ رَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيُّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ نَحْوَ هَذَا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۹۳)، وانظر حم (۶/۱۲۴، ۱۳۱، ۱۷۰)، وأخرجہ کل من: خ /الصوم ۴۰ (۱۹۵۰)، م/الصوم ۲۶ (۱۱۴۶)، د/الصیام ۴۰ (۲۳۹۹)، ن/الصیام ۶۴ (۲۳۳۱)، ق/الصیام ۱۳ (۱۶۶۹) من غیر ھذا الطریق و بسیاق آخر (صحیح)
(سندمیں اسماعیل سدی کے بارے میں قدرے کلام ہے،لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
۷۸۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رمضان کے جوصیام مجھ پررہ جاتے انہیں میں شعبان ہی میں قضا کرپاتی تھی۔ جب تک کہ رسول اللہﷺ کی وفات نہیں ہوگئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
67-بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصَّائِمِ إِذَا أُكِلَ عِنْدَهُ
۶۷-باب: صائم کی فضیلت کا بیان جب اس کے پاس کھایا جائے​


784- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ لَيْلَى، عَنْ مَوْلاَتِهَا، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"الصَّائِمُ إِذَا أَكَلَ عِنْدَهُ الْمَفَاطِيرُ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلاَئِكَةُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ لَيْلَى عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ عُمَارَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج: ق/الصیام ۴۶ (۱۷۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۳۵) (ضعیف)
(سندمیں لیلیٰ مجہول راوی ہے)
۷۸۴- لیلیٰ کی مالکن ( ام عمارہ) سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''صائم کے پاس جب افطار کی چیزیں کھائی جاتی ہیں ، تو فرشتے اس کے لیے مغفرت کی دعاکرتے ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: شعبہ نے بھی یہ حدیث بطریق : ''حبيب بن زيد، عن ليلى، عن جدة حبيب أم عمارة، عن النبي ﷺ '' سے اسی طرح روایت کی ہے۔ (جو آگے آرہی ہے)


785- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ زَيْدٍ، قَال: سَمِعْتُ مَوْلاَةً لَنَا يُقَالُ لَهَا لَيْلَى تُحَدِّثُ عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ عُمَارَةَ بِنْتِ كَعْبٍ الأَنْصَارِيَّةِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ عَلَيْهَا فَقَدَّمَتْ إِلَيْهِ طَعَامًا فَقَالَ: < كُلِي > فَقَالَتْ: إِنِّي صَائِمَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِنَّ الصَّائِمَ تُصَلِّي عَلَيْهِ الْمَلاَئِكَةُ إِذَا أُكِلَ عِنْدَهُ حَتَّى يَفْرُغُوا"، وَرُبَّمَا قَالَ:"حَتَّى يَشْبَعُوا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف)
(سندمیں لیلیٰ مجہول راوی ہے)
۷۸۵- ام عمارہ بنت کعب انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ ان کے پاس آئے ، انہوں نے آپ کو کھانا پیش کیا، تو آپ نے فرمایا: ''تم بھی کھاؤ''،انہوں نے کہا:میں صوم سے ہوں تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''صائم کے لیے فرشتے استغفار کرتے رہتے ہیں، ''جب اس کے پاس کھایاجاتاہے جب تک کہ کھانے والے فارغ نہ ہوجائیں''۔ بعض روایتوں میں ہے ''جب تک کہ وہ آسودہ نہ ہوجائیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اوریہ شریک کی (اوپروالی) حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔


786- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ مَوْلاَةٍ لَهُمْ يُقَالُ لَهَا لَيْلَى، عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ عُمَارَةَ بِنْتِ كَعْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ حَتَّى يَفْرُغُوا أَوْ يَشْبَعُوا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأُمُّ عُمَارَةَ هِيَ جَدَّةُ حَبِيبِ بْنِ زَيْدٍ الأَنْصَارِيِّ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف)
۷۸۶- اس سند سے بھی نبی اکرمﷺسے اسی طرح مروی ہے اس میں '' حَتَّى يَفْرُغُوا أَوْ يَشْبَعُوا '' کا ذکر نہیں ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ام عمارہ حبیب بن زید انصاری کی دادی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
68-بَاب مَا جَاءَ فِي قَضَاءِ الْحَائِضِ الصِّيَامَ دُونَ الصَّلاَةِ
۶۸-باب: حائضہ عورت صیام کی قضاکرے گی صلاۃ کی نہیں​


787- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عُبَيْدَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُنَّا نَحِيضُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ، ثُمَّ نَطْهُرُ فَيَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصِّيَامِ وَلاَ يَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصَّلاَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُعَاذَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَيْضًا وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لاَ نَعْلَمُ بَيْنَهُمْ اخْتِلاَفًا أَنَّ الْحَائِضَ تَقْضِي الصِّيَامَ وَلاَ تَقْضِي الصَّلاَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَعُبَيْدَةُ هُوَ ابْنُ مُعَتِّبٍ الضَّبِّيُّ الْكُوفِيُّ يُكْنَى أَبَا عَبْدِ الْكَرِيمِ.
* تخريج: ق/الصیام ۱۳ (۱۶۷۰)، دي/الطہارۃ ۱۰۱ (۱۰۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۷۴) (صحیح) وأخرجہ کل من: م/الحیض ۱۵ (۳۳۵)، د/الطہارۃ ۱۰۵ (۲۶۳)، ن/الصیام ۶۴ (۲۳۲۰)، ق/الطہارۃ ۱۱۹ (۶۳۱)، حم (۶/۲۳، ۲۳۱- ۲۳۲)، دي/الطہارۃ ۱۰۱ (۱۰۲۰) من غیر ہذا الطریق وبتصرف یسیر فی السیاق۔
۷۸۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں ہمیں حیض آتا پھر ہم پاک ہوجاتے تو آپ ہمیں صیام قضاکرنے کا حکم دیتے اور صلاۃقضاکرنے کا حکم نہیں دیتے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- یہ معاذہ سے بھی مروی ہے انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے،۳- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے، ہم ان کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں جانتے کہ حائضہ عورت صیام کی قضاکرے گی ، صلاۃ کی نہیں کرے گی۔
وضاحت ۱؎ : اس کی وجہ یہ ہے کہ صوم کی قضااتنی مشکل نہیں ہے جتنی صلاۃ کی قضاہے کیونکہ یہ پورے سال میں صرف ایک بارکی بات ہوتی ہے اس کے برخلاف صلاۃحیض کی وجہ سے ہرمہینے چھ یا سات دن کی صلاۃ چھوڑنی پڑتی ہے، اورکبھی کبھی دس دس دن کی صلاۃ چھوڑنی پڑجاتی ہے، اس طرح سال کے تقریباً چار مہینے صلاۃ کی قضاء کرنی پڑے گی جو انتہائی دشوارامرہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
69- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ مُبَالَغَةِ الاِسْتِنْشَاقِ لِلصَّائِمِ
۶۹-باب: صائم کے لیے ناک میں پانی سُرکنے میں مبالغہ کرنے کی کراہت کا بیان​


788- حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِالْحَكَمِ الْبَغْدَادِيُّ الْوَرَّاقُ وَأَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ كَثِيرٍ، قَال: سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ لَقِيطِ بْنِ صَبِرَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَخْبِرْنِي عَنْ الْوُضُوءِ. قَالَ:"أَسْبِغِ الْوُضُوءَ وَخَلِّلْ بَيْنَ الأَصَابِعِ وَبَالِغْ فِي الاِسْتِنْشَاقِ إِلاَّ أَنْ تَكُونَ صَائِمًا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ كَرِهَ أَهْلُ الْعِلْمِ السُّعُوطَ لِلصَّائِمِ وَرَأَوْا أَنَّ ذَلِكَ يُفْطِرُهُ. وَفِي الْبَابِ مَا يُقَوِّي قَوْلَهُمْ.
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸ (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۷۲) (صحیح)
۷۸۸- لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے وضو کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا: '' کامل طریقے سے وضو کرو ، انگلیوں کے درمیان خلال کرواور ناک میں پانی سُرکنے میں مبالغہ کرو، إلا یہ کہ تم صوم سے ہو''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم نے صائم کے لیے ناک میں پانی سُرکنے میں مبالغہ کرنے کو مکروہ کہاہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے صوم ٹوٹ جاتاہے،۳- اس باب میں دوسری روایات بھی ہیں جن سے ان کے قول کی تقویت ہوتی ہے۔
 
Top