• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
50- بَاب مَا جَاءَ عَاشُورَاءُ أَيُّ يَوْمٍ هُوَ
۵۰-باب: عاشوراء کادن کون ساہے؟​


754- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَاجِبِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ الأَعْرَجِ قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ رِدَائَهُ فِي زَمْزَمَ فَقُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَيُّ يَوْمٍ هُوَ أَصُومُهُ قَالَ: إِذَا رَأَيْتَ هِلاَلَ الْمُحَرَّمِ فَاعْدُدْ ثُمَّ أَصْبِحْ مِنْ التَّاسِعِ صَائِمًا قَالَ: فَقُلْتُ: أَهَكَذَا كَانَ يَصُومُهُ مُحَمَّدٌ ﷺ قَالَ: نَعَمْ.
* تخريج: م/الصیام ۲۰ (۱۱۳۳)، د/الصیام ۶۵ (۲۴۴۶)، (التحفہ: ۵۴۱۲)، حم (۱/۲۴۷) (صحیح)
۷۵۴- حکم بن اعرج کہتے ہیں کہ میں ابن عباس کے پاس پہنچا، وہ زمزم پراپنی چادر کا تکیہ لگائے ہوئے تھے، میں نے پوچھا: مجھے یوم عاشوراء کے بارے میں بتائیے کہ وہ کون سا دن ہے جس میں میں صوم رکھوں؟ انہوں نے کہا : جب تم محرم کاچاند دیکھو تو دن گنو، اور نویں تاریخ کو صوم رکھ کرصبح کرو۔ میں نے پوچھا: کیا اسی طرح سے محمدﷺ رکھتے تھے؟ کہا: ہاں(اسی طرح رکھتے تھے)۔


755- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَمَرَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِصَوْمِ عَاشُورَاءَ يَوْمُ الْعَاشِرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ. فَقَالَ بَعْضُهُمْ: يَوْمُ التَّاسِعِ. وقَالَ بَعْضُهُمْ يَوْمُ الْعَاشِرِ وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ: صُومُوا التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ وَخَالِفُوا الْيَهُودَ. وَبِهَذَا الْحَدِيثِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۳۹۵) (صحیح)
۷۵۵- عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے دسویں تاریخ کو عاشوراء کا صوم رکھنے کا حکم دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا عاشورا ء کے دن کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں :عاشوراء نواں دن ہے اوربعض کہتے ہیں: دسوان دن ۱؎ ابن عباس سے مروی ہے کہ نویں اور دسویں دن کا صوم رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو۔شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول اسی حدیث کے مطابق ہے۔
وضاحت ۱؎ : اکثرعلماء کی رائے بھی ہے کہ محرم کا دسواں دن ہی یوم عاشوراء ہے اوریہی قول راجح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
51- بَاب مَا جَاءَ فِي صِيَامِ الْعَشْرِ
۵۱-باب: ذی الحجہ کے پہلے عشرے (ابتدائی دس دن) کے صیام کا بیان​


756- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ صَائِمًا فِي الْعَشْرِ قَطُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ. وَرَوَى الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُهُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمْ يُرَ صَائِمًا فِي الْعَشْرِ. وَرَوَى أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَائِشَةَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ الأَسْوَدِ وَقَدْ اخْتَلَفُوا عَلَى مَنْصُورٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ وَرِوَايَةُ الأَعْمَشِ أَصَحُّ وَأَوْصَلُ إِسْنَادًا. قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ أَبَانَ يَقُولُ سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ الأَعْمَشُ أَحْفَظُ لإِسْنَادِ إِبْرَاهِيمَ مِنْ مَنْصُورٍ.
* تخريج: م/الاعتکاف ۴ (۱۱۷۶)، د/الصیام ۶۲ (۲۴۳۹)، ق/الصیام ۳۹ (۱۷۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۴۹) (صحیح)
۷۵۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو ذی الحجہ کے دس دنوں میں صیام رکھتے کبھی نہیں دیکھا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اسی طرح کئی دوسرے لوگوں نے بھی بطریق الأعمش عن ابراہیم عن أسود عن ام المومنین عائشہ روایت کی ہے،۲- اورثوری وغیرہ نے یہ حدیث بطریق منصور عن ابراہیم النخعی یوں روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ کو ذی الحجہ کے دس دنوں میں صوم رکھتے نہیں دیکھاگیا،۳- اورابوالا ٔحوص نے بطریق منصورعن ابراہیم النخعی عن عائشہ روایت کی اس میں انہوں نے اسودکے واسطے کاذکرنہیں کیاہے،۴- اورلوگوں نے اس حدیث میں منصور پر اختلاف کیاہے۔ اور اعمش کی روایت زیادہ صحیح ہے اورسندکے اعتبارسے سب سے زیادہ متصل ہے، ۵-اعمش ابراہیم نخعی کی سند کے منصور سے زیادہ یادرکھنے والے۔
وضاحت ۱؎ : بظاہراس حدیث سے یہ وہم پیداہوتا ہے کہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں صوم رکھنامکروہ ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، ان دنوں میں صوم رکھنامستحب ہے، خاص کریوم عرفہ کے صوم کی بڑی فضیلت واردہے، ویسے بھی ان دنوں کے نیک اعمال اللہ کو بہت پسندہیں اس لیے اس حدیث کی تاویل کی جاتی کہ نبی اکرمﷺ کا ان دنوں صوم نہ رکھناممکن ہے بیماری یاسفروغیرہ کسی عارض کی وجہ سے رہاہو، نیز عائشہ رضی اللہ عنہا کے نہ دیکھنے سے یہ لازم نہیں آتاکہ آپ فی الواقع صوم نہ رکھتے رہے ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
52-بَاب مَا جَاءَ فِي الْعَمَلِ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ
۵۲-باب: ذی الحجہ کے پہلے عشرے (ابتدائی دس دن) کے عمل کے ثواب کا بیان​


757- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ هُوَ الْبَطِينُ، وَهُوَ ابْنُ أَبِي عِمْرَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنْ هَذِهِ الأَيَّامِ الْعَشْرِ" فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ ! وَلاَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"وَلاَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ إِلاَّ رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْئٍ". وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: خ/العیدین ۱۱ (۹۶۹)، د/الصیام ۶۱ (۲۴۳۷)، ق/الصیام ۳۹ (۱۷۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۱۴)، حم (۱/۲۲۴)، دي/الصوم ۵۲ (۱۸۱۴) (صحیح)
۷۵۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''ذی الحجہ کے دس دنوں کے مقابلے میں دوسرے کوئی ایام ایسے نہیں جن میں نیک عمل اللہ کوان دنوں سے زیادہ محبوب ہوں''، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! اللہ کی راہ میں جہادکرنابھی نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ''اللہ کی راہ میں جہادکرنابھی نہیں، سوائے اس مجاہد کے جو اپنی جان اور مال دونوں لے کراللہ کی راہ میں نکلاپھرکسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں ابن عمر، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو بن العاص اورجابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔


758- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مَسْعُودُ بْنُ وَاصِلٍ، عَنْ نَهَّاسِ بْنِ قَهْمٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَى اللهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ، يَعْدِلُ صِيَامُ كُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ، وَقِيَامُ كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مَسْعُودِ بْنِ وَاصِلٍ عَنْ النَّهَّاسِ. قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْهُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، مِثْلَ هَذَا. وَ قَالَ: قَدْ رُوِيَ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً شَيْئٌ مِنْ هَذَا. وَقَدْ تَكَلَّمَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ فِي نَهَّاسِ بْنِ قَهْمٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
* تخريج: ق/الصیام۳۹(۱۷۲۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۹۸) (ضعیف)
(سندمیں نہاس بن قہم ضعیف ہیں)
۷۵۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''ذی الحجہ کے (ابتدائی) دس دنوں سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں جس کی عبادت اللہ کو زیادہ محبوب ہو، ان ایام میں سے ہر دن کاصوم سال بھر کے صیام کے برابر ہے اوران کی ہررات کاقیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- ہم اسے صرف مسعود بن واصل کی حدیث سے اس طریق کے علاوہ جانتے ہیں اور مسعود نے نہّاس سے روایت کی ہے، ۳- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تووہ اسے کسی اور طریق سے نہیں جان سکے، ۴- اس میں سے کچھ جسے قتادہ نے بسند سعید بن المسیب عن النبی ﷺ مرسلا ً روایت کی ہے، ۴- یحییٰ بن سعید نے نہاس بن قہم پر ان کے حافظے کے تعلق سے کلام کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
53- بَاب مَا جَاءَ فِي صِيَامِ سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ
۵۳-باب: شوال کے چھ دن کے صیام کا بیان​


759- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ فَذَلِكَ صِيَامُ الدَّهْرِ". وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَثَوْبَانَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي أَيُّوبَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ اسْتَحَبَّ قَوْمٌ صِيَامَ سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ. قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: هُوَ حَسَنٌ، هُوَ مِثْلُ صِيَامِ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ. قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: وَيُرْوَى فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ <وَيُلْحَقُ هَذَا الصِّيَامُ بِرَمَضَانَ> وَاخْتَارَ ابْنُ الْمُبَارَكِ أَنْ تَكُونَ سِتَّةَ أَيَّامٍ فِي أَوَّلِ الشَّهْرِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ قَالَ إِنْ صَامَ سِتَّةَ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ مُتَفَرِّقًا فَهُوَ جَائِزٌ. قَالَ: وَقَدْ رَوَى عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، وَسَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عُمَرَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ هَذَا. وَرَوَى شُعْبَةُ عَنْ وَرْقَاءَ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، وَسَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ -هُوَ أَخُو يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ-. وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
759/م- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ، عَنْ إِسْرَائِيلَ أَبِي مُوسَى، عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ، قَالَ : كَانَ إِذَا ذُكِرَ عِنْدَهُ صِيَامُ سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ فَيَقُولُ: وَاللهِ لَقَدْ رَضِيَ اللهُ بِصِيَامِ هَذَا الشَّهْرِ عَنْ السَّنَةِ كُلِّهَا.
* تخريج: م/الصیام ۲۹ (۱۱۶۴)، د/الصیام ۵۸ (۲۴۳۳)، ق/الصیام ۳۳ (۱۷۱۶)، دي/الصوم ۴۴ (۱۷۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۸۲) (حسن صحیح)
۷۵۹- ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''جس نے رمضان کے صیام رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) صیام رکھے تو یہی صوم دہر ہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوایوب رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲-عبدالعزیز بن محمد نے اس حدیث کو بطریق : ''صفوان بن سليم بن سعيد، عن عمر بن ثابت، عن أبي أيوب، عن النبي ﷺ '' روایت کیا ہے، ۳- شعبہ نے یہ حدیث بطریق : ''ورقاء بن عمر، عن سعد بن سعيد'' روایت کی ہے، سعد بن سعید ، یحییٰ بن سعید انصاری کے بھائی ہیں، ۴- بعض محدّثین نے سعد بن سعید پر حافظے کے اعتبار سے کلام کیا ہے۔ ۵-حسن بصری سے روایت ہے کہ جب ان کے پاس شوال کے چھ دن کے صیام کا ذکر کیا جاتا تووہ کہتے : اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ اس ماہ کے صیام سے پورے سال راضی ہے، ۶- اس باب میں جابر ، ابوہریرہ اور ثوبان رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ، ۷- ایک جماعت نے اس حدیث کی روسے شوال کے چھ دن کے صیام کو مستحب کہاہے،۸- ابن مبارک کہتے ہیں: یہ اچھا ہے، یہ ہرماہ تین دن کے صیام کے مثل ہیں،۹- ابن مبارک کہتے ہیں: بعض احادیث میں مروی ہے کہ یہ صیام رمضان سے ملادیئے جائیں،۱۰- اور ابن مبارک نے پسند کیا ہے کہ یہ صیام مہینے کے ابتدائی چھ دنوں میں ہوں، ۱۱-ابن مبارک سے نے یہ بھی کہاـ: اگر کوئی شوال کے چھ دن کے صیام الگ الگ دنوں میں رکھے تو یہ بھی جائز ہے۔
وضاحت ۱؎ : ''ایک نیکی کاثواب کم ازکم دس گناہے''کے اصول کے مطابق رمضان کے صیام دس مہینوں کے صیام کے برابرہوئے اور اس کے بعدشوال کے چھ صیام اگر رکھ لیے جائیں تویہ دومہینے کے صیام کے برابرہوں گے، اس طرح اسے پورے سال کے صیام کا ثواب مل جائے گا، جس کا یہ مستقل معمول ہوجائے اس کا شماراللہ کے نزدیک ہمیشہ صوم رکھنے والوں میں ہوگا، شوّال کے یہ صیام نفلی ہیں انہیں متواتربھی رکھاجاسکتاہے اورناغہ کرکے بھی، تاہم شوّال ہی میں ان کی تکمیل ضروری ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
54-بَاب مَا جَاءَ فِي صَوْمِ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ
۵۴-باب: ہرماہ تین دن کے صیام رکھنے کا بیان​


760- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ أَبِي الرَّبِيعِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ ﷺ ثَلاَثَةً أَنْ لاَ أَنَامَ إِلاَّ عَلَى وِتْرٍ وَصَوْمَ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَأَنْ أُصَلِّيَ الضُّحَى.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۸۳) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/التہجد ۳۳ (۱۱۷۸)، والصیام ۶۰ (۱۹۸۱)، م/المسافرین ۱۳ (۷۲۱)، ن/قیام اللیل ۲۸ (۱۶۷۸)، والصیام ۷۰ (۲۳۶۸)، و۸۱ (۲۴۰۳)، (۲/۲۲۹، ۲۳۳، ۲۵۴، ۲۵۸، ۲۶۰، ۲۶۵، ۲۷۱، ۲۷۷، ۳۲۹)، دي/الصلاۃ ۱۵۱ (۱۴۹۵)، والصوم ۳۸ (۱۷۸۶)، من غیر ہذا الطریق وبتصرف یسیر فی السیاق۔
۷۶۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے مجھ سے تین باتوں کا عہد لیا: ۱- میں وتر پڑھے بغیر نہ سووں، ۲- ہرماہ تین دن کے صیام رکھوں،۳- اور چاشت کی صلاۃ (صلاۃ الضحیٰ) پڑھاکروں۔


761- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الأَعْمَشِ، قَال: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَامٍ يُحَدِّثُ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"يَا أَبَا ذَرٍّ! إِذَا صُمْتَ مِنْ الشَّهْرِ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ فَصُمْ ثَلاَثَ عَشْرَةَ وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ وَخَمْسَ عَشْرَةَ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَقُرَّةَ بْنِ إِيَاسٍ الْمُزَنِيِّ وَعَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي عَقْرَبٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ، وَقَتَادَةَ بْنِ مِلْحَانَ، وَعُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ وَجَرِيرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ أَنَّ مَنْ صَامَ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ كَانَ كَمَنْ صَامَ الدَّهْرَ.
* تخريج: ن/الصیام ۸۴ (۲۴۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۸۸) (حسن صحیح) وأخرجہ: ن/الصیام (المصدر المذکور (برقم: ۲۴۲۴-۲۴۳۱)، حم (۵/۱۵، ۵۲، ۱۷۷) من غیر ہذا الطریق وبسیاق آخر۔
۷۶۱- ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''ابوذر!جب تم ہرماہ کے تین دن کے صیام رکھو تو تیرہویں ، چودہویں اور پندرہویں تاریخ کو رکھو''۔امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں ابوقتادہ ، عبداللہ بن عمرو ، قرّہ بن ایاس مزنی ، عبداللہ بن مسعود ، ابوعقرب ، ابن عباس ، عائشہ ، قتادہ بن ملحان، عثمان بن ابی العاص اور جریر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ، ۳- بعض احادیث میں یہ بھی ہے کہ'' جس نے ہرماہ تین دن کے صیام رکھے تووہ اس شخص کی طرح ہے جس نے صوم دہر رکھا''۔


762- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ صَامَ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ فَذَلِكَ صِيَامُ الدَّهْرِ". فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ تَصْدِيقَ ذَلِكَ فِي كِتَابِهِ مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا الْيَوْمُ بِعَشْرَةِ أَيَّامٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي شِمْرٍ وَأَبِي التَّيَّاحِ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: ن/الصیام ۸۲ (۲۴۱۱)، ق/الصیام ۲۹ (۱۷۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۶۷) (صحیح)
۷۶۲- ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جس نے ہرماہ تین دن کے صیام رکھے تویہی صیام دہر ہے ''،اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمائی ارشادباری ہے:{مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا} (الأنعام: ۱۶۰) (جس نے ایک نیکی کی تواُسے (کم سے کم) اس کا دس گنا اجر ملے گا) گویا ایک دن (کم سے کم) دس دن کے برابر ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شعبہ نے یہ حدیث بطریق : ''أبي شمر و أبي التياح، عن أبي هريرة، عن النبي ﷺ '' روایت کی ہے۔


763- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، قَال: سَمِعْتُ مُعَاذَةَ قَالَتْ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: أَكَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَصُومُ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قُلْتُ: مِنْ أَيِّهِ كَانَ يَصُومُ؟ قَالَتْ: كَانَ لاَ يُبَالِي مِنْ أَيِّهِ صَامَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ: وَيَزِيدُ الرِّشْكُ هُوَ يَزِيدُ الضُّبَعِيُّ. وَهُوَ يَزِيدُ بْنُ الْقَاسِمِ وَهُوَ الْقَسَّامُ وَالرِّشْكُ هُوَ الْقَسَّامُ. بِلُغَةِ أَهْلِ الْبَصْرَةِ.
* تخريج: م/الصیام ۳۶ (۱۱۶۰)، د/الصیام ۷۰ (۲۴۵۳)، ق/الصیام ۲۹ (۱۷۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۷۷) (صحیح)
۷۶۳- معاذ ہ کہتی ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہﷺ ہرماہ تین صیام رکھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں رکھتے تھے، میں نے کہا: کون سی تاریخوں میں رکھتے تھے؟ کہا : آپ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے تھے کہ کون سی تاریخ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یزیدا لرّشک یزید ضبعی ہی ہیں ، یہی یزید بن قاسم بھی ہیں اور یہی قسّام ہیں ، رِ شک کے معنی اہل بصرہ کی لغت میں قسّام کے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
55- بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصَّوْمِ
۵۵-باب: صوم کی فضیلت کا بیان​


764- حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى الْقَزَّازُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِنَّ رَبَّكُمْ يَقُولُ: كُلُّ حَسَنَةٍ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ، وَالصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ. الصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ وَإِنْ جَهِلَ عَلَى أَحَدِكُمْ جَاهِلٌ وَهُوَ صَائِمٌ فَلْيَقُلْ إِنِّي صَائِمٌ". وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ وَكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ وَسَلاَمَةَ بْنِ قَيْصَرٍ وَبَشِيرِ ابْنِ الْخَصَاصِيَةِ وَاسْمُ بَشِيرٍ زَحْمُ بْنُ مَعْبَدٍ وَالْخَصَاصِيَةُ هِيَ أُمُّهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۹۷) (صحیح)
وأخرجہ کل من : خ/الصوم ۲ (۱۸۹۴)، و۹ (۱۹۰۴)، واللباس ۷۸ (۵۹۲۷)، والتوحید ۳۵ (۷۴۹۲)، و۵۰ (۷۵۳۸)، م/الصیام ۳۰ (۱۱۵۱)، ن/الصیام ۴۲ (۲۲۱۶-۲۲۲۱)، ق/الصیام ۱ (۱۶۳۸)، و۲۱ (۱۶۹۱)، ط/الصیام ۲۲ (۵۸)، حم (۲/۲۳۲، ۲۵۷، ۲۶۶، ۲۷۳، ۴۴۳، ۴۷۵، ۴۷۷، ۴۸۰، ۵۰۱، ۵۱۰، ۵۱۶)، دي/الصوم ۵۰ (۱۷۷۷)، من غیر ہذا الطریق وبتصرف فی السیاق۔
۷۶۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''تمہارارب فرماتاہے: ہرنیکی کا بدلہ دس گُنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے ۔اورصوم میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ صوم جہنم کے لیے ڈھال ہے، صائم کے منہ کی بوا للہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے، اور اگرتم میں سے کوئی جاہل کسی کے ساتھ جہالت سے پیش آئے اوروہ صوم سے ہوتواسے کہہ دینا چاہئے کہ میں صوم سے ہوں'' ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲- اس باب میں معاذ بن جبل ، سہل بن سعد، کعب بن عجرہ ، سلامہ بن قیصر اور بشیر بن خصاصیہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ، ۳- بشیر کانام زحم بن معبدہے اور خصاصیہ ان کی ماں ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ اعمال سبھی اللہ ہی کے لیے ہوتے ہیں اوروہی ان کابدلہ دیتاہے پھر''صوم میرے لیے ہے اورمیں ہی اس کا بدلہ دوں گا''کہنے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ صوم میں ریا کاری کا عمل دخل نہیں ہے جبکہ دوسرے اعمال میں ریا کاری ہوسکتی ہے کیونکہ دوسرے اعمال کاانحصارحرکات پرہے جبکہ صوم کا انحصارصرف نیت پر ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ دوسرے اعمال کاثواب لوگوں کو بتادیاگیاہے کہ وہ اس سے سات سوگناتک ہوسکتاہے لیکن صوم کا ثواب صرف اللہ ہی جانتاہے کہ اللہ ہی اس کا ثواب دے گا دوسروں کے علم میں نہیں ہے اسی لیے فرمایا:'' الصوم لي و أنا أجزي به''۔


765- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَبَابًا يُدْعَى الرَّيَّانَ يُدْعَى لَهُ الصَّائِمُونَ فَمَنْ كَانَ مِنْ الصَّائِمِينَ دَخَلَهُ وَمَنْ دَخَلَهُ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ق/الصیام ۱ (۱۶۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۷۷۱) (صحیح) (َمَنْ دَخَلَهُ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا) کا جملہ ثابت نہیں ہے ، تراجع الالبانی ۳۵۱) وأخرجہ کل من : خ/الصوم ۴ (۱۸۹۶)، وبدء الخلق (۳۲۵۷)، م/الصیام ۳۰ (۱۱۵۲)، حم (۵/۳۳۳، ۳۳۵)، من غیر ہذا الطریق۔
۷۶۵- سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتاہے ۔ صوم رکھنے والوں ۱؎ کو اس کی طرف بلایاجائے گا، تو جو صوم رکھنے والوں میں سے ہوگا اس میں داخل ہوجائے گااور جواس میں داخل ہوگیا، وہ کبھی پیاسا نہیں ہوگا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : صوم رکھنے والوں سے مرادوہ لوگ ہیں جو فرض صیام کے ساتھ نفلی صیام بھی کثرت سے رکھتے ہوں، ورنہ رمضان کے فرض صیام توہرمسلمان کے لیے ضروری ہیں،اس خصوصی فضیلت کے مستحق وہی لوگ ہوں گے جو فرض کے ساتھ بکثرت نفلی صیام کا اہتمام کرتے ہوں۔


766- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَةٌ حِينَ يُفْطِرُ وَفَرْحَةٌ حِينَ يَلْقَى رَبَّهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر حدیث رقم: ۷۶۴ (التحفہ: ۱۲۷۱۹) (صحیح)
۷۶۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''صائم کے لیے دوخوشیاں ہیں: ایک خوشی افطار کرتے وقت ہوتی ہے اور دوسری اس وقت ہوگی جب وہ اپنے رب سے ملے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
56-بَاب مَا جَاءَ فِي صَوْمِ الدَّهْرِ
۵۶-باب: صوم دہر کا بیان​


767- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ قَالاَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ غَيْلاَنَ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَعْبَدٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: قِيلَ يَا رَسُولَ اللهِ! كَيْفَ بِمَنْ صَامَ الدَّهْرَ؟ قَالَ <لاَ صَامَ وَلاَ أَفْطَرَ> أَوْ <لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ>. وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَبْدِاللهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَأَبِي مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي قَتَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ صِيَامَ الدَّهْرِ. وَأَجَازَهُ قَوْمٌ آخَرُونَ، وَقَالُوا: إِنَّمَا يَكُونُ صِيَامُ الدَّهْرِ إِذَا لَمْ يُفْطِرْ يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الأَضْحَى وَأَيَّامَ التَّشْرِيقِ فَمَنْ أَفْطَرَ هَذِهِ الأَيَّامَ فَقَدْ خَرَجَ مِنْ حَدِّ الْكَرَاهِيَةِ وَلا يَكُونُ قَدْ صَامَ الدَّهْرَ كُلَّهُ، هَكَذَا رُوِيَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ. وَقَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ نَحْوًا مِنْ هَذَا وَقَالاَ: لاَ يَجِبُ أَنْ يُفْطِرَ أَيَّامًا غَيْرَ هَذِهِ الْخَمْسَةِ الأَيَّامِ الَّتِي نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْهَا يَوْمِ الْفِطْرِ وَيَوْمِ الأَضْحَى وَأَيَّامِ التَّشْرِيقِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۷۴۹ (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۱۷) (صحیح)
۷۶۷ - ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیاگیا: اللہ کے رسول! اگر کوئی صوم دہر (پورے سال صیام ) رکھے توکیسا ہے؟ آپ نے فرمایا: ''اس نے نہ صوم رکھا اور نہ ہی افطار کیا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوقتادہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن عمر ، عبداللہ بن شخیر ، عمران بن حصین اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ،۳- اہل علم کی ایک جماعت نے صوم دہر کو مکروہ کہاہے اور بعض دوسرے لوگوں نے اسے جائز قراردیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صیام دہر تو اس وقت ہوگا جب عید الفطر ، عیدالا ٔضحی اور ایام تشریق میں بھی صوم رکھنا نہ چھوڑے، جس نے ان دنوں میں صوم ترک کردیا ، وہ کراہت کی حد سے نکل گیا، اوروہ پورے سال صوم رکھنے والا نہیں ہوا مالک بن انس سے اسی طرح مروی ہے اور یہی شافعی کابھی قول ہے۔
احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی طرح کہتے ہیں، ان دونوں کا کہناہے کہ ان پانچ دنوں یوم الفطر، یوم الاضحی اورایام تشریق میں صوم رکھنے سے رسول اللہﷺ نے منع فرمایا ہے، بقیہ دنوں میں افطارکرناواجب نہیں ہے۔
وضاحت ۱؎ راوی کو شک ہے کہ ''لاَصَامَ وَلاَ أَفْطَرَ '' کہا یا ''لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ'' کہا(دونوں کے معنی ایک ہیں) ظاہریہی ہے کہ یہ خبرہے کہ اس نے صوم نہیں رکھاکیونکہ اس نے سنت کی مخالفت کی، اورافطارنہیں کیا کیونکہ وہ بھوکاپیاسارہاکچھ کھایا پیا نہیں ، اورایک قول یہ ہے کہ یہ بددعاہے، یہ کہہ کر آپﷺنے اس کے اس فعل پراپنی ناپسندیدگی کا اظہارکیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
57- بَاب مَا جَاءَ فِي سَرْدِ الصَّوْمِ
۵۷-باب: پے در پے صوم رکھنے کا بیان​


768- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صِيَامِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَتْ: كَانَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ: قَدْ صَامَ وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ: قَدْ أَفْطَرَ قَالَتْ: وَمَا صَامَ رَسُولُ اللهِ شَهْرًا كَامِلاً إِلاَّ رَمَضَانَ.
وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الصیام ۳۴ (۱۱۵۶)، ن/الصیام ۷۰ (۲۳۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۰۲)، وانظر ما تقدم عند المؤلف برقم: ۷۳۷ (صحیح)
۷۶۸- عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرمﷺ کے صیام کے بارے میں پوچھاتوانہوں نے کہا: آپﷺ صوم رکھتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ نے خوب صوم رکھے، پھر آپ صوم رکھنا چھوڑدیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ نے بہت دنوں سے صوم نہیں رکھے۔ اور رسول اللہﷺ نے رمضان کے علاوہ کسی ماہ کے پورے صیام نہیں رکھے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث صحیح ہے،۲- اس باب میں انس اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : اس کی وجہ یہ تھی تاکہ کوئی اس کے وجوب کا گمان نہ کرے۔


769- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ صَوْمِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"كَانَ يَصُومُ مِنْ الشَّهْرِ حَتَّى نَرَى أَنَّهُ لاَيُرِيدُ أَنْ يُفْطِرَ مِنْهُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَرَى أَنَّهُ لاَ يُرِيدُ أَنْ يَصُومَ مِنْهُ شَيْئًا وَكُنْتَ لاَ تَشَاءُ أَنْ تَرَاهُ مِنْ اللَّيْلِ مُصَلِّيًا إِلاَّ رَأَيْتَهُ مُصَلِّيًا وَلاَ نَائِمًا إِلاَّ رَأَيْتَهُ نَائِمًا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۸۴) (صحیح)
۷۶۹- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے نبی اکرمﷺ کے صیام کے بارے میں سوال کیاگیا تو انہوں نے کہا: آپ کسی مہینے میں اتنے صوم رکھتے کہ ہم سمجھتے : اب آپ کا ارادہ صوم بندکرنے کا نہیں ہے، اور کبھی بغیر صوم کے رہتے یہاں تک کہ ہمیں خیال ہوتا کہ آپ کوئی صوم رکھیں گے ہی نہیں۔اور آپ کورات کے جس حصہ میں بھی تم صلاۃ پڑھنا دیکھنا چاہتے صلاۃ پڑھتے دیکھ لیتے اور جس حصہ میں سوتے ہوئے دیکھنا چاہتے تو سوتے ہوئے دیکھ لیتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


770- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ وَسُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"أَفْضَلُ الصَّوْمِ صَوْمُ أَخِي دَاوُدَ كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا وَلاَ يَفِرُّ إِذَا لاَقَى". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو الْعَبَّاسِ هُوَ الشَّاعِرُ الْمَكِّيُّ الأَعْمَى وَاسْمُهُ السَّائِبُ بْنُ فَرُّوخَ. قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَفْضَلُ الصِّيَامِ أَنْ تَصُومَ يَوْمًا وَتُفْطِرَ يَوْمًا وَيُقَالُ هَذَا هُوَ أَشَدُّ الصِّيَامِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف بہذا السیاق (تحفۃ الأشراف: ۸۶۳۵) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/الصوم ۵۷ (۱۹۷۷)، و۵۹ (۱۹۷۹)، والانبیاء ۳۸ (۳۴۲۰)، وفضائل القرآن ۳۴ (۵۰۵۲)، والنکاح ۸۹ (۵۱۹۹)، والأدب ۸۴ (۶۱۳۴)، د/الصیام ۵۳ (۲۴۲۷)، م/الصیام ۳۵ (۱۱۵۹)، ن/الصیام ۷۱ (۲۳۸۰)، و۷۶ (۲۳۹۰-۲۳۹۵)، و۷۷ (۲۳۹۶-۲۳۹۸)، و۷۸ (۲۳۹۹-۲۴۰۱)، ق/الصیام ۲۸ (۱۷۰۶)، و۳۱ (۱۷۱۲)، حم ۲/۱۶۰، ۱۶۴، ۱۸۸، ۱۸۹، ۱۹۰، ۱۹۴، ۱۹۵، ۱۹۸، ۱۹۹، ۲۰۰، ۲۰۶، ۲۱۶، ۲۲۴، ۲۶۵)، دي/الصوم ۴۲ (۱۷۹۳)، من غیر ہذا الطریق وبتصرف في السیاق۔
۷۷۰- عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''سب سے افضل صوم میرے بھائی داودعلیہ السلام کا صوم ہے، وہ ایک دن صوم رکھتے تھے اور ایک دن بغیر صوم کے رہتے، اور جب (دشمن سے) مڈبھیڑ ہوتی تومیدان چھوڑکربھاگتے نہیں تھے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ سب سے افضل صوم یہ ہے کہ تم ایک دن صوم رکھو اور ایک دن بغیرصوم کے رہو، کہا جاتا ہے کہ یہ سب سے سخت صوم ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
58- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّوْمِ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالنَّحْرِ
۵۸-باب: عیدالفطر اور عید الا ٔضحی کے دن صوم رکھنے کی حرمت کا بیان​


771- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: شَهِدْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فِي يَوْمِ النَّحْرِ بَدَأَ بِالصَّلاَةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَنْهَى عَنْ صَوْمِ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ، أَمَّا يَوْمُ الْفِطْرِ فَفِطْرُكُمْ مِنْ صَوْمِكُمْ وَعِيدٌ لِلْمُسْلِمِينَ وَأَمَّا يَوْمُ الأَضْحَى فَكُلُوا مِنْ لُحُومِ نُسُكِكُمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُوعُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ اسْمُهُ سَعْدٌ وَيُقَالُ لَهُ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْهَرَ أَيْضًا . وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَزْهَرَ هُوَ ابْنُ عَمِّ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ.
* تخريج: خ/الصوم ۶۶ (۱۹۹۰)، والأضاحی ۱۶ (۵۵۷۱)، م/الصیام ۲۲ (۱۱۳۷)، د/الصیام ۴۸ (۲۴۱۶)، ق/الصیام ۳۶ (۱۷۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۶۳)، ط/العیدین ۲ (۵) حم (۱/۴۰) (صحیح)
۷۷۱- عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے مولیٰ ابوعبیدسعد کہتے ہیں کہ میں عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس دسویں ذی الحجہ کو موجود تھا، انہوں نے خطبے سے پہلے صلاۃ شروع کی ، پھرکہا: میں نے رسول اللہﷺ کو ان دودنوں میں صوم رکھنے سے منع فرماتے سناہے، عیدالفطر کے دن سے، اس لیے کہ یہ تمہارے صیام سے افطار کادن اور مسلمانوں کی عید ہے اور عید الا ٔضحی کے دن اس لیے کہ اس دن تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاؤ ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : علماء کا اجماع ہے کہ ان دونوں دنوں میں صوم رکھناکسی بھی حال میں جائزنہیں خواہ وہ نذرکا صوم ہویا نفلی صوم ہو یاکفارے کا یاان کے علاوہ کوئی اورصوم ہو، اگرکوئی تعیین کے ساتھ ان دونوں دنو ں میں صوم رکھنے کی نذرمان لے تو جمہورکے نزدیک اس کی یہ نذرمنعقدنہیں ہوگی اورنہ ہی اس کی قضااس پر لازم آئے گی اورامام ابوحنیفہ کہتے ہیں نذرمنعقدہوجائے گی لیکن وہ ان دونوں دنوں میں صوم نہیں رکھے گا، ان کی قضاکرے گا۔


772- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ صِيَامَيْنِ يَوْمِ الأَضْحَى وَيَوْمِ الْفِطْرِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَعَائِشَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَأَنَسٍ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. قَالَ: وَعَمْرُو بْنُ يَحْيَى هُوَ ابْنُ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ الْمَازِنِيُّ الْمَدَنِيُّ وَهُوَ ثِقَةٌ رَوَى لَهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَشُعْبَةُ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ.
* تخريج: خ /الصوم ۶۶ (۱۹۹۱)، م/الصیام ۲۲ (۸۲۷)، د/الصیام ۴۸ (۲۴۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۰۴) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/جزاء الصید ۲۶ (۱۸۶۴)، ق/الصیام ۳۶ (۱۷۲۱)، حم (۳/۳۴)، دي/الصوم ۴۳ (۱۷۹۴)، من غیر ہذا الطریق۔
۷۷۲- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے دوصیام سے منع فرمایا: ''یوم الأضحی (بقرعید) کے صوم سے اور یوم الفطر(عید) کے صوم سے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر، علی ، عائشہ ، ابوہریرہ ، عقبہ بن عامر اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- عمرو بن یحییٰ ہی عمارہ بن ابی الحسن مازنی ہیں، وہ مدینے کے رہنے والے ہیں اور ثقہ ہیں۔سفیان ثوری ، شعبہ اور مالک بن انس نے ان سے حدیثیں روایت کی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
59-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّوْمِ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ
۵۹-باب: ایام تشریق میں صوم رکھنے کی حرمت کا بیان​


773- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"يَوْمُ عَرَفَةَ وَيَوْمُ النَّحْرِ وَأَيَّامُ التَّشْرِيقِ عِيدُنَا أَهْلَ الإِسْلاَمِ وَهِيَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَسَعْدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرٍ، وَنُبَيْشَةَ، وَبِشْرِ بْنِ سُحَيْمٍ، وَعَبْدِاللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ، وَأَنَسٍ وَحَمْزَةَ بْنِ عَمْرٍو الأَسْلَمِيِّ، وَكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَعَائِشَةَ وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. يَكْرَهُونَ الصِّيَامَ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ إِلاَّ أَنَّ قَوْمًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ رَخَّصُوا لِلْمُتَمَتِّعِ إِذَا لَمْ يَجِدْ هَدْيًا وَلَمْ يَصُمْ فِي الْعَشْرِ أَنْ يَصُومَ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَهْلُ الْعِرَاقِ يَقُولُونَ مُوسَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ وَأَهْلُ مِصْرَ يَقُولُونَ : مُوسَى بْنُ عُلِيٍّ و قَالَ: سَمِعْت قُتَيْبَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ اللَّيْثَ بْنَ سَعْدٍ يَقُولُ: قَالَ مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ لاَ أَجْعَلُ أَحَدًا فِي حِلٍّ صَغَّرَ اسْمَ أَبِي.
* تخريج: د/الصیام ۴۹ (۲۴۱۹)، ن/المناسک ۱۹۵ (۳۰۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۴۱)، دي/الصوم ۴۷ (۱۸۰۵) (صحیح)
۷۷۳- عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''یوم عرفہ ۱؎ ، یوم نحر ۲؎ اور ایام تشریق ۳؎ ہماری یعنی اہل اسلام کی عیدکے دن ہیں، اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی ، سعد ، ابوہریرہ ، جابر ، نبیشہ ، بشر بن سحیم، عبداللہ بن حذافہ ، انس ، حمزہ بن عمرو اسلمی، کعب بن مالک ، عائشہ ، عمروبن عاص اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ، ۳- اہل علم کااسی پرعمل ہے۔ یہ لوگ ایام تشریق میں صوم رکھنے کوحرام قراردیتے ہیں۔ البتہ صحابہ کرام وغیرہم کی ایک جماعت نے حج تمتع کرنے والے کو اس کی رخصت دی ہے جب وہ ہدی نہ پائے اور اس نے ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن میں صوم نہ رکھے ہوں کہ وہ ایام تشریق میں صوم رکھے۔ مالک بن انس ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔
وضاحت ۱؎ یوم عرفہ سے مرادوہ دن ہے جس میں حاجی میدان عرفات میں ہوتے ہیں یعنی نویں ذی الحجہ مطابق رؤیت مکہ مکرمہ۔
وضاحت ۲؎ قربانی کا دن یعنی دسویں ذی الحجہ ۔
وضاحت ۳؎ ایام تشریق سے مرادگیارہویں، بارہویں اورتیرہویں ذی الحجہ ہے۔
 
Top