12-بَاب مَا جَاءَ فِي التَّمَتُّعِ
۱۲-باب: حج تمتع کابیان
822- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ لَيْثٍ،عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: تَمَتَّعَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَأَوَّلُ مَنْ نَهَى عَنْهَا مُعَاوِيَةُ. قَالَ : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف و۳۴ (۱۲۵۱)، ود/المناسک ۲۴ (۱۷۹۵)، وق/الحج ۱۴ (۲۹۱۷)، و۳۸ (۲۹۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۴۵)، وحم (۳/۹۹)، ودي/المناسک ۷۸ (۱۹۶۴)، من غیر ہذا الطریق وبتصرف فی السیاق (ضعیف الإسناد)
(سند میں لیث بن ابی سُلیم اختلاط کی وجہ سے متروک الحدیث راوی ہے، لیکن اس حدیث کا اصل مسئلہ دیگراحادیث سے ثابت ہے )
۸۲۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حج تمتع کیا ۱؎ اور ابوبکر عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے بھی ۲؎ اورسب سے پہلے جس نے اس سے روکا وہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں ۳؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : نبی اکرمﷺ نے کونساحج کیا تھا؟ اس بارے میں احادیث مختلف ہیں، بعض احادیثسے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے حج افرادکیا اوربعض سے حج تمتع اوربعض سے حج قران، ان روایات میں تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ہرایک نے نبی اکرمﷺ کی طرف اس چیز کی نسبت کردی ہے جس کا آپ نے اسے حکم دیا تھا، اوریہ صحیح ہے کہ آپ نے حج افرادکااحرام باندھا تھا اوربعدمیں آپ قارن ہوگئے تھے، جن لوگوں نے اس بات کی روایت کی ہے کہ آپ نے حج تمتع کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے انہیں اس کا حکم دیا کیونکہ آپ کاارشادہے
'' لولا معي الهدى لأحللت ''(اگرمیرے ساتھ ہدی کاجانورنہ ہوتا تو میں عمرہ کرنے کے بعد حلال ہوجاتا ،اس کا صریح مطلب یہ ہے کہ آپ متمتع نہیں تھے، نیز صحابہ کی اصطلاح میں قِران کو بھی تمتع کہا جاتا تھا، کیوں کہ ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کا فائدہ تو بہر حال حج قران میں بھی حاصل ہے، اسی طرح جن لوگوں نے قران کی راویت کی ہے انہوں نے آخری حال کی خبردی ہے کیونکہ شروع میں آپ کے پیش نظرحج افرادتھابعدمیں آپ نے حج میں عمرہ کوبھی شامل کرلیا، اورآپ سے کہاگیا:
'' قل عمرة في حجة'' اس طرح آپ نے حج افرادکو حج قِران سے بدل دیا۔
اب رہا یہ مسئلہ کہ ان تینوں قسموں میں سے کونسی قسم افضل ہے؟ تو احناف حج قرِان کوافضل کہتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے لیے اسی حج کوپسندکیا تھا اور اس میں مشقت بھی زیادہ اٹھانی پڑتی ہے، امام احمداورامام مالک نے حج تمتع کوافضل کہاہے کیونکہ اس میں سہولت ہے اورنبی اکرمﷺ نے ایک مرحلہ پراس کی خواہش کااظہاربھی فرمایاتھا اوربعض نے حج افراد کوافضل قراردیاہے۔آخری اورحق بات یہی ہے کہ حج تمتع سب سے افضل ہے۔
وضاحت ۲؎ : یہ حدیث مسلم کی اس روایت کے معارض ہے جس میں ہے:
''قال عبدالله بن شقيق: كان عثمان ينهى عن المتعة وكان علي يأمربها'' اورنیچے کی روایت سے عمرکامنع کرنا بھی ثابت ہوتا ہے، تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ان دونوں کی ممانعت تنزیہی تھی، ان دونوں کی نہی اس وقت کی ہے جب انہیں اس کے جائز ہو نے کاعلم نہیں تھا، پھرجب انہیں اس کا جوازمعلوم ہواتوانہوں نے بھی تمتع کیا۔
وضاحت ۳؎ : روایات سے معاویہ رضی اللہ عنہ سے پہلے عمروعثمان رضی اللہ عنہا سے ممانعت ثابت ہے ،ان کی یہ ممانعت تنزیہی تھی، اورمعاویہ رضی اللہ عنہ کی نہی تحریمی، لہذا یہ کہاجاسکتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی اوّلیت تحریم کے اعتبارسے تھی۔
823- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ وَالضَّحَّاكَ بْنَ قَيْسٍ، وَهُمَا يَذْكُرَانِ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ. فَقَالَ الضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ: لاَ يَصْنَعُ ذَلِكَ إِلاَّ مَنْ جَهِلَ أَمْرَ اللهِ. فَقَالَ سَعْدٌ: بِئْسَ مَا قُلْتَ، يَا ابْنَ أَخِي! فَقَالَ الضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ: فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَدْ نَهَى عَنْ ذَلِكَ. فَقَالَ سَعْدٌ: قَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ وَصَنَعْنَاهَا مَعَهُ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ن/الحج ۵۰ (۲۷۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۲۸)، ط/الحج ۱۹ (۶۰)، دي/الحج ۱۸ (۱۸۵۵) (ضعیف الإسناد)
(سند میں محمد بن عبداللہ بن حارث بن نوفل لین الحدیث ہیں، لیکن اصل مسئلہ دیگر احادیث سے ثابت ہے)
۸۲۳- محمد بن عبداللہ بن حارث بن نوفل کہتے ہیں کہ انہوں نے سعد بن ابی وقاص اور ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہا سے سنا، دونوں عمرہ کو حج میں ملانے کا ذکر کررہے تھے۔ ضحاک بن قیس نے کہا: ایسا وہی کرے گا جو اللہ کے حکم سے ناواقف ہو، اس پر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: بہت بری بات ہے جوتم نے کہی ، میرے بھتیجے !تو ضحاک بن قیس نے کہا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس سے منع کیاہے، اس پرسعد رضی اللہ عنہ نے کہا:رسول اللہﷺ نے اسے کیاہے اورآپ کے ساتھ ہم نے بھی اسے کیاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
824- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِاللهِ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلاً مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَهُوَ يَسْأَلُ عَبْدَاللهِ ابْنَ عُمَرَ عَنِ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَقَالَ: عَبْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ هِيَ حَلاَلٌ، فَقَالَ الشَّامِيُّ: إِنَّ أَبَاكَ قَدْ نَهَى عَنْهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ: أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ أَبِي نَهَى عَنْهَا؛ وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ،أَأَمْرُ أَبِي يُتَّبَعُ أَمْ أَمْرُ رَسُولِ اللهِ ﷺ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: بَلْ أَمْرَ رَسُولِ اللهِ ﷺ. فَقَالَ لَقَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعُثْمَانَ وَجَابِرٍ وَسَعْدٍ وَأَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ اخْتَارَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَغَيْرِهِمْ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ. وَالتَّمَتُّعُ أَنْ يَدْخُلَ الرَّجُلُ بِعُمْرَةٍ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ، ثُمَّ يُقِيمَ حَتَّى يَحُجَّ فَهُوَ مُتَمَتِّعٌ وَعَلَيْهِ دَمٌ مَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ صَامَ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةً إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيُسْتَحَبُّ لِلْمُتَمَتِّعِ إِذَا صَامَ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ أَنْ يَصُومَ الْعَشْرَ، وَيَكُونُ آخِرُهَا يَوْمَ عَرَفَةَ، فَإِنْ لَمْ يَصُمْ فِي الْعَشْرِ صَامَ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ فِي قَوْلِ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ. مِنْهُمْ ابْنُ عُمَرَ وَعَائِشَةُ. وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: لاَ يَصُومُ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْكُوفَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَهْلُ الْحَدِيثِ يَخْتَارُونَ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ فِي الْحَجِّ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۸۶۲) (صحیح الإسناد)
۸۲۴- ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے ا ہل شام میں سے ایک شخص سے سنا، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے حج میں عمرہ سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں پوچھ رہاتھا، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے کہا: یہ جائزہے۔اس پر شامی نے کہا: آپ کے والد نے تواس سے روکا ہے؟عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے کہا: ذرا تم ہی بتاؤ اگر میرے والد کسی چیز سے روکیں اوررسول اللہﷺ نے اسے کیا ہوتو میرے والد کے حکم کی پیروی کی جائے گی یارسول اللہﷺ کے حکم کی، تواس نے کہا:رسول اللہﷺ کے حکم کی، توانہوں نے کہا:رسول اللہﷺ نے ایسا کیا ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث ( ۸۲۲) حسن ہے،۲- اس باب میں علی، عثمان ، جابر، سعد ، اسماء بنت ابی بکر اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے ایک جماعت نے اسی کو پسند کیاہے کہ حج میں عمرہ کوشامل کرکے حج تمتع کرنا درست ہے،۴- اور حج تمتع یہ ہے کہ آدمی حج کے مہینوں میں عمرہ کے ذریعہ داخل ہو، پھر عمرہ کرکے وہیں ٹھہرا رہے یہاں تک کہ حج کرلے تو وہ متمتع ہے، اس پر ہدی کی جواسے میسرہو قربانی لازم ہوگی، اگر اسے ہدی نہ مل سکے تو حج میں تین دن اور گھر لوٹ کر سات دن کے صیام رکھے،۵- متمتع کے لیے مستحب ہے کہ جب وہ حج میں تین صیام رکھے تو ذی الحجہ کے(ابتدائی) دس دنوں میں رکھے اور اس کا آخری صوم یوم عرفہ کوہو،اورصحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں ابن عمراور عائشہ رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں کے قول کی روسے اگر وہ دس دنوں میں یہ صیام نہ رکھ سکے تو ایام تشریق میں رکھ لے۔ یہی مالک ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۶- اوربعض کہتے ہیں: ایام تشریق میں صوم نہیں رکھے گا۔ یہ اہل کوفہ کا قول ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: اہل حدیث حج میں عمرہ کوشامل کرکے حج تمتع کرنے کو پسندکرتے ہیں، یہی شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔