• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17- بَاب مَا جَاءَ فِي مَوَاقِيتِ الإِحْرَامِ لأَهْلِ الآفَاقِ
۱۷-باب: آفاقی لوگوں کے لیے احرام باندھنے کی میقاتوں کابیان ۱؎​


831- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلاً قَالَ: مِنْ أَيْنَ نُهِلُّ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَأَهْلُ الشَّامِ مِنَ الْجُحْفَةِ، وَأَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ. قَالَ: وَيَقُولُونَ "وَأَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۵۹۳) وانظر: حم (۲/۴۸،۶۵) (صحیح) وأخرجہ کل من: خ/العلم ۵۲ (۱۳۳)، والحج ۴ (۱۵۲۲)، و۸ (۱۵۲۵)، و۱۰ (۱۵۲۷)، والاعتصام ۱۵ (۷۳۳۴)، م/الحج ۲ (۱۱۸۲)، د/المناسک ۹ (۱۷۳۷)، ن/المناسک ۱۷ (۲۶۵۲)، ق/المناسک ۱۳ (۲۹۱۴)، ط/الحج ۸ (۲۲)، حم (۲/۵۵)، دي/المناسک ۵ (۱۸۳۱)، من غیر ہذا الطریق۔
۸۳۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم احرام کہاں سے باندھیں؟ آپ نے فرمایا:'' اہل مدینہ ذی الحلیفہ ۲؎ سے احرام باندھیں، اہل شام جحفہ ۳؎ سے اور اہل نجد قرن سے ۴؎ ۔
اور لوگوں کا کہنا ہے کہ اہل یمن یلملم سے ۵؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عباس ، جابر بن عبداللہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کااسی پر عمل ہے۔
وضاحت ۱؎ : مواقیت میقات کی جمع ہے، میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حاجی یامعتمراحرام باندھ کرحج کی نیت کرتاہے ۔
وضاحت ۲؎ : مدینہ کے قریب ایک مقام ہے۔ جس کی دوری مدینہ سے مکہ کی طرف دس کیلو میٹر ہے اور یہ مکہ سے سب سے دوری پر واقع میقات ہے۔
وضاحت ۳؎ : مکہ کے قریب ایک بستی ہے جسے اب رابغ کہتے ہیں۔
وضاحت ۴؎ : اسے قرن المنازل بھی کہتے ہیں، یہ مکہ سے سب سے قریب ترین میقات ہے ۔ مکہ سے اس کی دوری ۹۵ کیلو میٹر ہے۔
وضاحت ۵؎ : ایک معروف مقام کانام ہے ۔


832- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَقَّتَ لأَهْلِ الْمَشْرِقِ الْعَقِيقَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ هُوَ أبُو جَعْفَرٍ مُحمَّدُ بنُ عَلِيِّ بنِ حُسَيْنِ ابنِ عَلِيِّ بنِ أبِي طَالبٍ.
* تخريج: د/الحج ۹ (۱۷۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۴۳) (ضعیف منکر)
(سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہے، نیزمحمد بن علی کا اپنے داداابن عباس سے سماع ثابت نہیں ہے، اور حدیث میں وارد ''عقیق'' کا لفظ منکر ہے، صحیح لفظ ''ذات عرق'' ہے، الإرواء : ۱۰۰۲، ضعیف سنن ابی داود : ۳۰۶)
۸۳۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اہل مشرق کی میقات عقیق ۱؎ مقرر کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- محمد بن علی ہی ابوجعفر محمد بن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ ایک معروف مقام ہے، جو عراق کی میقات ''ذات العرق'' کے قریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18- بَاب مَا جَاءَ فِيمَا لاَ يَجُوزُ لِلْمُحْرِمِ لُبْسُهُ
۱۸-باب: محرم کے لیے جن چیزوں کا پہننا جائزنہیں ان کابیان​


833- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ: قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَاذَا تَأْمُرُنَا أَنْ نَلْبَسَ مِنَ الثِّيَابِ فِي الْحَرَمِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَتَلْبَسُوا الْقُمُصَ وَلاَ السَّرَاوِيلاَتِ وَلاَ الْبَرَانِسَ وَلاَ الْعَمَائِمَ وَلاَ الْخِفَافَ إِلاَّ أَنْ يَكُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلاَنِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا مَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ وَلاَ تَلْبَسُوا شَيْئًا مِنْ الثِّيَابِ مَسَّهُ الزَّعْفَرَانُ وَلاَ الْوَرْسُ وَلاَ تَنْتَقِبِ الْمَرْأَةُ الْحَرَامُ وَلاَ تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: خ/جزاء الصید ۱۳ (۱۸۳۸)، د/المناسک ۳۲ (۱۸۲۵)، ن/الحج ۲۸ (۲۶۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۷۵)، حم (۲/۱۱۹) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/العلم ۵۳ (۱۳۴)، والصلاۃ ۹ (۳۹۶)، والحج ۲۱ (۱۵۴۲)، وجزاء الصید ۱۵ (۱۸۴۲)، واللباس ۸ (۵۷۹۴)، و۱۳ (۵۸۰۳)، و۱۴ (۵۸۰۵)، و۱۵ (۵۸۰۶)، و۳۴ (۵۸۴۷)، و۳۷ (۵۸۵۲)، ق/المناسک ۱۹ (۲۹۲۹)، ط/الحج ۳ (۸)، حم (۲/۴، ۸، ۲۹، ۳۲، ۳۴، ۴۱، ۵۴، ۵۶، ۵۹، ۶۵، ۷۷)، دي/الحج ۹ (۱۸۳۹) من غیر الطریق۔
۸۳۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کھڑ ہوکرعرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں احرام میں کون کون سے کپڑے پہننے کاحکم دیتے ہیں؟رسول اللہﷺ نے فرمایا:''نہ قمیص پہنو، نہ پاجامے ، نہ عمامے اور نہ موزے، الا یہ کہ کسی کے پاس جو تے نہ ہوں تووہ خف( چمڑے کے موزے) پہنے اوراسے کاٹ کرٹخنے سے نیچے کرلے ۱؎ اورنہ ایساکوئی کپڑا پہنو جس میں زعفران یاورس لگا ہو ۲؎ ،اور محرم عورت نقاب نہ لگائے اور نہ دستانے پہنے'' ۳؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اہل علم اسی پرعمل ہے۔
وضاحت ۱؎ : جمہورنے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے خف(چمڑے کے موزوں) کے کاٹنے کی شرط لگائی ہے لیکن امام احمد نے بغیرکاٹے خف (موزہ) پہننے کوجائزقرار دیاہے کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ''من لم يجد نعلين فليلبس خفين '' جوبخاری میں آئی ہے مطلق ہے، لیکن جمہورنے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہاں مطلق کو مقید پرمحمول کیاجائے گا، حنابلہ نے اس روایت کے کئی جوابات دیئے ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت منسوخ ہے کیونکہ یہ احرام سے پہلے مدینہ کا واقعہ ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہا کی روایت عرفات کی ہے، اس کا جواب یہ دیاگیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہا کی روایت حجت کے اعتبارسے ابن عباس کی روایت سے بڑھی ہوئی ہے کیونکہ وہ ایسی سند سے مروی ہے جو أصح الاسانید ہے۔
وضاحت ۲؎ : ایک زردرنگ کی خوشبودارگھاس ہے جس سے کپڑے رنگے جاتے تھے،اس بات پراجماع ہے کہ حالتِ احرام میں مردکے لیے حدیث میں مذکوریہ کپڑے پہننے جائزنہیں ہیں، قمیص اورسراویل(پاجانے) میں تمام سلے ہوے کپڑے داخل ہیں، اسی طرح عمامہ اورخفین سے ہروہ چیز مرادہے جو سر اورقدم کو ڈھانپ لے، البتہ پانی میں سر کو ڈبونے یا ہاتھ یا چھتری سے سر کو چھپانے میں کوئی حرج نہیں،عورت کے لیے حالت احرام میں وہ تمام کپڑے پہننے جائزہیں جن کا اس حدیث میں ذکرہے البتہ وہ ورس اورزعفران میں رنگے ہوئے کپڑ ے نہ پہننے ۔
وضاحت ۳؎ : محرم عورت کے لیے نقاب پہننا منع ہے، مگراس حدیث میں جس نقاب کاذکرہے وہ چہرے پرباندھاجاتاتھا، برصغیر ہندوپاک کے موجودہ برقعوں کا نقاب چادرکے پلوکی طرح ہے جس کو ازواج مطہرات مردوں کے گزرتے وقت چہروں پر لٹکالیا کرتی تھیں اس لیے اس نقاب کو عورتیں بوقت ضرورت چہرے پر لٹکاسکتی ہیں اورچونکہ اس وقت حج میں ہروقت اجنبی مردوں کا سامناپڑتاہے اس لیے ہر وقت اس نقاب کو چہرے پرلٹکائے رکھ سکتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19-بَاب مَا جَاءَ فِي لُبْسِ السَّرَاوِيلِ وَالْخُفَّيْنِ لِلْمُحْرِمِ إِذَا لَمْ يَجِدِ الإِزَارَ وَالنَّعْلَيْنِ
۱۹-باب: محرم کے پاس تہبنداورجوتے نہ ہوں تو پاجامہ اورموزے پہنے​


834- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "الْمُحْرِمُ إِذَا لَمْ يَجِدِ الإِزَارَ فَلْيَلْبَسْ السَّرَاوِيلَ وَإِذَا لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسِ الْخُفَّيْنِ".
* تخريج: خ/جزاء الصید ۱۵ (۱۸۴۱)، و۱۶ (۱۸۴۳)، واللباس ۱۴ (۵۸۰۴)، و۳۷ (۵۸۵۳)، م/الحج ۸۱ (۱۱۷)، ن/الحج ۳۲ (۲۶۷۲، ۲۶۷۳)، و۳۷ (۲۶۸۰)، والزینۃ ۹۸ (۵۳۲۷)، ق/المناسک ۲۰ (۲۹۳۱)، حم (۱/۲۱۵، ۲۲۱، ۲۲۸، ۲۷۹، ۳۳۷) (تحفۃ الأشراف: ۵۳۷۵) (صحیح)
834/م- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرٍو نَحْوَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. قَالُوا: إِذَا لَمْ يَجِدِ الْمُحْرِمُ الإِزَارَ لَبِسَ السَّرَاوِيلَ وَإِذَا لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ لَبِسَ الْخُفَّيْنِ. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ. و قَالَ بَعْضُهُمْ (عَلَى حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ): إِذَا لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۸۳۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: '' محرم کو جب تہبند میسر نہ ہو تو پاجامہ پہن لے اور جب جوتے میسرنہ ہوں توخف (چمڑے کے موزے) پہن لے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس با ب میں ابن عمر اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب محرم تہ بند نہ پائے تو پاجامہ پہن لے ، اورجب جوتے نہ پائے توخف(چرمی موزے) پہن لے۔ یہ احمد کا قول ہے،۴- بعض نے ابن عمر رضی اللہ عنہا کی حدیث کی بنیاد پر جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہا ہے کہ جب وہ جوتے نہ پائے توخف( چرمی موزے) پہنے اوراسے کاٹ کر ٹخنے کے نیچے کرلے،سفیان ثوری ، شافعی، اور مالک اسی کے قائل ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اسی حدیث سے امام احمدنے استدلال کرتے ہوئے چمڑے کے موزہ کو بغیرکاٹے پہننے کی اجازت دی ہے، حنابلہ کا کہنا ہے کہ قطع (کاٹنا)فسادہے اوراللہ فسادکو پسندنہیں کرتا، اس کا جواب یہ دیا جاتاہے فسادوہ ہے جس کی شرع میں ممانعت واردہو، نہ کہ وہ جس کی شریعت نے اجازت دی ہو، بعض نے موزے کو پاجامے پرقیاس کیا ہے، اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ نص کی موجودگی میں قیاس درست نہیں، رہایہ مسئلہ کہ جوتا نہ ہو نے کی صورت میں موزہ پہننے والے پر فدیہ ہے یا نہیں تو اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے، ظاہر حدیث سے یہی معلوم ہوتاہے کہ فدیہ نہیں ہے، لیکن حنفیہ کہتے ہیں فدیہ واجب ہے، ان کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر فدیہ واجب ہو تا تو نبی اکرمﷺ اسے ضروربیان فرماتے کیونکہ '' تأخير البيان عن وقت الحاجة'' جائزنہیں۔(یعنی ضرورت کے کے وقت مسئلہ کی وضاحت ہوجانی چاہئے ، وضاحت اور بیان ٹالانہیں جاسکتا ہے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20-بَاب مَا جَاءَ فِي الَّذِي يُحْرِمُ وَعَلَيْهِ قَمِيصٌ أَوْ جُبَّةٌ
۲۰-باب: جو احرام کی حالت میں کرتا یاجبہ پہنے ہو​


835- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ: رَأَى النَّبِيُّ ﷺ أَعْرَابِيًّا قَدْ أَحْرَمَ وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ فَأَمَرَهُ أَنْ يَنْزِعَهَا.
* تخريج: د/الحج ۳۱ (۱۸۲۰)، (۴/۲۲۴)، وانظر الحدیث الآتي (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۴۴) (صحیح)
۸۳۵- یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ایک اعرابی کودیکھا جو احرام کی حالت میں کرتا پہنے ہوئے تھا۔تو آپ نے اسے حکم دیاکہ وہ اسے اتاردے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب نبی اکرمﷺ جعرانہ میں تھے تفصیل کے لیے دیکھئے ابوداودالمناسک ۳۱، نسائی الحج ۲۹۔


836- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. وَهَذَا أَصَحُّ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَاهُ قَتَادَةُ وَالْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ. وَالصَّحِيحُ مَا رَوَى عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ وَابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: خ/الحج ۱۷ (۱۵۳۶)، والعمرۃ ۱۰ (۱۷۸۹)، وجزاء الصید ۱۹ (۱۸۴۷)، والمغازي ۵۶ (۴۳۲۹)، وفضائل القرآن ۲ (۴۹۸۵)، م/الحج ۱ (۱۱۸۰)، د/الحج ۳۱ (۱۸۱۹)، ن/الحج ۲۹ (۲۶۶۹)، و۴۴ (۲۷۰۹-۲۷۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۳۶)، حم (۴/۲۲۴) (صحیح)
۸۳۶- یعلی رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں۔یہ زیادہ صحیح ہے اور حدیث میں ایک قصہ ہے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں : اسی طرح اسے قتادہ ، حجاج بن ارطاۃ اور دوسرے کئی لوگوں نے عطا سے اور انہوں نے یعلی بن امیہ سے روایت کی ہے۔ لیکن صحیح وہی ہے جسے عمرو بن دینار اور ابن جریج نے عطاء سے ، اورعطاء نے صفوان بن یعلی سے اورصفوان نے اپنے والدیعلی سے اور یعلی نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس قصہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ابواودالمناسک ۳۱، ونسائی الحج ۲۹۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21- بَاب مَا يَقْتُلُ الْمُحْرِمُ مِنَ الدَّوَابِّ
۲۱-باب: محرم کون کون سے جانور مارسکتا ہے؟​


837- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "خَمْسُ فَوَاسِقَ يُقْتَلْنَ فِي الْحَرَمِ: الْفَأْرَةُ وَالْعَقْرَبُ وَالْغُرَابُ وَالْحُدَيَّا وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/بدء الخلق ۱۶ (۳۳۱۴)، م/الحج ۹ (۱۱۹۸)، ن/الحج ۱۱۸ (۲۸۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۲۹) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/جزاء الصید ۷ (۱۸۲۹)، ن/الحج ۸۳ (۲۸۳۲)، و۱۱۳ (۲۸۸۴)، و۱۱۴ (۲۸۸۵)، و۱۱۶ (۲۸۹۰)، و۱۱۷ (۲۸۹۱)، ق/الحج ۹۱ (۳۰۸۷) حم (۶/۸۷، ۹۷، ۱۲۲، ۲۰۳، ۲۵۹، ۲۶۱) من غیر ہذا الطریق۔
۸۳۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' پانچ موذی جانورہیں جو حرم میں یا حالت احرام میں بھی مارے جاسکتے ہیں: چوہیا، بچھو، کوّا ، چیل ، کاٹ کھانے والا کتا'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن مسعود ، ابن عمر، ابوہریرہ، ابوسعید اور ابن عباس رضی اللہ عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ کاٹ کھانے والے کتے سے مرادوہ تمام درندے ہیں جو لوگوں پر حملہ کر کے انہیں زخمی کردیتے ہوں مثلاً شیرچیتا بھیڑیا وغیرہ ۔


838- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "يَقْتُلُ الْمُحْرِمُ: السَّبُعَ الْعَادِيَ وَالْكَلْبَ الْعَقُورَ وَالْفَأْرَةَ وَالْعَقْرَبَ وَالْحِدَأَةَ وَالْغُرَابَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا: الْمُحْرِمُ يَقْتُلُ السَّبُعَ الْعَادِيَ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: كُلُّ سَبُعٍ عَدَا عَلَى النَّاسِ أَوْ عَلَى دَوَابِّهِمْ فَلِلْمُحْرِمِ قَتْلُهُ.
* تخريج: د/الحج ۴۰ (۱۸۴۸)، ق/المناسک ۹۱ (۳۰۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۳۳)، حم (۳/۳) (ضعیف)
(سند میں یزید بن ابی زیادضعیف راوی ہے)
۸۳۸- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' محرم سرکش درندے، کاٹ کھانے والے کتے، چوہا، بچھو، چیل اور کوے مارسکتاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔وہ کہتے ہیں: محرم ظلم ڈھانے والے درندوں کو مارسکتاہے، سفیان ثوری اور شافعی کابھی یہی قول ہے۔ شافعی کہتے ہیں:محرم ہر اس درندے کو جو لوگوں کو یا جانوروں کو ایذاء پہنچائے، مارسکتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
22- بَاب مَا جَاءَ فِي الْحِجَامَةِ لِلْمُحْرِمِ
۲۲-باب: محرم کے پچھنا لگوانے کابیان​


839- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ وَعَطَائٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ احْتَجَمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَعَبْدِاللهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْحِجَامَةِ لِلْمُحْرِمِ. قَالُوا: لاَ يَحْلِقُ شَعْرًا. و قَالَ مَالِكٌ: لاَيَحْتَجِمُ الْمُحْرِمُ إِلاَّ مِنْ ضَرُورَةٍ. وقَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَالشَّافِعِيُّ: لاَ بَأْسَ أَنْ يَحْتَجِمَ الْمُحْرِمُ وَلاَ يَنْزِعُ شَعَرًا.
* تخريج: خ/جزاء الصید ۱۱ (۱۸۳۵)، والصوم ۳۲ (۱۹۳۸)، والطب ۱۲ (۵۶۹۵)، و۱۵ (۵۷۰۰)، م/الحج ۱۱ (۱۲۰۳)، د/المناسک ۳۶ (۱۸۳۵)، ن/الحج ۹۲ (۲۸۴۸)، حم (۱/۲۲۱، ۲۹۲، ۳۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۳۷، ۵۹۳۹)، وأخرجہ کل من : ق/المناسک ۸۷ (۳۰۸۱)، حم (۱/۲۱۵، ۲۲۲، ۲۳۶، ۲۴۸، ۲۴۹، ۲۸۳، ۲۸۶، ۳۱۵، ۳۴۶، ۳۵۱، ۳۷۲)، دي/ الحج ۲۰ (۱۸۶۰) من غیر ہذا الطریق وبتصرف یسیر فی السیاق (صحیح)
۸۳۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے پچھنا لگوایا اور آپ محرم تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں انس ۲؎ ،عبداللہ بن بحینہ ۳؎ اور جابر رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں ،۳- اہل علم کی ایک جماعت نے محرم کو پچھنا لگوانے کی اجازت دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ بال نہیں منڈا ئے گا،۴- مالک کہتے ہیں کہ محرم پچھنا نہیں لگواسکتا، الایہ کہ ضروری ہو،۵- سفیان ثوری اور شافعی کہتے ہیں: محرم کے پچھنالگوانے میں کوئی حرج نہیں لیکن وہ بال نہیں اتارسکتا۔
وضاحت ۱؎ اس روایت سے معلوم ہوا کہ حالت احرام میں پچھنا لگوانا جائزہے، البتہ اگربچھنا لگوانے میں بال اتروانا پڑے تو فدیہ دینا ضروری ہوگا، یہ فدیہ ایک بکری ذبح کرنا ہے، یا تین دن کے صیام رکھنا، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ۔
وضاحت ۲؎ : انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے احرام کی حالت میں اپنے پاؤں کی پشت پر تکلیف کی وجہ سے پچھنا لگوایا ۔
وضاحت ۳؎ : عبداللہ ابن بحینہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حالت احرام میں لحی جمل میں اپنے سرکے وسط میں پچھنا لگوایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
23- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ تَزْوِيجِ الْمُحْرِمِ
۲۳-باب: حالت احرام میں محرم کی شادی کرانے کی حرمت کابیان​


840- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَرَادَ ابْنُ مَعْمَرٍ أَنْ يُنْكِحَ ابْنَهُ، فَبَعَثَنِي إِلَى أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَوْسِمِ بِمَكَّةَ فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ: إِنَّ أَخَاكَ يُرِيدُ أَنْ يُنْكِحَ ابْنَهُ، فَأَحَبَّ أَنْ يُشْهِدَكَ ذَلِكَ. قَالَ: لاَ أُرَاهُ إِلاَّ أَعْرَابِيًّا جَافِيًا. إِنَّ الْمُحْرِمَ لاَ يَنْكِحُ وَلاَ يُنْكَحُ أَوْ كَمَا قَالَ: ثُمَّ حَدَّثَ عَنْ عُثْمَانَ مِثْلَهُ، يَرْفَعُهُ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي رَافِعٍ وَمَيْمُونَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُثْمَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَابْنُ عُمَرَ. وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ فُقَهَائِ التَّابِعِينَ. وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ: لاَ يَرَوْنَ أَنْ يَتَزَوَّجَ الْمُحْرِمُ قَالُوا: فَإِنْ نَكَحَ فَنِكَاحُهُ بَاطِلٌ.
* تخريج: م/النکاح ۵ (۱۴۰۹)، د/الحج ۳۹ (۱۸۴۱)، ن/الحج ۹۱ (۲۸۴۵)، والنکاح ۳۸ (۳۲۷۵)، ق/النکاح ۴۵ (۱۹۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۷۶)، ط/الحج ۲۲ (۷۰)، حم (۱/۵۷، ۶۴، ۶۹، ۷۳)، دي/المناسک ۲۱ (۱۸۶۴) (صحیح)
۸۴۰- نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ ابن معمر نے اپنے بیٹے کی شادی کرنی چاہی، توانہوں نے مجھے ابان بن عثمان کے پاس بھیجا ، وہ مکہ میں امیر حج تھے۔ میں ان کے پاس آیا اورمیں نے ان سے کہا: آپ کے بھائی اپنے بیٹے کی شادی کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں، توانہوں نے کہا: میں انہیں ایک گنواراعرابی سمجھتاہوں، محرم نہ خود نکاح کرسکتا اور نہ کسی کا نکاح کراسکتاہے -أو كما قال- پھر انہوں نے(اپنے والد) عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے اسی کے مثل بیان کیا، وہ اسے مرفوع روایت کر رہے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عثمان رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابورافع اور میمونہ رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض صحابہ کرام جن میں عمربن خطاب ، علی بن ابی طالب اور ابن عمر رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں اسی پر عمل ہے ،اوریہی بعض تابعین فقہا ء کابھی قول ہے اور مالک ، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ یہ لوگ محرم کے لیے نکاح کرناجائز نہیں سمجھتے، ان لوگوں کاکہناہے کہ اگرمحرم نے نکاح کرلیا تواس کا نکاح باطل ہوگا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : شرعی ضابطہ یہی ہے کہ محرم حالت احرام میں نہ تو خوداپنانکاح کرسکتاہے اورنہ کسی دوسرے کا نکاح کراسکتاہے۔


841- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَانِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ: تَزَوَّجَ رَسُولُ اللهِ ﷺ مَيْمُونَةَ وَهُوَ حَلاَلٌ، وَبَنَى بِهَا وَهُوَ حَلاَلٌ، وَكُنْتُ أَنَا الرَّسُولَ فِيمَا بَيْنَهُمَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَلاَ نَعْلَمُ أَحَدًا أَسْنَدَهُ غَيْرَ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ، عَنْ رَبِيعَةَ. وَرَوَى مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ رَبِيعَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ حَلاَلٌ. رَوَاهُ مَالِكٌ مُرْسَلاً. قَالَ: وَرَوَاهُ أَيْضًا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ عَنْ رَبِيعَةَ مُرْسَلاً. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرُوِي عَنْ يَزِيدَ بْنِ الأَصَمِّ، عَنْ مَيْمُونَةَ قَالَتْ: تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ وَهُوَ حَلاَلٌ، وَيَزِيدُ بْنُ الأَصَمِّ هُوَ ابْنُ أُخْتِ مَيْمُونَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر دي/المناسک ۲۱ (۱۸۶۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۱۷)، وحم (۶/۳۹۲-۳۹۳) (ضعیف)
(اس کا آخری ٹکڑا میں ''أنا الرسول بينهما''میں دونوں کے درمیان قاصدتھا)، ضعیف ہے کیونکہ اس سے قوی روایت میں ہے کہ ''عباس رضی اللہ عنہ '' نے یہ شادی کرائی تھی ، اس کے راوی ''مطرالوراق''حافظے کے ضعیف ہیں ، اس روایت کا مرسل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے ، اس کا پہلا ٹکڑا حدیث رقم: ۸۴۵کے طریق سے صحیح ہے)
۸۴۱- ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے میمونہ سے نکاح کیا اور آپ حلال تھے پھران کے خلوت میں گئے تب بھی آپ حلال تھے، اور میں ہی آپ دونوں کے درمیان پیغام رساں تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اورہم حمادبن زیدکے علاوہ کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے اسے مطرورّاق کے واسطے سے ربیعہ سے مسنداً روایت کیاہو، ۳- اورمالک بن انس نے ربیعہ سے، اورربیعہ نے سلیمان بن یسار سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے میمونہ سے شادی کی اور آپ حلال تھے۔اسے مالک نے مرسلا ً روایت کیا ہے، اور سلیمان بن ہلال نے بھی اسے ربیعہ سے مرسلا ً روایت کیا ہے، ۴- یزید بن اصم ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے شادی کی اور آپ حلال تھے یعنی محرم نہیں تھے۔یزید بن اصم میمونہ کے بھانجے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
24- بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
۲۴-باب: محرم کے لیے شادی کی رخصت کابیان​


842- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ . وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَأَهْلُ الْكُوفَةِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۲۳۰) (صحیح) (یہ روایت سنداً صحیح ہے ، لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہا سے اس واقعہ کے نقل کرنے میں وہم ہوگیاتھا، اس لیے یہ شاذ کے حکم میں ہے، اور صحیح یہ ہے کہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی شادی حلال ہونے کے بعدہوئی جیساکہ اگلی حدیث میں آرہاہے) وأخرجہ کل من : خ/جزاء الصید ۱۲ (۱۸۳۷)، والمغازي ۴۳ (۴۲۵۸)، والنکاح ۳۰ (۵۱۱۴)، م/النکاح ۵ (۱۴۱۰)، د/الحج ۳۹ (۱۸۴۴)، ن/الحج ۹۰ (۲۸۴۰- ۲۸۴۴)، والنکاح ۳۷ (۳۲۷۳)، ق/النکاح ۴۵ (۱۹۶۵)، حم (۱/۲۲، ۲۴، ۲۶)، دي/المناسک ۲۱ (۱۸۶۳)، من غیر ہذا الطریق۔
۸۴۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے میمونہ سے شادی کی اورآپ محرم تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اوریہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ بھی کہتے ہیں۔


843- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۵۹۹۰) (صحیح)
(سندا صحیح ہے ، لیکن متن شاذ ہے، کماتقدم)
۸۴۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے میمونہ سے شادی کی اور آپ محرم تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : سعیدبن مسیب کابیان ہے کہ ابن عباس کواس سلسلہ میں وہم ہواہے کیونکہ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کاخودبیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے شادی کی توہم دونوں حلال تھے، اسی طرح ان کے وکیل ابورافع کا بیان بھی جیساکہ گزرا یہی ہے کہ رسول اللہﷺ نے میمونہ سے نکاح کیا تو آپ حلال تھے، اس سلسلہ میں صاحب معاملہ کابیان زیادہ معتبرہوگا۔


844- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْعَطَّارُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا الشَّعْثَائِ يُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ.
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الشَّعْثَائِ اسْمُهُ جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ. وَاخْتَلَفُوا فِي تَزْوِيجِ النَّبِيِّ ﷺ مَيْمُونَةَ. لأَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَزَوَّجَهَا فِي طَرِيقِ مَكَّةَ. فَقَالَ بَعْضُهُمْ: تَزَوَّجَهَا حَلاَلاً، وَظَهَرَ أَمْرُ تَزْوِيجِهَا وَهُوَ مُحْرِمٌ، ثُمَّ بَنَى بِهَا وَهُوَ حَلاَلٌ. بِسَرِفَ فِي طَرِيقِ مَكَّةَ وَمَاتَتْ مَيْمُونَةُ بِسَرِفَ، حَيْثُ بَنَى بِهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ وَدُفِنَتْ بِسَرِفَ.
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۸۴۲ (تحفۃ الأشراف: ۵۳۷۶) (صحیح)
(سندا صحیح ہے ، لیکن متن شاذ ہے، کماتقدم)
۸۴۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے میمونہ سے شادی کی توآپ محرم تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- نبی اکرمﷺ کے میمونہ سے شادی کرنے کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے۔ اس لئے کہ نبی اکرمﷺ نے مکے کے راستے میں ان سے شادی کی تھی، بعض لوگوں نے کہا: آپ نے جب ان سے شادی کی توآپ حلال تھے البتہ آپ کے ان سے شادی کرنے کی بات ظاہر ہوئی تو آپ محرم تھے،اور آپ نے مکے کے راستے میں مقام سرف میں ان کے ساتھ خلوت میں گئے توبھی آپ حلال تھے۔ میمونہ کا انتقال بھی سرف میں ہوا جہاں رسول اللہﷺ نے ان سے خلوت کی تھی اور وہ مقام سرف میں ہی دفن کی گئیں۔


845- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي قَال: سَمِعْتُ أَبَافَزَارَةَ يُحَدِّثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ الأَصَمِّ، عَنْ مَيْمُونَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ تَزَوَّجَهَا وَهُوَ حَلاَلٌ، وَبَنَى بِهَا حَلاَلاً. وَمَاتَتْ بِسَرِفَ، وَدَفَنَّاهَا فِي الظُّلَّةِ الَّتِي بَنَى بِهَا فِيهَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ الأَصَمِّ مُرْسَلاً أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ حَلاَلٌ.
* تخريج: م/النکاح ۵ (۱۴۱۱)، د/الحج ۳۹ (۱۸۴۳)، ق/النکاح ۴۵ (۱۹۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۸۲)، حم (۳۳۳، ۳۳۵)، دي ۲۱ (۱۸۶۵) (صحیح)
۸۴۵- ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہﷺ نے ان سے شادی کی اور آپ حلال تھے اور ان سے خلوت کی توبھی آپ حلال تھے۔ اورانہوں نے سرف ہی میں انتقال کیا، ہم نے انہیں اسی سایہ دار مقام میں دفن کیا جہاں آپ نے ان سے خلوت کی تھی۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- دیگرکئی لوگوں نے یہ حدیث یزید بن اصم سے مرسلاً روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے میمونہ سے شادی کی اور آپ حلال تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
25- بَاب مَا جَاءَ فِي أَكْلِ الصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ
۲۵-باب: محرم شکارکا گوشت کھائے اس کابیان​


846- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ الْمُطَّلِبِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "صَيْدُ الْبَرِّ لَكُمْ حَلاَلٌ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ مَا لَمْ تَصِيدُوهُ أَوْ يُصَدْ لَكُمْ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ وَطَلْحَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ مُفَسَّرٌ. وَالْمُطَّلِبُ لاَ نَعْرِفُ لَهُ سَمَاعًا عَنْ جَابِرٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. لاَ يَرَوْنَ بِالصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ بَأْسًا، إِذَا لَمْ يَصْطَدْهُ أَوْ لَمْ يُصْطَدْ مِنْ أَجْلِهِ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: هَذَا أَحْسَنُ حَدِيثٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ. وَأَقْيَسُ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: د/الحج ۴۱ (۱۸۵۱)، ن/الحج ۸۱ (۲۸۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۹۸)، حم (۳/۳۶۲) (ضعیف)
(سند میں عمروبن ابی عمرو ضعیف ہیں، لیکن اگلی روایت سے اس کے معنی کی تائید ہورہی ہے )
۸۴۶- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''خشکی کا شکار تمہارے لیے حالت احرام میں حلال ہے جب کہ تم نے اس کا شکار خودنہ کیا ہو، نہ ہی وہ تمہارے لیے کیا گیا ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں ابوقتادہ اور طلحہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے،۲- جابر کی حدیث مفسَّرہے، ۳-اور ہم مُطّلب کا جابر سے سماع نہیں جانتے ، ۴- اوربعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ محرم کے لیے شکارکے کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے جب اس نے خوداس کا شکار نہ کیا ہو، نہ ہی وہ اس کے لیے کیاگیاہو،۵- شافعی کہتے ہیں: یہ اس باب میں مروی سب سے اچھی اورقیاس کے سب سے زیادہ موافق حدیث ہے،اوراسی پرعمل ہے ۔ اوریہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔


847- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ حَتَّى إِذَا كَانَ بِبَعْضِ طَرِيقِ مَكَّةَ تَخَلَّفَ مَعَ أَصْحَابٍ لَهُ مُحْرِمِينَ وَهُوَ غَيْرُ مُحْرِمٍ، فَرَأَى حِمَارًا وَحْشِيًّا. فَاسْتَوَى عَلَى فَرَسِهِ. فَسَأَلَ أَصْحَابَهُ أَنْ يُنَاوِلُوهُ سَوْطَهُ فَأَبَوْا. فَسَأَلَهُمْ رُمْحَهُ فَأَبَوْا عَلَيْهِ. فَأَخَذَهُ ثُمَّ شَدَّ عَلَى الْحِمَارِ فَقَتَلَهُ. فَأَكَلَ مِنْهُ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبَى بَعْضُهُمْ. فَأَدْرَكُوا النَّبِيَّ ﷺ فَسَأَلُوهُ عَنْ ذَلِكَ. فَقَالَ: "إِنَّمَا هِيَ طُعْمَةٌ أَطْعَمَكُمُوهَا اللهُ".
* تخريج: خ/جزاء الصید ۴ (۱۸۲۳)، والجہاد ۸۸ (۲۹۱۴)، والذباع ۱۰ (۵۴۹۰)، و۱۱ (۵۴۹۲)، م/الحج ۸ (۱۱۹۶)، د/الحج ۴۱ (۱۸۵۲)، ن/الحج ۷۸ (۲۸۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۳۱)، ط/الحج ۲۴ (۷۶)، حم (۵/۳۰۱) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/جزاء الصید ۲ (۱۸۲۱)، و۳ (۱۸۲۲)، و۵ (۱۸۲۴)، والہبۃ ۳ (۲۵۷۰)، والجہاد ۴۶ (۲۸۵۴)، والأطعمۃ ۱۹ (۵۴۰۶، ۵۴۰۷)، ق/المناسک ۹۳ (۳۰۹۳)، حم (۵/۳۰۷)، دي/المناسک ۲۲ (۱۸۶۷) من غیر ہذا الطریق۔
۸۴۷- ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھے، یہاں تک کہ آپ جب مکے کاکچھ راستہ طے کرچکے تووہ اپنے بعض محرم ساتھیوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے جب کہ ابوقتادہ خود غیر محرم تھے، اسی دوران انہوں نے ایک نیل گائے دیکھا، تووہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے درخواست کی کہ وہ انہیں ان کا کوڑا اٹھا کردے دیں تو ان لوگوں نے اُسے انہیں دینے سے انکارکیا۔پھر انہوں نے ان سے اپنا نیزہ مانگا۔ توان لوگوں نے اُسے بھی اٹھاکردینے سے انکار کیاتو انہوں نے اسے خود ہی (اترکر)اٹھا لیا اور شکار کا پیچھاکیا اوراسے مارڈالا، توبعض صحابہ کرام نے اس شکارمیں سے کھایا اوربعض نے نہیں کھایا۔ پھروہ نبی اکرمﷺ سے آکرملے اور اس بارے آپﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا:'' یہ تو ایک ایسی غذاہے جسے اللہ نے تمہیں کھلایاہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خشکی کا شکاراگرکسی غیراحرام والے نے اپنے لیے کیا ہو اورمحرم نے کسی طرح کا تعاون اس میں نہ کیا ہو تو اس میں اسے محرم کے لیے کھانا جائزہے، اوراگرکسی غیر محرم نے خشکی کا شکارمحرم کے لیے کیا ہو یا محرم نے اس میں کسی طرح کا تعاون کیا ہو تو محرم کے لیے اس کا کھانا جائز نہیں۔


848- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ فِي حِمَارِ الْوَحْشِ، مِثْلَ حَدِيثِ أَبِي النَّضْرِ. غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "هَلْ مَعَكُمْ مِنْ لَحْمِهِ شَيْئٌ؟". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۲۰) (صحیح)
۸۴۸- اس سند سے بھی ابوقتادہ سے نیل گائے کے بارے میں ابونضرہی کی حدیث کی طرح مروی ہے البتہ زید بن اسلم کی اس حدیث میں اتنا زائد ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' کیا تمہارے پاس اس کے گوشت میں سے کچھ ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
26- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ لَحْمِ الصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ
۲۶-باب: محرم کے لیے شکار کے گوشت کی حرمت کابیان​


849- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ الصَّعْبَ بْنَ جَثَّامَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ مَرَّ بِهِ بِالأَبْوَائِ أَوْ بِوَدَّانَ، فَأَهْدَى لَهُ حِمَارًا وَحْشِيًّا فَرَدَّهُ عَلَيْهِ، فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللهِ ﷺ مَا فِي وَجْهِهِ مِنْ الْكَرَاهِيَةِ. فَقَالَ: "إِنَّهُ لَيْسَ بِنَا رَدٌّ عَلَيْكَ وَلَكِنَّا حُرُمٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، وَكَرِهُوا أَكْلَ الصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا وَجْهُ هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَنَا: إِنَّمَا رَدَّهُ عَلَيْهِ لَمَّا ظَنَّ أَنَّهُ صِيدَ مِنْ أَجْلِهِ، وَتَرَكَهُ عَلَى التَّنَزُّهِ. وَقَدْ رَوَى بَعْضُ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ. وَقَالَ أَهْدَى لَهُ لَحْمَ حِمَارٍ وَحْشٍ وَهُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ.
* تخريج: خ/جزاء الصید ۶ (۱۸۲۵)، والہبۃ ۶ (۲۵۷۳)، و۱۷ (۲۵۹۶)، م/الحج ۸ (۱۱۹۳)، ن/الحج ۷۹ (۲۸۲۱، ۲۸۲۲، ۲۸۲۵، ۲۸۲۶)، ق/المناسک ۹۲ (۳۰۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۴۰)، ط/الحج ۲۴ (۸۳)، حم (۴/۳۷، ۳۸، ۷۱، ۷۳)، دي/المناسک ۲۲(۱۸۷۰، و۱۸۷۲) (صحیح)
۸۴۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایاکہ رسول اللہﷺ ابواء یا ودّان میں ان کے پاس سے گزرے ،توانہوں نے آپ کوایک نیل گائے ہدیہ کیا، توآپ نے اسے لوٹادیا۔ ان کے چہرے پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے، جب رسول اللہﷺ نے اسے دیکھا تو فرمایا:'' ہم تمہیں لوٹاتے نہیں لیکن ہم محرم ہیں'' ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت اسی حدیث کی طرف گئی ہے اور انہوں نے محرم کے لئے شکار کا گوشت کھانے کومکروہ کہا ہے، ۳- شافعی کہتے ہیں: ہمارے نزدیک اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ آپ نے وہ گوشت صرف اس لئے لوٹادیا کہ آپ کو گمان ہوا کہ وہ آپ ہی کی خاطر شکار کیاگیا ہے۔ سوآپ نے اسے تنزیہاً چھوڑدیا، ۴- زہری کے بعض تلامذہ نے یہ حدیث زہری سے روایت کی ہے۔ اوراس میں '' أهدى له حمارا وحشياًکے بجائےأهدى له لحم حمارٍ وحشٍ ''ہے لیکن یہ غیر محفوظ ہے، ۵- اس باب میں علی اور زید بن ارقم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 
Top