• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
27- بَاب مَا جَاءَ فِي صَيْدِ الْبَحْرِ لِلْمُحْرِمِ
۲۷-باب: محرم کے لیے سمندرکے شکار کابیان​


850- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَزِّمِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ. فَاسْتَقْبَلَنَا رِجْلٌ مِنْ جَرَادٍ. فَجَعَلْنَا نَضْرِبُهُ بِسِيَاطِنَا وَعِصِيِّنَا فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "كُلُوهُ فَإِنَّهُ مِنْ صَيْدِ الْبَحْرِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الْمُهَزِّمِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبُو الْمُهَزِّمِ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ سُفْيَانَ وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ شُعْبَةُ. وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ لِلْمُحْرِمِ أَنْ يَصِيدَ الْجَرَادَ وَيَأْكُلَهُ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ عَلَيْهِ صَدَقَةً إِذَا اصْطَادَهُ وَأَكَلَهُ.
* تخريج: د/الحج ۴۲ (۱۸۵۴)، ق/الصید ۲۹ (۳۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۳۲)، حم (۲/۳۰۶، ۳۶۴) (ضعیف)
(سند میں ابوالہزم ضعیف راوی ہے)
۸۵۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ حج یا عمرہ کے لیے نکلے تھے کہ ہمارے سامنے ٹڈی کا ایک دل آگیا،ہم انہیں اپنے کوڑوں اور لاٹھیوں سے مارنے لگے تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' اسے کھاؤ، کیونکہ یہ سمندر کا شکار ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف ابوالمھزم کی روایت سے جانتے ہیں جسے انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے، ۲- ابوالمہزم کانام یزید بن سفیان ہے۔ شعبہ نے ان میں کلام کیا ہے، ۳- اہل علم کی ایک جماعت نے محرم کو ٹڈی کا شکار کرنے اور اسے کھانے کی رخصت دی ہے،۴- اور بعض کا خیال ہے کہ اگروہ اس کا شکار کرے اوراُسے کھائے تواس پرفدیہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
28- بَاب مَا جَاءَ فِي الضَّبُعِ يُصِيبُهَا الْمُحْرِمُ
۲۸-باب: محرم کے لکڑبگھا کو شکار کرنے کا بیان​


851- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُبَيْدِ ابْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ، قَالَ: قُلْتُ لِجَابِرٍ: الضَّبُعُ أَصَيْدٌ هِيَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: آكُلُهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: أَقَالَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ؟ قَالَ: نَعَمْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: وَرَوَى جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ هَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ: عَنْ جَابِرٍ عَنْ عُمَرَ وَحَدِيثُ ابْنِ جُرَيْجٍ أَصَحُّ. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْمُحْرِمِ إِذَا أَصَابَ ضَبُعًا أَنَّ عَلَيْهِ الْجَزَائَ.
* تخريج: د/الأطعمۃ ۳۲ (۳۸۰۱)، ن/الحج ۸۹ (۲۸۳۹)، والصید ۲۸ (۴۳۲۸)، ق/المناسک ۹۰ (۳۰۸۵)، والصید ۱۵ (۳۲۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۸۱)، حم (۳/۲۹۷، ۳۱۸، ۳۲۲)، دي/المناسک ۹۰ (۱۹۸۴) (صحیح)
۸۵۱- ابن ابی عمار کہتے ہیں کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیالکڑبگھا شکار میں داخل ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں، (پھر) میں نے پوچھا : کیا میں اسے کھاسکتاہوںـ؟ انہوں نے کہا : ہاں، میں نے کہا: کیا اسے رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- علی بن مدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید کابیان ہے کہ یہ حدیث جریر بن حزم نے بھی روایت کی ہے لیکن انہوں نے جابرسے اورجابر نے عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، ابن جریج کی حدیث زیادہ صحیح ہے، ۳- اوریہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ اور بعض اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ محرم جب لکڑبگھا کا شکار کرے یا اسے کھائے تو اس پر فدیہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
29- بَاب مَا جَاءَ فِي الاِغْتِسَالِ لِدُخُولِ مَكَّةَ
۲۹-باب: مکہ میں د اخلہ کے لیے غسل کرنے کابیان​


852- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ صَالِحٍ الْبَلْخِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: اغْتَسَلَ النَّبِيُّ ﷺ لِدُخُولِهِ مَكَّةَ بِفَخٍّ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ، وَالصَّحِيحُ مَا رَوَى نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ يَغْتَسِلُ لِدُخُولِ مَكَّةَ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ يُسْتَحَبُّ الاِغْتِسَالُ لِدُخُولِ مَكَّةَ. وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ. ضَعَّفَهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَعَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَغَيْرُهُمَا. وَلاَ نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِهِ.
* تخريج: تفرد المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۷۳۲) (ضعیف الإسناد جدا)
(سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلمسخت ضعیف ہیں،لیکن مقام ''فخ''کے ذکر کے بغیر مطلق دخول مکہ کے لیے غسل ابن عمرہی سے بخاری ومسلم میں مروی ہے)
۸۵۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے مکے میں داخل ہونے کے لیے (مقام) فخ میں ۱؎ غسل کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غیر محفوظ ہے،۲- صحیح وہ روایت ہے جسے نافع نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ وہ مکے میں داخل ہونے کے لئے غسل کرتے تھے۔اوریہی شافعی بھی کہتے ہیں کہ مکے میں داخل ہونے کے لیے غسل کرنا مستحب ہے، ۳- عبدالرحمن بن زید بن اسلم حدیث میں ضعیف ہیں۔احمد بن حنبل اورعلی بن مدینی وغیرہمانے ان کی تضعیف کی ہے اور ہم اس حدیث کو صرف انہی کے طریق سے مرفوع جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : مکہ کے قریب ایک جگہ کانام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
30-بَاب مَا جَاءَ فِي دُخُولِ النَّبِيِّ ﷺمَكَّةَ مِنْ أَعْلاَهَا وَخُرُوجِهِ مِنْ أَسْفَلِهَا
۳۰-باب: نبی اکرمﷺ کے مکّہ میں بلندی کی طرف سے داخل ہونے اور پستی کی طرف سے نکلنے کابیان​


853- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ ﷺ إِلَى مَكَّةَ دَخَلَ مِنْ أَعْلاَهَا وَخَرَجَ مِنْ أَسْفَلِهَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الحج ۴۱ (۱۵۷۶)، م/الحج ۳۷ (۱۲۵۷)، د/الحج (۱۸۶۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۲۳) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/المغازي ۴۹ (۴۲۹۰)، د/الحج ۴۵ (۱۸۶۸) من غیر ہذا الطریق۔
۸۵۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب نبی اکرمﷺ مکہ آتے توبلندی کی طرف سے داخل ہوتے اور نشیب کی طرف سے نکلتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : بلندی سے مرادثنیہ کداء ہے جومکہ مکرمہ کی مقبرۃ المعلیٰ کی طرف ہے، اوربلندہے اورنشیب سے مرادثنیۃ کدی ہے جو باب العمرۃ اورباب ملک فہد کی طرف نشیب میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
31-بَاب مَا جَاءَ فِي دُخُولِ النَّبِيِّ ﷺ مَكَّةَ نَهَارًا
۳۱-باب: نبی اکرمﷺ کا مکہ میں دن کے وقت داخل ہونے کابیان​


854- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْعُمَرِيُّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ مَكَّةَ نَهَارًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: ق/المناسک ۲۶ (۲۹۴۱) (تحفۃ الأشراف: ۷۷۲۳) (صحیح)
(متابعات کی بناپر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ، ورنہ اس کے راوی ''عبداللہ العمری''ضعیف ہیں، دیکھئے صحیح ابی داود : ۱۶۲۹، وسنن ابی داود : ۱۸۶۵)
۸۵۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ مکہ میں دن کے وقت داخل ہوئے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہو اکہ افضل یہ ہے کہ مکہ میں دن کے وقت داخل ہواجائے مگریہ قدرت اورامکان پر منحصرہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
32- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ رُؤْيَةِ الْبَيْتِ
۳۲-باب: بیت اللہ (کعبہ) کو دیکھنے کے وقت ہاتھ اٹھانے کی کراہت کابیان​


855- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي قَزَعَةَ الْبَاهِلِيِّ، عَنْ الْمُهَاجِرِ الْمَكِّيِّ، قَالَ: سُئِلَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ: أَيَرْفَعُ الرَّجُلُ يَدَيْهِ إِذَا رَأَى الْبَيْتَ؟ فَقَالَ: حَجَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ أفَكُنَّا نَفْعَلُهُ ۱؎ . قَالَ أَبُو عِيسَى: رَفْعُ الْيَدَيْنِ عِنْدَ رُؤْيَةِ الْبَيْتِ. إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي قَزَعَةَ. وَأَبُو قَزَعَةَ اسْمُهُ سُوَيْدُ بْنُ حُجَيْرٍ.
* تخريج: د/الحج ۴۶ (۱۸۷۰)، ن/الحج ۱۲۲ (۲۸۹۸)، دي/المناسک ۷۵ (۱۹۶۱) (تحفۃ الأشراف: ۳۱۱۶) (ضعیف)
(سند میں مہاجربن عکرمہ، لین الحدیث راوی ہیں، نیز اس کے متن میں اثبات ونفی تک کا اختلاف ہے)
۸۵۵- مہاجر مکی کہتے ہیں کہ جابربن عبداللہ سے پوچھا گیا: جب آدمی بیت اللہ کو دیکھے توکیا اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے؟ انہوں نے کہا: ہم نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ حج کیا، توکیا ہم ایسا کرتے تھے ؟۔
امام ترمذی کہتے ہیں: بیت اللہ کودیکھ کر ہاتھ اٹھانے کی حدیث ہم شعبہ ہی کے طریق سے جانتے ہیں، شعبہ ابوقزعہ سے روایت کرتے ہیں، اورابوقزعہ کانام سوید بن حجیر ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہاں استفہام انکارکے لیے ہے، ابوداودکی روایت میں'' ٓأفكنا نفعله''کے بجائے '' فلم يكن يفعله'' اور نسائی کی روایت میں''فلم نكن نفعله''ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے اس سے استدلال صحیح نہیں اس کے برعکس صحیح احادیث اورآثار سے بیت اللہ پرنظرپڑتے وقت ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
33- بَاب مَا جَاءَ كَيْفَ الطَّوَافُ
۳۳-باب: طواف کی کیفیت کابیان​


856- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ ابْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ مَكَّةَ، دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَاسْتَلَمَ الْحَجَرَ، ثُمَّ مَضَى عَلَى يَمِينِهِ، فَرَمَلَ ثَلاَثًا وَمَشَى أَرْبَعًا. ثُمَّ أَتَى الْمَقَامَ. فَقَالَ: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى}، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَالْمَقَامُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، ثُمَّ أَتَى الْحَجَرَ بَعْدَ الرَّكْعَتَيْنِ. فَاسْتَلَمَهُ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّفَا أَظُنُّهُ. قَالَ: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ}. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: م/الحج ۱۹ (۱۲۱۸)، د/الحج ۵۷ (۱۹۰۵)، والحروف ۱ (۳۹۶۹)، ن/الحج ۱۴۹ (۲۹۴۲)، ۱۶۳ (۲۹۶۴، ۲۹۶۵)، و۱۶۴ (۲۹۶۶)، و۱۷۲ (۲۹۷۷)، ق/الإقامۃ ۵۶ (۱۰۰۸)، والمناسک ۲۹ (۲۹۵۱)، و۸۴ (۳۰۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۹۴ و۲۵۹۵ و۲۵۹۶)، حم (۳/۳۲۰)، دي/المناسک ۱۱ (۱۸۴۶)، وانظر ما یأتي برقم: ۸۵۷ و۸۶۲ و۲۹۶۷) (صحیح)
۸۵۶- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرمﷺ مکہ آئے توآپ مسجدحرام میں داخل ہوئے، اور حجر اسود کا بوسہ لیا، پھراپنے دائین جانب چلے آپ نے تین چکر میں رمل کیا ۱؎ اور چارچکرمیں عام چال چلے۔ پھر آپ نے مقام ابراہیم کے پاس آکرفرمایا:'' مقام ابراہیم کوصلاۃ پڑھنے کی جگہ بناؤ''،چنانچہ آپ نے دورکعت صلاۃ پڑھی، اور مقام ابراہیم آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان تھا۔ پھر دورکعت کے بعد حجر اسودکے پاس آکر اس کا استلام کیا۔پھر صفا کی طرف گئے ۔ میراخیال ہے کہ (وہاں) آپ نے یہ آیت پڑھی : {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ} (صفااورمروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں)۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کااسی پرعمل ہے۔
وضاحت ۱؎ : رمل یعنی اکڑکرمونڈھاہلاتے ہوئے چلنا جیسے سپاہی جنگ کے لیے چلتاہے، یہ طواف کعبہ کے پہلے تین پھیروں میں سنت ہے، نبی اکرمﷺ نے مسلمانوں کو یہ حکم اس لیے دیاتھا کہ وہ کافروں کے سامنے اپنے طاقت وراورتواناہو نے کامظاہرہ کرسکیں،کیونکہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلاتھے کہ مدینہ کے بخارنے انہیں کمزور کردیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
34- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّمَلِ مِنَ الْحَجَرِ إِلَى الْحَجَرِ
۳۴-باب: حجر اسود سے حجر اسود تک رمل کرنے کابیان​


857- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ جَعْفَرِ ابْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَمَلَ مِنَ الْحَجَرِ إِلَى الْحَجَرِ ثَلاَثًا وَمَشَى أَرْبَعًا . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: إِذَا تَرَكَ الرَّمَلَ عَمْدًا فَقَدْ أَسَائَ، وَلاَ شَيْئَ عَلَيْهِ. وَإِذَا لَمْ يَرْمُلْ فِي الأَشْوَاطِ الثَّلاَثَةِ، لَمْ يَرْمُلْ فِيمَا بَقِيَ . و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَيْسَ عَلَى أَهْلِ مَكَّةَ رَمَلٌ وَلاَ عَلَى مَنْ أَحْرَمَ مِنْهَا.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۸۵۷- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حجر اسود سے حجر اسود تک تین پھیروں میں رمل ۱؎ کیا اور چار میں عام چل چلے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے، ۳-اہل علم کا اسی پر عمل ہے،۴- شافعی کہتے ہیں: جب کوئی جان بوجھ کر رمل کرناچھوڑدے تواس نے غلط کیا لیکن اس پر کوئی چیز واجب نہیں اور جب اس نے ابتدائی تین پھیروں میں رمل نہ کیا ہوتو باقی میں نہیں کرے گا،۵- بعض اہل علم کہتے ہیں: اہل مکہ کے لیے رمل نہیں ہے اور نہ ہی اس پر جس نے مکہ سے احرام باندھاہو۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ رمل حجراسودسے حجراسودتک پورے مطاف میں مشروع ہے، رہی ابن عباس کی روایت جس میں رکن یمانی اورحجراسودکے درمیان عام چال چلنے کاذکرہے تو وہ منسوخ ہے، اس لیے کہ ابن عباس کی روایت عمرئہ قضاکے موقع کی ہے جو ۷ھ؁میں فتح مکہ سے پہلے ہواہے اورجابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حجۃ الوداع کے موقع کی ہے جو ۱۰ھ؁میں ہواہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
35- بَاب مَا جَاءَ فِي اسْتِلاَمِ الْحَجَرِ وَالرُّكْنِ الْيَمَانِي دُونَ مَا سِوَاهُمَا
۳۵-باب: بیت اللہ کے دوسرے کونوں کوچھوڑکرصرف حجراسوداور رکن یمانی کے استلام کابیان​


858- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ وَمَعْمَرٌ، عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ وَمُعَاوِيَةُ لاَ يَمُرُّ بِرُكْنٍ إِلاَّ اسْتَلَمَهُ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمْ يَكُنْ يَسْتَلِمُ إِلاَّ الْحَجَرَ الأَسْوَدَ وَالرُّكْنَ الْيَمَانِيَ. فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: لَيْسَ شَيْئٌ مِنَ الْبَيْتِ مَهْجُورًا.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ لاَ يَسْتَلِمَ إِلاَّ الْحَجَرَ الأَسْوَدَ وَالرُّكْنَ الْيَمَانِيَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۷۸۰) (صحیح)
۸۵۸- ابوالطفیل کہتے کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہا کے ساتھ تھا،معاویہ رضی اللہ عنہ جس رکن کے بھی پاس سے گزرتے ، اس کا استلام کرتے ۱؎ تو ابن عباس نے ان سے کہا: نبی اکرمﷺ نے حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی کااستلام نہیں کیا، اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: بیت اللہ کی کوئی چیز چھوڑی جانے کے لائق نہیں ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمر سے بھی روایت ہے، ۳- اکثر اہل علم کااسی پر عمل ہے کہ حجراسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی کااستلام نہ کیاجائے۔
وضاحت ۱؎ : خانہ کعبہ چاررکنوں پر مشتمل ہے، پہلے رکن کو دوفضیلتیں حاصل ہیں، ایک یہ کہ اس میں حجراسودنصب ہے دوسرے یہ کہ قواعد ابراہیمی پرقائم ہے اوردوسرے رکن کو صرف دوسری فضیلت حاصل ہے یعنی وہ بھی قواعد ابراہیمی پرقائم ہے اوررکن شامی اوررکن عراقی کو ان دونوں فضیلتوں میں سے کوئی بھی فضیلت حاصل نہیں، یہ دونوںقواعد ابراہیمی پر قائم نہیں اس لیے پہلے کی تقبیل (بوسہ) ہے اوردوسرے کا صرف استلام (چھونا) ہے اورباقی دونوں کی نہ تقبیل ہے نہ استلام، یہی جمہورکی رائے ہے، اور بعض لوگ رکن یمانی کی تقبیل کو بھی مستحب کہتے ہیں،جوممنوع نہیں ہے۔
وضاحت ۲؎ : معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس قول کا جواب امام شافعی نے یہ کہہ کر دیا ہے کہ ان رکن شامی اور رکن عراقی دونوں کا استلام نہ کر نا انہیں چھوڑنا نہیں ہے حاجی ان کا طواف کررہا ہے انھیں چھوڑنہیں رہا ، بلکہ یہ فعلاً اورترکاً دونوں اعتبارسے سنت کی اتباع ہے، اگران دونوں کا استلام نہ کرنا انھیں چھوڑنا ہے تو ارکان کے درمیان جو جگہیں ہیں ان کا استلام نہ کرنا بھی انہیں چھوڑنا ہواحالانکہ اس کا کوئی قائل نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
36- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ طَافَ مُضْطَبِعًا
۳۶-باب: احرام کی چادرکو داہنی بغل کے نیچے کرکے دونوں کناروں کو بائیں کندھے پر ڈال کرنبی اکرمﷺ کے طواف کرنے کا بیان​


859- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ، عَنْ ابْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ طَافَ بِالْبَيْتِ مُضْطَبِعًا وَعَلَيْهِ بُرْدٌ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثُ الثَّوْرِيِّ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ وَلاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِهِ وَهُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَعَبْدُ الْحَمِيدِ هُوَ ابْنُ جُبَيْرَةَ بْنِ شَيْبَةَ عَنْ ابْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ. وَهُوَ يَعْلَى بْنُ أُمَيَّةَ.
* تخريج: د/الحج ۵۰ (۱۸۸۳)، ق/المناسک ۳۰ (۲۹۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۳۹)، حم (۴/۲۲۲)، دي/المناسک ۲۸ (۱۸۸۵) (حسن)
۸۵۹- یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اضطباع کی حالت میں ۱؎ بیت اللہ کا طواف کیا، آپ کے جسم مبارک پرایک چادر تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہی ثوری کی حدیث ہے جسے انہوں نے ابن جریج سے روایت کی ہے اور اِسے ہم صرف کے اُنہی طریق سے جانتے ہیں، ۳- عبدالحمید جبیرہ بن شیبہ کے بیٹے ہیں، جنہوں نے ابن یعلی سے اور ابن یعلی نے اپنے والد سے روایت کی ہے اور یعلی سے مراد یعلی بن امیہ ہیں رضی اللہ عنہ ۔
وضاحت ۱؎ : چادر ایک سرے کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر سینے سے گزارتے ہوئے پیٹھ کی طرف کے دونوں کناروں کو بائیں کندھے پرڈالنے کو اضطباع کہتے ہیں، یہ طواف کے سبھی پھیروں میں سنت ہے، بخلاف رمل کے ، وہ صرف شروع کے تین پھیروں (چکروں)میں ہے، طواف کے علاوہ کسی جگہ اورکسی حالت میں اضطباع نہیں ہے بعض لوگ حج وعمرہ میں احرام ہی کے وقت سے اضطباع کرتے ہیں، اس کی کوئی اصل نہیں بلکہ صلاۃ کی حالت میں یہ مکروہ ہے ۔
 
Top