- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
37- بَاب مَا جَاءَ فِي تَقْبِيلِ الْحَجَرِ
۳۷-باب: حجر اسود کو بوسہ لینے کا بیان
860- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ وَيَقُولُ: إِنِّي أُقَبِّلُكَ وَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ. وَلَوْلاَ أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يُقَبِّلُكَ لَمْ أُقَبِّلْكَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَابْنِ عُمَرَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الحج ۵۰ (۱۵۹۷)، و۵۷ (۱۶۰۵)، (۱۶۱۰)، م/الحج ۴۱ (۱۲۷۰)، د/المناسک ۴۷ (۱۸۷۳)، ن/الحج ۱۴۷ (۲۹۴۰)، ق/المناسک ۲۷ (۲۹۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۷۳)، حم (۱/۲۶، ۴۶) (صحیح) وأخرجہ کل من: ط/الحج ۳۶ (۱۱۵)، حم (۱/۲۱، ۳۴، ۳۵، ۳۹، ۵۱، ۵۳، ۵۴)، دي/المناسک ۴۲ (۱۹۰۶) من غیر ہذا الطریق۔
۸۶۰- عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کو حجر اسود کا بوسہ لیتے دیکھا ،وہ کہہ رہے تھے: میں تیرا بوسہ لے رہاہوں اور مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے ، اگر میں نے رسول اللہﷺ کو تیرا بوسہ لیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ لیتا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوبکر اور ابن عمر سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اپنے اس قول سے عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ حجر اسود کا چومنا رسول اللہ کے فعل کی اتباع میں ہے نہ کہ اس وجہ سے کہ یہ خود نفع ونقصان پہنچاسکتا ہے جیسا کہ جاہلیت میں بتوں کے سلسلہ میں اس طرح کا لوگ عقیدہ رکھتے تھے۔
861- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَرَبِيٍّ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنْ اسْتِلاَمِ الْحَجَرِ؟ فَقَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ. فَقَالَ الرَّجُلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ غُلِبْتُ عَلَيْهِ؟ أَرَأَيْتَ إِنْ زُوحِمْتُ؟ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: اجْعَلْ أَرَأَيْتَ بِالْيَمَنِ. رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ. قَالَ: وَهَذَا هُوَ الزُّبَيْرُ بْنُ عَرَبِيٍّ رَوَى عَنْهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ. وَالزُّبَيْرُ بْنُ عَدِيٍّ كُوفِيٌّ يُكْنَى أَبَا سَلَمَةَ. سَمِعَ مِنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ. رَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. يَسْتَحِبُّونَ تَقْبِيلَ الْحَجَرِ. فَإِنْ لَمْ يُمْكِنْهُ، وَلَمْ يَصِلْ إِلَيْهِ. اسْتَلَمَهُ بِيَدِهِ وَقَبَّلَ يَدَهُ. وَإِنْ لَمْ يَصِلْ إِلَيْهِ اسْتَقْبَلَهُ إِذَا حَاذَى بِهِ وَكَبَّرَ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
* تخريج: خ/الحج ۶۰ (۱۶۱۱)، ن/الحج ۱۵۵ (۲۹۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۱۹)، حم (۲/۱۵۲) (صحیح)
۸۶۱- زبیر بن عربی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہا سے حجر اسود کابوسہ لینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرمﷺ کو اسے چھوتے اور بوسہ لیتے دیکھاہے۔اس نے کہا: اچھابتائیے اگر میں وہاں تک پہنچنے میں مغلوب ہوجاؤں اور اگرمیں بھیڑ میں پھنس جاؤں؟ تواس پرابن عمر نے کہا: تم(یہ اپنا) اگرمگریمن میں رکھو ۱؎ میں نے نبی اکرمﷺ کو اسے چھوتے اور بوسہ لیتے دیکھاہے۔یہ زبیر بن عربی وہی ہیں ، جن سے حماد بن زید نے روایت کی ہے، کوفے کے رہنے والے تھے، ان کی کنیت ابوسلمہ ہے۔انہوں نے انس بن مالک اور دوسرے کئی صحابہ سے حدیثیں روایت کیں ہیں۔اوران سے سفیان ثوری اور دوسرے کئی اورائمہ نے روایت کی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ان سے یہ دوسری سندوں سے بھی مروی ہے۔ ۲-اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ حجر اسود کے بوسہ لینے کو مستحب سمجھتے ہیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو اور آدمی وہاں تک نہ پہنچ سکے تو اسے اپنے ہاتھ سے چھولے اوراپنے ہاتھ کا بوسہ لے لے اور اگروہ اس تک نہ پہنچ سکے تو جب اس کے سامنے میں پہنچے تواس کی طرف رخ کرے اور اللہ اکبر کہے ، یہ شافعی کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ مطلب یہ ہے کہ ''اگرمگر''چھوڑدو، اس طرح کے سوالات سنت رسول کے شیدائیوں کو زیب نہیں دیتے، یہ تو تارکین سنت کا شیوہ ہے، سنت رسول کو جان لینے کے بعد اس پر عمل پیراہو نے کے لیے ہرممکن کوشش کر نی چاہئے ۔