• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
97-بَاب مَا جَاءَ فِي الاِشْتِرَاطِ فِي الْحَجِّ
۹۷-باب: حج میں شرط لگا لینے کا بیان​


941- حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ، عَنْ هِلاَلِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ ضُبَاعَةَ بِنْتَ الزُّبَيْرِ أَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ؛ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنِّي أُرِيدُ الْحَجَّ. أَفَأَشْتَرِطُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَتْ: كَيْفَ أَقُولُ؟ قَالَ: "قُولِي لَبَّيْكَ اللّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ مَحِلِّي مِنْ الأَرْضِ حَيْثُ تَحْبِسُنِي".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ . يَرَوْنَ الاِشْتِرَاطَ فِي الْحَجِّ. وَيَقُولُونَ: إِنْ اشْتَرَطَ فَعَرَضَ لَهُ مَرَضٌ أَوْ عُذْرٌ، فَلَهُ أَنْ يَحِلَّ وَيَخْرُجَ مِنْ إِحْرَامِهِ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَلَمْ يَرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الاشْتِرَاطَ فِي الْحَجِّ. وَقَالُوا: إِنْ اشْتَرَطَ فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَخْرُجَ مِنْ إِحْرَامِهِ . وَيَرَوْنَهُ كَمَنْ لَمْ يَشْتَرِطْ.
* تخريج: د/الحج ۲۲ (۱۷۷۶)، ن/الحج ۶۰ (۲۷۶۷)، دي/المناسک ۱۵ (۱۸۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۳۲) (صحیح) و أخرجہ: ن/الحج ۵۹ (۲۷۶۶)، و۶۰ (۲۷۶۸)، ق/المناسک ۲۴ (۲۹۳۸)، حم (۱/۳۵۳۷) من غیر ہذا الطریق۔
۹۴۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں : ضباعہ بنت زبیرنے نبی اکرمﷺ کے پاس آکر کہا: اللہ کے رسول! میں حج کا ارادہ رکھتی ہوں، تو کیا میں شرط لگاسکتی ہوں؟(کہ اگر کوئی عذر شرعی لاحق ہوا تو احرام کھول دوں گی) آپ نے فرمایا:'' ہاں، توانہوں نے پوچھا: میں کیسے کہوں؟ آپ نے فرمایا: '' لَبَّيْكَ اللّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ مَحِلِّي مِنَ الأَرْضِ حَيْثُ تَحْبِسُنِي'' (حاضرہوں اے اللہ حاضرہوں حاضرہوں، میرے احرام کھولنے کی جگہ وہ ہے جہاں تومجھے روک دے)۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں جابر، اسماء بنت ابی بکر اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اسی پر بعض اہل علم کا عمل ہے، وہ حج میں شرط لگالینے کو درست سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے شرط کرلی پھر اسے کوئی مرض یا عذر لاحق ہوا تو اس کے لیے جائزہے کہ وہ حلال ہوجائے اور اپنے احرام سے نکل آئے۔ یہی شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،۴- بعض اہل علم حج میں شرط لگانے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے شرط لگابھی لی تو اسے احرام سے نکلنے کا حق نہیں ،یہ لوگ اسے اس شخص کی طرح سمجھتے ہیں جس نے شرط نہیں لگائی ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ لوگ ضباعہ بنت زبیرکی روایت کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ضباعہ ہی کے ساتھ خاص تھا، ایک تاویل یہ بھی کی گئی ہے کہ '' محلي حيث حبسني '' (میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تومجھے روک دے) کا معنی '' محلي حيث حبسني الموت'' (میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تونے مجھے موت دے دی) ہے کیونکہ مرجانے سے احرام خودبخودختم ہوجاتا ہے لیکن یہ دونوں تاویلیں باطل ہیں،ایک قول یہ ہے کہ شرط خاص عمرہ سے تحلل کے ساتھ ہے حج کے تحلل سے نہیں، لیکن ضباعہ کا واقعہ اس قول کو باطل کردیتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
98-بَاب مِنْهُ
۹۸-باب: حج میں شرط لگانے سے متعلق ایک اور باب​


942- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنِي مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ كَانَ يُنْكِرُ الاِشْتِرَاطَ فِي الْحَجِّ وَيَقُولُ: أَلَيْسَ حَسْبُكُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ ﷺ؟. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/المحصر ۲ (۱۸۱۰)، ن/الحج ۶۱ (۲۷۷۰) (تحفۃ الأشراف: ۶۹۳۷)، حم (۲/۳۳) (صحیح)
۹۴۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ حج میں شرط لگانے سے انکارکرتے تھے اورکہتے تھے: کیا تمہارے لیے تمہارے نبی اکرمﷺ کا طریقہ کافی نہیں ہے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : دراصل ابن عمر رضی اللہ عنہا نے یہ بات ابن عباس رضی اللہ عنہا کی تردید میں کہی تھی جو شرط لگانے کا فتوی دیتے تھے، ان کو ضباعہ رضی اللہ عنہا والی حدیث نہیں پہنچی تھی ورنہ ایسی بات نہ کہتے، اور آپ کا اشارہ صلح حدیبیہ میں نبی اکرم ﷺ کے عمرہ سے روک دیئے جانے کی طرف تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
99-بَاب مَا جَاءَ فِي الْمَرْأَةِ تَحِيضُ بَعْدَ الإِفَاضَةِ
۹۹-باب: طواف افاضہ کے بعدعورت کو حیض آ جائے توکیا ہوگا؟​


943- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: ذَكَرْتُ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ أَنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ حَاضَتْ فِي أَيَّامِ مِنًى. فَقَالَ: أَحَابِسَتُنَا هِيَ؟ قَالُوا: إِنَّهَا قَدْ أَفَاضَتْ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "فَلاَ، إِذًا".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا طَافَتْ طَوَافَ الزِّيَارَةِ ثُمَّ حَاضَتْ، فَإِنَّهَا تَنْفِرُ وَلَيْسَ عَلَيْهَا شَيْئٌ. وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: م/الحج ۶۷ (۱۲۱۱/۳۸۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۱۲) (صحیح)
وأخرجہ کل من: خ/الحیض ۲۷ (۳۲۸)، والحج ۱۲۹ (۱۷۳۳)، و۱۴۵ (۱۷۵۷)، و۱۵ (۱۷۷۱)، م/الحج (المصدر المذکور رقم: ۳۸۲)، د/الحج ۸۵ (۲۰۰۳)، ن/الحیض ۲۳ (۳۹۱)، ق/المناسک ۸۳ (۳۰۷۲)، ط/الحج ۷۵ (۲۶۶)، حم (۶/۳۸، ۳۹، ۸۲، ۹۹، ۱۲۲، ۱۶۴، ۱۷۵، ۱۹۳، ۲۰۲، ۲۰۷، ۲۱۳، ۲۲۴، ۲۳۱، ۲۵۳)، دي/المناسک ۷۳ (۱۹۵۸) من غیر ہذا الطریق۔
۹۴۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے ذکر کیا کہ صفیہ بنت حیی منیٰ کے دنوں میں حائضہ ہوگئی ہیں، آپ نے پوچھا:'' کیا وہ ہمیں (مکے سے روانہ ہونے سے ) روک دے گی؟'' لوگوں نے عرض کیا: وہ طواف افاضہ کرچکی ہیں، تورسول اللہﷺ نے فرمایا: ''تب تو کوئی حرج نہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ عورت جب طواف زیارت کرچکی ہو اور پھر اسے حیض آجائے تو وہ روانہ ہوسکتی ہے، طوافِ وداع چھوڑ دینے سے اس پرکوئی چیز لازم نہیں ہوگی۔ یہی سفیان ثوری ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔


944- حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: مَنْ حَجَّ الْبَيْتَ فَلْيَكُنْ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبَيْتِ. إِلاَّ الْحُيَّضَ. وَرَخَّصَ لَهُنَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۸۰۸۱) (صحیح)
۹۴۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ جس نے بیت اللہ کا حج کیا،اس کا آخری کام بیت اللہ کاطواف (وداع) ہونا چاہئے حائضہ عورتوں کے سوا کہ رسول اللہﷺ نے انہیں رخصت دی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کااسی پرعمل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
100-بَاب مَا جَاءَ مَا تَقْضِي الْحَائِضُ مِنَ الْمَنَاسِكِ
۱۰۰-باب: حائضہ عورت حج کے کون کون سے مناسک ادا کرے ؟​


945- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ جَابِرٍ وَهُوَ ابْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: حِضْتُ فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ أَقْضِيَ الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا إِلاَّ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: الْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْحَائِضَ تَقْضِي الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا، مَا خَلاَ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَائِشَةَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ أَيْضًا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۱۳) (صحیح)
(سند میں جابرجعفی سخت ضعیف ہیں،لیکن متابعات کی بناپر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ) وأخرجہ کل من : خ/الحیض ۷ (۳۰۵)، والحج ۳۳ (۱۵۰۶)، و۸۱ (۱۶۵۰)، والعمرۃ ۹ (۱۷۸۸)، والأضاحي ۳ (۵۵۴۸)، و۱۰ (۵۵۵۹)، م/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، د/المناسک ۲۳ (۱۷۸۲)، ن/الطہارۃ ۱۸۳ (۲۹۱)، والحیض ۱ (۳۴۹)، والجہاد ۵ (۲۷۴۲)، ق/المناسک ۳۶ (۲۹۶۳)، دي/المناسک ۶۲ (۱۹۴۵) من غیر ہذا الطریق وبسیاق آخر۔
۹۴۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے حیض آگیا چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے طواف کے علاوہ سبھی مناسک ادا کرنے کا حکم دیا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس طریق کے علاوہ سے بھی عائشہ سے مروی ہے۔ ۲- اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے کہ حائضہ خانہ کعبہ کے طواف کے علاوہ سبھی مناسک اداکرے گی۔
وضاحت ۱؎ : بخاری ومسلم کی روایت میں ہے'' أهلي بالحج واصنعي ما يصنع الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت'' یعنی حج کا تلبیہ پکارو اوروہ سارے کام کرو جو حاجی کرتا ہے سوائے خانہ کعبہ کے طواف کے۔


945م- حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ شُجَاعٍ الْجَزَرِيُّ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ وَمُجَاهِدٍ وَعَطَائٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَفَعَ الْحَدِيثَ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ: "أَنَّ النُّفَسَائَ وَالْحَائِضَ تَغْتَسِلُ وَتُحْرِمُ وَتَقْضِي الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا، غَيْرَ أَنْ لاَ تَطُوفَ بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: د/المناسک ۱۰ (۱۷۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۹۳ و۶۰۹۷ و۶۳۹۲) (صحیح)
۹۴۵م- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا یہ حدیث رسول اللہﷺ سے بیان کی ہے کہ '' نفاس اورحیض والی عورتیں غسل کریں گی ، تلبیہ پکاریں گی اور تمام مناسک حج ادا کریں گی البتہ وہ خانہ کعبہ کا طواف نہیں کریں گی جب تک کہ پاک نہ ہوجائیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سندسے حسن غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
101-بَاب مَا جَاءَ مَنْ حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ فَلْيَكُنْ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبَيْتِ
۱۰۱-باب: حج یا عمرہ کرنے والے کا آخری کام بیت اللہ (کعبہ) کا طواف ہونا چاہئے​


946- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَانِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: "مَنْ حَجَّ هَذَا الْبَيْتَ أَوْ اعْتَمَرَ فَلْيَكُنْ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبَيْتِ". فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: خَرَرْتَ مِنْ يَدَيْكَ. سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ وَلَمْ تُخْبِرْنَا بِهِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ أَوْسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أرْطَاةَ مِثْلَ هَذَا. وَقَدْ خُولِفَ الْحَجَّاجُ فِي بَعْضِ هَذَا الإِسْنَادِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۷۸) وانظر حم (۳/۴۱۶-۴۱۷) (منکر)
(اس لفظ سے منکر ہے، لیکن اس کا معنی دوسرے طرق سے صحیح ہے،اور ''أواعتمر'' کالفظ ثابت نہیں ہے، سند میں ''عبدالرحمن بن بیلمانی ضعیف ہیں ، اورحجاج بن ارطاۃ مدلس ہیں اورعنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)
۹۴۶- حارث بن عبداللہ بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو فرماتے سنا: ''جس نے اس گھر (بیت اللہ) کا حج یاعمرہ کیا تو چاہئے کہ اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف ہو ۔ تو ان سے عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم اپنے ہاتھوں کے بل زمین پرگرو یعنی ہلاک ہو،تم نے یہ بات رسول اللہﷺ سے سنی اور ہمیں نہیں بتائی'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- حارث بن عبداللہ بن اوس رضی اللہ عنہ کی حدیث غریب ہے، اسی طرح دوسرے اورلوگوں نے بھی حجاج بن ارطاۃ سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ اوراس سند کے بعض حصہ کے سلسلہ میں حجاج سے اختلاف کیا گیا ہے،۲- اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ طواف وداع واجب ہے یہی اکثرعلماء کا قول ہے، وہ اس کے ترک سے دم کولازم قراردیتے ہیں،امام مالک، داوداورابن المنذرکہتے ہیں کہ یہ سنت ہے اوراس کے ترک سے کوئی چیزلازم نہیں آتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
102-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْقَارِنَ يَطُوفُ طَوَافًا وَاحِدًا
۱۰۲-باب: قارن کے ایک ہی طواف کرنے کا بیان​


947- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَرَنَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ. فَطَافَ لَهُمَا طَوَافًا وَاحِدًا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ . وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. قَالُوا: الْقَارِنُ يَطُوفُ طَوَافًا وَاحِدًا. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ: يَطُوفُ طَوَافَيْنِ، وَيَسْعَى سَعْيَيْنِ. وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۶۷۷) (صحیح)
( سند میں حجاج بن ارطاۃاورابوالزبیردونوں مدلس راوی ہیں اورروایت عنعنہ سے ہے، لیکن متابعات کی بناپر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
۹۴۷- جابر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حج اور عمرہ دونوں کو ملاکرایک ساتھ کیا اور ان کے لیے ایک ہی طواف کیا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ حج قران کرنے والا ایک ہی طواف کرے گا۔ یہی شافعی ،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قو ل ہے،۴- اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کاکہناہے کہ وہ دوطواف اور دوسعی کرے گا۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے جمہورنے استدلال کیا ہے جوکہتے ہیں کہ قارن کے لیے ایک ہی طواف کافی ہے ۔ اور اس سے مراد ''طواف بین الصفا والمروۃ'' یعنی سعی ہے نہ کہ خانہ ٔ کعبہ کا طواف، کیوں کہ نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع میں عمرہ میں بھی خانہ ٔ کعبہ کا طواف کیا، اور یوم النحر کو طواف افاضہ بھی کیا، البتہ طواف افاضہ میں صفا ومروہ کی سعی نہیں کی۔ (دیکھیے صحیح مسلم کتاب الحج باب رقم : ۱۹)


948- حَدَّثَنَا خَلاَّدُ بْنُ أَسْلَمَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ أَحْرَمَ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ أَجْزَأَهُ طَوَافٌ وَاحِدٌ وَسَعْيٌ وَاحِدٌ عَنْهُمَا، حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ. تَفَرَّدَ بِهِ الدَّرَاوَرْدِيُّ عَلَى ذَلِكَ اللَّفْظِ وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ وَلَمْ يَرْفَعُوهُ. وَهُوَ أَصَحُّ.
* تخريج: ق/المناسک ۳۹ (۲۹۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۸۰۲۹) (صحیح)
۹۴۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جس نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا اس کے لیے ایک طواف اور ایک سعی کافی ہے یہاں تک کہ وہ ان دونوں کا احرام کھول دے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اسے ان الفاظ کے ساتھ روایت کرنے میں عبدالعزیز دراوردی منفرد ہیں، اسے دوسرے کئی اور لوگوں نے بھی عبیداللہ بن عمر (العمری) سے روایت کیا ہے،لیکن ان لوگوں نے اسے مرفوع نہیں کیاہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
103-بَاب مَا جَاءَ أَنْ يَمْكُثَ الْمُهَاجِرُ بِمَكَّةَ بَعْدَ الصَّدْرِ ثَلاَثًا
۱۰۳-باب: منی سے لوٹنے کے بعد مکہ اورقریش کے مہاجرین کے لیے مکہ میں تین دن ٹھہرنے کی اجازت کا بیان​


949- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ سَمِعَ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ، عَنْ الْعَلاَئِ بْنِ الْحَضْرَمِيِّ يَعْنِي مَرْفُوعًا، قَالَ: "يَمْكُثُ الْمُهَاجِرُ بَعْدَ قَضَائِ نُسُكِهِ بِمَكَّةَ ثَلاَثًا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ بِهَذَا الإِسْنَادِ مَرْفُوعًا.
* تخريج: خ/مناقب الأنصار ۴۷ (۳۹۳۳)، م/الحج ۸۱ (۱۳۵۲)، د/المناسک ۹۲ (۲۰۲۲)، ن/تقصیر الصلاۃ ۴ (۱۴۵۵)، ق/الإقامۃ ۷۶ (۱۰۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۰۸)، حم (۵/۵۲)، دي/الصلاۃ ۱۸۰ (۱۲۴۷) (صحیح)
۹۴۹- علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ سے مرفوعا ً روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: '' مہاجراپنے حج کے مناسک ادا کرنے کے بعد مکے میں تین دن ٹھہر سکتا ہے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اوراس سندسے اورطرح سے بھی یہ حدیث مرفوعاً روایت کی گئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : پہلے منیٰ سے لوٹنے کے بعدمہاجرین کی مکہ میں اقامت جائز نہیں تھی، بعدمیں اسے جائز کردیا گیا اورتین دن کی تحدید کردی گئی، اس سے زیادہ کی اقامت اس کے لیے جائزنہیں کیونکہ اس نے اس شہرکواللہ کی رضا کے لیے چھوڑدیاہے لہذا اس سے زیادہ وہ وہاںقیام نہ کرے، ورنہ یہ اس کے واپس آجانے کے مشابہ ہوگا۔ (یہ مدینے کے مہاجرین مکہ کے لیے خاص تھا)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
104-بَاب مَا جَاءَ مَا يَقُولُ عِنْدَ الْقُفُولِ مِنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ
۱۰۴-باب: حج یاعمرہ سے لوٹتے وقت پڑھی جانے والی دعا کا بیان​


950- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا قَفَلَ مِنْ غَزْوَةً أَوْ حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ. فَعَلاَ فَدْفَدًا مِنْ الأَرْضِ أَوْ شَرَفًا، كَبَّرَ ثَلاَثًا، ثُمَّ قَالَ: "لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ، تَائِبُونَ، عَابِدُونَ، سَائِحُونَ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ، صَدَقَ اللهُ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ". وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَائِ وَأَنَسٍ وجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الحج ۷۶ (۱۳۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۷۵۳۹) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/العمرۃ ۱۲ (۱۷۹۷)، والجہاد ۱۳۳ (۲۹۹۵)، والمغازي ۲۹ (۴۱۱۶)، والدعوات ۵۲ (۶۳۸۵)، م/الحج ۷۶ (المصدر المذکور)، د/الجہاد ۱۷۰ (۲۷۷۰)، حم (۲/۵، ۱۵، ۲۱، ۳۸، ۶۳، ۱۰۵) من غیر ہذا الوجہ۔
۹۵۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ جب کسی غزوے ، حج یاعمرے سے لوٹتے اور کسی بلند مقام پر چڑھتے تو تین بار اللہ اکبر کہتے ، پھر کہتے : '' لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ . آيِبُونَ، تَائِبُونَ، عَابِدُونَ، سَائِحُونَ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ. صَدَقَ اللهُ وَعْدَهُ. وَنَصَرَ عَبْدَهُ. وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ ''۔( اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ سلطنت اسی کی ہے اورتمام تعریفیں بھی اسی کے لیے ہیں اور وہ ہرچیز پرقادر ہے۔ ہم لوٹنے والے ہیں ،رجوع کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، سیر وسیاحت کرنے والے ہیں، اپنے رب کی تعریف کرنے والے ہیں۔ اللہ نے اپنا وعدہ سچ کردکھایا۔ اپنے بندے کی مدد کی، اور تنہاہی ساری فوجوں کو شکست دے دی)،امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمر رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں براء ، انس اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
105-بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُحْرِمِ يَمُوتُ فِي إِحْرَامِهِ
۱۰۵-باب: محرم حالت احرام میں مرجائے توکیا کیاجائے؟​


951- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ. فَرَأَى رَجُلاً قَدْ سَقَطَ مِنْ بَعِيرِهِ فَوُقِصَ، فَمَاتَ وَهُوَ مُحْرِمٌ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "اغْسِلُوهُ بِمَائٍ وَسِدْرٍ، وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْهِ، وَلاَ تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُهِلُّ أَوْ يُلَبِّي".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ ، وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا مَاتَ الْمُحْرِمُ انْقَطَعَ إِحْرَامُهُ وَيُصْنَعُ بِهِ كَمَا يُصْنَعُ بِغَيْرِ الْمُحْرِمِ.
* تخريج: خ/الجنائز ۲۱ (۱۲۶۸)، وجزاء الصید ۲۰ (۱۸۴۹)، م/الحج ۱۴ (۱۲۰۶)، د/الجنائز ۸۴ (۳۲۲۸)، ن/الجنائز (۱۹۰۵)، والحج ۴۷ (۲۷۱۵)، و۱۰۱ (۱۸۶۱)، ق/المناسک ۸۹ (۳۰۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۵۸۲)، حم (۱/۳۴۶) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/الجنائز ۱۹ (۱۲۶۵)، و۲۰ (۱۲۶۶)، و۲۱ (۱۲۶۷)، وجزاء الصید ۱۳ (۱۸۳۹)، و۲۱ (۱۸۵۱)، م/الحج (المصدرالمذکور)، ن/الحج ۴۷ (۲۷۱۴)، و۹۷ (۲۸۵۶)، و۹۸ (۲۸۵۷)، و۹۹ (۲۸۵۸، ۲۸۵۹)، و۱۰۰ (۲۸۶۰)، حم (۱/۲۱۵، ۲۶۶، ۲۸۶)، دي/المناسک ۳۵ (۱۸۹۴) من غیر ہذا الطریق۔
۹۵۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفرمیں نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھے، آپ نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے اونٹ سے گر پڑا ، اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ مرگیا وہمحرم تھا ،توآپ ﷺ نے فرمایا:'' اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور اسے اس کے انہی (احرام کے ) دونوں کپڑوں میں کفناؤ اور اس کا سر نہ چھپاؤ، اس لیے کہ وہ قیامت کے دن تلبیہ پکارتا ہوااٹھایاجائے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے۔ یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۳- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب محرم مرجاتاہے تواس کا احرام ختم ہوجاتاہے، اور اس کے ساتھ بھی وہی سب کچھ کیاجائے گاجو غیرمحرم کے ساتھ کیاجاتاہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ قول حنفیہ اورمالکیہ کا ہے، ان کی دلیل ابوہریرہ کی حدیث '' إذا مات ابن آدم انقطع عمله ''ہے اورباب کی حدیث کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ ممکن ہے نبی اکرمﷺ کو وحی کے ذریعہ یہ بتادیا گیا ہوکہ یہ شخص مرنے کے بعداپنے احرام ہی کی حالت میں باقی رہے گا، یہ خاص ہے اسی آدمی کے ساتھ، لیکن کیا اس خصوصیت کی کوئی دلیل ہے؟، ایسی فقہ کا کیا فائدہ جو قرآن وسنت کی نصوص کے ہی خلاف ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
106-بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُحْرِمِ يَشْتَكِي عَيْنُهُ فَيَضْمِدُهَا بِالصَّبِرِ
۱۰۶- باب: آنکھ آنے پرمحرم ایلوے کا لیپ کرے​


952- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عُبَيْدِاللهِ بْنِ مَعْمَرٍ اشْتَكَى عَيْنَيْهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ. فَسَأَلَ أَبَانَ بْنَ عُثْمَانَ فَقَالَ: اضْمِدْهُمَا بِالصَّبِرِ. فَإِنِّي سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ يَذْكُرُهَا عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "اضْمِدْهُمَا بِالصَّبِرِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لاَيَرَوْنَ بَأْسًا أَنْ يَتَدَاوَى الْمُحْرِمُ بِدَوَائٍ مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ طِيبٌ.
* تخريج: م/الحج ۱۲ (۱۲۰۴)، د/المناسک ۳۷ (۱۸۳۸)، ن/المناسک ۴۵ (۲۷۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۷۷)، حم (۱/۶۰، ۶۵، ۶۸، ۶۹)، دي/المناسک ۸۳ (۱۹۴۶) (صحیح)
۹۵۲- نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ عمر بن عبید اللہ بن معمر کی آنکھیں دُکھنے لگیں، وہ احرام سے تھے، انہوں نے ابان بن عثمان سے مسئلہ پوچھا، توانہوں نے کہا: ان میں ایلوے کالیپ کرلو، کیونکہ میں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو اس کا ذکر کرتے سناہے، وہ رسول اللہﷺ سے روایت کررہے تھے آپ نے فرمایا:'' ان پرایلوے کا لیپ کرلو'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے،یہ لوگ محرم کے ایسی دوا سے علاج کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے جس میں خوشبونہ ہو۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایلوے، یااس جیسی چیز جس میں خوشبونہ ہو سے آنکھوں میں لیپ لگانا جائزہے، اس پرکوئی فدیہ لازم نہیں ہوگا، رہیں ایسی چیزیں جن میں خوشبوہو تو بوقت ضرورت وحاجت ان سے بھی لیپ کرنادرست ہوگا، لیکن اس پر فدیہ دیناہوگا، علماء کا اس پربھی اتفاق ہے کہ بوقت ضرورت محرم کے لیے آنکھ میں سرمہ لگانا جس میں خوشبونہ ہو جائزہے، اس سے اس پر کوئی فدیہ لازم نہیں آئے گا، البتہ زینت کے لیے سرمہ لگانے کو امام شافعی وغیرہ نے مکروہ کہا ہے، اورایک جماعت نے اس سے منع کیا ہے، امام احمداوراسحاق کی بھی یہی رائے ہے کہ زینت کے لیے سرمہ لگانا درست نہیں۔
 
Top