• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
87-بَاب مِنْهُ
۸۷-باب: حج میں نیابت سے متعلق ایک اور باب​


930- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ الْعُقَيْلِيِّ أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ؛ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ لاَ يَسْتَطِيعُ الْحَجَّ وَلاَ الْعُمْرَةَ وَلاَ الظَّعْنَ . قَالَ: حُجَّ عَنْ أَبِيكَ وَاعْتَمِرْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَإِنَّمَا ذُكِرَتْ الْعُمْرَةُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، أَنْ يَعْتَمِرَ الرَّجُلُ عَنْ غَيْرِهِ. وَأَبُو رَزِينٍ الْعُقَيْلِيُّ اسْمُهُ لَقِيطُ بْنُ عَامِرٍ.
* تخريج: د/الحج ۲۶ (۱۸۱۰)، ن/الحج ۲ (۲۶۲۲)، و۱۰ (۲۶۳۸)، ق/المناسک ۱۰ (۲۹۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۷۳)، حم (۴/۱۰-۱۲) (صحیح)
۹۳۰- ابورزین عقیلی لقیط بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکر عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، وہ حج و عمرہ کرنے اور سوار ہوکرسفرکرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟) آپ نے فرمایا:'' تم اپنے والد کی طرف سے حج اورعمرہ کرلو''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- عمرے کا ذکرصرف اسی حدیث میں مذکورہواہے کہ آدمی غیر کی طرف سے عمرہ کرسکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
88-بَاب مَا جَاءَ فِي الْعُمْرَةِ أَوَاجِبَةٌ هِيَ أَمْ لاَ
۸۸-باب: کیاعمرہ واجب ہے یاواجب نہیں ہے؟​


931- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ عَنْ الْعُمْرَةِ أَوَاجِبَةٌ هِيَ قَالَ: لاَ وَأَنْ تَعْتَمِرُوا هُوَ أَفْضَلُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. قَالُوا: الْعُمْرَةُ لَيْسَتْ بِوَاجِبَةٍ. وَكَانَ يُقَالُ هُمَا حَجَّانِ: الْحَجُّ الأَكْبَرُ يَوْمُ النَّحْرِ، وَالْحَجُّ الأَصْغَرُ الْعُمْرَةُ. وَ قَالَ الشَّافِعِيُّ: الْعُمْرَةُ سُنَّةٌ. لاَ نَعْلَمُ أَحَدًا رَخَّصَ فِي تَرْكِهَا. وَلَيْسَ فِيهَا شَيْئٌ ثَابِتٌ بِأَنَّهَا تَطَوُّعٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِإِسْنَادٍ وَهُوَ ضَعِيفٌ، لاَ تَقُومُ بِمِثْلِهِ الْحُجَّةُ. وَقَدْ بَلَغَنَا عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ كَانَ يُوجِبُهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: كُلُّهُ كَلاَمُ الشَّافِعِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۰۱۱) (ضعیف الإسناد)
(سند حجاج بن ارطاۃ کثیرالارسال والتدلیس ہیں)
۹۳۱- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے عمرے کے بارے میں پوچھا گیا: کیا یہ واجب ہے؟ آپ نے فرمایا:''نہیں، لیکن عمرہ کرنا بہتر ہے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اوریہی بعض اہل علم کا قول ہے، وہ کہتے ہیں کہ عمرہ واجب نہیں ہے،۳- اوریہ بھی کہاجاتاہے کہ حج دو ہیں: ایک حج اکبر ہے جو یوم نحر (دسویں ذی الحجہ کو) ہوتاہے اور دوسرا حج اصغرہے جسے عمرہ کہتے ہیں، ۴- شافعی کہتے ہیں: عمرہ (کاوجوب) سنت سے ثابت ہے، ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے اسے چھوڑنے کی اجازت دی ہو۔ اور اس کے نفل ہونے کے سلسلے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے۔ نبی اکرمﷺ سے جس سند سے (نفل ہونا) مروی ہے وہ ضعیف ہے۔اس جیسی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی ، اور ہم تک یہ بات بھی پہنچی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہا اسے واجب قرار دیتے تھے۔یہ سب شافعی کا کلام ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے حنفیہ اورمالکیہ نے اس با ت پر استدلال کیا ہے کہ عمرہ واجب نہیں ہے، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے لائق استدلال نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
89-بَاب مِنْهُ
۸۹-باب: حج سے متعلق ایک اور باب​


932- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِاللهِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ جُعْشُمٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ أَنْ لاَ بَأْسَ بِالْعُمْرَةِ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ. وَهَكَذَا فَسَّرَهُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ كَانُوا لاَ يَعْتَمِرُونَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ. فَلَمَّا جَاءَ الإِسْلاَمُ رَخَّصَ النَّبِيُّ ﷺ فِي ذَلِكَ فَقَالَ: دَخَلَتْ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ. يَعْنِي لاَ بَأْسَ بِالْعُمْرَةِ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ ، وَأَشْهُرُ الْحَجِّ: شَوَّالٌ وَذُو الْقَعْدَةِ وَعَشْرٌ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، لاَيَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يُهِلَّ بِالْحَجِّ إِلاَّ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ، وَأَشْهُرُ الْحُرُمِ: رَجَبٌ وَذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ. هَكَذَا قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۴۳۰۱) (صحیح)
( سند میں یزید بن ابی زیادضعیف ہیں،لیکن متابعات وشواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
وأخرجہ کل من : م/الحج ۳۱ (۱۲۴۱)، د/المناسک ۲۳ (۱۷۹۰)، ن/الحج ۷۷ (۱۸۱۷)، حم (۱/۲۳۶، ۲۵۳، ۲۵۹، ۳۴۱)، دي/المناسک ۱۸ (۱۸۹۸)، من غیر ہذا الطریق، وأصلہ عند : خ/تقصیر الصلاۃ ۳ (۱۰۸۵)، والحج ۲۳ (۱۵۴۵)، و۳۴ (۱۵۶۴)، والشرکۃ ۱۵ (۲۵۰۵)، ومناقب الأنصار ۲۶ (۳۸۳۲)
۹۳۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہوچکاہے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں سراقہ بن جعشم اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ،۳- اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہی تشریح شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے بھی کی ہے کہ جاہلیت کے لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ نہیں کرتے تھے، جب اسلام آیا تو نبی اکرمﷺ نے اس کی اجازت دے دی اور فرمایا:'' عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہوچکا ہے''، یعنی حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اشہر حج شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ہیں''، کسی شخص کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ حج کے مہینوں کے علاوہ کسی اورمہینے میں حج کا احرام باندھے، اور حرمت والے مہینے یہ ہیں: رجب ، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم اسی کے قائل ہیں ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مگرحرمت والے مہینوں کا حج کے لیے احرام باندھنے سے کوئی تعلق نہیں ہے ، امام رحمہ اللہ نے ان کا ذکرصرف وضاحت کے لیے کیا ہے تاکہ دونوں خلط ملط نہ جائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
90-بَاب مَا ذُكِرَ فِي فَضْلِ الْعُمْرَةِ
۹۰-باب: عمرہ کی فضیلت کا بیان​


933- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ تُكَفِّرُ مَا بَيْنَهُمَا. وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَائٌ إِلاَّ الْجَنَّةُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الحج ۷۹ (۱۳۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۵۶)، حم (۲/۲۴۶، ۴۶۱) (صحیح)
وأخرجہ کل من: خ/العمرۃ (۱۷۷۳)، م/الحج (المصدرالمذکور) ن/الحج ۳ (۲۶۲۳)، و۵ (۲۶۳۰)، ق/المناسک ۳ (۲۸۸۸)، ط/الحج ۲۱ (۶۵)، حم (۲/۲۶۲)، دي/المناسک ۷ (۱۸۰۲)، من غیر ہذا الطریق۔
۹۳۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' ایک عمرے کے بعد دوسرا عمرہ درمیان کے تمام گناہ مٹادیتاہے ۱؎ اور حج مقبول ۲؎ کا بدلہ جنت ہی ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : مرادصغائر(چھوٹے گناہ) ہیں نہ کہ کبائر(بڑے گناہ)کیونکہ کبائربغیرتوبہ کے معاف نہیں ہوتے۔
وضاحت ۲؎ : حج مقبول وہ حج ہے جس میں کسی گناہ کی ملاوٹ نہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
91-بَاب مَا جَاءَ فِي الْعُمْرَةِ مِنَ التَّنْعِيمِ
۹۱-باب: (حدود حرم سے باہر) مقام تنعیم سے عمرہ کرنے کا بیان​


934- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ أَنْ يُعْمِرَ عَائِشَةَ مِنْ التَّنْعِيمِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/العمرۃ ۶ (۱۷۸۴)، والجہاد ۱۲۴ (۲۹۸۵)، م/الحج ۱۷ (۱۲۱۲)، ق/المناسک ۴۸ (۲۹۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۸۷) (صحیح)
۹۳۴- عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکر مﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو تنعیم ۱؎ سے عمرہ کرائیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : تنعیم مکہ سے باہرایک معروف جگہ کا نام ہے جو مدینہ کی جہت میں مکہ سے چارمیل کی دوری پر ہے، عمرہ کے لیے اہل مکہ کی میقات حل (حرم مکہ سے باہرکی جگہ) ہے، اورتنعیم چونکہ سب سے قریبی حِل ہے اس لیے آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کوتنعیم سے احرام باندھنے کا حکم دیا۔ اور یہ عمرہ ان کے لیے اس عمرے کے بدلے میں تھا جو وہ حج سے قبل حیض آجانے کی وجہ سے نہیں کرسکی تھیں، اس سے حج کے بعد عمرہ پر عمرہ کرنے کی موجودہ چلن پر دلیل نہیں پکڑی جاسکتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
92-بَاب مَا جَاءَ فِي الْعُمْرَةِ مِنَ الْجِعِرَّانَةِ
۹۲-باب: نبی اکرمﷺ کے عمرۂ جعرانہ کا بیان​


935- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ مُزَاحِمِ بْنِ أَبِي مُزَاحِمٍ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ مُحَرِّشٍ الْكَعْبِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ خَرَجَ مِنَ الْجِعِرَّانَةِ لَيْلاً مُعْتَمِرًا. فَدَخَلَ مَكَّةَ لَيْلاً فَقَضَى عُمْرَتَهُ. ثُمَّ خَرَجَ مِنْ لَيْلَتِهِ فَأَصْبَحَ بِالْجِعِرَّانَةِ كَبَائِتٍ. فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ مِنَ الْغَدِ، خَرَجَ مِنْ بَطْنِ سَرِفَ. حَتَّى جَاءَ مَعَ الطَّرِيقِ، طَرِيقِ جَمْعٍ بِبَطْنِ سَرِفَ. فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ خَفِيَتْ عُمْرَتُهُ عَلَى النَّاسِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَلاَ نَعْرِفُ لِمُحَرِّشٍ الْكَعْبِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ . وَيُقَالُ جَاءَ مَعَ الطَّرِيقِ مَوْصُولٌ.
* تخريج: د/الحج ۸۱ (۱۹۹۶)، ن/الحج ۱۰۴ (۲۸۶۶، ۲۸۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۲۰)، حم (۳/۴۲۶)، دي/المناسک ۴۱ (۱۹۰۳) (صحیح)
۹۳۵- محرش کعبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جعرانہ سے رات کو عمرے کی نیت سے نکلے اور رات ہی میں مکے میں داخل ہوئے ،آپ نے اپنا عمرہ پورا کیا، پھر اسی رات (مکہ سے)نکل پڑے اورآپ نے واپس جعرانہ ۱؎ میں صبح کی، گویا آپ نے وہیں رات گزاری ہو، اور جب دوسرے دن سورج ڈھل گیاتوآپ وادی سرف ۲؎ سے نکلے یہاں تک کہ اس راستے پر آئے جس سے وادی سرف والاراستہ آکرمل جاتا ہے ۔اسی وجہ سے(بہت سے) لوگوں سے آپ کا عمرہ پوشیدہ رہا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ہم اس حدیث کے علاوہ محرش کعبی کی کوئی اورحدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہواور کہاجاتاہے :'' جاء مع الطريق'' والاٹکڑاموصول ہے۔
وضاحت ۱؎ : مکہ اورطائف کے درمیان ایک جگہ کانام ہے۔
وضاحت ۲؎ : مکہ سے تین میل کی دوری پرایک جگہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
93-بَاب مَا جَاءَ فِي عُمْرَةِ رَجَبٍ
۹۳-باب: رجب کے عمرے کا بیان​


936- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عُرْوَةَ قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ: فِي أَيِّ شَهْرٍ اعْتَمَرَ رَسُولُ اللهِ ﷺ؟ فَقَالَ: فِي رَجَبٍ. فَقَالَتْ عَائِشَةُ: مَا اعْتَمَرَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِلاَّ وَهُوَ مَعَهُ تَعْنِي ابْنَ عُمَرَ وَمَا اعْتَمَرَ فِي شَهْرِ رَجَبٍ قَطُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ.
* تخريج: ق/المناسک ۳۷ (۲۹۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۷۳)، وراجع ما عند خ/العمرۃ ۳ (۱۷۷۶)، م/الحج ۳۵ (۱۲۵۵، ۱۲۹) (صحیح)
۹۳۶- عروہ کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہا سے پوچھاگیا : رسول اللہﷺ نے کس مہینے میں عمرہ کیاتھا؟ توانہوں نے کہا: رجب میں،اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:رسول اللہﷺ نے جو بھی عمرہ کیا ، اس میں وہ یعنی ابن عمر آپ کے ساتھ تھے، آپ نے رجب کے مہینے میں کبھی بھی عمرہ نہیں کیا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ جبیب بن ابی ثابت نے عروہ بن زبیر سے نہیں سنا ہے۔
وضاحت ۱؎ : مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ابن عمرعائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ بات سن کر خاموش رہے، کچھ نہیں بولے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ ان پرمشتبہ تھا،یا تو وہ بھول گئے تھے، یا انہیں شک ہوگیا تھا، اسی وجہ سے ام المومنین کی بات کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، اس سلسلہ میں صحیح بات ام المومنین کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے رجب میں کوئی عمرہ نہیں کیا۔


937- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اعْتَمَرَ أَرْبَعًا، إِحْدَاهُنَّ فِي رَجَبٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ (بہذا السیاق) المؤلف، وراجع ما عند : خ/العمرۃ ۳ (۱۷۷۵)، م/الحج ۱۳۵ (۱۲۵۵، ۲۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۸۴) (صحیح)
۹۳۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے چار عمرے کیے ، ان میں سے ایک رجب میں تھا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : ترمذی نے یہ حدیث مختصراً روایت کی ہے شیخین نے اسے جریرعن منصورعن مجاہدکے طریق سے مفصلاً روایت کی ہے صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں''قال: دخلت أنا وعروۃ بن الزبیرالمسجد فإذا عبداللہ بن عمرجالس إلی حجرۃ عائشۃ، وإذا ناس یصلون فی المسجد صلاۃ الضحیٰ، قال: فسألناہ عن صلاتہم فقال: بدعۃ، ثم قال لہ: کم اعتمرالنبیﷺ قال: اربع احداہن فی رجب، فکرہناأن نردّعلیہ وقال: سمعنااستنان عائشۃ أم المومنین فی الحجرۃ فقال عروۃ: یا أم المومنین! ألاتسمعین ما یقول ابوعبدالرحمن؟ قالت: مایقول؟ قال: یقول: أن رسول اللہﷺ اعتمر أربع عمرات إحداہن فی رجب، قالت: -یرحمہ اللہ اباعبدالرحمن- مااعتمر عمرۃ إلا وہو شاہد، وما اعتمرفی رجب قط''۔(مجاہدکہتے ہیں کہ میں اورعروہ بن زبیرمسجدنبوی میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کو عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے پاس بیٹھاپایا، لوگ مسجد میں صلاۃ الضحی (چاشت کی صلاۃ) پڑھ رہے تھے ، ہم نے ابن عمر رضی اللہ عنہا سے ان لوگوں کی صلاۃ کے بارے میں پوچھا ، فرمایا: یہ بدعت ہے ، پھرمجاہد نے ان سے پوچھانبی اکرمﷺ نے کتنے عمرے کئے تھے ؟ کہا: چارعمرے ایک ماہ رجب میں تھا، ہم نے یہ ناپسند کیا کہ ان کی تردید کریں، ہم نے ام المومنین عائشہ کی حجرے میں آواز سنی تو عروہ نے کہا : ام المومنین ابوعبدالرحمن ابن عمرجوکہہ رہے ہیں کیا آپ اسے سن رہی ہیں؟ کہا: کیا کہہ رہے ہیں ، کہا کہہ رہے کہ رسول اللہﷺ نے چارعمرے کئے ایک رجب میں تھافرمایا: ابوعبدالرحمن ابن عمرپراپنا رحم فرماتے، رسول اللہﷺ کے ہرعمرہ میں وہ حاضرتھے (پھر بھی یہ بات کہہ رہے ہیں) آپ نے رجب میں ہرگزعمرہ نہیں کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
94-بَاب مَا جَاءَ فِي عُمْرَةِ ذِي الْقَعْدَةِ
۹۴-باب: نبی اکرمﷺ کے ذی قعدہ والے عمرے کا بیان​


938- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ-هُوَ السَّلُولِيُّ الْكُوفِيُّ- عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَائِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اعْتَمَرَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: خ/جزاء الصید ۱۷ (۱۸۴۴)، والصلح ۶ (۲۶۹۹)، والمغازي ۴۳ (۴۲۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۳) (صحیح) وأخرجہ خ/العمرۃ ۳ (۱۷۸۱) من غیر ہذا الوجہ۔
۹۳۸- براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ذی قعدہ کے مہینہ میں عمرہ کیا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : بخاری کی ایک روایت میں ہے '' اعتمر رسول الله ﷺ في ذي القعدة قبل أن يحج مرتين''۔ نبی اکرمﷺ نے حج سے پہلے آپ نے ذوقعدہ میں دومرتبہ عمرہ کیا)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
95-بَاب مَا جَاءَ فِي عُمْرَةِ رَمَضَانَ
۹۵-باب: رمضان میں عمرہ کی فضلیت کا بیان​


939- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ أُمِّ مَعْقِلٍ، عَنْ أُمِّ مَعْقِلٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "عُمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّةً". وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ، وَوَهْبِ بْنِ خَنْبَشٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَيُقَالُ هَرِمُ بْنُ خَنْبَشٍ. قَالَ بَيَانٌ وَجَابِرٌ: عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ وَهْبِ بْنِ خَنْبَشٍ. وَ قَالَ دَاوُدُ الأَوْدِيُّ: عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ هَرِمُ بْنِ خَنْبَشٍ. وَوَهْبٌ أَصَحُّ. وَحَدِيثُ أُمِّ مَعْقِلٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ: قَدْ ثَبَتَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ عُمْرَةً فِي رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّةً. قَالَ إِسْحَاقُ: مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ مِثْلُ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: مَنْ قَرَأَ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ فَقَدْ قَرَأَ ثُلُثَ الْقُرْآنِ.
* تخريج: ق/المناسک ۴۵ (۲۹۹۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۶۰) (صحیح)
۹۳۹- ام معقل رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' رمضان کا عمرہ ایک حج کے برابر ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام معقل کی حدیث اس سندسے حسن غریب ہے،۲- (وہب کے بجائے) ھرم بن خنبش بھی کہاجاتاہے۔بیان اور جابرنے یوں کہاہے'' عن الشعبي عن وهب بن خنبش'' اور داود اودی نے یوں کہا ہے ''عن الشعبي عن هرم بن خنبش'' لیکن صحیح وہب بن خنبش ہی ہے،۳- اس باب میں ابن عباس ، جابر، ابوہریرہ، انس اور وہب بن خنبش رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے کہ رمضان کا عمرہ حج کے ثواب برابر ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مفہوم بھی اس حدیث کے مفہوم کی طرح ہے جونبی اکرمﷺ سے روایت کی گئی ہے کہ جس نے سورۂ ''قل هو الله أحد'' پڑھی اس نے تہائی قرآن پڑھا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی مطلب یہ نہیں ہے کہ ہراعتبارسے عمرہ حج کے برابرہے، بلکہ صرف اجروثواب میں حج کے برابرہے، ایسانہیں کہ اس سے فریضہء حج ادا ہوجائے گا، یانذرماناہواحج پوراہوجائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
96-بَاب مَا جَاءَ فِي الَّذِي يُهِلُّ بِالْحَجِّ فَيُكْسَرُ أَوْ يَعْرَجُ
۹۶-باب: جوحج کا تلبیہ پکاررہا ہو پھر اس کا کوئی عضوٹوٹ جائے یا وہ لنگڑا ہوجائے تو کیا کرے؟​


940- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ الصَّوَّافُ. حَدَّثَنَا يَحْيَى ابْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَجَّاجُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ كُسِرَ أَوْ عَرِجَ فَقَدْ حَلَّ وَعَلَيْهِ حَجَّةٌ أُخْرَى".
فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لأَبِي هُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالاَ: صَدَقَ. حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ. أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللهِ الأَنْصَارِيُّ عَنْ الْحَجَّاجِ، مِثْلَهُ. قَالَ: وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. هَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْحَجَّاجِ الصَّوَّافِ، نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ. وَرَوَى مَعْمَرٌ وَمُعَاوِيَةُ بْنُ سَلاَّمٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ رَافِعٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ هَذَا الْحَدِيثَ. وَحَجَّاجٌ الصَّوَّافُ لَمْ يَذْكُرْ فِي حَدِيثِهِ عَبْدَ اللهِ بْنَ رَافِعٍ. وَحَجَّاجٌ ثِقَةٌ حَافِظٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ. و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: رِوَايَةُ مَعْمَرٍ وَمُعَاوِيَةَ بْنِ سَلاَّمٍ أَصَحُّ.
* تخريج: د/الحج ۴۴ (۱۸۶۲)، ن/الحج ۱۰۲ (۲۸۶۳)، ق/المناسک ۸۵ (۳۰۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۹۴)، حم (۳/۴۵۰) (صحیح)
940/م- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۹۴۰- حجاج بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :''جس کا کوئی عضوٹوٹ جائے یاوہ لنگڑا ہوجائے تو اس کے لیے احرام کھول دینادرست ہے، اس پر دوسراحج لازم ہوگا'' ۱؎ ۔
میں نے اس کا ذکر ابوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے کیا تو ان دونوں نے کہا کہ انہوں نے (حجاج) سچ کہا۔
اسحاق بن منصورکی سند بھی حجاج رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل روایت ہے البتہ اس میں ''عن الحجاج بن عمرو قال : قال رسول الله ﷺ'' کے بجائے ''سمعت ﷺ''کے الفاظ ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسی طرح کئی اور لوگوں نے بھی حجاج الصواف سے اسی طرح روایت کی ہے،۳- معمر اور معاویہ بن سلام نے بھی یہ حدیث بطریق: ''يحيى بن أبي كثير، عن عكرمة، عن عبد الله بن رافع، عن الحجاج بن عمرو، عن النبي ﷺ '' روایت کی ہے، ۴-اور حجاج الصواف نے اپنی روایت میں عبداللہ بن رافع کا ذکر نہیں کیاہے، حجاج الصواف محدثین کے نزدیک ثقہ اور حافظ ہیں، ۵- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سناکہ معمر اور معاویہ بن سلام کی روایت سب سے زیادہ صحیح ہے، ۶- عبدالرزاق نے بسندمعمر عن یحییٰ بن ابی کثیر عن عکرمہ عن عبداللہ بن رافع عن حجاج بن عمرو عن النبی ﷺ اسی طرح روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : ابوداود کی ایک روایت میں ''مِنْ قَابِلٍ'' کا اضافہ ہے، یعنی اگلے سال وہ اس حج کی قضاکرے گا، خطابی کہتے ہیں: یہ اس شخص کے لیے ہے جس کا یہ حج فرض حج رہا ہو، لیکن نفلی حج کرنے والا اگرروک دیا جائے تو اس پر قضانہیں، یہی مالک اورشافعی کا قول ہے، جب کہ امام ابوحنیفہ اوران کے اصحاب کا کہنا ہے کہ اس پر حج اورعمرہ دونوں لازم ہوگا، امام نخعی کا بھی قول یہی ہے ۔
 
Top