• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
107-بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُحْرِمِ يَحْلِقُ رَأْسَهُ فِي إِحْرَامِهِ مَا عَلَيْهِ
۱۰۷- باب: محرم حالت احرام میں سرمنڈوالے تواس پر کیاتاوان ہوگا ؟​


953- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، وَابْنِ أَبِي نَجِيحٍ وَحُمَيْدٍ الأَعْرَجِ وَعَبْدِالْكَرِيمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّ بِهِ وَهُوَ بِالْحُدَيْبِيَةِ، قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ مَكَّةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ، وَهُوَ يُوقِدُ تَحْتَ قِدْرٍ، وَالْقَمْلُ يَتَهَافَتُ عَلَى وَجْهِهِ، فَقَالَ: أَتُؤْذِيكَ هَوَامُّكَ هَذِهِ؟ فَقَالَ: نَعَمْ فَقَالَ: احْلِقْ وَأَطْعِمْ فَرَقًا بَيْنَ سِتَّةِ مَسَاكِينَ. وَالْفَرَقُ ثَلاَثَةُ آصُعٍ "أَوْ صُمْ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ، أَوْ انْسُكْ نَسِيكَةً" قَالَ ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ: "أَوْ اذْبَحْ شَاةً".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ الْمُحْرِمَ إِذَا حَلَقَ رَأْسَهُ، أَوْ لَبِسَ مِنْ الثِّيَابِ مَا لاَ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَلْبَسَ فِي إِحْرَامِهِ، أَوْ تَطَيَّبَ، فَعَلَيْهِ الْكَفَّارَةُ، بِمِثْلِ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: خ/المحصر (۱۸۱۴)، و۶ (۱۸۱۵)، و۷ (۱۸۱۶)، و۸ (۱۸۱۷)، والمغازي ۳۵ (۴۱۵۹، ۴۱۹۰)، وتفسیر البقرۃ ۳۲ (۴۵۱۷)، والمرضی ۱۶ (۵۶۶۵)، والطب ۱۶ (۵۷۰۳)، والکفارات ۱ (۶۸۰۸)، م/الحج ۱۰ (۱۲۰۱)، د/المناسک ۴۳ (۱۸۵۶)، ن/المناسک ۹۶ (۲۸۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۱۴)، ط/الحج ۷۸ (۲۳۸)، حم (۴/۲۴۲، ۲۴۳) (صحیح) وأخرجہ کل من : م/الحج ۱۰ (المصدر المذکور)، ق/المناسک ۸۶ (۳۰۷۹)، حم (۴/۲۴۲، ۲۴۳) من غیر ہذا الوجہ۔
۹۵۳- کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ان کے پاس سے گزرے ، وہ حدیبیہ میں تھے ،احرام باندھے ہوئے تھے۔ اورایک ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہے تھے۔ جوئیں ان کے منہ پر گررہی تھیں تو آپ نے پوچھا: کیا یہ جوئیں تمہیں تکلیف پہنچارہی ہیں؟ کہا: ہاں، آپ نے فرمایا:'' سرمنڈوالو اور چھ مسکینوں کو ایک فرق کھانا کھلادو، (فرق تین صاع کا ہوتا ہے) یا تین دن کے صیام رکھ لو۔یا ایک جانور قربان کردو۔ ابن ابی نجیح کی روایت میں ہے ''یا ایک بکری ذبح کردو''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وغیرہم میں سے بعض اہل علم کااسی پرعمل ہے کہ محرم جب اپنا سرمونڈالے ، یا ایسے کپڑے پہن لے جن کا پہننا احرام میں درست نہیں یا خوشبو لگالے۔ تو اس پر اسی کے مثل کفارہ ہوگا جو نبی اکرمﷺ سے مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
108-بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ لِلرِّعَائِ أَنْ يَرْمُوا يَوْمًا وَيَدَعُوا يَوْمًا
۱۰۸- باب: چرواہوں کو ایک دن چھوڑ کرایک دن جمرات کی رمی کرنے کی رخصت ہے​


954- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الْبَدَّاحِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَرْخَصَ لِلرِّعَائِ أَنْ يَرْمُوا يَوْمًا وَيَدَعُوا يَوْمًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى ابْنُ عُيَيْنَةَ. وَرَوَى مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الْبَدَّاحِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ عَنْ أَبِيهِ. وَرِوَايَةُ مَالِكٍ أَصَحُّ. وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ لِلرِّعَائِ أَنْ يَرْمُوا يَوْمًا، وَيَدَعُوا يَوْمًا، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
* تخريج: د/الحج ۷۸ (۱۹۷۵)، ن/الحج ۲۲۵ (۳۰۷۱)، ق/المناسک ۶۷ (۳۰۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۳۰)، حم (۵/۴۵۰)، دي/المناسک ۵۸ (۱۹۳۸) (صحیح)
۹۵۴- عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے چرواہوں کو رخصت دی کہ ایک دن رمی کریں اور ایک دن چھوڑدیں ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اسی طرح ابن عیینہ نے بھی روایت کی ہے، اورمالک بن انس نے بسندعبداللہ بن ابی بکرعن أبیہ عن ابی البداح بن عاصم بن عدیعن أبیہ عاصم روایت کی ہے، اورمالک کی روایت زیادہ صحیح ہے، ۲- اہل علم کی ایک جماعت نے چرواہوں کو رخصت دی ہے کہ وہ ایک دن رمی کریں اور ایک دن ترک کردیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی چرواہوں کے لیے جائزہے کہ وہ ایّام تشریق کے پہلے دن گیارہویں کی رمی کریں پھروہ اپنے اونٹوں کو چرانے چلے جائیں پھرتیسرے دن یعنی تیرہویں کو دوسرے اورتیسرے یعنی بارہویں اورتیرہویں دونوں دنوں کی رمی کریں، اس کی دوسری تفسیریہ ہے کہ وہ یوم النحرکوجمرئہ عقبہ کی رمی کریں پھراس کے بعدوالے دن گیارہویں اوربارہویں دونوں دنوں کی رمی کریں اورپھرروانگی کے دن تیرہویں کی رمی کریں۔


955- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُاللهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الْبَدَّاحِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: رَخَّصَ رَسُولُ اللهِ ﷺ لِرِعَائِ الإِبِلِ، فِي الْبَيْتُوتَةِ، أَنْ يَرْمُوا يَوْمَ النَّحْرِ. ثُمَّ يَجْمَعُوا رَمْيَ يَوْمَيْنِ بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ؛ فَيَرْمُونَهُ فِي أَحَدِهِمَا.
قَالَ مَالِكٌ: ظَنَنْتُ أَنَّهُ قَالَ فِي الأَوَّلِ مِنْهُمَا (ثُمَّ يَرْمُونَ يَوْمَ النَّفْرِ). قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۹۵۵- عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اونٹ کے چرواہوں کو (منی میں ) رات گزارنے کے سلسلہ میں رخصت دی کہ وہ دسویں ذی الحجہ کو (جمرئہ عقبہ کی) رمی کرلیں۔ پھر دسویں ذی الحجہ کے بعد کے دو دنوں کی رمی جمع کرکے ایک دن میں اکٹھی کرلیں ۱؎ (مالک کہتے ہیں: میرا گمان ہے کہ راوی نے کہا)''پہلے دن رمی کرلے پھر کوچ کے دن رمی کرے ''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، اوریہ ابن عیینہ کی عبداللہ بن ابی بکر سے روایت والی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس جمع کی دوصورتیں ہیں ایک یہ کہ تیرہویں کو بارہویں اورتیرہویں دونوں دنوں کی رمی ایک ساتھ کریں، دوسری صورت یہ ہے کہ گیارہویں کو گیارہویں اوربارہویں دونوں دنوں کی رمی ایک ساتھ کریں پھرتیرہویں کو آکررمی کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
109-باب
۱۰۹- باب: حج سے متعلق ایک اورباب​


956- حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ بْنُ عَبْدِالصَّمَدِ بْنِ عَبْدِالْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا سُلَيْمُ ابْنُ حَيَّانَ، قَال: سَمِعْتُ مَرْوَانَ الأَصْفَرَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عَلِيًّا قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ مِنْ الْيَمَنِ فَقَالَ: بِمَ أَهْلَلْتَ؟ قَالَ: أَهْلَلْتُ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُ اللهِ ﷺ. قَالَ: "لَوْلاَ أَنَّ مَعِي هَدْيًا لأَحْلَلْتُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: خ/الحج ۳۲ (۱۵۵۸)، م/الحج ۳۴ (۱۲۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۵)، حم (۳/۱۸۵) (صحیح)
۹۵۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : علی رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے پاس یمن سے آئے تو آپ نے پوچھا: ''تم نے کیا تلبیہ پکارا، اور کون سا احرام باندھا ہے؟ ''انہوں نے عرض کیا : میں نے وہی تلبیہ پکارا ، اور اسی کا احرام باندھا ہے جس کا تلبیہ رسول اللہﷺ نے پکارا، اورجو احرام رسول اللہﷺ نے باندھا ہے ۱؎ آپ نے فرمایا:'' اگر میرے ساتھ ہدی کے جانور نہ ہوتے تو میں احرام کھول دیتا '' ۲؎ ،امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سندسے حسن صحیح غریب ہے ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے احرام کو دوسرے کے احرام پر معلق کرناجائزہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی: عمرہ کے بعد احرام کھول دیتا، پھر ۸؍ذی الحجہ کو حج کے لیے دوبارہ احرام باندھتا، جیسا کہ حج تمتع میں کیا جاتا ہے، مذکورہ مجبوری کی وجہ سے آپ نے قران ہی کیا، ورنہ تمتع کرتے، اس لیے تمتع افضل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
110-بَاب مَا جَاءَ فِي يَوْمِ الْحَجِّ الأَكْبَرِ
۱۱۰- باب: حج اکبر کے دن کا بیان​


957- حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ بْنُ عَبْدِالصَّمَدِ بْنِ عَبْدِالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنْ يَوْمِ الْحَجِّ الأَكْبَرِ؟ فَقَالَ يَوْمُ النَّحْرِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وأخرجہ في تفسیر التوبۃ أیضا (۳۰۸۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۴۹) (صحیح)
( سند میں حارث اعورسخت ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے )
۹۵۷- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: حج اکبر(بڑے حج) کا دن کون ساہے؟ تو آپ نے فرمایا:'' یوم النحر'' (قربانی کادن)۔


958- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: يَوْمُ الْحَجِّ الأَكْبَرِ يَوْمُ النَّحْرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلَمْ يَرْفَعْهُ. وَهَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الأَوَّلِ. وَرِوَايَةُ ابْنِ عُيَيْنَةَ مَوْقُوفًا، أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، مَرْفُوعًا. هَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْحُفَّاظِ عَنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا. وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنِ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۹۵۸- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حج اکبر(بڑے حج) کادن دسویں ذی الحجہ کادن ہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ا بن ابی عمر نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے اوریہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے اورابن عیینہ کی موقوف روایت محمد بن اسحاق کی مرفوع روایت سے زیادہ صحیح ہے۔ اسی طرح بہت سے حفاظ حدیث نے اسے بسند ابی اسحاق سبیعیعن عبداللہ بن مرہ عنحارثعن علی موقوفاًروایت کیا ہے ، شعبہ نے بھی ابواسحاق سبیعی سے روایت کی ہے انہوں نے یوں کہا ہے ''عن عبدالله بن مره عن الحارث عن علي موقوفا''۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : دسویں تاریخ کو حج اکبر(بڑا حج) اس لیے کہاجاتاہے کہ اسی دن حج کے اکثر افعال انجام دیئے جاتے ہیں، مثلاً جمرئہ عقبہ کی رمی (کنکری مارنا)، حلق(سرمنڈوانا) ، ذبح ، طواف زیارت وغیرہ اعمال حج، اورعوام میں جو یہ مشہورہے کہ حج اکبراس حج کو کہتے ہیں جس میں دسویں تاریخ جمعہ کو آپڑی ہو، تو اس کی کوئی اصل نہیں، رہی طلحہ بن عبیداللہ بن کرز کی روایت '' أفضل الأيام يوم عرفه وإذا وافق يوم جمعة فهو أفضل من سبعين حجة في غير يوم جمعة'' تو یہ مرسل ہے، اوراس کی سندبھی معلوم نہیں، اورحج اصغرسے جمہورعمرہ مرادلیتے ہیں اورایک قول یہ بھی ہے کہ حج اصغریوم عرفہ ہے اورحج اکبریوم النحر۔
وضاحت ۲؎ : یعنی شعبہ والی روایت میں ابواسحاق سبیعی اورحارث کے درمیان عبداللہ بن مرہ کے واسطے کااضافہ ہے جب کہ دیگرحفاظ کی روایت میں ایسانہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
111-بَاب مَا جَاءَ فِي اسْتِلاَمِ الرُّكْنَيْنِ
۱۱۱- باب: حجر اسود اور رکن یمانی کے استلام کا بیان​


959- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ ابْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يُزَاحِمُ عَلَى الرُّكْنَيْنِ زِحَامًا، مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ يَفْعَلُهُ. فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِالرَّحْمَانِ! إِنَّكَ تُزَاحِمُ عَلَى الرُّكْنَيْنِ زِحَامًا مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ يُزَاحِمُ عَلَيْهِ. فَقَالَ: إِنْ أَفْعَلْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "إِنَّ مَسْحَهُمَا كَفَّارَةٌ لِلْخَطَايَا". وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: "مَنْ طَافَ بِهَذَا الْبَيْتِ أُسْبُوعًا فَأَحْصَاهُ كَانَ كَعِتْقِ رَقَبَةٍ". وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: "لاَ يَضَعُ قَدَمًا وَلاَ يَرْفَعُ أُخْرَى إِلاَّ حَطَّ اللهُ عَنْهُ خَطِيئَةً وَكَتَبَ لَهُ بِهَا حَسَنَةً". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ ابْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ نَحْوَهُ. وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ (عَنْ أَبِيهِ). قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۳۱۷) (صحیح)
۹۵۹- عبید بن عمیر کہتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہا حجراسوداوررکن یمانی پرایسی بھیڑلگاتے تھے جو میں نے صحابہ میں سے کسی کو کرتے نہیں دیکھا۔ تومیں نے پوچھا: ابوعبدالرحمن ! آپ دونوں رکن پرایسی بھیڑلگاتے ہیں کہ میں نے صحابہ میں سے کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ توانہوں نے کہا: اگر میں ایساکرتاہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سناہے: '' ان پر ہاتھ پھیر نا گناہوں کا کفارہ ہے۔''اور میں نے آپ کو فرماتے سناہے: '' جس نے اس گھر کاطواف سات مرتبہ (سات چکر) کیا اور اسے گنا، تو یہ ایسے ہی ہے گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا۔'' اور میں نے آپ کو فرماتے سناہے: '' وہ جتنے بھی قدم رکھے اور اٹھائے گا اللہ ہرایک کے بدلے اس کی ایک غلطی معاف کرے گا اورایک نیکی لکھے گا '' ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- حماد بن زید نے بطریق : ''عطا بن السائب، عن ابن عبيد بن عمير، عن ابن عمر'' روایت کی ہے اوراس میں انہوں نے ابن عبیدکے باپ کے واسطے کا ذکرنہیں کیاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
112-بَاب مَا جَاءَ فِي الْكَلاَمِ فِي الطَّوَافِ
۱۱۲- باب: طواف کرتے وقت بات چیت کرنے کا بیان​


960- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "الطَّوَافُ حَوْلَ الْبَيْتِ مِثْلُ الصَّلاَةِ، إِلاَّ أَنَّكُمْ تَتَكَلَّمُونَ فِيهِ، فَمَنْ تَكَلَّمَ فِيهِ فَلاَ يَتَكَلَّمَنَّ إِلاَّ بِخَيْرٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ وَغَيْرُهُ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ مَوْقُوفًا. وَلاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ أَنْ لاَ يَتَكَلَّمَ الرَّجُلُ فِي الطَّوَافِ إِلاَّ لِحَاجَةٍ أَوْ يَذْكُرُ اللهَ تَعَالَى أَوْ مِنْ الْعِلْمِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۷۳۳) (صحیح)
۹۶۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' بیت اللہ کے گرد طواف صلاۃ کے مثل ہے۔ البتہ اس میں تم بول سکتے ہو(جب کہ صلاۃمیں تم بول نہیں سکتے) تو جواس میں بولے وہ زبان سے بھلی بات ہی نکالے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث ابن طاؤس وغیرہ نے ابن عباس سے موقوفاًروایت کی ہے۔ہم اسے صرف عطاء بن سائب کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں،۲- اسی پر اکثر اہل علم کا عمل ہے، یہ لوگ اس بات کو مستحب قرار دیتے ہیں کہ آدمی طواف میں بلاضرورت نہ بولے (اوراگربولے)تواللہ کا ذکرکرے یا پھر علم کی کوئی بات کہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
113-بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَجَرِ الأَسْوَدِ
۱۱۳- باب: حجرِ اسود کا بیان​


961- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي الْحَجَرِ: "وَاللَّهِ! لَيَبْعَثَنَّهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَهُ عَيْنَانِ يُبْصِرُ بِهِمَا وَلِسَانٌ يَنْطِقُ بِهِ. يَشْهَدُ عَلَى مَنْ اسْتَلَمَهُ بِحَقٍّ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: ق/المناسک ۲۷ (۲۷۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۵۳۶)، دي/المناسک ۲۶ (۱۸۸۱) (صحیح)
۹۶۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا:'' اللہ کی قسم! اللہ اسے قیامت کے دن اس حال میں اٹھا ئے گاکہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی، جس سے یہ دیکھے گا، ایک زبان ہوگی جس سے یہ بولے گا۔ اوریہ اس شخص کے ایمان کی گواہی دے گا جس نے حق کے ساتھ (یعنی ایمان اور اجرکی نیت سے ) اس کا استلام کیا ہوگا'' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کو چوما یا چھوا ہوگایہ حدیث اپنے ظاہرہی پرمحمول ہوگی اللہ تعالیٰ اس پر قادرہے کہ وہ حجراسودکو آنکھیں اورزبان دیدے اوردیکھنے اوربولنے کی طاقت بخش دے بعض لوگوں نے اس حدیث کی تاویل کی ہے کہ یہ کنایہ ہے حجراسودکا استلام کرنے والے کو ثواب دینے اوراوراس کی کوشش کو ضائع نہ کر نے سے لیکن یہ محض فلسفیانہ موشگافی ہے، صحیح یہی ہے کہ حدیث کو ظاہرہی پرمحمول کیاجائے ۔اورایساہونے پرایمان لایاجائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
114-باب
۱۱۴- باب: حج سے متعلق ایک اورباب​


962- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَدَّهِنُ بِالزَّيْتِ وَهُوَ مُحْرِمٌ غَيْرِ الْمُقَتَّتِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: الْمُقَتَّتُ : الْمُطَيَّبُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ. وَقَدْ تَكَلَّمَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ فِي فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ وَرَوَى عَنْهُ النَّاسُ.
* تخريج: ق/المناسک ۸۸ (۳۰۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۶۰) (ضعیف الإسناد)
(سند میں فرقد سبخی لین الحدیث اورکثیر الخطاء راوی ہیں) (وأخرجہ خ/الحج۱۸(۱۵۳۷) موقوفا علی ابن عمر وہو أصح)
۹۶۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ حالت احرام میں زیتون کا تیل لگاتے تھے اوریہ (تیل) بغیر خوشبو کے ہوتاتھا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف فرقدسبخی کی روایت سے جانتے ہیں، اورفرقدنے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے۔ یحییٰ بن سعید نے فرقد سبخی کے سلسلے میں کلام کیا ہے، اورفرقدسے لوگوں نے روایت کی ہے،۲- مقتت کے معنی خوشبو دار کے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ محرم کے لیے زیتون کا تیل جس میں خوشبوکی ملاوٹ نہ ہولگاناجائزہے، لیکن حدیث ضعیف ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
115-باب
۱۱۵- باب: حج سے متعلق ایک اور باب​


963- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا خَلاَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامِ ابْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا أَنَّهَا كَانَتْ تَحْمِلُ مِنْ مَائِ زَمْزَمَ. وَتُخْبِرُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ يَحْمِلُهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. لاَنَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۰۵) (صحیح)
(سند میں خلادبن یزید جعفی کے حفظ میں کچھ کلام ہے،لیکن متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے )
۹۶۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ زمزم کا پانی ساتھ مدینہ لے جاتی تھیں، اور بیان کرتی تھیں کہ رسول اللہﷺ بھی زمزم ساتھ لے جاتے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صر ف اسی طریق سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ حاجیوں کے لیے زمزم کا پانی مکہ سے اپنے وطن لے جانا مستحب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
116-باب
۱۱۶- باب: حج سے متعلق ایک اور باب​


964- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْوَزِيرِ الْوَاسِطِيُّ، الْمَعْنَى وَاحِدٌ، قَالاَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الأَزْرَقُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، قَالَ: قُلْتُ لأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: حَدِّثْنِي بِشَيْئٍ عَقَلْتَهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ،أَيْنَ صَلَّى الظُّهْرَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ؟ قَالَ: بِمِنًى، قَالَ: قُلْتُ: فَأَيْنَ صَلَّى الْعَصْرَ يَوْمَ النَّفْرِ؟ قَالَ: بِالأَبْطَحِ، ثُمَّ قَالَ: افْعَلْ كَمَا يَفْعَلُ أُمَرَاؤُكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ إِسْحَاقَ بْنِ يُوسُفَ الأَزْرَقِ عَنْ الثَّوْرِيِّ.
* تخريج: خ/الحج ۸۳ (۱۶۵۳)، و۱۴۶ (۱۷۸۳)، م/الحج ۵۸ (۱۳۰۹)، د/المناسک ۵۹ (۱۹۱۲)، ن/الحج ۱۹۰ (۳۰۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۸)، دي/المناسک ۴۶ (۱۹۱۴) (صحیح)
۹۶۴- عبدالعزیزبن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہا: مجھ سے آپ کوئی ایسی بات بیان کیجیے جو آپ نے رسول اللہﷺ سے یاد کررکھی ہو۔بتائیے آپ نے آٹھویں ذی الحجہ کو ظہر کہاں پڑھی؟انہوں نے کہا: منیٰ میں، (پھر)میں نے پوچھا: اور کوچ کے دن عصر کہاں پڑھی؟کہا: ابطح میں لیکن تم ویسے ہی کرو جیسے تمہارے امراء وحکام کرتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اور اسحاق بن یوسف الازرق کی روایت سے غریب جانی جاتی ہے جسے انہوں نے ثوری سے روایت کی ہے ۔

* * *​
 
Top