• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
77-بَاب مَا جَاءَ فِي الطِّيبِ عِنْدَ الإِحْلاَلِ قَبْلَ الزِّيَارَةِ
۷۷-باب: طواف زیارت سے پہلے احرام کھولتے وقت خوشبو لگانے کا بیان​


917- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ يَعْنِي ابْنَ زَاذَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: طَيَّبْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَبْلَ أَنْ يُحْرِمَ، وَيَوْمَ النَّحْرِ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ، بِطِيبٍ فِيهِ مِسْكٌ.
وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ. يَرَوْنَ أَنَّ الْمُحْرِمَ إِذَا رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ يَوْمَ النَّحْرِ وَذَبَحَ وَحَلَقَ أَوْ قَصَّرَ، فَقَدْ حَلَّ لَهُ كُلُّ شَيْئٍ حَرُمَ عَلَيْهِ إِلاَّ النِّسَائَ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ قَالَ: حَلَّ لَهُ كُلُّ شَيْئٍ إِلاَّ النِّسَائَ وَالطِّيبَ. وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ . وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
* تخريج: م/الحج ۷ (۱۱۸۹)، ن/الحج ۴۱ (۲۶۹۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۲۶) (صحیح) وأخرجہ کل من: خ/الحج ۱۸ (۱۵۳۹)، و۱۴۳ (۱۷۵۴)، واللباس ۷۳ (۵۹۲۲)، و۷۹ (۵۹۲۸)، و۸۱ (۵۹۳۰)، د/المناسک ۱۱ (۱۷۴۵)، ن/الحج ۴۱ (۲۶۸۵-۲۶۹۲)، ق/المناسک ۱۱ (۲۹۲۶)، و۷۰ (۳۰۴۲)، ط/الحج ۷ (۱۷)، حم (۶/۹۸، ۱۰۶، ۱۳۰، ۱۶۲، ۱۸۱، ۱۸۶، ۱۹۲، ۲۰۰، ۲۰۷، ۲۰۹، ۲۱۴، ۲۱۶، ۲۳۷، ۲۳۸، ۲۴۴، ۲۴۵، ۲۵۸)، دي/المناسک (۱۸۴۴) من غیر ہذا الطریق۔
۹۱۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو آپ کے احرام باندھنے سے پہلے اور دسویں ذی الحجہ کو بیت اللہ کا طواف کرنے سے پہلے خوشبو لگائی جس میں مشک تھی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ محرم جب دسویں ذی الحجہ کوجمرہ عقبہ کی رمی کرلے، جانور ذبح کرلے، اور سرمونڈالے یابال کتروالے تو اب اس کے لیے ہروہ چیز حلال ہوگئی جو اس پر حرام تھی سوائے عورتوں کے۔ یہی شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ۴- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس کے لیے ہرچیز حلال ہوگئی سوائے عورتوں اور خوشبو کے،۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، اور یہی کوفہ والوں کابھی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : دسویں تاریخ کوجمرئہ عقبہ کی رمی کے بعد حاجی حلال ہو جاتاہے، اسے تحلل اوّل کہتے ہیں، تحلل اوّل میں عورت کے علاوہ ساری چیزیں حلال ہوجاتی ہیں، اورطواف افاضہ کے بعد عورت بھی حلال ہوجاتی ہے، اب وہ عورت سے صحبت یا بوس وکنار کرسکتا ہے اسے تحلل ثانی کہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
78-بَاب مَا جَاءَ مَتَى تُقْطَعُ التَّلْبِيَةُ فِي الْحَجِّ
۷۸-باب: حج میں تلبیہ پکارنا کب بند کیاجائے؟​


918- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَرْدَفَنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ مِنْ جَمْعٍ إِلَى مِنًى. فَلَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ. وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْفَضْلِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ الْحَاجَّ لاَ يَقْطَعُ التَّلْبِيَةَ حَتَّى يَرْمِيَ الْجَمْرَةَ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: خ/الحج ۱۰۲ (۱۶۸۵)، م/الحج ۴۵ (۱۲۸۱)، د/المناسک ۲۸ (۱۸۱۵)، ن/الحج ۲۱۶ (۳۰۵۷)، و۲۲۸ (۳۰۸۱)، و۲۲۹ (۳۰۸۲)، حم (۱/۲۱۰، ۲۱۱، ۲۱۲، ۲۱۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۵۰) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/الحج ۲۲ (۱۵۴۳)، و۹۳ (۱۶۷۰)، م/الحج (المصدرالمذکور)، ق/المناسک ۶۹ (۳۰۴۰)، حم (۱/۲۱۴)، دي/المناسک ۶۰ (۱۹۴۳) من غیر ہذا الطریق۔
۹۱۸- فضل بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے مجھے مزدلفہ سے منیٰ تک اپناردیف بنایا (یعنی آپ مجھے اپنے پیچھے سواری پر بٹھاکر لے گئے) آپ برابر تلبیہ کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ (عقبہ) کی رمی کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- فضل رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی ، ابن مسعود، اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ حاجی تلبیہ بند نہ کرے جب تک کہ جمرہ کی رمی نہ کرلے۔ یہی شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ان لوگوں کا استدلال '' حتى يرمي الجمرة '' سے ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی کرلینے کے بعد تلبیہ پکارنابندکرے، لیکن جمہورعلماء کا کہنا ہے کہ جمرئہ عقبہ کی پہلی کنکری مارنے کے ساتھ ہی تلبیہ پکارنا بندکردینا چاہئے، ان کی دلیل صحیح بخاری وصحیح مسلم کی روایت ہے جس میں ''لم يزل يلبي حتى بلغ الجمرة'' کے الفاظ واردہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
79-بَاب مَا جَاءَ مَتَى تُقْطَعُ التَّلْبِيَةُ فِي الْعُمْرَةِ
۷۹-باب: عمرہ میں تلبیہ پکارنا کب بند کیاجائے؟​


919- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ يَرْفَعُ الْحَدِيثَ أَنَّهُ كَانَ يُمْسِكُ، عَنْ التَّلْبِيَةِ فِي الْعُمْرَةِ إِذَا اسْتَلَمَ الْحَجَرَ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ . قَالُوا: لاَ يَقْطَعُ الْمُعْتَمِرُ التَّلْبِيَةَ حَتَّى يَسْتَلِمَ الْحَجَرَ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا انْتَهَى إِلَى بُيُوتِ مَكَّةَ قَطَعَ التَّلْبِيَةَ. وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ.
* تخريج: د/الحج ۲۹ (۱۸۱۷) (تحفۃ الأشراف: ۵۹۵۸) (ضعیف)
(سند میں محمدبن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ضعیف راوی ہیں)
۹۱۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ عمرہ میں تلبیہ پکارنا اس وقت بند کرتے جب حجر اسود کا استلام کرلیتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے، ۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ عمرہ کرنے والا شخص تلبیہ بند نہ کرے جب تک کہ حجر اسود کا استلام نہ کرلے،۴- بعض کہتے ہیں کہ جب مکے کے گھروں یعنی مکہ کی آبادی میں پہنچ جائے تو تلبیہ پکارنا بندکردے۔ لیکن عمل نبی اکرمﷺ کی (مذکورہ) حدیث پرہے۔ یہی سفیان ، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
80-بَاب مَا جَاءَ فِي طَوَافِ الزِّيَارَةِ بِاللَّيْلِ
۸۰-باب: طوافِ زیارت رات میں کرنے کا بیان​


920- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَخَّرَ طَوَافَ الزِّيَارَةِ إِلَى اللَّيْلِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي أَنْ يُؤَخَّرَ طَوَافُ الزِّيَارَةِ إِلَى اللَّيْلِ. وَاسْتَحَبَّ بَعْضُهُمْ أَنْ يَزُورَ يَوْمَ النَّحْرِ. وَوَسَّعَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُؤَخَّرَ وَلَوْ إِلَى آخِرِ أَيَّامِ مِنًى.
* تخريج: خ/الحج ۱۳۰ (تعلیقا فی الترجمۃ)، د/المناسک ۸۳ (۲۰۰۰)، ق/المناسک ۷۷ (۳۰۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۵۲ و ۱۷۵۹۴)، حم (۱/۲۸۸) (ضعیف شاذ)
(ابوالزبیرمدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز ابوالزبیر کا دونوں صحابہ سے سماع نہیں ہے، اوریہ حدیث اس صحیح حدیث کے خلاف ہے کہ نبی اکرمﷺ نے دن میں طواف زیارت فرمایاتھا، اس لیے شاذ ہے)۔
۹۲۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے طواف زیارت کو رات تک مؤخر کیا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ۲؎ ، ۲- بعض اہل علم نے طواف زیارت کورات تک مؤخر کرنے کی اجازت دی ہے۔ اور بعض نے دسویں ذی الحجہ کو طواف زیارت کرنے کومستحب قراردیاہے، لیکن بعض نے اُسے منیٰ کے آخری دن تک مؤخرکرنے کی گنجائش رکھی ہے۔
وضاحت ۱؎ عبداللہ بن عباس اورعائشہ رضی اللہ عنہم کی یہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مخالف ہے جسے بخاری ومسلم نے روایت کی ہے، جس میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے یوم النحرکو دن میں طواف کیا، امام بخاری نے دونوں میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ ابن عمر اور جابر کی حدیث کو پہلے دن پر محمول کیاجائے اورابن عباس اورعائشہ کی حدیث کو اس کے علاوہ باقی دنوں پر،صاحب تحفۃ الأحوذی فرماتے ہیں :''حديث ابن عباس وعائشة المذكور في هذا الباب ضعيف فلا حاجة إلى الجمع الذي أشار إليه البخاري، وأما على تقدير الصحة فهذا الجمع متعين ''۔(ابن عباس اورعائشہ کی باب میں مذکورحدیث ضعیف ہے ، اس لیے بخاری نے جس جمع وتطبیق کی طرف اشارہ کیاہے اس کی ضرورت نہیں ہے اور صحت ماننے کی صورت میں جمع وتطبیق متعین ہے)
وضاحت ۲؎ امام ترمذی کا اس حدیث کو حسن صحیح کہنا درست نہیں ہے، صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث قابل استدلال نہیں، کیونکہ ابوالزبیرکا ابن عباس سے اورعائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع نہیں ہے، ابوالحسن القطان کہتے ہیں ''عندي أن هذا الحديث ليس بصحيح إنما طاف النبي ﷺ يومئذ نهاراً ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
81-بَاب مَا جَاءَ فِي نُزُولِ الأَبْطَحِ
۸۱-باب: وادی ابطح میں قیام کرنے کا بیان​


921- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ يَنْزِلُونَ الأَبْطَحَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَبِي رَافِعٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ. إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِالرَّزَّاقِ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ. وَقَدْ اسْتَحَبَّ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ نُزُولَ الأَبْطَحِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَرَوْا ذَلِكَ وَاجِبًا، إِلاَّ مَنْ أَحَبَّ ذَلِكَ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَنُزُولُ الأَبْطَحِ لَيْسَ مِنْ النُّسُكِ فِي شَيْئٍ. إِنَّمَا هُوَ مَنْزِلٌ نَزَلَهُ النَّبِيُّ ﷺ.
* تخريج: ق/المناسک ۸۱ (۳۰۶۹) (تحفۃ الأشراف: ۸۰۲۵) (صحیح)
وأخرجہ مسلم فی الحج (۵۹/۱۳۱۰) من غیر ہذا الوجہ)
۹۲۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ، ابوبکر ، عمر ،اور عثمان رضی اللہ عنہم ابطح ۱؎ میں قیام کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ ہم اسے صرف عبدالرزاق کی سند سے جانتے ہیں، وہ عبیداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں،۲- اس باب میں عائشہ، ابورافع اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ،۳- بعض اہل علم نے ابطح میں قیام کو مستحب قراردیاہے، واجب نہیں ، جوچاہے وہاں قیام کرے،۴- شافعی کہتے ہیں: ابطح کا قیام حج کے مناسک میں سے نہیں ہے۔ یہ تو بس ایک مقام ہے جہاں نبی اکرمﷺ نے قیام فرمایا۔
وضاحت ۱؎ : ابطح ، بطحاء خیف کنانہ اورمحصب سب ہم معنی ہیں اس سے مراد مکہ اورمنیٰ کے درمیان کا علاقہ ہے جو منی سے زیادہ قریب ہے ۔


922- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَيْسَ التَّحْصِيبُ بِشَيْئٍ. إِنَّمَا هُوَ مَنْزِلٌ نَزَلَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: التَّحْصِيبُ نُزُولُ الأَبْطَحِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الحج ۱۴۷ (۱۷۶۶)، م/الحج ۵۹ (۱۳۱۲) (تحفۃ الأشراف: ۵۹۴۱) (صحیح)
۹۲۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ وادی محصب میں قیام کوئی چیز نہیں ۱؎ ، یہ تو بس ایک جگہ ہے جہاں رسول اللہﷺ نے قیام فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- تحصیب کے معنی ابطح میں قیام کرنے کے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : محصب میں نزول واقامت مناسک حج میں سے نہیں ہے، رسول اللہﷺ نے زوال کے بعد آرام فرمانے کے لیے یہاں اقامت کی ،ظہروعصراورمغرب اورعشاء پڑھی اور چودھویں رات گزاری، چونکہ آپ نے یہاں نزول فرمایا تھا اس لیے آپ کی اتباع میں یہاں کی اقامت مستحب ہے، خلفاء نے آپ کے بعد اس پر عمل کیا، امام مالک امام شافعی اورجمہور اہل علم نے رسول اکرم ﷺ اورخلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی اقتداء میں اسے مستحب قراردیا ہے اگرکسی نے وہاں نزول نہ کیا تو بالاجماع کوئی حرج کی بات نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
82-بَاب مَنْ نَزَلَ الأَبْطَحَ
۸۲-باب: ابطح میں قیام کرنے کا بیان​


923- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: إِنَّمَا نَزَلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ الأَبْطَحَ لأَنَّهُ كَانَ أَسْمَحَ لِخُرُوجِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الحج ۵۹ (۱۳۱۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۸۵)، وأخرجہ کل من : م/الحج (المصدر المذکور)، ق/المناسک ۸۱ (۳۰۶۷) من غیر ھذا الوجہ۔
923/م- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ. حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، نَحْوَهُ.
* تخريج : انظر ما قبلہ (صحیح)
۹۲۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ابطح میں قیام فرمایا اس لیے کہ یہاں سے (مدینے کے لیے) روانہ ہونا زیادہ آسان تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۹۲۳/م- ہم سے ابن ابی عمر نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا اورسفیان نے ہشام بن عروہ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
83-بَاب مَا جَاءَ فِي حَجِّ الصَّبِيِّ
۸۳-باب: بچے کے حج کا بیان​


924- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: رَفَعَتْ امْرَأَةٌ صَبِيًّا لَهَا إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَلِهَذَا حَجٌّ؟ قَالَ: "نَعَمْ، وَلَكِ أَجْرٌ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ق/المناسک ۱۱ (۲۹۱۰) (تحفۃ الأشراف: ۳۰۷۶) (صحیح)
۹۲۴- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے بچّے کورسول اللہﷺ کی طرف اٹھاکرپوچھا: اللہ کے رسول ! کیا اس پربھی حج ہے ؟آپ نے فرمایا:'' ہاں، اوراجر تجھے ملے گا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر کی حدیث غریب ہے،۲- اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ اس میں شافعی احمد، مالک اورجمہورعلماء کے لیے دلیل ہے، جو اس بات کے قائل ہیں کہ نابالغ بچے کا حج صحیح ہے، اس پر اسے ثواب دیا جائے گا اگرچہ اس سے فرض ساقط نہیں ہوگا اوربالغ ہو نے کی استطاعت کی صورت میں اسے پھرسے حج کرنا پڑے گا اورنابالغ کا یہ حج نفلی حج ہوگا، امام ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ نابالغ بچے کا حج منعقد نہیں ہوگاوہ صرف تمرین ومشق کے لیے اسے کرے گا اس پر اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا، یہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے۔


925- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا قَزَعَةُ بْنُ سُوَيْدٍ الْبَاهِلِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ ابْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً. وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنَّ الصَّبِيَّ إِذَا حَجَّ قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَ، فَعَلَيْهِ الْحَجُّ إِذَا أَدْرَكَ. لاَتُجْزِئُ عَنْهُ تِلْكَ الْحَجَّةُ عَنْ حَجَّةِ الإِسْلاَمِ. وَكَذَلِكَ الْمَمْلُوكُ إِذَا حَجَّ فِي رِقِّهِ، ثُمَّ أُعْتِقَ، فَعَلَيْهِ الْحَجُّ إِذَا وَجَدَ إِلَى ذَلِكَ سَبِيلاً. وَلاَ يُجْزِئُ عَنْهُ مَا حَجَّ فِي حَالِ رِقِّهِ . وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۹۲۵- اس سند سے بھی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ محمد بن منکدر سے بھی روایت کی گئی ہے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے،۲- اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ بچہ جب بالغ ہونے سے پہلے حج کرلے تو (اس کافریضہ ساقط نہیں ہوگا)جب وہ بالغ ہوجائے گا تو اس کے ذمہ حج ہوگا، کم سنی کا یہ حج اسلام کے عائد کردہ فریضہ حج کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ اسی طرح غلام کا معاملہ ہے، اگر وہ غلامی میں حج کرچکا ہو پھرآزاد کردیاجائے تو آزادی کی حالت میں اس پر حج فرض ہوگاجب وہ اس کی سبیل پالے، غلامی کی حالت میں کیا ہوا حج کافی نہیں ہوگا۔ سفیان ثوری، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے۔


926- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: حَجَّ بِي أَبِي مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، وَأَنَا ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/جزاء الصید ۲۵ (۱۸۵۸) (تحفۃ الأشراف: ۳۸۰۳) (صحیح)
۹۲۶- سائب بن یزید رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ میرے باپ نے حجۃ الوداع میں مجھے ساتھ لے کررسول اللہﷺ کے ساتھ حج کیا، میں سات برس کا تھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
84-باب
۸۴-باب: بچوں کے حج سے متعلق ایک اورباب​


927- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْوَاسِطِيُّ، قَال: سَمِعْتُ ابْنَ نُمَيْرٍ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: كُنَّا إِذَا حَجَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فَكُنَّا نُلَبِّي عَنِ النِّسَائِ وَنَرْمِي عَنِ الصِّبْيَانِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ لاَ يُلَبِّي عَنْهَا غَيْرُهَا. بَلْ هِيَ تُلَبِّي عَنْ نَفْسِهَا. وَيُكْرَهُ لَهَا رَفْعُ الصَّوْتِ بِالتَّلْبِيَةِ.
* تخريج: ق/المناسک ۶۸ (۳۰۳۸) (تحفۃ الأشراف: ۲۶۶۲) (ضعیف)
(سند میں اشعث بن سوارضعیف راوی ہیں)
۹۲۷- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ حج کیا تو ہم عورتوں کی طرف سے تلبیہ کہتے اور بچوں کی طرف سے رمی کرتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ۲- اہل علم کااس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کی طرف سے کوئی دوسراتلبیہ نہیں کہے گا، بلکہ وہ خود ہی تلبیہ کہے گی البتہ اس کے لیے تلبیہ میں آواز بلندکرنامکروہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
85-بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَجِّ عَنِ الشَّيْخِ الْكَبِيرِ وَالْمَيِّتِ
۸۵-باب: زیادہ بوڑھے آدمی اورمیت کی طرف سے حج کرنے کا بیان​


928- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمَ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ أَبِي أَدْرَكَتْهُ فَرِيضَةُ اللهِ فِي الْحَجِّ، وَهُوَ شَيْخٌ كَبِيرٌ لاَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْتَوِيَ عَلَى ظَهْرِ الْبَعِيرِ. قَالَ: حُجِّي عَنْهُ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَبُرَيْدَةَ وَحُصَيْنِ بْنِ عَوْفٍ وَأَبِي رَزِينٍ الْعُقَيْلِيِّ وَسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَرُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَيْضًا عَنْ سِنَانِ بْنِ عَبْدِاللهِ الْجُهَنِيِّ، عَنْ عَمَّتِهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذِهِ الرِّوَايَاتِ ؟ فَقَالَ: أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ مَا رَوَى ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ ابْنُ عَبَّاسٍ سَمِعَهُ مِنْ الْفَضْلِ وَغَيْرِهِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، ثُمَّ رَوَى هَذَا عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَرْسَلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ الَّذِي سَمِعَهُ مِنْهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي هَذَا الْبَابِ غَيْرُ حَدِيثٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. وَبِهِ يَقُولُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. يَرَوْنَ أَنْ يُحَجَّ عَنِ الْمَيِّتِ. وَ قَالَ مَالِكٌ: إِذَا أَوْصَى أَنْ يُحَجَّ عَنْهُ، حُجَّ عَنْهُ. وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُحَجَّ عَنِ الْحَيِّ إِذَا كَانَ كَبِيرًا، أَوْ بِحَالٍ لاَ يَقْدِرُ أَنْ يَحُجَّ. وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ.
* تخريج: خ/جزاء الصید ۲۳ (۱۸۵۳)، م/الحج ۷۱ (۱۳۲۵)، ن/آداب القضاۃ ۹ (۵۳۹۱)، ق/المناسک ۱۰ (۲۹۰۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۴۸) (صحیح)
۹۲۸- فضل بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میرے والد کواللہ کے فریضہء حج نے پالیاہے لیکن وہ اتنے بوڑھے ہیں کہ اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ نہیں سکتے (توکیا کیا جائے؟)۔ آپ نے فرمایا:''تو ان کی طرف سے حج کرلے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- فضل بن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابن عباس رضی اللہ عنہا سے حصین بن عوف مزنی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے، ۳- ابن عباس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سنان بن عبداللہ جہنی رضی اللہ عنہ نے اپنی پھوپھی سے اوران کی پھوپھی نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،۴- ابن عباس رضی اللہ عنہا نے براہِ راست نبی اکرم ﷺ سے بھی روایت کی ہے،۵- امام ترمذی کہتے ہیں :میں نے ان روایات کے بارے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا توانہوں نے کہا: اس باب میں سب سے صحیح روایت وہ ہے جسے ابن عباس نے فضل بن عباس سے اورفضل نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے۶- محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس کابھی احتمال ہے کہ ابن عباس نے اسے (اپنے بھائی )فضل سے اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں سے بھی سناہواور ان لوگوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہو، اور پھر ابن عباس رضی اللہ عنہا نے اسے نبی اکرمﷺ سے مرسلاً روایت کی ہو اور جس سے انہوں نے اسے سناہو اس کانام ذکرنہ کیا ہو، نبی اکرمﷺ سے اس باب میں کئی اوربھی احادیث ہیں، ۷- اس باب میں علی، بریدہ ، حصین بن عوف ، ابورزین عقیلی، سودہ بنت زمعہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۸-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پرعمل ہے،اور یہی ثوری، ابن مبارک ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے حج کیاجاسکتا ہے،۹- مالک کہتے ہیں: میت کی طرف سے حج اس وقت کیاجائے گا جب وہ حج کرنے کی وصیت کرگیاہو، ۱۰-بعض لوگوں نے زندہ شخص کی طرف سے جب وہ بہت زیادہ بوڑھا ہوگیا ہویاایسی حالت میں ہوکہ وہ حج پر قدرت نہ رکھتاہوحج کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہی ابن مبارک اور شافعی کابھی قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
86-بَاب مِنْهُ آخَرُ
۸۶-باب: حج میں نیابت سے متعلق ایک اور باب​


929- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ ابْنِ عَطَائٍ قَالَ. وَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَطَائٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَتْ: إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَلَمْ تَحُجَّ أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، حُجِّي عَنْهَا. قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الصیام ۲۷ (۱۱۴۹) (بزیادۃ) (تحفۃ الأشراف: ۱۹۸۰) (صحیح)
۹۲۹- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکرعرض کیا: میری ماں مرگئی ہے، وہ حج نہیں کرسکی تھی، کیامیں اس کی طرف سے حج کرلوں ؟ آپ نے فرمایا:'' ہاں، تو اس کی طرف سے حج کرلے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
 
Top