• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
11-باب
۱۱-باب: مومن کی موت سے متعلق ایک اورباب​


983- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْكُوفِيُّ وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِاللهِ الْبَزَّازُ الْبَغْدَادِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا سَيَّارٌ هُوَ ابْنُ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ عَلَى شَابٍّ، وَهُوَ فِي الْمَوْتِ. فَقَالَ: كَيْفَ تَجِدُكَ؟ قَالَ: وَاللهِ! يَا رَسُولَ اللهِ! أَنِّي أَرْجُو اللهَ وَإِنِّي أَخَافُ ذُنُوبِي: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ فِي مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ، إِلاَّ أَعْطَاهُ اللهُ مَا يَرْجُو، وَآمَنَهُ مِمَّا يَخَافُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. مُرْسَلاً.
* تخريج: ن/عمل الیوم واللیلۃ ۳۰۸ (۱۰۶۲)، ق/الزہد ۳۱ (۴۲۶۱) (تحفۃ الأشراف: ۲۶۲) (حسن)
۹۸۳- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ایک نوجوان کے پاس آئے اوروہ سکرات کے عالم میں تھا۔ آپ نے فرمایا: ''تم اپنے کو کیسا پارہے ہو؟'' اس نے عرض کیا: اللہ کی قسم ، اللہ کے رسول ! مجھے اللہ سے امید ہے اور اپنے گناہوں سے ڈربھی رہاہوں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' یہ دونوں چیزیں اس جیسے وقت میں جس بندے کے دل میں جمع ہوجاتی ہیں تواللہ اسے وہ چیز عطاکردیتاہے جس کی وہ اس سے امید رکھتاہے اور اسے اس چیز سے محفوظ رکھتا ہے جس سے وہ ڈررہا ہوتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن اور غریب ہے، ۲- اور بعض لوگوں نے یہ حدیث ثابت سے اور انہوں نے نبی اکرمﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
12-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ النَّعْيِ
۱۲-باب: موت کی خبر دینے کی کراہت​


984- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ وَهَارُونُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ عَنْبَسَةَ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِيَّاكُمْ وَالنَّعْيَ، فَإِنَّ النَّعْيَ مِنْ عَمَلِ الْجَاهِلِيَّةِ".
قَالَ عَبْدُاللهِ: وَالنَّعْيُ أَذَانٌ بِالْمَيِّتِ. وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۴۶۱) (ضعیف)
(سند میں میمون ابوحمزہ اعورضعیف راوی ہیں)
۹۸۴- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :'' نعی( موت کی خبر دینے) ۱؎ سے بچو،کیونکہ نعی جاہلیت کا عمل ہے''۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نعی کا مطلب میت کی موت کا اعلان ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : کسی کی موت کی خبردینے کو نعی کہتے ہیں، نعی جائز ہے خودنبی اکرمﷺ نے نجاشی کی وفات کی خبردی ہے، اسی طرح زیدبن حارثہ، جعفربن ابی طالب اورعبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہما کی وفات کی خبریں بھی آپ نے لوگوں کو دی ہیں، یہاں جس نعی سے بچنے کا ذکرہے اس سے اہل جاہلیت کی نعی ہے، زمانہء جاہلیت میں جب کوئی مرجاتاتھا تو وہ ایک شخص کو بھیجتے جومحلوں اوربازاروں میں پھرپھرکراس کے مرنے کااعلان کرتا۔


985- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَانِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْوَلِيدِ الْعَدَنِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ، نَحْوَهُ. وَلَمْ يَرْفَعْهُ. وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ وَالنَّعْيُ أَذَانٌ بِالْمَيِّتِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَنْبَسَةَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، وَأَبُو حَمْزَةَ. هُوَ مَيْمُونٌ الأَعْوَرُ. وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِاللهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ النَّعْيَ. وَالنَّعْيُ عِنْدَهُمْ أَنْ يُنَادَى فِي النَّاسِ أَنَّ فُلاَنًا مَاتَ، لِيَشْهَدُوا جَنَازَتَهُ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لاَ بَأْسَ أَنْ يُعْلِمَ أَهْلَ قَرَابَتِهِ وَإِخْوَانَهُ. وَرُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ أَنَّهُ قَالَ: لاَ بَأْسَ بِأَنْ يُعْلِمَ الرَّجُلُ قَرَابَتَهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف)
۹۸۵- اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے، اورراوی نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ اور اس نے اس میں اس کا بھی ذکرنہیں کیا ہے کہ'' نعی موت کے اعلان کانام ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲- یہ عنبسہ کی حدیث سے جسے انہوں نے ابوحمزہ سے روایت کیا ہے زیادہ صحیح ہے،۳- ابوحمزہ ہی میمون اعور ہیں،یہ اہل حدیث کے نزدیک قوی نہیں ہیں،۴- بعض اہل علم نے نعی کو مکروہ قراردیاہے، ان کے نزدیک نعی یہ ہے کہ لوگوں میں اعلان کیاجائے کہ فلاں مرگیا ہے تاکہ اس کے جنازے میں شرکت کریں،۵- بعض اہل علم کہتے ہیں: اس میں کوئی حرج نہیں کہ اس کے رشتے داروں اور اس کے بھائیوں کواس کے مرنے کی خبردی جائے، ۶ - ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی کواس کے اپنے کسی قرابت دارکے مرنے کی خبردی جائے۔


986- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْقُدُّوسِ بْنُ بَكْرِ بْنِ خُنَيْسٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ سُلَيْمٍ الْعَبْسِيُّ، عَنْ بِلاَلِ بْنِ يَحْيَى الْعَبْسِيِّ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، قَالَ: إِذَا مِتُّ فَلاَ تُؤْذِنُوا بِي. إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ نَعْيًا. فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَنْهَى عَنِ النَّعْيِ.
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: ق/الجنائز ۱۴ (۱۴۹۷) (تحفۃ الأشراف: ۳۳۰۳) (حسن)
۹۸۶- حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : جب میں مرجاؤں تو تم میرے مرنے کا اعلان مت کرنا۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ بات نعی ہوگی۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نعی سے منع فرماتے سنا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
13-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الصَّبْرَ فِي الصَّدْمَةِ الأُولَى
۱۳-باب: صبروہ ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو​


987- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "الصَّبْرُ فِي الصَّدْمَةِ الأُولَى".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: ق/الجنائز ۵۵ (۱۵۹۶) (تحفۃ الأشراف: ۸۴۸) (صحیح)
۹۸۷- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' صبر وہی ہے جو پہلے صدمے کے وقت ہو'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سندسے غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ صدمے کا پہلا جھٹکاجب دل پرلگتاہے اس وقت آدمی صبرکرے اوربے صبری کامظاہرہ ، اپنے اعمال وحرکات سے نہ کرے تویہی صبرکامل ہے جس پراجرمترتب ہوتاہے، بعدمیں توہر کسی کو چاروناچارصبرآہی جاتاہے ۔


988- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الأُولَى".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجنائز ۷ (۱۲۵۲)، و۳۱ (۱۲۸۳)، و۴۲ (۱۳۰۲)، والأحکام ۱۱ (۷۱۵۴)، م/الجنائز ۸ (۹۲۶)، د/الجنائز ۲۷ (۳۱۲۴)، ن/الجنائز ۲۲ (۱۸۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۹)، حم (۳/۱۳۰، ۱۴۳، ۲۱۷) (صحیح)
۹۸۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' صبروہی ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
14-بَاب مَا جَاءَ فِي تَقْبِيلِ الْمَيِّتِ
۱۴-باب: میت کے بوسہ لینے کا بیان​


989- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِاللهِ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَبَّلَ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ، وَهُوَ مَيِّتٌ، وَهُوَ يَبْكِي أَوْ قَالَ: عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ. وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَعَائِشَةَ قَالُوا: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ قَبَّلَ النَّبِيَّ ﷺ، وَهُوَ مَيِّتٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الجنائز ۴۰ (۳۱۶۳)، ق/الجنائز ۷ (۲۴۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۵۹)، حم (۶/۴۳، ۵۵) (صحیح)
( ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی ۴۹۵)
۹۸۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : نبی اکرمﷺ نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا بوسہ لیا- وہ انتقال کرچکے تھے- آپ رو رہے تھے۔ یا (راوی نے ) کہا: آپ کی دونوں آنکھیں اشک بار تھیں ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عباس، جابر اور عائشہ سے بھی احادیث آئی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ کا بوسہ لیا ۲؎ اور آپ انتقال فرماچکے تھے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اس با ت پردلالت کرتی ہے کہ مسلمان میت کوبوسہ لینااوراس پر رونا جائز ہے، رہیں وہ احادیث جن میں رونے سے منع کیا گیا ہے تووہ ایسے رونے پرمحمول کی جائیں گی جس میں بین اورنوحہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
15-بَاب مَا جَاءَ فِي غُسْلِ الْمَيِّتِ
۱۵-باب: میت کو غسل دینے کا بیان​


990- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ وَمَنْصُورٌ وَهِشَامٌ. (فَأَمَّا خَالِدٌ وَهِشَامٌ، فَقَالاَ: عَنْ مُحَمَّدٍ وَحَفْصَةَ وَقَالَ مَنْصُورٌ: عَنْ مُحَمَّدٍ)، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: تُوُفِّيَتْ إِحْدَى بَنَاتِ النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ: "اغْسِلْنَهَا وِتْرًا ثَلاَثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ. وَاغْسِلْنَهَا بِمَائٍ وَسِدْرٍ. وَاجْعَلْنَ فِي الآخِرَةِ كَافُورًا أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ. فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي". فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ. فَأَلْقَى إِلَيْنَا حِقْوَهُ فَقَالَ: "أَشْعِرْنَهَا بِهِ".
قَالَ هُشَيْمٌ (وَفِي حَدِيثِ غَيْرِ هَؤُلاَئِ وَلاَ أَدْرِي وَلَعَلَّ هِشَامًا مِنْهُمْ) قَالَتْ: وَضَفَّرْنَا شَعْرَهَا ثَلاَثَةَ قُرُونٍ. قَالَ هُشَيْمٌ أَظُنُّهُ، قَالَ: فَأَلْقَيْنَاهُ خَلْفَهَا. قَالَ هُشَيْمٌ: فَحَدَّثَنَا خَالِدٌ مِنْ بَيْنِ الْقَوْمِ عَنْ حَفْصَةَ وَمُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ: وَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ: "وَابْدَأْنَ بِمَيَامِنِهَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوئِ". وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ عَطِيَّةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّهُ قَالَ غُسْلُ الْمَيِّتِ كَالْغُسْلِ مِنْ الْجَنَابَةِ. وَ قَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: لَيْسَ لِغُسْلِ الْمَيِّتِ عِنْدَنَا حَدٌّ مُؤَقَّتٌ. وَلَيْسَ لِذَلِكَ صِفَةٌ مَعْلُومَةٌ وَلَكِنْ يُطَهَّرُ. وَ قَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا قَالَ مَالِكٌ قَوْلاً مُجْمَلاً، يُغَسَّلُ وَيُنْقَى. وَإِذَا أُنْقِيَ الْمَيِّتُ بِمَائٍ قَرَاحٍ أَوْ مَائٍ غَيْرِهِ أَجْزَأَ ذَلِكَ مِنْ غُسْلِهِ. وَلَكِنْ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُغْسَلَ ثَلاَثًا فَصَاعِدًا. لاَيُقْصَرُ عَنْ ثَلاَثٍ لِمَا قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: اغْسِلْنَهَا ثَلاثًا أَوْ خَمْسًا. وَإِنْ أَنْقَوْا فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلاَثِ مَرَّاتٍ، أَجْزَأَ. وَلاَ نَرَى أَنَّ قَوْلَ النَّبِيِّ ﷺ إِنَّمَا هُوَ عَلَى مَعْنَى الإِنْقَائِ ثَلاَثًا أَوْ خَمْسًا وَلَمْ يُؤَقِّتْ. وَكَذَلِكَ قَالَ الْفُقَهَائُ وَهُمْ أَعْلَمُ بِمَعَانِي الْحَدِيثِ. وَ قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ: وَتَكُونُ الْغَسَلاَتُ بِمَائٍ وَسِدْرٍ، وَيَكُونُ فِي الآخِرَةِ شَيْئٌ مِنْ كَافُورٍ.
* تخريج: خ/الوضوء ۳۱ (۱۶۷)، والجنائز ۱۰ (۱۲۵۵)، و۱۱ (۱۲۵۶)، م/الجنائز ۱۲ (۹۳۹)، د/الجنائز ۳۳ (۳۱۴۴، ۳۱۴۵)، ن/الجنائز ۳۱ (۱۸۸۵)، و۳۲ (۱۸۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۰۲، و۱۸۱۰۹، و۱۸۱۱۱، و۱۸۱۲۴، ۱۸۱۳۵) (صحیح)
وأخرجہ کل من : خ/الجنائز ۸ (۱۲۵۳)، و۹ (۱۲۵۴)، و۱۲ (۱۲۵۷)، و۱۳ (۱۲۵۸)، و۱۴ (۱۲۶۰)، و۱۵ (۱۲۶۱)، و۱۶ (۱۲۶۲)، و۱۷ (۱۲۶۳)، م/الجنائز (المصدرالمذکور)، د/الجنائز ۳۳ (۳۱۴۲، ۳۱۴۶، ۳۱۴۷)، ن/الجنائز ۳۳ (۳۱۴۲، ۳۱۴۳، ۳۱۴۶، ۳۱۴۷)، ن/الجنائز ۲۸ (۱۸۸۲)، و۳۰ (۱۸۸۴)، و۳۳ (۱۸۸۷)، و۳۴ (۱۸۸۸، ۱۸۸۹، ۱۸۹۰)، و۳۵ (۱۸۹۱، ۱۸۹۲)، و۳۶ (۱۸۹۴، ۱۸۹۵)، ق/الجنائز ۸ (۱۴۵۸)، ط/الجنائز ۱ (۲)، حم (۶/۴۰۷)، من غیر ہذا الوجہ۔
۹۹۰- ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : نبی اکرمﷺ کی ایک بیٹی ۱؎ کا انتقال ہوگیاتو آپ نے فرمایا:'' اسے طاق بارغسل دو ،تین بار یا پانچ بار یا اس سے زیادہ بار، اگر ضروری سمجھو اور پانی اور بیر کی پتی سے غسل دو، آخر میں کافور ملالینا ''، یافرمایا: ''تھوڑا ساکافور ملالینا اور جب تم غسل سے فارغ ہوجاؤ تو مجھے اطلاع دینا۔'' چنانچہ جب ہم (نہلاکر) فارغ ہوگئے ،توہم نے آپ کو اطلاع دی، آپ نے اپنا تہبند ہماری طرف ڈال دیا اور فرمایا:'' اسے اس کے بدن سے لپیٹ دو''۔
ہشیم کہتے ہیں کہ اوردوسرے لوگوں ۲؎ کی روایتوں میں ، مجھے نہیں معلوم شاید ہشام بھی انہیں میں سے ہوں ، یہ ہے کہ انہوں نے کہا: اور ہم نے ان کے بالوں کو تین چوٹیوں میں گوندھ دیا۔ہشیم کہتے ہیں: میرا گمان ہے کہ ان کی روایتوں میں یہ بھی ہے کہ پھرہم نے ان چوٹیوں کو ان کے پیچھے ڈال دیا ۳؎ ہشیم کہتے ہیں: پھر خالد نے ہم سے لوگوں کے سامنے بیان کیا وہ حفصہ اور محمد سے روایت کررہے تھے اور یہ دونوں ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے کہ وہ کہتی ہیں کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' پہلے ان کے داہنے سے اور وضو کے اعضاء سے شروع کرنا'' ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ام سلیم رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- اہل علم کا اسی پرعمل ہے،۴- ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ میت کا غسل غسل جنابت کی طرح ہے،۵- مالک بن انس کہتے ہیں: ہمارے نزدیک میت کے غسل کی کوئی متعین حد نہیں اور نہ ہی کوئی متعین کیفیت ہے، بس اُسے پاک کردیاجائے گا،۶- شافعی کہتے ہیں کہ مالک کاقول کہ اسے غسل دیاجائے اور پاک کیا جائے مجمل ہے، جب میت بیری یاکسی اور چیز کے پانی سے پاک کردیا جائے تو بس اتنا کافی ہے، البتہ میرے نزدیک مستحب یہ ہے کہ اسے تین یا اس سے زیادہ بار غسل دیاجائے۔تین بار سے کم غسل نہ دیاجائے ، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے '' اسے تین بار یاپانچ بار غسل دو''، اور اگر لوگ اسے تین سے کم مرتبہ میں ہی پاک صاف کردیں تو یہ بھی کافی ہے ، ہم یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ نبی اکرمﷺکا تین یا پانچ بار کا حکم دینامحض پاک کرنے کے لیے ہے، آپ نے کوئی حدمقررنہیں کی ہے، ایسے ہی دوسرے فقہا ء نے بھی کہاہے۔ وہ حدیث کے مفہوم کوخوب جاننے والے ہیں،۷- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہرمرتبہ غسل پانی اور بیری کی پتی سے ہوگا، البتہ آخری بار اس میں کافور ملالیں گے۔
وضاحت ۱؎ : جمہورکے قول کے مطابق یہ ابوالعاص بن ربیع کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا تھیں، ایک قول یہ ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی اہلیہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا تھیں، صحیح پہلاقول ہی ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی خالد، منصوراورہشام کے علاوہ دوسرے لوگوں کی روایتوں میں۔
وضاحت۳؎ : اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے بالوں کی تین چوٹیاں کر کے انہیں پیچھے ڈال دیناچاہئے انہیں دوحصوں میں تقسیم کرکے سینے پر ڈالنے کا کوئی ثبوت نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
16-بَاب فِي مَا جَاءَ فِي الْمِسْكِ لِلْمَيِّتِ
۱۶-باب: میت کو مشک خوشبو لگانے کا بیان​


991- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ وَشَبَابَةُ قَالاَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ خُلَيْدِ بْنِ جَعْفَرٍ سَمِعَ أَبَا نَضْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَطْيَبُ الطِّيبِ الْمِسْكُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الألفاظ من الأدب ۵ (۲۲۵۲)، ن/الجنائز ۴۲ (۱۹۰۶)، والزینۃ ۳ (۵۱۲۲)، و۷۴ (۵۲۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۱۱) (صحیح) وأخرجہ کل من : م/المصدرالمذکور، د/الجنائز ۳۷ (۳۱۵۸)، ن/الجنائز ۴۲ (۱۹۰۷)، حم (۳/۳۶، ۴۰، ۴۶، ۶۲) من غیر ہذا الوجہ۔
۹۹۱- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''سب سے بہترین خوشبو مشک ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


992- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ خُلَيْدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ عَنِ الْمِسْكِ؛ فَقَالَ: "هُوَ أَطْيَبُ طِيبِكُمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْمِسْكَ لِلْمَيِّتِ. قَالَ: وَقَدْ رَوَاهُ الْمُسْتَمِرُّ بْنُ الرَّيَّانِ أَيْضًا عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. قَالَ عَلِيٌّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: الْمُسْتَمِرُّ بْنُ الرَّيَّانِ ثِقَةٌ. قَالَ يَحْيَى: خُلَيْدُ بْنُ جَعْفَرٍ ثِقَةٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۹۹۲- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے مشک کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:'' یہ تمہاری خوشبووں میں سب سے بہتر خوشبو ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اوراسے مستمربن ریان نے بھی بطریق : '' أبي نضرة، عن أبي سعيد، عن النبي ﷺ '' روایت کیا ہے، یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ مستمر بن ریان ثقہ ہیں،۳- بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۴- اوربعض اہل علم نے میت کے لیے مشک کومکروہ قراردیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17-بَاب مَا جَاءَ فِي الْغُسْلِ مِنْ غُسْلِ الْمَيِّتِ
۱۷-باب: میت کو غسل دینے سے غسل کرنے کا بیان​


993- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مِنْ غُسْلِهِ الْغُسْلُ. وَمِنْ حَمْلِهِ الْوُضُوئُ. يَعْنِي الْمَيِّتَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَائِشَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَوْقُوفًا. وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الَّذِي يُغَسِّلُ الْمَيِّتَ . فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ: إِذَا غَسَّلَ مَيِّتًا فَعَلَيْهِ الْغُسْلُ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: عَلَيْهِ الْوُضُوئُ. وَ قَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: أَسْتَحِبُّ الْغُسْلَ مِنْ غُسْلِ الْمَيِّتِ، وَلاَ أَرَى ذَلِكَ وَاجِبًا. وَهَكَذَا قَالَ الشَّافِعِيُّ. و قَالَ أَحْمَدُ: مَنْ غَسَّلَ مَيِّتًا أَرْجُو أَنْ لاَ يَجِبَ عَلَيْهِ الْغُسْلُ. وَأَمَّا الْوُضُوئُ فَأَقَلُّ مَا قِيلَ فِيهِ . و قَالَ إِسْحَاقُ: لاَ بُدَّ مِنْ الْوُضُوئِ. قَالَ: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ قَالَ: لاَ يَغْتَسِلُ وَلاَ يَتَوَضَّأُ مَنْ غَسَّلَ الْمَيِّتَ.
* تخريج: ق/الجنائز ۸ (۱۴۶۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۶) (صحیح)
۹۹۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''میت کو نہلانے سے غسل اوراسے اٹھانے سے وضوہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ موقوفاًبھی مروی ہے، ۳-اس باب میں علی اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- اہل علم کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو میت کوغسل دے ۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ جب کوئی کسی میت کو غسل دے تواس پر غسل ہے،۵- بعض کہتے ہیں: اس پر وضو ہے۔مالک بن انس کہتے ہیں: میت کوغسل دینے سے غسل کرنامیرے نزدیک مستحب ہے، میں اسے واجب نہیں سمجھتا ۱؎ اسی طرح شافعی کابھی قول ہے،۶- احمد کہتے ہیں: جس نے میت کو غسل دیا تو مجھے امید ہے کہ اس پرغسل واجب نہیں ہوگا۔ رہی وضو کی بات تویہ سب سے کم ہے جو اس سلسلے میں کہاگیا ہے، ۷-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: وضو ضروری ہے ۲؎ ،عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے کہ انہوں نے کہاکہ جس نے میت کو غسل دیا، وہ نہ غسل کرے گا نہ وضو۔
وضاحت ۱؎ : جمہورنے باب کی حدیث کواستحباب پرمحمول کیا ہے کیونکہ ابن عباس کی ایک روایت میں ہے '' ليس عليكم في غسل ميتكم غسل إذا اغسلتموه إن ميتكم يموت طاهرا وليس بنجس، فحسبكم أن تغسلوا أيديكم '' (جب تم اپنے کسی مردے کوغسل دو تو تم پرغسل واجب نہیں ہے ، اس لیے کہ بلاشبہ تمہارا فوت شدہ آدمی (یعنی عورتوں،مردوں، بچوں میں سے ہر ایک )پاک ہی مرتاہے، وہ ناپاک نہیں ہوتاتمہارے لیے یہی کافی ہے کہ اپنے ہاتھ دھولیاکرو) لہذا اس میں اورباب کی حدیث میں تطبیق اس طرح دی جائے کہ ابوہریرہ کی حدیث کو استحباب پرمحمول کیاجائے، یا یہ کہاجائے کہ غسل سے مرادہاتھوں کا دھونا ہے، اورصحیح قول ہے کہ میت کو غسل دینے کے بعد نہانامستحب ہے۔
وضاحت ۲؎ : انہوں نے باب کی حدیث کو غسل کے وجوب پرمحمول کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18-بَاب مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الأَكْفَانِ
۱۸-باب: کس رنگ کا کفن مستحب ہے؟​


994- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْبَسُوا مِنْ ثِيَابِكُمْ الْبَيَاضَ، فَإِنَّهَا مِنْ خَيْرِ ثِيَابِكُمْ وَكَفِّنُوا فِيهَا مَوْتَاكُمْ". وَفِي الْبَاب عَنْ سَمُرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ الَّذِي يَسْتَحِبُّهُ أَهْلُ الْعِلْمِ. و قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُكَفَّنَ فِي ثِيَابِهِ الَّتِي كَانَ يُصَلِّي فِيهَا. و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ: أَحَبُّ الثِّيَابِ إِلَيْنَا أَنْ يُكَفَّنَ فِيهَا، الْبَيَاضُ وَيُسْتَحَبُّ حُسْنُ الْكَفَنِ.
* تخريج: د/اللباس ۱۶ (۴۰۶۱)، ق/الجنائز ۱۲ (۱۴۷۲) (تحفۃ الأشراف: ۵۵۳۴)، حم (۱/۳۵۵) (صحیح)
۹۹۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم سفید کپڑے پہنو، کیونکہ یہ تمہارے بہترین کپڑوں میں سے ہیں اوراسی میں اپنے مردوں کوبھی کفناؤ'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں سمرہ ، ابن عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اور اہل علم اسی کو مستحب قراردیتے ہیں۔ ابن مبارک کہتے ہیں: میرے نزدیک مستحب یہ ہے کہ آدمی انہی کپڑوں میں کفنایا جائے جن میں وہ صلاۃ پڑھتاتھا،۴- احمداور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: کفنانے کے لیے میرے نزدیک سب سے پسندیدہ کپڑا سفید رنگ کا کپڑا ہے۔ اوراچھا کفن دینا مستحب ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں امراستحباب کے لیے ہے اس امرپراجماع ہے کہ کفن کے لیے بہترسفید کپڑاہی ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19-بَاب مِنْهُ
۱۹-باب: کفن سے متعلق ایک اور باب​


995- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِذَا وَلِيَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُحْسِنْ كَفَنَهُ". وَفِيهِ عَنْ جَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. و قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: قَالَ سَلاَّمُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ: فِي قَوْلِهِ: وَلْيُحْسِنْ أَحَدُكُمْ كَفَنَ أَخِيهِ، قَالَ: هُوَ الصَّفَائُ وَلَيْسَ بِالْمُرْتَفِعِ.
* تخريج: ق/الجنائز ۱۲ (۱۴۷۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۲۵) (صحیح)
۹۹۵- ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جب تم میں کوئی اپنے بھائی کا(کفن کے سلسلے میں) ولی (ذمہ دار) ہوتو اسے اچھا کفن دے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- ابن مبارک کہتے ہیں کہ سلام بن ابی مطیع آپ کے قول'' وليحسن أحدكم كفن أخيه'' ( اپنے بھائی کو اچھا کفن دو) کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد کپڑے کی صفائی اور سفیدی ہے ، اس سے قیمتی کپڑا مراد نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20-بَاب مَا جَاءَ فِي كَفَنِ النَّبِيِّ ﷺ
۲۰-باب: نبی اکرم ﷺ کے کفن کا بیان​


996- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كُفِّنَ النَّبِيُّ ﷺ فِي ثَلاَثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ يَمَانِيَةٍ، لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَلاَعِمَامَةٌ. قَالَ: فَذَكَرُوا لِعَائِشَةَ قَوْلَهُمْ <فِي ثَوْبَيْنِ وَبُرْدِ حِبَرَةٍ> فَقَالَتْ: قَدْ أُتِيَ بِالْبُرْدِ، وَلَكِنَّهُمْ رَدُّوهُ وَلَمْ يُكَفِّنُوهُ فِيهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الجنائز ۱۳ (۹۴۱)، د/الجنائز ۳۴ (۳۱۵۲)، ن/الجنائز ۳۹ (۹۰۰)، ق/الجنائز ۱۱ (۱۴۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۸۶) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/الجنائز ۱۸ (۱۲۶۴)، و۲۳ (۱۲۷۱)، و۲۴ (۱۲۷۲)، و۹۴ (۱۳۸۷)، م/الجنائز (المصدرالمذکور)، الجنائز (۳۱۵۱)، ن/الجنائز ۳۹ (۱۸۹۸ و۱۸۹۹)، ط/الجنائز ۲ (۵)، حم (۶/۴۰، ۹۳، ۱۱۸، ۱۳۲، ۱۶۵، ۲۳۱) من غیر ہذا الوجہ۔
۹۹۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرمﷺ کو تین سفید ۱؎ یمنی کپڑوں میں کفنایاگیا ۲؎ نہ ان میںقمیص ۳؎ تھی اور نہ عمامہ۔ لوگوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: لوگ کہتے ہیں کہ آپﷺ کودوکپڑوں اورایک دھاری دار چادر میں کفنایا گیا تھا ؟ توام المومنین عائشہ نے کہا: چادر لائی گئی تھی لیکن لوگوں نے اسے واپس کردیاتھا،آپ کو اس میں نہیں کفنایا گیا تھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : تین سفید کپڑوں سے مراد تین بڑی چادریں ہیں اوربعض کے نزدیک کفنی، تہ بنداور بڑی چادر ہے ۔
وضاحت ۲؎ : اس سے معلوم ہوا کہ کفن تین کپڑوں سے زیادہ مکروہ ہے بالخصوص عمامہ (پگڑی )جسے متاخرین حنفیہ اورمالکیہ نے رواج دیا ہے سراسر بدعت ہے رہی ابن عباس کی روایت جس میں ہے '' كفن رسول الله ﷺ في ثلاثة أثواب بحرانية: الحلة، ثوبان، وقميصه الذي مات فيه ''تو یہ منکرہے اس کے راوی یزیدبن ابی زیاد ضعیف ہیں، اسی طرح عبادہ بن صامت کی حدیث '' خير الكفن الحلة''بھی ضعیف ہے اس کے راوی نسي مجہول ہیں۔
وضاحت ۳؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ کفن میں قمیص مستحب نہیں جمہورکا یہی قول ہے، لیکن مالکیہ اورحنفیہ استحباب کے قائل ہیں،وہ اس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس میں احتمال یہ ہے کہ دونوں ہو اوریہ بھی احتمال ہے کہ شمارکی گئی چیزکی نفی ہو یعنی قمیص اورعمامہ ان تینوں میں شامل نہیں تھے بلکہ یہ دونوں زائد تھے، اس کا جواب یہ دیا جاتاہے کہ پہلا احتمال ہی صحیح ہے اوراس کا مطلب یہی ہے کفن میں قمیص اورعمامہ نہیں تھا۔


997- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مُحَمَّدِ ابْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَفَّنَ حَمْزَةَ بْنَ عَبْدِالْمُطَّلِبِ فِي نَمِرَةٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ فِي كَفَنِ النَّبِيِّ ﷺ رِوَايَاتٌ مُخْتَلِفَةٌ. وَحَدِيثُ عَائِشَةَ أَصَحُّ الأَحَادِيثِ الَّتِي رُوِيَتْ فِي كَفَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ عَائِشَةَ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: يُكَفَّنُ الرَّجُلُ فِي ثَلاَثَةِ أَثْوَابٍ : إِنْ شِئْتَ فِي قَمِيصٍ وَلِفَافَتَيْنِ. وَإِنْ شِئْتَ فِي ثَلاَثِ لَفَائِفَ. وَيُجْزِي ثَوْبٌ وَاحِدٌ إِنْ لَمْ يَجِدُوا ثَوْبَيْنِ وَالثَّوْبَانِ يُجْزِيَانِ. وَالثَّلاَثَةُ لِمَنْ وَجَدَهَا أَحَبُّ إِلَيْهِمْ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. قَالُوا تُكَفَّنُ الْمَرْأَةُ فِي خَمْسَةِ أَثْوَابٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۳۶۹) (حسن)
۹۹۷- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو ایک ہی کپڑے میں ایک چادر میں کفنایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- نبی اکرمﷺ کے کفن کے بارے میں مختلف احادیث آئی ہیں۔ اوران سبھی حدیثوں میں عائشہ والی حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے،۳- اس باب میں علی ۱؎ ، ابن عباس ، عبداللہ بن مغفل اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا عمل عائشہ ہی کی حدیث پر ہے،۵- سفیان ثوری کہتے ہیں: آدمی کو تین کپڑوں میں کفنایا جائے۔ چاہے ایک قمیص اور دو لفافوں میں، اور چاہے تین لفافوں میں۔ اگر دو کپڑے نہ ملیں تو ایک بھی کافی ہے، اوردو کپڑے بھی کافی ہوجاتے ہیں، اور جسے تین میسر ہوں تو اس کے لیے مستحب یہی تین کپڑے ہیں۔ شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ وہ کہتے ہیں : عورت کو پانچ کپڑوں میں کفنایاجائے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : علی کی روایت کی تخریج ابن ابی شیبہ ، احمداوربزار نے '' كفن النبي ﷺ في سبعة أثواب''کے الفاظ کے ساتھ کی ہے لیکن اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عقیل ہیں جوسئی الحفظ ہیں ان کی حدیث سے استدلال درست نہیں جب وہ ثقات کے مخالف ہو۔
وضاحت ۲؎ : اس کی دلیل لیلیٰ بنت قانف ثقفیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے جس کی تخریج احمد اورابوداود نے کی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں، لیلیٰ کہتی ہیں: ''کنت فیمن غسّل أم کلثوم بنت رسول اللہ ﷺ عندوفاتہا، فکان أوّل ما أعطانا رسول اللہ ﷺ الحقاء ، ثم الدرع ثم الخمار ، ثم الملحفۃ، ثم أدرجت بعد فی الثوب الآخر، قالت: ورسول اللہ ﷺ جالس عندالباب معہ کفنہا یناولناہا ثوباً ثوباً '' لیکن یہ روایت ضعیف ہے اس کے راوی نوح بن حکیم ثقفی مجہول ہیں۔
 
Top