20-بَاب مَا جَاءَ فِي كَفَنِ النَّبِيِّ ﷺ
۲۰-باب: نبی اکرم ﷺ کے کفن کا بیان
996- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كُفِّنَ النَّبِيُّ ﷺ فِي ثَلاَثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ يَمَانِيَةٍ، لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَلاَعِمَامَةٌ. قَالَ: فَذَكَرُوا لِعَائِشَةَ قَوْلَهُمْ <فِي ثَوْبَيْنِ وَبُرْدِ حِبَرَةٍ> فَقَالَتْ: قَدْ أُتِيَ بِالْبُرْدِ، وَلَكِنَّهُمْ رَدُّوهُ وَلَمْ يُكَفِّنُوهُ فِيهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الجنائز ۱۳ (۹۴۱)، د/الجنائز ۳۴ (۳۱۵۲)، ن/الجنائز ۳۹ (۹۰۰)، ق/الجنائز ۱۱ (۱۴۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۸۶) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/الجنائز ۱۸ (۱۲۶۴)، و۲۳ (۱۲۷۱)، و۲۴ (۱۲۷۲)، و۹۴ (۱۳۸۷)، م/الجنائز (المصدرالمذکور)، الجنائز (۳۱۵۱)، ن/الجنائز ۳۹ (۱۸۹۸ و۱۸۹۹)، ط/الجنائز ۲ (۵)، حم (۶/۴۰، ۹۳، ۱۱۸، ۱۳۲، ۱۶۵، ۲۳۱) من غیر ہذا الوجہ۔
۹۹۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرمﷺ کو تین سفید ۱؎ یمنی کپڑوں میں کفنایاگیا ۲؎ نہ ان میںقمیص ۳؎ تھی اور نہ عمامہ۔ لوگوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: لوگ کہتے ہیں کہ آپﷺ کودوکپڑوں اورایک دھاری دار چادر میں کفنایا گیا تھا ؟ توام المومنین عائشہ نے کہا: چادر لائی گئی تھی لیکن لوگوں نے اسے واپس کردیاتھا،آپ کو اس میں نہیں کفنایا گیا تھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : تین سفید کپڑوں سے مراد تین بڑی چادریں ہیں اوربعض کے نزدیک کفنی، تہ بنداور بڑی چادر ہے ۔
وضاحت ۲؎ : اس سے معلوم ہوا کہ کفن تین کپڑوں سے زیادہ مکروہ ہے بالخصوص عمامہ (پگڑی )جسے متاخرین حنفیہ اورمالکیہ نے رواج دیا ہے سراسر بدعت ہے رہی ابن عباس کی روایت جس میں ہے
'' كفن رسول الله ﷺ في ثلاثة أثواب بحرانية: الحلة، ثوبان، وقميصه الذي مات فيه ''تو یہ منکرہے اس کے راوی یزیدبن ابی زیاد ضعیف ہیں، اسی طرح عبادہ بن صامت کی حدیث
'' خير الكفن الحلة''بھی ضعیف ہے اس کے راوی نسي مجہول ہیں۔
وضاحت ۳؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ کفن میں قمیص مستحب نہیں جمہورکا یہی قول ہے، لیکن مالکیہ اورحنفیہ استحباب کے قائل ہیں،وہ اس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس میں احتمال یہ ہے کہ دونوں ہو اوریہ بھی احتمال ہے کہ شمارکی گئی چیزکی نفی ہو یعنی قمیص اورعمامہ ان تینوں میں شامل نہیں تھے بلکہ یہ دونوں زائد تھے، اس کا جواب یہ دیا جاتاہے کہ پہلا احتمال ہی صحیح ہے اوراس کا مطلب یہی ہے کفن میں قمیص اورعمامہ نہیں تھا۔
997- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مُحَمَّدِ ابْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَفَّنَ حَمْزَةَ بْنَ عَبْدِالْمُطَّلِبِ فِي نَمِرَةٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ فِي كَفَنِ النَّبِيِّ ﷺ رِوَايَاتٌ مُخْتَلِفَةٌ. وَحَدِيثُ عَائِشَةَ أَصَحُّ الأَحَادِيثِ الَّتِي رُوِيَتْ فِي كَفَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ عَائِشَةَ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: يُكَفَّنُ الرَّجُلُ فِي ثَلاَثَةِ أَثْوَابٍ : إِنْ شِئْتَ فِي قَمِيصٍ وَلِفَافَتَيْنِ. وَإِنْ شِئْتَ فِي ثَلاَثِ لَفَائِفَ. وَيُجْزِي ثَوْبٌ وَاحِدٌ إِنْ لَمْ يَجِدُوا ثَوْبَيْنِ وَالثَّوْبَانِ يُجْزِيَانِ. وَالثَّلاَثَةُ لِمَنْ وَجَدَهَا أَحَبُّ إِلَيْهِمْ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. قَالُوا تُكَفَّنُ الْمَرْأَةُ فِي خَمْسَةِ أَثْوَابٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۳۶۹) (حسن)
۹۹۷- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو ایک ہی کپڑے میں ایک چادر میں کفنایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- نبی اکرمﷺ کے کفن کے بارے میں مختلف احادیث آئی ہیں۔ اوران سبھی حدیثوں میں عائشہ والی حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے،۳- اس باب میں علی ۱؎ ، ابن عباس ، عبداللہ بن مغفل اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا عمل عائشہ ہی کی حدیث پر ہے،۵- سفیان ثوری کہتے ہیں: آدمی کو تین کپڑوں میں کفنایا جائے۔ چاہے ایک قمیص اور دو لفافوں میں، اور چاہے تین لفافوں میں۔ اگر دو کپڑے نہ ملیں تو ایک بھی کافی ہے، اوردو کپڑے بھی کافی ہوجاتے ہیں، اور جسے تین میسر ہوں تو اس کے لیے مستحب یہی تین کپڑے ہیں۔ شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ وہ کہتے ہیں : عورت کو پانچ کپڑوں میں کفنایاجائے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : علی کی روایت کی تخریج ابن ابی شیبہ ، احمداوربزار نے
'' كفن النبي ﷺ في سبعة أثواب''کے الفاظ کے ساتھ کی ہے لیکن اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عقیل ہیں جوسئی الحفظ ہیں ان کی حدیث سے استدلال درست نہیں جب وہ ثقات کے مخالف ہو۔
وضاحت ۲؎ : اس کی دلیل لیلیٰ بنت قانف ثقفیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے جس کی تخریج احمد اورابوداود نے کی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں، لیلیٰ کہتی ہیں:
''کنت فیمن غسّل أم کلثوم بنت رسول اللہ ﷺ عندوفاتہا، فکان أوّل ما أعطانا رسول اللہ ﷺ الحقاء ، ثم الدرع ثم الخمار ، ثم الملحفۃ، ثم أدرجت بعد فی الثوب الآخر، قالت: ورسول اللہ ﷺ جالس عندالباب معہ کفنہا یناولناہا ثوباً ثوباً '' لیکن یہ روایت ضعیف ہے اس کے راوی نوح بن حکیم ثقفی مجہول ہیں۔