• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21-بَاب مَا جَاءَ فِي الطَّعَامِ يُصْنَعُ لأَهْلِ الْمَيِّتِ
۲۱-باب: میت کے گھر والوں کے لیے کھانا پکانے کا بیان​


998- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ جَعْفَرِ ابْنِ خَالِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ: لَمَّا جَاءَ نَعْيُ جَعْفَرٍ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "اصْنَعُوا لأَهْلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا. فَإِنَّهُ قَدْ جَاءَهُمْ مَا يَشْغَلُهُمْ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ كَانَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُوَجَّهَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ شَيْئٌ، لِشُغْلِهِمْ بِالْمُصِيبَةِ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَجَعْفَرُ بْنُ خَالِدٍ هُوَ ابْنُ سَارَةَ وَهُوَ ثِقَةٌ، رَوَى عَنْهُ ابْنُ جُرَيْجٍ.
* تخريج: د/الجنائز ۳۰ (۳۱۳۲)، ق/الجنائز ۵۹ (۱۶۱۰) (تحفۃ الأشراف: ۵۲۱۷) (حسن)
۹۹۸- عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب جعفرطیار کے مرنے کی خبرآئی ۱؎ تونبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا پکاؤ، اس لیے کہ آج ان کے پاس ایسی چیز آئی ہے جس میں وہ مشغول ہیں'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم میت کے گھروالوں کے مصیبت میں پھنسے ہونے کی وجہ سے ان کے یہاں کچھ بھیجنے کومستحب قراردیتے ہیں۔ یہی شافعی کابھی قول ہے، ۳- جعفر بن خالد کے والد خالد سارہ کے بیٹے ہیں اور ثقہ ہیں ۔ ان سے ابن جریج نے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی شہادت ۸ھ؁ میں غزوئہ موتہ میں ہوئی تھی، ان کی موت یقینا سب کے لیے خاص کر اہل خانہ کے لیے رنج وغم لے کرآئی۔
وضاحت ۲؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ رشتہ داروں اورپڑوسیوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ ''اہل میت کے لیے کھانا بھیج دیں۔ مگرآج کے مبتدعین نے معاملہ اُلٹ دیا، تیجا، قُل ، ساتویں اورچالیسویں جیسی ہندوانہ رسمیں ایجادکرکے میت کے ورثاء کو خوب لوٹا جاتاہے، العیاذ باللہ من ہذہ الخرافات۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
22-بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ ضَرْبِ الْخُدُودِ وَشَقِّ الْجُيُوبِ عِنْدَ الْمُصِيبَةِ
۲۲-باب: مصیبت کے وقت چہرہ پیٹنے اور گریبان پھاڑنے کی ممانعت کا بیان​


999- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي زُبَيْدٌ الأَيَامِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لَيْسَ مِنَّا مَنْ شَقَّ الْجُيُوبَ وَضَرَبَ الْخُدُودَ وَدَعَا بِدَعْوَةِ الْجَاهِلِيَّةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجنائز ۳۵ (۱۲۹۴)، والمناقب ۸ (۳۵۱۹)، ن/الجنائز ۱۹ (۱۸۶۳)، و۲۱ (۱۸۶۵)، ق/الجنائز ۵۲ (۱۵۸۴) (تحفۃ الأشراف: ۹۵۵۹)، حم (۱/۳۸۶، ۴۴۲) (صحیح)
ووأخرجہ کل من : خ/الجنائز ۳۸ (۱۲۹۷)، و۳۹ (۱۲۹۸)، والمناقب ۸ (۳۵۱۹)، م/الإیمان ۴۴ (۱۰۳)، ن/الجنائز ۱۷ (۱۸۶۱)، حم (۱/۴۶۵) من غیر ہذا الوجہ۔
۹۹۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جو گریبان پھاڑے،چہرہ پیٹے اور جاہلیت کی ہانک پکارے ۱؎ ہم میں سے نہیں'' ۲؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : جاہلیت کی ہانک پکارنے سے مرادبین کرنا ہے، جیسے ہائے میرے شیر! میرے چاند، ہائے میرے بچوں کو یتیم کرجانے والے عورتوں کے سہاگ اجاڑدینے والے! وغیرہ وغیرہ کہہ کررونا۔
وضاحت ۲؎ : یعنی ہم مسلمانوں کے طریقے پر نہیں۔ایسے موقع پر مسلمانوں کے غیرمسلموں جیسے جزع وفزع کے طورطریقے دیکھ کراس حدیث کی صداقت کس قدرواضح ہوجاتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
23-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ النَّوْحِ
۲۳-باب: میت پر نوحہ کرنے کی حرمت کا بیان​


1000- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا قُرَّانُ بْنُ تَمَّامٍ وَمَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدٍ الطَّائِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ الأَسَدِيِّ، قَالَ: مَاتَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ قَرَظَةُ بْنُ كَعْبٍ. فَنِيحَ عَلَيْهِ. فَجَاءَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: مَا بَالُ النَّوْحِ فِي الإِسْلاَمِ! أَمَا إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "مَنْ نِيحَ عَلَيْهِ عُذِّبَ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ". وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَأَبِي مُوسَى، وَقَيْسِ بْنِ عَاصِمٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَجُنَادَةَ بْنِ مَالِكٍ، وَأَنَسٍ، وَأُمِّ عَطِيَّةَ، وَسَمُرَةَ، وَأَبِي مَالِكٍ الأَشْعَرِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجنائز ۳۳ (۱۲۹۱)، م/الجنائز ۹ (۹۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۲۰)، حم (۴/۲۴۵، ۲۵۲)، (بزیادۃ في السیاق) (صحیح) وانظر: حم (۲/۲۹۱، ۴۱۴، ۴۱۵، ۴۵۵، ۵۲۶، ۵۳۱)
۱۰۰۰- علی بن ربیعہ اسدی کہتے ہیں :انصار کا قرظہ بن کعب نامی ایک شخص مرگیا، اس پر نوحہ ۱؎ کیاگیاتو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ آئے اور منبر پر چڑھے۔ اوراللہ کی حمد وثنا بیان کی پھرکہا: کیا بات ہے؟ اسلام میں نوحہ ہورہاہے۔ سنو! میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سناہے: ''حس پر نوحہ کیاگیا اس پر نوحہ کیے جانے کا عذاب ہوگا'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- مغیرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمر، علی، ابوموسیٰ ، قیس بن عاصم ، ابوہریرہ، جنادہ بن مالک ، انس ، ام عطیہ ، سمرہ اورابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : میت پر اس کی خوبیوں اورکمالات بیان کر کے چلاّ چلاّ کر رونے کو نوحہ کہتے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : یہ عذاب اس شخص پر ہوگا جواپنے ورثاء کو اس کی وصیت کرکے گیا ہو، یااس کا اپناعمل بھی زندگی میں ایساہی رہاہواور اس کی پیروی میں اس کے گھروالے بھی اس پر نوحہ کررہے ہوں۔


1001- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ وَالْمَسْعُودِيُّ، عَنْ عَلْقَمَةَ ابْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ أَبِي الرَّبِيعِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ، لَنْ يَدَعَهُنَّ النَّاسُ: النِّيَاحَةُ وَالطَّعْنُ فِي الأَحْسَابِ، وَالْعَدْوَى (أَجْرَبَ بَعِيرٌ فَأَجْرَبَ مِائَةَ بَعِيرٍ. مَنْ أَجْرَبَ الْبَعِيرَ الأَوَّلَ؟) وَالأَنْوَائُ (مُطِرْنَا بِنَوْئٍ كَذَا وَكَذَا)". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۸۴) (حسن)
۱۰۰۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میری امت میں چار باتیں جاہلیت کی ہیں، لوگ انہیں کبھی نہیں چھوڑیں گے: نوحہ کرنا،حسب ونسب میں طعنہ زنی،اوربیماری کا ایک سے دوسرے کو لگ جانے کاعقیدہ رکھنا مثلاً یوں کہناکہ ایک اونٹ کوکھجلی ہوئی اور اس نے سواونٹ میں کھجلی پھیلادی تو آخر پہلے اونٹ کوکھجلی کیسے لگی؟ اور نچھتروں کا عقیدہ رکھنا۔مثلاًفلاں اورفلاں نچھتر(ستارے) کے سبب ہم پر بارش ہوئی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
24-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْبُكَائِ عَلَى الْمَيِّتِ
۲۴-باب: میت پر (آوازسے) رونے کی کراہت کا بیان​


1002- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ. حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: قَالَ: رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَائِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ". وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ الْبُكَائَ عَلَى الْمَيِّتِ . قَالُوا: الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَائِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ، وَذَهَبُوا إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ. و قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: أَرْجُو إِنْ كَانَ يَنْهَاهُمْ فِي حَيَاتِهِ، أَنْ لاَ يَكُونَ عَلَيْهِ مِنْ ذَلِكَ شَيْئٌ.
* تخريج: ن/الجنائز ۱۴ (۱۸۵۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۲۷) (صحیح)
وأخرجہ کل من : خ/الجنائز ۳۲ (۱۲۸۷)، و۳۳ (۱۲۹۰، ۱۲۹۱)، م/الجنائز ۹ (۹۲۷)، ن/الجنائز ۱۴ (۱۸۴۹)، و۱۵ (۱۸۵۴)، ق/الجنائز ۵۴ (۱۵۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۳۱)، حم (۱/۲۶، ۳۶، ۴۷، ۵۰، ۵۱، ۵۴)، من غیر ہذا الوجہ۔ و راجع أیضا حم (۶/۲۸۱)
۱۰۰۲- عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میت کو اس کے گھروالوں کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیاجاتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عمر اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کی ایک جماعت نے میت پر رونے کو مکروہ(تحریمی) قراردیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میت کو اس پررونے کی وجہ سے عذاب دیاجاتاہے۔ اور وہ اسی حدیث کی طرف گئے ہیں،۴- اورابن مبارک کہتے ہیں: مجھے امید ہے کہ اگروہ (میت ) اپنی زندگی میں لوگوں کو اس سے روکتارہا ہو تو اس پراس میں سے کچھ نہیں ہوگا۔


1003- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنِي أَسِيدُ بْنُ أَبِي أَسِيدٍ أَنَّ مُوسَى ابْنَ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيَّ أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "مَا مِنْ مَيِّتٍ يَمُوتُ فَيَقُومُ بَاكِيهِ فَيَقُولُ: وَا جَبَلاَهْ! وَا سَيِّدَاهْ! أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ إِلاَّ وُكِّلَ بِهِ مَلَكَانِ يَلْهَزَانِهِ أَهَكَذَا كُنْتَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ق/الجنائز ۵۴ (۱۵۹۴) (تحفۃ الأشراف: ۹۰۳۱) (حسن)
۱۰۰۳- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جوکوئی بھی مرجائے پھر اس پر رونے والا کھڑا ہو کرکہے: ہائے میرے پہاڑ،ہائے میرے سردار یا اس جیسے الفاظ کہے تو اسے دوفرشتوں کے حوالے کردیا جاتاہے ، وہ اسے گھونسے مارتے ہیں(اورکہتے جاتے ہیں:) کیا تو ایسا ہی تھا؟''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
25-بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي الْبُكَائِ عَلَى الْمَيِّتِ
۲۵-باب: میت پررونے کی رخصت کا بیان​


1004- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ الْمُهَلَّبِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَائِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ". فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَرْحَمُهُ اللهُ! لَمْ يَكْذِبْ. وَلَكِنَّهُ وَهِمَ، إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ لِرَجُلٍ مَاتَ يَهُودِيًّا: "إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ وَإِنَّ أَهْلَهُ لَيَبْكُونَ عَلَيْهِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَقَرَظَةَ بْنِ كَعْبٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَائِشَةَ. وَقَدْ ذَهَبَ أَهْلُ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا. وَتَأَوَّلُوا هَذِهِ الآيَةَ {وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۵۶۴ و۱۷۶۸۳) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/المغازي ۸ (۳۹۷۸)، م/الجنائز ۹ (۹۲۸-۹۲۹)، د/الجنائز ۲۹ (۳۱۲۹)، ن/الجنائز ۱۵ (۱۸۵۶)، حم (۲/۳۸)، و(۶/۳۹، ۵۷، ۹۵، ۲۰۹)، من غیر ہذا الطریق، وانظر أیضا (رقم : ۱۰۰۶)
۱۰۰۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''میت کواپنے گھروالوں کے اس پر رونے سے عذاب دیاجاتاہے''،ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اللہ (ابن عمر) پر رحم کرے، انہوں نے جھوٹ نہیں کہا، انہیں وہم ہواہے۔ رسول اللہ ﷺ نے تویہ بات اس یہودی کے لیے فرمائی تھی جو مرگیا تھا: '' میت کو عذاب ہورہاہے اور اس کے گھروالے اس پر رورہے ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی عائشہ سے مروی ہے،۳- اس باب میں ابن عباس ، قرظہ بن کعب ، ابوہریرہ ، ابن مسعود اوراسامہ بن زید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- بعض اہل علم اسی جانب گئے ہیں اور ان لوگوں نے آیت :{ وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى } (کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا) کامطلب بھی یہی بیان کیا ہے اوریہی شافعی کابھی قول ہے۔


1005- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، قَالَ: أَخَذَ النَّبِيُّ ﷺ بِيَدِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ. فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى ابْنِهِ إِبْرَاهِيمَ. فَوَجَدَهُ يَجُودُ بِنَفْسِهِ. فَأَخَذَهُ النَّبِيُّ ﷺ فَوَضَعَهُ فِي حِجْرِهِ فَبَكَى. فَقَالَ لَهُ عَبْدُالرَّحْمَنِ: أَتَبْكِي؟ أَوَلَمْ تَكُنْ نَهَيْتَ عَنْ الْبُكَائِ؟ قَالَ: "لاَ، وَلَكِنْ نَهَيْتُ عَنْ صَوْتَيْنِ أَحْمَقَيْنِ فَاجِرَيْنِ: صَوْتٍ عِنْدَ مُصِيبَةٍ، خَمْشِ وُجُوهٍ وَشَقِّ جُيُوبٍ وَرَنَّةِ شَيْطَانٍ". وَفِي الْحَدِيثِ كَلاَمٌ أَكْثَرُ مِنْ هَذَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۴۸۳) (حسن)
۱۰۰۵- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے عبدالرحمن بن عوف کا ہاتھ پکڑا اور انہیں اپنے بیٹے ابراہیم کے پاس لے گئے تو دیکھا کہ ابراہیم کا آخری وقت ہے، نبی اکرمﷺ نے ابراہیم کو اٹھاکراپنی گود میں رکھ لیا اور رودیا۔ عبدالرحمن بن عوف نے کہا:کیا آپ رورہے ہیں؟ کیا آپ نے رونے منع نہیں کیاتھا؟تو آپ نے فرمایا: نہیں، میں تو دو احمق فاجرآوازوں سے روکتاتھا: ایک تو مصیبت کے وقت آوازنکالنے، چہرہ زخمی کرنے سے اور گریبان پھاڑنے سے، دوسرے شیطان کے نغمے سے'' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : شیطان کے نغمے سے مرادغناء مزامیرہیں، یعنی گانابجانا۔


1006- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، قَالَ: و حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ، وَذُكِرَ لَهَا أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَائِ الْحَيِّ عَلَيْهِ. فَقَالَتْ عَائِشَةُ: غَفَرَ اللهُ لأَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ! أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَكْذِبْ وَلَكِنَّهُ نَسِيَ أَوْ أَخْطَأَ. إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَلَى يَهُودِيَّةٍ يُبْكَى عَلَيْهَا. فَقَالَ: "إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا، وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجنائز ۳۲ (۱۲۸۹)، م/الجنائز ۹ (۹۳۲)، ن/الجنائز ۷ (۱۸۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۴۸) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/المغازي ۸ (۳۹۷۸)، م/الجنائز ۹ (۹۳۱)، د/الجنائز ۲۹ (۳۱۳۹)، ن/الجنائز ۱۵ (۱۸۵۶، ۱۸۵۸، ۱۸۵۹)، حم (۲/۳۸)، و(۶/۳۹، ۵۷، ۹۵، ۲۰۹) من غیر ہذا الوجہ والسیاق۔
۱۰۰۶- عمرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کوکہتے سنااور ان سے ذکرکیا گیاتھاکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میت پرلوگوں کے رونے کی وجہ سے اُسے عذاب دیاجاتاہے (عائشہ نے کہا:) اللہ ابوعبدالرحمن کی مغفرت فرمائے۔ سنو، انہوں نے جھوٹ نہیں کہا۔ بلکہ ان سے بھول ہوئی ہے یا وہ چوک گئے ہیں۔ بات صرف اتنی تھی کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر ایک یہودی عورت کے پاس سے ہوا جس پر لوگ رورہے تھے۔تو آپ نے فرمایا:'' یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے قبر میں عذاب دیاجارہاہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
26-بَاب مَا جَاءَ فِي الْمَشْيِ أَمَامَ الْجَنَازَةِ
۲۶-باب: جنازے کے آگے چلنے کا بیان​


1007- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ.
* تخريج: د/الجنائز ۴۹ (۳۱۷۹)، ن/الجنائز ۵۶ (۱۹۴۶)، ق/الجنائز ۱۶ (۱۴۸۲)، حم (۲/۸، ۱۲۲) (تحفۃ الأشراف: ۶۸۲) (صحیح ) وأخرجہ ما لک في المؤطا/الجنائز ۲ (۸) عن الزہري مرسلاً۔
۱۰۰۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے نبی اکرمﷺ ،ابوبکر اور عمرسب کو جنازے کے آگے آگے چلتے دیکھاہے۔
1008- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ مَنْصُورٍ وَبَكْرٍ الْكُوفِيِّ وَزِيَادٍ وَسُفْيَانَ، كُلُّهُمْ يَذْكُرُ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۶۸۰۸و۶۸۱۲و۶۹۷۳) (صحیح)
۱۰۰۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : میں نے نبی اکرمﷺ ، ابوبکر اور عمرسب کو جنازے کے آگے آگے چلتے دیکھا ہے۔


1009- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ. قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَأَخْبَرَنِي سَالِمٌ أَنَّ أَبَاهُ كَانَ يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ هَكَذَا، رَوَاهُ ابْنُ جُرَيْجٍ وَزِيَادُ بْنُ سَعْدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ. وَرَوَى مَعْمَرٌ وَيُونُسُ بْنُ يَزِيدَ وَمَالِكٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْحُفَّاظِ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ. وَأَهْلُ الْحَدِيثِ كُلُّهُمْ يَرَوْنَ أَنَّ الْحَدِيثَ الْمُرْسَلَ فِي ذَلِكَ أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: و سَمِعْت يَحْيَى بْنَ مُوسَى يَقُولُ: قَالَ عَبْدُالرَّزَّاقِ: قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ فِي هَذَا مُرْسَلٌ، أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ. قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: وَأَرَى ابْنَ جُرَيْجٍ أَخَذَهُ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ زِيَادٍ وَهُوَ ابْنُ سَعْدٍ. وَمَنْصُورٍ وَبَكْرٍ وَسُفْيَانَ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ. وَإِنَّمَا هُوَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ رَوَى عَنْهُ هَمَّامٌ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْمَشْيِ أَمَامَ الْجَنَازَةِ. فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ الْمَشْيَ أَمَامَهَا أَفْضَلُ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ، قَالَ: وَحَدِيثُ أَنَسٍ فِي هَذَا الْبَابِ غَيْرُ مَحْفُوظٍ.
* تخريج: و ط/الجنائز ۲ (۸)، انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۹۳۹۳) (صحیح)
۱۰۰۹- ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما جنازے کے آگے آگے چلتے تھے۔
زہری یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبردی کہ ان کے والد عبداللہ بن عمرجنازے کے آگے چلتے تھے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث اسی طرح ہے، اسے ابن جریج، زیاد بن سعد اوردیگرکئی لوگوں نے زہری سے ابن عیینہ کی حدیث ہی کی طرح روایت کیا ہے ،اورزہری نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد ابن عمرسے روایت کی ہے۔ معمر ، یونس بن یزید اور حفاظ میں سے اوربھی کئی لوگوں نے زہری سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ جنازے کے آگے چلتے تھے۔زہری کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبردی ہے کہ ان کے والد جنازے کے آگے چلتے تھے۔
تمام محدّثین کی رائے ہے کہ مرسل حدیث ہی اس باب میں زیادہ صحیح ہے،۲- ابن مبارک کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں زہری کی حدیث مرسل ہے، اور ابن عیینہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ،۳- ابن مبارک کہتے ہیں کہ میراخیال ہے کہ ابن جریج نے یہ حدیث ابن عیینہ سے لی ہے،۴- ہمام بن یحییٰ نے یہ حدیث زیادبن سعد ،منصور ، بکر اور سفیان سے اور ان لوگوں نے زہری سے ، زہری نے سالم بن عبداللہ سے اورسالم نے اپنے والدابن عمر سے روایت کی ہے۔ اورسفیان سے مراد سفیان بن عیینہ ہیں جن سے ہمام نے روایت کی ہے،۵- اس باب میں انس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، انس کی حدیث اس باب میں غیر محفوظ ہے ۱؎ ، ۶- جنازے کے آگے چلنے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ جنازے کے آگے چلنا افضل ہے۔ شافعی اور احمد اسی کے قائل ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : ملاحظہ ہو اگلی حدیث (۱۰۱۰) رہی ابن مسعود کی روایت جو آگے آرہی ہے'' الجنازة متبوعة ولا تتبع وليس منها من تقدمها '' تویہ روایت صحیح نہیں ہے جیساکہ آگے اس کی تفصیل آرہی ہے ۔(ملاحظہ ہو:۱۰۱۱)


1010- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ كَانُوا يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ خَطَأٌ، أَخْطَأَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ. وَإِنَّمَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ كَانُوا يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ. قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَأَخْبَرَنِي سَالِمٌ أَنَّ أَبَاهُ كَانَ يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ. قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا أَصَحُّ.
* تخريج: ق/الجنائز ۱۶ (۱۴۸۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۲) (صحیح)
۱۰۱۰- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ ، ابوبکر ، عمر اورعثمان رضی اللہ عنہم جنازے کے آگے چلتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا، توانہوں نے کہا: یہ حدیث غلط ہے اس میں محمد بن بکر نے غلطی کی ہے۔ یہ حدیث یونس سے روایت کی جاتی ہے، اوریونس زہری سے (مرسلاً) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ، ابوبکر اورعمر جنازے کے آگے چلتے تھے۔زہری کہتے ہیں: مجھے سالم بن عبداللہ نے خبردی ہے کہ ان کے والد جنازے کے آگے آگے چلتے تھے،۲- محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: یہ زیادہ صحیح ہے۔(دیکھئے سابقہ حدیث ۱۰۰۹)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
27-بَاب مَا جَاءَ فِي الْمَشْيِ خَلْفَ الْجَنَازَةِ
۲۷-باب: جنازے کے پیچھے چلنے کا بیان​


1011- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَحْيَى إِمَامِ بَنِي تَيْمِ اللهِ، عَنْ أَبِي مَاجِدٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: سَأَلْنَا رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنْ الْمَشْيِ خَلْفَ الْجَنَازَةِ. قَالَ: "مَا دُونَ الْخَبَبِ، فَإِنْ كَانَ خَيْرًا عَجَّلْتُمُوهُ، وَإِنْ كَانَ شَرًّا فَلاَ يُبَعَّدُ إِلاَّ أَهْلُ النَّارِ، الْجَنَازَةُ مَتْبُوعَةٌ وَلاَ تَتْبَعُ وَلَيْسَ مِنْهَا مَنْ تَقَدَّمَهَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ يُعْرَفُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يُضَعِّفُ حَدِيثَ أَبِي مَاجِدٍ لِهَذَا. و قَالَ مُحَمَّدٌ: قَالَ الْحُمَيْدِيُّ: قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: قِيلَ لِيَحْيَى: مَنْ أَبُو مَاجِدٍ هَذَا؟ قَالَ: طَائِرٌ طَارَ فَحَدَّثَنَا. وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا. رَأَوْا أَنَّ الْمَشْيَ خَلْفَهَا أَفْضَلُ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَإِسْحَاقُ قَالَ: إِنَّ أَبَا مَاجِدٍ رَجُلٌ مَجْهُولٌ لاَ يُعْرَفُ إِنَّمَا يُرْوَى عَنْهُ حَدِيثَانِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ. وَيَحْيَى إِمَامُ بَنِي تَيْمِ اللهِ ثِقَةٌ. يُكْنَى أَبَا الْحَارِثِ. وَيُقَالُ لَهُ يَحْيَى الْجَابِرُ. وَيُقَالُ لَهُ يَحْيَى الْمُجْبِرُ أَيْضًا. وَهُوَ كُوفِيٌّ، رَوَى لَهُ شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَأَبُو الأَحْوَصِ وَسُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ.
* تخريج: د/الجنائز ۵۰ (۳۰۸۴)، ق/الجنائز ۱۶ (۱۴۸۴) (ضعیف)
(سند میں یحییٰ الجابرلین الحدیث ، اور ابوماجدمجہول ہیں)
۱۰۱۱- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے جنازے کے پیچھے چلنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:''ایسی چال چلے جودُلکی چال سے دھیمی ہو۔ اگر وہ نیک ہے توتم اسے جلدی قبرمیں پہنچادوگے اور اگر برا ہے توجہنمیوں ہی کو دور ہٹایاجاتاہے۔ جنازہ کے پیچھے چلنا چاہئے، اس سے آگے نہیں ہوناچاہئے ، جو جنازہ کے آگے چلے وہ اس کے ساتھ جانے والوں میں سے نہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث عبداللہ بن مسعود سے صر ف اسی سند سے جانی جاتی ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو ابوحامد کی اس حدیث کوضعیف بتاتے سناہے، ۳- محمدبن اسماعیل بخاری کا بیان ہے کہ حمیدی کہتے ہیں کہ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ یحییٰ بن معین سے پوچھاگیا: ابوماجد کو ن ہیں؟ توانہوں نے کہا: ایک اڑتی چڑیاہے جس سے ہم نے روایت کی ہے، یعنی مجہول راوی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
28-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الرُّكُوبِ خَلْفَ الْجَنَازَةِ
۲۸-باب: جنازے کے پیچھے سواری پر چلنے کی کراہت کا بیان​


1012- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي جَنَازَةٍ. فَرَأَى نَاسًا رُكْبَانًا. فَقَالَ: "أَلاَ تَسْتَحْيُونَ؟ إِنَّ مَلاَئِكَةَ اللهِ عَلَى أَقْدَامِهِمْ وَأَنْتُمْ عَلَى ظُهُورِ الدَّوَابِّ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ثَوْبَانَ قَدْ رُوِيَ عَنْهُ مَوْقُوفًا. قَالَ مُحَمَّدٌ: الْمَوْقُوفُ مِنْهُ أَصَحُّ.
* تخريج: ق/الجنائز ۱۵ (۱۴۸۰) (ضعیف)
(سند میں ابوبکربن ابی مریم ضعیف ہیں)
۱۰۱۲- ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک جنازے میں نکلے ،آپ نے کچھ لوگوں کو سوار دیکھا تو فرمایا: ''کیا تمہیں شرم نہیں آتی؟ اللہ کے فرشتے پیدل چل رہے ہیں اور تم جانوروں کی پیٹھوں پر بیٹھے ہو'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ثوبان کی حدیث ، ان سے موقوفاً بھی مروی ہے۔ محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: ان کی موقوف روایت زیادہ صحیح ہے،۲- اس باب میں مغیرہ بن شعبہ اور جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث جنازہ کے پیچھے سوارہوکرچلنے کی کراہت پردلالت کرتی ہے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی روایت اس کے معارض ہے جس میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا '' الراكب يسير خلف الجنازة والماشي يمشي خلفها وأمامها عن يمينها ويسارها قريبا منها'' (سوارآدمی جنازے کے پیچھے چلتاہے جب کہ پیدل چلنے والا اُس کے پیچھے ، آگے ، دائیں، بائیں قریب ہوکرچلتاہے۔ ان دونوں روایتوں میں تطبیق کئی طرح سے دی جاتی ہے ایک یہ کہ ثوبان کی روایت ضعیف ہے، دوسرے یہ کہ یہ غیرمعذورکے سلسلہ میں ہے اورمغیرہ بن شعبہ کی روایت معذورشخص کے سلسلہ میں ہے، تیسرے یہ کہ ثوبان کی روایت میں یہ نہیں ہے کہ وہ سوارجنازے کے پیچھے تھے، ہوسکتا ہے کہ وہ جنازے کے آگے رہے ہوں یا جنازہ کے بغل میں رہے ہوں اس صورت میں یہ مغیرہ کی حدیث کے منافی نہ ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
29-بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
۲۹-باب: جنازے کے پیچھے سواری پر چلنے کی رخصت کا بیان​


1013- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكٍ، قَال: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي جَنَازَةِ أَبِي الدَّحْدَاحِ، وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لَهُ يَسْعَى، وَنَحْنُ حَوْلَهُ وَهُوَ يَتَوَقَّصُ بِهِ.
* تخريج: م/الجنائز ۲۸ (۹۶۵)، د/الجنائز ۴۸ (۳۱۷۸)، حم (۵/۹۰) (تحفۃ الأشراف: ۲۱۸۰) (صحیح) وأخرجہ : ن/الجنائز ۹۵ (۲۰۲۸) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۰۱۳- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرمﷺ کے ساتھ ابودحداح کے جنازے میں تھے ،آپ لوٹتے وقت ایک گھوڑے پر سوار تھے جوتیز چل رہاتھا، ہم اس کے اردگرد تھے اوروہ آپ کولے کراچھلتے ہوئے چل رہاتھا۔


1014- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ، عَنْ الْجَرَّاحِ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اتَّبَعَ جَنَازَةَ أَبِي الدَّحْدَاحِ مَاشِيًا وَرَجَعَ عَلَى فَرَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۱۴۳) (صحیح)
۱۰۱۴- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ابودحداح کے جنازہ کے پیچھے پیدل گئے اور گھوڑے پر سوار ہوکر لوٹے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس میں اس بات پردلیل ہے کہ جنازے سے واپسی میں سوارہوکرواپس آناجائزہے، علماء اسے بلاکراہت جائزقراردیتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
30-بَاب مَا جَاءَ فِي الإِسْرَاعِ بِالْجَنَازَةِ
۳۰-باب: جنازہ تیزی سے لے جانے کا بیان​


1015- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "أَسْرِعُوا بِالْجَنَازَةِ فَإِنْ يَكُنْ خَيْرًا تُقَدِّمُوهَا إِلَيْهِ. وَإِنْ يَكُنْ شَرًّا تَضَعُوهُ عَنْ رِقَابِكُمْ".
وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجنائز ۵۱ (۱۳۱۵)، م/الجنائز ۱۶ (۹۴۴)، د/الجنائز ۵۰ (۳۱۸۱)، ن/الجنائز ۴۴ (۱۹۱۱)، ق/الجنائز ۱۵ (۱۴۷۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲۴) (صحیح)
وأخرجہ مالک/الجنائز ۱۶ (۵۶)، موقوفا علی أبي ہریرۃ۔
۱۰۱۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جنازہ تیزی سے لے کر چلو ۱؎ ، اگروہ نیک ہوگا تو اسے خیرکی طرف جلدی پہنچا دوگے، اور اگر وہ برا ہوگا تو اسے اپنی گردن سے اتار کر(جلد) رکھ دوگے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوبکرہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : جمہورکے نزدیک امراستحباب کے لیے ہے، ابن حزم کہتے ہیں کہ وجوب کے لیے ہے۔
 
Top