• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
31-بَاب مَا جَاءَ فِي قَتْلَى أُحُدٍ وَذِكْرِ حَمْزَةَ
۳۱-باب: شہدائے اُحد اور حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کا ذکر​


1016- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ ابْنِ مَالِكٍ، قَالَ: أَتَى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَلَى حَمْزَةَ يَوْمَ أُحُدٍ. فَوَقَفَ عَلَيْهِ فَرَآهُ قَدْ مُثِّلَ بِهِ. فَقَالَ: "لَوْلاَ أَنْ تَجِدَ صَفِيَّةُ فِي نَفْسِهَا، لَتَرَكْتُهُ حَتَّى تَأْكُلَهُ الْعَافِيَةُ، حَتَّى يُحْشَرَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ بُطُونِهَا". قَالَ: ثُمَّ دَعَا بِنَمِرَةٍ فَكَفَّنَهُ فِيهَا. فَكَانَتْ إِذَا مُدَّتْ عَلَى رَأْسِهِ بَدَتْ رِجْلاَهُ. وَإِذَا مُدَّتْ عَلَى رِجْلَيْهِ بَدَا رَأْسُهُ. قَالَ: فَكَثُرَ الْقَتْلَى وَقَلَّتِ الثِّيَابُ. قَالَ: فَكُفِّنَ الرَّجُلُ وَالرَّجُلاَنِ وَالثَّلاَثَةُ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ. ثُمَّ يُدْفَنُونَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَسْأَلُ عَنْهُمْ <أَيُّهُمْ أَكْثَرُ قُرْآنًا> فَيُقَدِّمُهُ إِلَى الْقِبْلَةِ. قَالَ: فَدَفَنَهُمْ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. النَّمِرَةُ الْكِسَائُ الْخَلَقُ. وَقَدْ خُولِفَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ. فَرَوَى اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ زَيْدٍ. وَرَوَى مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، عَنْ جَابِرٍ وَلاَ نَعْلَمُ أَحَدًا ذَكَرَهُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَنَسٍ إِلاَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ. وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ؟ فَقَالَ: حَدِيثُ اللَّيْثِ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ جَابِرٍ أَصَحُّ.
* تخريج: د/الجنائز ۳۱ (۳۱۳۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۷۷) (صحیح)
(وقال في حدیث أبي داود: حسن) وہو الصواب، لأن ''أسامۃ اللیثي صدوق بہم)
۱۰۱۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ احد کے دن حمزہ (کی لاش) کے پاس آئے۔آپ اس کے پاس رُکے ،آپ نے دیکھا کہ لاش کا مثلہ ۱؎ کردیاگیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ''اگر صفیہ (حمزہ کی بہن ) اپنے دل میں برانہ مانتیں تو میں انہیں یوں ہی (دفن کیے بغیر ) چھوڑدیتا یہاں تک کہ درندو پرندانہیں کھاجاتے ۔ پھر وہ قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے اٹھائے جاتے''، پھر آپﷺ نے نمر( ایک پرانی چادر) منگوائی اور حمزہ کو اس میں کفنایا۔ جب آپ چادر ان کے سر کی طرف کھینچتے توان کے دونوں پیر کھل جاتے اور جب ان کے دونوں پیروں کی طرف کھینچتے تو سرکھل جاتا۔مقتولین کی تعدادبڑھ گئی اورکپڑے کم پڑگئے تھے، چنانچہ ایک ایک دو دو اور تین تین آدمیوں کو ایک کپڑے میں کفنایا جاتا، پھر وہ سب ایک قبر میں دفن کردیئے جاتے۔ رسول اللہ ﷺ ان کے بارے میں پوچھتے کہ ان میں کس کوقرآن زیادہ یادتھاتوآپ اسے آگے قبلہ کی طرف کردیتے، رسول اللہ ﷺ نے ان مقتولین کو دفن کیا اور ان پر صلاۃ نہیں پڑھی ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- انس کی حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے انس کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں ،۲- اس حدیث کی روایت میں اسامہ بن زید کی مخالفت کی گئی ہے۔ لیث بن سعد بسند ابن شہاب الزہری عن عبدالرحمن بن کعب بن مالک عن جابربن عبداللہ بن زید ۳؎ روایت کی ہے اورمعمرنے بسندزہری عن عبداللہ بن ثعلبہ عن جابر روایت کی ہے ۔ہمارے علم میں سوائے اسامہ بن زید کے کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس نے زہری کے واسطے سے انس سے روایت کی ہو ،۳- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: لیث کی حدیث بسند ابن شہاب عن عبدالرحمن بن کعب بن مالک عن جابر زیادہ صحیح ہے،۴- نمرہ: پرانی چادر کو کہتے ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : ناک کان اورشرمگاہ وغیرہ کاٹ ڈالنے کومثلہ کہتے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ شہیدپرجنازہ کی صلاۃنہیں پڑھی جائیگی ان کااستدلال اسی حدیث سے ہے، اور جولوگ یہ کہتے ہیں کہ شہیدپر صلاۃ جنازہ پڑھی جائے گی وہ اس کی تاویل یہ کر تے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے ان میں سے کسی پراس طرح صلاۃنہیں پڑھی جیسے حمزہ رضی اللہ عنہ پرکئی بارپڑھی۔
وضاحت ۳؎ : تمام نسخوں میں اسی طرح ''جابر بن عبد اللہ بن زید'' ہے جب کہ اس نام کے کسی صحابی کا تذکرہ کسی مصدر میں نہیں ملا، اور کتب تراجم میں سب نے ''عبدالرحمن بن کعب بن مالک'' کے اساتذہ میں معروف صحابی ''جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حرام'' ہی کا لکھا ہے، نیز ''جابر بن عبداللہ بن عمرو'' ہی کے تلامذہ میں ''عبدالرحمن بن کعب بن مالک'' کا نام آیا ہواہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
32-بَاب آخَرُ
۳۲-باب: جنازہ سے متعلق ایک اورباب​


1017- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ مُسْلِمٍ الأَعْوَرِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَعُودُ الْمَرِيضَ، وَيَشْهَدُ الْجَنَازَةَ، وَيَرْكَبُ الْحِمَارَ، وَيُجِيبُ دَعْوَةَ الْعَبْدِ. وَكَانَ، يَوْمَ بَنِي قُرَيْظَةَ، عَلَى حِمَارٍ مَخْطُومٍ بِحَبْلٍ مِنْ لِيفٍ، عَلَيْهِ إِكَافٌ مِنْ لِيفٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُسْلِمٍ عَنْ أَنَسٍ. وَمُسْلِمٌ الأَعْوَرُ يُضَعَّفُ. وَهُوَ مُسْلِمُ بْنُ كَيْسَانَ الْمُلاَئِيُّ تُكُلِّمَ فِيهِ. وَقَدْ رَوَى عَنْهُ شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ.
* تخريج: د/التجارات ۶۶ (۲۲۹۶)، والزہد ۱۶ (۴۱۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۸) (ضعیف)
(سند میں مسلم بن کیسان الاعورضعیف ہیں)
۱۰۱۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مریض کی عیادت کرتے ، جنازے میں شریک ہوتے، گدھے کی سواری کرتے اور غلام کی دعوت قبول فرماتے تھے۔ بنوقریظہ ۱؎ والے دن آپ ایک ایسے گدھے پر سوار تھے ، جس کی لگام کھجور کی چھال کی رسی کی تھی، اس پر زین بھی چھال ہی کی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ہم اس حدیث کوصرف مسلم کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ انس سے روایت کرتے ہیں۔ اور مسلم اعور ضعیف گردانے جاتے ہیں۔ یہی مسلم بن کیسان مُلائی ہیں، جس پرکلام کیاگیا ہے ،ان سے شعبہ اور سفیان نے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : خیبرکے یہودیوں کا ایک قبیلہ ہے یہ واقعہ ذی قعدہ ۵ھ؁کا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
33-باب
۳۳-باب: دفن سے متعلق ایک اورباب​


1018- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللهِ ﷺ اخْتَلَفُوا فِي دَفْنِهِ. فَقَالَ أَبُوبَكْرٍ: سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ شَيْئًا مَا نَسِيتُهُ. قَالَ: مَا قَبَضَ اللهُ نَبِيًّا إِلاَّ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُدْفَنَ فِيهِ. ادْفِنُوهُ فِي مَوْضِعِ فِرَاشِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَعَبْدُ الرَّحْماَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُلَيْكِيُّ يُضَعَّفُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ. فَرَوَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَيْضًا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۶۳۷ و۱۶۲۴۵) (صحیح)
(سند میں عبدالرحمن بن ابی ملیکہ ضعیف راوی ہیں،لیکن متابعات کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے )
۱۰۱۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کی تدفین کے سلسلے میں لوگوں میں اختلاف ہوا ۱؎ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ سے ایک ایسی بات سنی ہے جو میں بھولا نہیں ہوں، آپ نے فرمایا:'' جتنے بھی نبی ہوئے ہیں اللہ نے ان کی روح وہیں قبض کی ہے جہاں وہ دفن کیاجاناپسندکرتے تھے (اس لیے ) تم لوگ انہیں ان کے بسترہی کے مقام پردفن کرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، عبدالرحمن بن ابی بکر ملیکی اپنے حفظ کے تعلق سے ضعیف گردانے جاتے ہیں، ۲- یہ حدیث اس کے علاوہ طریق سے بھی مروی ہے۔ ابن عباس نے ابوبکر صدیق سے اور انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : بعض کی رائے تھی کہ مکہ میں دفن کیا جائے بعض کی مدینہ میں اوربعض کی بیت المقدس میں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
34-بَاب آخَرُ
۳۴-باب: میت سے متعلق ایک اور باب​


1019- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَنَسٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "اذْكُرُوا مَحَاسِنَ مَوْتَاكُمْ، وَكُفُّوا عَنْ مَسَاوِيهِمْ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: عِمْرَانُ بْنُ أَنَسٍ الْمَكِّيُّ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ. وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ عَطَائٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَ: وَعِمْرَانُ بْنُ أَبِي أَنَسٍ مِصْرِيٌّ، أَقْدَمُ وَأَثْبَتُ مِنْ عِمْرَانَ بْنِ أَنَسٍ الْمَكِّيِّ.
* تخريج: د/الأدب ۵۰ (۴۹۰۰) (تحفۃ الأشراف: ۷۳۲۸) (ضعیف)
(سند میں عمران بن انس مکی ضعیف ہیں)
۱۰۱۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم اپنے مُردوں کی اچھائیوں کو ذکرکیا کرو اور ان کی برائیاں بیان کرنے سے بازرہو''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱ - یہ حدیث غریب ہے،۲- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کوکہتے سناکہ عمران بن انس مکی منکرالحدیث ہیں، ۲- بعض نے عطا سے اور عطا نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے، ۳- عمران بن ابی انس مصری عمران بن انس مکی سے پہلے کے ہیں اوران سے زیادہ ثقہ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
35-بَاب مَا جَاءَ فِي الْجُلُوسِ قَبْلَ أَنْ تُوضَعَ
۳۵-باب: جنازہ رکھے جانے سے پہلے بیٹھنے کا بیان​


1020- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، عَنْ بِشْرِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا اتَّبَعَ الْجَنَازَةَ لَمْ يَقْعُدْ حَتَّى تُوضَعَ فِي اللَّحْدِ. فَعَرَضَ لَهُ حَبْرٌ فَقَالَ : هَكَذَا نَصْنَعُ يَا مُحَمَّدُ!. قَالَ: فَجَلَسَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَقَالَ: "خَالِفُوهُمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَبِشْرُ بْنُ رَافِعٍ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ.
* تخريج: د/الجنائز ۴۷ (۳۱۷۶)، ق/الجنائز ۳۵ (۱۵۴۵) (تحفۃ الأشراف: ۵۰۷۶) (حسن)
(سند میں بشر بن رافع ضعیف راوی ہیں،لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، /دیکھیے الأرواء ۳/۱۹۳)
۱۰۲۰- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کسی جنازے کے ساتھ جاتے تو جب تک جنازہ لحد (بغلی قبر)میں رکھ نہ دیاجاتا، نہیں بیٹھتے۔ ایک یہودی عالم نے آپ کے پاس آکرکہا: محمد!ہم بھی ایساہی کرتے ہیں، تو رسول اللہ ﷺ بیٹھنے لگ گئے اور فرمایا:''تم ان کی مخالفت کرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- بشر بن رافع حدیث میں زیادہ قوی نہیں ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
36-بَاب فَضْلِ الْمُصِيبَةِ إِذَا احْتَسَبَ
۳۶-باب: مصیبت پر ثواب کی نیت سے صبرکرنے کی فضیلت کا بیان​


1021-حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، قَالَ: دَفَنْتُ ابْنِي سِنَانًا. وَأَبُو طَلْحَةَ الْخَوْلاَنِيُّ جَالِسٌ عَلَى شَفِيرِ الْقَبْرِ. فَلَمَّا أَرَدْتُ الْخُرُوجَ أَخَذَ بِيَدِي، فَقَالَ: أَلاَ أُبَشِّرُكَ يَا أَبَا سِنَانٍ! قُلْتُ: بَلَى، فَقَالَ: حَدَّثَنِي الضَّحَّاكُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَرْزَبٍ عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِذَا مَاتَ وَلَدُ الْعَبْدِ، قَالَ اللهُ لِمَلاَئِكَتِهِ: قَبَضْتُمْ وَلَدَ عَبْدِي! فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، فَيَقُولُ: قَبَضْتُمْ ثَمَرَةَ فُؤَادِهِ! فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، فَيَقُولُ: مَاذَا قَالَ عَبْدِي؟ فَيَقُولُونَ: حَمِدَكَ وَاسْتَرْجَعَ. فَيَقُولُ اللهُ: ابْنُوا لِعَبْدِي بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ. وَسَمُّوهُ بَيْتَ الْحَمْدِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وانظر : حم (۴/۴۱۵) (تحفۃ الأشراف: ۹۰۰۵) (حسن)
( دیکھئے: الصحیحۃ ۱۴۰۸)
۱۰۲۱- ابوسنان کہتے ہیں کہ میں نے اپنے بیٹے سنا ن کو دفن کیااور ابوطلحہ خولانی قبر کی منڈیرپر بیٹھے تھے، جب میں نے (قبرسے ) نکلنے کاارادہ کیا تووہ میرا ہاتھ پکڑکرکہا: ابوسنان! کیا میں تمہیں بشارت نہ دوں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں ضروردیجئے، تو انہوں نے کہا: مجھ سے ضحاک بن عبدالرحمن بن عرزب نے بیان کیاکہ ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جب بندے کا بچہ ۱؎ فوت ہوجاتاہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے پوچھتاہے: تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کر لی؟تووہ کہتے ہیں: ہاں، پھر فرماتاہے: تم نے اس کے دل کاپھل لے لیا؟ وہ کہتے ہیں: ہاں۔ تواللہ تعالیٰ پوچھتاہے: میرے بندے نے کیاکہا؟ وہ کہتے ہیں:اس نے تیری حمد بیان کی اور''إنا لله وإنا إليه راجعون '' پڑھاتو اللہ تعالیٰ فرماتاہے: میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنادو اور اس کانام بیت الحمد رکھّو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : بچہ سے مراد مطلق اولاد ہے خواہ مذکرہویامؤنث۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
37-بَاب مَا جَاءَ فِي التَّكْبِيرِ عَلَى الْجَنَازَةِ
۳۷-باب: صلاۃِ جنازہ کی تکبیرات کا بیان​


1022- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى عَلَى النَّجَاشِيِّ فَكَبَّرَ أَرْبَعًا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ أَبِي أَوْفَى، وَجَابِرٍ، وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَيَزِيدُ بْنُ ثَابِتٍ هُوَ أَخُو زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ. وَهُوَ أَكْبَرُ مِنْهُ. شَهِدَ بَدْرًا، وَزَيْدٌ لَمْ يَشْهَدْ بَدْرًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. يَرَوْنَ التَّكْبِيرَ عَلَى الْجَنَازَةِ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: خ/الجنائز ۵۴ (۱۳۱۸)، ن/الجنائز ۷۲ (۱۹۷۴)، ق/الجنائز ۳۳ (۱۵۳۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۶۷) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/الجنائز ۴ (۱۲۴۵)، و۶۴ (۱۳۳۳)، والمناقب ۳۸ (۳۸۸۰، ۳۸۸۱)، م/الجنائز ۲۲ (۹۵۱)، د/الجنائز ۶۲ (۳۲۰۴)، ن/الجنائز ۷۲ (۱۹۷۳)، و۷۶ (۱۹۸۲)، ط/الجنائز ۵ (۱۴)، حم (۲/۲۸۹، ۴۳۸، ۵۲۹) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۰۲۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے نجاشی کی صلاۃ جنازہ پڑھی توآپ نے چارتکبیریں کہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عباس، ابن ابی اوفیٰ، جابر ، یزید بن ثابت اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۳- یزید بن ثابت: زید بن ثابت کے بھائی ہیں۔ یہ ان سے بڑے ہیں ۔ یہ بدر میں شریک تھے اور زید بدر میں شریک نہیں تھے،۴- صحابہ کرام میں سے اکثراہل علم کااسی پرعمل ہے۔ ان لوگوں کی رائے ہے کہ صلاۃ جنازہ میں چار تکبیریں ہیں۔ سفیان ثوری ، مالک بن انس، ا بن مبارک ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔


1023- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: كَانَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ يُكَبِّرُ عَلَى جَنَائِزِنَا أَرْبَعًا. وَإِنَّهُ كَبَّرَ عَلَى جَنَازَةٍ خَمْسًا، فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُكَبِّرُهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، رَأَوْا التَّكْبِيرَ عَلَى الْجَنَازَةِ خَمْسًا. وقَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ: إِذَا كَبَّرَ الإَِمَامُ عَلَى الْجَنَازَةِ خَمْسًا، فَإِنَّهُ يُتَّبَعُ الإِمَامُ.
* تخريج: م/الجنائز ۲۳ (۹۵۷)، د/الجنائز ۵۸ (۳۱۹۷)، ن/الجنائز ۷۶ (۱۹۸۴)، ق/الجنائز ۲۵ (۱۵۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۷۱)، حم (۴/۳۶۷، ۳۶۸، ۳۷۰، ۳۷۲) (صحیح)
۱۰۲۳- عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید بن ارقم ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہتے تھے۔ انہوں نے ایک جنازے پر پانچ تکبیریں کہیں ہم نے ان سے اس کی وجہ پوچھی، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ ایسابھی کہتے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- زید بن ارقم کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جنازے میں پانچ تکبیریں ہیں،۳- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: جب امام جنازے میں پانچ تکبیریں کہے توامام کی پیروی کی جائے ( یعنی مقتدی بھی پانچ کہیں)۔
وضاحت ۱؎ : اس روایت سے معلوم ہواکہ صلاۃِجنازہ میں چارسے زیادہ تکبیریں بھی جائزہیں، نبی کریم ﷺسے اورصحابہ کرام سے پانچ ، چھ، سات اورآٹھ تکبیریں بھی منقول ہیں، لیکن اکثرروایات میں چارتکبیروں ہی کاذکرہے، بیہقی وغیرہ میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کے باہمی مشورے سے چارتکبیروں کاحکم صادرفرمایا،بعض نے اسے اجماع قراردیا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، علی رضی اللہ عنہ وغیرہ سے چارسے زائدتکبیریں بھی ثابت ہیں، چوتھی تکبیرکے بعدکی تکبیرات میں میت کے لیے دعاہوتی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
38-بَاب مَا يَقُولُ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْمَيِّتِ
۳۸-باب: صلاۃِ جنازہ میں کیا دعا پڑھے؟​


1024- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا هِقْلُ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو إِبْرَاهِيمَ الأَشْهَلِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا صَلَّى عَلَى الْجَنَازَةِ، قَالَ: "اللّهُمَّ! اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا، وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا، وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا". قَالَ يَحْيَى: وَحَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَ ذَلِكَ. وَزَادَ فِيهِ <اللَّهُمَّ! مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الإِسْلاَمِ، وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الإِيمَانِ>. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَعَائِشَةَ وَأَبِي قَتَادَةَ وَعَوْفِ بْنِ مَالِكٍ وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ وَالِدِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرَوَى هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ وَعَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً. وَرَوَى عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَحَدِيثُ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ غَيْرُ مَحْفُوظٍ. وَعِكْرِمَةُ رُبَّمَا يَهِمُ فِي حَدِيثِ يَحْيَى. وَرُوِي عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: أَصَحُّ الرِّوَايَاتِ فِي هَذَا حَدِيثُ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي إِبْرَاهِيمَ الأَشْهَلِيِّ، عَنْ أَبِيهِ. وَسَأَلْتُهُ عَنْ اسْمِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ فَلَمْ يَعْرِفْهُ.
* تخريج: ن/عمل الیوم واللیلۃ ۳۱۴ (۱۰۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۸۷) (صحیح)
(سند میں ابوابراہیم اشہلی لین الحدیث راوی ہیں،لیکن شواہد ومتابعات کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے)
۱۰۲۴- ابوابراہیم اشہلی کے والد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب صلاۃِ جنازہ پڑھتے تو یہ دعا پڑھتے : ''اللّهُمَّ! اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا، وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا، وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا'' (اے اللہ! بخش دے ہمارے زندوں کو ، ہمارے مردوں کو ،ہمارے حاضر کو اورہمارے غائب کو، ہمارے چھوٹے کو اورہمارے بڑے کو، ہمارے مردوں کو اورہماری عورتوں کو)۔یحیی بن ابی کثیرکہتے ہیں : ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے مجھ سے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ البتہ اس میں اتنا زیادہ ہے:''اللّهُمَّ! مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الإِسْلاَمِ. وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الإِيمَانِ''. ( اے اللہ ! ہم میں سے جسے تو زندہ رکھ، اسے اسلام پر زندہ رکھ اور جسے موت دے اسے ایمان پر موت دے)
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوابراہیم کے والد کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- ہشام دستوائی اورعلی بن مبارک نے یہ حدیث بطریق: ''يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة، عن النبي ﷺ'' مرسلاً روایت کی ہے، اور عکرمہ بن عمارنے بطریق : ''يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة، عن عائشة، عن النبي ﷺ'' روایت کی ہے۔ عکرمہ بن عمار کی حدیث غیر محفوظ ہے۔ عکرمہ کو بسااوقات یحییٰ بن ابی کثیرکی حدیث میں وہم ہوجاتا ہے۔ نیزیہ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍسے عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. کے طریق سے بھی مروی ہے، میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سناکہ اس سلسلے میں یحییٰ بن ابی کثیر کی حدیث جسے انہوں نے بطریق: ''أبي إبراهيم الأشهلي، عن أبيه'' روایت کی ہے سب سے زیادہ صحیح روایت ہے۔میں نے ان سے ابوابراہیم کانام پوچھا تووہ اُسے نہیں جان سکے،۲- اس باب میں عبدالرحمن ، عائشہ ، ابوقتادہ ، عوف بن مالک اور جابر رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔


1025- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَانِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يُصَلِّي عَلَى مَيِّتٍ. فَفَهِمْتُ مِنْ صَلاَتِهِ عَلَيْهِ "اللّهُمَّ! اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَاغْسِلْهُ بِالْبَرَدِ. وَاغْسِلْهُ كَمَا يُغْسَلُ الثَّوْبُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ مُحَمَّدٌ: أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ، هَذَا الْحَدِيثُ.
* تخريج: م/الجنائز ۲۶ (۹۶۳)، ن/الطہارۃ ۵۰ (۶۲)، والجنائز ۷۷ (۱۹۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۰۱)، حم (۶/۲۸) (صحیح) وأخرجہ کل من : ق/الجنائز ۲۳ (۱۵۰۰)، حم (۶/۲۳) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۰۲۵- عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو میت پر صلاۃِجنازہ پڑھتے سناتو میں نے اس پرآپ کی صلاۃسے یہ کلمات یاد کیے:''اللّهُمَّ! اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَاغْسِلْهُ بِالْبَرَدِ. وَاغْسِلْهُ كَمَا يُغْسَلُ الثَّوْبُ ''(اے اللہ ! اسے بخش دے ، اس پر رحم فرما، اسے برف سے دھودے ،اور اسے (گناہوں سے) ایسے دھودے جیسے کپڑے دھوئے جاتے ہیں) ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس باب کی سب سے صحیح یہی حدیث ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
39-بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِرَائَةِ عَلَى الْجَنَازَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
۳۹-باب: صلاۃِ جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کا بیان​


1026- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَرَأَ عَلَى الْجَنَازَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ شَرِيكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِذَلِكَ الْقَوِيِّ. إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ هُوَ أَبُو شَيْبَةَ الْوَاسِطِيُّ، مُنْكَرُ الْحَدِيثِ وَالصَّحِيحُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلُهُ (مِنْ السُّنَّةِ الْقِرَائَةُ عَلَى الْجَنَازَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ).
* تخريج: ق/الجنائز ۲۲ (۱۴۹۵)، انظر الحدیث الآتي (تحفۃ الأشراف: ۶۴۶۸) (صحیح)
(اگلی اثر کی متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ''ابراہیم بن عثمان'' ضعیف ہیں )
۱۰۲۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے جنازے میں سورۂ فاتحہ پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی سند قوی نہیں ہے،۲- ابراہیم بن عثمان ہی ابوشیبہ واسطی ہیں اور وہ منکرالحدیث ہیں۔صحیح چیز جو ابن عباس سے مروی ہے کہ ـ جنازے کی صلاۃ میں سورۂ فاتحہ پڑھنا سنت میں سے ہے،۳- اس باب میں ام شریک سے بھی روایت ہے۔


1027- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ عَوْفٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ. فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ. فَقُلْتُ لَهُ؟ فَقَالَ: إِنَّهُ مِنْ السُّنَّةِ أَوْ مِنْ تَمَامِ السُّنَّةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. يَخْتَارُونَ أَنْ يُقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ بَعْدَ التَّكْبِيرَةِ الأُولَى. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لاَ يُقْرَأُ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْجَنَازَةِ. إِنَّمَا هُوَ ثَنَائٌ عَلَى اللهِ، وَالصَّلاَةُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ، وَالدُّعَائُ لِلْمَيِّتِ. وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَغَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ. وَطَلْحَةُ بْنُ عَبْدِاللهِ بْنِ عَوْفٍ هُوَ ابْنُ أَخِي عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ. رَوَى عَنْهُ الزُّهْرِيُّ.
* تخريج: خ/الجنائز ۶۵ (۱۳۳۵)، د/الجنائز ۵۹ (۳۱۹۸)، ن/الجنائز ۷۷ (۱۹۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۶۴) (صحیح)
۱۰۲۷- طلحہ بن عوف کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک صلاۃِ جنازہ پڑھایاتوانہوں نے سورۂ فاتحہ پڑھی۔ میں نے ان سے(اس کے بارے میں) پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ سنت ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- طلحہ بن عبداللہ بن عوف ، عبدالرحمن بن عوف کے بھتیجے ہیں۔ان سے زہری نے روایت کی ہے،۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے یہ لوگ تکبیر اولیٰ کے بعد سورۂ فاتحہ پڑھنے کوپسندکرتے ہیں یہی شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۴- اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ صلاۃ جنازہ میں سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی ۱؎ اس میں تو صرف اللہ کی ثنا ،نبی اکرمﷺ پر صلاۃ (درود) اور میت کے لیے دعاہوتی ہے۔اہل کوفہ میں سے ثوری وغیرہ کا یہی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : ان لوگوں کاکہناہے کہ جن روایتوں سے پہلی تکبیرکے بعدسورئہ فاتحہ کاپڑھنا ثابت ہوتا ہے ان کی تاویل یہ کی جائیگی کہ یہ قرأت کی نیت سے نہیں بلکہ دعاکی نیت سے پڑھی گئی تھی لیکن یہ محض تاویل ہے جس پر کوئی دلیل نہیں۔مبتدعین کی حرکات بھی عجیب وغریب ہواکرتی ہیں ، نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام سے صلاۃِ جنازہ میں ثابت سورۃ الفاتحہ صلاۃِ جنازہ میں نہیں پڑھیں گے اور رسم قُل ، تیجا، ساتویں وغیرہ میں فاتحہ کارٹہ لگائیں گے اور وہ بھی معلوم نہیں کون سی فاتحہ پڑھتے ہیں حقہ کے بغیر اُن کے ہاں قبول ہی نہیں ہوتی ۔ فيا عجبا لهذه الخرافات.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
40-بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْجَنَازَةِ وَالشَّفَاعَةِ لِلْمَيِّتِ
۴۰-باب: صلاۃِ جنازہ اور میت کے لیے شفاعت کا بیان​


1028- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَيُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِاللهِ الْيَزَنِيِّ، قَالَ: كَانَ مَالِكُ بْنُ هُبَيْرَةَ، إِذَا صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ فَتَقَالَّ النَّاسَ عَلَيْهَا، جَزَّأَهُمْ ثَلاَثَةَ أَجْزَائٍ ثُمَّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ صَلَّى عَلَيْهِ ثَلاَثَةُ صُفُوفٍ، فَقَدْ أَوْجَبَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأُمِّ حَبِيبَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَمَيْمُونَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مَالِكِ بْنِ هُبَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. هَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ. وَرَوَى إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ هَذَا الْحَدِيثَ. وَأَدْخَلَ بَيْنَ مَرْثَدٍ وَمَالِكِ بْنِ هُبَيْرَةَ رَجُلاً. وَرِوَايَةُ هَؤُلاَئِ أَصَحُّ عِنْدَنَا.
* تخريج: د/الجنائز ۱۴۳ (۳۱۶۶)، ق/الجنائز ۱۹ (۱۴۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۰۸)، حم (۴/۷۹) (حسن)
(سند میں ''محمد بن اسحاق ''مدلس ہیں اورروایت عنعنہ سے ہے ، البتہ مالک بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ کا فعل شواہد اورمتابعات کی بناپر صحیح ہے)
۱۰۲۸- مرثد بن عبداللہ یزنی کہتے ہیں کہ مالک بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ جب صلاۃِجنازہ پڑھتے اور لوگ کم ہوتے تو ان کی تین صفیں ۱؎ بنادیتے، پھر کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے: '' جس کی صلاۃِجنازہ تین صفوں نے پڑھی تو اس نے (جنت) واجب کرلی''۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- مالک بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اسی طرح کئی لوگوں نے محمد بن اسحاق سے روایت کی ہے۔ ابراہیم بن سعد نے بھی یہ حدیث محمد بن اسحاق سے روایت کی ہے۔ اورانہوں نے سند میں مرثد اور مالک بن ہبیرہ کے درمیان ایک شخص کوداخل کردیا ہے۔ ہمارے نزدیک ان لوگوں کی روایت زیادہ صحیح ہے،۳- اس باب میں عائشہ، ام حبیبہ، ابوہریرہ اور ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : صف کم سے کم دوآدمیوں پرمشتمل ہوتی ہے زیادہ کی کوئی حدنہیں۔


1029- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ أَيُّوبَ، و حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ يَزِيدَ (رَضِيعٍ كَانَ لِعَائِشَةَ)، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَ يَمُوتُ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَتُصَلِّي عَلَيْهِ أُمَّةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَبْلُغُونَ أَنْ يَكُونُوا مِائَةً، فَيَشْفَعُوا لَهُ، إِلاَّ شُفِّعُوا فِيهِ". و قَالَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ فِي حَدِيثِهِ: مِائَةٌ فَمَا فَوْقَهَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ أَوْقَفَهُ بَعْضُهُمْ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
* تخريج: خ/الجنائز ۱۸ (۹۴۷)، ن/الجنائز ۷۸ (۱۹۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۹۱)، حم (۶/۳۲، ۴۰، ۹۷، ۲۳۱) (صحیح)
۱۰۲۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''جومسلمان مرجائے اورمسلمانوں کی ایک جماعت جس کی تعداد سوکوپہنچتی ہواس کی صلاۃ جنازہ پڑھے اور اس کے لیے شفاعت کرے تو ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے'' ۱؎ ۔علی بن حجر نے اپنی حدیث میں کہا: '' مِائَةٌ فَمَا فَوْقَهَا''( سویا اس سے زائد لوگ)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- بعض نے اسے موقوفاً روایت کیا ہے،مرفوع نہیں کیا ہے ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے صلاۃِجنازہ میں کثرت تعدادکی فضیلت ثابت ہوتی ہے، مسلم کی ایک روایت میں چالیس مسلمان مردوں کا ذکر ہے، اوربعض روایتوں میں تین صفوں کا ذکرہے، ان میں تطبیق اس طرح سے دی گئی ہے کہ یہ احادیث مختلف موقعوں پر سائلین کے سوالات کے جواب میں بیان کی گئیں ہیں، اوریہ بھی ممکن ہے کہ پہلے آپ کو سوآدمیوں کی شفاعت قبول کئے جانے کی خبردی گئی ہوپھرچالیس کی پھرتین صفوں کی گووہ چالیس سے بھی کم ہوں، یہ اللہ کی اپنے بندوں پر نوازش وانعام ہے۔
 
Top