• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
41-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّلاَةِ عَلَى الْجَنَازَةِ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَعِنْدَ غُرُوبِهَا
۴۱-باب: سورج نکلنے اور اس کے ڈوبنے کے وقت صلاۃِ جنازہ پڑھنے کی کراہت کا بیان​


1030- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُقْبَةَ ابْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: ثَلاَثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ، أَوْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا: حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّى تَرْتَفِعَ. وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّى تَمِيلَ. وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّى تَغْرُبَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. يَكْرَهُونَ الصَّلاَةَ عَلَى الْجَنَازَةِ فِي هَذِهِ السَّاعَاتِ. و قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ، أَنْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا، يَعْنِي الصَّلاَةَ عَلَى الْجَنَازَةِ. وَكَرِهَ الصَّلاَةَ عَلَى الْجَنَازَةِ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَعِنْدَ غُرُوبِهَا وَإِذَا انْتَصَفَ النَّهَارُ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: لاَ بَأْسَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْجَنَازَةِ فِي السَّاعَاتِ الَّتِي تُكْرَهُ فِيهِنَّ الصَّلاَةُ.
* تخريج: م/المسافرین ۵۱ (۸۳۱)، د/الجنائز ۵۵ (۳۱۹۲)، ن/المواقیت ۳۱ (۵۶۱)، و۳۳ (۵۶۶)، والجنائز ۸۹، (۲۰۱۵)، ق/الجنائز ۳۰ (۱۵۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۳۹)، حم (۴/۱۵۲)، دي/الصلاۃ ۱۴۲ (۱۴۷۲) (صحیح)
۱۰۳۰- عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تین ساعتیں ایسی ہیں جن میں رسول اللہ ﷺہمیں صلاۃ پڑھنے سے یااپنے مردوں کودفنانے سے منع فرماتے تھے:جس وقت سورج نکل رہا ہویہاں تک کہ وہ بلند ہوجائے، اورجس وقت ٹھیک دوپہرہورہی ہویہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، اورجس وقت سورج ڈوبنے کی طرف مائل ہو یہاں تک کہ وہ ڈوب جائے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔وہ لوگ ان اوقات میں صلاۃ جنازہ پڑھنے کو مکروہ سمجھتے ہیں،۳- ابن مبارک کہتے ہیں: اس حدیث میں ان اوقات میں مردے دفنانے سے مراد ان کی صلاۃ جنازہ پڑھنا ہے ۱؎ انہوں نے سورج نکلتے وقت ڈوبتے وقت اور دوپہر کے وقت جب تک کہ سورج ڈھل نہ جائے صلاۃِجنازہ پڑھنے کومکروہ کہا ہے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،۴- شافعی کہتے ہیں کہ ان اوقات میں جن میں صلاۃ پڑھنامکروہ ہے،ان میں صلاۃِ جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
وضاحت ۱؎ : امام ترمذی نے بھی اسے اسی معنی پرمحمول کیا ہے جیساکہ ''ترجمۃ الباب''سے واضح ہے، اس کے برخلاف امام ابوداودنے اسے دفن حقیقی ہی پرمحمول کیا اورانہوں نے '' با ب الدفن عند طلوع الشمش وعند غروبها''کے تحت اس کو ذکر کیا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
42-بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الأَطْفَالِ
۴۲-باب: بچوں کی صلاۃِ جنازہ پڑھنے کا بیان​


1031- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ ابْنُ بِنْتِ أَزْهَرَ السَّمَّانِ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ سَعِيدِ ابْنِ عُبَيْدِ اللهِ، حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ زِيَادِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "الرَّاكِبُ خَلْفَ الْجَنَازَةِ، وَالْمَاشِي حَيْثُ شَائَ مِنْهَا، وَالطِّفْلُ يُصَلَّى عَلَيْهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. رَوَاهُ إِسْرَائِيلُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدِاللهِ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. قَالُوا: يُصَلَّى عَلَى الطِّفْلِ. وَإِنْ لَمْ يَسْتَهِلَّ بَعْدَ أَنْ يُعْلَمَ أَنَّهُ خُلِقَ. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: د/الجنائز ۴۹ (۳۱۸۰)، ن/الجنائز ۵۵ (۱۹۴۴)، ق/الجنائز ۱۵ (۱۴۸۱)، و۲۶ (۱۵۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۹۰)، حم (۴/۲۴۷، ۲۵۲) (صحیح)
۱۰۳۱- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''سواری والے جنازے کے پیچھے رہے، پیدل چلنے والے جہاں چاہے رہے، اور بچوں کی بھی صلاۃ جنازہ پڑھی جائے گی''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسرائیل اوردیگر کئی لوگوں نے اِسے سعید بن عبداللہ سے روایت کیا ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ بچے کی صلاۃِ جنازہ یہ جان لینے کے بعدکہ اس میں جان ڈال دی گئی تھی پڑھی جائے گی گو (ولادت کے وقت ) وہ رویانہ ہو، احمد او ر اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اور یہی راجح قول ہے، کیوں کہ ماں کے پیٹ کے اندر ہی بچے کے اندر روح پھونک دی جاتی ہے، گویا نومولود ایک ذی روح مسلمان ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
43-بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الصَّلاَةِ عَلَى الْجَنِينِ حَتَّى يَسْتَهِلَّ
۴۳-باب: جنین (ماں کے پیٹ میں موجود بچہ) کی صلاۃ نہ پڑھنے کا بیان جب تک کہ وہ ولادت کے وقت نہ روئے​


1032- حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ إِسْماَعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الطِّفْلُ لاَيُصَلَّى عَلَيْهِ وَلاَ يَرِثُ وَلاَ يُورَثُ، حَتَّى يَسْتَهِلَّ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ قَدْ اضْطَرَبَ النَّاسُ فِيهِ. فَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مَرْفُوعًا. وَرَوَى أَشْعَثُ بْنُ سَوَّارٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ مَوْقُوفًا. وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ جَابِرٍ، مَوْقُوفًا. وَكَأَنَّ هَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الْمَرْفُوعِ. وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا. قَالُوا: لاَ يُصَلَّى عَلَى الطِّفْلِ حَتَّى يَسْتَهِلَّ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۶۶۰) (صحیح)
وأخرجہ : ق/الجنائز ۲۶ (۱۵۰۸)، والفرائض ۱۷ (۲۷۵۰)، من غیر ہذا الوجہ۔
۱۰۳۲- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' بچے کی صلاۃِ (جنازہ) نہیں پڑھی جائے گی۔ نہ وہ کسی کا وارث ہوگا اور نہ کوئی اس کا وارث ہوگا جب تک کہ وہ پیدائش کے وقت روئے نہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث میں لوگ اضطراب کے شکارہوئے ہیں۔بعض نے اِسے ابوالزبیرسے اور ابوالزبیرنے جابرسے اورجابرنے نبی اکرمﷺسے مرفوعاً روایت کیا ہے، اوراشعث بن سوار اوردیگر کئی لوگوں نے ابوالزبیرسے اورابوالزبیرنے جابرسے موقوفاً روایت کی ہے، اورمحمد بن اسحاق نے عطاء بن ابی رباح سے اورعطاء نے جابرسے موقوفاً روایت کی ہے گویاموقوف روایت مرفوع روایت سے زیادہ صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بچے کی صلاۃِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ جب تک کہ وہ پیدائش کے وقت نہ روئے یہی سفیان ثوری اور شافعی کا قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
44-بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْمَيِّتِ فِي الْمَسْجِدِ
۴۴-باب: مسجد میں صلاۃِ جنازہ پڑھنے کا بیان​


1033- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ حَمْزَةَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَلَى سُهَيْلِ ابْنِ بَيْضَائَ فِي الْمَسْجِدِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: قَالَ مَالِكٌ لاَ يُصَلَّى عَلَى الْمَيِّتِ فِي الْمَسْجِدِ. وَ قَالَ الشَّافِعِيُّ: يُصَلَّى عَلَى الْمَيِّتِ فِي الْمَسْجِدِ. وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
* تخريج: م/الجنائز ۳۴ (۹۷۳)، ن/الجنائز ۷۰ (۱۹۶۹)، حم (۶/۷۹، ۱۳۳، ۱۶۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۷۵) (صحیح) وأخرجہ کل من : م/الجنائز (المصدرالمذکور)، د/الجنائز ۵۴ (۳۱۸۹)، ق/الجنائز ۲۹ (۱۵۱۸)، ط/الجنائز ۸ (۲۲) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۰۳۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن بیضاء ۱؎ کی صلاۃِجنازہ مسجد میں پڑھی ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے، ۳- شافعی کا بیان ہے کہ مالک کہتے ہیں: میت پرصلاۃِجنازہ مسجد میں نہیں پڑھی جائے گی، ۴- شافعی کہتے ہیں: میت پرصلاۃِجنازہ مسجدمیں پڑھی جاسکتی ہے، اور انہوں نے اسی حدیث سے دلیل پکڑی ہے۔
وضاحت ۱؎ : بیضاء کے تین بیٹے تھے جن کے نام: سہل سہیل اورصفوان تھے اوران کی ماں کا نام رعدتھا، بیضاء ان کا وصفی نام ہے، اوران کے باپ کا نام وہب بن ربیعہ قرشی فہری تھا۔
وضاحت ۲؎ : اس سے مسجد میں صلاۃِ جنازہ پڑھنے کا جواز ثابت ہوتاہے،اگرچہ نبی اکرمﷺ کا معمول مسجدسے باہرپڑھنے کا تھا، یہی جمہورکا مذہب ہے جولوگ عدام جواز کے قائل ہیں ان کی دلیل ابوہریرہ کی روایت ''من صلى على جنازة في المسجد فلا شيء له'' ہے جس کی تخریج ابوداودنے کی ہے، جمہوراس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے قابل استدلال نہیں، دوسرا جواب یہ ہے کہ مشہوراورمحقق نسخے میں '' فلا شيء له''کی جگہ '' فلا شيء عليه''ہے اس کے علاوہ اس کے اوربھی متعددجوابات دیئے گئے ہیں دیکھئے (تحفۃ الاحوذی ج۲ص ۱۴۶)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
45-بَاب مَا جَاءَ أَيْنَ يَقُومُ الإِمَامُ مِنَ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ
۴۵-باب: مرد اور عورت دونوں ہوں توامام صلاۃِ جنازہ پڑھاتے وقت کہاں کھڑا ہو؟​


1034- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُنِيرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي غَالِبٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَلَى جَنَازَةِ رَجُلٍ. فَقَامَ حِيَالَ رَأْسِهِ، ثُمَّ جَائُوا بِجَنَازَةِ امْرَأَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ. فَقَالُوا: يَا أَبَا حَمْزَةَ! صَلِّ عَلَيْهَا. فَقَامَ حِيَالَ وَسَطِ السَّرِيرِ. فَقَالَ لَهُ الْعَلاَئُ بْنُ زِيَادٍ: هَكَذَا رَأَيْتَ النَّبِيَّ ﷺ قَامَ عَلَى الْجَنَازَةِ مُقَامَكَ مِنْهَا، وَمِنَ الرَّجُلِ مُقَامَكَ مِنْهُ؟ قَالَ: نَعَمْ. فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: احْفَظُوا. وَفِي الْبَاب عَنْ سَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ هَذَا، حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ هَمَّامٍ مِثْلَ هَذَا. وَرَوَى وَكِيعٌ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ هَمَّامٍ، فَوَهِمَ فِيهِ، فَقَالَ: عَنْ غَالِبٍ، عَنْ أَنَسٍ. وَالصَّحِيحُ عَنْ أَبِي غَالِبٍ. وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَبْدُالْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي غَالِبٍ. مِثْلَ رِوَايَةِ هَمَّامٍ. وَاخْتَلَفُوا فِي اسْمِ أَبِي غَالِبٍ هَذَا. فَقَالَ بَعْضُهُمْ: يُقَالُ اسْمُهُ نَافِعٌ وَيُقَالُ رَافِعٌ. وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: د/الجنائز ۵۷ (۳۱۹۴)، (بزیادۃ في السیاق)، ق/الجنائز ۲۱ (۱۴۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۱)، حم (۳/۱۵۱) (بزیادۃ فی السیاق) (صحیح)


۱۰۳۴- ابوغالب کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک کے ساتھ ایک آدمی کی صلاۃِ جنازہ پڑھی تو وہ اس کے سر کے سامنے کھڑے ہوئے۔ پھرلوگ قریش کی ایک عورت کاجنازہ لے کرآئے اورکہا: ابوحمزہ! اس کی بھی صلاۃِجنازہ پڑھادیجئے، تو وہ چارپائی کے بیچ میں یعنی عورت کی کمرکے سامنے کھڑے ہوئے، تو ان سے علاء بن زیاد نے پوچھا: آپ نے نبی اکرمﷺ کوعورت اورمرد کے جنازے میں اسی طرح کھڑے ہوتے دیکھاہے۔ جیسے آپ کھڑے ہوئے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں ۱؎ ۔اورجب جنازہ سے فارغ ہوئے توکہا: اس طریقہ کو یادکرلو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی یہ حدیث حسن ہے،۲- اورکئی لوگوں نے بھی ہمام سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ وکیع نے بھی یہ حدیث ہمام سے روایت کی ہے، لیکن انہیں وہم ہوا ہے۔ انہوں نے ''عن غالب عن أنس'' کہاہے اورصحیح ''عن ابی غالب ''ہے ،عبدالوارث بن سعید اوردیگرکئی لوگوں نے ابوغالب سے روایت کی ہے جیسے ہمام کی روایت ہے،۳- اس باب میں سمرہ سے بھی روایت ہے،۴- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں ۔ اوریہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ عورت کی صلاۃِجنازہ ہو تو امام اس کی کمرکے پاس کھڑاہوگا، اورامام کومردکے سرکے بالمقابل کھڑاہونا چاہئے کیونکہ انس بن مالک نے عبداللہ بن عمیرکا جنازہ ان کے سرکے پاس ہی کھڑے ہوکرپڑھایاتھا اورعلاء بن زیادکے پوچھنے پر انھوں نے کہاتھا کہ میں نے نبی اکرمﷺکو ایسے ہی کرتے دیکھاہے۔


1035- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَالْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى عَلَى امْرَأَةٍ، فَقَامَ وَسَطَهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَد رَوَاهُ شُعْبَةُ عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ.
* تخريج: خ/الحیض ۲۹ (۳۳۲)، والجنائز ۶۲ (۱۳۳۱)، و۶۳ (۱۳۳۲)، م/الجنائز ۲۷ (۹۶۴)، د/الجنائز ۵۷ (۳۱۹۵)، ن/الحیض ۲۵ (۳۹۱)، والجنائز ۷۳ (۱۹۷۸)، ق/الجنائز ۲۱ (۱۴۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۲۵)، حم (۵/۱۴، ۱۹) (صحیح)
۱۰۳۵- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ایک عورت ۱؎ کی صلاۃِ جنازہ پڑھائی،تو آپ اس کے بیچ میں یعنی اس کی کمرکے پاس کھڑے ہوے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- شعبہ نے بھی اسے حسین المعلم سے روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس عورت کا نام ام کعب ہے جیساکہ نسائی کی روایت میں اس کی تصریح آئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
46-بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الصَّلاَةِ عَلَى الشَّهِيدِ
۴۶-باب: شہید کی صلاۃِ جنازہ نہ پڑھنے کا بیان​


1036- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ، ثُمَّ يَقُولُ: "أَيُّهُمَا أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ؟" فَإِذَا أُشِيرَ لَهُ إِلَى أَحَدِهِمَا، قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ وَقَالَ: "أَنَا شَهِيدٌ عَلَى هَؤُلاَئِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ فِي دِمَائِهِمْ وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ وَلَمْ يُغَسَّلُوا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَرُوِيَ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ بْنِ أَبِي صُعَيْرٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَمِنْهُمْ مَنْ ذَكَرَهُ عَنْ جَابِرٍ. وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الشَّهِيدِ. فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لاَ يُصَلَّى عَلَى الشَّهِيدِ. وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: يُصَلَّى عَلَى الشَّهِيدِ. وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ صَلَّى عَلَى حَمْزَةَ، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَبِهِ يَقُولُ إِسْحَاقُ.
* تخريج: خ/الجنائز ۷۲ (۱۳۴۳)، و۷۳ (۱۳۴۵)، و۷۵ (۱۳۴۶)، و۷۸ (۱۳۴۸)، والمغازي ۲۶ (۴۰۷۹)، د/الجنائز ۳۱ (۳۱۳۸)، ن/الجنائز ۶۲ (۱۹۵۷)، ق/الجنائز ۲۸ (۱۵۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۸۲) (صحیح)
۱۰۳۶- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ احد کے مقتولین میں سے دو دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں ایک ساتھ کفناتے، پھر پوچھتے: ''ان میں قرآن کسے زیادہ یادتھا؟''تو جب آپ کوان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کردیا جاتا تو آپ اسے لحد میں مقدم رکھتے اور فرماتے:'' قیامت کے روز میں ان لوگوں پر گواہ رہوں گا''۔ اور آپ نے انہیں ان کے خون ہی میں دفنانے کا حکم دیا اور ان کی صلاۃِجنازہ نہیں پڑھی اورنہ ہی انہیں غسل ہی دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- جابر کی حدیث حسن صحیح ہے، یہ حدیث زہری سے مروی ہے انہوں نے اسے انس سے اورانس نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے نیزیہ زہری سے عبداللہ بن ثعلبہ بن ابی صعیرکے واسطے سے بھی مروی ہے اورانہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے اوران میں سے بعض نے اسے جابرکی روایت سے ذکرکیا، ۲- اس باب میں انس بن مالک سے بھی روایت ہے،۳- اہل علم کا شہید کی صلاۃِ جنازہ کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ شہید کی صلاۃِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ یہی اہل مدینہ کا قول ہے۔ شافعی اور احمدبھی یہی کہتے ہیں،۴- اوربعض کہتے ہیں کہ شہید کی صلاۃ پڑھی جائے گی۔ ان لوگوں نے نبی اکرمﷺ کی حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ آپ نے حمزہ رضی اللہ عنہ کی صلاۃ پڑھی تھی ۔ ثوری اورا ہل کوفہ اسی کے قائل ہیں اور یہی اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس موضوع پر مفصل بحث لکھنے کے بعدصاحب تحفۃ الأحوذی فرماتے ہیں: میرے نزدیک ظاہرمسئلہ یہی ہے کہ شہیدپر صلاۃِجنازہ واجب نہیں ہے ،البتہ اگرپڑھ لی جائے تو جائز ہے ،اورماوردی نے امام احمدکا یہ قول نقل کیا ہے کہ شہیدپر صلاۃِ جنازہ زیادہ بہترہے اور اس پرصلاۃ جنازہ نہ پڑھیں گے توبھی (اس کی شہادت اُسے ) کفایت کرے گی ، (فانظرفتح الباری عندالموضوع)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
47-بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْقَبْرِ
۴۷-باب: قبر پر صلاۃِ جنازہ پڑھنے کا بیان​


1037- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ. أَخْبَرَنَا الشَّيْبَانِيُّ، حَدَّثَنَا الشَّعْبِيُّ، أَخْبَرَنِي مَنْ رَأَى النَّبِيَّ ﷺ، وَرَأَى قَبْرًا مُنْتَبِذًا، فَصَفَّ أَصْحَابَهُ خَلْفَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ، فَقِيلَ لَهُ: مَنْ أَخْبَرَكَهُ؟ فَقَالَ: ابْنُ عَبَّاسٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَبُرَيْدَةَ، وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَأَبِي قَتَادَةَ، وَسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لاَ يُصَلَّى عَلَى الْقَبْرِ. وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ. و قَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: إِذَا دُفِنَ الْمَيِّتُ وَلَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِ، صُلِّيَ عَلَى الْقَبْرِ. وَرَأَى ابْنُ الْمُبَارَكِ الصَّلاَةَ عَلَى الْقَبْرِ. و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ: يُصَلَّى عَلَى الْقَبْرِ إِلَى شَهْرٍ. وَقَالاَ: أَكْثَرُ مَا سَمِعْنَا عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى عَلَى قَبْرِ أُمِّ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ بَعْدَ شَهْرٍ.
* تخريج: خ/الأذان۶۱(۸۵۷) والجنائز۵(۱۲۴۷) و۵۴(۱۴۱۹) و۵۵(۱۳۲۴) ۵۹ (۱۳۲۶) و۶۶ (۱۳۳۶) و۶۹(۱۳۴۰) م/الجنائز۲۳(۹۵۴) د/الجنائز۵۸(۳۱۹۶) ن/الجنائز۹۴(۲۰۲۵) ق/الجنائز۳۲ (۱۵۳۰) (تحفۃ الأشراف: ۵۷۶۶) حم (۱/۳۳۸) (صحیح)
۱۰۳۷- شعبی کا بیان ہے کہ مجھے ایک ایسے شخص نے خبردی ہے جس نے نبی اکرمﷺ کو دیکھاکہ آپ نے ایک قبر الگ تھلگ دیکھی تو اپنے پیچھے صحابہ کی صف بندی کی اور اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھائی۔ شعبی سے پوچھاگیا کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی۔تو انہوں نے کہا : ابن عباس رضی اللہ عنہما نے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں انس، بریدہ، یزید بن ثابت ، ابوہریرہ، عامر بن ربیعہ ، ابوقتادہ اور سہل بن حنیف سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۴- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ قبرپر صلاۃ نہیں پڑھی جائے گی ۱؎ یہ مالک بن انس کا قول ہے،۵ - عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ جب میت کو دفن کردیا جائے اور اس کی صلاۃِجنازہ نہ پڑھی گئی ہو تواس کی صلاۃِجنازہ قبر پرپڑھی جائے گی،۶- ابن مبارک قبر پر صلاۃ (جنازہ) پڑھنے کے قائل ہیں،۷- احمد اوراسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: قبر پر صلاۃ ایک ماہ تک پڑھی جاسکتی ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اکثر سنا ہے سعیدبن مسیب سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے سعد بن عبادہ کی والدہ کی صلاۃِ جنازہ ایک ماہ کے بعد قبر پر پڑھی۔
وضاحت ۱؎ : یہ لوگ باب کی حدیث کاجواب یہ دیتے ہیں کہ یہ نبی اکرمﷺ کے لیے خاص تھا کیونکہ مسلم کی روایت میں ہے '' إن هذه القبور مملوؤة مظالم على أهلها وأن الله ينورها لهم بصلاة عليهم''ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی صلاۃ قبرکو منورکرنے کے لیے تھی اوریہ دوسروں کی صلاۃ میں نہیں پائی جاتی ہے لہذاقبرپر صلاۃِجنازہ پڑھنا مشروع نہیں جمہوراس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ جن لوگوں نے آپ کے ساتھ قبرپر صلاۃِجنازہ پڑھی آپ نے انھیں منع نہیں کیا ہے کیونکہ یہ جائزہے اور اگریہ آپ ہی کے لیے خاص ہوتادوسروں کے لیے جائزنہ ہوتاتوآپ انھیں ضرور منع فرمادیتے۔


1038- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ. حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ أَنَّ أُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ وَالنَّبِيُّ ﷺ غَائِبٌ، فَلَمَّا قَدِمَ صَلَّى عَلَيْهَا، وَقَدْ مَضَى لِذَلِكَ شَهْرٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۸۷۲۲) (ضعیف)
(یہ روایت مرسل ہے ، سعید بن المسیب تابعی ہیں)
۱۰۳۸- سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ام سعد کا انتقال ہوگیا اور نبی اکرمﷺ موجود نہیں تھے ، جب آپ تشریف لائے تو ان کی صلاۃِ جنازہ پڑھی۔ اس واقعہ کو ایک ماہ گزرچکا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
48-بَاب مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ النَّبِيِّ ﷺ عَلَى النَّجَاشِيِّ
۴۸-باب: نبی اکرم ﷺ کے نجاشی کی صلاۃِ جنازہ پڑھنے کا بیان​


1039- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ قَالاَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ. حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: إِنَّ أَخَاكُمْ النَّجَاشِيَّ قَدْ مَاتَ، فَقُومُوا فَصَلُّوا عَلَيْهِ. قَالَ: فَقُمْنَا فَصَفَفْنَا كَمَا يُصَفُّ عَلَى الْمَيِّتِ، وَصَلَّيْنَا عَلَيْهِ كَمَا يُصَلَّى عَلَى الْمَيِّتِ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ، وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ رَوَاهُ أَبُوقِلاَبَةَ عَنْ عَمِّهِ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَأَبُو الْمُهَلَّبِ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو. وَيُقَالُ لَهُ مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو.
* تخريج: ن/الجنائز۷۲(۱۹۷۷) ق/الجنائز۳۳(۱۵۳۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۸۹) حم (۴/۴۳۹) (صحیح)
وأخرجہ کل من : م/الجنائز۲۲(۹۵۳) ن/الجنائز۵۷(۱۹۴۸) حم (۴/۴۳۳،۴۴۱،۴۴۶) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۰۳۹- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم لوگوں سے فرمایا:'' تمہارے بھائی نجاشی ۱؎ کا انتقال ہوگیا ہے۔تم لوگ اٹھواور ان کی صلاۃِ جنازہ پڑھو''۔ تو ہم کھڑے ہوئے اور صف بندی کی جیسے میت کے لیے کی جاتی ہے'' ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سندسے حسن صحیح غریب ہے،۲- یہ حدیث ابوقلابہ نے بھی اپنے چچا ابومہلب سے اور انہوں نے عمران بن حصین سے روایت کی ہے،۳- ابومہلب کانام عبدالرحمن بن عمرو ہے۔ انہیں معاویہ بن عمروبھی کہاجاتاہے ،۴- اس باب میں ابوہریرہ ، جابر بن عبداللہ ، ابوسعید ، حذیفہ بن اسید اور جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : نجاشی حبشہ کے بادشاہ کا لقب تھاجیسے روم کے بادشاہ کا لقب قیصراورایران کے بادشاہ کا لقب کسریٰ تھا،نجاشی کا وصفی نام اصحمہ بن ابجرتھا اسی بادشاہ کے دورمیں مسلمانوں کی مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت ہوئی تھی، نبی اکرمﷺ نے ۶ھ؁ کے آخر یا محرم ۷ھ؁ میں نجاشی کو عمروبن امیہ ضمری کے ذریعہ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی توانہوں نے آپ کے مکتوب گرامی کا بوسہ لیا ،اسے اپنی آنکھوں سے لگایا اوراپنے تخت شاہی سے نیچے اترآیا اورجعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا انہوں نے نبی اکرمﷺکو یہ ساری تفصیل لکھ کر بھیج دی غزوئہ تبوک ۹ھ؁ کے بعد ماہ رجب میں ان کی وفات ہوئی۔
وضاحت ۲؎ : اس سے بعض لوگوں نے صلاۃِجنازہ غائبانہ کے جواز پراستدلال کیا ہے، صلاۃِ جنازہ غائبانہ کے سلسلہ میں مناسب یہ ہے کہ اگرمیت کی صلاۃ جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تب پڑھی جائے اوراگرپڑھی جاچکی ہے تو مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ اداہوگیا الا یہ کہ کوئی محترم اورصالح شخصیت ہو تو پڑھنابہترہے یہی قول امام احمدبن حنبل شیخ الإسلام ابن تیمیہ اور ابن قیم رحہم اللہ کا ہے عام مسلمانوں کا جنازہ غائبانہ نبی اکرمﷺ سے ثابت نہیں ہے اورنہ ہی تعامل امت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
49-بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصَّلاَةِ عَلَى الْجَنَازَةِ
۴۹-باب: صلاۃ جنازہ کی فضیلت کا بیان​


1040- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ. حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو. حَدَّثَنَا أَبُوسَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَنْ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ فَلَهُ قِيرَاطٌ. وَمَنْ تَبِعَهَا حَتَّى يُقْضَى دَفْنُهَا فَلَهُ قِيرَاطَانِ، أَحَدُهُمَا أَوْ أَصْغَرُهُمَا مِثْلُ أُحُدٍ". فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لابْنِ عُمَرَ، فَأَرْسَلَ إِلَى عَائِشَةَ فَسَأَلَهَا عَنْ ذَلِكَ؟ فَقَالَتْ: صَدَقَ أَبُوهُرَيْرَةَ. فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: لَقَدْ فَرَّطْنَا فِي قَرَارِيطَ كَثِيرَةٍ. وَفِي الْبَاب عَنِ الْبَرَائِ، وَعَبْدِاللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَثَوْبَانَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۵۸) وانظر : حم (۲/۴۹۸،۵۰۳) (صحیح)
وأخرجہ کل من : خ/الإیمان۳۵(۴۷) والجنائز۵۸(۱۳۲۵) م/الجنائز۱۷(۹۴۵) ن/الجنائز۷۹(۱۹۹۶) ق/الجنائز ۳۴(۱۵۳۹) حم (۲/۲۳۳،۲۴۶،۲۸۰،۳۲۱،۳۸۷،۴۰۱،۴۳۰،۴۵۸،۴۷۵،۴۹۳،۵۲۱) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۰۴۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے کوئی صلاۃِ جنازہ پڑھی، اس کے لیے ایک قیراط ثواب ہے۔اور جو اس کے ساتھ رہے یہاں تک کہ اس کی تدفین مکمل کرلی جائے تو اس کے لیے دوقیراط ثواب ہے ،ان میں سے ایک قیراط یا ان میں سے چھوٹا قیراط اُحد کے برابر ہوگا''۔تومیں نے ابن عمر سے اس کا ذکرکیا توا نہوں نے مجھے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا اور ان سے اس بارے میں پوچھوایاتوانہوں نے کہا: ابوہریرہ سچ کہتے ہیں۔ توابن عمر نے کہا: ہم نے بہت سے قیراط گنوادیئے ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- ان سے کئی سندوں سے یہ مروی ہے،۳- اس باب میں براء، عبداللہ بن مغفل، عبداللہ بن مسعود ، ابوسعیدخدری، ابی بن کعب ، ابن عمر اور ثوبان رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
50-بَاب آخَرُ
۵۰-باب: جنازہ سے متعلق ایک اور باب​


1041- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ. حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ. حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ قَال: سَمِعْتُ أَبَا الْمُهَزِّمِ قَالَ: صَحِبْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ عَشْرَ سِنِينَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً، وَحَمَلَهَا ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ مِنْ حَقِّهَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ بِهَذَا الإِسْنَادِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ. وَأَبُوالْمُهَزِّمِ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ سُفْيَانَ وَضَعَّفَهُ شُعْبَةُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۳۳) (ضعیف)
(سند میں ابوالمہزم ضعیف راوی ہیں)
۱۰۴۱- عبادبن منصورکہتے ہیں کہ میں نے ابوالمہزم کوکہتے سناکہ میں دس سال ابوہریرہ کے ساتھ رہا۔ میں نے انہیں سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے :'' جو کسی جنازے کے ساتھ گیا اوراسے تین بارکندھا دیاتو ، اس نے اپنا حق پورا کردیا جو اس پر تھا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- اسے بعض نے اسی سند سے روایت کیا ہے لیکن اسے مرفوع نہیں کیا ہے،۳- ابوالمہزم کانام یزید بن سفیان ہے۔ شعبہ نے انہیں ضعیف کہاہے۔
 
Top