• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
51-بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِيَامِ لِلْجَنَازَةِ
۵۱-باب: جنازے کے لیے کھڑے ہونے کا بیان​


1042- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: خ/الجنائز۴۶(۱۳۰۷) و۴۷(۱۳۰۸) م/الجنائز۲۴(۹۵۸) د/الجنائز۴۷(۳۱۷۲) ن/الجنائز۴۵ (۱۹۱۶) ق/الجنائز۳۵ (۱۵۴۲) (تحفۃ الأشراف: ۵۰۴۱) حم (۳/۴۴۷) (صحیح)
1042/م- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ. حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "إِذَا رَأَيْتُمُ الْجَنَازَةَ فَقُومُوا لَهَا حَتَّى تُخَلِّفَكُمْ أَوْ تُوضَعَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَجَابِرٍ وَسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ وَقَيْسِ بْنِ سَعْدٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۰۴۲- عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجایا کرو یہاں تک کہ وہ تمہیں چھوڑ کر آگے نکل جائے یا رکھ دیاجائے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عامر بن ربیعہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوسعیدخدری ، جابر ، سہیل بن حنیف ، قیس بن سعد اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


1043- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ الْحُلْوَانِيُّ قَالاَ: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ. حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: إِذَا رَأَيْتُمْ الْجَنَازَةَ فَقُومُوا لَهَا. فَمَنْ تَبِعَهَا فَلاَ يَقْعُدَنَّ حَتَّى تُوضَعَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالاَ: مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً فَلاَ يَقْعُدَنَّ حَتَّى تُوضَعَ عَنْ أَعْنَاقِ الرِّجَالِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا يَتَقَدَّمُونَ الْجَنَازَةَ فَيَقْعُدُونَ قَبْلَ أَنْ تَنْتَهِيَ إِلَيْهِمْ الْجَنَازَةُ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
*تخريج: خ/الجنائز۴۸(۱۳۱۰) م/الجنائز۲۴(۹۵۹) ن/الجنائز۴۴(۱۹۱۵) و۴۵(۱۹۱۸) و۸۰ (۲۰۰۰) حم (۳/۲۵،۴۱،۵۱) (تحفۃ الأشراف: ۴۴۲۰) (صحیح)
وأخرجہ کل من : د/الجنائز۴۷(۳۱۷۳) حم (۳/۸۵،۹۷) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۰۴۳- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:'' جب تم جنازہ دیکھو تواس کے لیے کھڑے ہوجایاکرو۔اور جو اس کے ساتھ جائے وہ ہرگز نہ بیٹھے جب تک کہ جنازہ رکھ نہ دیا جائے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوسعیدخدری کی حدیث اس باب میں حسن صحیح ہے،۲- یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ جو کسی جنازے کے ساتھ جائے، وہ ہرگز نہ بیٹھے جب تک کہ جنازہ لوگوں کی گردنوں سے اتار کررکھ نہ دیاجائے،۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم سے مروی ہے کہ وہ جنازے کے آگے جاتے تھے اور جنازہ پہنچنے سے پہلے بیٹھ جاتے تھے۔اوریہی شافعی کاقول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
52-بَاب الرُّخْصَةِ فِي تَرْكِ الْقِيَامِ لَهَا
۵۲-باب: جنازے کے لیے کھڑا نہ ہونے کی رخصت کا بیان​


1044- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ. حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ وَاقِدٍ (وَهُوَ ابْنُ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ ابْنِ مُعَاذٍ)، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مَسْعُودِ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّهُ ذُكِرَ الْقِيَامُ فِي الْجَنَائِزِ حَتَّى تُوضَعَ. فَقَالَ عَلِيٌّ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ثُمَّ قَعَدَ. وَفِي الْبَاب عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، وَابْنِ عَبَّاسٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ صَحِيحٌ. وَفِيهِ رِوَايَةُ أَرْبَعَةٍ مِنْ التَّابِعِينَ بَعْضُهُمْ عَنْ بَعْضٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَهَذَا أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ. وَهَذَا الْحَدِيثُ نَاسِخٌ لِلأَوَّلِ: إِذَا رَأَيْتُمْ الْجَنَازَةَ فَقُومُوا. و قَالَ أَحْمَدُ: إِنْ شَائَ قَامَ وَإِنْ شَائَ لَمْ يَقُمْ. وَاحْتَجَّ بِأَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَدْ رُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ قَامَ ثُمَّ قَعَدَ. وَهَكَذَا قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: مَعْنَى قَوْلِ عَلِيٍّ (قَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي الْجَنَازَةِ ثُمَّ قَعَدَ) يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا رَأَى الْجَنَازَةَ. قَامَ ثُمَّ تَرَكَ ذَلِكَ بَعْدُ فَكَانَ لاَ يَقُومُ إِذَا رَأَى الْجَنَازَةَ.
* تخريج: م/الجنائز۲۵(۹۶۲) د/الجنائز۴۷(۳۱۷۵) ن/الجنائز ۸۱ (۲۰۰۱،۲۰۰۲)، ق/الجنائز۳۵ (۱۵۴۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۷۶) (صحیح)
۱۰۴۴- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے جنازے کے لیے جب تک کہ وہ رکھ نہ دیاجائے کھڑے رہنے کاذکرکیاگیا تو علی نے کہا: رسول اللہ ﷺ کھڑے رہتے تھے پھرآپ بیٹھنے لگے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- علی کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس میں چار تابعین کی روایت ہے جو ایک دوسرے سے روایت کررہے ہیں، ۳- شافعی کہتے ہیں: اس باب میں یہ سب سے زیادہ صحیح روایت ہے۔یہ حدیث پہلی حدیث '' جب تم جنازہ دیکھو ، تو کھڑے ہوجاؤ'' کی ناسخ ہے،۴- اس باب میں حسن بن علی اور ابن عباس سے بھی احادیث آئی ہیں، ۵- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے،۶- احمد کہتے ہیں کہ چاہے تو کھڑا ہوجائے اور چاہے تو کھڑا نہ ہو۔ انہوں نے اس بات سے دلیل پکڑی ہے کہ نبی اکرمﷺ کے بارے میں مروی ہے کہ آپ کھڑے ہوجایاکرتے تھے پھر بیٹھے رہنے لگے۔اسی طرح اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کابھی قول ہے،۷- علی کے قول (رسول اللہ ﷺ جنازے کے لیے کھڑے ہوجایاکرتے تھے پھرآپ بیٹھے رہنے لگے کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب جنازہ دیکھتے تو کھڑے ہوجاتے پھر بعد میں آپ اس سے رُک گئے ۔ جب کوئی جنازہ دیکھتے تو کھڑے نہیں ہوتے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
53-بَاب مَا جَاءَ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ اللَّحْدُ لَنَا وَالشَّقُّ لِغَيْرِنَا
۵۳-باب: نبی اکرم ﷺ کے ارشاد '' بغلی ہمارے لیے ہے اور صندوقی اوروں کے لیے'' کا بیان​


1045- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَنَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَانِ الْكُوفِيُّ وَيُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ الْبَغْدَادِيُّ قَالُوا: حَدَّثَنَا حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الأَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: اللَّحْدُ لَنَا وَالشَّقُّ لِغَيْرِنَا.
وَفِي الْبَاب عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: ق/الجنائز۶۵(۳۲۰۸) ن/الجنائز ۸۵ (۲۰۱۱) ق/الجنائز ۳۹ (۱۵۵۴) (تحفۃ الأشراف: ۵۵۴۲) (صحیح)
۱۰۴۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''بغلی قبرہمارے لیے ہے اور صندوقی قبر اوروں کے لیے ہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس کی حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے،۲- اس باب میں جریر بن عبداللہ ، عائشہ ، ابن عمر اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اہل کتاب کے لیے ہے، مقصودیہ ہے کہ بغلی قبرافضل ہے اورایک قول یہ ہے کہ '' اللحد لنا''کا مطلب ہے ''اللحد لي''یعنی بغلی قبر میرے لیے ہے جمع کاصیغہ تعظیم کے لیے ہے یا'' اللحد لنا''کا مطلب '' اللحد اختيارنا''ہے یعنی بغلی قبرہماری پسندیدہ قبرہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ صندوقی قبرمسلمانوں کے لیے نہیں ہے کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں مدینہ میں قبرکھودنے والے دوشخص تھے ایک بغلی بنانے و الا دوسراشخص صندوقی بنانے والا اگرصندوقی ناجائزہوتی توانہیں اس سے روک دیاجاتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
54-بَاب مَا يَقُولُ إِذَا أُدْخِلَ الْمَيِّتُ الْقَبْرَ
۵۴-باب: جب میت قبر میں رکھ دی جائے تو کونسی دعا پڑھی جائے؟​


1046- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا أُدْخِلَ الْمَيِّتُ الْقَبْرَ (وَقَالَ أَبُو خَالِدٍ مَرَّةً: إِذَا وُضِعَ الْمَيِّتُ فِي لَحْدِهِ) قَالَ مَرَّةً: بِسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ. وَقَالَ مَرَّةً: بِسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَى سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَرَوَاهُ أَبُو الصِّدِّيقِ النَّاجِيُّ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ. رُوِيَ عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، مَوْقُوفًا أَيْضًا.
* تخريج: ق/الجنائز۳۸(۱۵۵۰) (تحفۃ الأشراف: ۷۶۴۴) (صحیح)
۱۰۴۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ جب میت قبر میں داخل کردی جاتی (اورکبھی راوی حدیث ابوخالد کہتے: جب میت اپنی قبر میں رکھ دی جاتی تو آپ کبھی : ''بسم الله وبالله وعلى ملة رسول الله''، پڑھتے اورکبھی ''بسم الله وبالله وعلى سنة رسول الله ﷺ'' (اللہ کے نام سے، اللہ کی مدد سے اور رسول اللہ ﷺ کے طریقہ پر میں اسے قبر میں رکھتاہوں) پڑھتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث دوسرے طریق سے بھی ابن عمر سے مروی ہے، انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے اوراسے ابوالصدیق ناجی نے بھی ابن عمر سے روایت کیا ہے اور انہوں نے نبی اکرمﷺ سے،۳- نیز یہ صدیق الناجی کے واسطہ سے ابن عمر سے بھی موقوفاًمروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
55-بَاب مَا جَاءَ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ يُلْقَى تَحْتَ الْمَيِّتِ فِي الْقَبْرِ
۵۵-باب: قبر میں میت کے نیچے کپڑا بچھانے کا بیان​


1047- حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ الْبَصْرِيُّ. حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ فَرْقَدٍ، قَال: سَمِعْتُ جَعْفَرَ ابْنَ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: الَّذِي أَلْحَدَ قَبْرَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَبُو طَلْحَةَ. وَالَّذِي أَلْقَى الْقَطِيفَةَ تَحْتَهُ شُقْرَانُ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ. قَالَ جَعْفَرٌ: وَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ قَال: سَمِعْتُ شُقْرَانَ يَقُولُ: أَنَا، وَاللَّهِ! طَرَحْتُ الْقَطِيفَةَ تَحْتَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي الْقَبْرِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ شُقْرَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَرَوَى عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ فَرْقَدٍ، هَذَا الْحَدِيثَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۸۴۶) (صحیح)
۱۰۴۷- عثمان بن فرقدکہتے ہیں کہ میں نے جعفربن محمدسے سناوہ اپنے باپ سے روایت کررہے تھے جس آدمی نے رسول اللہ ﷺکی قبر بغلی بنائی ، وہ ابوطلحہ ہیں اور جس نے آپ کے نیچے چادر بچھائی وہ رسول اللہ ﷺ کے مولی ٰشقران ہیں،جعفر کہتے ہیں:اورمجھے عبید اللہ بن ابی رافع نے خبردی وہ کہتے ہیں کہ میں نے شقران کو کہتے سنا: اللہ کی قسم! میں نے قبر میں رسول اللہ کے نیچے چادر ۱؎ بچھائی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- شقران کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ چادرجھالردارتھی جسے شقران نے قبرمیں نبی اکرمﷺ کے نیچے بچھایا تھا تاکہ اسے آپ کے بعد کوئی استعمال نہ کرسکے خود شقران کا بیان ہے کہ '' كرهت أن يلبسها أحد بعد رسول الله ﷺ'' امام شافعی اوران کے اصحاب اور دیگربہت سے علماء نے قبرمیں کوئی چادریاتکیہ وغیرہ رکھنے کو مکروہ کہا ہے اوریہی جمہور کاقول ہے اوراس حدیث کا جواب ان لوگوں نے یہ دیا ہے کہ ایساکرنے میں شقران منفرد تھے صحابہ میں سے کسی نے بھی ان کی موافقت نہیں کی تھی اورصحابہ کرام کو یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا اورواقدی نے علی بن حسین سے روایت کی ہے کہ لوگوں کو جب اس کاعلم ہواتوانھوں نے اُسے نکلوا دیا تھا ، ابن عبدالبرنے قطعیت کے ساتھ ذکرکیا ہے کہ مٹی ڈال کر قبر برابرکرنے سے پہلے یہ چادرنکال دی گئی تھی اورابن سعدنے طبقات ۲/۲۹۹میں وکیع کا قول نقل کیا ہے کہ یہ نبی اکرمﷺ کے لیے خاص ہے اورحسن بصری سے ایک روایت میں ہے کہ زمین گیلی تھی اس لیے یہ سرخ چادربچھائی گئی تھی جسے آپ ﷺ اوڑھتے تھے اورحسن بصری ہی سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ ''قال رسول الله ﷺ فرشوا لي قطيفتي في لحدي فإن الأرض لم تسلط على أجساد الأنبياء'' ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ چادرنکال دی گئی تھی اوراگریہ مان بھی لیاجائے کہ نہیں نکالی گئی تھی تو اسے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص ماناجائے گا دوسروں کے لیے ایساکرنا درست نہیں۔


1048- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ. حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جُعِلَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ قَطِيفَةٌ حَمْرَائُ.
* تخريج: م/الجنائز۳۰(۹۶۷) ن/الجنائز ۸۸(۲۰۱۴) (تحفۃ الأشراف: ۶۵۲۶) حم (۱/۲۲۸،۳۵۵) (صحیح)
1048/م- و قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَيَحْيَى عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَهَذَا أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الْقَصَّابِ وَاسْمُهُ عِمْرَانُ بْنُ أَبِي عَطَائٍ. وَرُوِيَ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ الضُّبَعِيِّ، وَاسْمُهُ نَصْرُ بْنُ عِمْرَانَ، وَكِلاَهُمَا مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ عَبَّاسٍ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يُلْقَى تَحْتَ الْمَيِّتِ فِي الْقَبْرِ شَيْئٌ. وَإِلَى هَذَا ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۰۴۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کی قبر میں ایک لال چادر رکھی گئی۔اورمحمدبن بشار نے دوسری جگہ اس سند میں ابوجمرہ کہاہے اوریہ زیادہ صحیح ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲-شعبہ نے ابوحمزہ قصاب سے بھی روایت کی ہے، ان کانام عمران بن ابی عطاہے، اور ابوجمرہ ضبعی سے بھی روایت کی گئی ہے،ان کانام نصر بن عمران ہے۔یہ دونوں ابن عباس کے شاگرد ہیں ،۳- ابن عباس سے یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے قبر میں میت کے نیچے کسی چیز کے بچھانے کومکروہ جاناہے۔بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
56-بَاب مَا جَاءَ فِي تَسْوِيَةِ الْقُبُورِ
۵۶-باب: قبروں کو زمین کے برابر کرنے کا بیان​


1049- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ. حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ. حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ أَنَّ عَلِيًّا قَالَ لأَبِي الْهَيَّاجِ الأَسَدِيِّ: أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِي بِهِ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ لاَ تَدَعَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّيْتَهُ، وَلاَ تِمْثَالاً إِلاَّ طَمَسْتَهُ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، يَكْرَهُونَ أَنْ يُرْفَعَ الْقَبْرُ فَوْقَ الأَرْضِ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: أَكْرَهُ أَنْ يُرْفَعَ الْقَبْرُ إِلاَّ بِقَدْرِ مَا يُعْرَفُ أَنَّهُ قَبْرٌ، لِكَيْلاَ يُوطَأَ وَلاَ يُجْلَسَ عَلَيْهِ.
* تخريج: م/الجنائز ۲۱ (۹۶۹) د/الجنائز۷۲(۳۲۱۸) ن/الجنائز ۹۹ (۲۰۳۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۸۳) حم (۱/۹۶، ۱۲۹) (صحیح)
۱۰۴۹- ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے ابوالہیاج اسدی سے کہا: میں تمہیں ایک ایسے کام کے لیے بھیج رہاہوں جس کے لیے نبی اکرمﷺ نے مجھے بھیجاتھا: ''تم جو بھی ابھری قبرہو، اسے برابر کئے بغیر اور جوبھی مجسمہ ہو ۱؎ ، اسے مسمار کئے بغیرنہ چھوڑنا '' ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- علی کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے،۳- بعض اہل علم کااسی پرعمل ہے۔وہ قبر کو زمین سے بلند رکھنے کو مکروہ (تحریمی) قراردیتے ہیں،۴- شافعی کہتے ہیں کہ قبرکے اونچی کئے جانے کو میں مکروہ (تحریمی) سوائے اتنی مقدارکے جس سے معلوم ہوسکے کہ یہ قبر ہے تاکہ وہ نہ روندی جائے اور نہ اس پر بیٹھا جائے۔
وضاحت ۱؎ : مرادکسی ذی روح کا مجسمہ ہے ۔
وضاحت ۲؎ : اس سے قبرکو اونچی کرنے یا اس پر عمارت بنانے کی ممانعت نکلتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
57-بَابُ مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْمَشْيِ عَلَى الْقُبُورِ وَالْجُلُوسِ عَلَيْهَا وَالصَّلاَةِ إِلَيْهَا
۵۷-باب: قبروں پر چلنے ، ان پر بیٹھنے اور ان کی طرف صلاۃ پڑھنے کی کراہت​


1050- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيِّ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ، عَنْ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيِّ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "لاَ تَجْلِسُوا عَلَى الْقُبُورِ وَلاَ تُصَلُّوا إِلَيْهَا". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، وَبَشِيرِ ابْنِ الْخَصَاصِيَةِ.
* تخريج: م/الجنائز۳۳(۹۷۲) د/الجنائز ۷۷ (۳۲۲۹) ن/القبلۃ ۱۱ (۷۶۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۶۹) حم (۴/۱۳۵) (صحیح)
1050/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ بِهَذَا الإِسْنَادِ، نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۰۵۰- ابومرثدغنوی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' قبروں پر نہ بیٹھو ۱؎ اور نہ انہیں سامنے کرکے صلاۃ پڑھو ''۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابوہریرہ ، عمرو بن حزم اور بشیر بن خصاصیہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس میں قبرپربیٹھنے کی حرمت کی دلیل ہے، یہی جمہورکا مسلک ہے اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے انسان کی تذلیل ہوتی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے توقیروتکریم سے نوازاہے۔
وضاحت ۲؎ : اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے مشرکین کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے اورغیراللہ کی تعظیم کا پہلوبھی نکلتاہے جوشرک تک پہنچانے والا تھا۔


1051- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ وَأَبُو عَمَّارٍ قَالاَ: أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ، عَنْ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ. وَلَيْسَ فِيهِ (عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ) وَهَذَا الصَّحِيحُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: قَالَ مُحَمَّدٌ: وَحَدِيثُ ابْنِ الْمُبَارَكِ خَطَأٌ، أَخْطَأَ فِيهِ ابْنُ الْمُبَارَكِ، وَزَادَ فِيهِ (عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيِّ) وَإِنَّمَا هُوَ بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ وَاثِلَةَ، هَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَانِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ. وَلَيْسَ فِيهِ (عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ) وَبُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ قَدْ سَمِعَ مِنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۰۵۱- اس طریق سے بھی ابومرشد غنوی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ البتہ اس سند میں ابوادریس کا واسطہ نہیں ہے اور یہی صحیح ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ ابن مبارک کی روایت غلط ہے، اس میں ابن مبارک سے غلطی ہوئی ہے انہوں نے اس میں ابوادریس خولانی کاواسطہ بڑھادیا ہے،صحیح یہ ہے کہ بسربن عبداللہ نے بغیرواسطے کے براہ راست واثلہ سے روایت کی ہے، اسی طرح کئی اور لوگوں نے عبدالرحمن بن یزید بن جابر سے روایت کی ہے اور اس میں ابوادریس کے واسطے کا ذکر نہیں ہے۔ اور بسر بن عبداللہ نے واثلہ بن اسقع سے سنا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
58-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ تَجْصِيصِ الْقُبُورِ وَالْكِتَابَةِ عَلَيْهَا
۵۸-باب: قبریں پختہ کرنے اور ان پر لکھنے کی ممانعت​


1052- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ الأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو الْبَصْرِيُّ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: نَهَى النَّبِيُّ ﷺ أَنْ تُجَصَّصَ الْقُبُورُ وَأَنْ يُكْتَبَ عَلَيْهَا وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهَا، وَأَنْ تُوطَأَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ جَابِرٍ. وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ فِي تَطْيِينِ الْقُبُورِ. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: لاَ بَأْسَ أَنْ يُطَيَّنَ الْقَبْرُ.
* تخريج: م/الجنائز ۳۲ (۹۷۰) د/الجنائز ۷۶ (۳۲۲۵) ن/الجنائز ۹۶ (۲۰۲۹) (تحفۃ الأشراف: ۲۷۹۶) حم (۳/۲۹۵) (صحیح)
۱۰۵۲- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے اس بات سے منع فرمایاہے کہ قبریں پختہ کی جائیں ۱ ؎ ، ان پر لکھا جائے۲؎ اور ان پر عمارت بنائی جائے ۳؎ اورانہیں رونداجائے ۴؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ او ربھی طرق سے جابر سے مروی ہے،۳- بعض اہل علم نے قبروں پرمٹی ڈلنے کی اجازت دی ہے، انہیں میں سے حسن بصری بھی ہیں،۴- شافعی کہتے ہیں: قبروں پرمٹی ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس ممانعت کی وجہ ایک تویہ ہے کہ اس میں فضول خرچی ہے کیونکہ اس سے مردے کوکوئی فائدہ نہیں ہوتا دوسرے اس میں مردوں کی ایسی تعظیم ہے جو انسان کو شرک تک پہنچادیتی ہے۔
وضاحت ۲؎ : یہ نہی مطلقاً ہے اس میں میت کا نام اس کی تاریخ وفات اورتبرک کے لیے قرآن کی آیتیں اوراسماء حسنیٰ وغیرہ لکھنا سبھی داخل ہیں۔
وضاحت ۳؎ : مثلاً قبّہ وغیرہ۔
وضاحت ۴؎ : یہ ممانعت میت کی توقیروتکریم کی وجہ سے ہے اس سے میت کی تذلیل وتوہین ہوتی ہے اس لیے اس سے منع کیا گیا
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
59-بَاب مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا دَخَلَ الْمَقَابِرَ
۵۹-باب: جب آدمی قبرستان میں داخل ہوتوکیا کہے؟​


1053- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ عَنْ أَبِي كُدَيْنَةَ، عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبُورِ الْمَدِينَةِ. فَأَقْبَلَ عَلَيْهِمْ بِوَجْهِهِ فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ، يَا أَهْلَ الْقُبُورِ! يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ، أَنْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِالأَثَرِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ وَعَائِشَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَأَبُو كُدَيْنَةَ اسْمُهُ يَحْيَى بْنُ الْمُهَلَّبِ. وَأَبُو ظَبْيَانَ اسْمُهُ حُصَيْنُ بْنُ جُنْدُبٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۴۰۳) (ضعیف)
(اس کے راوی ''قابوس''ضعیف ہیں، لیکن دوسرے صحابہ کی روایت سے یہ حدیث ثابت ہے)
۱۰۵۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینے کی چند قبروں کے پاس سے گزرے، توان کی طرف رخ کرکے آپ نے فرمایا:''السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ، يَا أَهْلَ الْقُبُورِ! يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ، أَنْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِالأَثَرِ''(سلامتی ہوتم پر اے قبروالو! اللہ ہمیں اورتمہیں بخشے تم ہمارے پیش روہو اور ہم بھی تمہارے پیچھے آنے والے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس کی حدیث غریب ہے، ۲- اس باب میں بریدہ رضی اللہ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
60-بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي زِيَارَةِ الْقُبُورِ
۶۰-باب: قبروں کی زیارت کی رخصت کا بیان​


1054- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ. وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمِ النَّبِيلُ. حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "قَدْ كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، فَقَدْ أُذِنَ لِمُحَمَّدٍ فِي زِيَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ. فَزُورُوهَا، فَإِنَّهَا تُذَكِّرُ الآخِرَةَ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لاَ يَرَوْنَ بِزِيَارَةِ الْقُبُورِ بَأْسًا. وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: م/الجنائز ۳۶ (۹۷۷) (بزیادۃ فی السیاق) (تحفۃ الأشراف: ۱۹۳۲) (صحیح)
وأخرجہ کل من : م/الأضاحی۵(۹۷۷) د/الأشربۃ۷(۳۶۹۸) ن/الجنائز۱۰۰(۲۰۳۴) والأضاحی۳۵ (۴۴۳۴، ۴۴۳۵) حم (۵/۳۵۰،۳۵۵،۳۵۶،۳۵۷) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۰۵۴- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا ۔اب محمد کو اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت دے دی گئی ہے۔تو تم بھی ان کی زیارت کرو، یہ چیز آخرت کو یاد دلاتی ہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوسعیدخدری ، ابن مسعود ، انس ، ابوہریرہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ قبروں کی زیارت میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ ابن مبارک ، شافعی، ا حمد اوراسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس میں قبروں کی زیارت کااستحباب ہی نہیں بلکہ اس کا حکم اورتاکیدہے ،اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ ابتداء اسلام میں اس کام سے روک دیاگیا تھا کیونکہ اس وقت یہ اندیشہ تھا کہ مسلمان اپنے زمانہ ء جاہلیت کے اثرسے وہاں کوئی غلط کام نہ کربیٹھیں پھرجب یہ خطرہ ختم ہوگیا اور مسلمان عقیدئہ توحیدمیں پختہ ہوگئے تو اس کی نہ صرف اجازت دیدی گئی بلکہ اس کی تاکیدکی گئی تاکہ موت کا تصورانسان کے دل ودماغ میں ہروقت رچابسارہے۔


1055- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ. حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ: تُوُفِّيَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ بِحُبْشِيٍّ قَالَ: فَحُمِلَ إِلَى مَكَّةَ فَدُفِنَ فِيهَا. فَلَمَّا قَدِمَتْ عَائِشَةُ، أَتَتْ قَبْرَ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ فَقَالَتْ:
وَكُنَّا كَنَدْمَانَيْ جَذِيمَةَ حِقْبَةً
مِنَ الدَّهْرِ حَتَّى قِيلَ لَنْ يَتَصَدَّعَا
فَلَمَّا تَفَرَّقْنَا كَأَنِّي وَمَالِكًا
لِطُولِ اجْتِمَاعٍ لَمْ نَبِتْ لَيْلَةً مَعَا
ثُمَّ قَالَتْ: وَاللَّهِ! لَوْ حَضَرْتُكَ مَا دُفِنْتَ إِلاَّ حَيْثُ مُتَّ. وَلَوْ شَهِدْتُكَ مَا زُرْتُكَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (ضعیف)
(عبدالملک بن عبدالعزیزا بن جریج ثقہ راوی ہیں، لیکن تدلیس اور ارسال کرتے تھے اور یہاں پر روایت عنعنہ سے ہے ، اس لیے یہ سند ضعیف ہے)
۱۰۵۵- عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمن بن ابی بکر حبشہ میں وفات پاگئے توانہیں مکہ لاکر دفن کیا گیا، جب ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا (مکہ) آئیں تو عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی قبر پر آکر انہوں نے یہ اشعار پڑھے ۔


وَكُنَّا كَنَدْمَانَيْ جَذِيمَةَ حِقْبَةً
مِنْ الدَّهْرِ حَتَّى قِيلَ لَنْ يَتَصَدَّعَا
فَلَمَّا تَفَرَّقْنَا كَأَنِّي وَمَالِكًا
لِطُولِ اجْتِمَاعٍ لَمْ نَبِتْ لَيْلَةً مَعَا


( ہم دونوں ایک عرصے تک ایک ساتھ ایسے رہے تھے جیسے بادشاہ جزیمہ کے دوہم نشین، یہاں تک کہ یہ کہاجانے لگا کہ یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدانہ ہوں گے۔ پھر جب ہم جدا ہوئے تو مدت دراز تک ایک ساتھ رہنے کے باوجود ایسا لگنے لگا گویا میں اور مالک ایک رات بھی کبھی ایک ساتھ نہ رہے ہوں۔پھرکہا: اللہ کی قسم! اگر میں تمہارے پاس موجود ہوتی توتجھے وہیں دفن کیاجاتا جہاں تیرا انتقال ہوا اور اگر میں حاضر رہی ہوتی تو تیری زیارت کونہ آتی۔
 
Top