64-بَاب مَا جَاءَ فِي ثَوَابِ مَنْ قَدَّمَ وَلَدًا
۶۴-باب: اس شخص کے ثواب کا بیان جس نے کوئی لڑکا ذخیرہ آخرت کے طورپرپہلے بھیج دیا ہو
1060- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، ح و حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "لاَ يَمُوتُ لأَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ثَلاَثَةٌ مِنَ الْوَلَدِ فَتَمَسَّهُ النَّارُ، إِلاَّ تَحِلَّةَ الْقَسَمِ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَمُعَاذٍ، وَكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَعُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ، وَأُمِّ سُلَيْمٍ، وَجَابِرٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي ثَعْلَبَةَ الأَشْجَعِيِّ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَقُرَّةَ بْنِ إِيَاسٍ الْمُزَنِيِّ. قَالَ: وَأَبُو ثَعْلَبَةَ الأَشْجَعِيُّ لَهُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ حَدِيثٌ وَاحِدٌ، هُوَ هَذَا الْحَدِيثُ، وَلَيْسَ هُوَ الْخُشَنِيُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الأیمان والنذور ۹ (۶۶۵۶) م/البروالصلۃ ۴۷ (۲۶۳۲) ن/الجنائز ۲۵ (۱۸۷۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۳۴) حم (۲/۴۷۳) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/الجنائز۶(۱۲۵۱) م/الجنائز (المصدر المذکور) ق/الجنائز ۵۷ (۱۶۰۳) حم (۲/۲۴۰، ۲۷۶، ۴۷۹) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۰۶۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس مسلمان کے تین بچے فوت ہوجائیں اسے جہنم کی آگ نہیں چھوے گی مگرقسم پوری کرنے کے لیے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمر، معاذ ، کعب بن مالک ، عتبہ بن عبد، ام سلیم ، جابر ، انس، ابوذر ، ابن مسعود، ابوثعلبہ اشجعی، ابن عباس ، عقبہ بن عامر، ابوسعیدخدری اور قرہ بن ایاس مزنی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- ابوثعلبہ اشجعی کی نبی اکرمﷺ سے صرف ایک ہی حدیث ہے، اور وہ یہی حدیث ہے، اور یہ خشنی نہیں ہیں۔ ( ابوثعلبہ خشنی دوسرے ہیں)
وضاحت ۱؎ : تحلۃ القسم سے مراداللہ تعالیٰ کافرمان
''وإن منكم إلا واردها ''(تم میں سے ہرشخص اس جہنم میں واردہوگا)ہے اورواردسے مراد پُل صراط پرسے گزرناہے۔
1061- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَنْ قَدَّمَ ثَلاَثَةً لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ كَانُوا لَهُ حِصْنًا حَصِينًا مِنَ النَّارِ". قَالَ أَبُو ذَرٍّ: قَدَّمْتُ اثْنَيْنِ. قَالَ: وَاثْنَيْنِ فَقَالَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ سَيِّدُ الْقُرَّائِ: قَدَّمْتُ وَاحِدًا. قَالَ: وَوَاحِدًا. وَلَكِنْ إِنَّمَا ذَاكَ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الأُولَى.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَأَبُو عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ.
* تخريج: ق/الجنائز۵۷(۱۶۰۶) (تحفۃ الأشراف: ۹۶۳۴) حم (۱/۳۷۵،۴۲۹،۴۵۱) (ضعیف)
(سند میں ''ابومحمد مجہول ہیں، اور''ابوعبیدہ ''کا اپنے باپ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے)
۱۰۶۱- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' جس نے تین بچوں کو (لڑکے ہوں یالڑکیاں) بطورذخیرئہ آخرت کے آگے بھیج دیا ہو، اور وہ سنِ بلوغت کونہ پہنچے ہوں تو وہ اس کے لیے جہنم سے بچانے کا ایک مضبوط قلعہ ہوں گے''۔ اس پرابوذرنے عرض کیا: میں نے دوبچے بھیجے ہیں؟آپ نے فرمایا: ''دو بھی کافی ہیں'' ۔ توابی بن کعب سید القراء ۱؎ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:میں نے ایک ہی بھیجاہے ؟تو آپ نے فرمایا:'' ایک بھی کافی ہے۔ البتہ یہ قلعہ اس وقت ہوں گے جب وہ پہلے صدمے کے وقت یعنی مرنے کے ساتھ ہی صبر کرے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- ابوعبیدہ عبیدہ نے اپنے والدعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہیں سُنا ہے ۔
وضاحت ۱؎ : انھیں سیدالقراء اس لیے کہا جاتاہے کہ نبی اکرمﷺ نے ان کے متعلق فرمایا ہے: '' أقرؤكم أبي''تم میں سب سے بڑے قاری ابی ہیں۔
1062- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ وَأَبُو الْخَطَّابِ زِيَادُ بْنُ يَحْيَى الْبَصْرِيُّ قَالاَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ بَارِقٍ الْحَنَفِيُّ قَال: سَمِعْتُ جَدِّي أَبَا أُمِّي سِمَاكَ بْنَ الْوَلِيدِ الْحَنَفِيَّ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "مَنْ كَانَ لَهُ فَرَطَانِ مِنْ أُمَّتِي أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِمَا الْجَنَّةَ". فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَنْ كَانَ لَهُ فَرَطٌ مِنْ أُمَّتِكَ؟ قَالَ: وَمَنْ كَانَ لَهُ فَرَطٌ، يَا مُوَفَّقَةُ! قَالَتْ : فَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ فَرَطٌ مِنْ أُمَّتِكَ؟ قَالَ: فَأَنَا فَرَطُ أُمَّتِي. لَنْ يُصَابُوا بِمِثْلِي. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ بَارِقٍ. وَقَدْ رَوَى عَنْهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ.
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْمُرَابِطِيُّ. حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلاَلٍ. أَنْبَأَنَا عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ بَارِقٍ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ. وَسِمَاكُ بْنُ الْوَلِيدِ، هُوَ أَبُو زُمَيْلٍ الْحَنَفِيُّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وانظر : حم (۱/۳۳۴) (تحفۃ الأشراف: ۵۶۷۹) (ضعیف)
(سند میں عبدربہ بن بارق کوکئی لوگوں نے ضعیف قراردیا ہے ، حافظ ابن حجرنے
''صدوق یخطیٔ''کہا ہے ، ترمذی نے خود ''حدیث غریب''کہاہے ، اوروہ ایساضعیف حدیث کے بارے میں کہتے ہیں)
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۰۶۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:'' میری امت میں سے جس کے دوپیش روہوں ، اللہ اسے ان کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گا''اس پرعائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: آپ کی امت میں سے جس کے ایک ہی پیش روہوتو؟ آپ نے فرمایا: ''جس کے ایک ہی پیش رو ہو اُسے بھی اے توفیق یافتہ خاتون !''(پھر) انہوں نے پوچھا: آپ کی امت میں جس کا کوئی پیش روہی نہ ہو اس کاکیا ہوگا ؟توآپ نے فرمایا:''میں اپنی امت کاپیش روہوں کسی کی جدائی سے انہیں ایسی تکلیف نہیں ہوگی جیسی میری جدائی سے انہیں ہوگی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ہم اسے عبدربہ بن بارق ہی کی روایت سے جانتے ہیں اور ان سے کئی ائمہ نے روایت کی ہے۔