• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
61-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ زِيَارَةِ الْقُبُورِ لِلنِّسَائِ
۶۱-باب: عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت کی ممانعت کا بیان​


1056- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ. حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لَعَنَ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ هَذَا كَانَ قَبْلَ أَنْ يُرَخِّصَ النَّبِيُّ ﷺ فِي زِيَارَةِ الْقُبُورِ. فَلَمَّا رَخَّصَ دَخَلَ فِي رُخْصَتِهِ الرِّجَالُ وَالنِّسَائُ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّمَا كُرِهَ زِيَارَةُ الْقُبُورِ لِلنِّسَائِ، لِقِلَّةِ صَبْرِهِنَّ وَكَثْرَةِ جَزَعِهِنَّ.
* تخريج: ق/الجنائز ۴۹ (۱۵۷۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۸۰) حم (۲/۳۳۷، ۳۵۶) (حسن)
۱۰۵۶ - ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیادہ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عباس اور حسان بن ثابت سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ نبی اکرمﷺ کے قبروں کی زیارت کی اجازت دینے سے پہلے کی بات ہے۔ جب آپ نے اس کی اجازت دے دی تو اب اس اجازت میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں، ۴- بعض کہتے ہیں کہ عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت ان کی قلت صبراورکثرت جزع فزع کی وجہ سے مکروہ ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
62-بَاب مَا جَاءَ فِي الدَّفْنِ بِاللَّيْلِ
۶۲-باب: رات میں تدفین کا بیان​


1057- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ قَالاَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ خَلِيفَةَ، عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ قَبْرًا لَيْلاً. فَأُسْرِجَ لَهُ سِرَاجٌ. فَأَخَذَهُ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ وَقَالَ: رَحِمَكَ اللَّهُ إِنْ كُنْتَ لأَوَّاهًا تَلاَّئً لِلْقُرْآنِ. وَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعًا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ. وَهُوَ أَخُو زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَكْبَرُ مِنْهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا. وَقَالُوا: يُدْخَلُ الْمَيِّتُ الْقَبْرَ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ. و قَالَ بَعْضُهُمْ يُسَلُّ سَلاَّ. وَرَخَّصَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ. فِي الدَّفْنِ بِاللَّيْلِ.
* تخريج: ق/الجنائز۳۰(۱۵۲۰) (ولفظہ ''أدخل رجلاً قبرہ لیلا، وأسرج قبرہ'' وسقط من سندہ الحجا) (تحفۃ الأشراف: ۵۸۸۹) (ضعیف)
(سند میں منہال بن خلیفہ ضعیف راوی ہیں)
۱۰۵۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ایک قبر میں رات کو داخل ہوئے تو آپ کے لیے ایک چراغ روشن کیاگیا۔ آپ نے میت کوقبلے کی طرف سے لیا۔اور فرمایا: اللہ تم پر رحم کرے! تم بہت نرم دل رونے والے ، اور بہت زیادہ قرآن کی تلاوت کرنے والے تھے۔اور آپ نے اس پر چار تکبیریں کہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس کی حدیث حسن ہے،۲- ا س باب میں جابر اور یزید بن ثابت سے بھی احادیث آئی ہیں اور یزیدبن ثابت، زید بن ثابت کے بھائی ہیں، اور ان سے بڑ ے ہیں،۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ میت کو قبر میں قبلے کی طرف سے اتارا جائے گا ۱؎ ،۴- بعض کہتے ہیں: پائتانے کی طرف سے رکھ کر کھینچ لیں گے ۲؎ ، ۵- اوراکثر اہل علم نے رات کودفن کرنے کی اجازت دی ہے ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ان لوگوں کی دلیل باب کی یہی حدیث ہے لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، قابل استدلال نہیں ہے۔
وضاحت ۲؎ : یہی مذہب امام شافعی، امام احمد اوراکثرلوگوں کا ہے اوردلیل کے اعتبارسے قوی اورراجح بھی یہی ہے، ان لوگوں کی دلیل ابواسحاق سبیعی کی روایت ہے کہ عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ نے میت کو اس کے پاؤں کی طرف سے قبرمیں اتارااورکہا:سنت طریقہ یہی ہے، اس روایت پر یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ ابواسحاق سبیعی آخری عمرمیں اختلاط کا شکارہوگئے اورساتھ ہی یہ تدلیس بھی کرتے ہیں اس لیے یہ روایت بھی قابل استدلال نہیں ہے لیکن یہ اعتراض صحیح نہیں کیونکہ ابواسحاق سبیعی سے اسے شعبہ نے روایت کیا ہے اورابواسحاق سبیعی کی جوروایت شعبہ کے طریق سے آئے وہ محمول علی السماع ہوتی ہے گو وہ معنعن ہو کیونکہ شعبہ اپنے شیوخ سے وہی حدیثیں لیتے ہیں جو صحیح ہوتی ہیں۔
وضاحت ۳؎ : حسن بصری کراہت کی طرف گئے ہیں اورجابرکی حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ہے ''ان النبیﷺ زجرأن یقبرالرجل لیلاً حتی یصلیٰ علیہ ''(رواہ مسلم) اس کا جواب دیاگیا ہے کہ یہ زجرصلاۃِجنازہ نہ پڑھنے کی وجہ سے تھی، نہ کہ رات میں دفن کرنے کی وجہ سے، یا اس وجہ سے کہ یہ لوگ رات میں دفن گھٹیاکفن دینے کے لیے کرتے تھے لہذا اگران چیزوں کا اندیشہ نہ ہو تورات میں تدفین میں کوئی حرج نہیں، نبی اکرمﷺکی تدفین رات ہی میں عمل میں آئی جیساکہ احمدنے عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے اسی طرح ابوبکروعمرکی تدفین بھی رات میں ہوئی اورفاطمہ رضی اللہ عنہا کی تدفین بھی رات ہی میں عمل میں آئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
63-بَاب مَا جَاءَ فِي الثَّنَائِ الْحَسَنِ عَلَى الْمَيِّتِ
۶۳-باب: میت کی تعریف کرنے کا بیان​


1058- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ. حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ. أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: مُرَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِجَنَازَةٍ. فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا خَيْرًا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "وَجَبَتْ". ثُمَّ قَالَ: "أَنْتُمْ شُهَدَائُ اللَّهِ فِي الأَرْضِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۱۲) (صحیح)
وأخرجہ کل من : خ/الجنائز ۸۵ (۱۳۶۷) والشہادات ۶ (۲۶۴۲) م/الجنائز ۲۰ (۹۴۹) ن/الجنائز۵۰ (۱۹۳۴) ق/الجنائز ۲۰ (۱۴۹۱) حم (۳/۱۷۹، ۱۸۶، ۱۹۷، ۲۴۵، ۲۸۱) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۰۵۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا، لوگوں نے اس کی تعریف کی ۱؎ تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''(جنت) واجب ہوگئی'' پھر فرمایا:'' تم لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہو'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمر، کعب بن عجرہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں
وضاحت ۱؎ : حاکم کی ایک روایت میں ہے کہ ان لوگوں نے کہا: یہ فلاں کا جنازہ ہے جو اللہ اوراس کے رسول سے محبت رکھتاتھا اوراللہ کی اطاعت کرتاتھا اوراس میں کوشاں رہتاتھا۔
وضاحت ۲؎ : یہ خطاب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اوران کے طریقے پرچلنے والوں سے ہے ،ابن القیم نے بیان کیا ہے کہ یہ صحابہ کے ساتھ خاص ہے۔


1059- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْبَزَّازُ قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِي الأَسْوَدِ الدِّيلِيِّ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ. فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ؛ فَمَرُّوا بِجَنَازَةٍ؛ فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا خَيْرًا؛ فَقَالَ: عُمَرُ وَجَبَتْ؛ فَقُلْتُ لِعُمَرَ: وَمَا وَجَبَتْ؟ قَالَ: أَقُولُ: كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، قَالَ: "مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ لَهُ ثَلاَثَةٌ إِلاَّ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ"، قَالَ: قُلْنَا: وَاثْنَانِ؟ قَالَ: "وَاثْنَانِ"، قَالَ: وَلَمْ نَسْأَلْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ الْوَاحِدِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو الأَسْوَدِ الدِّيلِيُّ اسْمُهُ ظَالِمُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سُفْيَانَ.
* تخريج: خ/الجنائز ۸۵ (۱۳۶۸) والشہادات ۶ (۲۶۴۳) ن/الجنائز ۵۰ (۱۹۳۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۷۲) حم (۱/۲۲، ۳۰،۴۶) (صحیح)
۱۰۵۹- ابوالاسود الدیلی کہتے ہیں: میں مدینے آیا،تو عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آکر بیٹھااتنے میں کچھ لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے تو لوگوں نے اس کی تعریف کی عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: واجب ہوگئی،میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا چیز واجب ہوگئی؟تو انہوں نے کہا: میں وہی بات کہہ رہاہوں جو رسول اللہ ﷺ نے کہی ہے۔ آپ نے فرمایا:'' جس کسی بھی مسلمان کے (نیک ہونے کی ) تین آدمی گواہی دیں، اس کے لیے جنت واجب ہوگئی'' ۔ ہم نے عرض کیا: اگر دو آدمی گواہی دیں؟ آپ نے فرمایا: '' دو آدمی بھی '' ہم نے رسول اللہ ﷺ سے ایک کی گواہی کے بارے میں نہیں پوچھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
64-بَاب مَا جَاءَ فِي ثَوَابِ مَنْ قَدَّمَ وَلَدًا
۶۴-باب: اس شخص کے ثواب کا بیان جس نے کوئی لڑکا ذخیرہ آخرت کے طورپرپہلے بھیج دیا ہو​


1060- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، ح و حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "لاَ يَمُوتُ لأَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ثَلاَثَةٌ مِنَ الْوَلَدِ فَتَمَسَّهُ النَّارُ، إِلاَّ تَحِلَّةَ الْقَسَمِ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَمُعَاذٍ، وَكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَعُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ، وَأُمِّ سُلَيْمٍ، وَجَابِرٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي ثَعْلَبَةَ الأَشْجَعِيِّ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَقُرَّةَ بْنِ إِيَاسٍ الْمُزَنِيِّ. قَالَ: وَأَبُو ثَعْلَبَةَ الأَشْجَعِيُّ لَهُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ حَدِيثٌ وَاحِدٌ، هُوَ هَذَا الْحَدِيثُ، وَلَيْسَ هُوَ الْخُشَنِيُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الأیمان والنذور ۹ (۶۶۵۶) م/البروالصلۃ ۴۷ (۲۶۳۲) ن/الجنائز ۲۵ (۱۸۷۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۳۴) حم (۲/۴۷۳) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/الجنائز۶(۱۲۵۱) م/الجنائز (المصدر المذکور) ق/الجنائز ۵۷ (۱۶۰۳) حم (۲/۲۴۰، ۲۷۶، ۴۷۹) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۰۶۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس مسلمان کے تین بچے فوت ہوجائیں اسے جہنم کی آگ نہیں چھوے گی مگرقسم پوری کرنے کے لیے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمر، معاذ ، کعب بن مالک ، عتبہ بن عبد، ام سلیم ، جابر ، انس، ابوذر ، ابن مسعود، ابوثعلبہ اشجعی، ابن عباس ، عقبہ بن عامر، ابوسعیدخدری اور قرہ بن ایاس مزنی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- ابوثعلبہ اشجعی کی نبی اکرمﷺ سے صرف ایک ہی حدیث ہے، اور وہ یہی حدیث ہے، اور یہ خشنی نہیں ہیں۔ ( ابوثعلبہ خشنی دوسرے ہیں)
وضاحت ۱؎ : تحلۃ القسم سے مراداللہ تعالیٰ کافرمان ''وإن منكم إلا واردها ''(تم میں سے ہرشخص اس جہنم میں واردہوگا)ہے اورواردسے مراد پُل صراط پرسے گزرناہے۔


1061- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَنْ قَدَّمَ ثَلاَثَةً لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ كَانُوا لَهُ حِصْنًا حَصِينًا مِنَ النَّارِ". قَالَ أَبُو ذَرٍّ: قَدَّمْتُ اثْنَيْنِ. قَالَ: وَاثْنَيْنِ فَقَالَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ سَيِّدُ الْقُرَّائِ: قَدَّمْتُ وَاحِدًا. قَالَ: وَوَاحِدًا. وَلَكِنْ إِنَّمَا ذَاكَ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الأُولَى.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَأَبُو عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ.
* تخريج: ق/الجنائز۵۷(۱۶۰۶) (تحفۃ الأشراف: ۹۶۳۴) حم (۱/۳۷۵،۴۲۹،۴۵۱) (ضعیف)
(سند میں ''ابومحمد مجہول ہیں، اور''ابوعبیدہ ''کا اپنے باپ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے)
۱۰۶۱- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' جس نے تین بچوں کو (لڑکے ہوں یالڑکیاں) بطورذخیرئہ آخرت کے آگے بھیج دیا ہو، اور وہ سنِ بلوغت کونہ پہنچے ہوں تو وہ اس کے لیے جہنم سے بچانے کا ایک مضبوط قلعہ ہوں گے''۔ اس پرابوذرنے عرض کیا: میں نے دوبچے بھیجے ہیں؟آپ نے فرمایا: ''دو بھی کافی ہیں'' ۔ توابی بن کعب سید القراء ۱؎ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:میں نے ایک ہی بھیجاہے ؟تو آپ نے فرمایا:'' ایک بھی کافی ہے۔ البتہ یہ قلعہ اس وقت ہوں گے جب وہ پہلے صدمے کے وقت یعنی مرنے کے ساتھ ہی صبر کرے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- ابوعبیدہ عبیدہ نے اپنے والدعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہیں سُنا ہے ۔
وضاحت ۱؎ : انھیں سیدالقراء اس لیے کہا جاتاہے کہ نبی اکرمﷺ نے ان کے متعلق فرمایا ہے: '' أقرؤكم أبي''تم میں سب سے بڑے قاری ابی ہیں۔


1062- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ وَأَبُو الْخَطَّابِ زِيَادُ بْنُ يَحْيَى الْبَصْرِيُّ قَالاَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ بَارِقٍ الْحَنَفِيُّ قَال: سَمِعْتُ جَدِّي أَبَا أُمِّي سِمَاكَ بْنَ الْوَلِيدِ الْحَنَفِيَّ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "مَنْ كَانَ لَهُ فَرَطَانِ مِنْ أُمَّتِي أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِمَا الْجَنَّةَ". فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَنْ كَانَ لَهُ فَرَطٌ مِنْ أُمَّتِكَ؟ قَالَ: وَمَنْ كَانَ لَهُ فَرَطٌ، يَا مُوَفَّقَةُ! قَالَتْ : فَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ فَرَطٌ مِنْ أُمَّتِكَ؟ قَالَ: فَأَنَا فَرَطُ أُمَّتِي. لَنْ يُصَابُوا بِمِثْلِي. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ بَارِقٍ. وَقَدْ رَوَى عَنْهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ.
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْمُرَابِطِيُّ. حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلاَلٍ. أَنْبَأَنَا عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ بَارِقٍ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ. وَسِمَاكُ بْنُ الْوَلِيدِ، هُوَ أَبُو زُمَيْلٍ الْحَنَفِيُّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وانظر : حم (۱/۳۳۴) (تحفۃ الأشراف: ۵۶۷۹) (ضعیف)
(سند میں عبدربہ بن بارق کوکئی لوگوں نے ضعیف قراردیا ہے ، حافظ ابن حجرنے ''صدوق یخطیٔ''کہا ہے ، ترمذی نے خود ''حدیث غریب''کہاہے ، اوروہ ایساضعیف حدیث کے بارے میں کہتے ہیں)
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۰۶۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:'' میری امت میں سے جس کے دوپیش روہوں ، اللہ اسے ان کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گا''اس پرعائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: آپ کی امت میں سے جس کے ایک ہی پیش روہوتو؟ آپ نے فرمایا: ''جس کے ایک ہی پیش رو ہو اُسے بھی اے توفیق یافتہ خاتون !''(پھر) انہوں نے پوچھا: آپ کی امت میں جس کا کوئی پیش روہی نہ ہو اس کاکیا ہوگا ؟توآپ نے فرمایا:''میں اپنی امت کاپیش روہوں کسی کی جدائی سے انہیں ایسی تکلیف نہیں ہوگی جیسی میری جدائی سے انہیں ہوگی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ہم اسے عبدربہ بن بارق ہی کی روایت سے جانتے ہیں اور ان سے کئی ائمہ نے روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
65-بَاب مَا جَاءَ فِي الشُّهَدَائِ مَنْ هُمْ
۶۵-باب: شہید کون لوگ ہیں؟​


1063- حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، ح و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "الشُّهَدَائُ خَمْسٌ: الْمَطْعُونُ وَالْمَبْطُونُ وَالْغَرِقُ وَصَاحِبُ الْهَدْمِ وَالشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَصَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ، وَجَابِرِ بْنِ عَتِيكٍ، وَخَالِدِ بْنِ عُرْفُطَةَ، وَسُلَيْمَانَ ابْنِ صُرَدٍ، وَأَبِي مُوسَى، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الأذان ۳۲ (۶۵۲) و۷۳ (۷۲۰) (بزیادۃ فی السیاق) والجہاد ۳۰ (۲۸۲۹) والطب۳۰ (۵۷۳۳) م/الإمارۃ ۵۱ (۱۹۱۴) (بزیادۃ في السیاق) ط/الجماعۃ ۲ (۶) (بزیادۃ فی السیاق) حم (۲/۳۲۵، ۵۳۳) (بزیادۃ فی السیاق) (صحیح) وأخرجہ کل من : م/الإمارۃ (المصدر المذکور) ق/الجہاد ۱۷ (۲۸۰۴) من غیر ہذا الطریق۔
۱۰۶۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''شہید پانچ لوگ ہیں: جو طاعون میں مراہو، جو پیٹ کے مرض سے مراہو، جو ڈوب کر مراہو، جو دیوار وغیرہ گرجانے سے مراہو، اور جواللہ کی راہ میں شہید ہواہو'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں انس، صفوان بن امیہ ، جابر بن عتیک ، خالد بن عرفطہ، سلیمان بن صرد، ابوموسیٰ اشعری اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ پانچ قسم کے افراد ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ قیامت کے روز شہیدوں کا ثواب عطافرمائے گابعض روایات میں کچھ اورلوگوں کا بھی ذکرہے ان احادیث میں تضاد نہیں اس لیے کہ پہلے نبی اکرمﷺ کو اتنے ہی لوگوں کے بارے میں بتایا گیا بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس فہرست میں کچھ مزید لوگوں کابھی اضافہ فرمادیا ان میں''شہیدفی سبیل اللہ'' کا درجہ سب سے بلندہے کیونکہ حقیقی شہیدوہی ہے بشرطیکہ وہ صدق دلی سے اللہ کی راہ میں لڑاہو۔


1064- حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنِ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ الْكُوفِيُّ. حَدَّثَنَا أَبِي. حَدَّثَنَا أَبُوسِنَانٍ الشَّيْبَانِيُّ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ السَّبِيعِيِّ قَالَ: قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ صُرَدٍ لِخَالِدِ بْنِ عُرْفُطَةَ (أَوْ خَالِدٌ لِسُلَيْمَانَ): أَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "مَنْ قَتَلَهُ بَطْنُهُ لَمْ يُعَذَّبْ فِي قَبْرِهِ؟ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: نَعَمْ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. فِي هَذَا الْبَابِ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: ن/الجنائز۱۱۱(۲۰۵۴) (تحفۃ الأشراف: ۳۵۰۳و۴۵۶۷) حم (۴/۲۶۲) و (۵/۲۹۲) (صحیح)
۱۰۶۴- ابواسحاق سبیعی کہتے ہیں کہ سلیمان بن صرد نے خالد بن عرفطہ سے (یاخالد نے سلیمان سے) پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے نہیں سنا؟ جسے اس کا پیٹ ماردے ۱؎ اسے قبر میں عذاب نہیں دیاجائے گا تو ان میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا: ہاں(سناہے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- اس کے علاوہ یہ اور بھی طریق سے مروی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ہیضہ اوراسہال وغیرہ سے مرجائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
66-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْفِرَارِ مِنَ الطَّاعُونِ
۶۶-باب: طاعون سے بھاگنے کی کراہت کا بیان​


1065- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ. حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ ذَكَرَ الطَّاعُونَ فَقَالَ: بَقِيَّةُ رِجْزٍ أَوْ عَذَابٍ أُرْسِلَ عَلَى طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ. فَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا مِنْهَا. وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَلَسْتُمْ بِهَا فَلا تَهْبِطُوا عَلَيْهَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَخُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، وَعَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَجَابِرٍ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۵۴ (۳۴۷۳) والحیل ۱۳ (۶۹۷۴) م/السلام ۳۲ (۲۲۱۸) (تحفۃ الأشراف: ۹۲) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/الطب ۳۰ (۵۷۲۸) م/السلام (المصدرالمذکور) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۰۶۵- اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے طاعون کا ذکر کیا، توفرمایا: '' یہ اس عذاب کا بچا ہواحصہ ہے، جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ ۱؎ پربھیجاگیاتھا جب کسی زمین (ملک یا شہر) میں طاعون ہو جہاں پرتم رہ رہے ہو تو وہاں سے نہ نکلو ۲؎ اور جب وہ کسی ایسی سر زمین میں پھیلاہو جہاں تم نہ رہتے ہوتو وہاں نہ جاؤ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اسامہ بن زید کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں سعد، خزیمہ بن ثابت ، عبدالرحمن بن عوف، جابر اور عائشہ سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : اس گروہ سے مرادوہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے بیت المقدس کے دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونے کاحکم دیا تھالیکن انھوں نے مخالفت کی، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے فرمایا ''فأرسلنا عليهم رجزاً من السماء''آیت میں''رجزاً من السماء'' سے مرادطاعون ہے چنانچہ ایک گھنٹہ میں ان کے بڑے بوڑھوں میں سے ۲۴ہزارلوگ مرگئے۔
وضاحت ۲؎ : کیونکہ وہاں سے بھاگ کرتم نہیں بچ سکتے اس سے بچاؤکا راستہ توبہ واستغفارہے نہ کہ وہاں سے چلے جانا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
67-بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ أَحَبَّ لِقَائَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَائَهُ
۶۷-باب: جواللہ سے ملنا چاہتاہے ،اللہ بھی اس سے ملناچاہتاہے​


1066- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مِقْدَامٍ أَبُو الأَشْعَثِ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَال: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ أَحَبَّ لِقَائَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَائَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَائَ اللَّهِ كَرِهَ اللَّهُ لِقَائَهُ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَى، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الرقاق ۴۱ (۶۵۰۷) م/الذکر ۵ (۲۶۸۳) ن/الجنائز ۱۰ (۱۸۳۶) حم (۵/۳۱۶،۳۲۱) دی/الرقاق ۴۳ (۲۷۹۸) ویأتي عند المؤلف في الزہد ۶ (۲۳۰۹) (تحفۃ الأشراف: ۵۰۷۰) (صحیح)
۱۰۶۶- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جو اللہ سے ملناچاہتاہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہتاہے اور جو اللہ سے ملنے کوناپسند کرتاہو اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عبادہ بن صامت کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوموسیٰ اشعری ، ابوہریرہ، اورعائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


1067- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ قَالَ: وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا ذَكَرَتْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "مَنْ أَحَبَّ لِقَائَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَائَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَائَ اللَّهِ كَرِهَ اللَّهُ لِقَائَهُ". قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كُلُّنَا نَكْرَهُ الْمَوْتَ. قَالَ: لَيْسَ ذَلِكَ، وَلَكِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا بُشِّرَ بِرَحْمَةِ اللَّهِ وَرِضْوَانِهِ وَجَنَّتِهِ، أَحَبَّ لِقَائَ اللَّهِ، وَأَحَبَّ اللَّهُ لِقَائَهُ. وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا بُشِّرَ بِعَذَابِ اللَّهِ وَسَخَطِهِ كَرِهَ لِقَائَ اللَّهِ وَكَرِهَ اللَّهُ لِقَائَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الرقاق ۴۱ (تعلیقا بعد حدیث عبادۃ) م/الذکر ۵ (۲۶۸۴) ن/الجنائز ۱۰ (۱۸۳۹) ق/الزہد ۳۱ (۴۲۶۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۰۳) (صحیح)
وأخرجہ کل من : م/الذکر (المصدر المذکور) حم (۶/۴۴،۵۵،۲۰۷) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۰۶۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جواللہ سے ملنا چاہتاہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہتاہے،اور جو اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتاہے اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتاہے''۔تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ہم سبھی کو موت ناپسند ہے؟تو آپ نے فرمایا: ''یہ مرادنہیں ہے،بلکہ مرادیہ ہے کہ مومن کو جب اللہ کی رحمت، اس کی خوشنودی اوراس کے جنت کی بشارت دی جاتی ہے تووہ اللہ سے ملنا چاہتاہے اور اللہ اس سے ملنا چاہتاہے، اور کافر کو جب اللہ کے عذاب اور اس کی غصے کی خبر دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتاہے اور اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتاہے '' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ جان نکلنے کے وقت اورموت کے فرشتوں کے آجانے کے وقت آدمی میں اللہ سے ملنے کی جو چاہت ہوتی ہے وہ مرادہے نہ کہ عام حالات میں کیونکہ عام حالات میں کوئی بھی مرنے کو پسندنہیں کرتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
68-بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ لَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِ
۶۸-باب: خود کشی کرنے والے کی صلاۃِجنازہ نہ پڑھنے کا بیان​


1068- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ وَشَرِيكٌ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَنَّ رَجُلاً قَتَلَ نَفْسَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: يُصَلَّى عَلَى كُلِّ مَنْ صَلَّى إِلَى الْقِبْلَةِ وَعَلَى قَاتِلِ النَّفْسِ، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَإِسْحَاقَ. و قَالَ أَحْمَدُ: لاَ يُصَلِّي الإِمَامُ عَلَى قَاتِلِ النَّفْسِ وَيُصَلِّي عَلَيْهِ غَيْرُ الإِمَامِ.
* تخريج: ق/الجنائز۳۱(۱۵۲۶) (تحفۃ الأشراف: ۲۱۴۰،۲۱۷۴) (۵/۸۷،۹۲) (صحیح)
۱۰۶۸- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے خود کشی کرلی ،تو نبی اکرمﷺنے اس کی صلاۃِجنازہ نہیں پڑھی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ ہرشخص کی صلاۃ پڑھی جائے گی جوقبلہ کی طرف صلاۃپڑھتاہو اور خود کشی کرنے والے کی بھی پڑھی جائے گی ۔ ثوری اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۳- اوراحمد کہتے ہیں: امام خود کشی کرنے والے کی صلاۃ نہیں پڑھے گا، البتہ (مسلمانوں کے مسلمان حاکم) امام کے علاوہ لوگ پڑھیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
69-بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْمَدْيُونِ
۶۹-باب: قرض دار کی صلاۃِ جنازہ کا بیان​


1069- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي قَتَادَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أُتِيَ بِرَجُلٍ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ؛ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ. فَإِنَّ عَلَيْهِ دَيْنًا".
قَالَ أَبُو قَتَادَةَ: هُوَ عَلَيَّ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: بِالْوَفَائِ؟ قَالَ: بِالْوَفَائِ. فَصَلَّى عَلَيْهِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَسَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي قَتَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ن/الجنائز ۶۷ (۱۹۶۲) ق/الصدقات ۹ (۲۴۰۷) دي/البیوع ۵۳ (۲۶۳۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۰۳) حم (۵/۳۰۲) (صحیح)
۱۰۶۹- ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے پاس ایک شخص لایاگیا تاکہ آپ اس کی صلاۃِجنازہ پڑھائیں تو آپﷺ نے فرمایا: ''تم اپنے ساتھی کی صلاۃ پڑھ لوکیونکہ اس پر قرض ہے''۔ (میں نہیں پڑھوں گا) اس پرابوقتادہ نے عرض کیا : اس کی ادائیگی میرے ذمے ہے، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا:''پورا پورا اداکروگے؟'' تو انہوں نے کہا: (ہاں)پوراپورا اداکریں گے توآپ نے اس کی صلاۃِجنازہ پڑھائی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوقتادہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں جابر، سلمہ بن الاکوع ، اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


1070- حَدَّثَنِي أَبُو الْفَضْلِ مَكْتُومُ بْنُ الْعَبَّاسِ التِّرْمِذِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يُؤْتَى بِالرَّجُلِ الْمُتَوَفَّى عَلَيْهِ الدَّيْنُ، فَيَقُولُ: "هَلْ تَرَكَ لِدَيْنِهِ مِنْ قَضَائٍ؟" فَإِنْ حُدِّثَ أَنَّهُ تَرَكَ وَفَائً صَلَّى عَلَيْهِ، وَإِلاَّ قَالَ لِلْمُسْلِمِينَ صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ. فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْفُتُوحَ قَامَ فَقَالَ: أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ. فَمَنْ تُوُفِّيَ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَتَرَكَ دَيْنًا، عَلَيَّ قَضَاؤُهُ. وَمَنْ تَرَكَ مَالاً فَهُوَ لِوَرَثَتِهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ اللَّيْثِ ابْنِ سَعْدٍ. نَحْوَ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَالِحٍ.
* تخريج: خ/الکفارۃ ۵ (۲۲۹۸) والنفقات ۱۵ (۵۳۷۱) م/الفرائض ۴ (۱۶۱۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۱۱۶) حم (۲/۴۵۳) (صحیح) وأخرجہ کل من : ن/الجنائز۶۷(۱۹۶۵) ق/الصدقات۱۳(۲۴۱۵) حم (۲/۲۹۰) من غیر ہذا الوجہ، وأخرجہ : خ/الاستقراض ۱۱ (۲۳۹۸، ۲۳۹۹) وتفسیر الاقراب ۱ (۴۷۹۱) والفرائض ۴ (۶۷۳۱) و۱۵ (۶۷۴۵) و۲۵ (۶۷۶۳) م/الفرائض (المصدرالمذکور) حم (۲/۴۵۶) مغتصرا ومن غیر ہذا الوجہ۔
۱۰۷۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی فوت شدہ شخص جس پر قرض ہولایاجاتا تو آپ پوچھتے: '' کیا اس نے اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ چھوڑا ہے؟'' اگر آپ کو بتایاجاتا کہ اس نے اتنا مال چھوڑاہے جس سے اس کے قرض کی مکمل ادائیگی ہوجائے گی تو آپ اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھاتے ، ورنہ مسلمانوں سے فرماتے: ''تم لوگ اپنے ساتھی کی صلاۃِجنازہ پڑھ لو(میں نہیں پڑھ سکتا)''،پھرجب اللہ نے آپ کے لیے فتوحات کادروازہ کھولا تو آپ کھڑے ہوئے اورآپ نے فرمایا: ''میں مسلمانوں کا ان کی اپنی جانوں سے زیادہ حق دار ہوں۔تو مسلمانوں میں سے جس کی موت ہوجائے اور وہ قرض چھوڑ جائے تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہے اور جو کوئی مال چھوڑ کرجائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اسے یحییٰ بن بکیر اوردیگر کئی لوگوں نے لیث بن سعد سے عبداللہ بن صالح کی حدیث کی طرح روایت کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
70-بَاب مَا جَاءَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ
۷۰-باب: عذابِ قبر کا بیان​


1071- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَانِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ (أَوْ قَالَ أَحَدُكُمْ) أَتَاهُ مَلَكَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ. يُقَالُ لأَحَدِهِمَا الْمُنْكَرُ وَالآخَرُ النَّكِيرُ؛ فَيَقُولاَنِ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُولُ مَا كَانَ يَقُولُ: هُوَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ. أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ. فَيَقُولاَنِ: قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ هَذَا، ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِينَ، ثُمَّ يُنَوَّرُ لَهُ فِيهِ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: نَمْ، فَيَقُولُ: أَرْجِعُ إِلَى أَهْلِي فَأُخْبِرُهُمْ؟ فَيَقُولاَنِ: نَمْ، كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ الَّذِي لاَ يُوقِظُهُ إِلاَّ أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ، حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ، وَإِنْ كَانَ مُنَافِقًا قَالَ: سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ فَقُلْتُ مِثْلَهُ، لاَ أَدْرِي، فَيَقُولاَنِ: قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ ذَلِكَ فَيُقَالُ لِلأَرْضِ: الْتَئِمِي عَلَيْهِ، فَتَلْتَئِمُ عَلَيْهِ فَتَخْتَلِفُ فِيهَا أَضْلاَعُهُ، فَلاَ يَزَالُ فِيهَا مُعَذَّبًا حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ وَالْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَأَنَسٍ، وَجَابِرٍ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ. كُلُّهُمْ رَوَوْا عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۷۶) (حسن)
۱۰۷۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب میت کویاتم میں سے کسی کودفنا دیاجاتاہے تو اس کے پاس کالے رنگ کی نیلی آنکھ والے دوفرشتے آتے ہیں، ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کونکیر کہاجاتاہے۔ اور وہ دونوں پوچھتے ہیں: تو اس شخص کے بارے میں کیاکہتا تھا۔ وہ (میت) کہتاہے : وہی جو وہ خود کہتے تھے کہ وہ اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں،اور میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں اور محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں تو وہ دونوں کہتے ہیں: ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر اس کی قبر طول وعرض میں سترستر گز کشادہ کردی جاتی ہے ، پھر اس میں روشنی کردی جاتی ہے۔ پھر اس سے کہاجاتاہے : سوجا، وہ کہتاہے : مجھے میرے گھر والوں کے پاس واپس پہنچادو کہ میں انہیں یہ بتاسکوں ، تووہ دونوں کہتے ہیں: توسوجااس دلہن کی طرح جسے صرف وہی جگا تاہے جو اس کے گھروالوں میں اسے سب سے زیادہ محبوب ہوتاہے،یہاں تک کہ اللہ اُسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے،اور اگر وہ منافق ہے،تو کہتاہے: میں لوگوں کوجو کہتے سنتا تھا، وہی میں بھی کہتاتھا اور مجھے کچھ نہیں معلوم۔ تووہ دونوں اس سے کہتے ہیں: ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر زمین سے کہاجاتاہے: تو اسے دبوچ لے تووہ اسے دبوچ لیتی ہے اورپھراس کی پسلیاں ادھر کی ادھر ہوجاتی ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی عذاب میں مبتلا رہتاہے۔یہاں تک کہ اللہ اسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں علی، زیدبن ثابت، ابن عباس، براء بن عازب، ابوایوب ، انس ، جابر ،ام المومنین عائشہ اور ابوسفیان رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ان سبھوں نے نبی اکرمﷺ سے عذاب قبر کے متعلق روایت کی ہے۔


1072- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِذَا مَاتَ الْمَيِّتُ عُرِضَ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ فَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ، ثُمَّ يُقَالُ: هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى يَبْعَثَكَ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۰۵۷) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/الجنائز۸۹(۱۳۷۹) وبدء الخلق۸(۳۲۴) والرقاق۴۲(۶۵۱۵) م/الجنۃ۱۷(۲۸۶۶) ن/الجنائز ۱۱۶) (۲۰۷۲، ۲۰۷۳،۲۰۷۴ الزہد۳۲(۴۲۷۰) ط/الجنائز۱۶(۴۷) حم (۲/۱۶، ۵۱، ۱۱۳، ۱۲۳) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۰۷۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب کوئی آدمی مرتاہے تو اس پر صبح وشام اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتاہے، اگرو ہ جنتیوں میں سے ہے تو جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھتاہے اور اگر وہ جہنمیوں میں سے ہے تووہ جہنم میں اپناٹھکانا دیکھتاہے، پھر اس سے کہاجاتاہے : یہ تیرا ٹھکانا ہے، یہاں تک کہ اللہ تجھے قیامت کے دن اٹھائے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس طرح کی مزید صحیح احادیث میں منکرین عذابِ قبر کا پوراپورا رد پا یا جاتاہے ، اگرایسے لوگ عالم برزخ کے احوال کو اپنی عقل پر پرکھیں اور اپنی عقلوں کو ہی دین کا معیار بنائیں توپھر شریعتِ مطہرہ میں ایمانیات کے تعلق سے کتنے ہی ایسے بیسیوں مسائل ہیں کہ جن کا ادراک انسانی عقل کرہی نہیں سکتی تو پھر کیا قرآن وسنت اور سلف صالحین کی وہی راہ تھی جو''اس طرح کی عقل والوں''نے اختیارکی ہے۔
 
Top