10- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوَلِيمَةِ
۱۰-باب: ولیمہ کا بیان
1094- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ رَأَى عَلَى عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَثَرَ صُفْرَةٍ، فَقَالَ: "مَا هَذَا؟" فَقَالَ: إِنِّي تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً عَلَى وَزْنِ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ. فَقَالَ: "بَارَكَ اللهُ لَكَ، أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَزُهَيْرِ بْنِ عُثْمَانَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. و قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: وَزْنُ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ: وَزْنُ ثَلاَثَةِ دَرَاهِمَ وَثُلُثٍ. و قَالَ إِسْحَاقُ: هُوَ وَزْنُ خَمْسَةِ دَرَاهِمَ وَثُلُثٍ.
* تخريج: خ/النکاح ۵۶ (۵۱۵۵)، والدعوات ۵۳ (۶۳۸۶)، م/النکاح ۳ (۱۴۲۷)، ن/النکاح ۷۴ (۳۳۷۴، ۳۳۷۵)، ق/النکاح ۲۴ (۱۹۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۸)، دي/النکاح ۲۲ (۲۲۵۰) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/البیوع ۱ (۲۰۴۹)، ومناقب الأنصار ۳ (۳۷۸۱)، والنکاح ۴۹ (۵۱۳۸)، و۵۴ (۵۱۵۳)، و۶۸ (۵۱۶۸)، والأدب ۶۷ (۶۰۸۲)، م/النکاح (المصدر المذکور)، د/النکاح ۳۰ (۲۱۹۰)، حم (۳/۱۶۵، ۱۹۰، ۲۰۵، ۲۷۱)، دي/الأطعمۃ ۲۸ (۲۱۰۸) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۰۹۴- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمن بن عوف کے جسم پر زردی کانشان دیکھاتوپوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے ایک عورت سے کھجور کی ایک گٹھلی سونے کے عوض شادی کرلی ہے، آپ نے فرمایا:'' اللہ تمہیں برکت عطاکرے، ولیمہ ۱؎ کرو خواہ ایک ہی بکری کاہو'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن مسعود ،عائشہ ، جابر اور زہیر بن عثمان رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- احمد بن حنبل کہتے ہیں: گٹھلی بھر سونے کا وزن تین درہم اورتہائی درہم وزن کے برابر ہوتاہے،۴- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: پانچ درہم اورتہائی درہم کے وزن کے برابر ہوتاہے۔
وضاحت ۱؎ :
'' أولم ولو بشأة''میں
''لو''تقلیل کے لیے آیا ہے یعنی کم ازکم ایک بکری ذبح کرو، لیکن نبی اکرمﷺ نے صفیہ کے ولیمہ میں صرف ستواورکجھورپر اکتفاکیا، اس لیے مستحب یہ ہے کہ ولیمہ شوہر کی مالی حیثیت کے حسب حال ہو، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی مالی حالت کے پیش نظرایک بکری کا ولیمہ کم تھا اسی لیے آپ نے اُن سے
'' أولم ولو بشأة''فرمایا۔
وضاحت ۲؎ : شادی بیاہ کے موقع پر جو کھانا کھلایا جاتا ہے اسے ولیمہ کہتے ہیں، یہ ولم (واؤکے فتحہ اورلام کے سکون کے ساتھ)سے مشتق ہے جس کے معنی اکٹھااور جمع ہونے کے ہیں، چونکہ میاں بیوی اکٹھاہوتے ہیں اس لیے اس کو ولیمہ کہتے ہیں، ولیمہ کا صحیح وقت خلوت صحیحہ کے بعدہے جمہور کے نزدیک ولیمہ سنت ہے اوربعض نے اسے واجب کہا ہے۔
1095- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ وَائِلِ بْنِ دَاوُدَ، عَنِ ابْنِهِ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَوْلَمَ عَلَى صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ بِسَوِيقٍ وَتَمْرٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: د/الأطعمۃ ۲ (۳۷۴۴)، ن/النکاح ۷۹ (۳۳۸۷)، ق/النکاح ۲۴ (۱۹۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۲) (صحیح) وأخرجہ کل من : م/النکاح ۱۴ والجہاد ۴۳ (۱۳۶۵)، من غیر ہذا الوجہ وفي سیاق طویل۔
۱۰۹۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے صفیہ بنت حیی کا ولیمہ ستو اور کھجور سے کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
1096- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، نَحْوَ هَذَا. وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ. وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ "عَنْ وَائِلٍ عَنِ ابْنِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَكَانَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ يُدَلِّسُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ. فَرُبَّمَا لَمْ يَذْكُرْ فِيهِ "عَنْ وَائِلٍ عَنْ ابْنِهِ" وَرُبَّمَا ذَكَرَهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۰۹۶- اس سند سے بھی سفیان سے اسی طرح مروی ہے، اورکئی لوگوں نے یہ حدیث بطریق:
'' ابن عيينة، عن الزهري، عن أنس '' روایت کی ہے لیکن ان لوگوں نے اس میں وائل بن داود اور ان کے بیٹے کے واسطوں کا ذکر نہیں کیا ہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: سفیان بن عیینہ اس حدیث میں تدلیس کرتے تھے۔کبھی انہوں نے اس میں وائل بن داود عن ابنہ'' کا ذکر نہیں کیا ہے اور کبھی اس کا ذکر کیا ہے۔
1097- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، حَدَّثَنَا عَطَائُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "طَعَامُ أَوَّلِ يَوْمٍ حَقٌّ وَطَعَامُ يَوْمِ الثَّانِي سُنَّةٌ. وَطَعَامُ يَوْمِ الثَّالِثِ سُمْعَةٌ. وَمَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللهُ بِهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ لاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ زِيَادِ بْنِ عَبْدِاللهِ. وَزِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللهِ كَثِيرُ الْغَرَائِبِ وَالْمَنَاكِيرِ. قَالَ: و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يَذْكُرُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ قَالَ: قَالَ: وَكِيعٌ: زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللهِ أشرَفُ مِنْ أن يَكْذِبَ فِي الْحَدِيثِ ۱؎ .
* تخريج: تفرد بہ الؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۳۲۹) (ضعیف)
(اس کے راوی زیادبن عبداللہ بکائی میں ضعف ہے، مؤلف نے اس کی صراحت کردی ہے ، لیکن آخری ٹکڑے کے صحیح شواہد موجودہیں جن میں سے بعض صحیحین میں ہیں)
۱۰۹۷- ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' پہلے روز کا کھانا حق ہے، دوسرے روز کا کھانا سنت ہے۔ اور تیسرے روز کا کھاناتومحض دکھاوااورنمائش ہے اور جوریاکاری کرے گا اللہ اسے اس کی ریاکاری کی سزادے گا ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود کی حدیث کوہم صرف زیاد بن عبداللہ کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں۔ اور زیاد بن عبداللہ بہت زیادہ غریب اور منکر احادیث بیان کرتے ہیں، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کوسناکہ وہ محمد بن عقبہ سے نقل کررہے تھے کہ وکیع کہتے ہیں:زیاد بن عبداللہ اس بات سے بہت بلندہیں کہ وہ حدیث میں جھوٹ بولیں ۔
وضاحت ۱؎ : ترمذی کے نسخوں میں یہاں پرعبارت یوں ہے :
'' مع شرفه يكذب'' جس کا مطلب یہ ہے کہ وکیع نے ان پر سخت جرح کی ہے ، اور ان کی شرافت کے اعتراف کے ساتھ ان کے بارے میں یہ صراحت کردی ہے کہ وہ حدیث میں جھوٹ بولتے ہیں،اور یہ بالکل غلط اور وکیع کے قول کے برعکس ہے ، التاریخ الکبیرللبخاری ۳/الترجمۃ ۱۲۱۸ اور تہذیب الکمال میں عبارت یوں ہے:
''هو أشرف من أن يكذب'' نیز حافظ ابن حجر نے تقریب میں لکھا ہے کہ وکیع سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے زیادکی تکذیب کی ہے ، ان کی عبارت یہ ہے:
صدوق ثبت في المغازي و في حديثه عن غير ابن إسحاق لين، ولم يثبت أن وكيعا كذبه ، وله في البخاري موضع واحد متابعة '' یعنی زیاد بن عبد اللہ عامری بکائی کوفی فن مغازی وسیر میں صدوق اور ثقہ ہیں، اور محمدبن اسحاق صاحب المغازی کے سوا دوسرے رواۃ سے ان کی حدیث میں کمزوری ہے، وکیع سے ان کی تکذیب ثابت نہیں ہے ، اور صحیح بخاری میں ان کا ذکرمتابعت میں ایک بارآیا ہے ۔(الفریوائی)
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولیمہ دودن تک تودرست ہے اورتیسرے دن اس کا اہتمام کرنا دکھاوااورنمائش کاذریعہ ہے اوربعض لوگوں کاکہناہے کہ تیسرے دن کی ممانعت اس صورت میں ہے جب کھانے والے وہی لوگ ہوں لیکن اگر ہرروزنئے لوگ مدعو ہوں،توکوئی حرج نہیں، امام بخاری جیسے محدثین کرام توسات دن تک ولیمہ کے قائل ہیں۔