• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَا جَاءَ فَلينْظُرْ إِلَى الْمَخْطُوبَةِ
۵-باب: جس عورت کو شادی کا پیغام دیاجائے، اسے دیکھ لینے کا بیان​


1087- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ سُلَيْمَانَ (هُوَ الأَحْوَلُ) عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْمُزَنِيِّ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَنَّهُ خَطَبَ امْرَأَةً فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "انْظُرْ إِلَيْهَا، فَإِنَّهُ أَحْرَى أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَكُمَا". وَفِي الْبَاب عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي حُمَيْدٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، وَقَالُوا: لاَ بَأْسَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَيْهَا مَا لَمْ يَرَ مِنْهَا مُحَرَّمًا. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَمَعْنَى قَوْلِهِ (أَحْرَى أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَكُمَا) قَالَ: أَحْرَى أَنْ تَدُومَ الْمَوَدَّةُ بَيْنَكُمَا.
* تخريج: ن/النکاح ۱۷ (۲۲۳۷)، ق/النکاح ۹ (۱۸۶۶)، (بزیادۃ في السیاق) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۸۹)، حم (۴/۲۴۵، ۲۴۶)، دي/النکاح ۵ (۲۲۱۸) (صحیح)
۱۰۸۷- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک عورت کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا،تونبی اکرمﷺ نے فرمایا:''تم اسے دیکھ لو'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- ا س باب میں محمد بن مسلمہ، جابر، ابوحمید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں:اسے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں جب وہ اس کی کوئی ایسی چیزنہ دیکھے جس کا دیکھنا حرام ہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے، ۴- اور '' اَحْرَى أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَكُمَا'' کے معنی یہ ہیں کہ یہ تم دونوں کے درمیان محبت پیداکرنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔
وضاحت ۱؎ : جمہورکے نزدیک یہ حکم مستحب ہے واجب نہیں، اگرکوئی کسی قابل اعتماد رشتہ دارعورت کو بھیج کر عورت کے رنگ وروپ اور عادات وخصائل کا پتہ لگالے تو یہ بھی ٹھیک ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ام سلیم رضی اللہ عنہا کو بھیج کر ایک عورت کے متعلق معلومات حاصل کی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَا جَاءَ فِي إِعْلاَنِ النِّكَاحِ
۶-باب: نکاح کے اعلان کا بیان​


1088- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَلْجٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ الْجُمَحِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "فَصْلُ مَا بَيْنَ الْحَرَامِ وَالْحَلاَلِ الدُّفُّ وَالصَّوْتُ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَجَابِرٍ وَالرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَأَبُو بَلْجٍ اسْمُهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، وَيُقَالُ ابْنُ سُلَيْمٍ أَيْضًا. وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاطِبٍ قَدْ رَأَى النَّبِيَّ ﷺ وَهُوَ غُلاَمٌ صَغِيرٌ.
* تخريج: ن/النکاح ۷۲ (۳۳۷۲)، ق/النکاح ۲۰ (۱۸۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۲۱)، حم (۳/۴۱۸) (حسن)
۱۰۸۸- محمد بن حاطب جمحی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' حرام اور حلال(نکاح) کے درمیان فرق صرف دف بجانے اور اعلان کرنے کاہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- محمد بن حاطب کی حدیث حسن ہے، ۲- محمد بن حاطب نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے، لیکن وہ کم سن بچے تھے،۳- اس باب میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا ، جابر اور ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ نکاح اعلانیہ کیا جاناچاہئے، خفیہ طورپر چوری چھپے نہیں، اس لیے کہ اعلانیہ نکاح کرنے پرکسی کو میاں بیوی کے تعلقات پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملتا۔عموماً یہی دیکھنے میں آتاہے کہ غلط نکاح ہی چھپ کر کیا جاتاہے۔


1089- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ مَيْمُونٍ الأَنْصَارِيُّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ، وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوفِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ فِي هَذَا الْبَابِ. وَعِيسَى بْنُ مَيْمُونٍ الأَنْصَارِيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ. وَعِيسَى بْنُ مَيْمُونٍ الَّذِي يَرْوِي عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ التَّفْسِيرَ هُوَ ثِقَةٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۴۷) (ضعیف)
(سند میں عیسیٰ بن میمون ضعیف ہیں مگراعلان والا ٹکڑا شواہد کی بناپر صحیح ہے)
۱۰۸۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اس نکاح کا اعلان کرو، اسے مسجدوں میں کرو اور اس پردف بجاؤ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں یہ حدیث غریب حسن ہے، ۲- عیسیٰ بن میمون انصاری حدیث میں ضعیف قرار دیے جاتے ہیں، ۳- عیسیٰ بن میمون جو ابن ابی نجیح سے تفسیرروایت کرتے ہیں، ثقہ ہیں۔


1090- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ ذَكْوَانَ، عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ قَالَتْ: جَاءَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فَدَخَلَ عَلَيَّ غَدَاةَ بُنِيَ بِي، فَجَلَسَ عَلَى فِرَاشِي كَمَجْلِسِكَ مِنِّي، وَجُوَيْرِيَاتٌ لَنَا يَضْرِبْنَ بِدُفُوفِهِنَّ وَيَنْدُبْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ آبَائِي يَوْمَ بَدْرٍ. إِلَى أَنْ قَالَتْ إِحْدَاهُنَّ: وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ. فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ: "اسْكُتِي عَنْ هَذِهِ، وَقُولِي الَّذِي كُنْتِ تَقُولِينَ قَبْلَهَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/المغازي ۱۲ (۴۰۰۱۱)، د/الأدب ۵۹ (۴۹۲۲)، ق/النکاح ۲۱ (۱۸۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۳۲)، حم (۸/۳۵۹،۳۶۰) (صحیح)
۱۰۹۰- ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:جس رات میری شادی اس کی صبح رسول اللہ ﷺ میرے ہاں تشریف لائے۔ آپ میرے بستر پر ایسے ہی بیٹھے، جیسے تم (خالد بن ذکوان) میرے پاس بیٹھے ہو۔ اور چھوٹی چھوٹی بچیاں دف بجارہی تھیں اور جو ہمارے باپ دادا میں سے جنگ بدر میں شہید ہوئے تھے ان کا مرثیہ گارہی تھیں، یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے کہا: ہمارے درمیان ایک نبی ہے جوان چیزوں کو جانتاہے جوکل ہوں گی، تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:''یہ نہ کہہ۔ وہی کہہ جو پہلے کہہ رہی تھی''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَا جَاءَ فِيمَا يُقَالُ لِلْمُتَزَوِّجِ
۷-باب: دولہے کو کیا دعادی جائے؟​


1091- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا رَفَّأَ الإِنْسَانَ، إِذَا تَزَوَّجَ قَالَ: "بَارَكَ اللهُ لَكَ وَبَارَكَ عَلَيْكَ، وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي الْخَيْرِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/النکاح ۳۷ (۲۱۳۰)، ق/النکاح ۲۳ (۱۹۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۶۹۸)، حم (۲/۳۸۱)، دي/النکاح ۶ (۲۲۱۹) (صحیح)
۱۰۹۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ شادی کرنے پرجب کسی کو مبارک باد دیتے تو فرماتے: ''بَارَكَ اللهُ لَكَ وَبَارَكَ عَلَيْكَ وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي الْخَيْرِ''( اللہ تجھے برکت عطاکرے، اورتجھ پر برکت نازل فرمائے اور تم دونوں کوخیرپرجمع کرے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَا يَقُولُ إِذَا دَخَلَ عَلَى أَهْلِهِ
۸-باب: آدمی بیوی کے پاس(صحبت کے لیے) آئے تو کون سی دعا پڑھے؟​


1092- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ، إِذَا أَتَى أَهْلَهُ، قَالَ: بِسْمِ اللهِ اللّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا - فَإِنْ قَضَى اللهُ بَيْنَهُمَا وَلَدًا لَمْ يَضُرَّهُ الشَّيْطَانُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الوضوء ۸ (۱۴۱)، وبدء الخلق ۱۱ (۳۲۸۳)، والنکاح ۶۶ (۵۱۶۱)، والدعوات ۵۵ (۶۳۸۸)، والتوحید ۱۳ (۷۳۹۶)، م/النکاح ۱۸ (۱۴۳۴)، د/النکاح ۴۶ (۲۱۶۱)، ق/النکاح ۲۷ (۱۹۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۴۹)، حم ۱ (۳۲۰، ۲۴۳، ۲۸۳، ۲۸۶)، دي/النکاح ۲۹ (۲۲۵۸) (صحیح)
۱۰۹۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے یعنی اس سے صحبت کر نے کا ارادہ کرے اور یہ دعا پڑھے:ـ ''بِسْمِ اللهِ اللّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا'' (اللہ کے نام سے،اے اللہ ! تو ہمیں شیطان سے محفوظ رکھ اور اسے بھی شیطان سے محفوظ رکھ جو تو ہمیں عطاکرے یعنی ہماری اولادکو) تو اگر اللہ نے ان کے درمیان اولاد دینے کا فیصلہ کیا ہوگا تو شیطان اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
9- بَاب مَا جَاءَ فِي الأَوْقَاتِ الَّتِي يُسْتَحَبُّ فِيهَا النِّكَاحُ
۹-باب: ان اوقات کا بیان جن میں نکاح کرنامستحب ہے​


1093- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ابْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي شَوَّالٍ، وَبَنَى بِي فِي شَوَّالٍ. وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَسْتَحِبُّ أَنْ يُبْنَى بِنِسَائِهَا فِي شَوَّالٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ عَنْ إِسْمَاعِيلَ ابْنِ أُمَيَّةَ.
* تخريج: م/النکاح ۱۱ (۱۴۲۳)، ن/النکاح ۱۸ (۳۲۳۸)، و۷۷ (۳۳۷۹)، ق/النکاح ۵۳ (۱۹۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۵۵)، حم (۶/۵۴،۲۰۶)، دي/النکاح ۲۸ (۲۲۵۷) (صحیح)
۱۰۹۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شوال میں مجھ سے شادی کی اور شوال ہی میں میرے ساتھ آپ نے شب زفاف منائی، عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے خاندان کی عورتوں کی رخصتی شوال میں کی جانے کو مستحب سمجھتی تھیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اسے ہم صرف ثوری کی روایت سے جانتے ہیں، اورثوری اسماعیل بن امیہ سے روایت کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
10- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوَلِيمَةِ
۱۰-باب: ولیمہ کا بیان​


1094- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ رَأَى عَلَى عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَثَرَ صُفْرَةٍ، فَقَالَ: "مَا هَذَا؟" فَقَالَ: إِنِّي تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً عَلَى وَزْنِ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ. فَقَالَ: "بَارَكَ اللهُ لَكَ، أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَزُهَيْرِ بْنِ عُثْمَانَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. و قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: وَزْنُ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ: وَزْنُ ثَلاَثَةِ دَرَاهِمَ وَثُلُثٍ. و قَالَ إِسْحَاقُ: هُوَ وَزْنُ خَمْسَةِ دَرَاهِمَ وَثُلُثٍ.
* تخريج: خ/النکاح ۵۶ (۵۱۵۵)، والدعوات ۵۳ (۶۳۸۶)، م/النکاح ۳ (۱۴۲۷)، ن/النکاح ۷۴ (۳۳۷۴، ۳۳۷۵)، ق/النکاح ۲۴ (۱۹۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۸)، دي/النکاح ۲۲ (۲۲۵۰) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/البیوع ۱ (۲۰۴۹)، ومناقب الأنصار ۳ (۳۷۸۱)، والنکاح ۴۹ (۵۱۳۸)، و۵۴ (۵۱۵۳)، و۶۸ (۵۱۶۸)، والأدب ۶۷ (۶۰۸۲)، م/النکاح (المصدر المذکور)، د/النکاح ۳۰ (۲۱۹۰)، حم (۳/۱۶۵، ۱۹۰، ۲۰۵، ۲۷۱)، دي/الأطعمۃ ۲۸ (۲۱۰۸) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۰۹۴- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمن بن عوف کے جسم پر زردی کانشان دیکھاتوپوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے ایک عورت سے کھجور کی ایک گٹھلی سونے کے عوض شادی کرلی ہے، آپ نے فرمایا:'' اللہ تمہیں برکت عطاکرے، ولیمہ ۱؎ کرو خواہ ایک ہی بکری کاہو'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن مسعود ،عائشہ ، جابر اور زہیر بن عثمان رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- احمد بن حنبل کہتے ہیں: گٹھلی بھر سونے کا وزن تین درہم اورتہائی درہم وزن کے برابر ہوتاہے،۴- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: پانچ درہم اورتہائی درہم کے وزن کے برابر ہوتاہے۔
وضاحت ۱؎ : '' أولم ولو بشأة''میں''لو''تقلیل کے لیے آیا ہے یعنی کم ازکم ایک بکری ذبح کرو، لیکن نبی اکرمﷺ نے صفیہ کے ولیمہ میں صرف ستواورکجھورپر اکتفاکیا، اس لیے مستحب یہ ہے کہ ولیمہ شوہر کی مالی حیثیت کے حسب حال ہو، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی مالی حالت کے پیش نظرایک بکری کا ولیمہ کم تھا اسی لیے آپ نے اُن سے '' أولم ولو بشأة''فرمایا۔
وضاحت ۲؎ : شادی بیاہ کے موقع پر جو کھانا کھلایا جاتا ہے اسے ولیمہ کہتے ہیں، یہ ولم (واؤکے فتحہ اورلام کے سکون کے ساتھ)سے مشتق ہے جس کے معنی اکٹھااور جمع ہونے کے ہیں، چونکہ میاں بیوی اکٹھاہوتے ہیں اس لیے اس کو ولیمہ کہتے ہیں، ولیمہ کا صحیح وقت خلوت صحیحہ کے بعدہے جمہور کے نزدیک ولیمہ سنت ہے اوربعض نے اسے واجب کہا ہے۔


1095- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ وَائِلِ بْنِ دَاوُدَ، عَنِ ابْنِهِ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَوْلَمَ عَلَى صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ بِسَوِيقٍ وَتَمْرٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: د/الأطعمۃ ۲ (۳۷۴۴)، ن/النکاح ۷۹ (۳۳۸۷)، ق/النکاح ۲۴ (۱۹۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۲) (صحیح) وأخرجہ کل من : م/النکاح ۱۴ والجہاد ۴۳ (۱۳۶۵)، من غیر ہذا الوجہ وفي سیاق طویل۔
۱۰۹۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے صفیہ بنت حیی کا ولیمہ ستو اور کھجور سے کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔


1096- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، نَحْوَ هَذَا. وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ. وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ "عَنْ وَائِلٍ عَنِ ابْنِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَكَانَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ يُدَلِّسُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ. فَرُبَّمَا لَمْ يَذْكُرْ فِيهِ "عَنْ وَائِلٍ عَنْ ابْنِهِ" وَرُبَّمَا ذَكَرَهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۰۹۶- اس سند سے بھی سفیان سے اسی طرح مروی ہے، اورکئی لوگوں نے یہ حدیث بطریق: '' ابن عيينة، عن الزهري، عن أنس '' روایت کی ہے لیکن ان لوگوں نے اس میں وائل بن داود اور ان کے بیٹے کے واسطوں کا ذکر نہیں کیا ہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: سفیان بن عیینہ اس حدیث میں تدلیس کرتے تھے۔کبھی انہوں نے اس میں وائل بن داود عن ابنہ'' کا ذکر نہیں کیا ہے اور کبھی اس کا ذکر کیا ہے۔


1097- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، حَدَّثَنَا عَطَائُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "طَعَامُ أَوَّلِ يَوْمٍ حَقٌّ وَطَعَامُ يَوْمِ الثَّانِي سُنَّةٌ. وَطَعَامُ يَوْمِ الثَّالِثِ سُمْعَةٌ. وَمَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللهُ بِهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ لاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ زِيَادِ بْنِ عَبْدِاللهِ. وَزِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللهِ كَثِيرُ الْغَرَائِبِ وَالْمَنَاكِيرِ. قَالَ: و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يَذْكُرُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ قَالَ: قَالَ: وَكِيعٌ: زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللهِ أشرَفُ مِنْ أن يَكْذِبَ فِي الْحَدِيثِ ۱؎ .
* تخريج: تفرد بہ الؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۳۲۹) (ضعیف)
(اس کے راوی زیادبن عبداللہ بکائی میں ضعف ہے، مؤلف نے اس کی صراحت کردی ہے ، لیکن آخری ٹکڑے کے صحیح شواہد موجودہیں جن میں سے بعض صحیحین میں ہیں)
۱۰۹۷- ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' پہلے روز کا کھانا حق ہے، دوسرے روز کا کھانا سنت ہے۔ اور تیسرے روز کا کھاناتومحض دکھاوااورنمائش ہے اور جوریاکاری کرے گا اللہ اسے اس کی ریاکاری کی سزادے گا ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود کی حدیث کوہم صرف زیاد بن عبداللہ کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں۔ اور زیاد بن عبداللہ بہت زیادہ غریب اور منکر احادیث بیان کرتے ہیں، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کوسناکہ وہ محمد بن عقبہ سے نقل کررہے تھے کہ وکیع کہتے ہیں:زیاد بن عبداللہ اس بات سے بہت بلندہیں کہ وہ حدیث میں جھوٹ بولیں ۔
وضاحت ۱؎ : ترمذی کے نسخوں میں یہاں پرعبارت یوں ہے : '' مع شرفه يكذب'' جس کا مطلب یہ ہے کہ وکیع نے ان پر سخت جرح کی ہے ، اور ان کی شرافت کے اعتراف کے ساتھ ان کے بارے میں یہ صراحت کردی ہے کہ وہ حدیث میں جھوٹ بولتے ہیں،اور یہ بالکل غلط اور وکیع کے قول کے برعکس ہے ، التاریخ الکبیرللبخاری ۳/الترجمۃ ۱۲۱۸ اور تہذیب الکمال میں عبارت یوں ہے: ''هو أشرف من أن يكذب'' نیز حافظ ابن حجر نے تقریب میں لکھا ہے کہ وکیع سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے زیادکی تکذیب کی ہے ، ان کی عبارت یہ ہے: صدوق ثبت في المغازي و في حديثه عن غير ابن إسحاق لين، ولم يثبت أن وكيعا كذبه ، وله في البخاري موضع واحد متابعة '' یعنی زیاد بن عبد اللہ عامری بکائی کوفی فن مغازی وسیر میں صدوق اور ثقہ ہیں، اور محمدبن اسحاق صاحب المغازی کے سوا دوسرے رواۃ سے ان کی حدیث میں کمزوری ہے، وکیع سے ان کی تکذیب ثابت نہیں ہے ، اور صحیح بخاری میں ان کا ذکرمتابعت میں ایک بارآیا ہے ۔(الفریوائی)
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولیمہ دودن تک تودرست ہے اورتیسرے دن اس کا اہتمام کرنا دکھاوااورنمائش کاذریعہ ہے اوربعض لوگوں کاکہناہے کہ تیسرے دن کی ممانعت اس صورت میں ہے جب کھانے والے وہی لوگ ہوں لیکن اگر ہرروزنئے لوگ مدعو ہوں،توکوئی حرج نہیں، امام بخاری جیسے محدثین کرام توسات دن تک ولیمہ کے قائل ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
11- بَاب مَا جَاءَ فِي إِجَابَةِ الدَّاعِي
۱۱-باب: دعوت قبول کرنے کا بیان​


1098- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "ائْتُوا الدَّعْوَةَ إِذَا دُعِيتُمْ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَالْبَرَائِ وَأَنَسٍ وَأَبِي أَيُّوبَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/النکاح ۱۶ (۱۴۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۷۴۹۸) (صحیح)
وأخرجہ کل من : خ/النکاح ۷۱ (۵۱۷۳)، و۷۴ (۵۱۷۹)، م/النکاح (المصدر المذکور)، د/الأطعمۃ ۱ (۳۷۳۶)، ق/النکاح ۲۵ (۱۹۱۴)، ط/النکاح ۲۱ (۴۹)، دي/الأطعمۃ ۴۰ (۲۱۲۷)، (۲۱۲۷)، والنکاح ۲۳ (۲۲۵۱)، من غیر ہذا الوجہ۔
۱۰۹۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب تمہیں دعوت دی جائے تو تم دعوت میں آؤ''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی، ابوہریرہ ، براء ، انس اور ابوایوب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
12- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَجِيئُ إِلَى الْوَلِيمَةِ مِنْ غَيْرِ دَعْوَةٍ
۱۲-باب: بغیر دعوت کے ولیمہ میں جانے کا حکم​


1099- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: أَبُو شُعَيْبٍ إِلَى غُلاَمٍ لَهُ لَحَّامٍ، فَقَالَ: اصْنَعْ لِي طَعَامًا يَكْفِي خَمْسَةً. فَإِنِّي رَأَيْتُ فِي وَجْهِ رَسُولِ اللهِ ﷺ الْجُوعَ. قَالَ فَصَنَعَ طَعَامًا. ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَدَعَاهُ وَجُلَسَائَهُ الَّذِينَ مَعَهُ. فَلَمَّا قَامَ النَّبِيُّ ﷺ اتَّبَعَهُمْ رَجُلٌ لَمْ يَكُنْ مَعَهُمْ حِينَ دُعُوا. فَلَمَّا انْتَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ إِلَى الْبَابِ، قَالَ لِصَاحِبِ الْمَنْزِلِ: "إِنَّهُ اتَّبَعَنَا رَجُلٌ لَمْ يَكُنْ مَعَنَا حِينَ دَعَوْتَنَا فَإِنْ أَذِنْتَ لَهُ دَخَلَ". قَالَ: فَقَدْ أَذِنَّا لَهُ فَلْيَدْخُلْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
* تخريج: م/البیوع ۲۱ (۲۰۸۱)، والمظالم ۱۴ (۲۴۵۶)، والأطعمۃ ۳۴ (۵۴۳۴)، و۵۷ (۵۴۶۱)، م/الأشربۃ والأطعمۃ ۱۹ (۲۰۳۶)، (تحفۃ الأشراف:۹۹۹۰) (صحیح)
۱۰۹۹- ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ابوشعیب نامی ایک شخص نے اپنے ایک گوشت فروش لڑکے کے پاس آکر کہا:تم میرے لیے کھانا بناجوپانچ آدمیوں کے لیے کافی ہوکیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے چہرے پربھوک کااثردیکھاہے، تو اس نے کھانا تیار کیا ۔ پھر نبی اکرمﷺ کو بلانے کے لیے آدمی بھیجا۔تو اس نے آپ کو اور آپ کے ساتھ جولوگ بیٹھے تھے سب کوکھانے کے لیے بلایا، جب نبی اکرمﷺ (چلنے کے لیے) اُٹھے، تو آپ کے پیچھے ایک اورشخص بھی چلا آیا، جو آپ کے ساتھ اس وقت نہیں تھا جب آپ کو دعوت دی گئی تھی ۔ جب رسول اللہ ﷺ دروازے پر پہنچے توآپ نے صاحب خانہ سے فرمایا:'' ہمارے ساتھ ایک اورشخص ہے جو ہمارے ساتھ اس وقت نہیں تھا، جب تم نے دعوت دی تھی، اگر تم اجازت دو تو وہ بھی اندر آجائے؟''،اس نے کہا: ہم نے اُسے بھی اجازت دے دی، وہ بھی اندر آجائے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عمر سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہواکہ بغیردعوت کے کسی کے ساتھ طفیلی بن کر دعوت میں شریک ہو نا غیراخلاقی حرکت ہے، تاہم اگر صاحب دعوت سے اجازت لے لی جائے تواس کی گنجائش ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَا جَاءَ فِي تَزْوِيجِ الأَبْكَارِ
۱۳-باب: کنواری لڑکی سے شادی کرنے کا بیان​


1100- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، قَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: "أَتَزَوَّجْتَ يَا جَابِرُ؟!". فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: "بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا". فَقُلْتُ: لاَ بَلْ ثَيِّبًا، فَقَالَ: "هَلاَّ جَارِيَةً تُلاَعِبُهَا وَتُلاَعِبُكَ"، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ عَبْدَ اللهِ مَاتَ وَتَرَكَ سَبْعَ بَنَاتٍ أَوْ تِسْعًا. فَجِئْتُ بِمَنْ يَقُومُ عَلَيْهِنَّ. قَالَ: فَدَعَا لِي. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/النفقات ۱۲ (۵۳۸۷)، الدعوات ۵۳ (۶۳۸۷)، م/الرضاع ۱۶ (۷۱۵) ن/النکاح ۶ (۳۲۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۱۲) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/البیوع ۴۳ (۲۰۹۷)، والوکالۃ ۸ (۲۳۰۹)، والجہاد ۱۱۳ (۲۹۶۷)، والمغازي ۱۸ (۴۰۵۲) ، والنکاح ۱۰ (۵۰۷۹) و۱۲۱ (۵۲۴۵)، و۱۲۲ (۵۲۴۷)، م/الرضاع (المصدر المذکور)، د/النکاح ۳ (۲۰۴۸)، حم (۳/۲۹۴، ۳۰۲، ۳۲۴، ۳۶۲، ۳۷۴، ۳۷۶)، دي/النکاح ۳۲ (۲۲۶۲)، من غیر ہذا الوجہ۔
۱۱۰۰- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے ایک عورت سے شادی کی پھرمیں نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضرہوا،توآپ نے پوچھا: جابر! کیاتم نے شادی کی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں کی ہے، آپ نے فرمایا:''کسی کنواری سے یا بیوہ سے؟ میں نے کہا:نہیں، غیرکنواری سے۔آپ نے فرمایا:'' کسی (کنواری) لڑکی سے شادی کیوں نہیں کی، تو اس سے کھیلتا اور وہ تجھ سے کھیلتی؟میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول !(میر ے والد) عبداللہ کا انتقال ہوگیاہے،اور انہوں نے سات یا نو لڑکیاں چھوڑی ہیں،میں ایسی عورت کو بیاہ کرلایا ہوں جو ان کی دیکھ بھال کرسکے۔چنانچہ تو آپ نے میرے لیے دعافرمائی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابی بن کعب اور کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَا جَاءَ لا َنِكَاحَ إِلاَّ بِوَلِيٍّ
۱۴-باب: ولی کے بغیر نکاح صحیح نہ ہونے کا بیان​


1101- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِاللهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ ابْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ. ح و حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ. حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِوَلِيٍّ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَأَنَسٍ.
* تخريج: د/النکاح ۲۰ (۲۰۸۵)، ق/النکاح ۱۵ (۱۸۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۱۵)، حم (۴/۴۱۳، ۴۱۸)، دي/النکاح ۱۱ (۲۲۲۸) (صحیح)
۱۱۰۱- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ولی کے بغیر نکاح نہیں '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عائشہ ، ابن عباس، ابوہریرہ ، عمران بن حصین اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔(ابوموسیٰ اشعری کی حدیث پر مولف کا مفصل کلام اگلے باب میں آرہاہے۔)
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ ولی کی اجازت کے بغیرنکاح نہیں ہوتا، جمہورکے نزدیک نکاح کے لیے ولی اوردوگواہ ضروری ہیں، ولی سے مرادباپ ہے، باپ کی غیرموجودگی میں داداپھر بھائی پھرچچاہے، اگر کسی کے پاس دوولی ہوں اور نکاح کے موقع پر اختلاف ہوجائے تو ترجیح قریبی ولی کوحاصل ہوگی اور جس کاکوئی ولی نہ ہو تو (مسلم) حاکم اس کا ولی ہوگا، اور جہاں مسلم حاکم نہ ہو وہاں گاؤں کے باحیثیت مسلمان ولی ہوں گے۔
 
Top