• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
15- باب
۱۵-باب: ولی کے بغیر نکاح نہ ہونے سے متعلق ایک اورباب​


1102- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ، قَالَ: "أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ. فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَلَهَا الْمَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا. فَإِنْ اشْتَجَرُوا، فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لاَوَلِيَّ لَهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيُّ وَيَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْحُفَّاظِ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، نَحْوَ هَذَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي مُوسَى حَدِيثٌ فِيهِ اخْتِلاَفٌ. رَوَاهُ إِسْرَائِيلُ وَشَرِيكُ بْنُ عَبْدِاللهِ وَأَبُو عَوَانَةَ وَزُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ وَقَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَرَوَى أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَزَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَرَوَى أَبُو عُبَيْدَةَ الْحَدَّادُ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ. وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي إِسْحَاقََ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقََ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَيْضًا. وَرَوَى شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ "لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِوَلِيٍّ". وَقَدْ ذَكَرَ بَعْضُ أَصْحَابِ سُفْيَانَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى وَلاَ يَصِحُّ. وَرِوَايَةُ هَؤُلاَئِ الَّذِينَ رَوَوْا عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ "لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِوَلِيٍّ" عِنْدِي أَصَحُّ. لأَنَّ سَمَاعَهُمْ مِنْ أَبِي إِسْحَاقَ فِي أَوْقَاتٍ مُخْتَلِفَةٍ. وَإِنْ كَانَ شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ أَحْفَظَ وَأَثْبَتَ مِنْ جَمِيعِ هَؤُلاَئِ الَّذِينَ رَوَوْا عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ هَذَا الْحَدِيثَ. فَإِنَّ رِوَايَةَ هَؤُلاَئِ عِنْدِي أَشْبَهُ. لأَنَّ شُعْبَةَ وَالثَّوْرِيَّ سَمِعَا هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ أَبِي إِسْحَاقَ فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ. وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى ذَلِكَ.
* تخريج: د/النکاح ۲۰ (۲۰۸۳)، ق/النکاح ۱۵ (۱۸۷۹)، حم (۶/۶۶،۱۶۶)، دي/النکاح ۱۱ (۲۲۳۰) (صحیح)
1102/م- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يَسْأَلُ أَبَا إِسْحَاقَ: أَسَمِعْتَ أَبَا بُرْدَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِوَلِيٍّ" فَقَالَ: نَعَمْ. فَدَلَّ هَذَا الْحَدِيثُ عَلَى أَنَّ سَمَاعَ شُعْبَةَ وَالثَّوْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ فِي وَقْتٍ وَاحِدٍ. وَإِسْرَائِيلُ هُوَ ثِقَةٌ ثَبْتٌ فِي أَبِي إِسْحَاقَ. سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ يَقُولُ: مَا فَاتَنِي مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الَّذِي فَاتَنِي، إِلاَّ لَمَّا اتَّكَلْتُ بِهِ عَلَى إِسْرَائِيلَ، لأَنَّهُ كَانَ يَأْتِي بِهِ أَتَمَّ. وَحَدِيثُ عَائِشَةَ فِي هَذَا الْبَابِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ "لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِوَلِيٍّ" هُوَ حَدِيثٌ عِنْدِي حَسَنٌ. رَوَاهُ ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَرَوَاهُ الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ وَجَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَرَوَى عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ. وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ فِي حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: ثُمَّ لَقِيتُ الزُّهْرِيَّ فَسَأَلْتُهُ فَأَنْكَرَهُ. فَضَعَّفُوا هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ أَجْلِ هَذَا. وَذُكِرَ عَنْ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ أَنَّهُ قَالَ: لَمْ يَذْكُرْ هَذَا الْحَرْفَ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ إِلاَّ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ. قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ: وَسَمَاعُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ لَيْسَ بِذَاكَ. إِنَّمَا صَحَّحَ كُتُبَهُ عَلَى كُتُبِ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادٍ مَا سَمِعَ مِنِ ابْنِ جُرَيْجٍ.
وَضَعَّفَ يَحْيَى رِوَايَةَ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ. وَالْعَمَلُ فِي هَذَا الْبَابِ عَلَى حَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ "لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِوَلِيٍّ" عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَعَبْدُاللهِ بْنُ عَبَّاسٍ، وَأَبُوهُرَيْرَةَ، وَغَيْرُهُمْ. وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ بَعْضِ فُقَهَائِ التَّابِعِينَ أَنَّهُمْ قَالُوا: " لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِوَلِيٍّ " مِنْهُمْ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَالْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ، وَشُرَيْحٌ، وَإِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ، وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ، وَغَيْرُهُمْ. وَبِهَذَا يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَالأَوْزَاعِيُّ وَعَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَمَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ.
* تخريج: (م) انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۱۰۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیاتو اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اگر اس نے اس سے دخول کرلیا ہے تو اس کی شرمگاہ حلال کرلینے کے عوض اس کے لیے مہرہے، اور اگر اولیاء میں جھگڑاہوجائے تو جس کا کوئی ولی نہ ہواس کا ولی حاکم ہوگا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- یحییٰ بن سعید انصاری ، یحییٰ بن ایوب ، سفیان ثوری، اور کئی حفاظ حدیث نے اسی طرح ابن جریج سے روایت کی ہے، ۳- ابوموسیٰاشعری رضی اللہ عنہ کی (پچھلی) حدیث میں اختلاف ہے، اسے اسرائیل ، شریک بن عبداللہ ، ابوعوانہ ، زہیر بن معاویہ اور قیس بن ربیع نے بسند ابی اسحاق السبیعی عن ابی بردۃعن ابی موسیٰعن النبی ﷺ روایت کی ہے، ۴- اوراسباط بن محمد اور زید بن حباب نے بسند یونس بن ابی اسحاق عن ابی اسحاق السبیعی عن ابی بردۃ عن ابی موسیٰ عن النبی ﷺ روایت کی ہے،۵- اورابوعبیدہ حداد نے بسند یونس بن ابی اسحاق عن ابی بردۃ عن ابی موسیٰ عن النبی ﷺ اسی طرح روایت کی ہے، اس میں انہوں نے ابواسحاق کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، ۶- نیزیہ حدیث یونس بن ابی اسحاق سے بھی روایت کی گئی ہے انہوں نے بسندابی اسحاق السبیعی عن ابی بُردۃ عن ابی موسیٰ عن النبیﷺ روایت کی ہے، ۷- اور شعبہ اور سفیان ثوری بسند ابی اسحاق السبیعی عن ابی بُردۃ عن النبی ﷺ روایت کی ہے کہ'' ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے''،اورسفیان ثوری کے بعض تلامذہ نے بسند سفیان الثوری عن ابی اسحاق السبیعی عن ابی بُردۃعن ابی موسیٰ روایت کی ہے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔
ان لوگوں کی روایت ، جنہوں نے بطریق: '' أبي إسحاق، عن أبي بردة،عن أبي موسى، عن النبي ﷺ'' روایت کی ہے کہ'' ولی کے بغیر نکاح نہیں''میرے نزدیک زیادہ صحیح ہے، کیوں کہ ابواسحاق سبیعی سے ان لوگوں کاسماع مختلف اوقات میں ہے اگر چہ شعبہ اور ثوری ابواسحاق سے روایت کرنے والے تمام لوگوں سے زیادہ پختہ اورمضبوط حافظہ والے ہیں پھربھی ان لوگوں ( یعنی شعبہ و ثوری کے علاوہ دوسرے رواۃ ) کی روایت اشبہ (قریب تر) ہے ۔ اس لیے کہ شعبہ اور ثوری دونوں نے یہ حدیث ابواسحاق سے ایک ہی مجلس میں سنی ہے، (اور ان کے علاوہ رواۃ نے مختلف اوقات میں) اس کی دلیل شعبہ کا یہ بیان ہے کہ میں نے سفیان ثوری کوابو اسحاق سے پوچھتے سناکہ کیا آپ نے ابوبردہ کو کہتے سناہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ولی کے بغیر نکاح نہیں؟'' تو انہوں نے کہا: ہاں(سُناہے)۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شعبہ اور ثوری کامکحول سے اس حدیث کا سماع ایک ہی وقت میں ہے۔اور ابواسحاق سبیعی سے روایت کرنے میں اسرائیل بہت ہی ثقہ راوی ہیں۔عبدالرحمن بن مہدی کہتے ہیں کہ مجھ سے ثوری کی روایتوں میں سے جنہیں وہ ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں، کوئی روایت نہیں چھوٹی، مگر جوچھوٹی ہیں وہ صرف اس لیے چھوٹی ہیں کہ میں نے اس سلسلے میں اسرائیل پربھروسہ کرلیاتھا، اس لیے کہ وہ ابواسحاق کی حدیثوں کوبطریق اتم بیان کرتے تھے ۔
اور اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی نبی اکرمﷺ سے حدیث : '' بغیرولی کے نکاح نہیں ''میرے نزدیک حسن ہے۔ یہ حدیث ابن جریج نے بطریق: ''سليمان بن موسى، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، عن النبي ﷺ ''، نیزاسے حجاج بن ارطاۃ اور جعفر بن ربیعہ نے بھی بطریق: '' الزهري، عن عروة، عن النبي ﷺ'' روایت کی ہے۔ نیز زہری نے بطریق: ''هشام بن عروة، عن أبيه عروة، عن عائشة، عن النبي ﷺ '' اسی کے مثل روایت کی ہے۔
بعض محدّثین نے زہری کی روایت میں(جسے انہوں نے بطریق: ''عروة، عن عائشة، عن النبي ﷺ '' روایت کی ہے) کلام کیا ہے، ابن جریج کہتے ہیں: پھر میں زہری سے ملا اورمیں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے اس کا انکارکیا اس کی وجہ سے ان لوگوں نے اس حدیث کو ضعیف قراردیا۔یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ ابن جریج سے اس بات کو اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ کے علاوہ کسی اور نے نہیں نقل کیا ہے،یحیی بن معین کہتے ہیں: اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ کا سماع ابن جریج سے نہیں ہے، انہوں نے اپنی کتابوں کی تصحیح عبدالمجید بن عبدالعزیز بن ابی روّاد کی ان کتابوں سے کی ہے جنہیں عبدالمجیدنے ابن جریج سے سنی ہیں۔یحیی بن معین نے اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ کی روایت کوجسے انہوں نے ابن جریج سے روایت کی ہے ضعیف قراردیا ہے۔۸- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا عمل اس باب میں نبی اکرمﷺ کی حدیث '' لا نكاح إلا بولي'' (ولی کے بغیر نکاح نہیں) پرہے جن میں عمر ، علی ، عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم وغیرہ بھی شامل ہیں، اسی طرح بعض فقہائے تابعین سے مروی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح درست نہیں۔ ان میں سعید بن مسیب ، حسن بصری ، شریح ، ابراہیم نخعی اور عمر بن عبدالعزیز وغیرہ ہیں۔ یہی سفیان ثوری ، اوزاعی، عبداللہ بن مبارک ،شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : مثلاً عورت کے دوولی ہیں ایک کسی کے ساتھ اس کانکاح کرنا چاہے اور دوسرا کسی دوسرے کے ساتھ اور عورت نابالغ ہواور یہ اختلاف نکاح ہو نے میں اڑے آئے تو ایسی صورت میں یہ فرض کرکے کہ گویا اس کا کوئی ولی نہیں ہے سلطان اس کا ولی ہوگا، ورنہ ولی کی موجودگی میں سلطان کو ولایت کا حق حاصل نہیں۔ چوں کہ ہندوستان میں مسلمان سلطان (اور اس کے مسلمان نائب) کا وجود نہیں ہے اس لیے گاؤں کے مسلمان پنچ ولی ہوں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
16- بَاب مَا جَاءَ لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِبَيِّنَةٍ
۱۶-باب: گواہ کے بغیر نکاح درست نہیں​


1103- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "الْبَغَايَا اللاّتِي يُنْكِحْنَ أَنْفُسَهُنَّ بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ". قَالَ يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ: رَفَعَ عَبْدُ الأَعْلَى هَذَا الْحَدِيثَ فِي التَّفْسِيرِ. وَأَوْقَفَهُ فِي كِتَابِ الطَّلاَقِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۳۸۷) (ضعیف)
(مؤلف نے سبب کی وضاحت کردی ہے، مگر دوسرے نصوص سے گواہ کا واجب ہونا ثابت ہے)
۱۱۰۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' زنا کارہیں وہ عورتیں جو گواہوں کے بغیر خود نکاح کرلیتی ہیں''۔ یوسف بن حماد کہتے ہیں کہ عبدالاعلی نے اس حدیث کوکتاب التفسیرمیں مرفوع بیان کیا ہے اور کتاب الطلاق میں اسے انہوں نے موقوفاً بیان کیا ہے، مرفوع نہیں کیا ہے۔


1104- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، نَحْوَهُ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَهَذَا أَصَحُّ .
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ. لاَ نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَهُ إِلاَّ مَا رُوِيَ عَنْ عَبْدِالأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ مَرْفُوعًا. وَرُوِي عَنْ عَبْدِ الأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ هَذَا الْحَدِيثُ مَوْقُوفًا. وَالصَّحِيحُ مَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلُهُ: "لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِبَيِّنَةٍ". هَكَذَا رَوَى أَصْحَابُ قَتَادَةَ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِبَيِّنَةٍ. وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، نَحْوَ هَذَا، مَوْقُوفًا. وَفِي هَذَا الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ. قَالُوا: لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِشُهُودٍ. لَمْ يَخْتَلِفُوا فِي ذَلِكَ مَنْ مَضَى مِنْهُمْ، إِلاَّ قَوْمًا مِنَ الْمُتَأَخِّرِينَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَإِنَّمَا اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا إِذَا شَهِدَ وَاحِدٌ، بَعْدَ وَاحِدٍ، فَقَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ: لاَ يَجُوزُ النِّكَاحُ حَتَّى يَشْهَدَ الشَّاهِدَانِ مَعًا عِنْدَ عُقْدَةِ النِّكَاحِ. وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ إِذَا أُشْهِدَ وَاحِدٌ بَعْدَ وَاحِدٍ فَإِنَّهُ جَائِزٌ، إِذَا أَعْلَنُوا ذَلِكَ. وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَغَيْرِهِ. هَكَذَا قَالَ إِسْحَاقُ فِيمَا حَكَى عَنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ. وَ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: يَجُوزُ شَهَادَةُ رَجُلٍ وَامْرَأَتَيْنِ فِي النِّكَاحِ. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف)
(سعید بن ابی عروبہ اور قتادہ دونوں مدلس ہیں اورروایت عنعنہ ہے)
۱۱۰۴- اس سند سے بھی سعید بن ابی عروبہ نے اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا۔ اوریہی زیادہ صحیح ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غیر محفوظ ہے،۲- ہم کسی کونہیں جانتے جس نے اسے مرفوع کیا ہو سوائے اس کے جو عبدالاعلیٰ سے مروی ہے انہوں نے سعید بن ابی عروبہ سے اورسعیدنے قتادہ سے مرفوعاً روایت کی ہے، ۳- اور عبدالاعلیٰ سے سعید بن ابی عروبہ کے واسطے سے یہ موقوفا بھی مروی ہے۔اور صحیح وہ ہے جوابن عباس کے قول سے مروی ہے کہ بغیرگواہ کے نکاح نہیں،خود ابن عباس کاقول ہے، ۴- اسی طرح سے اور کئی لوگوں نے بھی سعید بن ابی عروبہ سے اسی طرح کی روایت موقوفاً کی ہے، ۵- اس باب میں عمران بن حصین ، انس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۶- صحابہ کرام اورتابعین وغیرہم میں سے اہل علم کااسی پر عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ بغیر گواہ کے نکاح درست نہیں۔ پہلے کے لوگوں میں اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں تھا لیکن متاخرین اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے اس میں اختلاف کیا ہے،۷- اہل علم میں اس سلسلے میں اختلاف ہے جب ایک دوسرے کے بعدگواہی دے یعنی دونوں بیک وقت مجلس نکاح میں حاضرنہ ہوں توکوفہ کے اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ نکاح اسی وقت درست ہوگا جب عقد نکاح کے وقت دونوں گواہ ایک ساتھ موجود ہوں،۸- اوربعض اہل مدینہ کا خیال ہے کہ جب ایک کے بعد دوسرے کوگواہ بنایاگیاہو تو بھی جائز ہے جب وہ اس کا اعلان کردیں۔ یہ مالک بن انس وغیرہ کا قول ہے۔ اسی طرح کی بات اسحاق بن راہویہ نے بھی کہی ہے جواہل مدینہ نے کہی ہے،۹- اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ نکاح میں ایک مرد اور دوعورتوں کی شہادت جائز ہے، یہ احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17- بَاب مَا جَاءَ فِي خُطْبَةِ النِّكَاحِ
۱۷-باب: خطبۂ نکاح کا بیان​


1105- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِاللهِ قَالَ: عَلَّمَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ التَّشَهُّدَ فِي الصَّلاَةِ وَالتَّشَهُّدَ فِي الْحَاجَةِ. قَالَ: "التَّشَهُّدُ فِي الصَّلاْةِ: التَّحِيَّاتُ لِلّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ. السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ. السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ. أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ. وَالتَّشَهُّدُ فِي الْحَاجَةِ إِنَّ الْحَمْدَ لِلّهِ نَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَسَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، فَمَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ. وَمَنْ يُضْلِلْ فَلاَ هَادِيَ لَهُ. وَأَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ. وَيَقْرَأُ ثَلاَثَ آيَاتٍ". قَالَ عَبْثَرٌ: فَفَسَّرَهُ لَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: {اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ}،{وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِي تَسَائَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا}. {اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا}. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِاللهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ. رَوَاهُ الأَعْمَشُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِاللهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَرَوَاهُ شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَكِلاَ الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ. لأَنَّ إِسْرَائِيلَ جَمَعَهُمَا فَقَالَ: عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ وَأَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَقَدْ قَالَ أَهْلُ الْعِلْمِ: إِنَّ النِّكَاحَ جَائِزٌ بِغَيْرِ خُطْبَةٍ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَغَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: د/النکاح ۳۳ (۳۱۱۸)، ن/الجمعۃ ۲۴ (۱۴۰۵)، والنکاح ۳۹ (۳۲۷۹)، ق/النکاح ۱۹ (۱۸۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۰۶) حم (۱/۳۹۲)، دي/النکاح ۲۰ (۲۲۴۸) (صحیح)
۱۱۰۵- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صلاۃ کے تشہد اور حاجت کے تشہدکو(الگ الگ) سکھایا ، وہ کہتے ہیں صلاۃ کا تشہد یہ ہے : ''التَّحِيَّاتُ لِلّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ '' ( تمام زبانی، بدنی اورمالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ اے نبی : سلامتی ہوآپ پر اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر۔ میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتاہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں) اور حاجت کاتشہد یہ ہے :''إِنَّ الْحَمْدَ لِلّهِ نَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَسَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا فَمَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلاَ هَادِيَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ'' ( سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں، ہم اپنے دلوں کی شرارتوں اور برے اعمال سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے گمراہ کردے ، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں۔ میں گواہی دیتاہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں)۔ اور پھرآپ تین آیتیں پڑھتے۔عبثر (راوی حدیث ) کہتے ہیں: توہمیں سفیان ثوری نے بتایا کہ وہ تینوں آیتیں یہ تھی : {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ } (اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا ڈرنے کا حق ہے اور حالت اسلام ہی میں مرو) (آل عمران: ۱۰۲) { وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِي تَسَائَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا} ( اللہ سے ڈرو، جس کے نام سے تم سوال کرتے ہواور جس کے واسطے سے ناطے جوڑتے ہو، بلاشبہ اللہ تمہارا نگہبان ہے) (النساء: ۱) {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا} (اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو ، اور راست اور پکی بات کہو) (الأحزاب: ۷۰)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اسے اعمش نے بطریق: '' أبي اسحاق، عن أبي الأحوص، عن عبدالله، عن النبي ﷺ'' روایت کیا ہے۔نیز اسے شعبہ نے بطریق: '' أبي إسحاق، عن أبي عبيدة، عن عبدالله، عن النبي ﷺ'' روایت کیا ہے، اوریہ دونوں طریق صحیح ہیں، اس لیے کہ اسرائیل نے دونوں کو جمع کردیا ہے، یعنی '' عن أبي إسحاق السبيعي عن أبي الأحوص وأبي عبيدة عن عبدالله بن مسعود عن النبي ﷺ ''،۳- اس باب میں عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۴- اہل علم نے کہاہے کہ نکاح بغیر خطبے کے بھی جائز ہے۔ اہل علم میں سے سفیان ثوری وغیرہ کایہی قول ہے ۔


1106- حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "كُلُّ خُطْبَةٍ لَيْسَ فِيهَا تَشَهُّدٌ فَهِيَ كَالْيَدِ الْجَذْمَائِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: د/الأدب ۲۲ (۴۸۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۷)، حم (۲/۳۴۳) (صحیح)
۱۱۰۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ایسے سبھی خطبے جس میں تشہد نہ ہو اس ہاتھ کی طرح ہیں جس میں کوڑھ ہو''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18- بَاب مَا جَاءَ فِي اسْتِئْمَارِ الْبِكْرِ وَالثَّيِّبِ
۱۸-باب: کنواری اور ثیبہ (شوہردیدہ) سے اجازت لینے کا بیان​


1107- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ تُنْكَحُ الثَّيِّبُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ. وَلاَ تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ. وَإِذْنُهَا الصُّمُوتُ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ، وَالْعُرْسِ بْنِ عَمِيرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الثَّيِّبَ لاَ تُزَوَّجُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ. وَإِنْ زَوَّجَهَا الأَبُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَسْتَأْمِرَهَا، فَكَرِهَتْ ذَلِكَ، فَالنِّكَاحُ مَفْسُوخٌ عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي تَزْوِيجِ الأَبْكَارِ إِذَا زَوَّجَهُنَّ الآبَائُ. فَرَأَى أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ الأَبَ إِذَا زَوَّجَ الْبِكْرَ وَهِيَ بَالِغَةٌ، بِغَيْرِ أَمْرِهَا، فَلَمْ تَرْضَ بِتَزْوِيجِ الأَبِ، فَالنِّكَاحُ مَفْسُوخٌ. وَ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ: تَزْوِيجُ الأَبِ عَلَى الْبِكْرِ جَائِز. وَإِنْ كَرِهَتْ ذَلِكَ. وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ ابْنِ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: م/النکاح ۹ (۱۴۱۹)، ق/النکاح ۱۱ (۱۸۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۸۴)، دي/النکاح ۱۳ (۲۲۳۲) (صحیح)
۱۱۰۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ثیبہ (شوہردیدہ عورت خواہ بیوہ ہو یا مطلقہ) کانکاح نہ کیاجائے جب تک کہ اس کی رضامندی ۱؎ حاصل نہ کرلی جائے، اور کنواری ۲؎ عورت کانکاح نہ کیاجائے جب تک کہ اس کی اجازت نہ لے لی جائے اور اس کی اجازت خاموشی ہے '' ۳؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمر، ابن عباس، عائشہ اورعرس بن عمیرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ،۳- اہل علم کااسی پرعمل ہے کہ ثیّبہ( شوہر دیدہ) کانکاح اس کی رضامندی حاصل کیے بغیر نہیں کیا جائے گا۔ اگر اس کے باپ نے اس کی شادی اس کی رضامندی کے بغیر کردی اور اسے وہ ناپسند ہوتو تمام اہل علم کے نزدیک وہ نکاح منسوخ ہوجائے گا،۴- کنواری لڑکیوں کے باپ ان کی شادی ان کی اجازت کے بغیر کردیں تواہل علم کااختلاف ہے۔ کوفہ وغیرہ کے اکثر اہل علم کا خیال ہے کہ باپ اگر کنواری لڑکی کی شادی اس کی اجازت کے بغیرکردے اور وہ بالغ ہو اور پھروہ اپنے والد کی شادی پر راضی نہ ہو تو نکاح منسوخ ہوجائے گا ۴؎ ، ۵- اور بعض اہل مدینہ کہتے ہیں کہ کنواری کی شادی اگر باپ نے کردی ہوتو درست ہے گووہ اسے ناپسندہو، یہ مالک بن انس ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ۵؎ ۔
وضاحت ۱؎ : رضامندی کا مطلب اذن صریح ہے۔
وضاحت ۲؎ : کنواری سے مرادبالغہ کنواری ہے۔
وضاحت ۳؎ : اس میں اذن صریح کی ضرورت نہیں خاموشی کافی ہے کیونکہ کنواری بہت شرمیلی ہوتی ہے، عام طور سے وہ اس طرح کی چیزوں میں بولتی نہیں خاموش ہی رہتی ہے ۔
وضاحت ۴؎ : ان لوگوں کی دلیل ابن عباس کی روایت '' أن جارية بكراً أتت النبي ﷺ فذكرت أن أباها زوجها وهي كارهة فخيرها النبي ﷺ''ہے۔
وضاحت ۵؎ : ان لوگوں نے ابن عباس کی حدیث جوآگے آرہی ہے ''الایم احق بنفسہامن ولیہا''کے مفہوم مخالف سے استدلال کیا ہے، اس حدیث کا مفہوم مخالف یہ ہوا کہ باکرہ (کنواری)کا ولی اس کے نفس کا اس سے زیادہ استحقاق رکھتاہے۔


1108- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "الأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِهَا، وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا".
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. رَوَاهُ شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ. وَقَدِ احْتَجَّ بَعْضُ النَّاسِ فِي إِجَازَةِ النِّكَاحِ بِغَيْرِ وَلِيٍّ، بِهَذَا الْحَدِيثِ. وَلَيْسَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَا احْتَجُّوا بِهِ. لأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ "لاَنِكَاحَ إِلاَّ بِوَلِيٍّ" وَهَكَذَا أَفْتَى بِهِ ابْنُ عَبَّاسٍ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: "لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِوَلِيٍّ" وَإِنَّمَا مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ "الأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا" عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْوَلِيَّ لاَيُزَوِّجُهَا إِلاَّ بِرِضَاهَا وَأَمْرِهَا. فَإِنْ زَوَّجَهَا، فَالنِّكَاحُ مَفْسُوخٌ عَلَى حَدِيثِ خَنْسَائَ بِنْتِ خِدَامٍ. حَيْثُ زَوَّجَهَا أَبُوهَا وَهِيَ ثَيِّبٌ، فَكَرِهَتْ ذَلِكَ، فَرَدَّ النَّبِيُّ ﷺ نِكَاحَهُ.
* تخريج: م/النکاح ۹ (۱۴۲۱)، د/النکاح ۲۶ (۲۰۹۸، ۲۱۰۰)، ن/النکاح ۳۱ (۳۲۶۲، ۳۲۶۵)، و۳۲ (۳۲۶۶)، ق/النکاح ۱۱ (۱۸۷۰)، ط/النکاح ۲ (۴)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۱۷)، حم (۱/۲۱۹، ۲۴۳، ۲۷۴، ۲۵۴، ۳۵۵، ۳۶۲)، دي/النکاح ۱۳ (۲۲۳۴) (صحیح)
۱۱۰۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : ثیبہ( شوہر دیدہ) عورت اپنے آپ پراپنے ولی سے زیادہ استحقاق رکھتی ہے۱؎ اور کنواری سے بھی اجازت طلب کی جائے گی اور اس کی جازت اس کی خاموشی ہے ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شعبہ اور ثوری نے اسے مالک بن انس سے روایت کیا ہے، ۳-بعض لوگوں نے بغیر ولی کے نکاح کے جوازپر اسی حدیث سے دلیل لی ہے۔حالاں کہ اس حدیث میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو اس کی دلیل بنے۔ اس لیے کہ ابن عباس سے کئی اور طرق سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: '' ولی کے بغیر نکاح درست نہیں'' ۔ نبی اکرمﷺ کے بعد ابن عباس نے بھی یہی فتویٰ دیا کہ ولی کے بغیر نکاح درست نہیں، ۴- اور ''الأيم أحق بنفسها من وليها'' کا مطلب اکثر اہل علم کے نزدیک یہ ہے کہ ولی ثیبہ کا نکاح اس کی رضامندی اور اس سے مشورہ کے بغیر نہ کرے۔ اگر اس نے ایسا کیا تو خنساء بنت خدام کی حدیث کی روسے نکاح فسح ہوجائے گا۔ ان کے والد نے ان کی شادی کردی، اوروہ شوہر دیدہ عورتتھیں، انہیں یہ شادی ناپسند ہوئی تو نبی اکرمﷺ نے ان کے نکاح کو فسخ کر دیا۔
وضاحت ۱؎ : لفظ '' أحق'' مشارکت کا متقاضی ہے، گویا غیرکنواری عورت اپنے نکاح کے سلسلہ میں جس طرح حقدارہے اسی طرح اس کا ولی بھی حقدارہے یہ اوربات ہے کہ ولی کی نسبت اسے زیادہ حق حاصل ہے کیونکہ ولی کی وجہ سے اس پر جبرنہیں کیا جاسکتاجب کہ خوداس کی وجہ سے ولی پر جبرکیا جاسکتا ہے، چنانچہ ولی اگرشادی سے ناخوش ہے اور اس کا منکرہے تو بواسطہ قاضی (حاکم) اس کا نکاح ہوگا، اس توضیح سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ حدیث ''لانكاح إلا بولي'' کے منافی نہیں ہے۔
وضاحت ۲؎ : اوراگرمنظورنہ ہوتوکھل کربتادینا چاہئے کہ مجھے یہ رشتہ پسندنہیں ہے تاکہ والدین اس کے لیے دوسرا رشتہ منتخب کریں یا اسے مطمئن کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19- بَاب مَا جَاءَ فِي إِكْرَاهِ الْيَتِيمَةِ عَلَى التَّزْوِيجِ
۱۹-باب: یتیم لڑکی کو شادی کرنے پر مجبور کرنے کی ممانعت​


1109- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْيَتِيمَةُ تُسْتَأْمَرُ فِي نَفْسِهَا، فَإِنْ صَمَتَتْ فَهُوَ إِذْنُهَا، وَإِنْ أَبَتْ فَلاَ جَوَازَ عَلَيْهَا"، يَعْنِي إِذَا أَدْرَكَتْ فَرَدَّتْ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَى وَابْنِ عُمَرَ وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي تَزْوِيجِ الْيَتِيمَةِ. فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْيَتِيمَةَ إِذَا زُوِّجَتْ فَالنِّكَاحُ مَوْقُوفٌ حَتَّى تَبْلُغَ. فَإِذَا بَلَغَتْ فَلَهَا الْخِيَارُ فِي إِجَازَةِ النِّكَاحِ أَوْ فَسْخِهِ. وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ. وَ قَالَ بَعْضُهُمْ: لاَ يَجُوزُ نِكَاحُ الْيَتِيمَةِ حَتَّى تَبْلُغَ. وَلاَ يَجُوزُ الْخِيَارُ فِي النِّكَاحِ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَقَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ: إِذَا بَلَغَتِ الْيَتِيمَةُ تِسْعَ سَنِينَ فَزُوِّجَتْ، فَرَضِيَتْ، فَالنِّكَاحُ جَائِزٌ. وَلاَ خِيَارَ لَهَا إِذَا أَدْرَكَتْ. وَاحْتَجَّا بِحَدِيثِ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَنَى بِهَا وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ. وَقَدْ قَالَتْ عَائِشَةُ إِذَا بَلَغَتِ الْجَارِيَةُ تِسْعَ سِنِينَ، فَهِيَ امْرَأَةٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۴۵) (حسن صحیح)
وأخرجہ کل من : د/النکاح ۲۴ (۲۰۹۳)، ن/النکاح ۳۶ (۳۲۷۰)، حم (۲/۲۵۹، ۴۷۵) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۱۰۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' یتیم لڑکی سے اس کی رضامندی حاصل کی جائے گی، اگر وہ خاموش رہی تو یہی اس کی رضامندی ہے ، اور اگراس نے انکار کیا تو اس پر( زبردستی کرنے کا)کوئی جواز نہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں ابوموسیٰ ، ابن عمر،اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- یتیم لڑکی کی شادی کے سلسلے میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے: یتیم لڑکی کی جب شادی کردی جائے تو نکاح موقوف رہے گا۔یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے۔ جب وہ بالغ ہوجائے گی ، تو اسے نکاح کو باقی رکھنے یا اسے فسخ کردینے کا اختیارہوگا۔ یہی بعض تابعین اوردیگرعلماء کابھی قول ہے، ۴- اوربعض کہتے ہیں: یتیم لڑکی کانکاح جب تک وہ بالغ نہ ہوجائے ، درست نہیں اور نکاح میں خیارجائزنہیں، اوراہل علم میں سے سفیان ثوری ، شافعی وغیرہم کایہی قول ہے،۵- احمداور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ جب یتیم لڑکی نوسال کی ہوجائے اور اس کانکاح کردیاجائے، اور وہ اس پر راضی ہوتونکاح درست ہے اور بالغ ہونے کے بعد اسے اختیارنہیں ہوگا۔ان دونوں نے عائشہ کی اس حدیث سے دلیل لی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے جب ان کے ساتھ شب زفاف منائی، تووہ نوبرس کی تھیں۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کاقول ہے کہ لڑکی جب نوبرس کی ہوجائے تو وہ عورت ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی بالغ ہونے کے بعدانکارکرنے پر۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوَلِيَّيْنِ يُزَوِّجَانِ
۲۰-باب: کسی لڑکی کی اگر دو ولی (الگ الگ جگہ)شادی کردیں توکیاحکم ہے؟​


1110- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "أَيُّمَا امْرَأَةٍ زَوَّجَهَا وَلِيَّانِ، فَهِيَ لِلأَوَّلِ مِنْهُمَا. وَمَنْ بَاعَ بَيْعًا مِنْ رَجُلَيْنِ فَهُوَ لِلأَوَّلِ مِنْهُمَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لاَ نَعْلَمُ بَيْنَهُمْ فِي ذَلِكَ اخْتِلاَفًا. إِذَا زَوَّجَ أَحَدُ الْوَلِيَّيْنِ قَبْلَ الآخَرِ فَنِكَاحُ الأَوَّلِ جَائِزٌ. وَنِكَاحُ الآخَرِ مَفْسُوخٌ. وَإِذَا زَوَّجَا جَمِيعًا، فَنِكَاحُهُمَا جَمِيعًا مَفْسُوخٌ. وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: د/النکاح ۲۲ (۲۰۸۸)، ن/البیوع ۹۶ (۴۶۸۶)، ق/التجارات ۲۱ (۲۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۲)، حم (۵/۸،۱۱)، دي/النکاح ۱۵ (۲۲۳۹) (ضعیف)
(حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز حسن کے سمرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث عقیقہ کے علاوہ دیگر احادیث کے سماع میں اختلاف ہے، مگر دیگر نصوص سے مسئلہ ثابت ہے)
۱۱۱۰- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس عورت کی شادی دو ولی الگ الگ جگہ کردیں تو وہ ان میں سے پہلے کے لیے ہوگی،اورجو شخص کوئی چیز دوآدمیوں سے بیچ دے تو وہ بھی ان میں سے پہلے کی ہوگی''۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں علماء کے درمیان کسی اختلاف کاعلم نہیں ہے۔ دو ولی میں سے ایک ولی جب دوسرے سے پہلے شادی کردے تو پہلے کانکاح جائز ہوگا ، اور دوسرے کا نکاح فسخ قراردیاجائے گا، اور جب دونوں نے ایک ساتھ نکاح (دوالگ الگ شخصوں سے) کیا ہوتو دونوں کانکاح فسخ ہوجائے گا۔ یہی ثوری ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21-بَاب مَا جَاءَ فِي نِكَاحِ الْعَبْدِ بِغَيْرِ إِذْنِ سَيِّدِهِ
۲۱-باب: مالک کی اجازت کے بغیر غلام کے نکاح کرلینے کا بیان​


1111- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "أَيُّمَا عَبْدٍ تَزَوَّجَ بِغَيْرِ إِذْنِ سَيِّدِهِ فَهُوَ عَاهِرٌ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَلاَ يَصِحُّ. وَالصَّحِيحُ عَنْ عَبْدِ اللهِ ابْنِ مُحَمَّدِ ابْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ نِكَاحَ الْعَبْدِ بِغَيْرِ إِذْنِ سَيِّدِهِ لاَ يَجُوزُ. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ وَغَيْرِهِمَا بِلاَ اخْتِلاَفٍ.
* تخريج: د/النکاح ۱۷ (۲۰۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۲۶)، حم (۳/۳۰۱،۳۷۷،۳۸۲)، دي/النکاح ۴۰ (۲۲۷۹) (حسن)
۱۱۱۱- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جو غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر شادی کرلے، وہ زانی ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- جابر کی حدیث حسن ہے،۲- بعض نے اس حدیث کو بسند عبداللہ بن محمد بن عقیل عن عبداللہ بن عمرعن النبی ﷺ روایت کیا ہے، اور یہ صحیح نہیں ہے ،صحیح یہ ہے کہ عبداللہ بن محمد بن عقیل نے جابر سے روایت کی ہے،۳- اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی حدیث آئی ہے،۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ مالک کی اجازت کے بغیر غلام کانکاح کرناجائز نہیں۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ کابھی قول ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں۔


1112- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأُمَوِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ ابْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "أَيُّمَا عَبْدٍ تَزَوَّجَ بِغَيْرِ إِذْنِ سَيِّدِهِ، فَهُوَ عَاهِرٌ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (حسن)
۱۱۱۲- اس سند سے بھی جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جس غلام نے اپنے آقا کی اجازت کے بغیر شادی کی وہ زانی ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
22- بَاب مَا جَاءَ فِي مُهُورِ النِّسَاءِ
۲۲-باب: عورتوں کی مہر کا بیان​


1113- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَمُحَمَّدُ ابْنُ جَعْفَرٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِاللهِ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَاللهِ بْنَ عَامِرِ ابْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ بَنِي فَزَارَةَ تَزَوَّجَتْ عَلَى نَعْلَيْنِ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَرَضِيتِ مِنْ نَفْسِكِ وَمَالِكِ بِنَعْلَيْنِ؟" قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَجَازَهُ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأَنَسٍ، وَعَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي حَدْرَدٍ الأَسْلَمِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْمَهْرِ. فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: الْمَهْرُ عَلَى مَا تَرَاضَوْا عَلَيْهِ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. و قَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: لاَ يَكُونُ الْمَهْرُ أَقَلَّ مِنْ رُبْعِ دِينَارٍ. وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْكُوفَةِ: لاَ يَكُونُ الْمَهْرُ أَقَلَّ مِنْ عَشَرَةِ دَرَاهِمَ.
* تخريج: ق/النکاح ۱۷ (۱۸۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ؟؟)، حم (۳/۴۴۵) (ضعیف)
(سند میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف ہیں)
۱۱۱۳- عامربن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی فزارہ کی ایک عورت نے دو جوتی مہر پر نکاح کر لیا،تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: کیاتو اپنی جان ومال سے دوجوتی مہر پر راضی ہے؟ اس نے عرض کیا:جی ہاں راضی ہوں۔وہ کہتے ہیں:تو آپ نے اس نکاح کودرست قراردے دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمر، ابوہریرہ، سہل بن سعد، ابوسعیدخدری ، انس ، عائشہ ، جابر اور ابوحدرد اسلمی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا مہر کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں: مہر اس قدر ہو کہ جس پرمیاں بیوی راضی ہوں۔ یہ سفیان ثوری ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،۴- مالک بن انس کہتے ہیں: مہر ایک چوتھائی دینار سے کم نہیں ہونا چاہئے،۵- بعض اہل کوفہ کہتے ہیں: مہر دس درہم سے کم نہیں ہونا چاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
23- بَاب مِنْهُ
۲۳-باب: مہر سے متعلق ایک اور باب​


1114- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى وَعَبْدُاللهِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ، قَالاَ: أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: إِنِّي وَهَبْتُ نَفْسِي لَكَ. فَقَامَتْ طَوِيلاً. فَقَالَ رَجُلٌ: يَارَسُولَ اللهِ! فَزَوِّجْنِيهَا إِنْ لَمْ تَكُنْ لَكَ بِهَا حَاجَةٌ. فَقَالَ: "هَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَيْئٍ تُصْدِقُهَا؟" فَقَالَ: مَا عِنْدِي إِلاَّ إِزَارِي هَذَا. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِزَارُكَ، إِنْ أَعْطَيْتَهَا جَلَسْتَ وَلاَ إِزَارَ لَكَ. فَالْتَمِسْ شَيْئًا". قَالَ: مَا أَجِدُ. قَالَ: "فَالْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ". قَالَ: فَالْتَمَسَ فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "هَلْ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْئٌ؟" قَالَ: نَعَمْ، سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا. لِسُوَرٍ سَمَّاهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "زَوَّجْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ ذَهَبَ الشَّافِعِيُّ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَيْئٌ يُصْدِقُهَا، فَتَزَوَّجَهَا عَلَى سُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ، فَالنِّكَاحُ جَائِزٌ، وَيُعَلِّمُهَا سُورَةً مِنَ الْقُرْآنِ. وَ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: النِّكَاحُ جَائِزٌ، وَيَجْعَلُ لَهَا صَدَاقَ مِثْلِهَا. وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: خ/الوکالۃ ۹ (۲۳۱۰)، والنکاح ۴۰ (۵۱۳۵)، والتوحید ۲۱ (۷۴۱۷)، د/النکاح ۳۱ (۲۱۱۱)، ن/النکاح ۶۹ (۳۳۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۴۷۴۲)، ط/النکاح ۳ (۸)، حم (۵/۳۳۶) (صحیح)
وأخرجہ کل من : خ/فضائل القرآن ۲۱ (۵۰۲۹)، والنکاح ۱۴ (۵۰۸۷)، و۳۲ (۵۱۲۱)، و۳۵ (۵۱۲۶)، و۳۷ (۵۱۳۲)، و۴۴ (۵۱۴۱)، و۵۰ (۵۱۴۹)، و۵۱ (۵۱۵۰)،واللباس ۴۹ (۵۸۷۱)، م/النکاح ۱۳ (۱۴۲۵)، ن/النکاح ۱ (۳۲۰۲)، و۴۱ (۳۲۸۲)، و۶۲ (۳۳۴۱)، ق/النکاح ۱۷ (۱۸۸۹)، دي/النکاح ۱۹ (۲۲۴۷)، من غیر ہذا الوجہ۔
۱۱۱۴- سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت نے آکر عرض کیاکہ میں نے اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کردیا۔ پھروہ کافی دیرکھڑی رہی (اورآپ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا) تو ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! اگر آپ کو اس کی حاجت نہ ہو تواس سے میرانکاح کردیجئے ۔آپ نے فرمایا:'' کیا تمہارے پاس مہرادا کرنے کے لیے کوئی چیز ہے؟ اس نے عرض کیا: میرے پاس میرے اس تہبندکے سوا کچھ نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اگر تم اپنا تہبند اسے دے دو گے تو تو بغیر تہبندکے رہ جاؤ گے۔ تو تم کوئی اورچیز تلاش کرو، اس نے عرض کیا: میں کوئی چیز نہیں پارہا ہوں۔ آپ نے (پھر)فرمایا:'' تم تلاش کرو، بھلے لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔ اس نے تلاش کیا لیکن اسے کوئی چیز نہیں ملی۔تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کیا تمہیں کچھ قرآن یاد ہے؟ اس نے کہا: ہاں، فلاں ، فلاں سورہ یادہے اور اس نے چند سورتوں کے نام لیے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں نے تمہاری شادی اس عورت سے ان سورتوں کے بدلے کردی جوتمہیں یادہے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شافعی اسی حدیث کی طرف گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس کے پاس مہرادا کرنے کے لیے کوئی چیز نہ ہو اور وہ قرآن کی کسی سورہ کو مہر بناکر کسی عورت سے نکاح کرے تو نکاح درست ہے اور وہ اسے قرآن کی وہ سورۃ سکھائے گا،۳- بعض اہل علم کہتے ہیں:نکاح جائز ہوگا لیکن اسے مہر مثل ادا کرنا ہوگا۔ یہ اہل کوفہ ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔


1114/م- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي الْعَجْفَائِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: أَلاَ لاَ تُغَالُوا صَدُقَةَ النِّسَاءِ. فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا أَوْ تَقْوَى عِنْدَاللهِ، لَكَانَ أَوْلاَكُمْ بِهَا نَبِيُّ اللهِ ﷺ. مَا عَلِمْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ نَكَحَ شَيْئًا مِنْ نِسَائِهِ، وَلاَ أَنْكَحَ شَيْئًا مِنْ بَنَاتِهِ، عَلَى أَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو الْعَجْفَائِ السُّلَمِيُّ اسْمُهُ هَرِمٌ. وَالأُوقِيَّةُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَرْبَعُونَ دِرْهَمًا. وَثِنْتَا عَشْرَةَ أُوقِيَّةً أَرْبَعُ مِائَةٍ وَثَمَانُونَ دِرْهَمًا.
* تخريج: د/النکاح ۲۹ (۲۱۰۶)، ن/النکاح ۶۶ (۳۳۵۱)، ق/النکاح ۱۷ (۱۸۸۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۵۵)، حم (۱/۴۱، ۴۸)، دي/النکاح ۱۸ (۲۲۴۶) (صحیح)
۱۱۱۴/م- ابوالعجفاء سلمی کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: سنو! عورتوں کے مہر زیادہ نہ بڑھاؤ۔ اگر دنیا میں یہ کوئی عزت کی چیز ہوتی یا اللہ کے نزدیک تقویٰ کی بات ہوتی تو نبی اکرمﷺ اس کے سب سے زیادہ مستحق ہوتے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی کسی بیوی سے نکاح کیا ہو یا اپنی کسی بیٹی کا نکاح کیا ہو اور اس میں مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ رہاہو۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوالعجفاء سلمی کانام ہرم ہے، ۳- اہل علم کے نزدیک ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اس طرح بارہ اوقیہ کے چار سو اسی درہم ہوے۔
 
Top